عظیم انسان
کرہ
ارض پرا یک عظیم ہستی ہے۔
اس
کے ہاتھ ایسے ہیں کہ وہ آسانی سے انجن اٹھا لیتے ہیں۔
اس
کے پیر ایسے ہیں کہ وہ ہزاروں میل کا راستہ ایک دن میں طے کر لیتے ہیں۔
اس
کے پر ایسے ہیں کہ وہ اس کو بادلوں کے اوپر لے جاتے ہیں جہاں پرندہ پر
نہیں مار سکتا۔
اس
کے پیراک پر ایسے ہیں کہ وہ زیر آب کسی مچھلی سے بہتر کام دیتے ہیں۔
اس
کی آنکھیں ایسی ہیں کہ غائب چیز کو دیکھ سکتی ہیں اور کان ایسے ہیں کہ
دنیا کے دوسرے سرے کی بات سن سکتے ہیں
یہ
ہستی اتنی طاقتور ہے کہ پہاڑوں کے اندر سرنگیں بناتی ہے اور آبشاروں کو
ہوا میں معلق کر دیتی ہے۔
وہ
اپنی مرضی کے مطابق دنیا کے خدوخال بدل رہی ہے، جنگل لگا رہی ہے، سمندروں
کو ایک دوسرے سے ملا رہی ہے، ریگستانوں کو سیراب کر رہی ہے۔
یہ عظیم ہستی کون ہے؟
لیکن
وہ عظیم کیسے بن گیا، کرہ ارض کا مالک کیسے بنا؟
اس
کتاب میں ہم یہی بتانا چاہتے ہیں۔
پہلا باب
نظرنہ آنے والا پنجرا
ایک
زمانہ تھا جب انسان عظیم نہیں بلکہ حقیر تھا، قدرت کا مالک نہیں، اس کا
فرماں بردار غلام۔
قدرت
پر اس کا زور اتنا ہی کم تھا اور اس کی آزادی اتنی ہی محدود تھی جتنی
جنگلی جانور یا پرندے کی ہوتی ہے۔
کہاوت
تویہ ہے کہ ”چڑیا کی طرح آزاد”۔
لیکن
کیا چڑیا واقعی آزاد ہوتی ہے؟
یہ
سچ ہے کہ اس کے پر ہوتے ہیں اور وہ کہیں بھی جا سکتی ہے، جنگلوں،پہاڑوں
اور سمندروں کے اوپر۔ جب خزاں میں سارس جنوب کی طرف اڑکر جاتے ہیں تو ہمیں
بڑا رشک آتا ہے۔ اوپر آسمان میں وہ باقاعدہ ڈار بنا کر اڑتے ہیں اور نیچے
کھڑے لوگ اپنے سر اٹھا اٹھا کر اوپر دیکھتے ہیں اور حیرت سے کہتے ہیں ”
چڑیوں کو دیکھو! وہ ہر جگہ اڑکر جاسکتی ہیں!”
لیکن
کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا چڑیاں ہزاروں میل اسی لئے اڑتی ہیں کہ ان کو سفر
پسند ہے؟ نہیں، وہ خوشی سے نہیں بلکہ مجبوراً ایسا کرتی ہیں۔ ان کی منتقل
ہونے کی عادتیں بے شمار نسلوں اور ہزاروں سال کی مدت میں زندگی کی جدوجہد
نے پیدا کی ہیں۔
چونکہ
ہر چڑیا ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑکر جا سکتی ہے اس لئے یہ سوال بجا طو رپر
پیدا ہوتا ہے کہ ہر قسم کی چڑیاں دنیا کے ہر حصے میںکیوں نہیں پائی جاتیں۔
اگر
ایسا ہوتا تو ہمارے صنوبر کے شمالی جنگل اور سفیدے کی گپھائیں شوخ رنگ
طوطوں اورلوئوں سے بھری پڑی ہوتیں۔ جنگل سے گذرتے ہوئے ہم اپنے سر کے اوپر
میدانی چکاوک کی جانی پہچانی چہچہاہٹ سنتے۔ لیکن نہ تو ایسا ہے اورنہ کبھی
ہو سکتا ہے کیونکہ چڑیاں اتنی آزاد تونہیں جتنی وہ معلوم ہوتی ہیں۔ دنیا
میں ہر چڑیا کا اپنا مقام ہے ۔ ایک جنگل میںر ہتی ہے تو دوسری کھلے میدان
میں اور تیسری ساحل سمندر پر۔
ذرا
سوچو تو عقاب کے پروں میں کتنی قوت ہوتی ہے! لیکن وہ اپنی حد سے باہر نکل
کر کبھی گھونسلا نہیں بنائے گا۔ سنہرا عقاب اپنا بڑا سا گھونسلا کھلے اور
بے درخت میدانوں میں نہیں بناتا اور میدانی عقاب کبھی جنگل میں گھونسلا
نہیں بناتا۔
ایسا
معلوم ہوتا ہے جیسے جنگل استیپ کے میدانوں سے ایسی نظر نہ آنے والی دیوار
کے ذریعہ علحدہ کیا گیا ہے جس کے اندر سے ہرجانور اور ہر چڑیا نہیں گذر
سکتی۔
تم
کو جنگل کے سچے باسی مثلاً بٹیر، جنگلی مرغی اور گلہری کبھی میدانوںمیں
نہیں ملیں گے اور میدانوں کے جانور جیسے تغدار اور پھدکنے والا چوا وغیرہ
جنگل میں نہیں دکھائی دیں گے۔
اس
کے علاوہ ہر جنگل اور ہر میدان میں بہت سی نظر نہ آنے والی دیواریں ہوتی
ہیں جو اس کو چھوٹی چھوٹی دنیائوں میں بانٹ دیتی ہیں۔
جنگل کی سیر
جنگل
میں گھومتے وقت تم نظر نہ آنے والی دیواروں کو پار کرتے رہتے ہو اور جب تم
درخت پر چڑھتے ہو تو تمہارا سر نظر نہ آنے والی چھتوں کو پار کرتا رہتا
ہے۔ ایک بڑے مکان کی طرح پورا جنگل منزلوں اور فلیٹوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ان
سب کا وجود واقعی ہے چاہے وہ تمہیں نظر نہ آئیں۔ پھر بھی یہ سچ ہے کہ جنگل
میں گھومتے وقت تم دیکھتے ہو کہ وہ بدلتا رہتا ہے۔
مثلاً
تم دیکھو گے کہ اچانک چیڑ کے درختوں کی جگہ صنوبر کے پیٹر آگئے اور بعض
جگہ صنوبر دوسری جگہوں کے مقابلے میں زیادہ لمبے ہیں۔ یہاں تم سبز کائی کے
قالین پر چل رہے ہو اور وہاں زمین گھاس یا سفید کائی سے ڈھکی ہوئی ہے۔
شہر
والے کے لئے یہ سب جنگل ہے لیکن اگر جنگلات کے کسی ماہر سے پوچھا جائے تو
ہو کہے گا کہ یہاں ایک نہیں چار جنگل ہیں۔ مثلاً تم نشیب میں چیڑ کے درختوں
کی گپھا دیکھو گے جہاں فرش پر کائی کا انتہائی دبیز قالین ہے۔ اس کے آگے
ریتیلی ڈھلان پر گہرے ماشی رنگ کی کائی کے درمیان صوبرکے پیٹر ہیںجن کے
چاروں طرف لال نیلی گوندنیوں کی جھاڑیاں ہر جگہ نظر آئے گی۔ اور اوپر
ریتیلی پہاڑیوں پر سفید مائل ماشی رنگ کی کائی کے درمیان صنوبروں کا جھنڈ
ہو گا اور آگے نم جگہ میں گھاس سے ڈھکا ہوا صنوبروں کا قطعہ ملے گا۔
دیکھو،
تم تین دیواروں کے بیچ سے گذر گئے جو جنگل کی چار دنیائوں کو ایک دوسرے سے
علحدہ کرتی ہیں لیکن تم نے اس طرف دھیان بھی نہ دیا۔
اگر
گھروں کی طرح جنگلوں میں بھی نام کی تختیاں لگی ہوتیں تو تم کو چیڑ کے
جنگل میں درختوں پر کراس بل جنگلی مرغی اور تین انگلیوں والے ہد ہد کی
تختیاں لٹکتی نظر آئیں اور پتیوں والے درختوں کے جنگل میں دوسری قسم کی
تختیاں یعنی سبز اور پھدکی وغیرہ کی۔
ہر
جنگل کئی منزل ہوتا ہے۔
صنوبر
کے جنگل میں دو اورکبھی کبھی تین منزلیں بھی ہوتی ہیں۔ نچلی منزل کائی یا
گھاس کی ہوتی ہے۔بیچ والی جھاڑیوں کی اور اوپری منزل صنوبر کے درختوں کی
ہوتی ہے۔
جنگل کے دو باسی__ہُد ہُد اور کراس بل
شاہ
بلوط کے جنگل میں تو سات منزلیں ہوتی ہیں۔ سب سے اوپر والی بلوط، ایش،
لینڈن اور چنار کی چوٹیوں سے بنی ہوتی ہے اور ہوا میں بلندی پر لہراتی رہتی
ہے۔ گرمیوں میں وہ ایک سرسبز چھت بن جاتی ہے او رخزاں میں رنگا رنگ ہو
جاتی ہے۔ عظیم الشان بلوطوں کی چوٹیوں سے آدھی بلندی تک پہاڑی ایش، جنگلی
سیب اور ناشپاتی کے درختوں کی کلغیاں بھی پہنچتی ہیں۔
ان
کے نیچے جھاڑ جھنکار کا ایک جال پھیلا ہوتا ہے۔ جھاڑیوں کے نیچے پھول اور
گھاسیں ہوتی ہیں۔ یہ بھی تہہ بہ تہہ اگتی ہیںاور زمین سے بالکل قریب نرم
کائی ہوتی ہے۔
جنگل
کاگودام زیر زمین ہوتا اوریہاں ہم کودرختوں اور جھاڑیوں کی جڑیں ملتی ہیں۔
صنوبر
یا پتے دار درختوں کے جنگلوںکی ہر منزل کے اپنے باشندے ہوتے ہیں۔ شکرہ
اپنا گھونسلا سب سے بلندی پر بناتا ہے۔ اس کے نیچے کسی درخت کے کھوکھلے میں
ہدہد اپنے خاندان کے ساتھ رہتا ہے۔ کستورا نے کٹیلے کی جھاڑی میں بسیرے کا
انتظام کیا ہے۔ نچلی منزل میں رہنے والی بن مرغی ادھر ادھر دوڑتی رہتی ہے۔
زیر زمین گودام میں جنگلی چوہوں کی سرنگیں اورکھر ہوتے ہیں۔
اس
بڑے گھر میں ہر قسم کے کمرے ہوتے ہیں۔ اوپر کی منزلوں میں دھوپ آتی ہے اور
خشکی رہتی ہے۔ نچلی منزل میں اندھیرا اور نمی پائی جاتی ہے۔ ایسے سرد کمرے
بھی ہوتے ہیں جو صرف گرمیوں میں ہائس کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور گرم
کمرے بھی ہیں جن میں سارے سال رہا جا سکتا ہے۔
زمین
کے اندر بل گرم رہتا ہے۔ ایک ایسے بل کا درجہ حرارت ناپا گیا جس کی گہرائی
ڈیڑھ میٹر تھی۔ یہ جاڑوں کی بات ہے جب باہر درجہ حرارت -18 سنٹی گریڈ تھا
لیکن بل کے اندر _8سنٹی گریڈ تھا۔
درخت
کے کھوکھلے میں اس سے کہیں زیادہ سردی ہوتی ہے۔ یہاں تو جاڑوں میںکوئی
جانور ٹھٹھر کر جم بھی سکتا ہے۔ لیکن گرمیوں میں یہ بڑی اچھی جگہ ہوتی ہے
خصوصاً الوئوں چمگاڈروں کے لئے جو ہمیشہ ”رات کی پالی” میں نظر آتے ہیں اور
دن بھی کسی اندھیرے کمرے میں سورج سے چھپ کر اونگھنا پسند کرتے ہیں۔
انسان
تواکثر اپنی رہائش گاہ بدلتا رہتا ہے۔ ایک گھر سے دوسرے گھر، ایک منزل سے
دوسری منزل چلا جاتا ہے۔ لیکن جنگل میں عملی طو رپر یہ ناممکن ہے۔
بن
مرغی اپنے تاریک اور نم گھرکو کسی خشک، روشن بالاخانے سے کبھی نہ بدلے گی۔
اور شکرہ جو بالاخانے کا دلدادہ ہے یہ کبھی نہ پسند کرے گا کہ اس کا
گھونسلا نچلی منزل پر کسی درخت کی جڑ کے پاس ہو۔
جنگل کے بندی
تھوڑی
دیر کے لئے مان لو کہ ایک گلہری نے پھد کنے والے چوہے سے گھر کا تبددلہ
کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ گلہری توجنگل میں رہتی ہے اور پھدکنے والا چوہا کھلے
استیپ یا ریگستان میں۔
گلہری
کا گھر درخت میں اونچائی پر ہوتا ہے کھوکھلے میں یا ڈالیوں کے درمیان اور
پھدکنے والا چوہا زمین کے اندر بل میںرہتا ہے۔
اب
اپنے نئے گھر تک پہنچنے کے لئے پھدکنے والے چوہے کو درخت پر چڑھنا پڑے گا
لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے گا کیوں کہ اس کے پنجے درختوں پر چڑھنے والے نہیں
ہوتے۔
دوسری
طرف گلہری بھی زمین کے اندر نہیں رہ سکتی۔ اس کی تمام عادتیں اور طور
طریقے تو درختوں پر رہنے والوں کے ہوتے ہیں۔
ہم
اس کی دم اور پنجے ہی دیکھ کر بتاسکتے ہیں کہ وہ کہاں رہتی ہے۔
گلہری
کے پنجوں کی بناوٹ شاخیں پکڑنے، اخروٹ اور صنوبر کے پھل درختوں سے چننے کے
لئے ہوتی ہے اور اس کی دم ا یک اڑن چھتری کا کام کرتی ہے جو اس کا ایک شاخ
سے دوسری شاخ تک لمبی چھلا نگ مارنے میں مدد دیتی ہے۔ جب کوئی شکاری جانور
اس پر جھپٹتا ہے تو بھاگنے اور جست لگانے میں بھی اس کی دم کام آتی ہے۔
لیکن
استیپ کے پھدکنے والے چوہوں کے پنجوں اور دم کی ساخت توگلہری سے بالکل
مختلف ہوتی ہے۔ مسطح، کھلے استیپ میں تو پناہ کیلئے نہ کوئی جھاڑی ہوتی ہے
اور نہ درخت۔ دشمن سے بچ نکلنے کا بس یہی واحد طریقہ ہے کہ بھاگ کر غائب ہو
جائے یعنی زمین کے اندر گھس جائے۔ اور یہی پھدکنے والا چوہا کرتا بھی ہے۔
جب وہ کسی الو یا عقابی الو کو دیکھتا ہے تو پھد کتا ہوا اس سے بھاگتا ہے
اور زیر زمین اپنی بل میں گھس جاتا ہے۔ اسی لئے اس کیے پنجے ایسے ہوتے ہیں۔
اچھلتے وقت وہ اپنے لمبے پچھلے پیر آگے کی طرف زور دینے کے لئے استعمال
کرتا ہے اور اس کے سامنے کے چھوٹے پیر زمین کھودنے کے لئے ہوتے ہیں۔ وہ
اپنے دشمنوں سے بل میں پناہ لیتا ہے جو اس کو گرمیوں میں گرمی اور جاڑوں
میں سردی سے بھی بچاتا ہے۔
اور
اس کی دم کا کیا استعمال ہے؟ پھدکنے والے چوہے کی دم اس کے پنجوں کی
بہترین مدد گار ہوتی ہے۔ جب یہ چھوٹا ساجانور اپنے پچھلے پیروں پر بیٹھ کر
چاروں طرف دیکھ بھال کرتا ہے تو اس کی دم اس کوتیسرے پیر کی طرح سہارا دیتی
ہے اور جب وہ جست لگاتا ہے تو اس کی دم رخ بدلنے والے آلے کا کام دیتی ہے۔
اگر اس کی دم نہ ہو تو پھدکنے والا چوہا ہر بار جست لگانے میںہوا میں قلا
کھا کر دھم سے زمین پر آرہے۔
اس
لئے اگر گلہری اور پھدکنے والا چوہا اپنے گھروں کا تبادلہ کریں، استیپ کو
جنگل سے بدلیں اور کھوکھلے کو بل سے تو ان کو اپنی دمیں اور پنجے بھی بدلنے
ہوں گے۔
اگر
ہم جنگل اور استیپ کے دوسرے باسیوں کا گہرا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم
ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ سے ایک نظر نہ آنے والی زنجیر کے ذریعے
بندھا ہے، ایسی زنجیر سے جس کو توڑنا بہت مشکل ہے۔
بن
مرغی جنگل کی نچلی منزل میں رہتی ہے کیونکہ اس کی من بھاتی غذا تو گودام
میںہوتی ہے۔ اس کی لمبی چونچ خاس طور سے زمین کے اندر سے کینچوئوں کو کھینچ
لانے کے لئے بنی ہے۔ چونکہ بن مرغی کے لئے درخت پر کوئی دلچسپی نہیں ہے اس
لئے وہ درخت پر کبھی نہیں ملے گی۔
لیکن
تم کو تین انگلیوں یا شوخ رنگ کا بڑا ہد ہد شاز ونادر ہی زمین پر ملے گا۔
اس کا کام تو سارا دن کسی چیڑ یا بھوچ کے درخت کے تنے پر ٹھونگیں مارنا ہے۔
وہ
کیوں ٹھونگیں مارتا ہے؟ وہ کیا تلاش کرتا ہے ؟
اگر
تم چیڑ کے درخت کی چھال کا ایک ٹکڑا چھڑا لو تو دیکھو گے کہ تنے پر ٹیڑھی
میڑھی لائنیں ہر طرف چلی گئی ہیں۔ یہ نقاشی، چھال کے کیڑے کی بنائی ہوئی
سرنگیںہیں جو اس نے لکڑی چبا چبا کر بنائی ہیں۔ ہر ٹیڑھی لائن کے آخر میں
ایک چھوٹا دندانہ ہوتا ہے اور ہر دندانے میں اس کیڑے کا انڈا منجھ روپ میں
تبدیل ہو کر کیڑا بنتا ہے۔ کیڑا چیڑ کے درخت کا عادی ہو گیا ہے اور ہدہد
کیڑے کا۔ ہدہد کی سخت چونچ آسانی سے درخت کی چھال کو پھاڑ دیتی ہے اور اس
کی زبان اتنی لمبی اور لوچدار ہوتی ہے کہ وہ ٹیڑھی میڑھی لائنوں پر لہراتی
ہوئی جاتی ہے اور انڈوں کو ہڑپ کر لیتی ہے۔
اس
طرح ایک زنجیر سی ہے: چیڑ کا درخت، چھال کا کیڑا اور ہد ہد۔ یہ ان زنجیروں
میں سے صرف ایک ہے جنہوں نے ہد ہد کو درخت اور جنگل کا پابند بنا رکھا ہے۔
یہاں
درخت پر اسے اپنی غذا ملتی ہے۔ صر ف چھال کا کیڑا ہی نہیں بلکہ دوسرے کیڑے
اور ان کے انڈے بھی۔ جاڑوں میں ہد ہد بڑی صفائی کے ساتھ صنوبر کے مخروطی
پھلوں کو درخت کے تنے اور کسی شاخ کے درمیان رکھ کر ان کے بیج نکال لیتا
ہے۔ ہدہد اپنے کنبے کیلئے کسی درخت کے تنے میں کھوکھلا بناتا ہے۔ اس کی سخت
دم اور پنجوں کی طرح مضبوط چنگل اس کو تنے پر چڑھنے اترنے میں مدد دیتے
ہیں تو پھر وہ اپنی درختوں کی زندگی کو کسی دوسری چیز سے کیوں کر بدل سکتا
ہے؟
ہم
دیکھتے ہیں کہ ہدہد اور گلہری جنگل کے باسی نہیں، بندی ہیں۔
مچھلیاں خشکی پر کیسے آئیں
جنگل
کی چھوٹی موٹی دنیا ان بہت سی ننھی منی دنیائوں میں سے ہے جن سے مل کر بڑی
دنیا بنتی ہے۔
اس
دھرتی پر صرف جنگل اور استیپ ہی نہیں ہیں۔ یہاں پہاڑ، ٹنڈرا، سمندر اور
جھیلیں بھی ہیں۔
ہر
ایک پہاڑ پر نظر نہ آنے والی دیواریں ایک چھوٹی سی دنیا کو دوسری دنیا سے
الگ کرتی ہیں۔
اور
ہر سمندر ان دیکھی چھتوں کے ذریعہ منزلوں میں تقسیم ہوتا ہے۔
ساحل
پر لہروں سے ٹکرانے والی چٹانیں بے شمار گھونگھوں سے ڈھکی ہوتی ہیں۔ وہ ان
چٹانوں سے اتنی مضبوطی سے چپک جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑا طوفان بھی ان کو
چٹانوں سے نہیں جدا کر سکتا۔
اور
آگے دھوپ سے روشن پانی میں، سبز اور بادامی سمندری گھاس کے درمیان رنگ
برنگی مچھلیاں اچھلتی نظر آتی ہیں، شفاف جیلی مچھلیاں ادھر ادھر تیرتی ہیں۔
اور ستارہ مچھلیاں آہستہ آہستہ تہہ کے قریب تیرتی رہتی ہیں۔ زیر آب چٹانیں
انکھوکے جانوروں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ زیر آب چٹانیں انوکھے جانوروں سے ڈھکی
ہوئی ہیں جو پودوں کی طرح غیر متحرک ہیں۔ ان کو اپنی غذا نہیں تلاش کرنی
پڑتی۔ وہ خود ان کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ یہ سرخ ہیں جو دو منہ والی صراحی
کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ ان کو ان چھوٹے چھوٹے کیروں سے غذا ملتی ہے جو وہ
پانی کے ساتھ چوس لیتے ہیں۔ چمکدار شقیق البحر اپنے پنکھڑیوں جیسے چنگلوں
میں ان مچھلیوں کو گرفتار کر لیتے ہیں جو ان کے بالکل قریب آجاتی ہیں۔
سمندر
کی تہہ میں، اس کی تاریک فرش پر، جہاں رات ہی رہتی ہے، دن کبھی نہیں آتا،
جہاں ہمشیہ تاریکی چھائی رہتی ہے بالکل ہی مختلف دنیا ہے۔ سمندر کی
گہرائیوں تک روشنی نہیں پہنچتی اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں سمندری گھاس
کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا جس کو روشنی کی ضرورت نہیںہوتی ہے۔
سمندر
کی تہہ ایک وسیع قبرستان ہے جہاں جانوروں اور پودوں کی باقیات اوپر سے
نیچے آتی رہتی ہیں۔
دس
پیروں اور لمبے چنگلوں والے کیکڑے کیچڑ میں رینگتے رہتے ہیں۔ چوڑے منہ
والی مچھلیاں اندھیرے میں تیرتی ہیں کچھ کے تو آنکھیں ہوتی ہی نہیں۔ کچھ کے
دو آنکھیں ہوتی ہیں جو دور بین کی طرح باہر نکلی ہوتی ہیں۔ایسی مچھلیاں
بھی ہوتی ہیں جن کے جسم پر آتشیں گل ہوتے ہیں۔ وہ ننھے منے جہازوں کی طرح
معلوم ہوتی ہیں جن کی کھڑکیوں کی روشنی جھلک رہی ہو۔ ایسی مچھلیاں بھی ہوتی
ہیں جن کا اپنا منارہ نور ہوتا ہے۔ وہ ان کے سر سے اوپر کی طرف نکلا ہوتا
ہے اور چمکتا ہے۔
یہ
نرالی دنیا ہمارے دنیا سے کتنی مختلف ہے!
لیکن
سمندری ساحل کی اتھلے پانی کی پٹی بھی خشک زمین سے کتنی الگ ہے حالانکہ ان
کو ایک واحد خط، ساحل کا خط علحدہ کرتا ہے۔
کیا
ایک دنیاکے باسی دوسری دنیا کو منتقل ہو سکتے ہیں؟ کیاکوئی مچھلی سمندر کو
چھوڑ کر خشکی پر منتقل ہو سکتی ہے؟
یہ
تو بالکل ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ مچھلی کی زندگی تو پانی سے وابستہ ہے۔
خشکی پر رہنے کے لئے اس کو گلپھڑوں کی بجائے پھیپھڑوں کی او رپروں کی بجائے
پیروں کی ضرورت ہو گی۔ مچھلی سمندر کی زندگی کی بجائے خشکی کی زندگی اسی
وقت اختیار کر سکتی ہے جب وہ مچھلی نہ رہے۔
لیکن
کیا یہ ممکن ہے کہ مچھلیاں مچھلی نہ رہے؟
اگر
تم یہ سوال ایک سائنس داں سے کرو تو وہ تم کو بتائے گا کہ لاکھوں سال پہلے
بعض قسم کی مچھلیاں واقعی خشک ساحل پر آگئیں اور مچھلیاں نہیں رہیں۔پانی
سے خشکی تک کے اس عبوری دور نے سال دو سال نہیں لئے۔ اس میں لاکھوںسال لگ
گئے۔
آسٹریلیا
کے دریائوں میں جوکبھی کبھی خشک ہوجاتے ہیں ایک قسم کی سینگ مچھلی پائی
جاتی ہے جس کی تیرنے کی تھیلی پھیپھڑے کی طرح ہے۔ جب سال کے خشک حصے میں
پانی کی سطح کم ہونے لگتی ہے اور دریا صرف گدلے نالے بن جاتے ہیں تو تمام
دوسری مچھلیاں مر جاتی ہیں اور پانی کو گندہ کر دیتی ہیں۔ صرف سینگ مچھلی
اس خشکی زمانے میں بھی زندہ رہتی ہے کیونکہ گلپھڑوں کے علاوہ اس کے پھیپھڑے
بھی ہوتے ہیں اور جب اس کو ہوا کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اپنا سر پانی سے
باہر نکال دیتی ہے۔
افریقہ
اور جنوبی امریکہ میں ایسی اورجنوبی امریکہ میں ایسی بھی مچھلیاں ہیںجو
بغیر پانی کی بھی رہ سکتی ہیں۔ وہ خشکی کے زمانے میں ریت کے اندر گھس جاتی
ہیں اور بے حس وحرکت پڑی رہتی ہیں، صرف اپنے پھیپھڑوں سے سانس سانس لیتی
ہیں یہاں تک کہ برسات کا موسم پھر آجاتا ہے۔
اس
کا مطلب یہ ہوا کہ مچھلیاں پھیپھڑے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
لیکن
پیروں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ہاں، وہ پیر بھی پیدا کر سکتی ہیں۔ اس کے
لئے تو زندہ مثالیں موجود ہیں۔ گرم منطقوں میں خشکی پر پھدکنے والی مچھلیاں
ہوتی ہیں جو صرف ساحل پر پھدکتی ہی نہیں بلکہ درختوں پر بھی چڑھ جاتی ہیں۔
ان کے جوڑواں پر پیروں کا کام دیتے ہیں۔
یہ
تمام انوکھی ہستیاں اس بات کا زندہ ثبوت ہیںکہ مچھلیاں پانی سے نکل کر
خشکی پر آسکتی تھیں۔ لیکن ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ واقعی ایسا ہی ہوا؟
معدوم
جانوروں کی ہڈیاں ہمیں یہ داستان بتاتی ہیں۔ زمین کی قدیم پرتوں کی کھوج
میں ماہرین آثار قدیمہ نے کھدائی کرتے ہوئے ایک ایسے جانور کی ہڈیاں پائی
ہیں جو بڑی حد تک مچھلی سے مشابہ ہے پھر بھی وہ مچھلی نہیں تھا۔ یہ مینڈک
یا ٹرائٹن کی طرح جل بھومی جانور تھا۔ اس جانور کو کہا جاتاہے۔ اس کے پروں
کی بجائے باقاعدہ پانچ انگلیوں والے پیر تھے۔ جب وہ تھوڑی مدت کے لئے کنارے
پر آتا تو وہ ان پیروں کی مدد سے آہستہ آہستہ چل سکتا تھا۔
آئو،
اب ذرا معمولی مینڈک کو غور سے دیکھیں۔ جب وہ انڈے سے نکلتا ہے تو دمدار
ہوتا ہے۔ اور اس کے اور مچھلی کے درمیان بہت کم فرق ہوتا ہے۔
اس
سے ثابت ہوتا ہے کہ لاکھوں سال پہلے مچھلی کی بعض قسموں نے اس دیوار کو
پار کر لیا جو سمندر اور خشکی کے درمیان حائل تھی لیکن اس عبوری دور میں ان
میں تبدیلی پیدا ہو گئی۔ جل بھومی جانور مچھلی کی اولاد ہیں اور خود
رینگنے والے جانور کے اجداد میں ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کے قدیم اجداد
رینگنے والے جانور ہیں۔ ان میں سے بہتیرے ایسے بھی ہیں جو پانی کو بالکل
بھول چکے ہیں۔
بے زبان گواہ
پتھرائے ہوئے جانوروں کی ہڈیاں اس بات کی بے زبان گواہ ہیںکہ جانداروں
میںلاکھوں برسوں کے دوران میں تبدیلیاں ہوئیں۔
ان میں کس طرح تبدیلی پیدا ہوئی؟
انگریز سائنس داں چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا پیش کرنے سے پہلے یہ ایک راز
تھا۔جوکام ڈارون نے شروع کیا تھا اس کو دو روسی سائنس دانوں کووالیفسکی اور
تیمیریا زیف نے جاری رکھا اور جب انہوں نے اپنا وسیع مطالعہ پایہ تکمیل تک
پہنچا لیا تو ہم کو وہ باتیں سمجھا دیں جو ہمارے دادا کبھی نہیں سمجھ سکتے
تھے۔
دنیا میں ہر جاندار کا وجود اپنی جگہ کی مناسبت سے ہے، اس فضا اور ماحول کے
مطابق جس میں وہ رہتا ہے۔ لیکن دنیا میں کچھ بھی یکساں نہیں رہتا۔ گرم آب
وہوا سرد ہو جاتی ہے اس جگہ پہاڑ نمودار ہو جاتے ہیں جہاں پہلے میدان تھے،
سمندر کی جگہ خشکی لے لیتی ہے، صنوبر کے جنگلوں کی جگہ پتیوں والے جنگل
آجاتے ہیں۔
اور جب چاروں طرف کی چیزیں بدلتی ہیں تو وہاں کے جانداروں پر اس کا کیا اثر
پڑتا ہے؟
وہ بھی بدلتے ہیں۔
بہتر حال یہ ان کے طے کرنے کی بات نہیں ہوتی کہ وہ کیسے بدلیں گے۔ کوئی
ہاتھی اچانک اپنی خوراک بدل کر پتوں، گھاس اور پھلوں کی جگہ گوشت تو نہیں
کھانے لگے گا۔ کوئی ریچھ یہ نہیں کہہ گا کہ ”مجھے گرمی لگتی ہے۔ میں اپنی
بالدار جھبری کھال اتار دوں”۔
جاندار اپنی مرضی کے مطابق نہیں بدلتے۔ وہ بدلتے ہیں کیونکہ وہ نئی طرح کی
غذائیں کھائے اور نئے حالات میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور جو تبدیلیاں
ہوتی ہیں وہ ہمیشہ تو ان کی بھلائی کے لئے یا کار آمد نہیں ہوتی ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جانور یا پودے نئے حالات میں رفتہ رفتہ ختم ہو جاتے
ہیں کیونکہ ان کی زندگی کے لئے جو چیزیں ضروری ہیں وہ ان کو نہیں ملتیں
جیسی کہ ان کے اجداد کو ملتی تھیں۔
وہ بھوک اور سردی سے مرجاتے ہیں یا شاید ان کو غیر معمولی گرمی اور خشکی
ستاتی ہے۔ وہ ا پنے دشمنوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے اولاد اور
بھی بیمار ہوتی ہے اور نئے حالات میں زندہ رہنے کی نسبتاً کم صلاحیت رکھتی
ہے۔ آخر میں یہ پوری کی پوری قسم ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وہ تبدیلیوں پرقابو
نہیں پا سکتی۔
لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جانداروں میں ایسی تبدیلیاں ہوں جو کارآمد ہوں،
نقصان دہ نہ ہوں۔ ساز گار حالات میں ایسی کار آمد تبدیلیاں آئندہ نسلوں تک
منتقل ہوتی ہیں۔ ان میں اضافہ ہوتا ہے اوروہ مضبوط ہو جاتی ہیں۔
وقت گذرنے پر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نسلیں اپنے اجداد سے مشابہت نہیںرکھتیں،
ان کی فطرت ہی بدل جاتی ہے۔ وہ ایسے حالات میں رہ سکتی ہیں جو ان کے اجداد
کے لئے مضرت رساں ہوتیں۔ وہ رہن سہن کے نئے حالات سے مانوس اور ان کی عادی
بن جاتی ہیں۔ یہاں فطری انتخاب کارفرما نظر آتا ہے۔ وہ جاندار جو اپنے کو
نئے حالات کا عادی نہیںبنا سکے تباہ ہوگئے اورجن سے ایسا ممکن ہوا وہ باقی
رہ گئے۔
ایسی بہت سی مثالین ہیں کہ ماحول کی تبدیلی سے جاندار مخلوق کی فطرت بدل
جاتی ہے۔
یہ بات اس سے واضح ہوتی ہے کہ مچھلیاں رفتہ رفتہ تبدیل ہو کر جل بھومی
مخلوق بن گئی ہیں۔
اس کی ابتدا زمانہ تاریخ سے قبل کے پایاب سمندروں اور جھیلوں سے ہوئی تھی
جو رفتہ رفتہ سوکھ رہے تھے۔ مچھلی کی وہ قسمیں جو اپنے کو زندگی کے نئے
طریقے کا عادی نہیں بنا سکیں مرنے لگیں اور صرف وہ قسمیں بچیں جنہو ںنے
طویل مدت تک بغیر پانی کے رہنا سیکھ لیا۔ خشک موسم میں وہ یا تو ریت میں
گھس جاتی تھیں یا قریب ترین جوہڑ میں۔وہ اپنے پروں کو پیروں کی طرح استعمال
کرتی تھیں۔ قدرت نے چھوٹی سی چھوٹی جسمانی تبدیلی کا استعمال کیا جو خشکی
پر کار آمد ہو سکتی تھی۔ ان مچھلیوں کی تیراکی کی تھیلی رفتہ رفتہ پھیپھڑوں
میں تبدیل ہو گئی۔ اور جوڑی دار پروں نے پیروں کی شکل اختیار کر لی۔
اس طرح پانی کے کچھ باسیوں نے اپنے کو خشکی کی زندگی کا عادی بنا لیا۔
تبدیلی کی صلاحیت ہی نے مچھلی کے پروں، اس کی تیراکی کی تھیلی اور جسمانی
ساخت کو نئے ماحول کے مطابق تبدیل کر دیا۔
انتخاب نے صرف تبدیلیاں برقرار رکھیں جو کار آمد تھیں اور جو مضرت رساں
تھیں ان کو ختم کر دیا۔
نسلی وراثت نے ان کا رآمد تبدیلیوں کو آئندہ نسلوں میں منتقل کیا، ان میں
اضافہ کیا اوران کو مضبوط بنایا۔
کووالیفسکی نے گھوڑے کی تاریخ کے بارے میں تحقیقات کر کے ایک اور واضح مثال
پیش کی ہے۔
واقعی یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ گھوڑا ایسے چھوٹے جانور کی اولاد ہے جو کسی
زمانے میں گھنے جنگلوں میں رہتا تھا اور گرے پڑے درختوں کے اوپر سے صفائی
کے ساتھ چھلانگ لگاتا تھا۔ اس چھوٹے جانور کے گھوڑے جیسے کھر نہیں تھے۔ اس
کے پیر چھوٹے اور ان میں پانچ انگلیوں والے پنجے تھے۔ اس سے اس کو جنگل کی
ناہموار زمین پر قدم جماکر چلنے میں مدد ملتی تھی۔
وقت آیا کہ یہ بڑے جنگل چھدرے ہونے لگے اور ان کی جگہ میدانوں نے لے لی۔ اب
گھوڑے کے جنگلی باسی بزرگوں کو اکثر کھلے میدان میں آنا پڑتا تھا۔ خطرے کی
حالت میں یہاں جنگل کی طرح پناہ کی کوئی جگہ نہ تھی۔ فرار کا طریقہ محض
تیز رفتاری تھی۔ جنگلوں میں چھپنے کا جو طریقہ تھا وہ میدانوں میں نہیں
رہا۔ اس کی جگہ بھاگ دوڑ نے لے لی اور بہت سے جنگلی جانور تعاقب میں ختم ہو
گئے۔ درندوں سے صرف وہی بچے جن کی ٹانگیں سب سے لمبی اور تیز رفتار تھیں۔
ایک مرتبہ پھرقدرت نے اپنے انتخاب سے کام لیا، اس نے ہر اس تبدیلی کو تلاش
کر کے محفوظ رکھا جوجانور کو تیز دوڑنے میں مدد دیتی تھی اور ہر اس چیز کو
رد کر دیا جو دوڑنے میں استعمال نہیں ہو سکتی تھی۔
گھوڑے کے بزرگوں کو زندگی کی آزمائشوں نے یہ دکھایا کہ تیز ڈوڑنے والے
جانوروں کے پیروں میں بہت سی انگلیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ مضبوط اور
سخت وہ تو بس ایک کافی ہے۔ ایک زمانے میں گھوڑے کے تین انگلیاں تھیں اور
آخر کار ایک ہی رہ گئی۔ جس گھوڑے کو ہم موجودہ زمانے میں دیکھتے ہیں اس کے
ایک لمبی انگلی یعنی کھر ہے۔
میدان میں آکر گھوڑے کے صڑف پیر ہی نہیں بدلے بلکہ اس کا سارا جسم بدل گیا۔
مثلاً اس کی گردن کو لے لو۔ اگر اس کے پیر زیادہ لمبے ہو گئے ہوتے اور
گردن چھوٹی ہی رہ جاتی تو گھوڑا اس گھاس تک نہ پہنچ سکتا جو اس کے قدموں کے
نیچے ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ قدرت نے چھوٹی گردن والے گھوڑوںکو رد کر
دیا جیساکہ وہ چھوٹے پیروں والے گھوڑوں کے ساتھ کر چکی تھی۔
اور گھوڑے کے دانتوں کے بارے میں؟ وہ بھی بدل گئے۔ میدان میں گھوڑے کو سخت
اور موٹی پودے کھانا پڑے جن کوا سے پہلے اپنی داڑھوں سے چبا کر باریک کرنا
پڑتا تھا۔ اور اسی لئے اس کے
دانت بھی بدلے۔ اب اس کے دانت ایسے ہیں جو سوکھی گھاس کو بھی چبا کر باریک
کر سکتے ہیں۔
گھوڑے کے پیروں، گردن اور دانتوں کو بدلنے کے زبردست کام میں پانچ کروڑ سال
لگے۔
اس کا یہ مطلب ہوا کہ جو دیواریں سمندر کو خشکی سے اور جنگل کو میدان سے
علحدہ کرتی ہیں وہ مستقل نہیں ہیں۔ سمندر خشک ہو جاتے ہیں یا خشکی پرچڑھ
آتے ہیں، میدان ریگستانوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، سمندر کے باسی رینگ کر
خشکی پر آجاتے ہیں اور جنگل کے رہنے والے میدانوں میں رہنے لگتے ہیں۔ لیکن
کسی جانور کے لئے اپنی چھوٹی موٹی دنیا چھوڑنا، اپنے ماحول کی زنجیروں کو
توڑنا کتنا مشکل ہے۔ ان زنجیروں کو توڑنے کے بعد بھی وہ آزاد نہیں
ہوتاکیونکہ وہ ایک ان دیکھے پنجرے سے دوسرے پنجرے میں پہنچ جاتا ہے۔
جب گھوڑا جنگل چھوڑ کر میدان میں آیا تو وہ جنگل کا باسی نہ رہا، میدان کا
رہنے والا ہو گیا۔ ایک مرتبہ اگر کسی قسم کی مچھلی کو پانی سے باہر خشکی
کاراستہ مل گیا تو پھر یہ مچھلیاں سمندر کونہیں واپس ہوئیں کیونکہ واپسی کے
لئے دوبارہ تبدیلی کی ضرورت تھی۔ یہی ان کئی قسم کی خشکی کی مچھلیوں کے
ساتھ ہوا جو خشکی سے سمندر کو واپس ہوئیں۔ ان کے پیر پھر پروں میں تبدیل ہو
گئے ۔ مثلاً وھیل کو ایسا ”مچھلی جیسا” بننا پڑا کہ جو لوگ اس کے آغاز کے
بارے میں نہیں جانتے ہیں اس کو مچھلی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ صرف ظاہری صورت
اور طریقہ زندگی کے لحاظ سے مچھلی سے مشابہت رکھتی ہے ۔
انسان آزادی کی راہ پر
دنیا میں تقریباًدس لاکھ قسم کے جانور ہیں اور ہر ایک اپنی چھوٹی موٹی دنیا
میں رہتا ہے جس کا وہ عادی بن گیا ہے۔
بعض جگہوں پر ایک قسم کے جانوروں کو یہ ان دیکھا نشان ملے گا کہ ”دور رہو”
اور دوسری قسم کو ایسی جگہ ”خوش آمدید!” کا ان دیکھا نشان ملے گا۔
ذرا سوچو تو منطقہ حارہ کے جنگل میں کسی قطبی ریچھ کا کیا حال ہو گا۔ اس کا
تو دم گھٹ جائے گا کیونکہ اس کا گھنے بالوں والا موٹا کوٹ تو اتارا نہیں
جا سکتا۔ لیکن گرم خطوں کا کوئی رہنے والا مثلاً ہاتھی تو
آرکٹک کے برف میں ٹھٹھر کر مر جائے گا۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ جس کی زندگی گرم
غسل میں بسر ہوتی ہو اس کے جسم پر تو کھال ہی ہوگی۔
دنیا میں صرف ایک ایسی جگہ ہے جہاں قطبی ریچھ اور ہاتھی پڑوسی ہوتے ہیں
یعنی وہ جگہ جہاں دنیا کے ہر حصہ کے جانور ہوتے ہیں۔ یہاں میدانوں کے جانور
جنگلوں کے جانوروں سے صرف چند گز کے فاصلے پر نظر آتے ہیں اور پہاڑی جانور
ان کے برابر رہتے ہیں۔ یہ جگہ چڑیا گھر ہے۔
قطبی
