Poetry

  • زرداری کی مجلس شوری
    زرداری
    کل تک تھا ذلیل وخوار
    جمہوریت کی بدولت ہوا زردار
    ابلیسی سیاست کا ہے چمتکار
    غریب شہر کا ہوں مختار
    کہتے ہیں مجھ کو بھٹو کے افکار
    ہر شے پر مقدم رکھو اقتدار
    جب تم اقتدار پانا چاہو
    قوم کو آپس میں لڑواؤ
    بے شک ملک کو دولخت کرواؤ
    ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگاؤ
    بی بی نے سکھایا مجھ کو یہ راز
    مفاہمت سے ہی رہوگے اقتدار ساز
    اگر حکومت جانے کا خطرہ پاؤ
    ''جمہوریت کوخطرہ '' ہونے کا نعرہ لگاؤ
    سیاسی جماعتوں کو بھی حصہ دار بنادو
     کچھ کو پیسہ دوکچھ کووزیربنادو
    سر اٹھائیں اگر یہ مولوی بھی
    تو ان کو ڈیزل کے ٹھیکے دلوادو
    خودکشی جب غریب کرنے لگیں
    روٹی ،کپڑا، مکان کا نعرہ لگادو
    عوام کو میسر ہو نہ ہو روٹی
    گھوڑوں کو سیب کے مربے کھلادو
    نہیں لگ سکتا میرے اثاثوں کو گہن
    لیا ہے میں نے اربوں ڈالر کمیشن
    کون کر سکتا ہے میری حکومت سرنگوں
    جمہوریت کی رگوں میں ہے ابلیس کا سوزو دروں
    (پہلا مشیر گیلانی)
    کتنی عظیم ہے تیری فراست
    تیرے زیر پاہے یہ ریاست
    کیا خوب قوم کو الجھایا
    مفاہمت کے بہانے مشرف کو بھگوایا
    اقتدار کو پانے کی خاطر تونے
    ''پاکستان کھپے ''کا نعرہ لگایا
    اسے بھلادیا قوم نے جس نے کھایا بنگال
    تو ہم کیوں رکھیں فکر زوال
    غریب کو دیا خوشحالی کاوعدہ فرداں
    وہ خودجمہوریت کا رکھیں گے خیال
    روٹی کپڑا مکان کی تال
    بورژوا کی بنی ہے چال
    (دوسرا مشیر)بابر اعوان سوچتے ہوئے
    اگرکسی نے لگائی صدائے انقلاب
    نہ رہے گی پھر محفل شراب وناب
    ختم ہوجائے گا ہمارا اقتدار
    ہم نہ لاسکیں گے اس وقت کی تاب
    (تیسرا مشیر) رحمان ملک(بابر اعوان کو)
    رہے گا ہمارا ہی اقتدار
    ہے مزدور لاچار ، کسان بیمار
    طاقت کا سرچشمہ تھا جو
    سب کا سب پڑا ہے بیکار
    بتاؤں میں تجھ کو آج یہ راز
    نہیں اس شہباز میں طاقت پرواز
    شاہین کا جہاں بھی وہی
    کرگس کا جہاں بھی وہی
    ملا کی اذاں بھی وہی
    مجاہد کی اذاں بھی وہی
    کیونکر بدل سکتا ہے نظام
    راضی ہیں غلامی پر عوام
    فاقوں سے اکتاکر خودکشی کرلیں
    نہیں ہے سرکشی ان کا کام
    (دوسرا مشیر)بابر اعوان
    خطرہ بنی ہے آج عدالت
    اگرچہ خرید چکا ہوں وکالت
    بارکونسلوں کو روپیہ دینا
    بنا تھا میرے لئے کارذلالت
    جانے کیوں آج جج بپھرا ہے
    اس سے ''جمہوریت '' کو خطرہ ہے
    (چوتھا مشیر سلمان تاثیر)
    عدالت کا یہاں کیا قصہ
    وہ بھی ہے ریاست کا حصہ
    تمام عدالتیں زندہ آباد
    سرمائے کی پوجا سے آباد
    صغری ، کبری ، عالیہ ، عظمیٰ
    قوم کو کرتی ہیں برباد
    ملک و قوم کو لوٹ کھاؤ
    جئے بھٹو کا نعرہ لگاؤ
    زرداری اپنے مشیروں سے
    مرے دست تصرف میں ہے ملک کا نظام
    خیر اسی میں ہیکہ پستی میں رہے  عوام
    اللہ نے دیا ہے مجھ کو تاج و اقتدار
    مقدربن گیا ہے قوم کا  رہے غلام
    نہ رہی باقی قوممیں کوئی آرزو
    اب کس کو کر سکتی ہے دیوانہ ایک ہُو
    پھرتے ہیں مارے مارے مفلس عوام
    خانہ بہ خانہ، در بہ در،کوچہ بہ کوچہ ،کو بہ کو

     


  •  


  •  

  • عریانی وجود

  • شاعر:ڈاکٹر منیب احمد ساحل

    عمر کے سارے رم جھم موسم

    فطرت کے دستور پر قائم

    ان دیکھے ہی گزر جاتے ہیں

    خوابوں کی یلغار پر آنکھیں

    خوابوں کی خوراک

    تعبیروں کی محرومی کی لے پر رقصاں

    دل کی زندہ خاک

    عشق سے پہلے عشق کا منظر

    جرم سے پہلے قید

    آج سے پہلے کل کی وحشت

    دن سے پہلے شام

    شام سے پہلے ظلمت شب ہے

    رخش عمر کی صورت

    ہم بھی کتنے عجیب ہیں لوگوں

    جیون ملنے سے پہلے ہی جی اٹھتے ہیں

    اور موت آنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں

 

 

شکوہ

شاعر:ڈاکٹر منیب احمد ساحل

  • اے خدا دیکھ میرا وطن
    جل رہا ہے گھر کا چمن
    آزاد ہیں بھوک کے اژدھے
    مفلسی اور قہقہے
    کیا یہی تھا میرا جہاں؟
    اٹھ رہا ہے حسرتوں کا دھواں
    بحرانوں،خودکشیوں کا نگر
    زمین بے خبر ،آسماں بے ثمر
    زیست گم ،درد بے دوا
    نالہ نارسا، آہ بے اثر
    نو جوان گم گشتہ راہرو
    نیلام غریب کی آبرو
    درد و غم دل کی محرومیاں
    ہے مفلسی میں گم آرزو
    نہ کوئی مظالم پر بھی آتش زیر پا
    خود غرضی ہے حلقہ لب زنجیر کا
    اے میرے خدا!یہ تو ہی بتا
    کب ہو گا ختم یہ ماجرا؟
    کیو ں لوٹتی ہے در ایجاب سے صدا؟
    کیا تو ہمارا بھی ہے خدا؟

This website was built using N.nu - try it yourself for free.(info & kontakt)