ریچھ اور ہاتی اب صرف چڑیا گھر میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں
چڑیا گھر میں تو جنوبی افریقہ کے برابر ہی
آسٹریلیا ہوتا ہے اور آسٹریلیا کا پڑوسی شمالی امریکہ ہو جاتا ہے۔ ساری
دنیا سے جانور یہاں آتے ہیں۔ لیکن وہ خود نہیں آئے ہیں انسان نے یہاں ان کو
لاکر جمع کیا ہے۔
سوچو تو کہ ان سب کو خوش رکھنا کتنی مشکل بات ہے! ہر جانور اپنی چھوٹی موٹی
دنیا کا عادی ہوتاہے اور انسان کو ان سب کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا
چاہیئں جو ان کی چھوٹی موٹی دنیاکے مطابق ہوں۔
یہاں ایسا تالاب ہونا چاہئے جو سمندر کی یاد دلائے اور وہاں ریگستان کا ایک
ٹکڑا۔
پھرجانوروں کو کھلانا پلانا ہے۔ ان کو ایک دوسرے کو ہڑپ کرنے سے باز رکھنا
ہے۔ قطبی ریچھ کو غسل کے لئے ٹھنڈا پانی چاہئے بندروں کو گرمی کی ضرورت
ہوتی ہے۔ شیر ہر روز اپنی خوراک کے مطابق کچا گوشت چاہتا ہے اور عقاب کو
اتنی جگہ چاہئے کہ وہ اپنے پروں کو حرکت میں لا سکے۔
میدانوں، جنگلوں، پہاڑوں، ریگستانوں اور سمندروں کے جانوروں کوا نسان
مصنوعی طو رپر اکٹھا کرتا ہے تو اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے لئے
ایسی مصنوعی فضا بھی پیداکی جائے کہ وہ ختم نہ ہو جائیں۔
انسان خود کسی قسم کا جانور ہے؟ میدانی جنگلی یا پہاڑی جانور؟
کیا جنگل میں رہنے والے آدمی کو ”جنگلی آدمی” اور دلدل میں رہنے والے کو
”دلدلی آدمی” کہا جا سکتا ہے
نہیں بالکل نہیں۔
کیونکہ ایسا آدمی جو جنگل میں رہتا ہے میدان میں بھی رہ سکتا ہے۔ اور جو
آدمی دلدل میں رہتا ہے اس کو زیادہ خشک جگہ منتقل سے خوشی ہوگی۔
آدمی کہیں بھی رہ سکتا ہے۔ اس دنیا میں مشکل ہی سے کوئی ایسا کونا ہو گا
جہاں آدمی نہ پہنچا ہو اور جہاں کوئی ایسا نہ دکھائی دینے والا نشان ہو جو
کہتا ہو ”انسان، دور رہو!”۔ آرکٹک میں تحقیقات کرنے والے بہتی ہوئی برفانی
چٹانوں پر رہتے ہیں۔ اگر ان کو اچانک انتہائی گرم ریگستانوں میںجانا پڑے تو
ان کو کوئی مشکل نہ ہو گی۔
اگر کوئی آدمی استیپ سے جنگل کو یا جنگل سے میدان کو منتقل ہوتا ہے توا سے
اپنے ہاتھ پیر اور دانت نہیں بدلنے پڑتے۔اگرچہ اس کا جسم گھنے بالوں سے
ڈھکا نہیں ہوتا پھر بھی وہ جب جنوب سے شمال کو جاتا ہے تو ختم نہیں ہو
جاتا۔
اس کو سمور کا کوٹ،ٹوپی اور بوٹ جوتے سردی سے اسی طرح بچاتے ہیں جیسے
جانوروں کا سمور ان کو بچاتا ہے۔
آدمی نے گھوڑے سے کہیں زیادہ تیز چلنا سیکھ لیا ہے لیکن اس کے لئے اسے اپنی
انگلیوں سے نہیں دستبردار ہونا پڑا۔
آدمی نے مچھلی سے کہیں زیادہ تیز تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن اس کے لئے اس ہاتھ
پیروں کی جگہ مچھلی کے پروں کی ضرورت نہیں ہوئی۔
رینگنے والے جانوروں کو تبدیل ہو کر پرندے بننے میںلاکھوں برس گذر گئے۔ان
کو اس تبدیلی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی کیونکہ اس تبدیلی کے دوران میں وہ
اپنے اگلے پنجوں سے محروم ہو گئے جو پر بن گئے۔ انسان نے چند صدیوں میں
اڑناسیکھا ہے لیکن اس کو اپنے بازوئوں سے نہیں محروم ہونا پڑا۔
آدمی نے یہ گر سیکھ لیا کہ نظر نہ آنے والی دیواروں کے درمیان سے، جو
جانوروں کو اپنا قیدی بنا لیتی ہیں، بلا تبدیلی کیسے گذرا جا سکتا ہے۔
انسان ایسی بلندیوں تک جا سکتا ہے جہاں سانس لینے کے لئے ہوا نہیں ہے پھر
بھی وہ زمین پر صحت مند اور چاق وچوبند واپس آتا ہے۔
جب ہوا بازوں نے فضا میں بلندی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے تو زندگی کی عام چھت
زیادہ بلند ہو گئی اور اس دنیا کے حدود کے پار ہو گئی جس میں زندہ مخلوقات
آباد ہیں۔
جانوروں اور چڑیوں کا انحصار پوری طرح قدرت پر ہوتا ہے۔ ریاضی کے کسی سوال
کے حل کا انحصار اس کے شرائط پر ہوتا ہے۔ یہی صورت قدرت کی ہے۔ ہر جانور
ایسا مسئلہ ہے جس کو زندگی نے کامیابی سے حل کر لیاہے۔ مسئلے کے شرائط
زندگی کے حالات ہیں اور اس کا جواب پنجوں، پیروں، پروں، مچھلی کے پروں،
چونچوں، جنگلوں، عادتوں اور طور طریقوں کی ایک وسیع فہرست ہے۔ جواب کا
انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جانور کو کہاں اور کیسے رہنا ہے۔ میٹھے یا
کھاری پانی میں یا خشکی پر، ساحل پر یا سمندر میں، سمندر کی تہہ میں یا سطح
سمندر سے قریب، شمال یا جنوب میں، پہاڑوں پر یا وادیوں میں، سطح زمین پر
یا زیر زمین، استیپ میں یا جنگلوں میں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کون سے
جانور اس کے پڑوسی ہوتے ہیں۔
جانور پوری طرح اپنے ماحول کا محتاج ہوتا ہے۔
لیکن آدمی اپنی مرضی کے مطابق ماحول بناتا ہے۔ وہ اکثر قدرت کی کتاب اس کے
ہاتھ سے چھین لیتا ہے اور ان شرائط کو کاٹ دیتا ہے جو اسے پسند نہیں ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”ریگستان میں بہت کم پانی ہے”۔ لیکن جب ہم ریگستان
میں گہری نہریں کھود دیتے ہیں تو اس حالت کو ختم کر دیتے ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”شمالی کی زمین بنجر ہے”۔ہم زمین میںکھاد ڈال کر اس
کو بدل دیتے ہیں۔ ہم کئی سال تک خود بخود اگنے والی گھاسیں اور پھلی دار
فصلیں بوکر زمین کو زرخیز بناتے ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”جاڑے کے موسم میں سردی اور رات میں اندھیرا ہوتا
ہے”۔ لیکن آدمی ان باتوں کی کوئی پروا نہیںکرتا۔ وہ اپنے گھر کو جاڑے میں
گرم اور رات میں روشن کرتا ہے۔
ہم برابر اپنے ماحول کو بدلتے رہتے ہیں۔
جو جنگل ہمارے چاروں طرف ہیں شجر کاری اور جنگلوں کی کٹائی کی وجہ سے مدت
ہوئے اپنی صورت شکل بدل چکے ہیں۔
اب ہمارے استیپ بھی پہلے کی طرح سپاٹ ویرانے نہیں رہے ہیں۔ ان کو آدمی زیر
کاشت لایا ہے۔
ہمارے پودے، ہماری گیہوں اور رائی کی فصلیں، ہمارے سیب اور ناشپاتیوں کے
درخت، اُن جنگلی اناج کی گھاسوں اور پھل کے پیڑوں کی طرح بالکل نہیں ہیں جو
کسی زمانے میں ویرانوں میں اگتے تھے۔
ایسے گھریلو جانور جیسے گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں اب جنگلی نہیں ہوتے۔ ان کو
آدمی پالتا پوستا ہے اور ان کی افزائش کرتا ہے۔
آدمی نے جنگلی جانوروں کے طور طریقے بدل ڈالے ہیں۔ بعض جانور غذا کی تلاش
میں آدمی کے گھروں اور کھیتوں سے بہت قریب رہتے ہیں اور بعض آدمی سے بھاگنے
کی کوشش میں اس سے بہت دور جنگلوں اورویرانوں میں چلے گئے ہیں۔ آدمی کے
ظہور سے پہلے ان جانوروں کے اجداد وہاں نہیں رہتے تھے۔
ایک زمانہ وہ بھی آئے گا جب آدمی کوئی اصلی جنگل یا ویرانہ دیکھنا چاہے گا
تو اس کو خاص محفوظ جگہوں کو جانا پڑے گا کیونکہ انسان دنیا کا چہرہ بالکل
بدل دے گا۔
ان محفوظ جگہوں کی سرحدیں کھینچتے ہوئے ہم قدرت سے کہتے ہیں: ”تم کو ہم
یہاں کی مالکہ رہنے دیں گے لیکن اس سرحد کے پار ہر چیز ہماری ہے۔”
انسان قدرت پر روز بروز زیادہ اقتدار حاصل کرتا جا رہا ہے۔
یہ صورت ہمیشہ سے نہ تھی۔
ہمارے زمانہ تاریخ سے قبل کے اجداد قدرت کے ویسے ہی غلام تھے جیسے اس دنیا
میں رہنے والے دوسرے جانور۔
چڑیا گھر میں تو جنوبی افریقہ کے برابر ہی آسٹریلیا ہوتا ہے اور آسٹریلیا
کا پڑوسی شمالی امریکہ ہو جاتا ہے۔ ساری دنیا سے جانور یہاں آتے ہیں۔ لیکن
وہ خود نہیں آئے ہیں انسان نے یہاں ان کو لاکر جمع کیا ہے۔
سوچو تو کہ ان سب کو خوش رکھنا کتنی مشکل بات ہے! ہر جانور اپنی چھوٹی موٹی
دنیا کا عادی ہوتاہے اور انسان کو ان سب کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا
چاہیئں جو ان کی چھوٹی موٹی دنیاکے مطابق ہوں۔
یہاں ایسا تالاب ہونا چاہئے جو سمندر کی یاد دلائے اور وہاں ریگستان کا ایک
ٹکڑا۔
پھرجانوروں کو کھلانا پلانا ہے۔ ان کو ایک دوسرے کو ہڑپ کرنے سے باز رکھنا
ہے۔ قطبی ریچھ کو غسل کے لئے ٹھنڈا پانی چاہئے بندروں کو گرمی کی ضرورت
ہوتی ہے۔ شیر ہر روز اپنی خوراک کے مطابق کچا گوشت چاہتا ہے اور عقاب کو
اتنی جگہ چاہئے کہ وہ اپنے پروں کو حرکت میں لا سکے۔
میدانوں، جنگلوں، پہاڑوں، ریگستانوں اور سمندروں کے جانوروں کوا نسان
مصنوعی طو رپر اکٹھا کرتا ہے تو اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے لئے
ایسی مصنوعی فضا بھی پیداکی جائے کہ وہ ختم نہ ہو جائیں۔
انسان خود کسی قسم کا جانور ہے؟ میدانی جنگلی یا پہاڑی جانور؟
کیا جنگل میں رہنے والے آدمی کو ”جنگلی آدمی” اور دلدل میں رہنے والے کو
”دلدلی آدمی” کہا جا سکتا ہے
نہیں بالکل نہیں۔
کیونکہ ایسا آدمی جو جنگل میں رہتا ہے میدان میں بھی رہ سکتا ہے۔ اور جو
آدمی دلدل میں رہتا ہے اس کو زیادہ خشک جگہ منتقل سے خوشی ہوگی۔
آدمی کہیں بھی رہ سکتا ہے۔ اس دنیا میں مشکل ہی سے کوئی ایسا کونا ہو گا
جہاں آدمی نہ پہنچا ہو اور جہاں کوئی ایسا نہ دکھائی دینے والا نشان ہو جو
کہتا ہو ”انسان، دور رہو!”۔ آرکٹک میں تحقیقات کرنے والے بہتی ہوئی برفانی
چٹانوں پر رہتے ہیں۔ اگر ان کو اچانک انتہائی گرم ریگستانوں میںجانا پڑے تو
ان کو کوئی مشکل نہ ہو گی۔
اگر کوئی آدمی استیپ سے جنگل کو یا جنگل سے میدان کو منتقل ہوتا ہے توا سے
اپنے ہاتھ پیر اور دانت نہیں بدلنے پڑتے۔اگرچہ اس کا جسم گھنے بالوں سے
ڈھکا نہیں ہوتا پھر بھی وہ جب جنوب سے شمال کو جاتا ہے تو ختم نہیں ہو
جاتا۔
اس کو سمور کا کوٹ،ٹوپی اور بوٹ جوتے سردی سے اسی طرح بچاتے ہیں جیسے
جانوروں کا سمور ان کو بچاتا ہے۔
آدمی نے گھوڑے سے کہیں زیادہ تیز چلنا سیکھ لیا ہے لیکن اس کے لئے اسے اپنی
انگلیوں سے نہیں دستبردار ہونا پڑا۔
آدمی نے مچھلی سے کہیں زیادہ تیز تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن اس کے لئے اس ہاتھ
پیروں کی جگہ مچھلی کے پروں کی ضرورت نہیں ہوئی۔
رینگنے والے جانوروں کو تبدیل ہو کر پرندے بننے میںلاکھوں برس گذر گئے۔ان
کو اس تبدیلی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی کیونکہ اس تبدیلی کے دوران میں وہ
اپنے اگلے پنجوں سے محروم ہو گئے جو پر بن گئے۔ انسان نے چند صدیوں میں
اڑناسیکھا ہے لیکن اس کو اپنے بازوئوں سے نہیں محروم ہونا پڑا۔
آدمی نے یہ گر سیکھ لیا کہ نظر نہ آنے والی دیواروں کے درمیان سے، جو
جانوروں کو اپنا قیدی بنا لیتی ہیں، بلا تبدیلی کیسے گذرا جا سکتا ہے۔
انسان ایسی بلندیوں تک جا سکتا ہے جہاں سانس لینے کے لئے ہوا نہیں ہے پھر
بھی وہ زمین پر صحت مند اور چاق وچوبند واپس آتا ہے۔
جب ہوا بازوں نے فضا میں بلندی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے تو زندگی کی عام چھت
زیادہ بلند ہو گئی اور اس دنیا کے حدود کے پار ہو گئی جس میں زندہ مخلوقات
آباد ہیں۔
جانوروں اور چڑیوں کا انحصار پوری طرح قدرت پر ہوتا ہے۔ ریاضی کے کسی سوال
کے حل کا انحصار اس کے شرائط پر ہوتا ہے۔ یہی صورت قدرت کی ہے۔ ہر جانور
ایسا مسئلہ ہے جس کو زندگی نے کامیابی سے حل کر لیاہے۔ مسئلے کے شرائط
زندگی کے حالات ہیں اور اس کا جواب پنجوں، پیروں، پروں، مچھلی کے پروں،
چونچوں، جنگلوں، عادتوں اور طور طریقوں کی ایک وسیع فہرست ہے۔ جواب کا
انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جانور کو کہاں اور کیسے رہنا ہے۔ میٹھے یا
کھاری پانی میں یا خشکی پر، ساحل پر یا سمندر میں، سمندر کی تہہ میں یا سطح
سمندر سے قریب، شمال یا جنوب میں، پہاڑوں پر یا وادیوں میں، سطح زمین پر
یا زیر زمین، استیپ میں یا جنگلوں میں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کون سے
جانور اس کے پڑوسی ہوتے ہیں۔
جانور پوری طرح اپنے ماحول کا محتاج ہوتا ہے۔
لیکن آدمی اپنی مرضی کے مطابق ماحول بناتا ہے۔ وہ اکثر قدرت کی کتاب اس کے
ہاتھ سے چھین لیتا ہے اور ان شرائط کو کاٹ دیتا ہے جو اسے پسند نہیں ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”ریگستان میں بہت کم پانی ہے”۔ لیکن جب ہم ریگستان
میں گہری نہریں کھود دیتے ہیں تو اس حالت کو ختم کر دیتے ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”شمالی کی زمین بنجر ہے”۔ہم زمین میںکھاد ڈال کر اس
کو بدل دیتے ہیں۔ ہم کئی سال تک خود بخود اگنے والی گھاسیں اور پھلی دار
فصلیں بوکر زمین کو زرخیز بناتے ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”جاڑے کے موسم میں سردی اور رات میں اندھیرا ہوتا
ہے”۔ لیکن آدمی ان باتوں کی کوئی پروا نہیںکرتا۔ وہ اپنے گھر کو جاڑے میں
گرم اور رات میں روشن کرتا ہے۔
ہم برابر اپنے ماحول کو بدلتے رہتے ہیں۔
جو جنگل ہمارے چاروں طرف ہیں شجر کاری اور جنگلوں کی کٹائی کی وجہ سے مدت
ہوئے اپنی صورت شکل بدل چکے ہیں۔
اب ہمارے استیپ بھی پہلے کی طرح سپاٹ ویرانے نہیں رہے ہیں۔ ان کو آدمی زیر
کاشت لایا ہے۔
ہمارے پودے، ہماری گیہوں اور رائی کی فصلیں، ہمارے سیب اور ناشپاتیوں کے
درخت، اُن جنگلی اناج کی گھاسوں اور پھل کے پیڑوں کی طرح بالکل نہیں ہیں جو
کسی زمانے میں ویرانوں میں اگتے تھے۔
ایسے گھریلو جانور جیسے گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں اب جنگلی نہیں ہوتے۔ ان کو
آدمی پالتا پوستا ہے اور ان کی افزائش کرتا ہے۔
آدمی نے جنگلی جانوروں کے طور طریقے بدل ڈالے ہیں۔ بعض جانور غذا کی تلاش
میں آدمی کے گھروں اور کھیتوں سے بہت قریب رہتے ہیں اور بعض آدمی سے بھاگنے
کی کوشش میں اس سے بہت دور جنگلوں اورویرانوں میں چلے گئے ہیں۔ آدمی کے
ظہور سے پہلے ان جانوروں کے اجداد وہاں نہیں رہتے تھے۔
ایک زمانہ وہ بھی آئے گا جب آدمی کوئی اصلی جنگل یا ویرانہ دیکھنا چاہے گا
تو اس کو خاص محفوظ جگہوں کو جانا پڑے گا کیونکہ انسان دنیا کا چہرہ بالکل
بدل دے گا۔
ان محفوظ جگہوں کی سرحدیں کھینچتے ہوئے ہم قدرت سے کہتے ہیں: ”تم کو ہم
یہاں کی مالکہ رہنے دیں گے لیکن اس سرحد کے پار ہر چیز ہماری ہے۔”
انسان قدرت پر روز بروز زیادہ اقتدار حاصل کرتا جا رہا ہے۔
یہ صورت ہمیشہ سے نہ تھی۔
ہمارے زمانہ تاریخ سے قبل کے اجداد قدرت کے ویسے ہی غلام تھے جیسے اس دنیا
میں رہنے والے دوسرے جانور۔اپنے اجداد سے ملاقات
لاکھوں سال پہلے جنگلات اور ان کے درخت، جانور اورگھاسیں ہمارے موجودہ
جنگلوں اور باغوں سے مختلف تھے۔
ان قدیم زمانے کے جنگلوں میں مہندی، لارل اور میگنولیا کے پودوں کے ساتھ
بھوچ، لینڈن اور چنار کے بڑے بڑے درخت اگتے تھے۔ انگور کی بیلیں اخروٹ کے
درختوں سے لپٹی رہتی تھیں اور بید مجنوں کے پڑوسی کا فور اور عنبر دینے
والے درخت ہوتے تھے۔
بڑے بڑے دیو پیکر درختوں کے سامنے عظیم الشان شاہ بلوط بھی بالشتیا معلوم
ہوتا تھا۔
اگر ہم آج کے جنگل کو کسی مکان سے تشبیہ دیں تو اس زمانے کا جنگل فلک بوس
عمارت کی طرح ہوتا تھا۔
اس ”فلک بوس عمارت” کی سب سے اوپری منزل روشن اور چہل پہل والی ہوتی تھی۔
وہاں بڑے بڑے رنگین پھولوں کے درمیان، شوخ رنگ کی کلغیوں والی چڑیاں ادھر
ادھر اڑتی تھیں اور ان کی آوازیں جنگل میں گونجتی تھیں۔ لنگور ادھر ادھر
شاخوںسے جھولتے تھے۔
دیکھو، بندروں کا ایک غول شاخوں پر اس طرح دوڑ رہا ہے جیسے وہ کوئی پل پار
کر رہا ہو۔ مائیں اپنے بچوں کو زوروں سے سینے سے لگائے ہیں اوران کے منہ
میں چبائے ہوئے پھل اور اخروٹ بھر رہی ہیں۔ وہ بچے جو ذرا بڑے ہیں اپنی
مائوں کے پیر پکڑے ہیں۔اور اس غول کا جھبرا بڈھا سردار بڑی چستی سے ایک تنے
پر چڑھ رہا ہے اور سارا غول اس کے پیچھے چلتا ہے۔
یہ بندروں کی کون سی قسم ہے؟ آج کل تم کویہ چڑیا گھر میں بھی نہیں ملیں گے۔
یہ وہی بندر ہیں جن کی نسل سے آدمی، چمپا نزی اور گوریلا کے اجداد پیدا
ہوئے ۔ ابھی ہماری ملاقات زمانہ تاریخ سے قبل کے اجداد سے ہوئی۔
وہ سب جنگل کی سب سے اوپر والی منزل پر رہتے تھے۔ وہ زمین سے بہت بلندی پر
ایک درخت سے دوسرے درخت تک شاخوں کے ذریعے سفر کرتے رہتے تھے جیسے یہ شاخیں
پل، بالکونیاں اور راہ دار یاں ہوں۔
جنگل ہی ان کا گھر تھا۔ رات کو وہ درختوں کے دو شاخے میں ڈالیوں سے بنے
ہوئے بڑے بڑے گھونسلوں میں آرام کرتے تھے۔
جنگل ان کا قلعہ تھا۔ وہ اوپر والی منزل پر اپنے جانی دشمن تیز دانتوں والے
چیتے سے پناہ لیتے تھے۔
جنگل ان کا بھنڈا تھا۔ وہاں اوپر کی شاخوں میں وہ اپنا کھانا، پھل اور
اخروٹ جمع کرتے تھے۔
لیکن جنگل کی چھت تلے زندگی بسر کرنے کے لئے ان کو ایک شاخ سے جھول کر
دوسری شاخ تک جانا سیکھنا پڑتا تھا اور یہ بھی کہ درختوں کے تنوں سے کس طرح
اوپر نیچے چڑھا اترا جائے اور ایک درخت سے کود کر دوسرے تک کس طرح پہنچا
جائے۔ ان کو پھلوں کو چننا اور اخروٹوں کو توڑناسیکھنا پڑا۔ ان کی انگلیوں
کو چست، آنکھوں کو تیز اوردانتوں کو مضبوط ہونا چاہئے تھا۔
ہمارے اجداد بہت سی زنجیروں سے جنگل سے منسلک تھے اور صرف جنگل ہی سے نہیں
بلکہ اوپر چوٹی والی منزلوں سے۔ آدمی نے ان زنجیروں کو کسی طرح توڑا؟ جنگلی
مخلوقات نے کس طرح یہ ہمت کی کہ وہ اپنا پنجراچھوڑ کر اپنے گھر کی سرحدوں
سے باہر قدم رکھے؟ہمارے ہیروں کی دادی اور چچیرے رشتے دار
جب پرانے زمانے میں کوئی مصنف آدمی کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں اپنی
کہانی شروع کرتا تھا تو وہ عام طور پر اپنی کتاب کے پہلے ہی بابوںمیں اپنے
ہیرو کے خاندان اور اس کے اجداد کا تفصیلی ذکر کرتا تھا۔
چند ہی صفحے پڑھنے کے بعد یہ پتہ چل جاتا کہ جب اس کی دادی لڑکی تھی تو
کتنے خوبصورت گائون پہنتی تھی اور شادی سے پہلے ماں اس دن کے خواب کیسے
دیکھا کرتی تھی۔ دنیا میں اس ہیرو کے ظہور، اس کے پہلے دانت، پہلے الفاظ،
پہلے قدم اور پہلی شرارتوں کے بارے میں طویل بیان ہوتا تھا۔ دس باب بعد
لڑکا اسکول میں داخل ہوتا تھا اور دوسری جلد کے آخر میں محبت میں مبتلا ہو
جاتا تھا۔ تیسری جلد میں وہ بہت سی مہموں اور واقعات کے بعد آخر کار اپنی
محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا تھا اور اس کہانی کاخاتمہ عام طور پر
اس طرح ہوتا تھا کہ بزرگ اور بوڑھا ہیرو اور اس کی سفید بالوں والی بیوی
اپنے گلاب جیسے گالوں والے پوتے کو پیار سے دیکھ رہے ہیں جو پہلی مرتبہ
ڈگمگا کر زمین پرقدم رکھ رہا ہے۔
ہم بھی آپ کو انسان کی زندگی اورا س کے کارناموں کے بارے میں بتانا چاہتے
ہیں۔ اورپرانے زمانے کے ناول نگاروں کی پیروی کرتے ہوئے ہم اپنے ہیروکے
قدیم آباو اجداد، ا س کے خاندان اور رشتے داروں، زمین پر اس کے ظہور کے
بارے اور یہ بھی بتانا میں چاہتے ہیں کہ اس نے چلنا، باتیں کرنا، سوچنا
کیسے سیکھا۔ ہم اس کی جدوجہد، خوشی اور غم، فتوحات اور شکستوں کا بھی ذکر
کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ ابتدا میں ہم بڑی مشکلوں میں گھرے ہوئے
ہیں۔
ہم اپنے ہیرو کی ”جدو” کے بارے میں کیسے بیان کریں، اس بوزنہ جدہ کے بارے
میں جن کی اولاد ہماری قسم ہے، جب کہ اس جدہ کو ختم ہوئے لاکھوں سال بیت
چکے ہیں؟ ہمارے پاس ان کی کوئی تصویر بھی تو نہیں ہے کیونکہ ہم تو جانتے ہو
گے کہ بوزنے تصویر کشی نہیںکر سکتے۔ جیسا کہ پچھلے باب میں کہا جا چکا ہے
ہماری ملاقات زمانہ تاریخ سے قبل والی جدہ سے صرف عجائب گھر میںہو سکتی ہے۔
لیکن یہاں بھی یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ وہ اس زمانے میںکیسی لگتی تھیں
کیونکہ اب ان کی صرف چند ہڈیاں اور دانت ہی باقی رہ گئے ہیں جو افریقہ،
ایشیا اور یورپ کے مختلف حصوں میں پائے گئے ہیں۔
ہمیں اپنے ہیرو کے ”چھیرے بھائی بہنوں” سے واقفیت حاصل کرنے کا زیادہ اچھا
موقع ہے۔
آدمی تو مدتیں ہوئیں ماقابل تاریخ کے گرم منطقے والے جنگلات چھوڑ کر پوری
طرح زمین پر آباد ہو گیا ہے۔لیکن اس کے رشتے دار گوریلا، چمپانزی، لنگور
اور اور انگ اوتان اچھی تک جنگلی جانور ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ بات پسند نہیں
ہے کہ ان کو ایسے ذلیل اور حقیر رشتے داروں کی یاد دلائی جائے۔ بعض تو اس
دور کے رشتے سے بالکل ہی انکار کرتے ہیں۔ اورایسے بھی لوگ ہیں جو اس بات کی
طرف اشارے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں کہ آدمی اور چمپانزی کی جدہ ایک ہی ہے۔
لیکن حقیقت تو ضرورت سامنے آئے گی۔ ہم یہ ساری کتاب اس کے ثبوت سے پھر سکتے
تھے کہ آدمی اور بوزنے میں رشتے داری ہے۔ پھر بھی اس موضوع پر طویل اورا
لجھے ہوئے بحث ومباحثے کے بغیر اگر کوئی آمی چڑیا گھر میں جاکر ایک گھنٹہ
بھی چمپانزی اور اورانگ اوتان کو غور سے دیکھے تو اس خاندانی مشابہت پر
حیرت ہو گی جو آدمی اور ان بوزنوں میں ہے۔
ہمارے رشتے دار رافل اور روزا
چند سال ہوئے مشہورروسی سائنس داں ایوان پاولوف کی لیباریٹری میں جو لینن
گراد کے قریب موضع کو لتوشی میں (اب یہ گائو پاولووا کہلاتا ہے) واقع ہے دو
چمپانزی لائے گئے جن کے نام تھے رافائل اور روزا۔
آدمی اپنے بیچارے جنگلی رشتے داروں کے ساتھ زیادہ مہربانی کا برتائو نہیں
کرتا اور عام طور پر انہیں سیدھا پنجروں میں بند کر دیتا ہے۔ لیکن اس موقع
پر افریقہ کے جنگل کے مہمانوں کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا گیا۔ ان کو علحدہ
ایک فلیٹ رہنے کے لئے دیا گیا جس میں سونے، کھانے اور کھیلنے کے کمرے اور
غسل خانہ تھا۔ ان کے لئے سونے کے کمرے میں آرام دہ بستر اور چھوٹی میزیں
تھیں۔ کھانے کے کمرے میں میز سفید میز پوش سے ڈھکی ہوئی تھی۔ الماری کے
خانے کھانے کی چیزوں سے بھرے تھے۔
اس آرام فلیٹ کی کسی بات سے یہ گمان نہیںہوتاتھا کہ اس کے رہنے والے بوزنے
ہیں۔ کھانا ہمیشہ پلیٹوں میں دیا جاتا تھا۔ اور کھانے کے لئے چمچے ہوتے
تھے۔ رات کو بستر بچھائے جاتے ہیں اور تکیوں کو نرم کر دیا جاتا تھا۔یہ سچ
ہے کہ کبھی کبھی مہمان بد سلیقگی کا مظاہرہ کرتے تھے اور پلیٹوں سے پھل کا
رس سڑ سڑا کر پیتے تھے اور رات کو تکیوں پر سر رکھنے کی بجائے سر پر تکئے
رکھ لیتے تھے۔
پھر بھی اگر رافائل اورروزا کے عادات واطوار انسانوں جیسے نہ تھے تو ان
سے قریب تو ضرور تھے۔
مثلاً روزا ایک گھر گرہست عورت کی طرح الماری کی کنجیوں کا گچھا استعمال
کرنا جانتی تھی۔ یہ کنجیاں نگراں کی جیب میں رہتی تھیں۔ روزا چیکے چیکے
پیچھے سے آتی اور اس سے گچھا چھین لے جاتی۔ وہ آنکھ جھپکا تے میں الماری کے
پاس پہنچ جاتی، کرسی پرچڑھ کر قفل میں ٹھیک کنجی لگاتی۔ شیشے کے مزیدار
خوبانیوں کے اوپر انگور کے خوشے دیکھتی۔ کلائی کی ہلکی سی حرکت سے قفل کو
کھول دیتی اور روزا کے ہاتھ میں انگوروں کا ایک خوشہ ہوتا۔
ہمیں رافائل کے بارے میں بھی نہیں بھولناچاہئے۔ اس کے سبقوں میں کیا منظر
ہوتا تھا! اس کی ٹریننگ کی چیزوں میں خوبانیوں کی ایک چھوٹی سی ٹوکری اور
مختلف سائز کے سات بلاک تھے۔لیکن یہ ویسے بلاک نہ تھے جن سے بچے کھیلتے
ہیں۔ رافائل کے بلاک ان سے کہیں بڑے تھے۔ سب سے بڑا معمولی اسٹول کے برابر
تھا اور سب سے چھوٹا ایک نیچی تپائی جیسا۔ خوبانیوں کی ٹوکری چھت میں لٹکا
دی جاتی تھی۔ اب رافائل کے سامنے یہ مسئلہ ہوتا تھا کہ وہ خوبانیوں تک کیسے
پہنچے اور ان کو کھائے۔
پہلے تو رافائل اس مسئلے کو نہیں حل کر سکا۔
گھر پریعنی جنگل میں تو اس کوپھل حاصل کرنے کے لئے بہت اونچائی تک چڑھنا
پڑتا تھا۔ لیکن یہاں تو پھل کسی شاخ پر نہیں تھے۔ وہ ہوا میں لٹک رہے تھے
اور صرف سات بلاکوں کے ذریعے اوپر چڑھا جا سکتا تھا۔ لیکن اگر سب سے بڑے
بلاک کے اوپر بھی چڑھتا تو وہ خوبانیوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔
پھلوں تک پہنچنے کی کوشش کے دوران میں بلاکوں کو لڑھکاتے ہوئے رافائل نے یہ
دریافت کی کہ اگر وہ ان بلاکوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر چڑھے تو وہ
خوبانیوں سے بہت قریب پہنچ جائے گا۔ رفتہ رفتہ، وہ تین بلاکوں کا مینار
بنانے میںکامیاب ہوا، پھر چار اور پانچ کا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ
وہ ان کو اوپر نیچے جیسے چاہے نہیں لگا سکتا تھا۔ ان بلاکوں کا ایک مقررہ
نظام تھا۔ پہلے سب سے بڑا، پھر اس سے کم بڑا اور پھر اسی طرح اورکم بڑے۔
بہت بار رافائل نے چھوٹے بلاکوں کو اوپر بلاک چنے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پورا
ڈھیر ہلنے لگا اور گرنے کے قریب ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بس پورا
ڈھیر مع رافائل کے ایک لمے میں نیچے آرے گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ
بہر حال وہ بندر تھا ور چست وچالاک اور تیز بھی۔
آخر کار مسئلہ حل ہو گیا۔ رافائل نے سائز کے لحاظ سے ساتوں بلاک اوپر نیچے
چن دئے جیسے کہ واقعی اس نے وہ ساتھ نمبر پڑھ لئے ہوں جو ان بلاکوں پر بنے
تھے۔
جب وہ ٹوکری تک پہنچ گیا تو اس ہلتے ہوئے مینار پر بیٹھ کر اس نے مزے سے
خوبانیاں کھائیں جو بڑی محنت سے حاصل کی تھیں۔
اور کون جانور ایسا انسانی طریقہ اختیار کر سکتا تھا؟ کیا کوئی کتا بلاکوں
کا ایسامینار بنا سکتا تھا؟ حالانکہ کتا تو بہت سمجھدار جانور ہوتا ہے۔
وہ سب لوگ جو رافائل کو کام کرتے دیکھتے تھے انسان سے اس کی مشابہت پر
حیران رہ جاتے تھے۔ وہ بلاک اٹھاتا، اس کو اپنے شانے پر رکھتا اور اس کو
ایک ہاتھ سے سنبھال کر ڈھیر تک لے جاتا۔ لیکن اگر وہ غلط سائز کا بلاک ہوتا
تو رافائل اس کو نیچے رکھ دیتا اور اس پر بیٹھ جاتا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔
ذرا دیر آرام کرنے کے بعد وہ اپنی غلطی دور کرنے کے لئے پھر کام کرنے لگتا۔
کیا چمپانزی آدمی بن سکتا ہے؟
لیکن اگر یہ صورت ہے توکیا چمپانزی کو آدمی کی طرح چلنا، باتیں اور کام
کرنا نہیں سکھایا جا سکتا؟
برسوں پہلے جانوروں کے مشہور ٹرینر ولاد یمپر دوروف کا خیال تھا کہ ایسا
ممکن ہے۔ انہوں نے اپنے پالتو چمپانزی کو تربیت دینے کی مہینوں کوشش کی۔
میمس بڑا اچھا شاگرد تھا۔ اس نے چمچے سے کھانا، تولیہ استعمال کرنا، کرسی
پر بیٹھنا، میز پوش پر گرائے بغیر اپنا شوربہ کھانا، حتی کہ برف گاڑی میں
بیٹھ کر پہاڑی سے نیچے پھسلنا تک سیکھ لیا۔
لیکن وہ کبھی انسان میں نہیں تبدیل ہو سکتا تھا۔
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیںہے کیونکہ انسان اور بوزنے کے طور طریقے
لاکھوں سال پہلے الگ الگ ہو گئے تھے۔ ماقابل تاریخ کے دور میں انسان کے
اجداد درختوں سے زمین پراترنے اورا نہوں نے دو پیروں پر سیدھے کھڑے ہو کر
چلنا سیکھا اور اس طرح انہوں نے اپنے ہاتھوں کو کام آزاد کیا۔ لیکن چمپانزی
کے اجداد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے درختوں ہی پر ہے اور وہ پہلے سے زیادہ درختوں
پر رہنے کے عادی بنتے گئے۔
اسی لئے چمپانزی کی بناوٹ آدمی جیسی نہیں ہے۔ اس کے ہاتھ، پیر، زبان اور
دماغ سب مختلف ہیں۔ کسی چمپانزی کاہاتھ غور سے دیکھو۔ وہ بالکل انسانی ہاتھ
کی طرح نہیں ہوتا ہے۔ چمپانزی کا انگوٹھا اس کی چھنگلیا سے چھوٹا ہوتا ہے،
ہماری طرح اس کا انگوٹھا دوسری انگلیوں کے ساتھ زوایہ نہیں بناتا۔ لیکن
انگوٹھا ہماری انگلیوں میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یعنی ان پانچ
مزدوروں کی ٹیم میں جس کو ہم ہاتھ کہتے ہیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے
یعنی ان پانچ مزدوروں کی ٹیم میں جس کو ہم ہاتھ کہتے ہیں سب سے ضروری۔
انگوٹھا دوسری چار انگلیوں میں کسی ایک کے ساتھ یا سب کے سات مل کر کام کر
سکتا ہے۔ اسی لئے انسانی ہاتھ سب سے زیادہ پیچیدہ آلات و اوزار کو بھی بڑی
مہارت سے استعمال کر سکتا ہے۔
جب کوئی چمپانزی کسی درخت سے پھل توڑنا چاہتا ہے تووہ اکثر شاخ کو اپنے
ہاتھوں سے پکڑ لیتا ہے اور پھل کو پیر کی انگلیوں سے توڑتا ہے۔ جب چمپانزی
زمین پر چلتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ کی مڑی ہوئی انگلیوں پر زیادہ زور دیتا
ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ ا کثر اپنے ہاتھوں کو پیروں کی طرح اور پیروں
کو ہاتھوں کی طرح استعمال کرتا ہے۔
جانوروں کو سدھانے والے جو چمپانزی کو انسانی حرکات وطوار سیکھانا چاہتے
ہیں اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہاتھوں اور پیروں کے علاوہ انسان اور چمپانزی
میں ایک اور بھی بڑا فرق ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ انسان کے مقابلے میں
چمپانزی کا دماغ بہت چھوٹا ہوتا ہے اور اس کی ساخت بھی اتنی پیچیدہ نہیں
ہوتی جتنی انسانی کے دماغ کی۔
ایون پاولوف نے انسانی دماغ کے مطالعہ پر برسوں صرف کئے۔ ان کو روزا اور
رافائل کے طور پر طریقوں سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ ”بندر گھر” میں گھنٹوں رہتے
ہیں اور ان کا مطالعہ قریب سے کرتے تھے۔ یہ دونوں بندربالکل ناسمجھی سے
کام کرتے تھے۔ وہ کچھ کرنا شروع کرتے اور پھر کسی دوسری طرف متوجہ ہو کر اس
کے بارے میں بھول جاتے اور کسی دوسری بات سے دلچسپی لینے لگتے۔
مثلاً رافائل اپنا مینار بنانے میں لگ جاتا اور بہت ہی مصروف لگتا۔ اچانک
وہ کوئی گیند دیکھتا اور بلاکوں کے بارے میں بارے میں بالکل بھول کر اپنے
لمبے اور بالدار ہاتھ سے گیند اچھا لنے لگتا۔ ایک لمحہ بعد جب اس کو کوئی
مکھی فرش پر ینگتی نظر آجاتی تو وہ گیند کو بھول جاتا۔
اس انتشار کو دیکھ کر پاولوف نے ایک بار کہا تھا:
”بدنظمی ہے، بدنظمی!”
ہاں، بوزنوں کی بد نظم حرکتیں ان دماغ کے پرانتشار فعل کی صحیح طو رپر
آئینہ دار ہیں جو انسانی دماغ کے باقاعدہ اور مرکوز فعل سے بالکل مختلف
ہیں۔ پھر بھی چمپانزی میں سمجھ ہوتی ہے۔ وہ جنگل کی زندگی کابخوبی عادی
ہوتا ہے اوراپنی چھوٹی دنیا کی بہت سی نہ نظر آنے والی زنجیروں کا پابند۔
ایک بار ایک کیمرہ مین اس فلیٹ میں آیا جس میں روزا اور رافائل رہتے تھے۔
وہ ان کی فلم بنانا چاہتا تھا۔ فلم کی کہانی کے مطابق بندروں کو تھوڑی
دیرکے لئے باہر چھوڑناتھا۔وہ باہر نکلتے ہی قریب ترین درخت پر چڑھ گئے
اوران کی شاخوں میں بہت خوش خوش جھولنے لگے۔ ان کویہ درخت آرام دہ فلیٹ سے
زیادہ گھریلو لگا۔
افریقہ میں چمپانزی جنگل میں سب سے ”اوپری منزل” پر رہتا ہے۔ وہ اپنی رہائش
گاہ درخت پر بناتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں سے بچنے کے لئے درخت پر چڑھ جاتا ہے
اور درختوں سے وہ اخروٹ اور پھل بھی حاصل کرتا ہے جو اس کی غذا ہیں۔
وہ درخت کی زندگی کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ مسطح زمین پر چلنے کے مقابلے
میں درخت کے تنوں پر کہیں زیادہ آسانی سے چڑھ اتر سکتا ہے۔ تم کو چمپانزی
ایسی جگہوں پر کہیں نہ ملیں گے جہاں جنگل نہیں ہوتے۔
ایک بار ایک سائنس داں افریقہ میں یہ دیکھنے کے لئے کیمرون گیا کہ چمپانزی
اپنے قدرتی ماحول میں کیسے رہتے ہیں۔
اس نے تقریباً ایک درجن چمپانزی پکڑ کر اپنے فارم کے قریب جنگل میں چھوڑے
تاکہ وہ گھر کی طرح محسوس کریں۔ لیکن پہلے اس نے ایک نظر نہ آنے والا پنجرا
بنوایا تھا تاکہ وہ بھاگ نہ جائیں۔ یہ نظر نہ آنے والا بنچرا دو معمولی
اوازروں یعنی کلہاڑی اور آرے کے ذریعے بنایا گیا تھا۔
پہلے لکڑہاروں نے جنگل کے ایک چھوٹے سے رقبے کے گرد تمام درخت کاٹ دئے۔ بس
میدان کے بیچ میں درختوں کا ایک جھنڈرہ گیا۔ سائنس داں نے اپنے بوزنوں کو
اس جھنڈ میں آزاد چھوڑ دیا۔
اس کا منصوبہ کامیاب رہاکیونکہ بندر تو جنگل کے رہنے والے ہیں یعنی وہ اپنی
مرضی سے جنگل کبھی نہیں چھوڑتے۔ بندر اپنا گھر کھلے میدانوں میں نہیں بنا
سکتا جیسے کہ قطبی ریچھ اپنا گھر ریگستان میں نہیں بناتا۔
لیکن اگر چمپانزی جنگل نہیں چھوڑ سکتا تو اس کا دور کا رشتے دار آدمی جنگل
کو کیسے چھوڑ سکا؟
ہمارے ہیرو نے چلنا سیکھا
ہمارے ماقابل تاریخ والے جنگلی جد کو اپنا پنجرہ توڑنے، آزادی کے ساتھ جنگل
چھوڑنے اور استیپ اور بے درختوں والے میدانوں میں اپنا گھر بنانے
میںلاکھوں سال لگ گئے۔
درختوں پر رہنے والے جانور کو، اگروہ ان زنجیروں کو توڑنا چاہتا تھا جو اس
کو جنگل کا پابند رکھتی تھیں تو، درخت سے اتر کر زمین پر چلنا سیکھنا ہوتا
تھا۔
انسان کے کسی بچے کے لئے ہمارے زمانے میں بھی چلنا سیکھنا آسان نہیں ہے۔ جو
کوئی بھی کسی بالک گھر گیا ہے وہ جانتا ہے کہ وہاں ایسی چھوٹی عمر کے بچے
ہوتے ہیں جو ”رینگنے والے” کہلاتے ہیں۔ یہ ایسے بچے ہوتے ہیں جو ٹھہرنا
نہیں چاہتے لیکن چلنا بھی نہیں جانتے۔ ان ”رینگنے والوں” کو ”چلنے والا”
بننے کے لئے کئی مہینے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ذرا سوچو تو انہیں بلا کسی
سہارے کے، ہاتھوں سے زمین کو چھوٹے بغیر، سنبھلنے کے لئے کوسیوں یا بنچوں
کا سہارا لئے بغیر چلنا سیکھنا ہوتا ہے۔ اور اس طرح اپنے کو سنبھالنا
سائیکل سواری سیکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔
لیکن اگر بچے کو چلنا سیکھنے میں کئی مہینے لگتے ہیں توہمارے ماقابل تاریخ
کے اجداد کو یہ ہنر سیکھنے میں ہزاروں برس لگ گئے تھے۔
اس دور افتادہ زمانے میں وہ مختصر مدت کے لئے درختوں سے اترتے تھے۔ شاید وہ
ہمیشہ اپنے ہاتھوں پر نہیں جھکتے تھے بلکہ اپنے پچھلے پیروں پر کھڑے ہو کر
دو تین قدم دوڑتے تھے جیسا کہ چمپانزی کبھی کبھی اب بھی کرتے ہیں۔
بہر حال دو تین قدم تو پچاس یا سو قدم نہیں ہیں۔
انسان کے پیروں نے ہاتھوں کو کام کے لئے کیسے آزاد کیا
جب ہمارے ماقابل تاریخ کے اجداد درختوں پر رہتے تھے تبھی انہوں نے اپنے
ہاتھوں کو رفتہ رفتہ پیروں سے مختلف کاموں کے لئے استعمال کرنا سیکھا تھا۔
وہ پھلوں اور اخروٹوں کو توڑنے اور درختوں کے دو شاخوں میں اپنے گھونسلے
بنانے کے لئے ہاتھوں کو استعمال کرنے لگے۔
لیکن جو ہاتھ اخروٹ پکڑ سکتا تھا وہ کوئی ڈنڈا یا پتھر بھی پکڑ سکتا تھا۔
اور ہاتھ میں کسی ڈنڈے یا پتھر کا مطلب یہ ہوا کہ ہاتھ زیادہ لمبا اور
مضبوط ہو گیا۔
پتھر کسی سخت اخروٹ کو توڑ سکتا تھا اور ڈنڈے سے کوئی مزیدار جڑ زمین کے
اندر سے کھود کر نکالی جا سکتی تھی۔
اس طرح ماقبل تاریخ کا آدمی ان اوزاروںکو اپنی غذا کے حصول کے لئے زیادہ سے
زیادہ استعمال کرنے لگا۔ ڈنڈے سے کھود کر وہ جڑیں اور کند اوپر کھینچ لیتا
تھا بڑے بڑے پتھروں سے درختوں کے ٹھنٹھ کو ٹھونک ٹھونک کر وہ کیڑوں کے
انڈے باہر نکال لیتا تھا۔ پھر بھی اس کے لئے ہاتھوں سے کام لینے کی ایک ہی
صورت تھی یعنی ان کو چلنے کے کام میں استعمال سے آزاد کرے۔ اس کے ہاتھ جتنے
ہی مصروف ہوتے اتنا ہی زیادہ پیروں کو چلنے کا مسئلہ حل کرنا پڑتا۔
اس طرح اس کے ہاتھ اس کے پیروں کو چلنے پر مجبور کرتے اور اس کے پیر ہاتھوں
کو کام کے لئے آزاد کر دیتے۔
یوں ایک نئی مخلوق کا دنیا وجود ہوا جو اپنے پچھلے پیروں پر چلتی تھی او
رہاتھوں سے کام کرتی تھی۔ صورت شکل میں یہ مخلوق ابھی تک بہت کچھ جانوروں
جیسی تھی۔ لیکن اگر تم اس کو ڈنڈا یا پتھر لے کر چلتے دیکھتے تو فوراًکہتے
کہ یہ جانور ابتدائی انسانی نسل کا ہے۔ دراصل صرف آدمی ہی اوزاروں کا
استعمال جانتا ہے۔ جانوروں کے پاس تو آلات واوزار نہیں ہوتے۔
جب کوئی پھدکنے ولا چوھا یا چھچھو ندر اپنی بھٹ کھودتے ہیں تو ان کو صرف
پنجوں سے کام لینا ہوتا ہے۔ ان کے پاس پھائوڑے تو نہیں ہوتے۔ جب کوئی چوھا
کسی لکڑی کو کاٹتا اورکریدتا ہے تو وہ چاقوسے نہیں بلکہ اپنے دانتوں سے
ایسا کرتا ہے۔ اور جب کوئی ہدہد درخت کی چھال کو ٹھونگیں مارتا ہے تو وہ
اپنی چونچ سے کام لیتا ہے نہ کہ کسی رکھانی سے۔
ہمارے ماقبل تاریخ والے اجداد کے پاس نہ تو رکھانی جیسی چونچ تھی اور نہ
پھائوڑوں جیسے پنجے اور نہ بلیڈ کی طرح تیز دانت۔
لیکن ان کے پاس ایسی چیز تھی جوا نتہائی تیز دانتوں اور بہت مضبوط چونچوں
سے کہیں بہتر تھی۔ ان کے پاس ہاتھ تھے جن کو وہ زمین سے کاٹنے والے پتھر
اور لمبے چوبی پنجوں کو اٹھانے کے لئے استعمال کرسکتے تھے۔
ہمارا ہیرو زمین پر اترتا ہے
جب یہ واقعات ہو رہے تھے تو آب وہوا بھی رفتہ رفتہ بدل رہی تھی۔ ہمارے
زمانہ تاریخ سے قبل والے اجداد کے جنگلوں میں راتیں زیادہ ٹھنڈی ہوتی جاتی
تھیں اور جاڑوں میں بہت زیادہ سردی پڑنے لگی تھی۔ حالانکہ آب وہوا اب بھی
گرم تھی لیکن اس کو خوب گرم نہیں کہا جا سکتا ہے۔
پہاڑیوں اورپہاڑوں کی شمالی ڈھلانوں پر رفتہ رفتہ سدا بہار پام، مینگولیا
اور لارل کی جگہ بلوط اور لینڈن لے رہے تھے۔
دریائوں کے کنارے گہری پرتوں میں لوگوںکو اکثر بلوط یالائم کی پتھرائی ہوئی
پتیاں ملتی ہیں جو لاکھوں سال پہلے کسی سیلاب میں دریا کے ذریعے یہاں
پہنچی تھیں۔
جنوبی ڈھلانوں اور نشیبوں میں انجیر کے درخت اور انگور کی بیلیں ٹھنڈی
ہوائوں سے محفوظ رہیں۔ گرم خطوں کے جنگلوں کی سرحدیں اور جنوب کی طرف پیچھے
ہٹتی گئیں۔ اور ان جنگلی جھاڑ جھنکار کے باسی ہاتھی اور خنجر جیسے تیز
دانتوں والے چیتے بھی جو اب بہت نایاب ہوتے جاتے تھے، جنوب کی طرف پیچھے ہٹ
رہے تھے۔
جہاں پہلے جنگلی جھاڑ جھنکار تھے وہاں درختوں نے الگ ہو کر ایسے روشن میدان
بنا دئے جہاں دیوقد ہرن اور گینڈے چرتے تھے۔ کچھ بندر بھی جنگل کے ساتھ
ساتھ پیچھے ہٹے اور دوسری قسمیں ختم ہو گئیں۔
جنگل میں انگور کی بیلوں کی تعداد گھٹتی گئی، انجیر کے درختوں کو پانا مشکل
ہو گیا۔ جنگلوں سے گذرنا اور زیادہ دشوار ہو گیا کیونکہ اب وہ چھدرے ہو
گئے تھے اور ان کے باسیوں کو درختوں کے ایک جھنڈ سے دوسرے جھنڈ تک پہنچنے
کے لئے زمین پر چلنا پڑتا تھا۔ درخت پررہنے والوں کے لئے یہ آسان کام نہ
تھاکیونکہ اس طرح درندوں کا شکار بننے کا زیادہ امکان تھا۔
لیکن وہ مجبور تھے۔ بھوک پیاس ان کو درختوں سے نیچے لاتی تھی۔ ہمارے ماقبل
تاریخ کے اجداد غذا کی تلاش میں زمین پر اکثر آنے کے لئے مجبور ہوئے۔
جب انہوں نے اپنا مانوس پنجرہ یعنی جنگل کی دنیا چھوڑی جس کے وہ عادی تھے
تو کیا ہوا؟
انہوںنے جنگل کے قوانین کو توڑ دیا۔ انہوں نے وہ زنجیریں توڑ دیں جن سے ہر
جانور نظام قدرت میں ایک جگہ کا پابند ہوتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ جانور اور پرندے بدلتے رہتے ہیں۔ قدرت میںکوئی بھی چیز
یکساں نہیںرہتی۔ لیکن یہ تبدیلی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایک چھوٹے جنگلی
جانور کو جس کے تیز پنجے تھے آج کا گھوڑا بننے میں لاکھوں سال لگ گئے۔ ہر
جانور بچپن میں اپنے والدین سے بہت مشابہ ہوتا ہے۔ بلکہ کوئی فرق مشکل سے
ہوتا ہے۔ جانور کی کسی نئی قسم کے ارتقا میں ہزاروں نسلیں گذر گئیں، ایسی
قسم میں تبدیلی کے لئے جو اپنے اجداد سے بالکل مختلف تھی۔
اورہمارے ماقبل تاریخ کے اجداد کا کیا حال ہوا؟
اگر وہ اپنی عادات اوطوار نہ بدل سکتے تو ان کو بھی بندر کے ساتھ جنوب کی
طرف ہٹنا پڑتا۔ لیکن وہ بندروں سے مختلف تھے کیونکہ اب وہ جان گئے تھے کہ
پتھروں او لکڑی کے دانتوں اور پنجوں سے کس طرح غذا حاصل کی جا سکتی ہے
انہوں نے یہ سیکھ لیا تھا کہ رس دار جنوبی پھلوں کے بغیر، جو جنگلوں میں
کمیاب ہوتے جاتے تھے، کیسے رہا جائے۔ ان کو اس بات سے پریشانی نہ تھی کہ
جنگل چھدرے ہوتے جا رہے تھے کیونکہ انہوں نے زمین پر چلنا سیکھ لیا تھا
اورکھلی اور بے درخت جگہوں سے ڈرتے نہیں تھے۔ اور اگر کوئی دشمن ان کے
راستے میں آتا تھا تو بندر مانس کا سارا غول ڈنڈوں اور پتھروں سے اپنی
حفاظت کرتاتھا۔
جب سخت دور آیاتو اس نے بندر مانس کو نہ تو ختم کیا اور نہ ان کو جنوبی
جنگلوں کے ساتھ پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکا۔ صرف اس نے بندر مانس کے آدمی
بننے کی رفتار تیز کر دی۔
اورہمارے دور کے رشتے دار بندروں کا کیا حشر ہوا؟
وہ جنوبی جنگلوں کے ساتھ پیچھے ہٹے او رسدا کے لئے جنگل کے باسی بنے
رہے۔دراصل ان کے سامنے کوئی دوسرا ہی نہ تھا۔ وہ ہمارے اجداد سے ارتقائی
مدارج میں پیچھے رہ گئے تھے اور نہوں نے اوزاروں کا استعمال ہی نہیں سیکھا
تھا۔اس کی بجائے انتہائی چست وچالاک بندروں نے درختوں پر چڑھنا اور شاخوں
سے جھولنا پہلے سے بہتر سیکھا لیا تھا۔
جو بندر درختوں پر چڑھنے میںکم مہارت رکھتے تھے اور درختوں کی زندگی کے
عادی نہیں بن سکے تھے ان میں سے صرف سب سے بڑے اور طاقتور بندر بچ گئے۔مگر
بندر جتنا ہی زیادہ بھاری اور بڑا ہوتا اتنا ہی زیادہ اس کو درخت پر کی
زندگی مشکل معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے ان بڑے بڑے بندروں کومجبوراً درختوں سے
اترنا پڑا۔گوریلا اب بھی جنگل میں زمین والی منزل پر رہتے ہیں۔ ان کے
ہتھیار نہ تو ڈنڈے ہیں اورنہ پتھر بلکہ وہ بڑے دانت ہیں جو ان کے طاقتور
جبڑوں سے باہر نکلے ہوتے ہیں ۔
اس طرح آدمی اور اس کے دور کے رشتے داروں میں ہمیشہ کے لئے جدائی ہو گئی۔
گم شدہ کڑی
آدمی نے دونوں پیروں پر چلنا یک دم نہیں سیکھ لیا۔ پہلے تو وہ لڑکھڑا کر
چلتا تھا۔
پہلا آدمی یایہ کہنا زیادہ ٹھیک ہو گا کہ بندر مانس کیسا لگتا تھا؟
کرہ ارض پر بندر مانس کہیں نہیں رہ گیا ہے۔ لیکن کیا اس کی ہڈیاں بھی کہیں
نہیں ملتی ہیں؟
اگریہ ہڈیاں مل جائیں تو یہ اس کا حتمی ثبوت ہو گا کہ انسان بندر کی اولاد
ہے۔ کیونکہ بندر مانس قدیم ترین آدمی تھا، اس زنجیر کی اہم کڑی جو بندروں
سے شروع ہوتی ہے اور جدید انسان پر ختم ہوتی ہے۔ بہر حال یہ اہم کڑی کہیں
دریا کے کناروں کی پرتوں میں، مٹی اور ریت کی تہوں میں لاپتہ ہو گئی ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ زمین کی کھدائی میںماہر ہوتے ہیں۔ لیکن کھدائی شروع کرنے
سے پہلے ان کو وہ جگہ طے کرنا چاہئے جہاں اہم کڑی کی تلاش کرنی ہے۔ کسی
چیز کی کھوج ساری دنیا میںکرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور قدیم آدمی کی
ہڈیاں زمین میں اس طرح چھپی ہیںجیسے بھوسے کے ڈھیر میںسوئی۔
انیسویں صدی کے آخر میں ایک جرمن ماہر حیاتیات ایرنسٹ ہیکل نے یہ مفروضہ
پیش کیا کہ بندر مانس (جیسا کہ سائنس داں اس کو کہتے ہیں)کی ہڈیاں کہیں
جنوبی ایشیا میںمل سکتی ہیں۔اس نے دراصل وہ ٹھیک ٹھیک جگہ بھی بتا دی جہاں
اس کے خیال میں یہ ہڈیاں محفوظ ہیں۔ یہ سنڈا کے جزیرے تھے۔
بہت سے لوگ اس سے متفق نہیں تھے۔لیکن اس کے نظریے کو بھلایا نہیں گیا۔خاص
طور سے ایک آدمی تو اس سے اتنا متاثر تھاکہ وہ اپنا سارا کام کاج ترک کرکے
جزائر سنڈا کو روانہ ہو گیا تاکہ وہ مفروضہ کی مفروضہ باقیات تلاش کرے۔
یہ آدمی آمسٹرڈام یونیورسٹی میںتشریح اعضا کے علم کا لکچرر تھا اور اس کا
نام ڈاکٹر ایوگینی ڈیوبوا تھا۔
ان کے بہت سے ساتھ اور پروفیسر حیرت سے سر ہلاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوئی
معقول آدمی اس بے مقصد تگ و دو میں نہیں پڑ سکتا۔ ان انتہائی معزز ہستیوں
کا آنا جانا صرف آمسٹرڈام کی خاموش سڑکوں سے یونیورسٹی تک محدود تھا۔
اپنے جرأت آمیز منصوبے کے لئے کام کرنے کی غرض سے ڈاکٹر ڈیوبوا کو
یونیورسٹی کی ملازمت ترک کرنی پڑی۔ وہ فوج میں بھرتی ہو کر سماترا روانہ ہو
گئے جہاں ان کو ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرنا تھا۔
جزیرہ سماترا میں قیام کے دوران میں انہوں نے اپنا سارا وقت اس تلاش کے لئے
وقف کر دیا۔ ان کی زیر نگرانی مزدوروں نے کھدائی کرکے مٹی کے پہاڑ بنا دئے
ایک، دو اور تین مہینے گذر گئے لیکن کی ہڈیوں سے مشابہ کوئی چیز نہ ملی۔
اگر آدمی کسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش کرتا ہے تو وہ کم از کم یہ جانتا ہے
کہ وہ وہیں کہیں ہے اوراگر وہ اس کی تلاش توجہ سے کرے تو مل جائے گی۔لیکن
ڈیوبواکی صورت حال اس سے کہیں بری تھی۔یہ محض قیاس تھا۔ اور وہ قطعی طور پر
یہ نہیںکہہ سکتے تھے کہ ایسی باقیات کا واقعی وجود ہے۔ پھر بھی انہوں نے
استقلال کے ساتھ تلاش جاری رکھی۔ ایک، دو، تین سال گذر گئے لیکن ”گم شدہ
کڑی” کہیں نہ ملی۔
ان کی جگہ پر کوئی اور ہوتا تو سارے خیال کو حماقت جان کر ترک کر دیتا لیکن
ڈاکٹر ڈیوبوا کسی چیز کوادھورا چھوڑنے والے نہیں تھے۔
جب ان کو یقین ہو گیا کہ بندر مانس کی باقیات ان کو سماترا میں نہیں مل
سکتیں توانہوں نے جزیرہ جاوا میں ان کو کھوجنے کا فیصلہ کیا۔ اور یہاں ان
کوآخر کار کامیابی ہوئی۔
ڈیوبوا کو یہاں دریائے سولو کے کنارے ترینیل گائوں کے قریب کی ہڈیاں ملیں۔
ان میں ایک ران کی ہڈی، کھوپڑی کااوپری حصہ اورکئی دانت تھے بعد کو ران کی
ہڈیوںکے کئی اور ٹکڑے بھی یہیں قریب ملے۔
ڈبوئوا نے اپنے ماقبل تاریخ کے جد کی کھوپڑی کو غور سے دیکھتے ہوئے یہ تصور
کرنے کی کوشش کی کہ وہ کیسا ہو گا۔ بندر مانس کی پیشانی نیچی اور چیٹی تھی
جس میں آنکھوں کے اوپر ایک موٹی ہڈی ابھری تھی۔ چہرہ انسان سے زیادہ بندر
سے مشابہ تھا۔ لیکن کھوپڑی کے گہرے مطالعہ نے ڈیوبوا کو یہ یقین دلا دیا کہ
بندر سے کہیں زیادہ ذہین تھاکیونکہ اس کا دماغ بندر سے کہیں بڑا تھا۔
دراصل کھوپڑی حصہ، دانت اورایک ران کی ہڈی ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے آگے
بڑھا جا سکے۔ پھر بھی گہرے مطالعہ کے ذریعے ڈیوبوا نے بندر مانس کی زندگی
کے بہت سے واقعات کاجوڑ توڑ کر لیا۔ اس طرح ران کی ہڈی نے یہ دکھایا کہ وہ
اپنے خمیدہ پیروں سے گھسیٹ کر چل لیتا تھا۔
ڈیوبوا نے تصور کیا کہ جیسے وہ بندر مانس کو جنگل کی ایک کھلی جگہ سے گذرتے
ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اس کا بدن جھک کر دوہرا ہو رہا ہے، اس کے شانے بھی
جھکے ہیں اور اس کے لمبے ہاتھ زمین کو چھو رہے ہیں۔ بھوئوں کی بھاری ابھری
ہڈی کی نیچے آنکھیں زمین پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ نہیں چاہتا تھا۔ کہ اس کی
نگاہ سے کوئی کھانے والی چیز چوک جائے۔
وہ اب بندر نہیں تھا لیکن فی الحال آدمی بھی نہیں ہوا تھا۔ ڈیوبوا نے اس
بندر مانس کا نام رکھا کیونکہ دوسرے بندروں کے مقابلے میں وہ زیادہ سیدھا
چلتا تھا۔
تم شاید یہ سمجھ لو کہ ڈیوبوا اپنی آخری منزل تک پہنچ گئے؟ آخرکار پراسرار
کو دریافت کر لیا گیا! لیکن اس کے بعد ڈیوبوا کی زندگی کے انتہائی سخت دن
اور سال آئے انہوں نے دیکھا کہ زمین کی موٹی تہوں کو کھودنا انسانی تعصبات
کی گہرائیوں کوچاک کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔
ایوگینی ڈیوبوا کی دریافت پر ہر طرف سے غصے اور مضحکے کا اظہار کیا گیا
کیونکہ بہت سے لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنا نہیںچاہتے تھے کہ انسان اور بندر
میں ماقبل تاریخ کے اجداد مشترک ہیں ۔ کلیسا اور اس کے پیروئوں کا کہنا
تھاکہ ڈیوبوا نے جو کھوپڑی پائی ہے وہ کسی گیبون لنگور کی ہے اور ران کی
ہڈی آدمی کی ہے۔ ڈیوبوا کے دشمنوں نے اسی پر اکتفا نہیں کہ وہ جاوا کے بندر
مانس کو بندر اور آدمی کا مرکب ثابت کرتے بلکہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی
کوشش کی کہ ڈھانچے کی جو ہڈیاں ڈیوبوا کو ملی ہیں وہ حال کی ہیںاور صرف چند
سال ہوئے زمین میں دفن ہوئی تھیں اور ڈیوبوا کے اس دعوے کی کوئی حقیقت
نہیں ہے کہ وہ ہزار ہا سال پرانی ہیں۔ انہوں نے کو پھر دفن کرنے، اس کو مٹی
میں پھر دبانے اور اس کو بھلانے کی کوشش کی۔
ڈیوبوا نے اپنی دریافت کی ہمت کے ساتھ تصدیق کی اور وہ سب لوگ جو سائنس کے
لئے اس کی اہمیت کو سمجھتے تھے ان کی طرف تھے۔
اپنے مخالفین سے بحث میں ڈیوبوا نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ کھوپڑی کسی طرح
بھی گیبون لنگور کی نہیں ہو سکتی اس کی پیشانی نہیں سکتی کیونہ اس کے
پیشانی نہیں ہوتی اور Pithcanthropusکے ہوتی ہے۔
زمانہ گذر گیا لیکن Pithecanthropus پھر بھی انسانی خاندان سے الگ ہی رکھ
گیا۔
اچانک سائنس دانوں نے ایک نیا بندر مانس دریافت کیا جو Pithecanthropus سے
بہت مشابہ تھا۔
بیسویںصدی کی ابتدا میں ایک یورپی سائنس داں چین کے شہر پیکنگ میں ایک دیسی
دواخانے میں پہنچ گیا۔ وہاں جو انوکھی چیزیں رکھی تھیں ان میں ژین شین کی
شفابخش جڑ، مختلف تعویذ، جانوروں کی ہڈیاں اور دانت تھے ۔ جانوروں کے
دانتوں میں اس نے ایک دانت ایسا بھی دیکھا جو وہاں بالکل بے جوڑ تھا کیونکہ
وہ کسی معروف جانور کا نہیں معلوم ہوتا تھا۔ پھر بھی اس میں انسانی دانت
کا شائبہ تھا۔
سائنس داں نے یہ دانت خرید کر یورپ کے ایک میوزیم کو بھیج دیا۔ اس کو وہاں
”چینی دانت” کا عام سا نام دے دیا گیا۔
اس کو 25 سال سے زیادہ گذر گئے۔ پھر پیکنگ کے قریب چوکوتیان کے غار میں اسی
طرح کے دو دانت اور پائے گئے اور پھر وہ بھی جس کے یہ دانت تھے۔ سائنس
دانوں نے اس کو Sinanthropus کا نام دیا۔
اس کا مکمل ڈھانچہ کبھی نہیں ملا۔ نئی دریافتوں میں تقریباً پچاس دانت، تین
کھوپڑیاں، گیارہ جبڑوں کے ٹکڑے، ران کی ہڈی کا ایک حصہ ایک ریڑھ کی ہڈی،
ایک ہنسلی، ایک کلائی اور پیر کا ایک ٹکڑا پائے گئے۔
اس کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ چوکوتیان کے غار میں بندر نما آدمیوں
کاایک بڑا گروہ رہتا تھا۔ لاکھوں سال کے دوران میں بہت سی ہڈیاں غائب ہو
گئی ہیں۔ لیکن جو ٹکڑے ملے ہیں وہ ان غار کے رہنے والوں کی تشکیل کے لئے
کافی ہیں۔ سائنس داں کو اگر ایک انگلی مل جائے تو وہ پورے جسم کو دریافت
کرلے گا۔
ہمارا یہ دوردراز زمانے کا ہیرو دیکھنے میں کیسا تھا؟
سچی بات تو یہ ہے کہ وہ ذرا بھی خوبصورت نہ تھا۔ اگر تم اس کو اچانک دیکھ
لیتے تو سہم جاتے کیونکہ اس آدمی کی چپٹی پیشانی، باہر کی طرف نکلا ہوا
لمبوترا چہرہ اور بالدار بازو تھے اوروہ اب بھی بہت کچھ بندر کی طرح تھا۔
دوسری طرف ایک منٹ یہ تصور کرنے کے بعدکہ وہ بندر تھا تم فوراً اپنا خیال
بدل دیتے کیونکہ کوئی بندر آدمی کی طرح سیدھا نہیں چلتا اور کسی بندر کا
چہرہ آدمی سے اتنا مشابہ نہیں ہے۔
اگر تم بندر نما آدمی کا تعاقب اس کے غار تک کرو تو سارے شبہات دور ہو
جائیں گے۔
وہ اپنے مڑے ہوئے پیروں پر لڑکھڑاتا دریا کے کنارے جاتا ہوا نظر آتا ہے۔
اچانک وہ بیٹھ جاتا ہے۔ اس کو ایک بڑے پتھر سے دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ
اس کو اٹھاتا ہے، غور سے دیکھتا ہے اور دوسرے پتھر پر زور سے مارتا ہے۔ اب
وہ اٹھ کر اپنی نئی دریافت کے ساتھ پھرلڑکھڑاتا ہوا روانہ ہو جاتا ہے۔ آخر
کار وہ دریا کے کنارے ایک ڈھلوان اونچائی پر پہنچتا ہے۔ وہاں ایک غار کے
دھانے پر اس قبیلہ جمع ہے۔ وہ سب ایک جھبرے، داڑھی والے بڈھے کے چاروں طرف
جمع ہیں جو اپنے پتھر کے اوزار سے ایک ہرن کو کاٹ رہا ہے۔ عورتیں کچے گوشت
کو اپنے ہاتھوں سے پھاڑ رہی ہیں۔ بچے دوڑ دوڑ کر گوشت کے ٹکڑے مانگ رہے
ہیں۔ غار کی گہرائیوں سے جلتی ہوئی آگ کی روشنی آرہی ہے۔
آخری شبہات بھی دور ہو جاتے ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا بھی بندر ہے جوآگ
جلا سکے اورپتھروں سے اوزار تیار کر سکے۔ لیکن تم پوچھ سکتے ہو کہ ہمیں
کیسے معلوم ہوا کہ بندر نما آدمی پتھروں سے اوزار بناتا تھا اور آگ کا
استعمال جانتا تھا؟
چوکوتیان کے غار نے اس سوال کا جواب دیا ہے۔ ان قدیم آدمیوں کی باقیات کا
جو ذخیرہ برآمد ہوا ہے اس میں دو ہزار سے زیادہ پتھر کے اوزار اور مٹی میں
ملی راکھ کی کوئی ساتھ میٹر دبیز پرت بھی پائی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا
کہ بندر نما آدمی اس غار میں سالہا سال تک رہے اور وہاں آگ دن رات جلتی
تھی۔ وہ آگ بنانانہیں جانتے تھے لیکن وہ اس کو بھی اسی طرح ”اکٹھا” کر لیتے
تھے۔ جیسے کھانے کے لئے جڑی بوٹیاں اور اوزاروں کے لئے پتھر جمع کرتے تھے۔
کسی جنگل میں آگ لگنے کے بعد آگ مل جاتی تھی۔ تاریخ سے قبل کا انسان کوئی
جلتا یہاں کوئلہ اٹھا لیتا اور اس کو بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی جائے رہائش
تک لے جاتا۔ یہاں غار میں بارش اور ہوا سے محفوظ وہ اس آگ کی حفاظت ایک بیش
بہا خزانے کی طرح کرتا۔
انسان قواعد کوتوڑتا ہے
ہمارے ہیرو نے ڈنڈوں اور پتھروں کا استعمال سیکھ لیا۔ اب وہ زیادہ مضبوط
اور آزاد ہو گیا۔ اب اگر قریب میں کوئی پھل یا میوے کا درخت نہ ہوتا تواس
کو پریشانی نہ ہوتی۔ وہ اپنی جائے رہائش سے غذا کی تلاش میں اور زیادہ دور
تک جاتا، جنگل ی ایک چھوٹی دنیا سے دوسری کو، زیادہ طویل وقت تک کھلے
میدانوں میں رہتا، تمام قواعد کو توڑنا اور وہ چیزیں کھاتا جواس نے پہلے
کھانے کی ہمت نہیں کی تھی۔
اس طرح انسان نے ابتدا ہی سے قوانین قدرت کو توڑنا شروع کیا۔درختوں کا باسی
اتر کر زمین پر گھومنے لگا۔ اس دو پچھلے پیروں پرکھڑے ہو کر چلنا شروع
کیا، ایسی چیزیںکھانا شرع کیں جو اس کے لئے نہیں تھیں، ایسے ذرائع سے غذا
حاصل کرنے لگا جو قدرتی نہیں تھے۔
دنیا میں تمام جانور اور پودے ایک دوسرے پر منحصر ہیںکیونکہ وہ آپس میں
”غذائی سلسلوں” کے ذریعے منسلک ہیں۔ جنگلوں میں گلہریاں صنوبر کے پھل کھاتی
ہیں اور مارٹین (Martens) گلہریوں کو کھا جاتے ہیں۔ اس طرح ایک سلسلہ ہے:
صنوبر کے پھل، گلہریاں، مارٹین۔ لیکن گلہریاں صرف صنوبر کے پھل ہی نہیں
کھاتیں۔ وہ کھمبیاں اور گری دار پھل بھی کھاتی ہیں۔ اور مارٹین ہی نہیں
دوسرے جانور اورپرندے بھی ایسے ہیں مثلاً شکرہ جو گلہری کا شکار کرتے ہیں۔
اس طرح دوسرا سلسلہ بنتا ہے: کھمبیاں اور گری دار پھل۔ گلہریاں۔ شکرہ۔ جنگل
کے سارے باسی ان سلسلوں کی کڑیاں ہیں۔
اپنی جنگل کی دنیا میںہمارا ہیرو بھی ایک ”غذائی سلسلے” کی کڑی تھا۔ وہ پھل
اور میوے کھاتا تھا اور ساتھ ہی تیز دانتوں والا چیتا اس کا شکار بھی کرتا
تھا۔
پھر ا چانک ہمارے ہیرو نے ان زنجیروں کو توڑنا شروع کر دیا۔ اس نے ایسی
چیزیں کھانا شروع کر دیں جو پہلے کبھی نہیں کھائی تھیں۔ اس نے تیز دانت
والے چیتے اور ایسے دوسرے جنگلی درندوں سے بچنا شروع کر دیا جو ہزاروں
لاکھوں سال سے اس کے اجداد کا شکار کر رہے تھے۔
وہ اتنا بہادر کیسے بن گیا؟ اس کو زمین پر اترنے کی ہمت کیسے ہوئی جہاں تیز
دانتوں والے خونخوار درندے اس کی گھات میں رہتے تھے؟ یہ توبالکل ایسا ہی
تھا جیسے کوئی چڑیا درخت سے اتر کر اس وقت زمین پر پھدکنے لگے جب بلی اس کے
انتظار میں نیچے بیٹھی ہو۔
انسان کی یہ نئی ہمت اس کے ہاتھ تھے۔ جو پتھر وہ اپنے ہاتھ میں پکڑتا تھا
اور جو لکڑی وہ جڑیں کھودنے کے لیے استعمال کرتا تھا اس کے ہتھیار تھے۔
آدمی کے اولین اوزار ہی اس کے ہتھیار بن گئے۔
پھر آدمی جنگلوں میںتنہا کبھی نہیں پھرتا تھا۔
آدمیوں کا پورا کا پورا غول اس جانور پر پل پڑتا جو ان پر حملہ کرتا اور
اپنے نئے ہتھیار سے اس کو مار بھگا تا۔
ہمیں آگ کے بارے میں بھی نہ بھولنا چاہئے۔ آگ کواپنا معاون بنا کر انسان
انتہائی خوفناک جانوروں کو بھی بھگا دیتا تھا۔
انسانی ہاتھوں کے چھوڑے ہوئے نشان
درخت سے زمین پر، جنگل سے دریائی وادیوں تک، اس طرح زمانہ تاریخ سے قبل کا
آدمی سفر کرنے لگا جب اس نے اپنی وہ زنجیر قطعی طورپر توڑ دی جس نے اس کو
درخت کا پابند کر رکھا تھا۔
ہمیں یہ کیسے معلوم ہو اکہ اس نے دریائی وادیوں کا رخ کیا؟ ایسے نشانات ہیں
جو ہم کو اس نتیجے تک پہنچاتے ہیں۔
لیکن یہ نشانات محفوظ کیسے رہ سکے؟
یہ عام قسم کے نشانات نہیں ہیں جن کو ”نشان قدم” کہتے ہیں۔ یہ انسانی
ہاتھوں کے چھوڑے ہوئے نشان ہیں۔
کوئی ایک صدی ہوئے فرانس کے دریا سرما کی وادی میں مزدور ریت اور کنکر
کھودرہے تھے۔
بہت دنوں پہلے جب یہ دریا بالکل نوخیز تھا اور اپنا راستہ زمین پر بنا رہا
تھااس وقت یہ ایسا طوفانی تھا کہ اپنے ساتھ بڑی بڑی چٹانیں بہا لاتا تھا۔
بہائو کے دوران میں چٹانیں ایک دوسرے سے ٹکراتیں اور ایک دوسرے کو گھس
دیتیں اور اس عمل میں وہ گول، چکنی اور چھوٹی ہو جاتیں۔ بعد کی منزل میں جب
دریا زیادہ پرسکون اور سست رفتار ہو گیا تو اس نے ان پتھروں کو ریت اور
مٹی کی پرت سے ڈھک دیا۔
یہی ریت اور مٹی کھود کر مزدور نیچے کے پتھر نکال رہے تھے۔ اچانک انہوں نے
ایک انوکھی بات دیکھی۔ سارے کے سارے پتھر چکنے اور گول نہیں تھے۔ ناہموار
تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دونوں طرف سے ان کو تراشا گیا ہے۔ ان کو
اس شکل کا کس نے بنایا؟ دریا سے تو ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ وہ تو پتھروں
کو چکنااور گول ہی بنا سکتا ہے۔
ان انوکھے پتھروں کو ایک مقامی سائنس داں بوشے دی پیرت نے دیکھا۔ بوشے کے
پاس ایسی دلچسپ چیزوں کا بڑا ذخیرہ تھا جو انہوں نے وادی سوما کی مٹی میں
پائی تھیں۔ ان میں قدیم فیل پیکر (Mammoth)کے بڑے بڑے دانت، گینڈے کی
سینگیں اور غار میں رہنے والے ریچھوں کی کھوپڑیاں تھیں۔ کسی زمانے میں یہ
تمام دہشت نا ک جانور اسی طرح دریائے سوما میں پانی پینے آتے تھے جس طرح آج
کل گائیں اور بھیڑیں آتی ہیں۔
لیکن زمانہ تاریخ سے قبل کا آدمی کہا تھا؟ بوشے دی پیرت کو اس کی ہڈیوں کا
کوئی نشان نہیں ملا۔
پھر انہوں نے وہ کٹے ہوئے عجیب پتھر دیکھے جو ریت میں پائے گئے تھے۔ان کو
دونوں طرف کون کاٹ سکتا تھا؟ انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ صرف انسانی ہاتھوں
کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔
آثار قدیمہ کے اس سائنس داں نے ان دریافتوں کا بڑے جوش سے جائزہ لیا۔ یہ سچ
ہے کہ یہ ماقبل تاریخ کے آدمی کی پتھرائی ہوئی باقیات نہ تھیں لیکن یہ
ایسے نشانات ضرور تھے جوا س نے چھوڑ تھے، یہ اس کی محنت کے نشانات تھے۔ اس
میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ دریا کا کام نہیں ہے بلکہ انسان کا کام ہے۔
بوشے دی پیرت نے اپنی دریافتوں کے بارے میں ایک کتاب لکھی۔ ان کی کتاب
کانام تھا ”جانداروں کی ابتدا اور ارتقا”۔
اور پھر کشمکش شروع ہو گئی۔ ان کے اوپر ہر طرف سے حملہ شروع ہو گیا جیسا کہ
بعد میں ڈیوبوا کے ساتھ ہوا تھا۔
اس زمانے کے بڑے بڑے ماہرین آثار قدیمہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ
پرانی چیزوں کا یہ صوبائی ماہر سائنس سے ذرا بھی واقف نہیں ہے، کہ اس کی
پتھر کی ”کلہاڑیاں” جعلی ہیں اور اس کتاب کو ممنوع قرار دے دینا چاہئے
کیونکہ یہ انسان کی تخلیق کے بارے میں کلیسائی تعلیم کے خلاف ہے۔
پندرہ سال تک یہ لڑائی جاری رہی۔
بوشے دی پیرت سفید بالوں والے بڈھے ہو گئے لیکن وہ اپنے نظریات کے لئے لڑتے
رہے اور نسل انسانی کی بڑی قدامت کو ثابت کرتے رہے۔ اپنی پہلی کتاب کی
اشاعت کے بعد جلد ہی انہوں نے دوسری کتابیںلکھیں۔
اگرچہ طاقتیں نابرابر تھیں پھر بھی بوشے دی پیرت کی جیت ہوئی۔ برطانیہ کے
ممتاز ترین ماہرین ارضیات چارلس لائل اور جوزیف پریست ویچ نے بوشے دی پیرت
کے نظرئے کی حمایت کی۔ دونوں وادی سوما گئے اور انہوں نے وہاں کھدائی کی
جگہ کو دیکھا۔ انہوں نے بوشے دی پیرت کے مجموعے کا گہراجائزہ لینے کے بعد
اعلان کیا کہ بوشے دی پیرت نے جو اوزار پائے ہیں وہ واقعی ماقبل تاریخ کے
آدمی کے تھے۔ یہ آدمی ان بہت بڑے بڑے ہاتھیوں اور گینڈوں کا ہم عصر تھا جو
اب فرانس اور یورپ سے معدوم ہو چکے ہیں۔
چارلس لائل نے اپنی کتاب ”انسان کی قدامت”The Antiguity of Man میں جو 1863
میں شائع ہوئی بوشے دی پیرت کے مخالفین کی تما دلیلوں کا فیصلہ کن جواب
دیا۔ تب ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ بوشے دی پیرت نے دراصل کوئی نئی
دریافت نہیں کی ہے کیونکہ ماقبل تاریخ کے اوزار ا س سے پہلے بھی کئی جگہ
دریافت کئے جا چکے ہیں۔
لائل نے اس کا بڑا کھرا جواب دیا۔ انہوںنے کہا کہ جب بھی سائنس کی کوئی اہم
دریافت ہوتی ہے، اس کو لامذہبی کہنے کے لئے آوازیں بلند ہوتی ہیں، حالانکہ
بعد کو یہی آوازیں یہ دعوی کرتی ہیں کہ یہ بات تو سبھی لوگ مدتوں سے جانتے
تھے۔
بوشے دی پیرت نے جیسے پتھر وادی سوما میں پائے تھے اب دنیا کے مختلف حصوں
میں پائے گئے ہیں۔ عام طو رپر یہ دریافتیں دریا کی ان پرانی تہوں میں ہوئی
ہیں جہاں کنکر اور پتھر وغیرہ کی کھدائی ہوتی ہے۔
اس طرح جدید دور کے آدمی اک پھائو ڑا زمین سے ماقبل تاریخ کے اوزار نکالتا
ہے جب انسان نے کام کرنا سیکھنا شروع ہی کیا تھا۔
سب سے پرانا پتھر کا اوزار وہ پتھر ہے جو دونوں طرف سے کسی دوسرے پتھر سے
کاٹا گیا تھا۔ قریب ہی میں ایسے چھوٹے پتھر ملتے ہیںجو بڑے پتھر سے کاٹے
گئے تھے۔
پتھر کے یہ اوزار انسانی ہاتھوں کے وہ نشانات ہیں جو دریائوں کی وادیوں او
رریت کے ٹیلوں تک ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ یہاں زمین کے اندر اوراتھلے پانی
میںآدمی ان چیزوں کی تلاش کرتا تھا جن سے وہ اپنے پتھریلے پنجے اور دانت
بناتا تھا۔
یہ انسان کا کام تھا۔ کوئی جانور یا پرندہ اپنی غذا کی کی تلاش کر سکتا ہے
یا اپنا گھونسا بنانے کے لئے ضروری چیزیں تلاش کر سکتا ہے۔ لیکن وہ ایسی
چیزوں کی کبھی تلاش نہیںکر سکتا جن سے اپنے لئے اضافی پنجے یا دانت بنا
سکے۔
زندہ پھائوڑا اور زندہ ٹوکری
تم نے شاید پرندوں، جانوروں اور کیڑوں وغیرہ کے تعمیری صلاحیتوںکے بارے میں
پڑھا یا سنا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کے درمیان ایسے بھی ہوتے ہیں جو
بڑھئی، پتھر کا کام کرنے والے بن کر اور حتی کہ درزی کا بھی کام کرتے تھے۔
اود بلائو کے تیز دانت درخت کو گرا سکتے ہیں۔ پھر اود بلائو گرے ہوئے
درختوں کے تنوں اور شاخوں سے سچ مچ کے بند بنا لیتے ہیں۔ ان بندوں کی وجہ
سے دریا اورکناروں کے اوپر بہہ نکلتا ہے اور ان پرسکون تالابوں کو سیراب
کرتا ہے جن سے اود بلائو بڑی محبت کرتے ہیں۔
پھر جنگل کی عام سرخ چیونٹیوں کے لیجئے جو صنوبر کی خشک سوئیوں سے اپنے
ٹیلے بناتی ہیں۔ اگر ہم چیونٹیوں کے کسی ٹیلے کو چھڑی سے توڑیں تو دیکھیں
گے کہ یہ ”فلک بوس عمارت” کسی ہوشیاری سے بنائی گئی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان اودبلائو اور چیونٹیوں کے گھر اور بند
تباہ کرنا چھوڑ دے تو کیا کبھی یہ اودبلائو اور چیونٹیاں انسان کے برابر
پہنچ سکیں گی؟ کیا اب سے دس لاکھ سال بعد چیونٹیوں کے اپنے اخبار ہوں گے،
وہ چیونٹیوں کی فیکٹریوں میں کام کریں گی، چیونٹیوں کے ہوائی جہازوں میں
اڑیں گی اور ریڈیو پر چیونٹیوں کی موسیقی سنیں گے؟ نہیں ہر گز آدمی
اورچیونٹیوں کے درمیان ایک بہت اہم فرق ہے۔ یہ فرق کیا ہے؟
کیافرق یہ ہے کہ انسان چیونٹی سے بڑا ہے؟
نہیں۔
کیا فرق یہ ہے کہ انسان کے دو پیر ہوتے ہیں اور چیونٹی کے چھ؟
نہیں۔
ہم اس سے بالکل مختلف چیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
ذرا سوچو تو انسان کیسے کام کرتا ہے۔ وہ صرف اپنے ہاتھ اور دانت نہیں
استعمال کرتا۔ وہ کلہاڑی، پھائوڑا یا ہتھوڑا استعمال کرتا ہے۔ لیکن تم چاہے
جتنی دیر تک چیونٹیوں کے ٹیلے کا جائزہ لو اس میں کوئی چیونٹیوں کی کلہاڑی
یا ہتھوڑا نظر نہ آئے گا۔
جب چیونٹی کو کوئی چیز دو حصوں میں کاٹنی ہوتی ہے تو وہ زندہ قینچی استعمال
کرتی ہے جو اس کے سر کا یک جز ہوتی ہے۔ جب اس کو کوئی گڈھا کھودنا ہوتا ہے
تو اپنے چار زندہ پھائوڑے استعمال کرتی ہے۔ یہ پھائوڑے ا س کے چھہ پیروں
میں سے چار پیر ہوتے ہیں۔ اگلے دوپیر کھودتے ہیں، پچھلے دو پیر مٹی ہٹاتے
ہیں اور بیچ والے دونوں پیروں پر چیونٹی کام کے وقت سہارا لیتی ہے۔
چیونٹیوں کے پاس زندہ ٹوکریاں بھی ہوتی ہیں۔ ان کو کبھی کبھی ”چیونٹیوں کی
گائیں” بھی کہتے ہیں۔ تاریک، نیچے تہہ خانوں میں ان ٹوکریوں کی قطاروں کی
قطاریں برآمدے کی چھت سے ٹنگی رہتی ہیں۔ یہ ٹوکریاں بے حس و حرکت ہوتی ہیں۔
اچانک کوئی مزدور چیونٹی تہہ خانے میں آتی ہے۔ اس کی مونچھیں ٹوکری کو کئی
بار چھوتی ہیں اور وہ زندہ ہو کر حرکت کرنے لگتی ہے۔ تب ہم دیکھتے ہیں کہ
اس ٹوکری کے سر، پیٹ اور پیر ہیں اور دراصل یہ چیونٹی کا بہت پھولا ہوا پیٹ
ہے جوا س کو ٹوکری کی شکل دے دیتا ہے۔ ٹوکری کے جبڑے کھل جاتے ہیں اور اس
کے لب پررس کا ایک قطرہ آجاتا ہے اور مزدور چیونٹی جو کچھ کھانے آئی تھی
اس کو چاٹ لیتی ہے اور پھر کام پر چلی جاتی ہے اور ”گائے چیونٹی” چھت کے
نیچے پھر سو جاتی ہے۔
یہ ہمیں چیونٹی کے ”زندہ” اوزار۔ یہ ہمارے اوزاروں کی طرح مصنوعی نہیں،
قدرتی اوزار ہوتے ہیں جن کو چیونٹی اپنے سے کبھی جدا نہیں کر سکتی۔
اودبلائوکے اوزار بھی اس کے جسم کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس کے پاس پیڑ کاٹنے کے
لئے کلہاڑی تو نہیں ہوتی۔ وہ اپنے دانت استعمال کرتا ہے۔ چیونٹیاں اور
اودبلائو اپنے اوزار نہیں بناتے۔ وہ تو ان کے ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں۔
سرسری نظر سے ایسے اوزار قابل رشک ہیں جو تمہارے جسم کا حصہ ہوں کیونکہ ان
کے کھونے کا کوئی اندیشہ نہیںہوتا۔لیکن سوچنے پر یہ معلوم ہوگا کہ یہ اوزار
دراصل زیادہ اچھے نہیںہیں۔ ان کو نہ تو بحال کیا جا سکتا ہے اور نہ بدلا
جا سکتا ہے۔
اودبلائو اپنے دانت کسی چھری وچاقو تیز کرنے والے کے پاس نہیں لے جا سکتا
جب وہ کبرسنی کی وجہ سے کند ہو جاتے ہیں۔ اور چیونٹی کسی ایسے اچھے پائو
ںکا آرڈر نہیں دے سکتی جو زیادہ گہرا اور تیز کھود سکتا ہو۔
اگرانسان کے ہاتھ کے بجائے پھائوڑا ہوتا؟
آئو تھوڑی دیر کے لئے مان لیں کہ آدمی کے پاس دوسرے جانوروں کی طرح صرف
”زندہ” اوزار ہیں اوروہ لکڑی لوہے یا فولاد کے اوزار نہیں رکھتا۔
نہ تو وہ کوئی نیا اوزار بناسکتا ہے اور نہ پرانا تبدیل کر سکتا ہے جو اس
کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا۔ اگر اس کے پاس کوئی پھائوڑا ہونا ضروری ہے تو وہ
پھائوڑے جیسے ہاتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم محض یہ فرض کر رہے
ہیں کیونکہ حقیقت میں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن مان لو کہ ایسی عجیب
مخلوق کا وجود تھا۔ وہ بہت اچھا کھودنے والا ہونے پر بھی کسی اور کو کھودنا
نہیں سکھا سکتا جیسے کوئی بہت اچھی بصارت رکھنے والا اپنی نگاہ کسی دوسرے
کو نہیں دے سکتا۔
ایسی مخلوق کو اپنا پھائوڑا نما ہاتھ ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا پڑتا لیکن یہ
ہاتھ اور کسی طرح کاکام نہ کر سکتا اورجب یہ مخلوق مر جاتی تو پھائوڑا نما
ہاتھ بھی ختم ہو جاتا۔یہ پیدائشی کھودنے والا اپنا پھائوڑا صرف اپنی آئندہ
نسلوں کو منتقل کر سکتا بشرطیکہ اس کے پوتے اور پرپوتے اس کے پھائوڑے نما
ہاتھ کو ترکے میں پاتے۔
بہر حال یہ قطعی بات نہیں ہے۔ ”زندہ” اوزار اسی وقت آئندہ نسلوں کا زندہ
حصہ بنتا ہے جب وہ ان کے لئے مفید ہو، نقصان دہ نہ ہو۔
اگرلوگ زمین کے اندروالے جانوروں کی طرح رہتے ہوتے تو ان کو پھائوڑے نما
ہاتھ کی ضرورت ہوتی۔
لیکن ایسا ہاتھ ایک ایسی ہستی کے لئے غیر ضروری چیز ہے جو زمین کے اوپر
رہتی ہو۔
زندہ اور قدرتی اوزار کی تخلیق کے لئے بعض شرائط ضروری ہیں بہتر حال خوشی
کی بات یہ ہے کہ انسان نے اپنے ارتقا کے دوران میں دوسرا راستہ اختیار کیا۔
اس نے قدرت کا انتظار نہیںکیا کہ وہ اس کو پھائوڑا نما ہاتھ دے ۔ اس نے
خود پھائوڑا بنا لیا۔ اور صرف پھائوڑا ہی نہیں بلکہ چاقو، کلہاڑی اور بہت
سے دوسرے اوزار بھی۔
دو ہاتھوں اور دو پائوں کی بیس انگلیوں اور 32دانتوں میں جو اس کو اجداد سے
وراثت میں ملے تھے اس نے طرح طرح کے ہزاروں لمبی اور چھوٹی، پتل اور موٹی،
تیز اورکند، برمانے، کاٹنے اور مارنے والی انگلیوں، دانتوں، پنجوں اور
مکوں کا اضافہ کیا۔
اور اسی لئے وہ حیوانات کی باقی دنیا سے دوڑ میں اتنا آگے ہو گیا کہ اب اس
کو پکڑنا دوسروں کے لئے بالکل ناممکن ہو گیا ہے۔
ماہر انسان اور ماہر دریا
جب ابتدائی دور کا آدمی رفتہ رفتہ انسان بن رہا تھا تو وہ پتھر کے پنجے اور
دانت نہیں بناتاتھا۔ بلکہ ان کو اسی طرح جمع کرتا تھا جیسے ہم کھمبیاں یا
گوندنیاں اکٹھا کرتے ہیں۔ اتھلے دریا میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے وہ ان تیز
دھاروالے پتھروں کی تلاش کرتا جو قدرت نے اس کے لئے تیز کئے اور چمکائے
تھے۔
یہ قدرتی تیز پتھر ایسی جگہوں پر عام طو رسے پائے جاتے تھے جہاں بھنور کسی
زمانے میں دریا کی تہہ کی چٹانوں کو متھ کر اوپر لاتا تھا اور ان کو ادھر
ادھر پھینکتا تھا۔ بڑی بڑی چٹانیں اس طرح ایک دوسرے سے زوروں میں ٹکراتی
تھیں۔ دریا جو بھنور میں بہت زوروں سے کام کرتا تھا اپنی محنت کے نتائج کی
زیادہ پروا نہیںکرتا تھا اور اسی وجہ سے ان سیکڑوں پتھروں میں سے جن پر
قدرت اپنی محنت لگاتی تھی چند ہی انسان کے استعمال کے قابل ہوتے تھے۔
رفتہ رفتہ آدمی نے اپنی ضرورت کے مطابق پتھروں کو شکل وصورت دینا شروع کیا
اور پتھروں کے پہلے اوزار بنائے۔
جو کچھ اس وقت ہوا اس کا اعادہ انسان کی تاریخ میں متعدد بار ہوا۔ انسان نے
قدرتی چیزوں کی جگہ اپنی بنائی ہوئی مصنوعی چیزیں لانا شروع کیں۔ انسان نے
قدرت کے وسیع ورکشاپ کے ایک کونے میں اپنا ورکشاپ قائم کیا اور وہاں نئی
چیزیں بنانا شروع کیں، ایسی چیزیں جوا س کو قدرتی طورپر نہیں ملیں۔
یہ ہے پتھروں کے اوزاروں کی کہانی اور ہزاروں سال بعد دھات کی بھی یہی
کہانی ہے۔ صاف دھات استعمال کرنے کی بجائے جس کا ملنا بہت مشکل تھا آدمی نے
کچ دھات پگھلا کر دھات حاصل کرنی شروع کی۔ اور ہر مرتبہ جب وہ کوئی چیز
ایسی چیز سے بنانے میں کامیاب ہوتا جو اس کو پڑی ملتی تو وہ آزادی کی طرف،
قدرت کی سخت حکومت سے اپنی آزادی کی طرف ایک قدم اور اٹھاتا۔
پہلے پہل تو آدمی وہ چیزیں نہیں پیدا کر سکتا تھا جو اس کے اوزاروںکے لئے
ضروری تھیں۔ لیکن جو چیزیں اس کو ملتیں ان کو اپنی ضروریات کے مطابق نئی
شکل دینے کی کوشش کرتا۔ اس طرح اگر اس کو کوئی اچھا پتھر مل جاتا تو وہ
دوسرے پتھر سے اس کے کنارے کاٹ کر اوزار بنانے کی کوشش کرتا۔
اس طرح ایک بھاری اوزار تیار ہوجاتا جس کا ایک سرا تیز ہوتا۔ اس کو کلہاڑی
کہا جاسکتا ہے۔ اس پتھر سے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے بھی کام آجاتے۔ ان سے کاٹنے،
چھیلنے اور تراشنے کا کام لیا جاتا۔
ماقبل تاریخ کے جوانتہائی قدیم اوزار پائے گئے ہیں وہ قدرتی پتھروں سے اتنے
ملتے جلتے ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان پر کس نے کام کیا ہے۔ آدمی نے یا
دریا نے، یا صرف درجہ حرارت کی تبدیلی کا اثر ہے، گرمی یا سردی کا جو بارش
اور پانی کے ساتھ مل کرپتھروں کو توڑ دیتی ہیں۔
بہر حال ایسے بھی اوزار ہیں جن کے متعلق کوئی شک وشبہ نہیں۔ قدیم دریائوں
کے بہائو کے اتھلے حصے اورکناروں کے اندر سے جو اب مٹی اور ریت کی موٹی
تہوں میں دفن ہیںسائنس دانوں نے ماقبل تاریخ کے آدمی کے سچ مچ کے ورکشاپ
کھودکر نکالے ہیں۔ ان کھدائیوں میں پوری کی پوری کلہاڑیاں اور ایسی چٹانیں
ملی ہیںجن کی کلہاڑیاں بنائی جانے والی تھیں۔
سویت یونین میںیہ کلہاڑیاں جنوبی علاقے میں ملی ہیں، سوخومی کے قریب ساحلوں
پر اورکرائمیا میں کیئک کوباغار میں۔
اگرہم پتھر کی کسی تیار کلہاڑی کابغورجائزہ لیںتوہمیںصاف پتہ چل جائے گا کہ
آدمی نے اس دھار کو تیز کرنے کے لئے کہاں چوٹ لگا کر کاٹنے کی کوشش کی۔
ہم اس کو چکنا کرنے کی نشانات بھی دیکھ سکتے ہیں۔
قدرت یہ کام نہیںکر سکتی تھی۔ صرف انسان ہی کر سکتا تھا۔ یہ بات سمجھنا
مشکل نہیںہے کیونکہ قدرت میں ہر چیز اٹکل پچو ہوتی ہے۔ اس کا کوئی منصوبہ
یا مقصد نہیںہوتا۔ مثلاً بلا سمجھے بوجھے، کسی مقصد کے بغیر دریا کا بھنور
پتھروں کو ٹکراتا رہتا ہے۔ آدمی بھی یہی کرتا ہے لیکن باشعورطریقے پر۔ وہ
جو کچھ کرتا ہے اس کا سبب ہوتا ہے ۔ اس حقیر ابتدا سے کہ جو پتھر اس کو ملا
اسے وہ اپنی ضرورت کے مطابق بنائے آدمی نے رفتہ رفتہ قدرت کو بھی اپنی
ضروریات کے مطابق بدلنا اور نئی شکل دینا شروع کیا۔
اس بات نے آدمی کو دوسرے جانوروں سے ایک درجہ اور بلند کیا، اس نے اس کو
اور آزادی دی کیونکہ اب وہ اس کا منتظر نہیںرہا کہ قدرت اس کو ایک تیز
دھاروالاپتھر عطاکرے۔
اب وہ خود اپنے اوزار بنا سکتا تھا۔
انسان کی سوانح کی ابتدا
عموماً کسی شخص کی سوانح حیات کی ابتداپیدائش کی تاریخ اور جگہ سے ہوتی ہے۔
مثلاً ”ایوان ایوانوف 23نومبر 1897کوشہر تامبوف میںپیدا ہوئے”۔
یہ ا طلاع ذرا زیادہ پر تکلف انداز میں یوں بھی دی جا سکتی ہے ”نومبر
1897کو بارش والا دن تھا جب ایوان ایوانوف،جنہوں نے بڑے ہوکر اپنے خاندان
اور اپنے شہر کے نام روشن کئے، تامبوف کے مضافات میں ایک چھوٹے سے گھر میں
پیدا ہوئے۔”
لیکن یہاں تو ہم اپنی کتاب کے تیسرے باب تک پہنچ چکے ہیں اور ابھی تک ہم نے
اس کا ذکر ہی کیاکہ ہمارا ہیرو کہاں اورکب پیدا ہوا تھا۔ دراصل، ہم نے آپ
کو اس کا ٹھیک نام تک نہیں بتایا۔ ایک جگہ ہم اس کو ”بندر مانس” کہتے ہیں
تو دوسری جگہ ”قدیم آدمی” اور تیسری جگہ ”ہمارے جنگلی جد” کہتے ہیں۔
ہم اپنی صفائی میں کچھ باتیں کہنے کی کوشش کریں گے۔
اگر ہم چاہیں بھی تو آپ کو اپنے ہیرو کا ٹھیک نام نہیں بتا سکتے کیونکہ اس
کے بہت سے نام ہیں۔
اگر آپ کسی سوانح عمری کو پڑھیں توآپ دیکھیں گے کہ کتاب میں شروع سے آخر تک
ہیرو کانام ایک ہی رہتا ہے، کبھی بدلتا نہیں۔ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے، پھر
لڑکا، پھر داڑھی مونچھوں والا آدمی۔ لیکن اس کا نام وہی رہتا ہے جو ابتدا
میں تھا۔ اگر اس کا نام ایوان رکھا گیا ہے تو آخر دم تک اس کا نام ایوان ہی
رہے گا۔
لیکن ہمارے ہیرو کے معاملے میں باتیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔
چونکہ وہ خود ایک باب سے دوسرے تک کافی بدلتا رہتا ہے اس لئے ہم بھی اس
تبدیلی کے مطابق اس کا نام بدلنے پر مجبور ہیں۔
اگرہم ماقبل تاریخ کے بہت ہی قدیم آدمی کاذکر کرتے ہیں جو تب تک بندر سے
بہت زیادہ مشابہہ تھا تو اس کو Pithecanthropus, اور Heidelberg کا آدمی
کہتے ہیں۔
ھائڈلبرگ کے آدمی کا صرف ایک حصہ رہ گیا ہے۔ وہ اس کا جبڑا ہے جو جرمنی میں
شہر ہائڈ لبرگ کے قریب ملا ہے۔
بہر حال یہ جبڑا اس کا کافی ثبوت فراہم کرتا ہے۔کہ اس کا مالک آدمی تھا۔ یہ
دانت انسانی دانت ہیں اور بندر کی طرح اوپر کے لمبے اور تیز دانت نیچے کے
دانتوں کے اوپر نہیں نکلے ہوئے ہیں۔
Pithecanthropus, Sinanthropus, Heidelberg man!
زندگی کے ایک ہی دور میں، ارتقا کی ایک ہی منزل میں ہمارے ہیرو کے یہ تین
لمبے چوڑے نام ہیں۔
لیکن ہمارے ہیرو میں تبدیلیاں ہوئیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ جدید انسان بنتا
گیا۔ جس طرح ایک بچہ، لڑکا بنتا ہے اور پھر نوجوان، اسی طرح ماقبل تاریخ کا
آدمی Neanderthal بن گیا اورپھر neanderthal آدمی cro-magnon آدمی ہو گیا۔
تو دیکھو نا! ہمارے ہیرو کے ابھی کئی اور نام ہیں!
لیکن ہمیں عجلت نہ کرنا چاہئے۔ اس باب میں اس کو Pithecanthropus
Heidilberg man, Sinanthropusکہا گیاہے۔
وہ دریائوں کے کنارے گھومتا رہتا تھااور اپنے اوزار بنانے والی چیزوںکی
تلاش کرتا تھا۔ وہ بڑے صبر و تحمل کے ساتھ پتھر کاٹتا تھااور اپنی بھونڈی
اور بھاری کلہاڑی بناتا تھا جس کو سائنس داں اب بھی قدیم دریائوں کی تہوں
میں دفن پاتے ہیں۔
اسی لئے اس کا نام بتانا بہت ہی مشکل ہے۔
اور اس سے زیادہ یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ کب پیدا ہوا تھا۔ ہم یہ نہیں کہہ
سکتے کہ ”ہمارا ہیرو اس سن میں پیدا ہوا تھا”۔ کیونکہ آدمی ایک سال میں
توآدمی نہیں بنا۔ اس کو لاکھوں سال چلنا اور اپنے بھونڈے اور اوزار بنانا
سیکھنے میںلگ گئے۔ اس لئے اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ انسان کی عمر کیا ہے تو
ہم صرف یہی جواب دے سکتے ہیں کہ تقریباً دس لاکھ سال۔
اور یہ بتانا بہت ہی مشکل ہے کہ آدمی کہاں پیدا ہوا تھا۔
ہم نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے ہیرو کی جدہ کہاں رہتی تھیں، وہ
قدیم بندر جدہ جن کی نسل میں آدمی، چمپانزی اور گوریلا شامل ہیں۔ سائنس
دانوں نے اس بندر کو dryopithecus کا نام دیا ہے اور جب ہم نے اس کا پتہ
ڈھونڈ ھنا شروع کیا تو ہمیں پتہ چلا کہ dryopitecus تو بہت سے تھے۔ بعض
نشانات ہمیں وسط یورپ لے گئے، کچھ مشرقی افریقہ اورکچ جنوبی ایشیا۔
معلومات رکھنے والے لوگوں نے ہمیںبتایا کہ جنوبی افریقہ میں بہت سی دلچسپ
دریافتیں ہوئی ہیں۔ ایسے بندروں کی باقیات وہاں پائی گئی ہیں جو اپنے پچھلے
پیروں پر چلنا جانتے تھے اور جنگلوں میں نہیں رہتے تھے بلکہ ان کی رہائش
کھلے میں تھی۔
تب ہم کو یاد آیا کہ Sinanthropus اور Pithecanthropus کی باقیات ایشیا میں
دریافت کی گئی ہیں اور ھائڈلبرگ آدمی کا جبڑا یورپ میں۔ تو پھر آدمی کی
جائے پیدائش کہا ہے؟ اور ہمیں اس کا احساس ہوا کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے
کہ آدمی کس براعظم یا ملک میں پیدا ہوا تھا۔
ہم نے سوچا کہ ہمیں ہر اس جگہ کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہئے جہاں پتھر کے
اوزار پائے گئے ہیں۔ بہر حال آدمی اسی وقت سچے معنی میں انسان بنا جب اس نے
اپنے اوزار بنانا شروع کئے۔ شاید ان اوزاروں کی جگہ ہمیں یہ فیصلہ کرنے
میں مدد دے سکے کہ آدمی کا ظہور کہاں ہوا۔
ہم نے دنیا کا ایک نقشہ لیا او رہر اس جگہ پر نشان لگا دیا جہاں پتھر کی
کلہاڑیاں ملی تھیں۔ جلد ہی نقشے پر نشانات پھیل گئے۔ ان میں سے زیادہ تر
یورپ میں تھے لیکن افریقہ اور ایشیا میںبھی کچھ تھے۔
اب جواب واضح تھا: آدمی کا ظہور پہلے پرانی دنیامیں، بہت سی مختلف جگہوں پر
ہوا،کسی واحد جگہ پر نہیں۔
اور غالباً یہی ہوا کیونکہ ہم ایک لمحے کے لئے بھی یہ تصور نہیں کر سکتے کہ
پوری نسل انسانی بندروں کے ایک جوڑے سے مثلاً ”آدم بندر” اور ”حوابندر” سے
پیدا ہوئی۔ بندر سے آدمی میں یہ تبدیلی بندروں کے کسی ایک غول کے اندر یا
کسی واحد علاقے تک محدود نہ تھی۔ یہ بہت سے علاقوں میں ایک ہی زمانے میں
ہوئی، ہر ایسی جگہ جہاں ایسے بندر تھے جنہوں نے دو پیروں پر چلنا اور کام
کے لئے اپنے ہاتھ استعمال کرنا سیکھ لیا تھا اور جیسے ہی انہوں نے کام کرنا
شروع کیا ایک نئی طاقت وجود میں آئی، ایسی طاقت جس نے آخر کار ان بندروں
کو آدمیوں میں تبدیل کر دیا۔ یہ طاقت انسانی محنت کی طاقت تھی۔
آدمی نے وقت کا تعین کیا
ہر ایک جانتا ہے کہ خام لوہااور کوئلہ کانوں سے کیسے نکالا جاتا ہے اور آگ
کیسے بنائی جاتی ہے۔ لیکن وقت کیسے بنایا گیا؟
حالانکہ آدمی نے مدتوں ہوئے وقت بنانا سیکھا تھالیکن بہت کم لوگ اس سوال کا
جواب جانتے ہیں۔ جب آدمی نے پہلے پہل اوزار بنانا شروع کئے تو اس کی زندگی
واقعی نئی مصروفیت سے بھر گئی او ریہ واقعی انسانی مصروفیت تھی۔ یہ تھی
محنت۔ لیکن محنت میں وقت لگتا تھا۔ پتھر سے اوزار بنانے کے لئے آدمی کو
اچھا پتھر ڈھونڈھنا پڑتا تھا کیونکہ ہر ایک پتھر کی کلہاڑی نہیں بنائی جا
سکتی تھی۔
اوزار کے لئے سب سے اچھا پتھر وہ تھا جو بھاری اور سخت ہوتا تھا۔ لیکن وہ
ہر جگہ تو نہیں ملتا تھا۔ اسے تلاش کرنا پڑتا تھا ۔ آدمی کو اس کی تلاش میں
بڑا وقت لگانا پڑتا تھا اور اکثر اس کی تلاش بے سود ہوتی ہوتی تھی۔ تب اس
کو کم سخت پتھر کا یا ریت اور چونے کے پتھروں کا جو زیادہ نرم ہوتے استعمال
کرنا پڑتا تھا۔
جب اس کو ٹھیک پتھر مل جاتا تو اس کو ضروری شکل دینے کے لئے دوسرے پتھر سے
کاٹ کر بنانا پڑتا جس کوچوٹ لگانے والا کہتے تھے۔ اس میں وقت لگتا تھا۔
آدمی کی انگلیاں اتنی تیز اور ہنرمند نہیں تھیں جتنی اب ہیں۔ وہ تو ابھی
کام کرنا سیکھ رہی تھیں۔ اسی لئے اس کو اپنی بھونڈی کلہاڑیاں بنانے میں
اتنا وقت لگتا تھا۔ جتنا آج کل فولادی کلہاڑیاں بنانے میں نہیں لگتا۔
لیکن اس کام میں جووقت لگتا تھا وہ کہاں سے آئے؟
ماقبل تاریخ کے آدمی کے پاس فاضل وقت بہت کم تھا۔ وہ آج کے انتہائی مصروف
آدمی سے بھی کم وقت رکھتا تھا۔ صبح سے شام تک وہ جنگلوں میں گھوم کر غذا
جمع کرتا تھا، اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے۔ کوئی کبھی کھانے والی چیز
سیدھی اس کے منہ میں جاتی تھی۔ سونے کے علاوہ سارا وقت غذا جمع کرنے اور
کھانے میں لگ جاتا تھا۔ کیونکہ ماقبل تاریخ کے آدمی کوجو غذا ملتی تھی وہ
کافی مقوی نہیں ہوتی تھی اور اس کو بہت زیادہ غذا کی ضرورت تھی۔
ذرا سوچو توکہ اس کو کتنا کھانا پڑتا ہو گا کیونکہ اس کے کھانے میں
گوندنیاں، اخروٹ، گھونگے، چوہے، نئی کونپلیں، جڑیں، کیڑے مکوڑوں کے انڈے
اوراسی قسم کی چیزیں ہوتی تھیں۔
آدمیوں کے گلے جنگلوں میںان ہرنوں کے گلوں کی طرح چرتے تھے جو ایک جگہ سے
دوسری جگہ گھاس چرتے اور کائی چباتے ہوئے جاتے رہتے ہیں۔ تو پھر ہو کام کب
کرتا؟
اور پھر اس نے دریافت کیا کہ کام کی ایک حیرت انگیز خوبی یہ ہے کہ کام صرف
اس کا وقت لیتاہی نہیں بلکہ اس کو وقت دیتابھی ہے۔
دراصل اگر تم کوئی کام چار گھنٹے میں کرو جو دوسرا آٹھ گھنٹے میں کرتا ہے
توتم نے چار گھنٹے بچالئے۔ اگر تم نے ایسا اوزار ایجاد کرلیا جو اس سے دگنی
تیزی سے کام کرتاہے جتنا پہلے تم کرتے تھے تو تم نے اپنا آدھا وقت بچا
لیا۔
ماقبل تاریخ کے آدمی نے یہ دریافت کی۔
اس کو ایک پتھر تیز کرنے میں بہت سے گھنٹے لگتے تھے لیکن پھر وہ تیز اوزار
کو درخت کی چھال کے اندر سے کیڑوں کے انڈے کھوجنے کے لئے استعمال کر سکتا
تھا۔
کسی لکڑی کو پتھر سے تیز کرنے میں کافی وقت لگتا تھالیکن اس تیز لکڑی سے
مزید ار جڑیں کھودنا یا کسی چھوٹے جانور کو مارنا کہیں زیادہ آسان ہوتا
تھا۔
اس طرح ماقبل تاریخ کے آدمی کے لئے اپنے اور اپنے بچوں کی خاطر غذا جمع
کرنا زیادہ آسان ہو گیا۔ اب وہ اس کو زیادہ تیزی سے اکٹھا کرنے لگا اور اس
کو کام کے لئے زیادہ وقت ملنے لگا۔ اپنے فاضل وقت میں وہ اوزار بناتا، ان
کو زیادہ تیز اور بہتر کرتا۔ لیکن چونکہ ہر نئے اوزار کا مطلب زیادہ غذا
ہوتا اس لئے بالآخر اس سے زیادہ وقت بھی بچتا۔
شکار نے انسان کو سب سے زیادہ فاضل مہیا کیا کیونکہ گوشت بہت مقوی تھا۔
آدھہ گھنٹہ گوشت کھانے سے آدمی دن بھر کے لئے شکم سیر ہو جاتا۔ لیکن ابتدا
میں اس کے پاس بہت کم گوشت تھا۔ کسی لکڑی یا پتھر سے بڑے جانور کو مارنا
مشکل تھا اور چوھے وغیرہ میں زیادہ گوشت نہیںہوتا ہے۔
آدمی ابھی پوری طرح شکاری نہیں بنا تھا۔ وہ جمع کرنے والا تھا۔
جمع کرنے والا آدمی
ہمارے زمانے میں کچھ جمع کرنا آسان ہے۔ تم نے جنگل میں گوندنیاں اور
کھمبیاں اکٹھا کی ہوں گی۔ کائی سے کسی بادامی چھتری والی کھمبی کو جھانکتے
ہوئے پانا یا گھاس میں سرخ ٹوپی والی کھمبی کو دیکھنا کتنا دلچسپ ہوتا ہے۔
کائی کی گہرائی میں ہاتھ ڈال کر کھمبی کے مضبوط تنے کو پکڑ کر احتیاط کے
ساتھ اوپر کھینچنے میں کتنا مزا آتا ہے!
لیکن ایک لمحے کے لئے یہ سوچو کہ اگر کھمبیاں یا گوندنیاں جمع کرنا تمہارا
خاص پیشہ ہوتاتوکیا تو ہمیشہ اچھی طرح کھا سکتے؟ جب تم کھمبیاں جمع کرنے
جاتے ہو تو کبھی کبھی تمہاری ٹوکری لبالب بھری ہوتی ہے اور باقی کھمبیاں
ٹوپی میں ہوتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے۔ کہ تم جنگل میں سارا دن
گھوم کر ایک یا دو کھمبی اپنی ٹوکری میں ڈالے لوٹتے ہو۔
جب ہماری ایک دس سالہ دوست کھمبیاں جمع کرنے روانہ ہوتی تو وہ زوروں کے
ساتھ کہتی:
”مجھے سیکڑوں اچھی کھمبیاں ملیں گی!”
لیکن زیادہ تر وہ گھر خالی لوٹتی۔ وہ بھوکوں مر جاتی اگر گھر میںکھمبیوں کے
علاوہ اورکچھ کھانے کو نہ ہوتا۔
جمع کرنے والے، ماقبل تاریخ کے آدمی کیلئے زندگی اس سے بھی کہیں زیادہ سخت
تھی۔ وہ بھوکوں محض اس لئے نہیں مرتا تھا کیونکہ وہ جو کچھ بھی پاتا تھا
کھا لیتا تھا اورکھانے کی تلاش میں اپنے دن گزارتا تھا۔ حالانکہ وہ ا پنے
ان اجداد سے زیادہ مضبوط اورآزاد ہو گیا تھا جو درختوں پر رہتے تھے پھر بھی
اس کی حالت زیادہ اچھی نہ تھی۔ دراصل وہ نیم بھوکی مخلوق تھا۔
اسی دوران میں ایک زبردست آفت دنیا کے چہرے کو بدلنے والی تھی۔
آفت قریب ہوتی جاتی ہے
پتہ نہیںکیوں شمالی برفانی ٹوپیاں ٹوٹ کر جنوب کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ برف
کے بڑے بڑے دریا پہاڑوں اور میدانوں کے اوپر بہنے لگے۔ وہ ڈھلانوں اور
پہاڑی چوٹیوں کو کاٹ دیتے، چٹانوں کو توڑ کر پیس ڈالتے اور ٹوٹی ہوئی
چٹانوں کے پہاڑ کے پہاڑ اپنے ساتھ لے جاتے۔ گلیشیروں کے آگے پگھلتی ہوئی
برف طوفانی دریائوں کو جنم دیتی جو زمین میں گہری خندقیں کھود کر اپنے لئے
بہائو کا راستہ بنالیتے۔
شمال سے برف فاتحوں کی ایک بڑی فوج کی طرح بڑھ رہی تھی۔ اس کے ساتھ پہاڑوں
کی بلندیوں اور گھاٹیوں کے گلیشیر بھی مل جاتے تھے۔
سوویت یونین اور پڑوسی ملکوں کے میدانوں میں جو بڑی بڑی چٹانیں پائی جاتی
ہیں ان میں برف بڑھنے کے نشانات ملتے ہیں۔ کبھی کبھی کر یلیا کے صنوبر کے
گھنے جنگلوں میں تم کو اچانک کائی سے ڈھکی ہوئی کوئی چٹان نظر آجائے گی۔ یہ
وہاں کیسے پہنچی؟ گلیشیر اس کو چھوڑ گیا۔
شمالی کے گلیشیر پہلے بھی جنوب کی طرف منتقل ہوئے تھے لیکن وہ اتنی دور
جنوب تک کبھی نہیں پہنچے تھے۔ روس میں گلیشیر اس جگہ تک پہنچ گئے تھے جہاں
اب شہر اولگا گراد اور دنیپر وپیترو فسک واقع ہیں۔ مغربی یورپ میں وہ جرمنی
کے پہاڑی علاقے تک در آئے اور پورے جزائر برطانیہ کو ڈھک لیا۔ شمالی
امریکہ میں وہ گریٹ لیکس کے آگے تک چلے گئے۔
گلیشیر سست رفتاری سے آگے بڑھتے تھے اور ان کو اپنی سردی وہاں تک پہنچانے
میں کافی عرصہ لگا جہاں ماقبل تاریخ کا انسان رہتا تھا۔ لیکن سمندری
مخلوقات نے ان کی سرد ہوائوں کو سب سے پہلے محسوس کیا۔
سمندری ساحلوں پر اب بھی گرمی تھی۔ جنگلوں میں گوم خطے کے درخت تھے۔ زبردست
قد وقامت والے جنوبی ہاتھی اور گینڈے میدانوں کی لمبی لمبی گھاس میںپھرتے
تھے۔ لیکن سمندر کا پانی اور ٹھنڈا ہوتا جاتا تھا۔ دھارے جو سمندر میں اس
طرح بہتے تھے جیسے دریا زمین پر بہتا ہے گلیشیر کی سردی شمال سے لے جاتے
تھے اور کبھی کبھی برف کی بڑی چٹانیں بھی۔
ساحل سمندر کی پرتیں ہمیں یہ کہانی بتاتی ہیں کہ کسی طرح گرم سمندر ٹھنڈے
سمندر بن گئے۔ ایسے زمانے میں جب کہ کشکی پر گرمی پسند کرنے والے جانور اور
پودے موجود تھے سمندر کی آبادی میں تبدیلی ہو رہی تھی۔ اگر ہم اس زمانے کے
ارضیاتی ذخیروں کا مطالعہ کریں تو ہمیں گھونگھوں کے خول ملیں گے جو صرف
ٹھنڈے ہی پانی میں رہ سکتے تھے۔
جنگلوں کی جنگ
گلیشیروں کی آمد سے زمین بھی متاثر ہونے لگی۔
اور اس میں کوئی حیرت کی بات بھی نہیں تھی کیونکہ آرکٹک اپنی جگہ سے ہٹ گیا
تھا اور آہستہ آہستہ جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے ٹنڈرا اور شمال کے
جنگلوں میں انتشار پیدا کر دیا اور ان کو جنوب کی طرف ڈھکیل دیا۔
ٹنڈرا تائے گا پر علانیہ دھاوا بول دیا۔ تائیگا کو پیچھے ھٹنا پڑا اور اس
طرح پتے والے جنگل بھی پیچھے ہٹے۔
اب بھی جنگلوں میں آپس میں جنگ ہوتی رہتی ہے۔ صنوبر اور چنار لرزاں (asp)
ایک دوسرے کے سخت دشمن ہیں۔ چنار لرزاں کو سائے سے نفرت ہے اور صنوبر کو اس
کی کوئی پروا نہیں۔
اگر تم صنوبر کے کسی جنگل میں چنار لرزاں دیکھو تو وہ تم کو پتلی پتلی
شاخوں سے زیادہ بڑے نہیں ملیں گے کیونکہ سایہ دار صنوبر کے درختوں نے انہیں
پنپنے نہیں دیا ہے۔ لیکن جب لکڑہارے صنوبر کے درخت کاٹ دیتے ہیں تو ان
چناروں میں کھلی دھوپ کی وجہ سے نئی جان پڑ جاتی ہے اور وہ بڑھنے لگتے ہیں۔
پھر سب کچھ بدلنے لگتا ہے۔ سائے سے محبت کرنے والی کائی جو صنوبر کے درختوں
کے نیچے اگی تھی مرجھا کر مرنے لگتی ہے۔ صنوبر کے وہ درخت جو چھوٹے تھے او
رکاٹے نہیں جا سکتے تھے صبح کے پالے سے بیمار سے لگنے لگتے ہیں۔ جب بڑے
صنوبر کے درخت جو ان چھوٹے پیڑوں کی مائوں کی طرح تھے زندہ تھے تو یہ ان کے
ہرے بھرے چھتنارے سائے میں تندرست محسوس کرتے تھے۔لیکن جب وہ کھلے میں
تنہا رہ گئے تو بیمار لگنے لگے اور ان کی نشونما بند ہو گئی۔
اب لرزاں چناروں کی جیت ہو گئی۔ پہلے تو ان کو سورج کی رہی کرنیں ملتی تھیں
جو ان کے دشمن صنوبر کے درخت کے شاخوں سے ہو کر نیچے آجاتی تھیں۔ اب صنوبر
کاٹ ڈالے گے تو چنار ہی جنگل کے راجہ ہو گئے۔
چند سال بعد جہاں صنوبر کا ایک گھنا سیاہ جنگل تھا اب وہاں چنار کا روشن
جنگل نظر آنے لگتا ہے۔
لیکن وقت تو آگے بڑھتا رہتا ہے اور وقت بڑا کام کوجو ہے۔ رفتہ رفتہ وہ اس
طرح جنگلی لرزاں اونچے ہوتے جاتے ہیں، ان کی جھاڑی دار چوٹیاں ایک دوسرے کے
قریب آتی جاتی ہیں۔ اب ان کے تنوں پر سایہ جو پہلے کم اور تھوڑی دیر کے
لئے ہوتا تھا زیادہ گھنا اور تاریک ہوتا جاتا ہے۔ چناروں نے صنوبروں سے
لڑائی جیت لی تھی لیکن یہ جیت ہی ان کی موت کا باعث بن گئی۔
کسی آدمی کی موت اپنے سائے سے نہیں ہوتی لیکن یہ بات اکثر درخت کی زندگی
میں نظر آتی ہے۔ چھتنار چنار لرزاں کے درختوں کے نیچے گری ہوئی پتیوں کی
ایک پرت بنتی ہے جس کی وجہ سے زمین ہمیشہ گرم رہتی ہے۔ وہ صنوبر کے چھوٹے
درختوں کی جاڑوں کی کونچی کو ڈھکے رہتی ہے۔ وقت آنے پر ان ننھے دشمنوں میں
پھر جان پڑ جاتی ہے۔ بیس سال میں صنوبر کے درختوں کی چوٹیاں بھی چنار لرزاں
کی چوٹیوں کے برابر پہنچ جاتی ہیں۔ اب جنگل رنگ برنگا اور ملا جلا نظر آنے
لگا۔ چنار لرزاں کاہلکا سبز رنگ صنوبر کی گہری سبز رنگ کی چوٹیوں میں ملا
جلا نظر آنے لگا صنوبر کے درخت اونچے ہوتے گئے اور وقت آنے پر ان کی گھنی
سبز سوئیاں چنار لرزاں پر سایہ ڈالنے لگیں۔
چنار لرزاں کے خاتمے کے دن آگئے۔ وہ صنوبرکے سائے میں مر جھانے اور مرنے
لگے۔ اب صنوبر جنگل کے راجہ بن گئے۔ انہوں نے اپنی پچھلی طاقت واپس حاصل کر
لی۔
اس طرح جنگلوں کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے جب کہ آدمی اور اس کی کلہاڑی ان
کی زندگی مداخلت کرتی ہے۔
لیکن جنگلوں کی جنگ تب اس سے بھی زیادہ گھمسان تھی جب برفانی دور کی سردی
ان کی زندگی میں در آئی۔
سردی نے گرمی پسند کرنے والے پیڑوں کو ختم کر دیا اور شمالی جنگلوں کے لئے
راستہ ہموار کر دیا۔ صنوبروں اور بھوجوں نے بلوط اور لائم کے درختوں کے
خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ بلوطوں اور لائموں کو پسپا ہونا پڑا اورایسا کرنے
میں انہوں نے آخری سدا بہار درختوں مثلاًلارل، میگنولیا اور انجیر کے
درختوں کو بالکل ختم کر دیا۔
نازک اور گرمی پسند کرنے والے درخت ایسی کھلی جگہوں پرنہیں زندہ رہ سکے
جہاں اور انھوںنے فاتحوں کو جگہ دے دی۔ صرف پہاڑوں میں ان کو پناہ ملی۔
وہاں ہر محفوظ وادی میں گرمی پسند کرنے والے درختوں نے اپنے کو چھپا لیا۔
لیکن پھر دوسرے گلیشیر پہاڑی کی چوٹیوں سے نیچے کی طرف بہہ نکلے اور پہاڑی
صنوبروں اور بھوجوں کو اپنے ساتھ لے گئے جو ان کے سامنے پڑے۔
جنگلوں کی یہ جنگ ہزارھا تک چلتی رہی اور گرمی پسند کرنے والے درختوں کی
آخری شکست خوردہ فوج جنوب کی طرف زیادہ سے زیادہ پسپا ہوتی گئی۔
لیکن جب فاتحوں کے خلاف جدوجہد میں یہ جنگل تباہ ہوئے تو ان جنگلوں میں
رہنے والے جانوروں کا کیا حشر ہوا؟
موجودہ زمانے میں جب کوئی جنگل آتش زدگی سے تباہ ہو جاتاہے یا کاٹ ڈالا
جاتا ہے تو اس کے کچھ رہنے والے اس کے ساتھ ہی مرجاتے ہیں اور دوسرے اس سے
کسی نہ کسی طرح بھاگ نکلے ہیں۔ جب صنوبر کا کوئی جنگل کاٹا جاتا ہے توا س
کی پرندوں کی آبادی غائب ہو جاتی ہے۔
سایہ دار صنوبر کے جنگل کی جگہ چنار لرزاں کا ایک نیا جنگل پیدا ہو جاتا
ہے۔ اس نئے جنگل میں دوسری چڑیاں اور دوسرے جانور اپنے گھر بناتے ہیں۔
جب بہت برسوں بعد صنوبر کے درخت پھر چنار لرزاں کے درختوں کو شکست دیتے ہیں
تو صنوبر کا نیا جنگل خالی نہیں ہوتا۔ اس میں پھر پرانے پرندے بس جاتے
ہیں۔
تو جنگل مرجاتا ہے اور پھر جنم لیتا ہے، پودوں اورجانوروں کے ایک انوکھے
مجموعے کی حیثیت سے نہیںبلکہ ایک متحد اور آپس میں بہت ہی گہرے رشتوں سے
مربوط دنیا کی حیثیت سے۔
یہی صورت برفانی دور میں بھی ہوئی۔ جب گرم خطے کے جنگل غائب ہوئے تو ان کے
باسی جانور بھی غائب ہو گئے۔ فیل پیکر غائب ہو گئے۔ گینڈے اور دریائی گھوڑے
جنوب کی طرف چلے گئے اور ماقبل تاریخ کے آدمی کا انتہائی زبردست دشمن تیز
دانتوں والا چیتا بھی آخر کار مر گیا۔
چھوٹے جانوروں اور پرندوں کی بڑی تعداد یا تو مر گئی یاجنوب کی طرف بھاگ
گئی۔ اس کے سوا اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ ہر جانور اپنی چھوٹی سی دنیا
سے منسلک ہے، اپنے جنگل سے۔ جب یہ جنگلی دنیا تباہ ہونے لگی تو اس کے بہت
سے باسی بھی تباہ ہو گئے۔
جب درخت، جھاڑیاں اور اونچی اونچی گھاسیں سوکھ گئیں تو وہ جانور جو ان کے
اندر چھپتے تھے اور ان سے غذا حاصل کرتے تھے غذا اور پناہ سے محروم ہو گئے۔
لیکن جب گھاس کھانے والے یہ پرامن جانور مر گئے تو وہ گوشت خور درندے بھی
جو ان کو کھاتے تھے بھوکوں مرگئے۔
”غذا کے سلسلوں” کی کڑیوں میں منسلک جانور اور پودے اپنے جنگل کی تباہی پر
خود بھی تباہ ہو گئے۔
یہ اسی طرح تھا جیسے قدیم زمانے میں جہازوں کے چلانے والے غلام بھی اپنے
جہازوں کے ساتھ ڈوب جاتے تھے کیونکہ وہ پتواروں سے زنجیروں کے ذریعے بندھے
ہوتے تھے۔
کسی نہ کسی طرح زندہ رہنے کے لئے جانور کو اپنی زنجیریں توڑنا ہوتی تھیں۔
وہ اپنی عادت سے مختلف غذا کھانا شروع کر دیتا، اس کو اپنے پنجے ا ور دانت
بدلنے پڑتے اور سردی سے بچنے کے لئے اسے لمبے لمبے بال یا سمور پیدا کرنے
ہوتے۔
ہم جانتے ہیں کہ کسی جانور کیلئے بدلنا کتنا مشکل ہے۔ گھوڑے کی تاریخ یاد
کرو۔ اس کو کتنے لاکھ سال ایساجانور بننے میں لگے جس کا ایک انگوٹھا کھر کی
شکل میں ہے۔
کسی جنوبی جانور کے لئے شمالی جنگل میں زندہ رہنا بہت مشکل تھا۔
یہی مصیبت کیا کم تھی اور اس میں اضافہ یہ ہوا کہ شمالی جنگلوں کے بالوں
والے باسی بھی جنوب کی طرف آنے لگے۔ یہ تھے اون والے گینڈے، قدیم زمانے کے
میموتھ، غار والے شیر اور ریچھ۔ یہ سب کے سب شمالی جنگلوں کے عادی تھے۔
ان کی موٹی، بالدار کھال ان کا سب سے بڑا خزنہ تھی۔ میموتھ اور اون والے
گینڈے جاڑے سے نہیں ڈرتے تھے۔ ان ے پاس گرم اور بالدار کوٹ تھے اور وہ ننگی
کھال والے جنوبی ہاتھیوں، گینڈوں اور دریائی گھوڑوں سے بالکل مختلف تھے۔
بعض شمالی جانوروں نے سردی سے بچنے کا ایک اور راستہ نکالا۔ وہ غاروں میں
رہنے لگے۔ شمالی جانوروں کو نے جنگل میں غذا کی کھوج میں مشکل نہیں ہوتی
تھی کیونکہ یہ ان کا اپنا جنگل، اپنی دنیا تھی۔
شکست خوردہ جنگلوں کے جانوروں کو اب شمالی جنگلوں کے نئے راجائوں سے مورچہ
لینا پڑا۔
اب غالباً تم کو حیرت نہ رہی ہو گی کہ ان میں سے اتنے کم کیون بچے۔ لیکن
ماقبل تاریخ کے آدمی کاکیا حشر ہوا؟
لیکن ماقبل تاریخ کے کے آدمی کا کیا حشر ہوا؟
ظاہر ہے کہ وہ بچ گیا کیونکہ اگر وہ بھی تباہ ہو گیا ہوتا تو تم کو یہ کتاب
پڑھنے کا موقع نہ ملتا۔
جو لوگ گرم ملکوں میں رہتے تھے ان کو سردی کے خلاف جان کی بازی لگا کر لڑنا
نہیں پڑا حالانکہ وہاں کی آ ب وہوا بھی کچھ سرد ہو گئی۔
ان آدمیوں کے لئے حالات بہت ہی خراب تھے جن کو بڑھتے ہوئے گلیشیروں کی دہشت
کا سامنا کرنا پڑا۔
ہر سال ایک نیا جاڑا آتا جو اور زیادہ سخت ہوتا۔ وہ کانپتے اور ٹھٹھر جاتے۔
وہ اپنے اوراپنے بچوں کو گرم رکھنے کے لئے ایک دوسرے سے جٹ کر بیٹھ جاتے۔
بھوک ، شدید سردی اور جنگلی جانور ان کو بالکل ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
اگریہ ابتدائی آدمی یہ سمجھ سکتے کہ ان کے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے تو
غالباً وہ یہی طے کرتے کہ دنیا کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔
دنیا کا خاتمہ
دنیا کے خاتمے کی پیش گوئیاں بارھا کی جاچکی ہیں۔
ازمنہ وسطی میں جب کوئی شہاب ثاقب اپنی شعلہ دم پھیلاتا آسمان کے پار جاتا
ہوا دکھائی دیتا تو لوگ اپنے اوپر صلیب مقدس کا نشان بنا کر کہتے:
”دنیاکا خاتمہ قریب ہے۔”
جب شدید طاعون کی بیماری پھیلتی جس کو لوگ ”سیاہ موت” کہتے تھے اور جو پورے
پورے گائوں اور شہروں کے لوگوں کو ختم کر کے قبرستانوں کو بھر دیتی تھی تب
بھی لوگ کہتے تھے:
”دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔”
جنگ اور قحط کے کٹھن زمانوں میں بھی وہمی لوگ سہم کر کہتے تھے:
”دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔”
بہر حال دنیا ختم نہیںہوئی۔
اب ہم جانتے ہیں کہ آسمان پر کسی شہاب ثاقب کا ظہور کوئی مافوق الفطرت
علامت نہیں ہے۔ شہاب ثاقب سورج کے گرد اپنے راستے پر چلتا رہتا ہے اور وہ
اس کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا کہ زمین پر وہمی لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے
ہیں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قحط اور بیماریوں اور حتی کہ جنگوں کا بھی یہ مطلب
نہیں ہے کہ دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔ کسی آفت کا سبب جاننا سب سے آہم بات ہے۔
اگر تم کو اس کا سبب معلوم ہو تو آفت پر قابو پانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
بہر نوع صرف جاہل او بیوقوف لوگ ہی دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی نہیں کرتے۔
ایسے سائنس داں بھی ہیں جو دنیا اور بنی نوع انسان کے خاتمے کے پیش گوئی
کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ بنی نوع انسان آخر میں ایند ھن کی کمی
سے تباہ ہو جائے گی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ کوئلے کے ذخیرے برابر کم ہوتے جا
رہے ہیں، جنگل بھی چھدرے ہو رہے ہیں اور غالباً اتنا تیل نہ ہو گا کہ
وہآئندہ چند صدیوں تک کام دے سکے۔ جب دنیا میں ایندھن نہ رہ جائے گا تو
فیکٹریوں میں مشینیں رک جائیں گی، ٹرینیں نہ چل سکیں گی، سڑکوں پر اور
گھروں میں روشنی نہ رہے گی۔ ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ
سردی اور بھوک سے مر جائیں گے اور جو بچ رہیں گے وہ پھر جنگلی اور وحشی ہو
جائیں گے۔
یہ یقینا بہت ہی خراب مستقبل ہے!
زمین کے ایندھن کے ذخیرے بہت ہی زبردست ہیں۔ کوئلے اور تیل کے نئے نئے
ذخیرے دریافت کئے جا رہے ہیں اور دریافت کئے جائیں گئے۔ جنگل صرف کاٹے ہی
نہیں جاتے بلکہ ہر سال نئے لگائے بھی جاتے ہیں۔لیکن اگر کسی دن ایندھن کے
یہ ذخیرے ختم بھی ہو جائیں تو کیا اس دنیاکا واقعی خاتمہ ہو جائے گا؟ نہیں،
ایسا نہیں ہوگا۔
کیونکہ دنیا میں ایندھن ہی روشنی اور حرارت کا وسیلہ نہیں ہے۔ حرارت کا سب
سے بڑا مخزن سورج ہے۔ ہمیں اس میں کوئی شک نہ ہونا چاہئے کہ اس وقت تک جب
کہ ہمارے ایندھن کے ذخیرے ختم ہوں گے سائنس داں رات کو سڑکوں پر اور گھروں
میں روشنی کے لئے، ٹرینیں اور مشینیں چلانے کے لئے حتی کہ کھانا پکانے کے
لئے سورج کی گرمی کے استعمال کا طریقہ معلوم کر لیں گے۔ شمسی حرارت سے چلنے
والے پہلے تجرباتی بجلی گھر اور شمسی حرارت سے کام کرنے والے پہلے باورچی
خانے وجود میں آچکے ہیں۔
”اچھا،ا یک منٹ رکئے!” وہ لوگ کہتے ہیںجن کودنیا کے خاتمے کی عجلت ہے۔ ”بہر
حال سورج بھی ایک دن ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ وہ اتنا گرم اور روشن نہیں ہے جتنے
کہ بعض نئے ستارے ہیں۔ کروڑوں سال گزرنے پر سورج کی حرارت کم ہو جائے گی
او را س سے زمین پر زیادہ ٹھنڈک ہو جائے گی۔
”بڑے بڑے گلیشیر انسان کی کمزور عمارتوں کو دنیا سے مٹا دیں گے۔ قطبی ریچھ
منطقہ حارہ میں گھومیں گے۔ لوگ بالکل نہیں بچیں گے۔”
اس میں شک نہیں کہ اگر کوئی نیا برفانی دور شروع ہوا تو زندگی بہت ہی
خوفناک ہو جائے گی۔ لیکن زمانہ تاریخ سے قبل کا آدمی بھی کسی نہ کسی طرح اس
برف سے بچ گیا تھا۔ ہم ایسی بات کیوں سوچیںکہ مستقبل کے لوگ جب کہ سائنس
آج سے کہیں زیادہ ترقی پر ہو گی، برف میںتباہ ہو جائیں گے؟
ہم یہ تک پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ وہ سردی پر قابو پانے کے لئے کیا کریں
گے۔ وہ سورج کی حرارت کے علاوہ ایٹمی حرارت استعمال کریں گے۔
اور مادے کے نواتوں میں ایٹمی توانائی کی جو مقدار ہے وہ کبھی ختم نہ ہوگی۔
صرف سوال یہ ہے کہ اس کو حاصل کیا جائے۔
بہرحال اب ہمیں مستقبل بعید کو چھوڑ کر ماضی بعید یعنی ماقبل تاریخ کے آدمی
کی طرف واپس جانا چاہئے۔
دنیا کی ابتدا
اگر آدمی ان زنجیروں کو نہ توڑدیتا جن سے وہ اپنے جنگل کاپابند ہوتا تھا
توجنگلی دنیا کی موت کے ساتھ آدمی کا بھی خاتمہ ہوجاتا۔
لیکن دنیا ختم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ صرف تبدیل ہو رہی تھی۔ پرانی دنیا
کاخاتمہ ہو رہا تھا اور نئی کی ابتدا۔ اس نئی دنیا میں، تبدیل شدہ دنیا میں
اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے آدمی کو بھی بدلنا تھا۔جس غذا کا وہ عادی
تھا وہ غائب ہو چکی، اس کو نئی غذا کی تلاش کرنا سیکھنا تھا۔ صنوبر او رچیڑ
کے پھل اس کے دانتوں کے لئے بہت سخت تھے۔ وہ جنوبی جنگلوں کے نرم اور رس
دار پھلوں کی طرح بالکل نہیں تھے۔
گرم دن ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سورج زمین کو فراموش کر
بیٹھا ہے اور لوگوں کو اس کی گرم روشنی کے بغیر زندگی بسر کرنا سیکھنا
تھا۔
ان کو تیزی کے ساتھ بدلنا تھا۔
تمام جانداروں میں صرف ماقبل تاریخ کے آدمی ہی میں تیزی کے ساتھ بدلنے کی
صلاحیت تھی۔ اس نے اپنے کو اس طرح تبدیل کرنا سیکھ لیا تھا جیسا کہ کوئی
اور جانور نہیں کر سکتا تھا۔
آدمی کا سب سے بڑا دشمن، تیز دانتوں والا چیتا، یک دم لمبے بالوں والا اونی
کوٹ نہیں پیدا کر سکا لیکن آدمی نے ایسا کر لیا۔ اس کے لئے اسے صرف ریچھ
کو مار کر اس کی کھال نکالنی پڑی۔
تیز دانتوں والا چیتا آگ نہیں بنا سکتا تھا لیکن آدمی ایسا کر سکتا تھا۔ اس
نے آگ کا استعمال جان لیا تھا۔ ماقبل تاریخ کا آدمی اپنے کو اور کچھ حد تک
قدرت کو تبدیل کرنے کے لئے کافی آگے بڑھ چکا تھا۔
اور حالانکہ اس بات کو ہزارہا سال گزر چکے ہیں ہم دیکھ سکتے کہ ماقبل تاریخ
کے آدمی نے قدرت میں کیا تبدیلیاں کیں او روہ خود کیسا بدل گیا۔
پتھر کے صفحات کی کتاب
ہمارے قدموں کے نیچے کی زمین ایک ضخیم کتاب کی طرح ہے۔
زمین کی اوپری سطح کی ایک ایک پرت، تہوں کی ہر ایک پرت کسی کتاب کے صفحہ کی
طرح ہے۔
ہم ان صفحوں کے اوپر اور سب سے آخری صفحے پر رہتے ہیں۔ سب سے پہلے صفحے
سمندروں کی تہہ میں ہیں۔ وہ سمندر کی تہہ کی گہرائیوں اور براعظموں کی
بنیادوں کے اندر گہرائیوں اور براعظموں کی بنیادوں کے اندر ہیں۔
جدید انسان ابھی تک ان صفحات تک نہیں پہنچا ہے،کتاب کے پہلے ابواب تک۔ ابھی
تک ہم صرف یہ قیاس ہی کر سکے ہیں کہ ان میں کیا لکھا ہو گا۔
لیکن اوپر کے حصے سے صفحات جتنے قریب ہیں اتنا ہی ہمارے لئے کتاب کا پڑھنا
آسان ہے۔ بعض صفحات جو لاوا کے گرم دھاروں سے جھلس کر بدشکل ہو گئے ہیں۔
ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح زمین کی سطح کے اوپر پہاڑی سلسلوں کی محراب تھی۔
دوسرے صفحات ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح زمین کی اوپری سطح ابھری اور پھر
بیٹھ گئی، اس نے سمندروں کو پھیلایا اور پھر ان کو پرانے ساحلوں پرواپس
لائی۔
ایسی پرتیں بھی ہیں چو سمندری گھونگھوں کی طرح سفید ہیں اور انہیں سے بنی
بھی ہیں۔ ا س کتاب میں کوئلے کی طرح کالے صفحات بھی ہیں۔ اور وہ سچ مچ
کوئلے سے بنے ہیں اور ہم کوان زبردست جنگلوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو کسی
زمانے میں ہماری زمین پرتھے۔
یہاں وہاں کسی کتاب کی تصویر کی طرح ہمیں کسی پتے کے چھاپے یا جانوروں کے
ڈھانچے ملتے ہیں جو ایسی جھاڑیوں میں رہتے تھے جو بعد کو کوئلے میں تبدیل
ہو گئیں۔
اس طرح صفحہ بصفحہ ہم زمین کی تاریخ پڑھ سکتے ہیں۔ صرف سب سے آخری صفوں پر،
کتاب میں سب سے اوپر ہمیں آخر کار نیا ہیرو یعنی آدمی ملتا ہے۔ ابتدا میں
یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ آدمی اس بڑی کتاب کا مرکزی کردار نہیںہے
کیونکہ وہ ماقبل تاریخ کے فیل پیکر اورگینڈے کے سامنے بہت چھوٹا معلوم ہوتا
ہے لیکن جوں جوں ہم آگے پڑھتے جاتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ نیاہیرو زیادہ
باہمت ہوتا جاتا ہے اور اول مقام پر آتا جاتا ہے۔
اور پھر وقت آتا ہے جب آدمی صرف اس بڑی کتاب کا مرکزی کردار ہی نہیں رہتا
بلکہ اس کے مصنفوں میں سے ہو جاتا ہے۔
دریائی پرتوں میں ، برفانی دور کی تہوں کے درمیان ایک واضح سیاہ خط ملتا
ہے۔ یہ خط لکڑی کے کوئلے نے بنایا ہے۔ بھلا ریت اورمٹی کے درمیان کوئلے کی
یہ پرت اچانک کیسے نمودار ہوئی؟ شاید اس کی وجہ جنگل کی آگ تھی؟
لیکن جنگل کی آگ ایک بڑے علاقے میں جلی ہوئی لکڑی چھوڑ جاتی ہے اورکوئلے کی
یہ لائن بہت مختصر ہے۔ صرف ایک کیمپ فائر ہی سے کوئلے کی یہ مختصر لائن بن
سکتی ہے۔ اور صرف انسان ہی الائو جلا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ الائو کے قریب ہی ہمیں انسان ہاتھ کے کام کے دوسرے نشانات بھی
ملتے ہیںیعنی پتھر کے اوزار اور شکار کئے ہوئے جانوروں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں۔
آگ اور شکار یہ تھیں دو چیزیں جنہوں نے برفانی دھاوے سے ماقبل تاریخ کے
آدمی کو بچا لیا۔
آدمی جنگل چھوڑتا ہے
زمانہ تاریخ سے قبل کے آدمی کو شدید موسم والے شمالی جنگلوں میں غذا بہت
مشکل سے ملتی تھی۔ اس لئے اس نے جنگلوں میں ایسے شکار کی تلاش شروع کی
جوایک جگہ پڑا نہیںرہتا، اس منتظر نہیں رہتا کہ کوئی اس کو اٹھائے بلکہ
بھاگتا، چھپتا اورمدافعت بھی کرتا ہے۔
گرم ملکوں تک میںبھی آدمی نے دن بدن زیادہ گوشت کھانا شروع کر دیا۔ گوشت
زیادہ شکم سیر تھا، آدمی کو زیادہ طاقتور بناتا تھا اور اس کو کام کے لئے
زیادہ وقت دیتا تھا۔ آدمی کے نشوونما پاتے ہوئے دماغ کے لئے بھی زیادہ مقوی
غذا کی ضرورت تھی۔
آدمی کے اوزار جتنے بہتر ہوتے گئے شکار اتناہی اہم ہوتا گیا۔ شمال میں تو
شکار کے بغیر زندہ رہنا ناممکن تھا۔
اب آدمی چوھے جیسے چھوٹے جانوروں سے اپنی بھوک نہیں مٹا سکتا تھا، اس کو
بڑے شکار کی ضرورت تھی۔ برفانی طوفان اور اندھیاں اور شدید پالا شمالی
جنگلوں میں شکار کو مشکل بنا دیتے تھے اور اس کا مطلب یہ تھاکہ آدمی گوشت
کا ذخیرہ کرے۔
ماقبل تاریخ کا آدمی کیسے جانور شکار کرتا تھا؟
اس زمانے میں جنگلوں میں بڑے بڑے جانور ہوتے تھے جو ہر جنگل کے کھلے حصوں
میں چرتے تھے۔ جنگلی سور جنگلوں میں زمین کھود کر غذا تلاش کرتے تھے۔ لیکن
میدانوں میں بڑے جانوروں کی تعداد جنگلوں سے کہیں زیادہ تھی۔ بڑے بڑے کھلے
میدانوں میں جھبرے بالوں والے وحشی گھوڑوں کے غول کے غول چرتے تھے۔ کوھانوں
والے جانور ارنا بھینسے کے گلے دھاڑتے ہوئے اس تیز رفتاری سے گزر جاتے تھے
کہ زمین کانپ جاتی تھی۔ بڑے بڑے بالوں والے عظیم الجثہ جانور میموتھ چلتے
پھرتے پہاڑوں کی طرح نکل جاتے تھے۔
جہاں تک آدمی کا سوال تھا یہ سب اس کے لئے متحرک اور فرار ہو جانے والے
گوشت کی طرح تھا جو اس کو پیچھا کرنے کا لالچ دلاتا تھا۔
اس طرح شکار کی تلاش میں ماقبل تاریخ کے آدمی نے جنگل چھوڑا۔ آدمی رفتہ
رفتہ میدانوں میں آگے پھیلتا گیا۔ ہم کوان کے الائوں اور شکاری کیمپوں کی
جگہیں جنگلوں سے دور ایسے مقامات پر ملتی ہیںجہاں یہ ذخیرہ کرنے والے نہ
پہلے کبھی رہتے تھے اور نہ رہ سکتے تھے۔
الفاظ کو ٹھیک سے پڑھنا چاہئے
شکار کئے ہوئے جانوروں کی ہڈیاں ماقبل تاریخ کے آدمی کے پڑائوں کے قریب
پائی جاسکتی ہیں۔ ان میں گھوڑے کی زردی مائل ہڈیاں، بیلوں کی سینگ دار
کھوپڑیاں اور جنگلی سوروں کے ٹیڑے دانت ملتے ہیں۔ کبھی کبھی ہڈیوں کے بڑے
برے ڈھیر بھی ملتے ہیںجس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اس ایک جگہ پر کافی
مدت تک رہا تھا۔
یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ ارنا بھینسوں، جنگلی سوروں اور گھوڑوں کی ہڈیوں کے
درمیان کبھی کبھی میموتھ کی دیو قامت ہڈیاں بھی ملتی ہیں: بڑی بڑی
کھوپڑیاں، بڑے ٹیڑھے ہاتھی جیسے دانت، تیز کترنے والے دانت اور جسموں سے
کاٹی ہوئی ٹانگوں کی ہڈیاں وغیرہ۔
واقعی ایسے دیوزاد کو مارنے کے لئے بڑی طاقت اور ہمت کی ضرورت تھی! لیکن اس
سے زیادہ طاقت اس کے جسم کے ٹکڑے کاٹنے اور ان کو پڑائو تک گھسیٹ کر لے
جانے میں پڑتی تھی۔ ایک ایک ٹانگ کا وزن ایک ٹن کے برابر ہوتا تھا اور
کھوپڑی اتنی بڑی ہوتی تھی کہ پورا آدمی اس کے اندر آسانی سے کھڑا ہو سکتا
تھا۔
آج کے شکاریوں تک کے لئے جو ہاتھیوں کے شکار کی خاص رائفلوں سے مسلح ہوتے
ہیں قدیم میموتھ کو مارنا آسان نہ ہوتا۔ لیکن ماقبل تاریخ کے آدمی کے پاس
تو رائفل نہ تھی۔ اس کے پاس بس پتھر کا کوئی چاقو یا پتھریلی نوک کا کوئی
بھالا ہوتا تھا۔
ہزارہا سال کے دوران میں ان پتھروں کے اوزاروں میں تبدیلی ہوئی ہے۔ وہ
زیادہ بہتر اور نوع بنوع ہو گئے ہیں آدمی پتھر کا چاقو یا تیر اس طرح بناتا
تھا ۔ پہلے وہ پتھر کی اوپری سطح کاٹ لیتا تھا، پھر ناہموار حصے برابر
کرتا تھا اور اس کو ٹکڑوں میںکاٹ لیتا تھا۔ ان ٹکڑوں سے وہ ضرورت کے مطابق
کاٹ کرنے والے اوزار بناتا تھا۔
چقماق پتھر جیسی نا مناسب اور سخت چیز سے چاقو بنانا بڑی مہارت کی بات تھی۔
اسی لئے ماقبل تاریخ کا آدمی اپنا پتھر کا اواز استعمال کرنے کے بعد
پھینکتا نہیں تھا بلکہ اس کی قدر کرتا تھا اور جب وہ کند پڑ جاتا تھا تو اس
کو تیز کر لیتا تھا۔ آدمی اپنے اوزاروں کو بہت عزیر رکھتا تھا کیونکہ وہ
اپنی محنت اور وقت کی قدر کرتا تھا۔
بہر حال وہ چاہے جتنی بھی کوشش کرتا اس کا پتھر تو پتھر ہی تھا۔ اس کا پتھر
کی نوک والا بھالاکسی میموتھ سے سامنا ہونے پر بیکار ہو جاتا تھا۔ جانور
کی موٹی کھال اسے اسی طرح محفوظ رکھتی تھی جیسے فولاد کی چادر ٹینک کو
محفوظ رکھتی ہے۔
پھر بھی ماقبل تاریخ کا آدمی میموتھ کو مارتا تھا۔ اس کا ثبوت ہمیں میموتھ
کی ان کھوپڑیوں اور بڑے دانتوں سے ملتا ہے جو مختلف پڑائوں پر ملے ہیں۔
آدمی میموتھ کا شکار کیسے کرتا تھا؟ یہ صرف وہ سمجھ سکتا ہے جو لفظ ” آدمی”
کو سمجھ سکتا ہے، جو کہتا ہے ”آدمی” اور سوچتا ہے ”لوگوں” کے بارے میں۔
ایک آدمی اکیلا نہیں بلکہ لوگ اپنی متحدہ کوششوں سے اوزار بنانا، شکار
کھیلنا، آگ جلانا، پناہ گاہیں بنانا اور زمین گوڑنا جوتنا سیکھتے تھے۔ صرف
تنہا آدمی نے نہیں بلکہ پوری انسانی سوسائٹی نے کووڑوں کی محنت کے ذریعے
کلچر او سائنس کی تخلیق کی ہے۔
اکیلا آدمی تن تنہا ہمیشہ جنگلی جانور ہی رہتا لیکن انسانی سوسائٹی کے اندر
کام نے جانور کو آدمی بنادیا۔
ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں ماقبل تاریخ کے شکار کو قدیم زمانے کے روبنسن
کروسو کی طرح دکھایا گیا ہے جو استقلال کے ساتھ محنت کرتا رہا یہاں تک کہ
وہ بری ترقی کی منزل تک پہنچ گیا۔
لیکن اگر ماقبل تاریخ کا آدمی واقعی ایسا ہی گوشہ نشین ہوتا اور اگر پہلے
آدمی بڑے بڑے غولوں کی صورت میں نہیں بلکہ صرف خاندانوں میں رہتے تو وہ
کبھی ”لوگ” نہ بنتے اور نہ کوئی مشترک تہذیب پیدا کرسکتے۔
اور روبنسن کروسو کا بھی انجام ویسا نہ تھا جیسا ڈینیل ڈیفو نے پیش کیا ہے۔
ڈیفو کی کتاب کی بنیاد ایک ملاح کی سچی کہانی ہے جس نے اپنے جہاز پر بغاوت
اکسائی تھی۔ اس کو سمندر کے بیچوں بیچ ایک جزیرے میں چھوڑ دیا گیا تھا
تاکہ وہ موت کا شکار ہو جائے۔بہت برسوں بعد کچھ بحری مسافر اس جزیرے پر آئے
اور انہوں نے دیکھا کہ یہ آدمی بالکل جنگلی ہو گیا ہے۔ بڈھا ملاح بات چیت
کرنا بالکل بھول گیا تھا اور وہ انسان سے زیادہ جنگلی جانور معلوم ہوتا
تھا۔
اگر موجودہ دور کا آدمی تنہائی میں آسانی سے آدمی نہیں رہ سکتا تو بھلا
ماقبل تاریخ کے لوگوں کے بارے میں سوچو!
ان کو صرف یہی ایک چیز آدمی بناتی تھی کہ وہ ایک ساتھ رہتے تھے، ایک ساتھ
شکار کھیلتے تھے اور اپنے اوزار ساتھ مل کر بناتے تھے۔
آدمیوں کا پورا غول کسی عظیم الجثہ قدیم جانور کی گھات لگا کر شکار کرنے
میں حصہ لیتا تھا۔اس کے پہلوئوں پر ایک نہیں بلکہ درجنوں بھالے پڑتے تھے۔
انسانی غول ا س جانور کا اس طرح پیچھا کرتا تھا جیسے یہ غول خود کوئی بہت
سے پیروں اور بازوئوں والا جانور ہو۔ صرف درجنوں ہاتھ ہی نہیں بلکہ درجنوں
دماغ بھی ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔
حالانکہ میموتھ آدمیوں سے کہیں زیادہ بڑا اور طاقتور ہوتا تھا پھر بھی آدمی
زیادہ ہو شیار تھے۔
میموتھ تو اتنا بڑا ہوتا تھا کہ وہ آسانی سے آدمی کو روند کر ختم کر سکتا
تھا لیکن ماقبل تاریخ کے آدمی نے میموتھ کا زبردست وزن ا س کے خلاف استعمال
کیا اور اس دیو پیکر کو مغلوب کر لیا جس کے قدموں تلے زمین کانپتی تھی۔
میموتھ کو گھیرنے کے بعد شکاری چاروں طرف کی خشک جھاڑیوں کو آگ لگا دیتے
تھے۔ جانور شعلوں سے بہت ہی دشت زدہ ہو جاتا تھا۔ اس کی جھبری کھال سلگنے
اور دھواں دینے لگتی تھی اور وہ بھاگ نکلتا تھا اور آگ اس کا پیچھا کرتی
تھی، اس کو سیدھا کسی دلدل کی طرف لے جاتی تھی جیسا کہ شکاری ہو شیاری سے
منصوبہ بناتے تھے۔وہاں وہ اس طرح مٹی اور کیچڑ میں دھنس جاتا جیسے پتھر کا
مکان دلدل میں دھنس جاتا ہے۔ وہ دلدل سے نکلنے کے لئے پیر مارتا لیکن اس سے
وہ اور گہرا دھنس جاتا۔
اس وقت شکاری ا س کو مارنے کے لئے گھیر لیتے۔کسی میموتھ کو پھنساکر مارنا
آسان نہ تھا۔ لیکن اس کوپڑائو تک گھسیٹ کرلے جانا اس سے بھی مشکل تھا جو
عموماً دریا کے اونچے اور خشک کنارے پر ہوتا تھا کیونکہ دریا لوگوں کو پینے
کا پانی مہیا کرتاتھا اور اتھلے پانی اور کناروں پر پتھر ملتا تھاجو ان کے
اوزاروں کے لئے خاص سامان تھا۔ اب اس کا مطلب یہ تھا کہ میمو تھ کو دلدل
کے نشیب سے اوپر کی طرف گھسیٹنا ہوتا تھا۔
یہاں بھی ایک دو نہیں بلکہ درجنوں ہاتھ کام کرتے تھے لوگ اپنے تیز دھاروں
والے پتھر جانور کی موٹی کھال، سخت جوڑوں اور بڑے بڑے پٹھوں کو کاٹنے او
رچیرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ جو زیادہ تجربے کار پرانے شکاری تھے وہ
کمسن لوگوں کو سکھاتے تھے کہ کھوپڑی اور پیروں کو جسم سے الگ کرنے کے لئے
کہاں کاٹنا چاہئے۔ آخر کار جب پوری راس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے تو واپس جانے
کے لئے طویل سفر شروع ہوتا۔
کام کو تیز بنانے کے لئے وہ ھانک پکار کرتے تھے اور کسی بڑے پیر یا سر کوجس
کی سونڈ راستے پر لوٹتی چلتی گھسیٹنے کے لئے وہ اپنے کو بڑے بڑے
غولوںمیںتقسیم کر لیتے۔
تھکن سے چور وہ آخر کار پڑائو پر پہنچ جاتے۔ کیسا جشن ہوتا! وہ جانتے تھے
کہ میموتھ کے شکار کا مطلب واقعی زور دار دعوت ہے، ایسی دعوت جس کے لئے ان
کو مدتوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا مطلب بہت دنوں کے
لئے کھانے کا ذخیرہ ہے۔
مقابلہ کا خاتمہ
دوسرے جانوروں سے آدمی کا مقابلہ ختم ہو گیا تھا۔ وہ دوڑ میں سب سے آگے
تھاکیونکہ اس نے سب سے بڑے جانور پر فتح پائی تھی۔
دنیا میں آدمیوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔ ہر دور اورصدی کے ساتھ آدمیوں
میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ دنیا کے ہر حصے میں آدمی ہو گئے۔
آدمی کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ کسی دوسرے جانور کے ساتھ نہیںہو سکتا تھا۔
مثال کے طور پر کیا خرگوشوں کی تعداد بھی اتنی ہی کثیر ہو سکتی تھی جتنی
آدمیوں کی؟
نہیں۔ کیونکہ اگر خوگوشوں کی تعدادبڑھتی تو بھیڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ
ہوتا اوروہ خرگوشوں کی تعداد کم ہی رکھتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگلی جانوروں کی تعداد لا متناہی نہیں بڑھ سکتی۔ ایک
حد ہے جس کے آگے ان کا بڑھنا مشکل ہے۔ آدمی نے مدتوں ہوئے ان سرحدوں
اورپابندیوں کو ختم کر دیا ہے جو قدرت نے اس کے ایسے جانوروں پر عائد کی
تھیں۔ جب اس نے اوزار بنانا سیکھا تو ایسی چیزیں کھانے لگا جو اس نے پہلے
کبھی نہیں کھائی تھیں۔ اس طرح اس نے قدرت کو مجبور کیا کہ اس سے زیادہ
مہربانی کا برتائو کرے۔ جہاں آدمیوں کا ایک ہی غول غذا کی تلاش کرتا تھا
وہاں اب دو تین غول رہ سکتے تھے۔
اور جب اس نے بڑے بڑے جانوروں کا شکار شروع کیا تو اس کے رہنے کی سرحدوں
میں اور وسعت پیدا ہو گئی ۔
اب آڈمی کو سارے دن نہیں چرنا پڑتا تھا، اس کو پودوں کی تلاش نہیںکرنی پڑتی
تھی۔ اس کیلئے ارنا بھینسے، گھوڑے او رمیموتھ چرتے تھے۔ ان چوپایوں کے گلے
میدانوں میں پھرتے تھے، گھاس کے میدان چر جاتے تھے۔ دن بدن، سال بسال ان
کا وزن بڑھتا جاتا تھا۔ ٹنوں گھاس کو وہ منوں گوشت میں تبدیل کر دیتے تھے۔
اور جب آدمی کسی ارنا بھینسے یا میموتھ کو مارتا تھا تو وہ توانائی کے ایک
بڑے ذخیرے کا مالک بن جاتا تھا جو کئی برسوں کے دوران میں جمع کیا گیا تھا۔
اس کو ان توانائی کے ذخیروں کی بڑی ضرورت تھی کیونکہ وہ طوفان، آندھی اور
سخت سردی میں شکار کے لئے نہیں جا سکتا تھا۔وہ زمانہ گزر چکا تھا جب جاڑے
اور گرمی دونوں میں خوشگوار گرمی ہوتی تھی۔
بہر حال ایک تبدیل کی وجہ سے دوسری تبدیلی ہوتی رہی۔
اگر آدمی نے ذخیرہ کرنا شروع کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے ایک جگہ پر
زیادہ مدت کے لئے رہنا تھا یعنی اس کے لئے پڑائو کو اکھاڑنا زیادہ دشوار ہو
گیا۔ بہر حال وہ شکار کئے ہوئے فیل پیکر جانور کی راس کو اپنے ساتھ
گھسیٹتا کہاں پھر سکتا تھا۔
اس کے علاوہ اس کے بسنے کے دوسرے اسباب بھی تھے۔ اگلے زمانے میں ایک رات
کیلئے ہر درخت اس کا گھر بن جاتا تھا جو اس کو جنگلی جانوروں سے پناہ دیتا
تھا۔ اب اس کو ان جانوروں سے اتنا ڈر نہیں لگتا تھا۔ لیکن اس کا ایک نیا
دشمن جاڑا تھا۔
آدمی کو سردی اور برفانی طوفانوں سے بچنے کے لئے متعبر پناہ گاہ کی ضرورت
تھی۔
آدمی اپنی دنیا بناتا ہے
آخر کار وہ وقت بھی آیا جب آدمی نے اپنے چاروں طرف کی بڑی اور سرد دنیا کے
درمیان اپنی چھوٹی سی گرم دنیاکے تعمیر شروع کی۔ کسی غار کے داخلے پر، یا
کسی پہاڑی کی کگر کے نیچے اس نے بارش، برفباری اور ہوا سے بچنے کے لئے
جانوروں کی کھالوں اور شاخوں کی چھت بنائی۔ اپنی چھوٹی سی دنیا کے بیچ میں
اس نے وہ سورج روشن کیا جو رات میں روشنی دیتا تھا اور جاڑوں میں اسے گرم
رکھتا تھا۔
ماقبل تاریخ کے شکاری پڑائوں کے خیموں کی میخوں کے گڈھے ابھی تک بعض جگہ
پائے جاتے ہیں۔ ان میخوں کے حلقے کے بیچ میں وہ جلے ہوئے پتھر ہیں جو چولھے
کے گرد ہوتے تھے۔ یہی چولہا ماقبل تاریخ کے آدمی کا سورج تھا۔
دیواریں مدت ہوئی گر کر خاک میں مل گئی ہیں لیکن ہمیں بالکل ٹھیک معلوم ہے
کہ وہ کہاں تھیں۔ چھوٹی سی دنیا کی ساری سطح ان آدمیوں کی کہانی بتاتی ہے
جنہوں نے اس دنیا کو بنایا تھا۔
پتھر کے چاقوں او رکرچھنی، پتھر کے تیز دھاروالے ٹکڑے، جانوروں کی کٹی ہوئی
ہڈیاں، چھولھے کا کوئلہ اور راکھ۔ یہ سب چیزیں ریت اور مٹی میں اس طرح ملی
ہوئی پائی جاتی ہیںجو قدرتی حالات میں کبھی نہیں ملتیں۔
ہم جیسے ہی ان معدوم پڑائوں کی نظر نہ آنے والی دیواروں کے پیچھے قدم رکھتے
ہیں وہ تمام چیزیں غائب ہو جاتی ہیں جو ہمیں آدمی کے کام کے بارے میں یاد
دلاتی ہیں۔ نہ تو زمین میں دفن اوزار نظر آتے ہیں، نہ چولھے سے کوئلہ، راکھ
یا جانوروں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں نکلتی ہیں۔
اس طرح ابھی تک آدمی کی بنائی ہوئی دینا اس کے چاروں طرف کی ہر چیز سے ایک
نظر نہ آنے والی لائن کے ذریعے الگ ہوتی ہے۔
جب ہم آدمی کی دستکاری کے نشانات ڈھونڈھنے کے لئے زمین کو کھودتے ہیں، جب
ہم پتھر کے چاقوں اور چھینیوں کا جائزہ لیتے ہیں اور چولھے کے اس کوئلے کو
چھانے ہیں جو ہزار ہا برس سے ٹھنڈا پڑا تو ہمیں صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ
پہلی دنیا کا خاتمہ نسل انسانی کا خاتمہ نہیں تھا کیونکہ انسان خود اپنے
لئے ایک چھوٹی سی نئی دنیا بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
ماضی میں پہلا سفر
ارنے بھینسوں اور میموتھ کا شکار کرنے والوں کے پڑائوں پر جوا وزار پائے
گئے ہیں ان میں پتھر کے دوا وزار بہت عام ہیں۔ ایک بڑا اور مثلث کی شکل کا
ہے اور اس کو دو طرف سے تیز کیا گیا ہے، دوسرا
نیم حلقے کی شکل کا ہے جس کی دھار تیز کی گئی ہے۔
ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر اوزار کسی خاص کام کے لئے بنایا گیا ہے ورنہ ان کی
شکلیں مختلف نہ ہوتیں۔ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ ان میں سے ہر ایک کا استعمال
کیا تھا؟
ان اوزاروں کی شکلیں اس کا کچھ پتہ بتاتی ہیں۔
وہ دونوں تیز ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سے چاقوں یا کلہاڑی کی طرح
کاٹنے کا کام لیا جاتا تھا۔ ان میں ایک زیادہ بڑا اور بھاری تھا۔ اس لئے اس
کا استعمال زیادہ سخت کام میں ہوتا تھا۔ اس کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ
اس کے استعمال کے لئے زیادہ طاقت کی ضرورت تھی۔
بھلا یہ کون سا کام تھا؟
آئو پتھر کے زمانے کو واپس چلیں اور دیکھیں کہ ماقبل تاریخ کا آدمی اپنے
اوزاروں کو کیسے استعمال کرتا تھا۔
اکثر ہم کو اس طرح کا جملہ کسی ناول میں ملتا ہے ”آئو، دس سال پیچھے واپس
چلیں۔” ایسی کتاب کے مصنف کے لئے یہ آسان بات ہے کیونکہ وہ جہاں چاہے اور
جب چاہے واپس جا سکتا ہے۔ اور وہ اپنے کرداروں کے بارے میں انتہائی ناقابل
یقین باتیں کہہ سکتا ہے۔
بہر نوع ہم پتھر کے زمانے تک واپس جا سکتے ہیں۔
اگر تم یہ چاہتے ہو تو تمہارے پاس ایسے طویل سفر کے لئے سارا ساز وسامان
ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو تمہارے پاس کنویس کا خیمہ ہونا چاہئے جس کا فرش
بھی کنویس کا ہو اور جو کسی سفری تھیلے میں تہہ کر کے رکھا جا سکے۔ پھر
خیمے کے ستون اور رسیاں باندھنے کے لئے میخیں چاہئیں اور ایک ہتھوڑی بھی جس
سے میخیں زمین میں ٹھونک کر گاڑی جا سکیں۔ اس کے علاوہ کئی اور چیزوں کی
ضرورت پڑے گی۔ سورج کی تپش سے محفوظ رہنے کے لئے کارک کا ایک خود، کلہاڑی،
کڑاہی، کھانا پکانے کا چولہا، کٹورا، چھری اور چمچہ، ایک قطب نمااور نقشہ۔
جب تم یہ سب چیزیں اچھی طرح باندھ لو اور اپنی رائفل لے لو (کیونکہ اگر تم
پتھر کے زمانے میں اپنی غذا کے لئے شکار نہیں کر سکتے تو تمہاری زندگی نا
ممکن ہے) تو کسی بندر گاہ جائو اور سٹیمر کا ٹکٹ خرید لو۔
لیکن ٹکٹ بابو سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تم پتھر کے زمانے کو جا رہے ہو
کیونکہ اگر تم اس سے یہ کہو گے تو وہ تم کو پاگل سمجھ کر ڈاکٹر بلائے گا۔
تمہارے ٹکٹ پر یہ نہیں لکھا ہو گا کہ ”پتھر کے زمانے کو واپسی ٹکٹ۔” ٹکٹ
بالکل معمولی ہو گا۔ اس پر ”میلبورن” لکھا ہو گا جو تمہاری منزل ہے۔
جب ٹکٹ تمہاری جیب میں پہنچ جائے تو تم آسٹریلیا جانے والے مسافر بردار
جہاز پر بیٹھ سکتے ہو۔ چند ہفتوں میں تم میلبورن پہنچ جائو گے۔
یہ جاننا بہت دلچسپ ہے کہ ابھی دنیا میں ایسی جگہیں باقی ہیں جہاں لوگ پتھر
کے اوزاروں سے کام کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں بھی ایسی جگہیں ہیں۔ اس کا یہ
مطلب ہوا کہ پچھلے دوروں میں سفر کی جگہ فاصلوں کا سفر لے سکتا ہے۔ اور جب
سائنس داں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ماضی بعید میں لوگ کس طرح رہتے تھے تو وہ
یہی کرتے ہیں۔
آسٹریلیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو پتھر کے اوزار استعمال کرتے ہیں۔
ہم ان لوگوں کے ہاں جا رہے ہیں یہ دیکھنے کہ وہ اپنے اوزار کیسے استعمال
کرتے ہیں۔
ہم آسٹریلیائی شکاریوں کے پڑائو تک جانے کے لئے ایسے خشک اور ویران میدانوں
سے گزریں گے جہاں جا بجا کانٹے دار جھاڑیوں کے قطعے نظر آتے ہیں۔ ہم ان کے
جھونپڑوں تک پہنچ جاتے ہیں جو درختوں کی چھال اور شاخوں سے بنے ہیں اور
دریا کے کنارے درختوں کی ایک گپھا میں ہیں۔ بچے جھونپڑوں کے ادھر ادھر دوڑ
رہے ہیں۔ مرد اور عورتیں کام میں مصروف ہیں۔وہ قریب ہی زمین پر بیٹھے ہیں۔
ایک بڈھا آدمی جس کی لمبی سی داڑھی ہے اور بال جھبرے ہیں ایک کنگرو کی کھال
کھینچ رہا ہے۔ یہ بڈھا مثلث کا شکل کا پتھر کا اوزار کاٹنے کے لئے استعمال
کر رہا ہے۔ ارے، یہ تو وہی پتھر کا اوزار ہے جس کا متعلق ہم معلومات حاصل
کرنے نکلے تھے!
ظاہر ہے کہ آسٹریلیا کے موجودہ زمانے کے لوگ ماقبل تاریخ کے لوگ تو نہیں
ہیں۔ ہزارھا نسلیں ان کو اپنے ماقبل تاریخ کے اجداد سے الگ کرتی ہیں۔ ان کے
پتھر کے اوزار ماضی کی معمولی سی باقیات میں سے ہیں۔ لیکن ماضی کی یہ
باقیات ہمارے بہت سے معمے حل کر سکتی ہیں۔ آسٹریلیائی آدمی کو کام کرتے
دیکھ کر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پتھر کا بڑا مثلث اوزار آدمی ہی کا اوزار ہے،
ایک شکاری کا اوزار جس سے وہ پھندے میں آئے ہوئے یا زخمی جانور کو مارتا
ہے، اس کو کاٹتا ہے اور اس کی کھال کھینچتا ہے۔
دوسرے قدیم اوزار یعنی نیم حلقے والے دھار دار اوزار کو استعمال کے وقت
دیکھنے کے لئے ہمیں اور آگے سفر کرنا ہو گا۔ ہمیں جزیرہ تسمانیا جانا ہو گا
جو آسٹریلیا کے جنوب میںہے۔ ابھی حال تک وہاں عورتیں پتھر کا یہ اوزار
کپڑا اور چمڑا کاٹنے اور چمڑے کو چھیلنے کے لئے استعمال کرتی تھیں۔
اوزاروں کے درمیان کام کی تقسیم کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں کے درمیان بھی کام
کی تقسیم تھی جو پتھر کے زمانے کے شکاریوں کے وقت سے شروع ہوئی تھی۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا طرح طرح کے کام نکلتے گئے۔ ان سب کو کرنے کے لئے کچھ
لوگ ایک طرح کا کام کرتے تو دوسرے دوسری طرح کا۔ جب مرد شکار کھیلنے جاتے
تو عورتیں چولھے کے پاس بیکا نہیں بیٹھتیں۔ وہ نئے خیمے بناتیں، جانوروں کی
کھالوں کو کاٹ کر کپڑے بناتیں، کھانے والی جڑیں جمع کرتیں اور غذا کا
ذخیرہ کرتیں۔
لیکن اس کے علاوہ محنت کی ایک اور تقسیم تھی۔ جوانوں اور بڈھوں کے درمیان۔
ہزار سالہ اسکول
ہر کام کو کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور اس کو کرنے کا علم آسمان سے نہیں
نازل ہوتا۔ علم تو ایسی چیز ہے جو دوسروں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
اگر ہر بڑھئی اپنا بسولا، آری اور رندہ ایجاد کرنے سے ابتدا کرے اور پھر یہ
دریافت کرے کہ اس کو یہ اوزار کیسے استعمال کرنا ہیں تو زمین پر ایک بھی
بڑھئی کا وجود نہ رہے۔
اگر جغرافیہ سیکھنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک ساری دنیا کا سفر کرنا پڑے،
امریکہ کو پھر سے دریافت کرنا پڑے، افریقہ کو تلاش کرنا ہو، ایورسٹ کی چوٹی
پر چڑھنا پڑے،ہر خلیج اور آبنائے کا شمار کرنا پڑے تو ہم چاہے ایک ہزار
سال بھی زندہ رہیں لیکن ہمارے پاس اس کے لئے کافی نہ ہو گا۔
ہم جتنی ترقی کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہمیںمطالعہ کرنا چاہئے۔ ہر نئی نسل
اپنی پچھلی نسل سے زیادہ علم، معلومات اور دریافتیں حاصل کرتی ہے۔
ہر سال سائنس کے ہر شعبے میں دریافتوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ سائنسوں کی
تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ کسی زمانے میں طبیعیات تھی۔اب ارضیاتی طبیعیات اور
فلکیاتی طبیعیات بھی ہیں۔ پہلے صرف کیمسٹری تھی۔ اور ایگرو کیمسٹری بھی ہو
گئی ہیں۔ نئے علم کے دبائو سے سائنسیں بڑھتی ہیں، تقسیم ہوتی ہیں اور ان کی
تعداد میں اضافہ ہوتا ہے جیسے وہ کوئی زندہ خلیے ہوں۔
ظاہر ہے کہ پتھر کے زمانے میں سائنسیں نہیں تھیں۔ آدمی کے تجربے کا ذخیرہ
ابھی شروع ہوا تھا۔ آدمی کی محنت بھی اتنی پیچیدہ نہیں تھی جتنی اب ہے۔ اسی
لئے آدمی کو اپنی تعلیم کی تکمیل میں زیادہ مدت نہیں لگتی تھی۔ پھر بھی اس
کو بہت سی باتیں سیکھنا پڑتی تھیں۔
اس کو جانوروں کا کھوج لگانے، ان کی کھال کھینچنے، خیمہ بنانے، پتھر کا
دھاردار اوزار بنانے وغیرہ کے لئے علم اور مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی
تھی۔
اورعلم کہاں سے آتا ہے؟
آدمی کوئی ہنر لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اس کو حاصل کرتا ہے۔
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آدمی جانوروں کی دنیا کو کتناپیچھے چھوڑ آیا ہے۔
جانور کو اپنے تمام ”زندہ اوزار” اور ان کے استعمال کی معلومات اس کے ماں
باپ سے ترکے میں بالکل اسی طرح ملتی ہیں جیسے اس کے سمور کا رنگ یا جسم کی
ساخت۔ سور کے بچے کو یہ نہیں سیکھنا پڑتا کہ وہ کیچڑ کو کسی طرح کھودے
کیونکہ خاص طور سے اس مقصد کے لئے اس کو پیدائش ہی کے دن سے مضبوط تھوتھن
دیا گیا ہے۔ اودبلائو کو یہ سکھانے کی ضرورت نہیں کہ وہ لکڑی کیسے چبائے
کیونکہ اس کے تیز دانت قدرتی طور پر اگتے ہیں۔ اسی وجہ سے جانوروں کے ہاں
نہ تو ورکشاپ ہوتے ہیں اور نہ اسکول۔
وہ بطخ کا ننھا سا چوزہ جو ابھی انڈے سے نکلا ہے مکھیاں او رمچھر پکڑنا
شروع کر دیتا ہے حالانکہ کسی نے اس کو یہ نہیں سکھایا ہے۔ کوئل کا بچہ
دوسروں کے گھونسلوں میں پلتا بڑھتا ہے۔ اس کے اصلی ماں باپ اس کی دیکھ بھال
نہیں کرتے۔ لیکن جب خزاں آتی ہے تو وہ خود روانہ ہوجاتا ہے اور افریقہ کا
راستہ پالیتا ہے حالانکہ اس کویہ راستہ کسی نے نہیں دکھایا۔
جانور یقینا بہت کچھ اپنے والدین سے سیکھتے ہیں لیکن وہاں اسکول کی طرح کی
کسی چیز کاسوال ہی نہیں اٹھتا۔
آدمیوںکے بارے میں بات بالکل مختلف ہے۔
آدمی اپنے اوزار خود بناتا ہے کیونکہ وہ ان کو لے کر نہیں پیدا ہوتا۔ اس کا
مطلب یہ ہوا کہ وہ ان اوزاروں کا استعمال یا ہنر اپنے والدین سے ترکے میں
نہیں پاتا۔ وہ ان کو اپنے بزرگوں اور استادوں سے سیکھتا ہے۔
ہر کاہل طالب علم کو بڑی خوشی ہوتی اگر لوگ قواعد اور ریاضی کی معلومات لے
کر پیدا ہوا کرتے۔ پھر اسکولوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن اس سے طالب علم کو
زیادہ فائدہ نہ ہوتا۔ اگر اسکول نہ ہوتے تو لوگ کوئی نئی بات نہ سیکھتے۔
تمام انسانی ہنر اور معلومات ایک ہی معیار پر قائم رہتے جیسے گلہری کا ہنر
یا مشاقی۔
یہ آدمی کی خوش قسمتی ہے کہ وہ بنے بنائے ہنر کے ساتھ نہیںپیدا ہوتا۔ وہ
سیکھتا اور سکھاتا ہے اورہر نسل انسانی تجربات کے ذخیرے میں اپنی طرف سے
کچھ نہ کچھ اضافہ کرتی ہے۔ یہ تجربات برابر بڑھتے رہتے ہیں۔ بنی نوع انسان
نامعلوم کی سرحدوں کو اور دور ڈھکیلتا جاتا ہے۔
ہزار سالہ اسکول، انسانی محنت کے اسکول نے آدمی کو وہ کچھ بنایا ہے جو آج
وہ ہے۔ اس نے آدمی کو سائنس، انجینرنگ اور آرٹ عطا کیا ہے، ا سنے اس کو
تہذیبی ورثہ دیا ہے۔
آدمی سب سے پہلے پتھر کے زمانے میں اس ہزار سالہ اسکول میں داخل ہوا تھا۔
بڈھے، تجربے کار شکاری کمسن لڑکوں کو شکار کا مشکل فن سکھاتے تھے۔ جانور کو
اس کے پیروں کے نشانات سے جانا جاتا ہے، جانور کے قریب اس کو بھڑکائے بغیر
کیسے پہنچا جاتا ہے وغیرہ۔
آج بھی شکار کے لئے بڑی مہارت کی ضرورت ہے۔ پھر بھی آج اس زمانے کے مقابلے
میں شکاری ہونا کہیں زیادہ آسان ہے کیونکہ آج شکاری کو خود اپنے ہاتھوں سے
ہتھیار نہیں بنانے پڑتے ہیں۔ پتھر کے زمانے میں شکاری اپنے ڈنڈے، کاٹنے
والے اوزار اور بھالوں کے لئے نوکیلی سینگیں خود بناتے تھے۔ بوڑھا شکاری
اپنے قبیلے کے نوجوانوں کو بہت کچھ سکھا سکتا تھا۔
عورتوں کے کام کے لئے بھی مہارت درکار تھی کیونکہ عورتیں تو گھر گرہستن،
معمار، لکڑھارن اور درزن کا مجموعہ ہوتی تھیں۔
ہر قبیلے میں ایسے بڈھے اورتجربے کار مرد اور عورتیں ہوتی تھیں جو اپنی
زندگی بھر کی معلومات اور تجربات اپنے قبیلے کے بڑے لڑکے لڑکیوں کو دیتی
تھیں۔
لیکن یہ تجربات منتقل کیسے ہوتے تھے؟
اپنے تجربات کو دکھاکر اور ان کی وضاحت کر کے۔
آدمی کو اس کے لئے زبان کی ضرورت تھی۔
جانور کو اپنے بچوںکو یہ نہیںسکھانا ہے کہ اسے اپنے ”زندہ اوزار” کس طرح
استعمال کرنا چاہئے مثلاً پنجے اور دانت۔ جانوروں کے لئے گفتگو کرنا جاننا
ضروری نہیں ہے۔
لیکن ماقبل تاریخ کے آدمی کو ایسا کرنا پڑتا تھا۔ اس کو ان کاموں کے لئے
مشترکہ زبان کی ضرورت تھی جو وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کرتا تھا۔ بزرگ نسل
کے تجربات اور ہنر کو نوجوانوں تک پہنچانے کے لئے بھی الفاظ کی ضرورت تھی۔
تو پھر پتھر کے زمانے کے لوگ ایک دوسرے سے کس طرح بات چیت کرتے تھے؟
ماضی میں دوسرا سفر
آئو، پھر ماضی کا سفر کریں۔ لیکن اس بار ہم کوشش کریں گے کہ یہ سفر پہلے
والے کے مقابلے میں آسان ہو۔ کسی دور دراز ملک کا سفر کرنے کے لئے جہاز
جانا ہی ضروری نہیں ہے۔ تم یہ سفراپنا گھر چھوڑے بغیر بھی کر سکتے ہو۔
تم ریڈیو کو چالو کر کے اپنے کمرے کو چھوڑے بغیرملک کے کسی حصے میں بھی
پہنچ سکتے ہو۔ اگر تمہارے پاس ٹیلی ویژن سٹ ہے تو تم نہ صرف لوگوں کو سن
سکتے ہو۔بلکہ ان کو سیکڑوں میل کی دوری پر دیکھ بھی سکتے ہو۔ ریڈیو اورٹیلی
ویژن نے ہمیں بڑے بڑے فاصلے طے کرنے میں مدد دی ہے۔
لیکن ہم ان لوگوں کو کیسے دیکھ اور سن سکتے ہیں جو سیکڑوں سال پہلے گزرے
ہیں؟کیا کوئی ایسی مشین یا آلہ ہے جو ہمیں وقت کے دوران میں سفر کرا سکتا
ہے جس طرح ریڈیو اور ٹیلی ویژن فاصلوں کے درمیان کر اسکتے ہیں؟
ہاں، ایسی چیز ہے۔ یہ سینماہے۔
ہم سینما کے پردے پرساری دنیا دیکھ سکتے ہیں، صرف آج ہی کی دنیا نہیں بلکہ
ماضی کے برسوں کی دنیا بھی۔
یہاں ہم ماسکو کے لال چوک پر اس جلوس کا منظر دیکھتے ہیں جو پہلی آرکٹک مہم
کے ہیروئوں کے خیر مقدم کے لئے ہوا تھا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ فضا میں ایک
بہت بڑا غبارہ اڑ رہا ہے جو ایک نئے تابع زمین سیارہ (اسپوتنک) کی طرح
معلوم ہو رہا ہے۔ یہ Stratospheric غبارہ ہے۔
بہر حال فلم کیمرہ بھی ایسا جہاز ہے جو ہم کو ماضی کے صرف ان برسوں تک لے
جا سکتا ہے جن میں وہ ایجا ہو اتھا۔ اور فلم کیمرہ بہت دنوں پہلے نہیں بنا۔
پہلی بولتی ہوئی فلم 1927 میں دکھائی گئی تھی۔
ماضی کی طرف زمانے کے دوران میں پیچھے سفر کرتے ہوئے ہمیں یکے بعد دیگرے
جہاز بدلنا پڑیں گے اور وہ برابر خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے۔ مثلاً
اسٹیمر سے ہم بادبانی جہاز میں جائیں گے اور بادبانی جہاز سے کسی معمولی
کشتی میں۔
اب ہم ایک خاموش فلم کی اسکرین تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہم ماضی کو دیکھ سکتے ہیں
لیکن سن نہیں سکتے۔
فوٹو گراف ایجاد ہوا۔ ہم آواز سن سکتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کون
بول رہا ہے حالانکہ آواز صاف اور پھر ہمارے جہاز ہم کو وہاں سے آگے نہ لے
جائیں گے جہاں سے وہ چلے تھے۔
کوئی فلم نہیں دکھا سکتی کہ 1890 سے پہلے کیا ہوا تھا اور کوئی فونو گراف
ان الفاظ کو نہیں سنا سکتا جو 1877 سے پہلے ادا ہوئے تھے کیونکہ 1877 میں
اس کی ایجاد ہوئی۔
آوازیں مر جاتی ہیں اور صرف خطوط کی صورت میں باقی رہتی ہیں، کتابوں کی
یکساں اور سیدھی سطروں میں۔
پرانے زمانے کے فوٹوئوں وغیرہ میں منجمد مسکراہٹیں اور نگاہیں ملتی ہیں۔
کسی پرانے خاندانی البم کو دیکھو۔ اس میں سبز مخمل کے گردپوش اور کانسے کے
آنکڑوں کے درمیان تم کو کئی نسلوں کی زندگی نظر آئے گی۔
ایک صفحے پر ہمیں ایک چھوٹی سی لڑکی کا دھندلا سا فوٹو نظر آتا ہے۔ وہ 1870
کی لڑکیوں جیسا لباس پہنے ہے۔ وہ ایک باغ کے پھاٹک کا سہارا لئے کھڑی ہے
جو صرف کسی فوٹو گراف کے اسٹوڈیو ہی میں دکھائی دیتا ہے۔
اس صفحے پر اس کے برابر ایک دلہن سفید گائون پہنے، موٹے، گنجے دولہا کے پاس
کھڑی ہے۔ دولہا کے ہاتھ کی انگلیوں میں انگوٹھیاں ہیں اور وہ سنگ مر مر کے
ایک ستون پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے جو اوپر سے کٹا ہوا ہے۔ دولھا دلہن سے عمر
میں کم از کم تیس سال زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ دلہن کی آنکھوں میں ایسا ہی
بھولاپن اور خوف سا ہے جیسا پہلے فوٹو والی لڑکی کی آنکھوں میں تھا۔
اور اب یہاں یہ وہ دلھن چالیس یا پچاس سال بعد ہے۔ ا س کو مشکل سے پہچانا
جا سکتا ہے۔ سیاہ لیس والے رومال میں اس کی پیشانی جھریوں سے بھری ہے، اس
کی آنکھوں میں تھکن ہے او راس کے گال پچک گئے ہیں۔ فوٹو کے پیچھے اسٹودیو
کا ٹریڈ مارک ہے۔ ایک ننھا فرشتہ کیمرہ لئے ہے اور اس فرشتے پر کانپتے ہوئے
بوڑھے ہاتھ سے لکھی ہوئی یہ عبارت ہے: ”میری عزیز ترین پوتی کے لئے اس کو
بہت پیار کرنے والی دادی کی طرف سے۔”
یہاں البم کے ایک صفحے پر آدمی کی پوری زندگی ہے۔
یہ فوٹو جتنے زیادہ پرانے ہیں اتنے ہی کم ان میں صاحب تصویر کے تاثر اور
حرکات کی عکاسی ہوتی ہے۔ آج ہم بڑی آسانی سے کسی دوڑتے ہوئے گھوڑے باغوطہ
لگاتے ہوئے تیراک کا بہت اچھا فوٹو لے سکتے ہیں۔ لیکن ابتدائی زمانے کے
فوٹو گرافر کے پاس ایک مخصوص آرام کرسی ہوتی تھی جس میں پیچ لگے ہوتے تھے۔
ان کے ذریعے وہ فوٹو کھنچوانے والے کا سر اور بازو ایک جگہ کس دیتا تھا
تاکہ وہ خفیف سی حرکت نہ کر سکے۔ اس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان
فوٹوئوں کے لوگ اصلی نہیں بلکہ منجمد اور عجیب معلوم ہوتے ہیں۔
اگر ہمیں ماضی کو بحال کرنا ہے تو ہمیں ان مشاہدات کا جائزہ لینا پڑے گا جو
آرٹ گیلریوں، محافظ خانوں اور کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔
ہزارہا سال اس تیزی سے گزر جائیں گے جیسے سڑک پر سنگ میل کے نمبر گزرتے
ہیں۔
اب ہم 1440 تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے چھپی ہوئی کتابیں نہیں ہوتی
تھیں۔ ٹائپ کے صاف سیاہ حروف کی جگہ کاتبوں کی لکھی ہوئی مرصع عبارت لے
لیتی ہے۔ اس کا قلم رفتہ رفتہ چرمی کا غذ یا جھلی پر چلتا ہے اور ہم اس کے
پیچھے آہستہ آہستہ، قدم بقدم، حرف بحرف ماضی کی طرف چلتے جاتے ہیں۔
ہم ماضی کی طرف اور زیادہ سفر کرتے جاتے ہیں اور چرمی کا غذ کی کتابوں
سے،پتوں پر لکھی ہوئی تحریروں سے عبادت گاہوں کی دیواروں کے پتھروں پر کندہ
عبارتوں تک پہنچتے ہیں۔
اور جو تحریریں ماضی کے لوگوں سے ہم کو ملی ہیں وہ اور بھی عجیب اور
پراسرار ہوتی جاتی ہیں۔ آخر کار تحریریں بھی غائب ہو جاتی ہیں۔ ماضی کی
آوازیں خاموش پڑ جاتی ہیں۔
اور اس سے پہلے کیا رہا ہو گا؟
اب ہم زمین کے اندر آدمی کے نشانات کی تلاش شروع کرتے ہیں۔ ہم بھولے بسرے
قبرستانی ٹیلے کھودتے ہیں، قدیم اوزاروں، پرانی پناہ گاہوں کے پتھروں،
مدتوں کے بجھے ہوئے چولہوں کے کوئلے کا جائزہ لیتے ہیں۔
ماضی کی یہ تمام باقیات ہمیں بتاتی ہیں کہ آدمی کیسے رہتا سہتا تھا اور
کیسے کام کرتا تھا۔
لیکن کیا وہ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ آدمی کیسے بولتا اور سوچتا تھا؟
اشاروں کی زبان
ماقبل تاریخ کے لوگوں کے غاروں کی گہرائیوں میں یا پڑائوں کی جگہوں پر
سائنس دانوں کو اس زمانے کے آدمی خود ملے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی باقیات
ملی ہیں۔
1924 میں سوویت ماہرین آثار قدیمہ نے سیمفیروپول کے قریب کیئک کوبا کے غار
میں ایک پتھرائے ہوئے آدمی کی باقیات پائیں۔ غار کے بیچوبیچ چوکور گڈھا تھا
جس میں آدمی کا یہ ڈھانچہ دفن تھا۔ قریب ہی ایک بارہ سنگھے کی باقیات اور
کچھ پتھر کے اوزار ملے۔
پتھر کے ابتدائی زمانے کا ایک اور پڑائو ازبکستان میں تیشیک تاش کے غار میں
ملا ہے۔ ماقبل تاریخ کے شکاری پہاڑی گھاٹی کے ڈھلان پررہتے تھے اور غالباً
ان کے پیر بہت ہی سدھے ہوئے تھے کیونکہ ان کا خاص شکار پہاڑی بکری تھی جس
کو پھنسانا اور مارنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسی غار میں پتھر کے اوزاروں
اور جانوروں کی ہڈیوں کے علاوہ ایک بچے کی کھوپڑی اور ہڈیاں پائی گئیں جو
تقریباً آٹھ سال کا ہو گا۔
پتھر کے ابتدائی زمانے کے آدمی کے پتھرائی ہوئی باقیات صرف روس ہی میں نہیں
بلکہ بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی ملی ہیں۔ دراصل وہ امریکہ کے سوا تمام
براعظموں پر پائی گئی ہیں۔
چونکہ اس قسم کی پہلی دریافت جرمنی میں صوبہ رائن کی وادی کے نیان ڈیر تھال
(Neanderthal) نامی مقام پر ہوئی اس لئے ماہرین آثار قدیمہ نے اس زمانے کے
آدمی کو نیان ڈیر تھال آدمی پکارا۔
اب ہم اپنے ہیرو نیا ڈیر تھال آدمی کہیں گے۔ ہم نے اس کو نیا نام دیا ہے
کیونکہ اس کولاکھوں سال کی مدت نے اپنے Pithecanthropic اجدا سے بالکل الگ
کر دیا ہے۔
اب اس کی پیٹھ زیادہ سیدھی ہے، اس کے ہاتھ زیادہ چست اور اس کے چہرے پر
زیادہ آدمیت ہے۔
عام طو رپر مصنف اپنے ہیرو کے چہرے مہرے کو خیالات کی انتہائی ندرت اور بڑی
تفصیل کے ساتھ ساتھ پیش کرتا ہے۔ مثلاً وہ ایسی تشبیہات استعمال کرتا ہے
جیسے ”اس کی شعلہ بار آنکھیں”، اس کی پر غرور رومن ناک”، ”اس کے بال کوے کے
پروں کی طرح سیاہ تھے”۔ لیکن وہ کبھی اس کے دماغ کے سائز کے بارے میں کچھ
نہیں کہتا۔
ہمارا معاملہ بالکل دوسرا ہے۔ ہمارے لئے اپنے ہیرو کے دماغ کا سائز بہت
اہمیت رکھتا ہے اور اس کی آنکھوں کے جذبات یا بالوں کے رنگ سے کہیں زیادہ
دلچسپی کا باعث ہے۔
نیان ڈیر تھال آدمی کی کھوپڑی کو احتیاط سے ناپنے کے بعد ہمیں یہ بتاتے
ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ اس کا دماغ Pithecanthropusکے دماغ سے زیادہ بڑا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں سال کا کام رائگاں نہیں گیا۔ ان ہزاروں سال نے
آدمی کو بالکل بدل دیا لیکن سب سے زیادہ اس کے ہاتھ اور سر بدلے کیونکہ اس
کے ہاتھ کام کرتے تھے اور دماغ ہاتھوں کو ہدایت دیتا تھا۔ ماقبل تاریخ کا
آدمی پتھر کی بسولی سے کاٹ کر پتھروں کو نئی شکل دیتا تھا۔ وہ رفتہ رفتہ
اپنے کو اور اپنی انگلیوں کو بدل رہا تھا جو زیادہ چست اور مشاق ہوتی جاتی
تھیں۔ اس کا دماغ بھی بدل رہا تھا۔ اور زیادہ پیچیدہ ہوتا جاتا تھا۔
نیان ڈیر تھال آدمی پرایک نظر ڈالتے ہی تم کہہ سکو گے کہ وہ بندر نہیں ہے۔
پھر بھی وہ اب تک بندر سے کتنا مشابہ ہے!
اس کی پیشانی اس کی آنکھوں کے اوپر نکلی ہوئی۔ اس کے گوشت دانت دوسرے
دانتوں کے ساتھ زاویہ بناتے ہیں اور اس کے منہ سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔
نیان ڈیر تھال آدمی کے خدوخال میں دو چیزیں یعنی اس کی پیشانی اور ٹھوڑی
اس کو ہم سے مختلف کر دیتی ہیں۔ اس کی پیشانی پیچھے کی طرف دبی ہوئی ہے
اور دراصل ٹھوڑی تو بالکل غائب ہے۔
دبی پیشانی والی کھوپڑی کے اندر دماغ موجودہ انسان کے دماغ کے بعض حصوں سے
محروم تھا۔ نچلا جبڑا جس میں ٹھوڑی غائب تھی ابھی انسانی گفتگو کے لئے
موزوں نہیں ہوا تھا۔
ایسا آدمی جس کی ایسی پیشانی اور ٹھوڑی ہو ہماری طرح سوچ سکتا تھا نہ باتیں
کر سکتا تھا۔
پھر بھی ماقبل تاریخ کے آدمی کو بولنا تھا۔ مشترکہ کام گفتگو کا تقاضہ کرتا
تھا کیونکہ جب کئی آدمی ایک ہی کام مل کر کرتے ہیں تو ان میں کام کے بارے
میں اتفاق ہونا چاہئے۔ آدمی اس وقت تک انتظار نہیں کر سکتا تھا جب تک اس کی
پیشانی ترقی یافتہ بنے اور اس کا جبڑا زیادہ نمایاں ہو کیونکہ اس کے لئے
اس کو ہزاروں سال کرنا پڑتا۔
لیکن وہ دوسروں کو اپنے خیالات کیسے بتا تا تھا؟
جو کچھ وہ کہنا چاہتا تھا اس کے اظہار کے لئے وہ اپنا پورا جسم استعمال
کرتا تھا۔ اس کے لیے ابھی بولنے کا کوئی مخصوس عضو نہ تھا اس لئے وہ اپنے
ہاتھ، چہرے کے پٹھے، اپنے بازو اور پیر استعمال کرتا تھا، لیکن سب سے زیادہ
اس کے ہاتھ اظہار کرتے تھے۔
تم نے کبھی کسی کتے سے باتیں کی ہیں؟ جب کوئی کتا اپنے مالک سے کچھ کہنا
چاہتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے، اپنے تھوتھن سے اس
کو ٹھیلتا ہے، اس کی گود میں اپنا پنجہ رکھ دیتا تھا، دم ہلاتا ہے، جوش سے
بدن تان دیتا ہے اور جما ہیاں لیتا ہے۔ وہ الفاظ تو استعمال نہیں کر سکتا
اس لئے اپنا سارا جسم استعمال کرتا ہے۔ اپنے تھوتھن کی نوک سے لے کر دم کے
سرے تک تاکہ اس کا پیغام مالک تک پہنچ جائے۔
ماقبل تاریخ کے آدمی کے پاس بھی بولنے کے لئے الفاظ نہ تھے۔ لیکن ہاتھ تھے
جو اس کو اپنی بات سمجھانے میں مدد دیتے تھے۔ یہ کہنے کی بجائے کہ ”اس کو
کاٹ دو” ماقبل تاریخ کا آدمی ہاتھ سے ہوا کو کاٹ کر یہ بات بتاتا تھا۔ ”مجھ
کو دو” کہنے کی بجائے وہ اپنے ہاتھ پھیلا دیتا تھا۔ ”یہاں آئو” کہنے کی
بجائے وہ اپنے ہاتھ اپنی طرف ہلاتا تھا۔ ہاتھوں کی مدد کے لئے وہ آواز بھی
استعمال کرتا تھا۔ وہ دوسرے آدمیوں کی توجہ اپنی طرف کرنے اور اپنے ہاتھ کے
اشاروں کو دیکھنے پر مجبور کرنے کیلئے گرجتا، غراتا یا شور مچاتا تھا۔
لیکن ہمیں یہ سب کیسے معلوم ہوا؟
جو بھی ٹوٹا ہوا پتھر کا اوزار ہمیں ملتا ہے وہ ماضی کا ایک جز ہے۔ لیکن
ہمیں اشاروں کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑے پھوٹے ٹکڑے کہاں مل سکتے ہیں؟ ہم ان ہاتھوں
کے اشاروں کو کیسے بحال کر سکتے ہیں جو مدتوں ہوئے خاک میں مل چکے ہیں؟
یہ بات ناممکن ہوتی اگر ماقبل تاریخ کے لوگ ہمارے اجداد نہ ہوتے اور ہمارے
لئے ترکہ نہ چھوڑ گئے ہوتے۔
بولتے ہوئے ہاتھ
تھوڑے ہی دن ہوئے ایک امریکی انڈین لینن گراد آیا تھا۔ وہ ”نیز پیرس” قبیلے
کا آدمی تھا جس کے معنی ہیں ”چھیدی ہوئی ناک”۔ وہ تو ما ہاکوں سے مسلح
انڈینوں سے بالکل ملتا جلتا نہیں تھا جن کا چرچا فینی مور کو پر نے بہت کیا
ہے۔
اس انڈیں کے پیر میں تو ہرن کی کھال کے جوتے (Moccasins) تھے اور نہ ٹوپی
میں چڑیوں کے پر۔ وہ عام یورپی لباس پہنے تھا اور انگریزی اور اپنی قبائلی
زبان دونوںروانی سے بولتا تھا۔
بہر حال ان دو زبانوں کے علاوہ وہ تیسری زبان بھی جانتا تھا جو انڈین لوگوں
میں ہزارہا سال سے محفوظ ہے۔
یہ دنیا کی سب سے سادہ زبان ہے ۔ اگر تم اس کو سیکھنا چاہو تو تمہیں فعلوں
کی گردانوں اور اسم وصفت وغیرہ کے جھگڑوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہوگی جو
ہمارے لئے درد سر ہوتے ہیں۔ صحیح تلفظ کی مہارت پیدا کرنا کافی آسان بات ہو
گی کیونکہ تم کو کسی لفظ ادا کرنا ہی نہ پڑے گا!
تیسری زبان جو ہمارا ملاقاتی بولتا تھا وہ آوازوں کی نہیں اشاروں کی زبان
تھی۔ غالباً اس زبان کی لغت اس طرح کی ہوگی۔
اشاروں کی زبان کی لغت کا ایک صفحہ
کمان۔ ایک ہاتھ خیالی کمان پکڑے ہے اور دوسرا ہاتھ اس کی تانت کو کھینچ رہا
ہے۔
ویگوام۔ (امریکی انڈینوں کا خیمہ) ایک دوسرے میں جٹی ہوئی انگلیاں خیمہ
دکھاتی ہیں۔
گوراآدمی۔پیشانی کے اوپر رکھا ہوا ہاتھا جو ہیٹ کے چھجے کیلئے اشارہ ہے۔
بھیڑیا۔ ہاتھ کی دو اٹھی انگلیاں جودو کانوں کی شکل رکھتی ہیں۔
خرگوش۔ اوپر کی طرح ہاتھ کی دواٹھی انگلیاں اور ایک حلقہ بنانے ولا
اشارہ۔یہ خرگوش کے دو اٹھے ہوئے کان اور اس کی گول پیٹھ کے لئے اشارہ ہے۔
مچھلی۔ ملی ہوئی انگلیوں کے ساتھ ہاتھ کے ٹیڑھے میڑھے چلنے کا اشارہ جیسے
مچھلی تیرتی ہے اور اس کی دم دائیں بائیں چلتی رہتی ہے۔
مینڈک۔ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کے سرے ایک بار ملے ہوئے، پھر الگ پھدکنے کی
حرکت کے ساتھ۔
بادل۔ دونوں مٹھیاں سر کے اوپر بادل دکھاتی ہیں۔
برف۔ اوپر کی طرف دو مٹھیاں سر کے اوپر لیکن انگلیاں رفتہ رفتہ کھلتی ہیں
اور برف کے گالوں کی طرح ناچتی ہوئی نیچے آتی ہیں۔
بارش۔ اوپر کی طرح مٹھیاں جو پھیلتی ہیں اور تیزی سے نیچے جاتی ہیں۔
تارہ۔ دو انگلیاں ملی ہوئی اور پھر الگ سر کے اوپر کافی اونچی جیسے ستارہ
جھلملا رہا ہو۔
اس زبان کا ہر لفظ ہوا میں کھینچی جانے والی تصویر ہے۔
جیسے کہ بہت ہی قدیم تحریریں بھی الفاظ میں نہیں لکھی گئی تھیں بلکہ
تصویروں میں ہیں اسی طرح شاید بہت ہی قدیم اشارے بھی تصویری اشارے تھے۔
ظاہر ہے کہ موجودہ انڈین قبیلوں کی اشاروں کی زبان تو ماقبل تاریخ کے انسان
کی زبان نہیں تھی۔ موجودہ انڈین قبیلوں کی اشاروں کی زبان میں ایسے بہت سے
الفاظ ہیں جو کسی ماقبل تاریخ کی زبان میں نہیں ملیں گے۔ یہ ہمیں بہت ہی
حال کے تصویری اشارے، مثلاً:
ٍ موٹر۔ دو پہئے دکھانے کے لئے ہاتھوں سے دو حلقے بنانا اور خیالی
اسٹیرنگ پہئے کا گھمانا۔
ٹرین۔ پہیوں کودکھانے کے لئے ہاتھوں سے دو حلقے بنانا اور پھر ہاتھ سے
لہراتا ہوا اشارہ انجن کی بھاپ کو اوپر جاتے ہوئے دکھانے کے لئے۔
یہ بہت ہی نئے اشارے ہیں۔ لیکن اشاروں کی زبان میں ایسے لغت والے اشارے بھی
ہیں جو ماقبل تاریخ کے ہیں مثلاً:
آگ۔ ہاتھ کااوپر کی طرف لہراتا ہوا اشارہ کسی پڑائو کے الائو سے اٹھتے ہوئے
دھوئیں کو دکھانے کے لئے۔
کام۔ ہاتھ سے کاٹنے کا اشارہ۔
کون جانتا ہے شاید ماقبل تاریخ کا آدمی جب ”کام” کہنا چاہتا ہو گا توہاتھ
سے ہوا کو کاٹتا ہوگا۔ بہر حال پتھر کا پہلا اوزار تو بسولی تھی۔
ہماری اپنی اشاروں کی زبان
ہم نے بھی اپنی اشاروں کی زبان محفوظ رکھی ہے۔
جب ہم ”ہاں” کہنا چاہتے ہیں تو ہمیشہ بولتے نہیں ہیں بلکہ سر ہلا دیتے ہیں۔
جب ہم ”وہاں” کہنا چاہتے ہیں تو کبھی کبھی اس طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے
ایک مخصوص ”بولنے والی انگلی” ہے جس کو ہم اشارے کی انگلی کہتے ہیں۔
جب ہم کسی کو سلام کرتے ہیں تو جھکتے ہیں۔ہم اپنا سر ہلاتے ہیں، شانے
جھٹکتے ہیں، اپنے بازو اٹھاتے ہیں اور ہاتھ پھیلاتے ہیں، پیشانی پر بل ڈال
کر گھورتے ہیں، اپنے ہونٹ کاٹتے ہیں، کسی پر انگلی ہلاتے ہیں، میز پرہاتھ
یا مکا مارتے ہیں، پیر پٹکتے ہیں، ہاتھ ہلاتے ہیں، اپنے دل پر ہاتھ رکھتے
ہیں، اپنے بازو بڑھاتے ہیں، اپنا ہاتھ دیتے ہیں اور دور سے چومتے ہیں۔
یہاں ایسی پوری گفتگو ہوتی ہے جس میں ایک ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا۔
اور یہ ”بن بولی زبان” اشاروں کی زبان مرنا نہیں چاہتی۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس
میں بعض خوبیاں بھی ہیں۔ کبھی کبھی ایک اشارہ بھی کسی طویل گفتگو سے زیادہ
مطلب کا اظہار کر جاتا ہے۔ کوئی اچھا یکٹر خاموش رہنے کے باوجود اپنے چشم
وابرو اور ہونٹوں کے ذریعے آدھہ گھنٹے کے اندر سیکڑوں الفاظ ادا کر دیتا
ہے۔
بہر حال اشاروں کی زبان ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا کوئی اچھی بات نہیں
ہے۔
تم کوئی بات اپنے ہاتھوں یا پیروں سے کیوں ادا کرو جب کہ تم اس کو آسانی سے
الفاظ میں کہہ سکتے ہو! ہم کوئی ماقبل تاریخ کے آدمی تو ہیں نہیں۔ پیروں
کو پٹکنا، چیزوں کو اشاروں سے بتانا اور ہاتھوں کو ہلانا ایسی عادتیں ہیں
جن کو بھول ہی جانا اچھا ہے۔
پھر بھی کبھی کبھی صرف اشاروں کی زبان ہی ہماری ترجمانی کر سکتی ہے۔ کبھی
تم نے دو جہازوں کو جھنڈوں کے سگنلوں کے ذریعے باتیں کرتے دیکھا ہے۔ ہوا،
لہروں اور توپوں کی گرج کے شور کے اوپر آدمی کے لئے آواز پہنچا نا ناممکن
ہے۔ ایسے موقعوں پر ہمارے کان کام نہیں دیتے اور ہمیں اپنی آنکھوں پر
اعتبار کرنا پڑتا ہے۔
تم غالباً اشاروں کی زبان اکثر استعمال کرتے ہو۔ مثلاً جب درجے میں استاد
کی توجہ اپنی طرف کرنا چاہتے ہو تو ہاتھ اٹھا دیتے ہو اوریہ ٹھیک بھی ہے
کیونکہ تم سوچ سکتے ہو کہ اگر ایک ساتھ تیس چالیس بچے بولنا شروع کر دیں
توکیا حالت ہو گی؟
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اشاروں کی زبان کی اپنی خوبیاں ہیں اور اس وجہ سے
وہ ہزارہا سال تک زندہ رہی ہے اور اب بھی اس کی ضرورت ہے۔
بولی، اشاروں کی زبان پر حاوی ہو گئی ہے لیکن مکمل طو رپر نہیں۔ اب مفتوع
فاتح کی لونڈی بن گئی ہے۔ اسی لئے کچھ قوموں میں اشاروں کی زبان کا وجود
نوکروں، ماتحتوں اور ان لوگوں کی زبان کی حیثیت سے رہ گیا ہے جو کمتر سمجھے
جاتے ہیں۔
اکتوبر کے عظیم سوشلسٹ انقلاب سے پہلے قفقاز کے آرمینیائی دیہاتوں میں عورت
کو اپنے شوہر کے علاوہ کسی مرد سے بولنے کی اجازت نہ تھی۔ جب کسی دوسرے
آدمی سے اسے کچھ کہنا ہوتا تو اس کو اشاروں کی زبان استعمال کرنی پڑتی۔
شام، ایران اور دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں میں اشاروں کی زبان تھی۔ مثلاً
شاہ ایران کے محل میں ملازمین کو صر ف اشاروں کی زبان استعمال کرنے کی
اجازت تھی۔ وہ صرف اپنے برابر والوں سے الفاظ میں بات چیت کر سکتے تھے۔ یہ
بدقسمت لوگ واقعی ”آزادی تقریر” سے محروم تھے۔
اس طرح ہمیں اس ماضی کی باقیات ملتی ہیں جو مدتوں ہوئے معدوم ہو چکا ہے۔
آدمی اپنا دماغ حاصل کرتا ہے
جنگل میں ہر جانور ان ہزاروں سگنلوں کو سنتا ہے جو اس کو چاروں طرف سے
پہنچتے ہیں اور ان سے چوکنا رہتا ہے۔
ایک ٹہنی چرچرائی۔ ممکن ہے دشمن ہو۔ اور جانور بھاگنے یا اپنی مدافعت کے
لئے تیار ہو جاتا ہے۔
زور کی گرج ہوتی ہے، ہوا جنگل کے درختوں کو چیرتی، شاخوں کی پتیاں بکھیرتی
ہوئی چلتی ہے۔ جانور طوفان سے بچنے کے لئے اپنے گھونسلوں یا بھٹوں میں چھپ
جاتے ہیں۔
جب سڑتی ہوئی پتیوں اور کھمبیوں کی مہک کے ساتھ مل کر شکار کی بو نم زمین
پر پھیلتی ہے تو جانور اس بو کے ذریعے شکار کا پیچھا کرتا ہے۔
ہر سرسراہٹ، ہر بو، گھاس میںہر نشان، ہر چیخ یا سیٹی کچھ نہ کچھ معنی رکھتی
ہے اور اس کی طرف فوراً توجہ کرنی چاہئے۔
ماقبل تاریخ کا آدمی بھی بیرونی دنیا کے سگنل سنا کرتا تھا۔ بہر حال اس نے
دوسرے قسم کے سگنلوں کو بھی سمجھنا جلد ہی سیکھ لیا۔ یہ ایسے سگنل تھے جو
اس کے جرگے کے لوگ اس کو دیتے تھے۔
مثلاً ماقبل تاریخ کا کوئی شکاری جنگل میں کسی بارہ سنگھے کے نشانات دیکھتا
تو وہ ہاتھ ہلا کر دوسرے شکاریوں کو اس کے بارے میں سگنل دیتا۔ دوسرے
شکاری جانور کو نہیں دیکھتے تھے لیکن سگنل سے چوکس ہو جاتے تھے۔ وہ اپنے
اسلحہ کو زیادہ مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے جیسے کہ انہوں نے خود بارہ سنگھے کی
بڑی بڑی سینگیں او رچوکنے کان دیکھ لئے ہوں۔
اسی طرح بولی بھی ایک سگنل بن گئی، ان سگنلوں کے علاوہ جو قدرت نے آدمی کو
عطا کئے تھے، ایسا سگنل جس کے ذریعے ایک جرگے کے ممبر ایک دوسرے سے باتیں
کرتے تھے۔
مشہور روسی سائنس داں ایوان پاولوف نے اپنی ایک تصنیف میں انسانی بولی کو
”سگنلوں کے بارے میں سگنل” کہا ہے۔
پہلے تو یہ سگنل صرف آوازوں اور اشاروں ہی کی صورت میں تھے۔ ان کو آدمی کی
آنکھیں اور کان موصول کرتے تھے اور ان کو دماغ کی طرف اس طرح بھیج دیتے تھے
جیسے کوئی سگنل مرکزی ٹیلی فون اسٹیشن کو جاتا ہے۔ جب دماغ کو ”سگنلوں کے
بارے میں سگنل” ملتا مثلاً ”جانور آرہا ہے” تو دماغ فوراً حکم دیتا: ہاتھو!
تم اپنا بھالا مضبوطی سے پکڑ لو۔ آنکھو! جھاڑیوں کی طرف اچھی طرح نگراں
رہو۔ کانو! ہر سرسراہٹ اور ٹہنیوں کی چرچراہٹ کی آواز سنو۔ جانور ابھی آنکھ
اور نشانے کی زد سے دور ہوتا لیکن شکاری اس کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
اشارات اور جذبات میں جتنا اضافہ ہوتا گیا اتنے ہی اکثر ”سگنلوں کے بارے
میںسگنل”دماغ کوپہنچنے لگے اور ”مرکزی اسٹیشن” کاکام بڑھنے لگا جو انسانی
کھوپڑی کے پیشانی والے سرے میں ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ”مرکزی
اسٹیشن” میں توسیع ہوتی رہنی چاہئے۔ دماغ کے خلیے برابر بڑھتے گئے اورا ن
کے درمیان سلسلے زیادہ پیچیدہ ہوتے گئے۔ دماغ خود زیادہ بڑا ہو گیا۔
نیان ڈیر تھال آدمی کا دماغ Pithecanthropus کے دماغ سے چار پانچ سو مکعب
سنٹی میٹر زیادہ بڑا ہوتا تھا۔ ماقبل تاریخ کے آدمی دماغ جتنابڑھتا گیا
اتنا زیادہ وہ سوچنے لگا۔
جب وہ کوئی ایسا سگنل دیکھتا یاسنتا جس کا مطلب ”سورج” ہوتا تو وہ سورج کے
بارے میں سوچتاچاہے اس وقت آدھی رات ہی کیوں نہ ہوتی۔
مشترکہ کام نے آدمی کو بولنا سکھایا اور جب اس نے بولنا سیکھ لیا تو سوچنا
بھی سیکھا۔آدمی کو اس کا دماغ قدرت سے بطور تحفہ نہیں ملا۔ اس نے اس کو
اپنے ہاتھوں کی محنت سے حاصل کیا۔
ہاتھوں کی جگہ زبان نے کیسے لی
جب بہت کم اوزار تھے اور ماقبل تاریخ کے آدمی کا تجربہ بھی بہت محدود تھا
تب انتہائی سادہ اشارے بھی ایک دوسرے کو ہنر سکھانے کے لئے کافی تھے۔
لیکن آدمی کا کام جتنا ہی پیچیدہ ہوتا گیا اس کے اشارے بھی اتنے ہی پیچیدہ
ہوتے گئے۔ ہر چیز کے لئے ایک خاص اشارہ ضروری ہو گیا۔اس اشارے کو چیز کی
وضاحت بالکل ٹھیک ٹھیک کرنی پڑتی تھی۔ اس طرح تصویری اشاروں کا وجود ہوا۔
آدمی جانوروں، اوزاروں اور دوسری چیزوں کی تصویری ہوا میں بنانے لگا۔
مثلاً وہ کسی سیہی کے بارے میں بتانا چاہتا تو صرف اس کی تصویر کشی ہی نہ
کرتا بلکہ ایک لمحے کے لئے خود مجسم سیہی بن جاتا۔ وہ دوسروں کو دکھاتا کہ
خارپشت کیسے زمین کھودتی ہے اور اس کو اپنے پنجوں سے ہٹاتی ہے۔ اس کے کانٹے
کیسے نوکیلے ہوتے ہیں۔
اس کہانی کا اظہار خاموش حرکات وسکنات کے ذریعے کرنے کے لئے ماقبل تاریخ کے
آدمی کو بہت ہی نگراں رہنا پڑتا تھا، بالکل ہمارے زمانے کے سچے فن کار کی
طرح۔
جب تم یہ کہتے ہو کہ ”میں نے پانی پیا” تو جس شخص کو یہ بتا رہے ہو اس کو
تمہاری بات سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ تم نے کسی گلاس، بوتل یا ہاتھ کے چلو سے
پیا۔
وہ آدمی جو اشاروں کی زبان جانتا ہے اس بات کو دوسرے طریقے سے کہے گا۔ وہ
اپنے ہاتھ کا چلو منہ تک لائے گا اور خیالی پانی پئے گا۔ جو لوگ اس کو
دیکھیں گے وہ سمجھ سکیں گے کہ پانی کتنا مزیدار، ٹھنڈا اور تازگی بخشنے
والا تھا۔
ہم صرف ”شکار” کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن ماقبل تاریخ کا آدمی شکار کے
پورے منظر کو ادا کر کے دکھاتا تھا۔
اشاروں کی زبان بیک وقت بہت پر معنی اور محدود بھی ہوتی تھی۔ یہ پر معنی
ہوتی تھی کیونکہ یہ واقعہ یا چیز کی بہت ہی صاف تصویر کشی کرتی تھی۔ لیکن
یہ محدود بھی تھی۔ اشاروں کی زبان میں تم اپنی دائیں یا بائیں آنکھ کے بارے
میں بتا سکتے تھے لیکن صرف ”آنکھ” بتانابہت مشکل تھا۔ تم کسی چیز کو بتانے
کیلئے اشارے استعمال کر سکتے تھے لیکن کوئی اشارہ کسی مجرد خیال کا اظہار
نہیں کر سکتا تھا۔
اشاروں کی زبان میں دوسری خامیاں بھی تھیں۔ اشاروں کی زبان میں تم رات میں
کچھ نہیںکہہ سکتے تھے کیونکہ رات کے اندھیرے میں چاہے جتنے زور دار اشارے
کئے جائیں وہ دیکھے نہیں جا سکتے۔ اس کے علاوہ دن کی روشنی میں بھی لوگ ایک
دوسرے کے اشارے کبھی کبھی نہیں سمجھ پاتے تھے۔
میدانوںمیںلوگ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے سے اشاروں کی زبان میں بول سکتے تھے
لیکن جنگل میں جب شکاری ایک دوسرے سے گھنی جھاڑیوں کی وجہ سے الگ ہو جاتے
تھے تو یہ ناممکن ہوتا تھا۔
اب لوگوں کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے آواز کا
استعمال کریں۔ پہلے پہل تو ماقبل تاریخ کے آدمی کی زبان اور گلا بہت ہی
نافرماں بر دار تھے۔ ایک آواز اور دوسری آواز میں بہت کم فرق ہوتا تھا۔ الگ
آوازیں مل کر کوئی غراہٹ، غل یا چیخ بن جاتی تھیں۔ زبان سے صاف الفاظ ادا
کرنے میں آدمی کو بہت زمانہ لگ گیا۔
زبان کی حرکتیں ایسے ا شارے تھیں جو سب سے کم نظر آتے تھے لیکن ان کا بڑا
فائدہ یہ تھا کہ وہ سنے جا سکتے تھے۔
ابتدا میں باآوا ز بات چیت اشاروں کی زبان سے بہت مشابہہ تھی۔ وہ ابھی اسی
طرح تصویروں کی زبان تھی اور اسی طرح بہت صفائی اور سچائی سے ہر چیز اور ہر
حرکت کی تصویر کشی کرتی تھی۔
ایک قبیلے کے لوگ صرف ”چلنا” نہیں کہتے۔ وہ کہتے ہیں: سنبھل کرچلنا، بھاری
پن سے موٹے آدمیوں کی طرح چنا، تیزی سے دوڑنا، لڑکھڑا کر چلنا، ہلکے سے
لنگڑا کر اور سر آگے جھکا کر چلنا وغیرہ۔
ان میں سے ہر جملہ صوتی تصویر ہے جو آوازوں میں ایک شخص کی چال کی ہر تفصیل
بتاتا ہے۔ ان میں سنبھل کر قدم رکھنا، لمبے آدمی کے بڑے بڑے ڈگ اور اس
آدمی کے قدم ہیں جو اپنے گھٹنے ذرا بھی نہیں جھکاتا۔
جتنی چالیں ہیں اتنی ہی طرح کے جملے ان کے اظہار کے لئے ہیں۔ غرض اس طرح
تصویری نشان کی جگہ صوتی نشان نے لے لی اور اس طرح ماقبل تاریخ کے انسان نے
اشاروں اور الفاظ میں باتیں کرنا سیکھا۔
دریا اور ااس کے وسائل
ہم نے ماضی کے سفر کر کے کیا دریافت کیا؟ اس کھوجی سیاح کی طرح جو دریا کے
بہائو کے اوپر جاتے ہوئے اس کا منبع معلوم کرتا ہے ہم اس چھوٹے سے چشمے تک
پہنچے ہیںجس سے انسانی تجربات کا زبردست دریا نکلا ہے۔ یہاں دریا کے منبع
پر ہمیں انسانی سماج، زبان اور عقل کی ابتدا بھی دکھائی دیتی ہے۔ جیسے کوئی
دریا ہر بار کسی معاون دریا کے ملنے پر گہرا ہوتا جاتا ہے اسی طرح انسانی
تجربے کا دریا بھی ہر نسل کے تجربے سے گہرا اور چوڑا ہوتا جاتا ہے۔
ماضی میں نسلیں یکے بعد دیگر غائب ہوتی گئیں۔ آدمی اور قبیلے بلا کسی نشان
کے غائب ہو گئے، شہر اور گائوں تباہ ہو کر خاک میں مل گئے اور ہمیشہ کے لئے
کھو گئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو وقت کی
تباہ کن طاقت کو روک سکے۔ لیکن انسان کا جمع کیا ہوا تجربہ محفوظ رہا۔ اس
نے وقت پر فتح حاصل کر لی اور ہماری زبان، ہنر اور سائنس میں رچ بس گیا۔
زبان کا ہر لفظ، کام میںہر حرکت، سائنس میںہر نظریہ ماضی کی تمام نسلوں کا
جمع کیا ہوا تجربہ ہے۔
ان نسلوں کی محنت رائگاں نہیں گئی اس طرح جس طرح دریا کا کوئی بھی معاون
دریا ضائع نہیں ہوتا۔ ان تمام لوگوں کی محنت جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور
اس وقت موجود ہیں انسانی تجربوں کے دریا میں سمٹ آئی ہے۔
اچھا تو ہم دریا کے منبع پر پہنچ گئے جہاں سے ہماری تمام سرگرمیوں کی ابتدا
ہوتی ہے۔ اس طرح اس آدمی کا ظہور ہوا جو کام کرتا ہے، بولتا ہے اور سوچتا
ہے۔
چھٹا باب
چھوڑے ہوئے گھر میں
جب لوگ کسی گھر کو ہمیشہ کے لئے چھوڑتے ہیں تو ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں ضرور
رہ جاتی ہیں۔ کاغذات، برتنوں کے ٹوٹے ٹکڑے اور خالی ڈبے وغیرہ خالی کمروں
میں پھیلے ہوتے ہیں۔ ٹھنڈے چھولھے کے پاس ٹوٹے ہوئے برتن بھانڈے ہوتے ہیں
او رکھڑکی پر ٹوٹا لیمپ اس بدنظمی کو بڑی حسرت سے دیکھتا ہے۔
کسی دور کے کونے میں ٹوٹی ہوئی آرام کرسی اونگھتی نظر آتی ہے۔ وہ مکینوں کے
ساتھ نہیں گئی کیونکہ اس کی ایک ٹانگ ہی غائب تھی۔
ان ٹوٹی پھوٹی باقیات سے اس کا اندازہ لگانا ذرا مشکل ہے کہ خاندان کیسے
یہاں رہتا تھا۔ لیکن ماہر آثار قدیمہ کے سامنے یہی فریضہ آتا ہے۔ وہ ہمیشہ
سب سے آخر میں گھر کے اندر داخل ہوتا ہے۔ دراصل اس کو بہت خوش قسمت سمجھنا
چاہئے اگر اسے کوئی گھر مل جائے کیونکہ عام طور پر وہ اس زمانے میں وہاں
پہنچتا ہے جب آخری مکین ہزاروں سال پہلے وہ گھر چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ کبھی
کبھی تو اس کو صرف دیواروں کے کھنڈر اوربنیاد کے کچھ حصے ہی ملتے ہیں۔ یہاں
ہر ٹھیکرا، ہر ٹکڑا خوش قسمتی کی علامت ہے۔
ایک پرانا گھر اس آدمی کو بہت کچھ بتا سکتا ہے جو اس کی زبان سمجھتا ہو!
پرانے پتھروں والے برجوں اور کائی سے ڈھکی ہوئی دیواروں نے نہ جانے کتنے
لوگ اور واقعات دیکھے ہیں! لیکن ان گھروں نے جو دنیامیں سب سے پرانے ہیں
یعنی ماقبل تاریخ کے آدمیوں کے غاروں نے اس سے کہیں زیادہ دیکھا ہے۔
ایسے غار ہیں جن میں لوگ پچاس ہزار سال پہلے رہتے تھے!خوش قسمتی سے پہاڑ
بہت مضبوط ہوتے ہیں اورغاروں کی دیواریںاس طرح نہیں گرتی ہیں جیسے آدمیوں
کے گھروں کی دیواریں۔
یہ رہا ایک غار۔ اس کے رہنے والے بدلتے رہے ہیں۔ اس گھر کا پہلا مکین ایک
زمین دوز چشمہ تھا۔ وہ یہاں مٹی، ریت اور چھوٹے چھوٹے پتھر لایا تھا۔
پھر پانی ختم ہو گیا۔ لوگ آکر غار میں رہنے لگے۔ پتھر کاٹنے کے جو بھونڈے
اوزار یہاں مٹی میں ملے ہیں وہ ہمیں ان لوگوں کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔
قدیم آدمی ان اوزاروں کو جانوروں کے جسم کاٹنے، ہڈی سے گوشت الگ کرنے اور
گودا نکالنے کے لئے ہڈیوں کو تورنے کے کام میں لاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا
کہ یہ لوگ شکاری تھے۔
بہت سال گزر گئے۔ شکاریوں نے غار چھوڑ دیا۔ پھر نئے رہنے والے آگئے۔ غار کی
دیواریں چکنی اور چمک دار ہو گئیں۔ غار میں رہنے والے ریچھ نے اپنا جھبرا
بدن دیواروں سے رگڑ رگڑ کر ان کو ایسا بنا دیا۔ اور یہ رہا ریچھ بلکہ یہ
کہناصحیح ہو گا کہ اس کی کھوپڑی جس میں چوڑی پیشانی اور تنگ تھوتھن ہے۔
زمین کی اوپری پرت میں انسانی آبادی کے مزید نشانات ملتے ہیں۔ یہ ہیں الائو
کے کوئلے اور راکھ، ٹوٹی ہوئی ہڈیاں، پتھروں اور ہڈیوں کے اوزار۔ ایک بار
پھر آدمی غار میں رہنے لگے۔ ہم انہیں دیکھ تو نہیں سکتے لیکن ان کے بارے
میں بہت سی باتیں معلوم کر سکتے ہیں۔ ہمیں صرف وہ چیزیں دیکھنی ہیں جو
انہوں نے چھوڑی ہیں۔
ناتجربے کا ر آدمی تو یہی کہے گا کہ یہ تو پتھر کے ٹکڑے ہیں۔لیکن اگر تم ان
کو غور سے دیکھو تو یہ بھونڈے قسم کے ایسے ڈیزائن ہیںجو آئندہ چل کر چھری
اور سوجے بنے۔ ان میں ایک اوزار میں چاقو کی ایسی کاٹنے والی دھار ہے اور
دوسرے میں تیز نوک جیسے سوجے میں ہوتی ہے۔
یہ ہمارے اوزاروں کے اجداد ہیں۔ سب سے پرانا ہمارے ہتھوڑے کا باوا ہے۔یہ
گول پتھر کا ہے۔
اگرہم غار کی تہہ میں کوڑے کرکٹ کو کھودیں تو ہتھوڑے سے قریب ہی نہائی ملے
گی۔
ہتھوڑا پتھر کا ہے اور نہائی ہڈی کی۔
اور یہ بالکل ان نہائیوں کی طرح نہیں ہے جو ہم نے دیکھی ہیں حالانکہ اس نے
بہت اچھی طرح کام دیا ہے۔ اس میں بہت سے کٹائو اور دندانے ہیں کیونکہ جب
کوئی اوزار بنایا جاتا تھا تو نہائی کو چوٹیں برداشت کرنی پڑتی تھیں۔
ہم ان اوزاروں سے کیا معلومات حاصل کر سکتے ہیں؟
وہ ہمیں بتاتے ہیںکہ اس غار کے نئے رہنے والے جو آدمی تھے وہ پہلے والوں سے
بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ جو ہزاروں سال گزرے ہیں ان میں انسان کی محنت
بہت قسموں کی اور پیچیدہ ہو گئی ہے۔
پہلے رہنے والے ایک ہی دھار دار پتھر کو سب کاموں کے لئے استعمال کرتے تھے۔
اب کاٹنے، چھیدنے، چھیلنے اور درختوں کو کاٹنے کے لئے الگ الگ اوزار ہونے
لگے۔ تیز نوک والا اوزار جانوروں کی ان کھالوں میں سوراخ بنانے کے لئے تھا
جن کو کاٹ کر کپڑے بنائے جاتے تھے۔ دندانے دار تیز دھار کا اوزار گوشت
کاٹنے اور کھالوں کو چھیلنے کے لئے استعمال ہوتاتھا۔ تیز نوکیلے سروالا
اوزار شکاری برچھا تھا۔
اب آدمی کے پاس زیادہ کام بھی تھا اور زیادہ فکریں بھی۔ زمانہ بدل گیا تھا،
آب وہوا سرد اور سخت تھی۔ اب آدمی کو کپڑوں کی جو ریچھوں کی کھال سے بنتے
تھے، جاڑوں کے لئے غذا جمع کرنے کی اور رہنے کے لئے گرم جگہ کی فکر کی
ضرورت تھی۔ بہت سے مختلف قسم کے کام تھے اور ان کے لئے بہت طرح کے اوزار
بھی۔
اس طرح ہمیں اپنے اجداد کی رہائش گاہوں میں اپنے اوزاروں کے اجداد ملتے
ہیں۔
بہر حال، ہم کو وہی چیزیں ملتی ہیں جن کو وقت نے محفوظ رکھا ہے اور وقت
اچھا محافظ نہیں ہے۔ وہ صرف ایسی چیزوں کو محفوظ رکھتا ہے جو بہت ہی پائدار
چیزوں کی بنی ہوتی ہیں۔ اس نے صرف ایسی چیزیں محفوظ رکھیں جو پتھر یا ہڈی
کی بنی ہوئی تھیں۔ لکری یا جانوروں کی کھال کی بنی ہوئی چیزیں وقت نے جلد
ہی ضایع کر دیں۔ اسی لئے ہم کو سوجا توملتا ہے لیکن وہ کپڑے نوکدار پتھر
یلا حصہ تو ملتا ہے لیکن لکڑی کا دستہ نہیں ملتا۔
جو چیزیں غائب ہو گئی ہیں ان کے متعلق اندازہ لگانا صرف انہیں چیزوں سے
ممکن ہے جو باقی رہ گئی ہیں ان دھندلے نشانات اور ٹکڑوں سے جو ہمیں ملتے
ہیں ہزاروں سال پہلے کی چیزوں کے خاکے تیار کرنا ہیں۔
پھر بھی ہم اپنی کھوج جاری رکھیں گے۔
جب کوئی ماہر آثار قدیمہ کسی کھنڈر کی کھدائی شروع کرتا ہے تو وہ عام طور
پر اپنا کام اوپر سے شروع کرتا ہے اور نیچے کی طرف جاتا ہے۔ پہلے سب سے
اوپر کی پرتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، پھر وہ اور گہرا کھودتا ہے، زمین کی
گہرائیوں میں، تاریخ کی گہرائیوں میں۔ ماہر آثار قدیمہ کتاب کو الٹا پڑھتا
ہے۔ وہ بالکل آخری باب سے شروع کرتا ہے اور پہلے باب پر ختم کرتا ہے۔ ہم نے
اپنی کہانی کچھ اور ہی طرح شروع کی ہے۔ ہم نے بہت ہی نچلی پرتوں سے شروع
کیا ہے، غار کی تاریخ کے پہلے بابوں سے۔ اور اب ہم رفتہ رفتہ اوپر کی طرف
جائیں گے، جدید زمانوں سے زیادہ قریب ہوتے جائیں گے۔
اچھا، تو اس کے بعد غار میں کیا ہوا؟
غار کی زمین کی پرتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے متعدد
بار غار کو چھوڑا اور پھر واپس آئے۔ جب غار میں لوگ نہیں رہتے تھے تو وہاں
لکڑ بگھے اور ریچھ رہنے لگتے تھے او اس کے اندر مٹی اور کوڑے کرکٹ کی پرت
کی پرت جمتی جاتی تھی۔ چھت کی چٹان کے ٹکڑے غار کے اندر فرش پر گر جاتے اور
بہت برسوں بعد جب اس غار کو کوئی نیا انسانی قبیلہ ڈھونڈ نکالتا تو وہاں
کوئی ایسی چیز نہ ہوتی جو اس کو پہلے باسیوں کے بارے میں بتاتی۔
سال، صدیاں اور ہزار سالہ عہد گزرتے گئے۔ لوگوں نے کھلی جگہوں میں مکانات
بنانا شروع کئے اور غاروں کی پرانی پناہ گاہوں کو چھوڑ دیا اور بالآخر ان
کو بالکل ترک کر دیا۔ کبھی کبھار سر سبز پہاڑی چراگاہوں میں گلے چراتے ہوئے
گلہ بان ایک دو دن کے لئے وہاں ٹھہر جاتے یا کوئی مسافر بارش سے بچنے کے
لئے غار میں چلا آتا۔
اور پھر غار کی تاریخ کا آخری باب شروع ہوا۔ لوگ ایک بار پھر غار میں آئے۔
لیکن اس بار وہ پناہ لینے نہیں آئے۔ وہ ان لوگوں کے بارے میں جو یہاں رہ
چکے تھے۔ تمام امکانی باتیں دریافت کرنے آئے تھے۔
یہ تازہ وارد لوگ پتھر کے قدیم اوزاروں کو کھود کر نکالنے کے لئے فولاد کے
جدید آلات لائے۔
اوریہ ماضی کی تحقیقات کرنے والے یکے بعد دیگرے غار کی پرت کھودتے اور اس
کی تاریخ شروع سے آخر تک پڑھتے گئے۔
ان کو جو اوزار ملے ان کا مقابلہ کر کے وہ دیکھ سکے کہ کس طرح مختلف ہنر
اور انسانی تجربہ نسلاً بعد نسلاً بڑھتے گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ بھدے
اوزاروں کی جگہ رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ زیادہ اچھے اوزار لیتے گئے۔ اس طرح
بھدی دستی کلہاڑی کی جگہ تکونی کلہاڑی اور نیم حلقے والے تیروں نے لے لی
اور بعد میں طرح طرح کے برچھے، چاقو اور سوجے وغیرہ نکلے جو اچھی طرح ترشے
ہوئے پتھر کے تھے۔ پھر نئی چیزوں کے بنے ہوئے اوزار، ہڈیوں اور سینگوں کے
بنے ہوئے اوزار پتھر کے اوزاروں کے ساتھ آملے۔ اب ہڈیوں، جانوروں کی کھالوں
اورلکڑیوں کو کاٹنے وغیرہ کے لئے الگ الگ مخصوص اوزار ہو گئے۔ قدیم آدمی
نے ہڈیوںکو کاٹنے، کھالوں کو چھیلنے اور سمندری گھونگھوں میں سوراخ کرنے کے
لئے پتھر کے اوزار استعمال کئے۔ اس کے مصنوعی پنجے اور دانت زیادہ تیز اور
زیادہ مختلف قسم کے ہونے لگے اور جو ہاتھ وہ اپنے شکار کو پکڑنے کے لئے
استعمال کرتا تھا زیادہ دراز ہونے لگا۔
لمبا ہاتھ
جب قدیم آدمی نے ایک ڈنڈے سے نوکیلا پتھر باندھ کر برچھا بنایا تو اس نے
اپنے ہاتھ کو لمبا کر لیا۔
اس سے وہ زیادہ مضبوط اور باہمت بن گیا۔
اس سے پہلے اگر وہ کہیں ریچھ کے نزدیک آجاتا تھا تو خوف سے بھاگتا تھا
کیونکہ وہ اس غار میں رہنے والے جھبرے جانور سے بہت ڈرتا تھا۔ وہ کسی چھوٹے
جانور کو بلا کسی مشکل کے پکڑ کر مار ڈالتا تھا لیکن ریچھ کا مقابلہ کرنے
کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ ریچھ کے تیز پنجوں سے
نکل کر نہیں جا سکے گا۔
لیکن یہ اس کے برچھا بنانے سے پہلے کی بات تھی۔ برچھے نے اس کو باہمت بنا
دیا تھا۔ اب وہ ریچھ کو دیکھ کر خوف سے بھاگتا نہیں تھا بلکہ اس پر جرات سے
حملہ کرتا تھا۔ ریچھ اپنے پچھلے پیروں پر کھڑا ہو کر شکاری پر حملہ کرتا
تھا لیکن قبل اس کے کہ ریچھ کے پنجے شکاری تک پہنچیں، شکاری کے برچھے کی
تیز پتھریلی نوک اس کے بالوں والے پیٹ میں پیوست ہو جاتی تھی کیونکہ برچھا
ریچھ کے پنجوں سے کہیں زیادہ لمبا تھا۔
زخمی ریچھ غصے میں تیزی سے جھپٹتا تھا اور برچھا اس کے پیٹ میں اور گہرا
اتر جاتا تھا۔
لیکن اگر کہیں شکاری کا برچھا ٹوٹ جاتا تو پھر اس کے لئے کوئی امید نہ
رہتی۔ پھر تو ریچھ اس کو دبوچ کر ختم کر دیتا تھا۔
بہر حال، ریچھ کو بہت کم جیت ہوتی تھی۔ تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے
میں آدمی کبھی تنہا شکار کھیلنے نہیں نکلتا تھا۔ خطرے کی پہلی آہٹ پرپورا
غول دوڑ پڑتا تھا۔ لوگ ریچھ کو گھیر کر اپنے پتھر کے چاقوئوں سے ختم کر
دیتے تھے۔
برچھے کی وجہ سے قدیم زمانے کے آدمی کو ایسے شکار نصیب ہونے لگے جن کا اس
نے پہلے خواب تک نہیں دیکھا تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ کو اب بھی غاروں کے
اندر گہرائیوں میں پتھر کی سلوں کے بنے ہوئے گودام ملتے ہیں۔ جب یہ سلیں
ہٹائی جاتی ہیں تو ان کے نیچے سے ریچھ کی ہڈیوں کے بڑے بڑے ڈھیر ملتے ہیں۔
اس کا مطلب یہی ہوا کہ شکاری کا میاب تھے کیونکہ صاف ظاہر ہے ان کے پاس
ذخیرہ کرنے کے لئے ریچھ کا کافی گوشت ہوتا تھا۔
اگر ریچھ جیسے بھدے اور بھاری جانور کا شکار کرنا ہوتا تو برچھا ہی سب سے
اچھا اوزار ہوتا۔ لیکن آدمی کو اور بھی جانوروں کا شکار کرنا ہوتا تھا۔
ایسے جانوروں کا جو خود اس سے زیادہ تیز اور چست چالاک تھے۔
میدانوں میں گھومتے ہوئے شکاری جنگلی گھوڑوں اور ارنا بھینسوں کے بڑے بڑے
غولوں سے دوچار ہوتے۔ وہ چرتے ہوئے جانوروں کے قریب چپکے چپکے رینگ کر
پہنچتے لیکن ذرا سی آہٹ یا سرسراہٹ پر یہ غول چوکڑیاں بھرتا دور بھاگ جاتا۔
قدیم آدمی کے بازو اچھی گھوڑوں اور ارنا بھینسوں کے شکار کے لئے بہت چھوٹے
تھے۔ لیکن پھر شکار نے خود اس کو ایک نئی اور بہت اچھی چیز مہیا کر دی۔ یہ
چیز تھی ہڈی۔
اس نے اپنے پتھر کے چاقو سے ہڈی کا ایک ہلکا اور تیز نوکیلا اوزار بنایا
اور اس کو ایک چھوٹے لکڑی کے دستے سے باندھ دیا۔ اب اس کے پاس ایک نیا
اوزار ہو گیا۔ پھینک کر مارنے ولا برچھا (Javelin)۔
شکاری اپنا بھاری برچھا کسی تیز دوڑتے ہوئے گھوڑے پر نہیں پھینک سکتا تھا
لیکن وہ یہ ہلکا برچھا اس پر پھینک سکتا تھا کیونکہ وہ بہت دور تک جاتا
تھا۔ اب آدمی کا ہاتھ اور لمبا ہو گیا۔ اب وہ ایک اڑتے ہوئے ہتھیار یعنی
Javelinکے ذریعے تیز دوڑتے ہوئے گھوڑے کو غائب ہونے سے پہلے ہی مار سکتا
تھا۔
یہ سچ ہے کہ کسی بھاگتے ہوئے نشانے پر مارنا آسان کام نہ تھا۔ اس کے لئے
ضروری تھا کہ آدمی کا بازو مضبوط ہو اور آنکھ بہت سدھی ہوئی۔
شکاری لڑکپن سے برچھا پھینکنا سیکھتا تھا۔ پھر یہ کوئی غیر معمولی بات
نہیںہوتی تھی کہ سو پھینکے ہوئے برچھوں میں صرف درجن ہی بھر نشانے پر پڑتے
تھے۔
صدیاں لاکھوں برسوں میں بدلتی گئیں۔ جنگلی گھوڑوں اور ارنا بھینسوں کے غول
کم پڑنے لگے۔ قدیم آدمی ان کے خاتمے کا بڑی حد تک ذمے دار تھا۔ اب اکثر
شکاری خالی ہاتھ گھر لوٹنے لگے۔ ان کو ایک نئے ہتھیار کی ضرورت تھی، ایسے
ہتھیار کی جو اور دور سے نشانے پر مارا جا سکے۔ آدمی کو کوئی اور ہتھیار
ایجاد کرنا تھا، ایسا ہتھیار جو اس کے ہاتھ کو اور بھی زیادہ لمبا بنا سکے۔
اور اس نے ایک نیا ہتھیار بنالیا۔
اس نے ایک نیا لیکن مضبوط پودا کاٹا۔ اس کو لچکاکر محراب بنائی اور دونوں
سروں کو تانت سے باندھ دیا۔
اب شکاری کے پاس کمان ہو گئی۔ جب وہ تانت کو آہستہ سے کھینچتا تو وہ اس کے
پٹھوں کی تمام طاقت جمع کرلیتی۔ اور پھر جب وہ اس کو چھوڑتا تو یہ طاقت
فوراً منتقل ہو کر تیر میں پہنچ جاتی۔ اور تیر اس تیزی سے جاتا جیسے کوئی
عقاب اپنے شکار پر ٹوٹتا ہے۔
تیر اور Javelin دو بھائیوں سے مشابہ ہیں لیکن تیر اپنے بھائی سے ہزاروں
سال چھوٹا ہے۔
آدمی کو تیر ایجا د کرنے میں ہزاروں سال لگ گئے۔ پہلے وہ کمان کے ذریعے تیر
نہیں بلکہ Javelinپھینکتا تھا۔ اسی لئے آدمی اپنی کمان اتنی بڑی بناتا تھا
جو اس کے قد کے برابر ہوتی تھی۔
اس طرح آدمی نے اپنے کمزور اور چھوٹے بازوئوں کو لمبا اور طاقتور بنایا۔ جب
اس نے کسی ہرن کی سینگ کی نوک سے یا کسی فیل پیکر کے بڑے دانتوں سے تیز
نوکیلے ہتھیار بنانا سیکھ لیا تو اس نے جانوروں کے اپنے ہتھیاروں یعنی
سینگوں اور دانتون کو خود انہیں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اور اس
بات نے آدمی کو تمام جاندار مخلوق میں سب سے زیادہ طاقتور بنا دیا۔
وہ ہاتھ جو برچھا پھینکتا اور کمان کی تانت کھینچتا تھا اب کوئی معمولی
ہاتھ نہ تھا۔ وہ ایک دیو کا ہاتھ تھا۔
اور جب یہ نوجوان دیو شکار کے لئے جاتا تھا تو وہ ایک جانور کو تاک لگا کر
نہیں مارتا تھا۔ وہ پورے کے پورے غولوں کا شکار کرتا تھا۔
جیتا جاگتا آبشار
سولیو تیرے (فرانس) میں ایک ڈھلوان پہاڑی ہے۔ اس پہاڑی کے دامن میں ماہرین
آثار قدیمہ نے ہڈیوں کا ایک زبردست ڈھیر دریافت کیا۔ اس میں میموتھوں کی
شانے کی ہڈیاں، قدیم زمانے کے بیلوں کی سینگیں اور غار میں رہنے والے
ریچھوں کی کھوپڑیاں تھیں۔ جب سائنس دان تمام ہڈیوں کو چھانٹ چکے تو انہوں
نے دیکھا کہ ان میں گھوڑوں کی کم از کم ایک لاکھ ہڈیاں تھیں۔
گھوڑوں کا اتنا بڑا قبرستان کہا ں سے آیا؟
اور زیادہ گہرے جائزے پر انہوں نے دیکھا کہ بہت سی ہڈیاں چٹخی، ٹوٹی اور
جلی ہوئی تھیں۔ یہ بات صاف ہو گئی کہ پرانے زمانے کے باورچیوں کے ہاتھوں
میں پہنچنے کے بعد یہ ہڈیاں یہاں آئی تھیں۔ گھوڑوں کا یہ غیر معمولی
قبرستان کسی زبردست باورچی خانے کے کوڑا گھر کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
ایسا زبردست کوڑا گھر ایک سال میں تو نہیں پیدا ہو سکتا تھا۔ اس لئے یہ بات
صاف تھی کہ یہاں لوگ بہت، بہت برسوں تک رہے تھے۔
لیکن یہ کوڑا گھر یہاں، پہاڑی کے دامن میں کیوں تھا؟ کیا یہ محض اتفاق کی
بات تھی کہ قدیم زمانے کے شکاریوں نے میدانوں کی ہموار زمین کی بجائے اپنا
پڑائو یہاں بنایا تھا؟
غالباً یہی ہوا تھا۔
جب وہ گھوڑوں کے غول میدانوں میں دیکھتے تھے تو شکاری اپنے کو لمبی لمبی
گھاس میں چھپاتے ہوئے بڑی احتیاط سے آگے بڑھتے تھے۔ ہر شکاری کے پاس کئی
برچھے ہوتے تھے۔ آگے والے شکاری دوسروں کو اشارہ کرتے تھے کہ گھوڑے کہاں
ہیں، کتنے ہیں اور کس طرف جا رہے ہیں۔
تب شکاری ایک حلقہ بنا لیتے تھے اور غول کو گھیر کر حلقہ چھوٹا کرتے جاتے
تھے۔ گھوڑے جو پہلے میدان میں سیاہ دھبوں کی طرح ہوتے تھے اب نظر آنے لگتے
تھے۔ ان کے بڑے برے سر، سبک پیر اور بدن پرجھبرے بال ہوتے۔
گھوڑوں کا غول چوکنا ہو جاتا تھا۔ وہ دشمن کی بو سونگھ کر بھاگنے کی کوشش
کرتے تھے۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان پر برچھوں کی بارش ہو جاتی تھی جیسے
لمبی چونچوں والی بے پر چڑیاں ان پر جھپٹ رہی ہوں۔
برچھے جانوروں کے پہلوئوں، پیٹھوں اور گردنوں میں پیوست ہو جاتے تھے۔اب وہ
کہاں جائیں؟ دشمن گھوڑوں کو تین طرف سے گھیر لیتا تھا۔ اس زندہ دیوار سے
جوان کے چاروں طرف اچانک کھڑی ہو گئی تھی فرار کا صرف ایک راستہ تھا۔ اب
غول کھلے ہوئے رخ کی طرف زور سے ہنہناتا ہوا شکاریوں سے بھاگتا تھا۔لیکن
شکاری تو اسی کے منتظر ہوتے تھے۔ وہ گھوڑوں کو گھیر کر اور اونچائی پر
پہاڑی کی طرف لے جاتے تھے۔ گھوڑے خوف سے بدحواس ہو کر آگے کی طرف بھاگتے
تھے۔ انہیں اس کی فکر نہیں ہوتی کہ وہ کدھر جا رہے ہیں۔ بس اٹھی ہوئی دموں
اور پسینے سے تر پیٹھوں کا ایک سیلاب ہوتا تھا جو پہاڑی کے اوپر بڑھتا تھا۔
پھر اچانک ان کے سامنے خلا آجا تا تھا۔ آگے والے گھوڑے پہاڑی کی کگر تک
پہنچ جاتے تھے۔ ان کو خطرے کا احساس ہوتا تھا۔ وہ پچھلے پیروں پر کھڑے ہو
کر زوروں سے پھنکارتے تھے۔ لیکن بہت دیر ہو چکی ہوتی تھی۔ وہ رک نہیں سکتے
تھے کیونکہ پیچھے والے گھوڑے انہیں دھکیلتے تھے۔ اور پھر یہ سیلاب ایک
آبشار کی طرح نیچے گرتا تھا اور تہہ میں پہنچ کر لاشوں اور ٹوٹے پھوٹے
جسموں کاایک ڈھیر بن جاتا۔
شکار ختم ہو جاتاتھا۔
پہاڑی کے دامن میں الائوزوروں میں جلتے تھے۔ بوڑھے شکار کو تقسیم کر دیتے
تھے جو پورے جرگے کی مشترکہ ملکیت ہوتا تھا۔ لیکن سب سے اچھے ٹکڑے ان
شکاریوں کو دئے جاتے تھے جو سب سے زیادہ بہادر اور مشاق ہوتے تھے۔
نئے لوگ
جب ہم کسی گھڑی کی گھنٹے والی سوئی دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں چلتی ہوئی نہیں
دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ایک دو گھنٹے میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سوئی اپنی جگہ
سے آگے کھسک گئی ہے۔
زندگی کے بارے میں بھی یہی بات ٹھیک ہے۔ ہم ان تمام تبدیلیوں کو فوراً نہیں
دیکھ لیتے جو ہمارے ماحول میں یا خود ہم میں ہوتی ہیں۔ ہم خیال کرتے ہیں
کہ تاریخ کی گھنٹے والی سوئی غیر متحرک ہے اور صرف متعدد سال بعد ہم اچانک
یہ دیکھتے ہیں کہ سوئی حرکت کر گئی ہے، کہ ہم خود بھی بدل گئے ہیں اور
ہمارے چاروں طرف ہر چیز مختلف ہو گئی ہے۔
ہم اپنے روزنا مچوں، فوٹوئوں، اخباروں اور کتابوں کے ذریعے پرانے اور
نئے کا موازنہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس موازنے کے لئے چیزیں ہیں۔ لیکن ہمارے
قدیم اجداد کے پاس پرانے اور نئے کے موازنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ وہ
خیال کرتے تھے کہ زندگی بے حرکت ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ پرانے
اور نئے کا موازنہ کئے بغیر تبدیلیوں کو دیکھنا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح
گھڑی کی سوئی کی حرکت ایسے ڈائل پر دیکھنا جس پر نمبر نہ پڑے ہوں۔
پتھر کے اوزار بنانے والا ہر کاریگر ان تمام حرکتوں اور طریقوں کی نقل کرتا
تھا جو اس کو یہ ہنر سکھانے والا آدمی بتاتا تھا۔ نیا گھر بساتے وقت عوتیں
چولہا ٹھیک اسی طرح بناتی تھیں جیسے ان کی دادیوں نے بنایا تھا۔ شکاری
قدیم رواج کے مطابق شکار کے لئے گھات لگاتے تھے۔
پھر بھی محسوس کئے بغیر لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنے اوزار، رہائش گاہیں اور
کام کے طریقے بدلے۔
پہلے ہر نیا اوزار بالکل پرانے اوزار کی طرح ہوتا تھا۔ پہلا javelin برچھے
سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ پہلا تیر بہت کچھ javelin سے ملتا تھا۔ لیکن تیر
اور برچھا بہت مختلف ہی اور تیر کمان سے شکار کرنا تو برچھے کے شکار سے
کہیں الگ ہے۔
صرف آدمی کے اوزار اور ہتھیار ہی نہیں بدلے تھے۔ وہ خود بھی بدل رہا تھا۔
یہ ان انسانی ڈھانچوں سے دیکھا جا سکتا ہے جو کھدائی کی مختلف جگہوں پر
پائے گئے ہیں۔ اگر اس آدمی کا مقابلہ جو پہلے پہل غار میںد اخل ہوا تھا اس
آدمی سے کریں جس نے برفانی دور کے آخر میں غار کو ترک کیا تو ہم خیال کر
سکتے ہیں کہ وہ دونوں مختلف قسم کی مخلوقات میں سے تھے۔ نیان ڈیر ٹھال آدمی
سے پہلے غار میں رہنے لگا تھا۔ اس کی پیٹھ جھکی ہوئی تھی اور بہت لڑکھڑاتا
ہوا چلتا تھا، اس کے چہرے پر نہ تو کوئی پیشانی تھی اور نہ ٹھڈی۔ لیکن
اچھے بدن والا، لمبا cro-magnon آدمی جس نے سب سے آخر میں غار چھوڑا صورت
شکل میں مشکل سے ہم سے مختلف تھا۔
”گھر کی تاریخ” کا پہلا باب
آدمی کے طریقہ زندگی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس کی رہائش گاہ میں بھی
تبدیلیاں ہوئیں۔ اگر ہم اس کی رہائش گاہ کی تاریخ لکھیں تو ہمیں غار سے
شروع کرنا ہوگا۔ یہ رہائش گاہ جو قدرت کی تخلیق تھی آدمی نے بنائی نہیں تھی
بلکہ پائی تھی۔
لیکن قدرت اچھی معمار نہیں ہے۔ جب اس نے پہاڑ اور پہاڑوں کے غار بنائے تھے
تو اس نے ذرا بھی اس کی پروا نہیں کی تھی کہ اس کے غاروں میں کوئی رہے گا
یا نہیں۔ اسی لئے جب قدیم آدمی رہنے کے لئے غاروں کی تلاش کرتا تھا تو
دیواریں گرنے والی ہوتی تھیں یا غار کا دھانہ اتنا چھوٹا ہوتا تھا کہ اس
میں سے رینگ کر جانا بھی مشکل تھا ۔
آدمیوں کا پورا غول رہائش گاہ کو ٹھیک ٹھاک کرنے میں لگ جاتا تھا۔ وہ غار
کے فرش اور دیواروں کو پتھر کے چھیلنے والے اوزاروں اور لکڑی کے ڈنڈوں سے
کھرچتے اور ہموار کرتے تھے۔
دھانے کے قریب وہ چولھے کے لئے ایک گڈھا کھود دیتے تھے اور پتھر جوڑ دیتے
تھے۔ مائیں زمین میں چھوٹے چھوٹے گڈھے کھود کر بچوں کے لئے ”پالنے” بناتی
تھیں اور گدوں کی بجائے چولھے کی گرم راکھ ان گڈھوں میں بچھائی جاتی تھے۔
غار کے دور والے گوشے میں ریچھ کے گوشت اور کھانے کی دوسری چیزوں کا ذخیرہ
ہوتا تھا۔
اس طرح قدیم زمانے کے لوگوں نے قدرت کے بنائے ہوئے غار کو اپنی محنت سے
انسانی رہائش گاہ میں تبدیلی کیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی رہائش گاہوں کو زیادہ آراستہ کرنے کی کوشش
کی۔
اگر ان کو کسی اوپر نکلی ہوئی چٹان کی معلق چھت مل جاتی تو وہ اس کی چاروں
طرف دیوار کھڑی کردیتے۔اگر کوئی ایسی جگہ مل جاتی جو چہار دیواری کا کام دے
سکتی تو وہ ان دیواروں پر چھت بنا دیتے ۔
جنوبی فرانس کے پہاڑوں میں اب بھی قدیم زمانے کی ایک رہائش گاہ کے کھنڈرات
ملتے ہیں۔ مقامی لوگوں نے اس کو ”شیطانی چولھے” کاعجیب نام دیا ہے۔ ان کا
خیال تھا کہ زبردست چٹانوں کی بنی ہوئی اس پناہ گاہ میں شاید کوئی شیطان ہی
چولھے سے گرمی حاصل کر سکتا تھا۔ اگر ان کو اپنے قدیم اجداد کے بارے میں
معلومات ہوتیں تو ان کو پتہ چلتا کہ ”شیطانی چولہا” انسانی ہاتھوں ہی نے
بنایا تھا۔
یہاں قدیم زمانے کے شکاریوں نے دو دیواریں دیکھیں جن کے اوپر ایک چٹان سایہ
کئے تھی۔ دیواریں ان پتھروں سے بن گئی تھیں جو پہاڑ سے ڈھلک کر آئے تھے۔
شکاریوں نے باقی دو دیواریں بنا کر ان دیواروں سے ملا دیا جو ان کو ملی
تھیں۔ ایک د یوار پتھر کی بڑی بڑی سلوں سے بنی تھی اور دوسری ان کھمبوں سے
جن کے درمیان درختوں کی شاخیں بنی ہوئی تھیں اور وہ جانوروں کی کھالوں سے
ڈھکے تھے۔ ہم صرف قیاس کر سکتے ہیں کہ چوتھی دیوار کیسی تھی کیونکہ وقت نے
اس کو خاک کر دیا ہے۔
یہ دیواریں ایک گڈھے کو جو زمین میں کھدا تھا گھیرے میں لئے تھیں۔ گڈھے کی
تہہ میں ماہرین آثار قدیمہ کو پتھر کے ٹکڑے اور ہڈیوں اور سینگوں کے اوزار
ملے۔
”شیطانی چولہا” آدھا گھر ہے اور آدھا غار۔یہاں سے اصلی گھر کا فاصلہ دور نہ
تھا کیونکہ ایک بار آدمی کو دو دیواریں بنانا آگیا تو اس نے جلد ہی چار
دیواریں بنانا بھی سیکھ لیا ہوگا۔
اس طرح پہلے مکان نمودار ہوئے جو نہ تو غاروں میں تھے اور نہ باہر نکلی
ہوئی چٹانوں کے سائے میں بلکہ کھلے میں تھے۔
قدیم شکاریوں کی رہائش گاہ
1925 کی خزاں کی بات ہے۔ دریائے دون کے کنارے واقع گا گار ینو گائوں کا ایک
کسان جس کا نام آنتو نوف تھا اپنے صحن میں مٹی کھود رہا تھا۔ اس کو ایک
نئے باڑے پر لگانے کے لئے اس مٹی کی ضرورت تھی۔
لیکن اس کا پھائو ڑا برابر ہڈیوں پر پڑ رہا تھا جو وہاں دفن تھیں۔ اتفاق سے
اسی وقت وہاں سے گائوں کا ٹیچر ولادیمیروف گزرا۔ آئتونوف نے اس کو پکارا
اور شکایت کی:
”سمجھ میں نہیں آتا یہ اتنی ہڈیاں کہاں سے آگئیں کہ کھودنا مشکل ہو گیا۔
میرا پھائوڑا ٹوٹتے ٹوٹتے رہ گیا۔”
شاید اگر آنتونوف نے کسی اور سے کہا ہوتا تو وہ ایک آدھہ منٹ تک رک کر چلا
جاتا۔لیکن گائوں کا یہ ٹیچر سائنس سے بڑی دلچسپی رکھتا تھا۔
وہ صحن میں آگیا اور اس نے ایک موٹے زرد دانت کے ٹکڑے کا جائزہ لیا جو ایسا
چکنا تھا جیسے گھس کر بنایا گیا ہو۔
یہ بات بالکل صاف تھی کہ ایسا بڑا دانت کسی قدیم زمانے کے دیو پیکر میموتھ
ہی کا ہو سکتا تھا۔
دریائے دون پر میموتھ! یہ واقعی حیرت کی بات تھی۔
ٹیچر نے ڈھیر بھر ہڈیاں ایک لاری پر لادیں اور قریب ترین شہر کولے گیا جہاں
ایک چھوٹا سا مقامی میوزیم تھا۔
اگر تم کبھی ایسے چھوٹے میوزیموں میں گئے ہو تو تم نے دیکھا ہو گا کہ کہاں
انتہائی عجیب چیزیں ایک ہی کمرے میں رکھی ہیں۔ ایک ہی کمرے میں تم کو کیوپڈ
کا سنگ مر مر کا مجسمہ اور اٹھارہویں صدی کے کسی امیر کی روغنی تصویر ملے
گی۔ ایک اور کمرے میں مقامی معدنیات اور پودوں کے ذخیرے کے برابر کوئی
پیپئر ماشے کا بنا ہوا Pithecanthropus کا مجسمہ نظر آئے گا جس کے بالدار
ہاتھ میں ڈنڈا ہوگا۔
یہ اس قسم کا میوزیم تھاجس میں ولاد یمیروف یہ ہڈیاں لایا۔
یہ بھی ممکن تھا کہ میوزیم کا نگراں قدیم فیل پیکر کے دانت اور دوسری ہڈیوں
کا اندراج میوزیم کی فہرست میں کر کے دوسری چیزوں کے ساتھ نمائش کے لئے
رکھ دیتا۔
لیکن اس نے اس سے زیادہ کام کیا۔ اس نے لینن گردا کے علم الانسان اور علم
الاقوام کے میوزیم کو خط لکھا جہاں دریائے نیوا کے کنارے ایک قدیم عمارت
میں وہ شاندار ذخیرہ ہے جو دنیا کے تمام حصوں سے آیا ہے اور جس کو روسی
سائنس دانوں اور کھوج کرنے والوں نے جمع کرنے میں مدد دی ہے۔
جلد ہی لینن گراد سے ایک ماہر آثار قدیمہ زامیا تین گا گارینو پہنچ گیا
تاکہ گائوں کے ٹیچر کے ساتھ مل کر کھدائی کا کام جاری رکھا جا سکے۔
یہ صورت اکثر ہمارے ملک میں پیش آتی ہے۔ کوئی ٹیچر یا گائوں کے کتب خانے کا
نگراں قدیم تہذیب کا کوئی نمونہ دیکھتا ہے او رقریبی میوزیم کو اس کے بار ے
میں لکھتا ہے اور شہر سے سائنس داں کھدائی کے کام کی نگرانی کے لئے آجاتے
ہیں۔
گاگارینو میں کیا ملا؟
پہلے ہی دن کی کھدائی میں ان کو پتھر کے چھیلنے اور کاٹنے والے اوزار، ہڈی
کا ایک سوجا، قطبی لومڑی کا دانت جس میں ایک سوراخ بنایا گیا تھا، ایک
چولھے کے کوئلے اور راکھ میں ملی ہوئی میموتھ اور دوسرے جانوروں کی ہڈیاں
ملیں۔
اسی طرح کے پتھر کے اوزار اور دانت کے ٹکڑے اس مٹی میں بھی ملے تھے جو
آنتونوف کے باڑے پر لگانے کے لئے استعمال ہوئی تھی۔ یہ ہڈیاں مٹی میں اتنی
زیادہ تھیں کہ کسان کے خاندان نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو پلاسٹر سے چننے پر
وقت ضائع نہ کرنا چاہئے۔
یہاں کئی مہینوں تک کھدائی جاری رہی اور برابر نئی چیزیں ملتی رہیں۔ اوزار،
زیورات، چھوٹی چھوٹی مورتیاں اور جانوروں کی ہڈیاں ملیں۔ ہر چیز کو احتیاط
کے ساتھ لینن گراد روانہ کیا گیا جہاں مختلف شعبوں کے سائنس دانوں نے ان
کا جائزہ لینا شروع کیا۔
ماہرین معدنیات نے یہ پتہ لگایا کہ اوزاروں کے لئے کس طرح کا پتھر استعمال
ہوتا تھا۔ قدیم جانوروں کے ماہروں نے ہڈیوں کا مطالعہ کر کے معلوم کیا کہ
قدیم زمانے کے آدمی کس قسم کے جانوروں کا شکار کرتے تھے۔ چیزوں کو بحال
کرنے والے ماہروں نے ہڈی کی نقشیں مورتیوں کو جوڑ کر پھر اصلی روپ میں کر
دیا۔
اس دوران میں ماہرین آثار قدیمہ کا ایک جتھا، تمام قواعد کی پوری پابندی کے
ساتھ، کھدائی میں مصروف رہا۔ اور جلد ہی ان کے سامنے قدیم زمانے کے
شکاریوں کی رہائش گاہ کی تصویر آنے لگی۔
شکل کے لحاظ سے وہ ایک گول تہہ خانہ تھا۔ دیواریں باہر سے پتھر کی سلوں،
میموتھ کے دانتوں اور جبڑوں سے محفوظ کی گئی تھیں۔ وہ غالباً لکڑی کے
کھمبوں سے بنی تھیں جن پر جانوروں کی کھالیں منڈھی تھیں اور یہ کھمبے اوپر
مل کر چھت بناتے تھے۔ دیواروں کو باہر سے مضبوط بنانے کے لئے بھاری پتھر
اور میموتھ کی ہڈیاں لڑھکا کر دیواروں تک لائی گئی تھیں۔
باہر سے یہ رہائش گاہ ایک بڑے خیمے کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ دیواروں کے قریب
ماہرین کو نقشیں ہڈیوں کی عورتوں کی دو مورتیاں ملیں۔ ایک بہت موٹی تھیں
اور دوسری دبلی۔ غالباً ہڈی پر کندہ کاری کرنے والے نے ان کو اصلی زندگی سے
لیا تھا۔ عورتوں کے پیچیدہ جوڑے بڑی نفاست سے بنائے گئے تھے۔
فرش کے بیچوں بیچ ایک گڈھا تھا جو صندوق کا کام دیتا تھا۔ جو چیزیں اس میں
ملیں وہ غالباً بہت بیش بہا سمجھی جاتی ہو ں گی۔ ہڈی کی سوئی، قطبی لومڑی
کے دانتوں کے بنے ہوئے دانے اور ایک میموتھ کی دم۔
قدیم آدمی سینے کے لئے سوئی استعمال کرتے تھے، یہ دانے کسی زیور کے تھے۔
لیکن انہوں نے میموتھ کی دم محفوظ رکھنے کی زحمت کیوں گوارا کی تھی؟
دوسری جگہوں پر ایسی نقشیں مورتیاں پائی گئیں جن میں قدیم شکاریوں کو پیش
کیا گیا ہے۔ ان مورتیوں سے پتہ چلتا ہے کہ شکاری جانوروں کی کھالیں اپنے
کندہوں پرڈالتے تھے اور دمیں پیچھے لٹکتی لگاتے تھے تاکہ وہ ان جانوروں کی
طرح معلوم ہوں جن کی کھالیں وہ پہنے تھے۔ وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ اس کے
بارے میں ہم بعد کو بتائیں گے۔ ابھی تو ہم قدیم آدمی کی رہائش گاہ کے بارے
میں ہر امکانی دریافت کر رہے ہیں۔
گاگارینو گائوں جیسے بہت سے قدیم پڑائو سوویت یونین کے دوسرے حصوں میں بھی
ملے ہیں۔ شہر ورونیژ کے قریب ایک چھوٹے سے گائوں میں اتنی ہڈیاں ملیںکہ ا س
کا نام ہی کوستینکی یعنی گائوں پڑگیا۔
یہ ہڈیاں میموتھ، غار والے شیروں، ریچھوں اور ان گھوڑوں کی تھیں جن کو قدیم
زمانے کے لوگ شکار کرتے تھے۔
سوویت ماہرین آثار قدیمہ نے کو ستینکی کے پڑائو کا پوری طرح جائزہ لیا۔
انہوں نے دریافت کیاکہ شکاری گاگارینو کی طرح ایک تہہ خانے میں نہیں بلکہ
کئی تہہ خانوں میں رہتے تھے اور سب ایک ساتھ مل کر شکار کھیلتے تھے۔ یہاں
پتھر اور ہڈی کے بنے ہوئے اچھے اوزار اور ہاتھی دانت سے تراشی ہوئی عورتوں
کی مورتیاں پائی گئیں۔ ان میں سے ایک کے گدنا گدا ہوا اور ہو چمڑے کا پیش
بند پہنے ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہ لوگ چمڑے کو کمان جانتے تھے۔
ابتدائی دور کے ان شکاریوں کی رہائش گاہیں ہمارے مکانوں سے بالکل مختلف
تھیں۔ باہر سے صرف ان کی چھتیں ایک گول پہاڑی کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔
داخلہ صرف چمنی کے ذریعے تھا کیونکہ صرف چھت میں ایک سوراخ تھاجس سے دھواں
نکلتا تھا۔
مٹی کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بنچوں کی جگہ پر میموتھوں کی جبڑے کی ہڈیاں
لگتی تھیں اور زمین ہی ان کا بستر تھی۔ وہ ایک ہموار مستطیل قطعہ میں سوتے
تھے اور تکیوں کی جگہ پر مٹی کے ڈھیلے تھے۔
ہڈی کی بنچوں اور مٹی کے بستروں والے اس مکان میں میزیں پتھر کی
تھیں۔پتھرکی ہموار سلوں کی بنی تھی۔ اس کے اوپر ماہرین آثار قدیمہ نے متعدد
اوزار، پتھر اور ہڈیوںکے ٹکڑے اور نامکمل چیزیں پائیں۔ میز پر ہڈی کے دانے
پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں کچھ پالش کئے ہوئے تھے اور ان میں سوراخ تھے۔ باقی
ابھی نامکمل تھے۔ کاریگر نے ایک پتلی ہڈی میںکئی جگہ سوراخ تو بنا لئے تھے
لیکن اسے اس ہڈی کو دانوں میں توڑنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ کوئی بات ایسی
ہو گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنا کام روک کر رہائش گاہ چھوڑنی پڑی
تھی۔ واقعی کوئی بڑا خطرہ رہا ہو گا ورنہ وہ ایسی بیش بہا چیزیں جیسے
نوکیلے ہتھیار، ہدی کی سوئیاں جن میں ناکے تھے او رمختلف قسم کے پتھر کے
کاٹنے والے اوزار چھوڑ کر نہ جاتے۔
ان تمام اوزاروں کو بنانا آسان کام نہیں تھا۔ رہائش گاہ میں جو چیزیں ملیں
ان میں سے ہر ایک کو بنانے میں بہت سے گھنٹے لگے تھے۔ مثلاً ہڈی کی سوئی کو
لے لو۔ یہ تاریخ انسانی میں سئی کی پہلی قسم تھی۔ یہ واقعی چھوٹی سی چیز
ہے لیکن اس کو بنانے میںکافی ہنر درکار تھا۔
ایک اورپڑائو میں ہڈی کی سوئیاں بنانے والا پورا ورکشاپ ملا۔ اس میں تمام
ضروری اوزار، ہڈیوں کے ٹکڑے اور نیم تیار سوئیاں تھیں۔ہر چیز اسی طرح تھی
جیسے چھوڑی گئی تھی۔ اس طرح کہ اگر ہماری جدید دنیا کو ہڈی کی سوئیوں کی
ضرورت ہوتی تو ان کی پیداوار کل سے پھر شروع کی جا سکتی تھی۔ لیکن ہمیں اب
اس کام کوکرنے والا ایک بھی کاریگر مشکل سے ملے گا۔
ہڈی کی سوئی اس طرح بنتی تھی کہ پہلے کسی خرگوش کی ہڈی سے ایک پتلا سا ٹکڑا
کے چاقو کی مدد سے کاٹا جاتا تھا پھر پتھر کی ریتی کی مدد سے اس کی نوک کو
پتلا اور تیز کیا جاتا تھا۔ پھر ایک نوکیلا پتھر اس میں سوراخ بنانے کے
لئے استعمال ہوتا تھا اور پھر اس سوئی کو پتھر کی سل پر رگڑ کر پالش کیا
جاتا تھا۔
اس طرح واحد سوئی بنانے میں اتنے اوزار اور اتنا وقت لگتا تھا!
ہر قبیلے میں ایسے باہنر کاریگر نہیںہوتے تھے۔ جو ہڈی کی سوئیاں بناسکیں۔
ماقبل تاریخ میں ہڈی کی ایک سوئی بھی بہت ہی بیش بہا ملکیت سمجھی جاتی تھی۔
آئو ابتدائی دور کے شکاریوں کے پڑائو کا اندر سے جائزہ لیں۔
برف پوش استیپ کے بیچوں بیچ ہم متعدد چھوٹے چھوٹے ٹیلے دیکھتے ہیں۔ ان میں
سے ہر ایک سے دھوئیں کے مرغولے لہراتے ہوئے نکل رہے ہیں۔ ہم ایک ٹیلے کے
قریب آتے اور دھوئیں کے ان بادلوں کی پروا نہ کرتے ہوئے جو ہماری آنکھوںکو
پریشان کر رہے ہیں ہم چمنی کے ذریعے اندر پہنچ جاتے ہیں۔
تھوڑی دیر کے لئے یہ تصور کر لو کہ ہم نے جادو کی ٹوپی پہن لی اورکسی کو
دکھائی نہیں دیتے۔ رہائش گاہ کے اندر دھواں بھرا ہے اور اندھیرا ہے۔ شور
وغل ہو رہا ہے۔اس میں کم ازکم دس بڑے اور اس سے کہیں زیادہ بچے ہیں۔
جب ہماری آنسو سے بھری آنکھیں دھوئیں کی عادی ہو جاتی ہیں تو ہم کو آدمیوں
کے چہرے اور بدن دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ان میں بندروں جیسی کوئی بات نہیں
ہے۔ وہ لمبے، سڈول اور مضبوط ہیں۔ ان کی گال کی ہڈیاں ابھری ہوئی اور
آنکھیں ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ ان کے سیاہ جسموں پر لال رنگ کے نقش ونگار
بنے ہوئے ہیں۔
عورتیں زمین پر ایک حلقے میں بیٹھی اپنی ہڈی کی سوئیوں سے جانوروں کی
کھالوں کے لباس سی رہی ہیں۔ بچوں کے پاس کھلونے نہیں ہیں۔ وہ ایک گھوڑے کی
ٹانگ اور بار مسنگھے کی سینگ سے کھیل رہے ہیں۔ چولھے کے پہلو میں ایک
کاریگر اپنے پیر ایک دوسرے پر رکھے کام کرنے والی پتھر کی بنچ پر بیٹھا ہے
ایک لکڑی کے دستے میں ہڈی کی تیز نوک لگا کر برچھا بنا رہا ہے۔ ا س کے
برابر ایک اور کاریگر اپنے پتھر کے چاقو سے کوئی نقش کھود رہا ہے۔
آئو ذرا قریب سے چل کر دیکھیں کہ یہ نقش کیسا ہے؟
اس نے بڑی مہارت کے ساتھ ایک چرتے ہوتے گھوڑے کا خاکہ ہڈی پر بنایا ہے۔ اس
نے گھوڑے کی خوبصورت ٹانگوں، محراب دار گردن، چھوٹے ایال اور بڑے سرکی نقش
کاری بڑے صبر اور مہارت کے ساتھ کی ہے۔ اب معلوم ہوتا ہے۔ کہ گھوڑا زندہ ہے
اور بس حرکت کرنے والا ہے کیونکہ ماہر نقاش نے اپنے تصور میں ہر تفیصل کو
پیش نظر رکھا ہے۔
اب یہ نقش ختم ہو گیا۔ لیکن نقاش نے اسی پر بس نہیں کی۔ اس نے اپنا کام
جاری رکھا ۔ وہ ایک زور دار ضرب سے گھوڑے پر ایک خط بنا دیتا ہے، پھر دوسرا
اور تیسرا۔ اب جانور کے بدن پرایک انوکھی شکل نمودار ہو جاتی ہے۔ یہ
ابتدائی دور کا نقاش کیا کر رہا ہے؟ وہ ایسے نقش کو کیوں خراب کر رہا ہے جس
پر آج کا ہر آرٹسٹ فخر کر سکتا ہے؟
یہ شکل زیادہ سے زیادہ پیچیدہ ہوتی جاتی ہے۔ اور پھر ہم کویہ دیکھ کرحیرت
ہوتی ہے کہ گھوڑے کے اوپر ایک گھر کا خاکہ نمودار ہو جاتا ہے۔ اس کے برابر
یہ آرٹسٹ او رکئی گھر بناتا ہے۔ ارے یہ تو پورا پڑاو ہے!
اس طرح کی ڈرائنگ کیا ہو سکتی ہے؟ کیا یہ محض کاریگر کے اپنے خیالات کا
نتیجہ ہے؟
نہیں، ہم ان عجیب ڈرائنگوں کا پورا مجموعہ ابتدائی دور کے شکاریوں کے غاروں
سے جمع کر سکتے تھے۔ایک ڈرائنگ میموتھ کی ہے جس پر دو گھر بنے ہیں۔ ارنا
بھینسے کی ایک ڈرائنگ پر تین گھر ملتے ہیں ایک میں ارنا بھینسے کا آدھا
کھایا ہو اڈھانچا بیچ میں دکھایا گیا ہے۔ سر، ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگوں کو
ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے۔ بڑاسا، داڑھی والا سر اگلے پیروں کے بیچ میں ہے
اور اس کے ڈھانچے کے پاس آدمیوں کی دو قطاریں ہیں۔
ہڈی کے ٹکڑوں، پتھر کی سلوں او رچٹانوں پر جانوروں، آدمیوں اور گھروں کے
ایسے بہت سے انوکھے نقش ملتے ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی تعداد غاروں کی
دیواروں پر ملتی ہے۔
جب ہم اپنے غار کی کھدائی کر رہے تھے تو ہمیں اس کی دیواروں پر کوئی نقش
نہیں ملے تھے۔
لیکن ہم تو غار کے دھانے پر تھے جہاں لوگ کھاتے، سوتے اور کام کرتے تھے۔
اچھا آئو، اب اور اندر چلیں اور تمام کونے دیکھیں اور ان سرنگوں کو دیکھیں
جو سیکڑوں میٹر تک چلی گئی ہیں۔
زمین دوز آرٹ گیلری
آئو اپنی ٹارچیں لے کر غار کی کھوج کریں۔ ہم کو ہر موڑ اور چوراھا یاد
رکھنا پڑے گا ورنہ ہم یہاں کھو جائیں گے۔
پتھر کی گزر گاہ زیادہ تنگ ہوتی جاتی ہے۔ چھت سے پانی ٹپکتا ہے۔ ہم اپنی
ٹارچیں اٹھا کر غار کی دیواروں کا جائزہ لیتے ہیں۔
زمین دوز چشموں نے غار کو چمک دار کرسٹلوں سے آراستہ کر دیا ہے۔ لیکن
انسانی ہاتھ یہاں کار فرما نہیں رہا ہے۔
ہم غار میں آگے بڑھتے ہیں۔ اچانک کوئی زور سے کہتا ہے:
”دیکھو!”
دیوار پر ایک بڑا ارنا بھینسا نقش ہے۔ وہ سرخ وسیاہ رنگا ہوا ہے۔ جانور
اپنے اگلے پیروںپر گر گیا ہے۔ اور اس کی کوھان والی پیٹھ میں بہت سے برچھے
گڑے ہیں۔
ہم اس نقش کے سامنے خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کو ایسے فن کار نے بنایا
تھا جو ہزاروں سال پہلے گزرا ہے۔
تھوڑی دور آگے چل کر ہم کو ایک اور نقش ملتا ہے۔ ایک عفریت ناچ رہا ہے۔یا
تو یہ آدمی ہے جو جانور جیسادکھائی دیتا ہے یا پھر کوئی جانور ہے جو آدمی
جیسا نظر آتا ہے۔ عفریت کے سرپر خمدار سینگیں اور داڑھی ہے، اس کے کو بڑ
اور بالدار دم ہے۔ اس کے ہاتھ پیر آدمی جیسے ہیں۔ اس کے ہاتھ میں کمان ہے۔
قریب سے جائزہ لینے پر یہ عفریت آدمی نکلتا ہے جو ارنا بھینسے کی کھال پہنے
ہے۔
آگے چل کر تیسری اور چوتھی ڈرائنگ ملتی ہے۔
یہ کیسی انوکھی تیسری اور چوتھی ڈرائنگ ملتی ہے۔
آج کل مصور روشن نگار خانوں میں کام کرتے ہیں۔ گیلریوں میں تصویریں اس طرح
لٹکائی جاتی ہیں کہ ان پر ہمیشہ روشنی پڑے۔ پھر ان ابتدائی دور کے لوگوں نے
غار کی تاریکیوں میں، انسانی نگاہ سے دور کیوں گیلری بنائی؟
یہ بالکل صاف ہے کہ فن کار نے یہ نقوش دوسروں کے لئے نہیں بنائے تھے۔
لیکن اگر ایسا ہے تو اس نے آخر ان کو بنایا ہی کیوں؟ جانوروں کے بھیس میں
یہ عجیب ناچتی ہوئی شکلیں کیا ہیں؟
راز اور اس کا حل
”متعدد شکاری ناچ میں حصہ لیتے ہیں۔ہر ایک کے سر پر یا تو بھینسے کی کھال
ہوتی ہے یا سینگ دار بھینسے کا چہرہ۔ہر شکاری کے پاس کمان یا برچھا ہوتا
ہے۔ یہ ناچ بھینسے کا شکار کا ناچ ہے۔ جب کوئی ناچنے والا تھک جاتا ہے تو
وہ دکھاتا ہے کہ وہ گر رہا ہے۔ تب دوسرا ناچنے والا اس پر نقلی تیر چلا
تھا۔ ”بھینسا” زخمی ہو جاتا ہے۔ اس کو ٹانگیں پکڑ کر حلقے سے باہر کھینچ
لیتے ہیں اور پھر دوسرے ناچنے والے اس پر اپنے چاقو تان لیتے ہیں۔ پھر اس
کو چھوڑ دیتے ہیں اور حلقے میں اس کی جگہ کوئی دوسرا ناچنے والا آجاتا ہے۔
یہ بھی بھینسے کا چہرہ پہنے ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ ناچ، ایک لمحہ رکے
بغیر، متواتر دو تین ہفتے تک جاری رہتا ہے۔”
اس طرح ایک دیکھنے والے نے ابتدائی دور کے شکاریوں کے ناچ کے بارے میں لکھا
ہے۔ لیکن اس نے یہ ناچ کہاں دیکھا ہو گا؟
اس نے یہ ناچ شمالی امریکہ کے میدانوں میں دیکھا جہاں انڈین قبیلوں میں اب
بھی قدیم شکاریوں کے رسم ورواج باقی ہیں۔
اس طرح ہم ایک سیاح کی ڈائری میں اسی شکار کے ناچ کا بیان پاتے ہیں جو قدیم
دور کے فن کار نے غار کی دیوار پر نقش کیا ہے۔
اب ہم پراسرار ڈرائنگ کے راز کو سمجھ جاتے ہیں۔ لیکن اس رازکو حل کرتے ہوئے
ہم ایک اور راز سے دو چار ہوتے ہیں۔ کس قسم کا ناچ ہفتوں تک جاری رہتا ہے؟
ہم ناچ کو ایسی چیز سمجھتے ہیں جس کا مقصد تفریح ہوتا ہے یا پھر وہ آرٹ کا
کوئی نمونہ ہوتا ہے۔ کیا یہ انڈین واقعی محض تفریح کے لئے تین ہفتوں تک
ناچتے تھے کہ تھک تھک کر گر جاتے تھے! وہ آرٹ کے بڑے دلدادہ تھے؟ اور پھر
ان کا ناچ تو ایک رسم کی طرح ہے۔
ان کاجادو گر اپنے پائپ سے ایک خاص سمت میں دھواں چھوڑتا ہے اور ناچنے والے
اس طرف جاتے ہیں جیسے وہ کسی خیالی جانور کا پیچھا کر رہے ہوں۔ یہ جادو گر
ناچ میں دھوئیں کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور ناچنے والوں کو اتر یا دکھن،
پورب یا پچھم بھیجتا ہے۔
لیکن اگر جادوگر کسی ناچ کا ہدایت کار ہو تو اس کا صرف یہی مطلب ہو سکتا ہے
کہ وہ کوئی جادو والا ناچ ہے۔
انڈین یہ توقع رکھتے تھے۔ کہ وہ اپنی عجیب حرکتوں سے بھینسوں پر جادو کرتے
ہیں، اپنے عجیب جادو کے زور سے ان کو میدانوں سے اپنے قریب لاتے ہیں۔
دیوار پر ناچتی ہوئی شکل یہی ہے! یہاں صرف ناچنے والا نہیں ہے بلکہ وہ ایک
جادو بھی کر رہا ہے۔ اور جو فن کار زیر زمین گہرائیوں میں گیا تاکہ یہ شکل
آگ کی روشنی میں بنائے محض فن کار ہی نہیں بلکہ جادو گر بھی تھا۔
جانوروں کے چہرے پہنے شکاریوں اور زخمی بھینسوں کی شکلیں بنا کر وہ اپنا
جادو کر رہا تھا تاکہ شکار کامیاب رہے۔ اس کو قطعی عقیدہ تھا کہ یہ جادو
والا ناچ شکار میں مدد دے گا۔
یہ بات ہمیں عجیب اور مضحکہ انگیز دونوں معلوم ہوتی ہے۔
جب ہم کوئی گھر بناے ہیں تو بڑھئیوں اور معماروں کی حرکتوں کی نقل کر کے
مکان کی بنیاد کے چاروں طرف ناچتے نہیں ہیں۔ شکار پر جانے سے پہلے ہم بندوق
لے کر بھی نہیں ناچتے۔ لیکن آج ہم جن چیزوں کو احمقانہ سمجھتے ہیںہمارے
ماقبل تاریخ کے اجداد ان کو بہت ہی سنجیدہ باتیں سمجھتے تھے۔
اب ہم نے ایک پراسرار نقش کا راز پالیا ہے اور یہ سمجھنے لگے کہ ناچتے ہوئے
آدمی کی شکل دیوار پر کیوں بنا گئی ہے۔
لیکن وہاں اور بھی عجیب نقوش تھے۔
یاد ہے، ہم نے غار میں ایک ہڈی پر پوری کہانی کندہ پائی تھی۔ یہ ایک بھینسے
کے ڈھانچے کی تصویر تھی جس کے پاس دو قطاروں میں شکاری کھڑے تھے۔ صرف
بھینسے کے سر اور اگلے پیروں کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا تھا۔
یہ نقش کیا ہو سکتا ہے؟
سائبیر یا میں ایسی جگہیں ہیں جہاں اب سے تیس چالیس سال پہلے تک شکاری کوئی
ریچھ مارنے پر ”ریچھ کی دعوت” کرتے تھے۔ ریچھ کے ڈھانچے کو گھر میں لا کر
کسی معزز جگہ پر رکھا جاتا تھا۔ وہ ریچھ کے سر کو اس کو اگلے پنجوں کے بیچ
میں رکھتے تھے۔ روٹی یا بھوج کی چھال کے بنے ہوئے بارہ سنگھوں کی کئی
مورتیاں ریچھ کے سرکے قریب رکھ دی جاتی تھیں۔ گویا یہ ریچھ کا نذرانہ ہوتا
تھا۔ ریچھ کے سر کو بھوج کی چھال کے گچھوں سے سجایا جاتا تھا اور چاندہ کے
سکے اس کی آنکھوں میں رکھے جاتے تھے۔ پھر ہر شکاری باری باری جاکر اس کے
تھوتھن کر چومتا تھا۔
یہ دعوت کی ابتدا ہوتی تھی جوکئی دنوں یا یوں کہنا چاہئے راتوں تک جاری
رہتی تھی۔ ہر رات شکاری اس ڈھانچے کے گرد جمع ہو کر ناچتے گاتے تھے۔ وہ
بھوج کی چھال یا لکڑی کے چہرے پہنتے تھے اور ریچھ کے پاس آکر اس کے سامنے
جھکتے تھے اور پھر ریچھ کی بھدی چال کی نقل کرتے ہوئے ناچتے تھے۔
ناچ گانا ختم ہونے کے بعد وہ بیٹھ کر ریچھ کا گوشت کھاتے تھے لیکن سر اور
اگلے پنجوں کو ہاتھ نہیںلگاتے تھے۔
اب ہڈی کے ٹکڑے پر ڈرائنگ کا مطلب سمجھ میں آگیا۔ اس میں ”رانا بھینسے کی
دعوت” کو پیش کیا گیا ہے۔تصویر میں بھینسے کے چاروں طرف لوگ جمع ہو کر اس
کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان کو گوشت دیا۔ وہ بھینسے سے درخواست کر
رہے ہیں کہ آئندہ بھی اس کی مہربانی اسی طرح رہے۔
اگر ہم امریکی انڈینوں کے پاس پھر واپس جائیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ان کے
ہاں بھی ایسی دعوتیں ہوتی ہیں۔
کوئی چوان قبیلے کے شکاری مارے ہوئے ہرن کے پچھلے پیر پورب کی طرف کر کے اس
کو لٹاتے ہیں اور ایک پیالے میں اس کے سر کے قریب طرح طرح کے کھانے رکھ
دیتے ہیں۔ ہر شکاری باری باری ہرن کے پاس جاتا ہے اور اس کو سر سے دم تک
اپنے دائیں ہاتھ سے سہلاتا ہے اور اس کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ ہرن نے اپنے
کو شکار کرنے کا موقع دیا۔ وہ مردہ جانور سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:
”بڑے بھائی، آرام کرو!”
پھرجادو گر ہرن سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے:
”تم اپنی سینگین ہمارے لئے لائے۔ اس کے لئے تمہارا شکریہ۔”
کیا کیا عجائبات ہیں وہاں…
تمام روسی بچے شہزاد ایوان اور حسین واسی لیسا، آگ چڑیا اورکبڑے گھوڑے اور
ایسے جانوروں کے بارے میں قصے کہانیاں جانتے ہیں جو آدمی بن جاتے تھے اور
آدمی جو جانوروں کا روپ دھار لیتے تھے۔
اگر ہم پریوں کے قصے کہانیوں پر یقین کریں تو ساری دنیا میں مہربان او
رظالم، نظر آنے والی اورنہ نظر آنے والی پراسرار ہستیوں کی آبادی ہونی
چاہئے تھی۔ اس خیالی دنیا میں ہر ایک کو ظالم جادو گروں اور بھیانک جادو
گرنیوں کے جادو ٹونوں سے بچنا پڑتا۔
تم کو اپنی آنکھوں پر کبھی اعتبار نہ آتا کیونکہ کوئی انتہائی مکروہ صورت
مینڈک دیکھتے دیکھتے کسی حسین دوشیزہ میں تبدیل ہو جاتا اور کوئی خوبصورت
جوان ہولناک اژدھا بن جاتا۔ اس دنیا کے اپنے نرالے قاعدے ہیں۔ مردے جی
اٹھتے ہیں، کٹے ہوئے سر بولتے ہیں اور جل پریاں مچھیروں کو پھسلا کر پانی
کی تہہ میں لے جاتی ہیں۔
مشہور روسی شاعر پوشکن نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے:
کیا کیا عجائبات ہیں وہاں بھتنی ایک منڈلاتی ہے وہاں اور جل پری شاخوں میں
نہاں
اور ہم یہ قصہ پڑھتے وقت اس پر یقین کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن
کتاب بندکرتے ہی ہم بات کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ کوئی پریوں کا قصہ چاہے
کتنا ہی دل کش کیوں نہ ہو بہر حال ہم سچ مچ ایسی خیالی دنیا میں رہنا نہیں
پسند کریں گے جہاں دماغ لاچار ہو اور جہاں آدمی کو پیدائش ہی سے خوش قسمت
ہونا چاہئے جو کسی بھیڑ یا مانس یا جادو گرنی سے پہلے ہی ٹکر لے کر ختم نہ
ہو۔
لیکن ہمارے قدیم اجداد کا بالکل یہی خیال تھا کہ دنیا اسی طرح بنی ہے۔ ان
کو خیالی دنیا اور اس حقیقی دنیا میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتاہے جس میں وہ
رہتے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ دنیا کی ساری اچھائیاں اور برائیاں دنیا پر
حکومت کرنے والی اچھی یا بری روحوں کی حرکتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
جب ہم کسی پتھر سے ٹھوکر کھا کر گر جاتے ہیں تو ہم اپنے کو یا اپنی
لاپروائی کے سوا اور کسی کو الزام نہیں دیتے۔
لیکن قدیم زمانے کا آدمی اپنے کو ملزم نہیں ٹھہراتا تھا۔ وہ اس بری روح پر
الزام دھرتا تھا جس نے اس کی راہ میں یہ پتھر ڈالا تھا۔
جب کوئی آدمی چاقو کی ضرب سے مارا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ چاقو سے اس کا
قتل ہوا۔
لیکن قدیم زمانے کا آدمی کہتا کہ آدمی کے مرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ چاقو پر
جادو کیا گیا تھا۔
بہر حال، آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ وہ ”نظر لگنے”سے بیمار ہونے پر یقین رکھتے
ہیں۔ دو شنبہ کے دن کوئی کام شروع کرنے کو بد شگونی سمجھتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو بھی شگون برا ہے۔
ہمارے خیال میں ایسے لوگ بیوقوف ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایسے وہم کرنے کا
کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ نیک او ربد روحوں میں یہ سب عقیدہ جہالت کا نتیجہ
ہوتا ہے او رجہالت ایسا جالا ہے جو اندھیرے کونوں ہی میں نظر آتا ہے۔
بہر نوع، ہم اپنے قدیم اجداد کا، جو جادو گروں اور بدروحوں پر یقین کرتے
تھے، مذاق نہیں اڑائیں گے۔ وہ اس طرح قدرت کے قوانین کی وضاحت کرتے تھے
کیونکہ صحیح جواب کے لئے ان کی معلومات بہت ہی کم تھیں۔
متعدد آسٹریلیائی قبیلے ابھی اسی معیار پر ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات
نہیں کہ ان میں پتھر کے زمانے کے وہم اور فضول خیالات باقی ہیں۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں ایک سیاح نے لکھا تھا ”مقامی ساحلی باشندے کسی
بادبانی کشتی کوجس میں نئی قسم کا ساز وسامان اور مستول لگے ہوتے ہیں یا
کسی دخانی جہاز کو جس میں دوسرے جہازوں سے زیادہ چمنیاں ہوتی ہیں دیکھ کر
جوش میں آجاتے ہیں۔ کوئی برساتی، انوکھی قسم کی ٹوپی، جھولا کرسی یا کوئی
ایسا اوزار جو انہوں نے پہلے نہ دیکھا ہو ان کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔”
کیونکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ جو چیز انہوں نے پہلے نہیں دیکھی اس کا جادو
ٹونے سے تعلق ہے۔
تجربے نے انہیں بتایا ہے کہ ہر چیز کسی نہ کسی طرح دوسری چیز سے تعلق
رکھتی ہے۔ لیکن چونکہ وہ اس کا سبب نہیں جانتے اس لئے ان کا یقین جاری ہے
کہ بعض چیزیں دوسری چیزوں پر جادو کا اثر رکھتی ہیں۔
وہ یقین کرتے ہیں کہ ”نظریہ” سے بچنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ کوئی تعویذ یا
گنڈا وغیرہ پہنا جائے۔یہ گھڑ یال کے دانتوں کا ہار ہو سکتا ہے یا ہاتھی کے
دم پر اگنے والے بالوں کا کوئی کنگن۔ پہننے والے کو تعویذ ہر آفت سے محفوظ
رکھتا ہے۔
اصل باش قبیلوں کے آدمی بھی ماقبل تاریخ کے لوگوں سے زیادہ معلومات نہیں
رکھتے۔ اور یہ لوگ بھی غالباً جادو ٹونے وغیرہ پر یقین کرتے تھے۔ہمیں اس کا
ثبوت ان تعویذوں سے ملتا ہے جو آثار قدیمہ کی کھدائی سے برآمد ہوئے ہیں
اور غاروں کے نقوش سے بھی۔
دنیا کے بارے میں ہمارے اجداد کا خیال
ایسے آدمی کے لئے دنیا میں رہنا مشکل تھا جو اس کے قوانین سے ناواقف تھا۔وہ
کمزور اور لاچار تھا اور اپنے کو بالکل انجانی طاقتوں کے ہاتھ میںپاتا
تھا۔ ا س کو ہر چیز کے طلسمان ہونے اور ہر آدمی کے جادوگر ہونے کا گمان ہو
سکتا تھا۔ وہ یقین کرتا تھا کہ ہر جگہ بدلہ لینے پر آمادہ، بے چین مردوں کی
روحیں زندوں کی گھات میں ہیں۔ شکار میں مارا ہوا ہر جانور واپس آکر شکاری
سے بدلہ لے سکتا ہے۔ مصیبت سے بچنے کے لئے آدمی کو برابر روحوں کے سامنے گڑ
گڑاتے، ان کو خوش کرتے رہنا چاہئے۔ ان کو شانت رکھنے بھینٹ دینا چاہئے۔
جہالت سے ڈر پیدا ہوتا ہے۔
اور چونکہ آدمی کے پاس علم کی کمی تھی اس لئے وہ دنیا کے مالک کا رویہ نہیں
اختیار کر پاتا تھا۔ وہ ایک خوف زدہ، لاچار بھکاری کی طرح تھا۔
بہر حال، ابھی اس کے لئے یہ بات بہت قبل از وقت تھی کہ اپنے کو قدرت کا
مالک سمجھے۔ اب وہ دنیا کے تمام جانوروں میں سب سے زیادہ مضبوط تھا۔ اس نے
میموتھ پر فتح پائی تھی۔ پھر بھی وہ قدرت کی عظیم طاقتوںکے مقابلے میں ایک
کمزور مخلوق تھا جس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان طاقتوں پر کیسے قابو حاصل
کیا جائے۔
ایک ناکامیاب شکار کا مطلب تھا ہفتوں بھوکوں رہنا۔ ایک برفانی طوفان سارے
پڑائو کو برف سے بھر دیتا تھا۔
پھر آدمی کو کس بات نے یہ طاقت عطا کی کہ وہ لڑتا رہے اور رفتہ رفتہ، قدم
بقدم، قدرت کی طاقتوں پر قابو پانے کے لئے آگے بڑھے؟
اس کی طاقت یہ تھی کہ وہ تنہا نہیںتھا۔ پوری برادری، پورا قبیلہ مل کر قدرت
کی مخالف طاقتوں سے لڑتا تھا۔ وہ مل کر کام کرتا تھے اور اپنی مشترکہ محنت
کے ذریعے علم اور تجربے حاصل کرتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ وہ اس حقیقت کو نہیں
سمجھتے تھے یا اپنے طریقے سے سمجھتے تھے۔
وہ انسانی معاشرے کے معنی ہی نہیں سمجھتے تھے لیکن یہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک
دوسرے سے بندھے ہیں، کہ ایک جرگے کے لوگ دراصل واحد، زبردست ،کثیر بازو
والے آدمی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اور ان کو کس چیز نے آپس میں باندھ رکھا تھا؟ وہ خون کے رشتوں سے بندھے
تھے۔لوگ بڑے بڑے خاندانوں میں رہتے تھے۔ بچے اپنی مائوں کے ساتھ رہتے تھے
اور جب وہ بڑے ہو جاتے تو ان کے اپنے بچے ہوتے تھے۔ پھر بھی وہ اپنے بھائی،
بہنوں، چچا، مائوں اور دادیوں کے ساتھ رہتے تھے۔
اس طرح خاندان بڑھتا رہتا تھا۔
ماقبل تاریخ کا معاشرہ جس میں شکاری رہتا تھا اس کااپنا خاندان ہوتا تھا،
وہ جرگہ جو مشترکہ جد کی اولاد ہوتا تھا،لوگ یقین کرتے تھے کہ جو کچھ بھی
ان کے پاس ہے اس کے لئے وہ اپنے اجداد کے ممنوں احسان ہیں۔ ان کے اجداد نے
انہیں شکار کرنا اور اوزار بنانا سکھایا ہے، انہوں نے رہائش گاہیں دی ہیں
اور آگ کا استعمال بتایا ہے۔
کام کرنا اور شکار کھیلنا اجداد کی مرضی پوی کرنا تھا۔ وہ آدمی جو اپنے
اجداد کی مرضی کا فرماں بردار ہوتا تھا مصیبت اور خطرے سے محفوظ رہتا تھا۔
لوگ کے اجداد ان کی روز مرہ کی زندگی کا نظر نہ آنے والا جزو تھے، ان کی
روحیں ہر شکار میں ان کی ہدایت کار ہوتی تھیں اورہمیشہ گھر میں موجود رہتی
تھیں۔ یہ روحیں سب دیکھتی تھیں اور سب جانتی تھیں۔ وہ آدمی کو برائیوں کی
سزا اور نیکیوں کا انعام دے سکتی تھیں۔
اس لئے مشترکہ بھلائی کے لئے مشترکہ کام قدیم آدمی کے لئے مشترکہ جد کی
فرماں برداری اورا س کی مرضی کی تکمیل کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔
پھر بھی، قدیم آدمی خود اپنی محنت کو اس طرح نہیں سمجھتا تھا جس طرح ہم آج
سمجھتے ہیں۔
ہم خیال کرتے ہیں کہ قدیم زمانے کا شکاری ارنا بھینسے مار کر خود کھاتا تھا
او ر اپنے خاندان کو کھلاتا تھا۔ لیکن شکاری یہ یقین کرتا تھا کہ بھینسا
اس کو کھلاتا ہے۔ اب بھی قدیم زمانے کی باقیات کی وجہ سے ہم گائے کو رازق
اور زمین کو دھرتی ماتا کہتے ہیں۔ ہم گائے سے اجازت لے کر اس کو نہیںدو ہتے
پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ گائے ہم کو دودھ ”دیتی” ہے۔
زمانہ تاریخ سے قبل کے شکاری کا ”رازق” جانور تھا۔ خواہ وہ ارنا بھینسا ہو
یا میموتھ یا بار مسنگھا۔ شکاری یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اس نے جانور کو مارا
ہے بلکہ وہ یقین کرتا تھا کہ جانور نے اپنی مرضی سے اس کو اپنا گوشت اور
چمڑا دیا ہے۔ انڈینوں کا عقیدہ ہے کہ جانور کو اس کی مرضی کے بغیر نہیں
مارا جا سکتا ۔ اگر کوئی ارنا بھینسا مارا جاتا ہے تو محض اس وجہ سے کہ وہ
آدمیوں کے لئے اپنے کو بھینٹ دینا چاہتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کو مارا
جائے۔
ارنا بھینسا قبیلے کا رازق اور محافظ ہوتا تھا۔ ساتھ ہی ان کا مشترکہ جد
بھی قبیلے کا محافظ ہوتا تھا۔
اس طرح قدیم زمانے کے آدمی کے دماغ میں (جس کو اس دنیا کے متعلق بہت کم
معلومات تھیں جس میں وہ رہتا تھا) ”جد محافظ” اور ”جانور محافظ” جو قبیلے
کا رازق تھا ایک دوسرے میںضم ہو کر رہ گئے تھے۔
”ہم ارنا بھینسے کے بچے ہیں” شکاری کہتے تھے اور وہ سچ مچ یقین بھی کرتے
تھے کہ ارنا بھینسا ان کا جد تھا۔ جب قدیم زمانے کا فن کار کسی ارنا بھینسے
کا نقش بناتا تھا اور اس کے جسم پر تین خیمے کھینچتا تھا تو اس کا مطلب
ہوتا ہے ” ارنا بھینسے کے بچوں کا پڑائو”۔
اپنی روز مرہ کی محنت میں آدمی جانوروں سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن وہ ایسے
تعلق کو نہیں سمجھتا تھا جو خون کا تعلق نہ ہو۔ ہر تعلق کا مطلب یہ ہوتا
تھاکہ کچھ نہ کچھ مشترکہ ضرور ہے۔ جب وہ کوئی جانور مارتا تھا تو ا سے
معافی مانگتا تھا اور اس کو بڑا بھائی کہہ کر خطاب کرتا تھا۔ وہ اپنے ناچوں
اور جادو ٹونے والے رسوم میں جانور بھائی کی نقل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
وہ اس کی کھال پہنتا تھا اور اس کی حرکتوں کی نقل کرتا تھا۔
آدمی نے ابھی اپنے کو ”میں”کہنا نہیںسیکھاتھا۔ وہ اب بھی اپنے کو جرگے کا
ایک جز اور آلہ سمجھتا تھا۔ ہر جرگے کا اپنا نام، اپنا ٹوٹم (نشان) ہوتا
تھا۔ یہ ان کے مشترکہ جد اور محافظ کسی جانور کا نام ہوتا تھا۔ کوئی جرگہ
”ارنا بھینسا” کہلاتا تھاتو کوئی ”ریچھ” اور کوئی ”ہرن”۔ جرگے کے آدمی ایک
دوسرے کے لئے جان دینے پر تلے رہتے تھے۔وہ جرگے کے رسوم کو اپنے ٹوٹم کی
مرضی سمجھتے تھے اور ٹوٹم کی مرضی ہی قانون ہوتی تھی۔
اپنے اجداد سے باتیں
آئو پھر ماقبل تاریخ کے آدمی کے غار میں چلیں اور الائو کے پاس اس کے ساتھ
بیٹھیں۔ ہم اس کے عقیدوں اور رسم و رواج کے بارے میں اس سے بات چیت کریں
گے۔
وہ ہمیں بتائے گا کہ آیا ہماری قیاس آرائیاں صحیح ہیں، آیا ہم نے غار کے
نقوش اور ہڈی کے نقشیں تعویذوں کو صحیح سمجھاہے جن کو ایسا معلوم ہوتا ہے
کہ اس نے ہمارے لئے خاص طو ر پر چھوڑا ہے۔
لیکن غار کا مالک ہم سے کیسے باتیں کرے گا؟
ہزاروں سال ہوئے ہوا چولھے سے راکھ تک اڑالے گئی ہے۔ ان لوگوں کی ہڈیاں جو
کسی زمانے میں آگ کے پاس بیٹھ کر پتھر اور ہڈی کے اوزار بناتے تھے
اورجانوروں کی کھال کے کپڑے سیتے تھے مدتوں ہوئے خاک ہو چکی ہیں۔ اب تو شاذ
و نادر ہ ماہرین آثار قدیمہ کو زرد اور پتھرائی ہوئی انسانی کھوپڑی زمین
میں ملتی ہے۔
کیا کھوپڑی بات کر سکتی ہے؟
ہم نے غار کی کھدائی کی تاکہ ہم اوزاروں کے ٹکڑے تلاش کر سکیں اوریہ معلوم
کر سکیں کہ اس اوزاروں سے قدیم آدمی کس طرح کام کرتا تھا۔
لیکن ہم قدیم آدمی کی باتوں کے ٹکڑے کہاں سے لائیں؟
ہمیں اس کی تلاش اپنی جدید زبان میں کرنا چاہئے۔
اس طرح کی کھدائی کے لئے کسی پھائوڑے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم اس طرح کی
کھدائی ڈکشنری میں کریں گے زمین میں نہیں۔ ہر زبان، ہر بولی میں ماضی کے
بیش بہا جواہر پائے جاتے ہیں۔ اور یہی ہونا بھی چاہئے۔ بہر حال ہماری زبان
میں ہزاروں سال کا تجربہ شامل ہے۔
تم کہہ سکتے ہو کہ زبان کے مطالعے اور اس کے بارے میں دریافت سے آسان بات
اور کیا ہو سکتی ہے! بس یہی تو کرنا ہے کہ ڈکشنری لے کر بیٹھ گئے اور اس کی
ورق گردانی کر ڈالی! لیکن یہ ایسی معمولی بات نہیں ہے۔
تحقیقات کرنے والے قدیم الفاظ کی تلاش میں ساری دنیا کا سفر کرتے ہیں،
ڈھلواں پہاڑوں پر چڑھتے ہیں اور سمندر پار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے لوگ
بھی مل جاتے ہیں جنہوں نے کسی اونچے پہاڑ کے پیچھے اپنی چھوٹی سی برادری
بنا رکھی ہے اور ان قدیم الفاظ کو محفوظ رکھا ہے جو مدتوں ہوئے دوسری
زبانوں سے غائب ہو چکے ہیں۔
ہر زبان بنی نوع انسان کے طویل راستے پر ایک پڑائو کی حیثیت رکھتی ہے۔
آسٹریلیا، افریقہ اور امریکہ کے شکار ی قبیلوں کے پڑائو ہم مدتوں ہوئے
پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ پھر تحقیقات کرنے والے سمندروں کو پار کرکے پولی
پہنچتے ہیں تاکہ وہ پرانی اصطلاحات اور جملے تلاش کریں جو ہم بھول چکے ہیں۔
الفاظ کی تلاش میں تحقیقات کرنے والے سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ جنوب کے
ریگستانوں اور شمال کے ٹنڈرا کو چھانتے ہیں۔
سوویت یونین میں شمال بعید کے لوگ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو اس زمانے
کے ہیں جب نجی ملکیت نہیںہوتی تھی، جب لوگ ”میرے” کے معنی نہیں جانتے تھے
مثلاً ”میرا گھر”، ”میرا ہتھیار” وغیرہ۔
اگر ہمیں قدیم بول چال کی باقیات تلاش کرنا ہیں تو ہمیں اسی طرح زبانوں کو
”کھودنا” چاہئے جس طرح ماہرین آثار قدیمہ قدیم زمانے کے پڑائوں میں کھنڈرات
اور اوزار کھودتے ہیں۔
ہر آدمی تو ڈکشنری کی کھدائی کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے خاص تربیت
اورعلم کی ضرورت ہے کیونکہ زبان میں پرانے الفاظ میوزیم کی طرح محفوظ نہیں
رہتے۔ صدیوں کے دوران میں الفاظ کئی بار اپنا روپ بدلتے ہیں۔ وہ سفر کر کے
ایک زبان سے دوسری زبان میں پہنچتے ہیں، ان کے شروع اور آخر کے حصے بدلتے
رہتے ہیں۔ کبھی کبھی صرف پرانے الفاظ کی جڑیں ہی، کسی پرانے جلے ہوئے درخت
کی جڑوں کی طرح باقی رہ جاتی ہیں۔ اور صرف جڑ ہی کے زریعے اس بات کا پتہ
چلتا ہے کہ لفظ اصل میں کہاں سے آیا ہے۔
ہزاروں لاکھوں سال کے دوران میں نہ صرف الفاظ کی صورت بدلتی ہے بلکہ ان کے
معنی میں بھی تبدیلی ہوتی ہے۔ کبھی لفظ کو ایسے معنی مل جاتے ہیں جو پہلے
والے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
یہ اب بھی ہوتا ہے۔ جب کوئی نئی چیز دریافت ہوتی ہے یا بنائی جاتی ہے تو ہم
ہمیشہ اس کے لئے نئے الفاظ نہیں ایجاد کرتے۔ ہم اکثر ڈھونڈھ کر کوئی پرانا
لفظ اس نئی چیز پر اس طرح چپکا دیتے ہیں جیسے وہ کوئی لیبل ہو۔
مثلاً گھڑی کے لفظ کو لے لیجئے۔ آج کل کی گھڑیاں گھنٹوں، منٹوں اور سکنڈوں
میں وقت بتاتی ہیں اور شاید اب بہت کم لوگ وقت کی تقسیم میں گھڑیوں کے بار ے
میں جانتے ہوں۔ اسی طرح پھل کا لفظ چاقوکے تیز حصے اور دوسری چیزوں کے
دھار دار حصے کے لئے بھی آتا ہے۔ حالانکہ اصل پھل سے اس کا دور کا بھی
واسطہ نہیں ہے۔ مچھردانی کو لیجئے۔ اس میں دراصل مچھر رہتے نہیں یا پکڑے
نہیں جاتے جیسے چوھے، چوھے دان میں بلکہ مچھر دانی کے ذریعے مچھر اس کے
اندر لیٹے ہوئے آدمی سے دور رکھے جاتے ہیں۔ اس طرح کسی نئے رشتے یا رابطے
کی وجہ سے گھڑی پھل اور مچھر دانی کو نئے معنی دئے گئے ہیں۔
یہ سب بہت حال کی تبدیلیاں ہیںجو ہماری زبان کی اوپری تہوں میں ہوئی ہیں۔
اسی لئے ان الفاظ کے پہلے معنی معلوم کرنا اتنا آسان ہے۔
لیکن ہم جتنا ہی گہرائیوں میں اترتے ہیں کام اتنا ہی مشکل ہوتا جاتا ہے۔
الفاظ کے قدیم اور ایسے معنی تلاش کرنے کے لئے جو معدوم ہو چکے ہیں آدمی کو
بڑا عالم ہونا چاہئے۔
قدیم بولی کی باقیات
زبانوں کی تحقیقات کرتے وقت محققوں نے آواز والی قدیم زبان کی باقیات پائی
ہیں۔ ان باقیات کے بارے میں اکادمیشن میشچانینوف نے اپنی ایک کتاب میں
بتایا ہے۔
انہوں ے لکھا ہے کہ یوکا گیروں کی زبان میں ایک لفظ ہے جس کے لفظی معنی
ہوئے ”آدمی ہرن مار”۔ یہ ایک بڑا اور بھدا لفظ ہے او راس کے معنی سمجھنا او
رزیادہ مشکل ہے۔
کون کسی کو مارتا تھا؟ آدمی ہرن کو مارتا تھاکہ ہرن آدمی کو یا دونوں مل کر
کسی اور کو مارتے تھے یاکوئی اور ان دونوں کو مارتا تھا؟
ایسا عجیب لفظ کیسے بنا؟
یہ اس زمانے کی بات ہے جب آدمی اپنے متعلق ”میں” کا لفظ نہیں استعمال کرتا
تھا، جب وہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہی خود کام کرتا ہے، شکار کھیلتا ہے، گھات
لگا کر ہرن کو مارتا ہے۔ وہ یقین کرتا تھا کہ اس نے نہیں بلکہ سارے جرگے نے
مل کر اور جرگے نے بھی نہیں بلکہ پراسرار، انجانی طاقتوں نے جو ہر چیز پر
حکمراں ہیں ہرن کو مارا ہے۔ اس دور دراز زمانے میں دنیا میں انسان بہت
کمزور اور لاچار تھا کیونکہ قدرت اس کا حکم نہیں مانتی تھی۔
ایک دن ”آدمی ہرن مار” کسی انجام طاقت کی مرضی کی وجہ سے کامیاب رہا۔ دوسرے
دن شکار ناکامیاب ہوا اور لوگ پڑائو پر خالی ہاتھ واپس آئے۔ ”آدمی ہرن
مار” کے لفظ سے اس بات کا اظہار نہیں ہوتا کہ عمل کرنے والا کون ہے۔اور
قدیم زمانے کا آدمی سمجھ بھی کیسے سکتا تھا۔کہ عمل کرنے والا کون تھا۔ وہ
یا ہرن؟ کیونکہ وہ یقین کرتا تھا کہ ہرن تو اس کو اپنے انجانے محافظ کی طرف
سے ملا ہے۔ جو ہرن کا اور خود اس کا مشترکہ جد ہے۔
اگر اپنی کھدائی میں ہم انسانی بول چال کی پہلی تہہ سے بعد کی تہوں تک آتے
ہیں تو ہمیں اکثر اس بول چال کی باقیات ملتی رہیں گی جو ہمیں اس زمانے میں
پیچھے لے جاتی ہے جس میں آدمی اپنے کو پراسرار طاقتوں کا آلہ کار سمجھتا
تھا۔
چوک چیوں کی زبان میں ایک جملہ ہے ”آدمی کے ذریعے گوشت کتے کو دیتا ہے”۔
ظاہر ہے کہ یہ جملہ بہت گڈمڈ ہے۔ ہم نے یہ جملہ بول چال کی ایک پرت سے
کھودا جو زمانے ہوئے دفن پڑی تھی۔ اس وقت لوگ اس طرح نہیں سوچتے تھے جیسے
آج سوچتے ہیں۔
یہ کہنے کی بجائے کہ ”آدمی اپنے کتے کو گوشت دیتا ہے” قدیم لوگ کہتے تھے
”آدمی کے ذریعے گوشت کو دیتا ہے”۔
تو آدمی کے ذریعے گوشت کون دیتا ہے؟
وہ پراسرار طاقت جو آدمی کو آلہ کار کی طرح استعمال کرتی ہے۔
ڈکوٹا انڈین یہ کہنے کی بجائے کہ ”میں بنتا ہوں” کہتے ہیں ”بنائی میری کی
ہوئی” جیسے وہ خود کروشیا کی سلائی ہو اس کا استعمال کرنے والا نہیں۔
پرانی بول چال کی باقیات کے نمونے اب بھی یورپی زبانوں میں پائے جا سکتے
ہیں۔
جیسے فرانسیسی میں کہا جاتا ہے۔ il fait froid یعنی ”سردی ہے” ۔ لیکن اگر
اس کا لفظ بلفظ ترجمعہکیا جائے تو یہ ہوگا ”وہ سردی کرتا ہے”۔
پھر ہمیں وہی پراسرار، دنیا پر حکومت کرنے والا ”وہ” ملتا ہے۔
لیکن ہمیں غیر ملکی زبانوں سے مثالیں ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قدیم بول
چال کی کافی سے زیادہ مثالیں یعنی قدیم خیالات کے نمونے روسی زبان میں بھی
ملتے ہیں۔
مثلاً ہم کہتے ہیں ”اس کو دوھرا کر دیا گیا” یا ”اس کو کپکپا دیا”۔ اچھا،
تو کون سی طاقت ہے جو آدمی کو دھرا کرتی یا کپکپاتی ہے؟
اس طرح اور بھی متعدد جملے ہیں جن میں ”وہ ” کی انجانی، پراسرار طاقت موجود
نظرآتی ہے۔
ہم تم کسی پراسرار طاقت میں یقین نہیں رکھتے لیکن ہماری بات چیت میں اب بھی
ہمارے اجداد کی زبانوں کی باقیات موجود ہیں جو ان تمام طاقتوں میں بڑا
عقیدہ رکھتے تھے۔
اس طرح زبانوں کی پرتیں کھودتے ہوئے ہمیں صرف الفاظ نہیں بلکہ قدیم زمانے
کے لوگوں کے خیالات بھی ملتے ہیں۔ قدیم زمانے کا آدمی ایک عجیب اور پراسرار
دنیا میں رہتا تھا جہاں وہ کام اور شکار نہیں کرتا تھا بلکہ کوئی اسے کام
کے لئے استعمال کرتا تھا، اسے ہرن مارنے کے لئے استعمال کرتا تھا، جہاں ہر
ہونے والی بات کسی انجانی ہستی کی مرضی کے مطابق ہوتی تھی۔
لیکن وقت گزرتا گیا۔ آدمی جتنا زیادہ مضبوط ہوتا گیا، جتنا اپنے چاروں طرف
کی دنیا کو سمجھتا گیا اور دنیا میں اپنی جگہ کو پہچانتا گیا، اس کی زبان
میں”میں” کا لفظ اتنا ہی زیادہ آتا گیا اور اس کے ساتھ ہی وہ شخص کبھی
نمودار ہوا جو کام کرتا تھا، جدوجہد کرتا تھا اور چیزوں اور قدرت کو اپنی
مرضی کے مطابق چلاتا تھا۔
اب ہم ”آدمی ہرن مار” نہیں کہتے ہیں۔ اب ہم کہتے ہیں ”آدمی نے ہرن کو
مارا”۔ پھر بھی ہر زبان میں جب تب پچھلے زمانے کا سایہ نظر آجاتا ہے۔ کیا
ہم نہیںکہتے ”قسمت کا لکھا”، ”یہ بدشگون ہے” وغیرہ؟
کون لکھتا ہے؟ کون اس کو بدشگون بناتا ہے؟
قسمت!
لیکن قسمت بھی وہی انجانی چیز ہے جس سے قدیم زمانے کا آدمی ڈرتا ہے۔
”قسمت” کا لفظ اب بھی ہماری زبانوں میں موجود ہے۔ لیکن یقین کے ساتھ کہا جا
سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں غائب ہو جائے گا۔
اب کسان اعتماد کے ساتھ کھیت جوتتا ہے اور جانتا ہے کہ بری یا اچھی فصل کا
دار و مدار خود اس پر ہے۔
اس کی مدد کرنے والی فارم کی بہت سی مشینیں اورکھادیں ہیں جو بنجر زمین کو
زرخیز بناتی ہیں اور سائنس جو پودوں کو پروان چڑھانے میں اس کی مدد کرتی
ہے۔
جہازراں اب اعتماد کے ساتھ اپنے بحری سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ خاص آلات ان
کو بتاتے ہیں کہ کہاں پانی اتھلا ہے اور سمندر میں طوفان آنے کی اطلاع پہلے
سے حاصل کر لیتے ہیں۔
اس طرح کے جملے اب کم سننے میں آتے ہیں ”یہ اس کی قسمت ہے”، ”یہ تو پہلے سے
لکھ گیا تھا”۔
جہالت سے خوف پیدا ہوتا ہے اور علم سے اعتماد۔علم آدمی کو اب قدرت کا غلام
نہیں رکھتا بلکہ اس کو قدرت کا مالک بناتا ہے۔
گلیشیروں کا پیچھے ہٹنا
ہر سال جب برف پگھلنے لگتی ہے تو اچانک ہر جگہ، جنگلوں اور کھیتوں میں،
گائوں کی سڑکوں کے برابر اور گڈھوں میں اچھلتے کودتے طوفانی چشمے، چھوٹی
چھوٹی ندیاں، نالے اور آبشار پیدا ہو جاتے ہیں۔
وہ جمی ہوئی اور گندی برف کے نیچے سے ان بچوں کی طرح پھدک کر نکلتے ہیں جو
کسی طرح گھر کے اندر نہیں رہ سکتے۔ یہ دھارے پتھروں پر اور سڑکوں کے پار
جھپٹتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور ان کی بہنے کی گونج فضا میں ہوتی ہے۔
برف روشن ڈھلانوں اور کھلے میدانوں سے پیچھے ہٹ کر گھائیوں، گڈھوں اور
دیواروں کے پیچھے سایہ دار کونوں میں چلی جاتی ہے جہاں وہ کبھی کبھی مئی کی
گرم کرنوں کے آنے تک چھپی رہتی ہے۔
قدرت میں بہت جلد جلد تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ سورج چند دنوں میں ننگی
پہاڑیوں کو سر سبز گھاس کا لباس پہنا دیتا ہے او ردرخت کی خالی ٹہنیوں پر
کو نپلیں آجاتی ہیں۔
یہ ہر بہار میں ہوتا ہے جیسے ہی جاڑے میں جمی ہوئی برف کی موٹی پرت پگھلتی
ہے۔
لیکن ماقبل تاریخ کیا ہوا جب برف کا زبردست غلاف جو دنیا پر ایک سفید ٹوپی
کی طرح تھا پگھلنا شروع ہوا؟
تب چشموں اور چھوٹی چھوٹی ندی نالوں کی بجائے بڑے اور گہرے دریا برف کے
نیچے سے پھوٹ نکلے۔ ان میں سے اب بھی بہت سے سمندر کی طرف بہتے ہیں اور
راستے میں ہر چھوٹے چشمے اور دریا سے پانی جمع کر لیتے ہیں۔
یہ قدرت کی زبردست انگڑائی تھی، وہ زبردست بہار جس نے شمال کے میدانوں کو
بڑے بڑے جنگلوں سے ڈھک دیا۔
لیکن بہار اچانک تو ہوتی نہیں۔ کبھی کبھی مئی میں گرم اور دھوپ والے دن کے
بعد ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی ہے اور جب دوسرے دن صبح تم جاگتے ہو تو چھتوں پر
برف نظر آتی ہے۔ ہر چیز اس طرح سفید لباس پہن لیتی ہے جیسے بہار کبھی آئی
ہی نہ ہو۔ زمانہ تاریخ سے قبل کی زبردست بہار بھی ایک دم جاڑے پر قابو نہیں
پا سکتی۔ گلیشیر رفتہ رفتہ پیچھے ہٹے، جیسے وہ زبردستی ڈھکیلے جا رہے ہوں
اور جہاں ان سے ہو سکا وہ صدیوں تک ڈٹے رہے۔
کبھی کبھی گلیشیر تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر ایسے رک جاتے تھے جیسے اپنی طاقت
جمع کر رہے ہوںاور پھر آگے بڑھتے تھے۔ ٹنڈرا بھی ان کے ساتھ جنوب کی طرف جا
رہے تھے اور ان کے ساتھ ان کے سدا کے ساتھی رینڈیر بھی۔
میدانوں پر گھاس کو دبائے ہوئے کائی پھیلی تھی۔ ارنا بھینسے اور گھوڑے اور
آگے جنوب میں گھاس کے میدانوں تک چلے گئے۔
گرمی اور سردی کی لڑائی بہت دنوں تک جاری رہی لیکن آخر میں گرمی کی جیت
ہوئی۔
پگھلتے ہوئے گلیشیروں سے بڑے بڑے دریا زوروں کے ساتھ بہہ نکلے۔ برف کا جو
غلاف دنیا کو ڈھکے تھا سکڑنے اورچھوٹا ہونے لگا۔ برف کی سرحد اور شمال کی
طرف ہٹ گئی اور اس کے ساتھ ٹنڈرا بھی۔ ان علاقوں میں جہاں پہلے صرف کائی
اور چھدرے، ٹیڑھے میڑھے چھوٹے صنوبر کے درخت تھے وہاں اب بڑے بڑے تناور
صنوبر کے درختوں کے زبردست جنگل ہو گئے۔
اور گرمی برابر بڑھتی گئی۔
اب گہرے سبز صنوبروں کے جھنڈوں کے درمیان آسپ اور بھوج کی ہلکی سبز کلغیاں
نظر آنے لگیں۔ اور ان کے پیچھے چوڑی پتیوں والے بلوط اور لارش بھی شمال کی
طرف چلے۔
”صنوبر کا زمانہ” اب ”بلوط کا زمانہ” بن گیا۔ ایک جنگلی گھر نے دوسرے کی
جگہ لے لی۔
جب پتیوں والے جنگل شمال کی طرف بڑھے تو جھاڑیاں، کھمبیاں اور گوندنیاں بھی
ان کے ساتھ بڑھیں اور وہ جانور بھی جو جنگلوں سے غذا حاصل کرتے تھے۔ ان
میں جنگلی سور، گوزن، ارنابھینسا، لال ہرن تھے جن کی سینگیں بڑی شاندا
رہوتی ہیں۔ ان میں بھورا ریچھ بھی تھا جس کو میٹھی چیزیں پسند ہیں۔ وہ
جھاڑیوں کو توڑ کر شہد تلاش کرتا تھا۔ بھیڑیے بہت دبی چال سے گری ہوئی
پتیوں پر دوڑ کر خرگوشوں کا پیچھا کرتے تھے۔ گول چہرے اور چھوٹے پنجوں والے
اور دبلائو جنگلی چشموں کے آرپار اپنے بند بناتے تھے۔کثیر تعداد چڑیوں کے
گیتوں، جھیلوں پر آتے ہوئے راج ہنسوں اور بطخوں کے شور سے سارا جنگل گونجنے
لگا۔
برف کے قیدی
جب قدرت میں اتنی زبردست تبدیلیاں ہو رہی تھیں اس وقت آدمی صرف کنارے کھڑا
رہ کر تماشائی تو نہیں ہو سکتا تھا۔ تھیٹر کے مناظر کی طرح ہر چیز اس کے
چاروں طرف بدل رہی تھی۔ لیکن ڈرامے اور اس میں فرق یہ تھا کہ اس کے ہر ایکٹ
میں ہزاروں سال لگ جاتے تھے اور اسٹیج ہزاروں لاکھوں مربع کلومیٹر لمبا
چوڑا تھا۔
اور اس ساری دنیا میں پھیلے ہوئے درامے میں آدمی تماشائی نہیں بلکہ ایکٹروں
میں سے ایک تھا۔
ہر بار جب منظر بدلتا تو آدمی کو بھی وجود قائم رکھنے کے لئے زندگی بدلنی
پڑتی۔
جب ٹنڈرا جنوب کی طرف بڑھنے لگا تو اپنے ساتھ رینڈیر لایا جیسے یہ جانور اس
کے بندی ہوں اور زنجیر سے اس کے ساتھ بندھے ہوں۔ اس نظر نہ آنے والی زنجیر
کے ایک سرے پر ینڈیر تھے اور ٹنڈرا کی کائی دوسرے سرے پر۔
استیپ میں آدمی ارنا بھینسے اور گھوڑوں کا شکار کرتا تھا اور ٹنڈرا میں
رینڈیروں کا۔
رینڈکے سوا وہ ٹنڈرا میں اورکس چیز کا شکار کر سکتا تھا؟
میموتھ سب کے سب مر چکے تھے۔ ماقبل تاریخ کے آدمی نے ہزاروں میموتھ مار کر
ان کی ہڈیوں کے پہاڑ اپنی رہائش گاہوں کے قریب لگا دئے تھے۔ اس نے گھوڑوں
کے بہت سے غول کے غول مار ڈالے تھے اورجو باقی رہ گئے تھے وہ اس وقت جنوب
چلے گئے جب ہر ی بھری گھاس کی جگہ سوکھی کائی نے لے لی۔
اس طرح رینڈیر ہی ٹنڈرا میں آدمی کا واحد رازق رہ گیا۔ وہ رینڈیر کا گوشت
کھاتا تھا، اس کی کھال پہنتا تھا اور اس کی سینگوں سے اپنے برچھے اور مچھلی
کے شکار کے کانٹے بناتا تھا۔ اس لئے اس کو اپنی زندگی کو مکمل طور پر
رینڈیر کے مطابق بنانا پڑا۔
جہاں بھی رینڈیر کے گلے جاتے آدمی ان کے پیچھے جاتا۔ جب قبیلے پڑائو ڈالتے
تو عورتیں جلدی سے خیموں کو کھالوں سے ڈھک دیتیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کو
زیادہ دن تک ایک جگہ نہیں رہنا ہے۔جب مچھروں کے دل بادل گلوں کو نئی
چراگاہیں ڈھونڈھنے پر مجبور کرتے تھے تو لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ
نہ ہوتا تھا کہ وہ پڑائو اکھاڑ کر ان کے پیچھے جائیں۔
اکھاڑتیں اوران کو اپنی پیٹھ پر ڈال لیتیں۔ وہ ٹنڈرا میں ھانپتی کانپتی،
تھکی ہاری چلتی رہتیں اور مرد ان کے آگے آگے تیزی سے چلتے۔ان کے پاس سوائے
برچھوں اور مچھلی پکڑنے کے آنکڑوں کے اورکچھ نہ ہوتا۔ گھر کی فکر کرنا مرد
کا کام نہیں تھا۔
پھر ٹنڈرا شمال کی طرف ہٹنا شروع ہوا اور اس کے ساتھ رینڈیر بھی چلے۔ ٹنڈرا
کی جگہ بڑے برے، ناگذار جنگل اگ آئے۔ پھر ماقبل تاریخ کے آدمی کا کیا حشر
ہوا؟
بعض شکاری قبیلے شمال میں رینڈیرکے گلوں کا تعاقب کرتے ہوئے قطب شمال کی
طرف چلے گئے۔ ان کے لئے یہ بہت آسان تھا کیونکہ وہ شمالی آب وہوا کے کافی
عادی ہو گئے تھے۔ برفانی دور کا انتہائی شدید جاڑا لاکھوں سال تک رہا۔ ان
لاکھوں برسوں میں قدیم زمانے کے آدمی نے جاڑے کا مقابلہ کرنا، جانوروں کے
گرم سمور سے اپنے کپڑے بنانا سیکھ لیا۔جتنا ہی زیادہ سخت جاڑا ہوتا کھودی
ہوئی رہائش گاہ کے اندر چولہا اتنا ہی زیادہ روشن ہوتا۔
اب ٹھہرنے سے قطب شمال کو منتقل ہو جانا زیادہ آسان تھا۔بہر حال آسان راستہ
ہمیشہ سب سے بہتر راستہ نہیں ہوتا اور ان لوگوں نے جو ٹنڈرا کے ساتھ شمال
کو چلے گئے تھے بہت کچھ کھو دیا کیونکہ برفانی دور ہزاروں سال تک چلتا رہا۔
گرین لینڈ کے اسکیمو لوگ اب بھی برف کے درمیان رہتے ہیں اور قدرت کے خلاف
جو وہاں بہت سخت اور بالکل عریاں ہے متواتر جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔
جو قبیلے ٹھہر گئے تھے ان کی حالت بالکل مختلف ہوئی۔ پہلے تو ابھرتے ہوئے
جنگلوں کے درمیان ان کی زندگی زیادہ کٹھن ہو گئی۔ لیکن انہوں نے اپنے کو
برفانی قید خانے ہی سے رہا کر لیا جس میں ان کے اجداد ہزاروں سال تک قیدی
رہ چکے تھے۔
جنگل سے آدمی کی لڑائی
جہاں پہلے ٹنڈرا تھے وہاں جو جنگل ابھرے وہ بالکل ہمارے موجودہ جنگلوں کی
طرح نہیں تھے۔ یہ بڑے بڑے درختوں اور جھاڑیوں کی ایک گھنی اور ناگزار دیوار
تھی جو ہزارکلو میٹر تک پھیلتی چلی گئی تھی۔ وہ دریائوں اورجھیلوں کے
کناروں تک اور بعض جگہوں پر سمندروں کے ساحلوں تک بڑھتی چلی گئی تھی۔
اس انوکھی اورنئی دنیا میں ماقبل تاریخ کے آدمی کی زندگی آسان نہ تھی۔ جنگل
اس کو اپنے جھبرے پنجوں میں لے کر گھونٹتا تھا، اس کے لئے سانس لینے کی
جگہ نہیں چھوڑتا تھا۔ اس کو جنگل کے خلاف متواتر لڑائی پڑتی تھی۔ وہ درختوں
کو کاٹتا اور زمین کے چھوٹے چھوٹے قطعے صاف کرتا تھا۔
ٹنڈرا ہو یا میدان، قدیم زمانے کے آدمی کو پڑائو کے لئے جگہ پانا دشوار نہ
تھا۔ ہر جگہ کافی گنجائش تھی۔ جنگل کی ہر جگہ درختوں اور گھنی جھاڑیوں سے
بھری ہوتی تھی اور آدمی کو جنگل پر اس طرح حملہ کرنا پڑتا تھا جیسے دشمن کے
قلعے پر کیا جاتا ہے۔
لیکن ہتھیاروں کے بغیر جنگ کیسے ممکن ہے۔ درختوں کو کاٹنے کے لئے کلہاڑی کی
ضرورت تھی ۔ اس طرح آدمی نے ایک بھاری تکونا پتھر لمبے دستے میں لگایا۔
اور پھر جہاں صرف ہدہد درختوں پر حملے کرتے تھے وہاں سے کلہاڑیوں کی آواز
گونجنے لگی۔ یہ تھی ان پہلی کلہاڑیوں کی آواز جو پہلے درخت کاٹ رہی تھیں۔
دھار دار تیز پتھر درخت میں گہرا پیوست ہو جاتا اور اس کے زخم سے گاڑھا رس
بہہ نکلتا۔ درخت کراہتا اور چرچراتا، پھر لکڑھارے کے قدموں پر آن گرتا۔
لوگ روزانہ، بڑے صبر کے ساتھ درختوں کو کاٹتے اور جنگل کی دنیا میں اپنے
لئے جگہ بناتے۔
کوئی قطعہ صاف کرنے کے بعد لوگ درخت کے ٹھنٹھوں اور جھاڑیوں کو جلا دیتے۔
اس طرح آدمی جنگل کے خلاف لڑتا اورفتح حاصل کرتا رہا ۔ وہ ہمارے ہوئے دشمن
کا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔
شاخوں کو کاٹنے کے بعد لوگ درخت کے ایک سرے کو نوکیلا بنا کر اس کو زمین
میں گاڑتے، پتھر کے گھن سے اس کو زمین کے اندر مضبوط ٹھونک دیتے۔ پھر وہ اس
طرح دوسرا، تیسرا اور چوتھا کھمبا ایک ہی قطار میں گاڑتے چلے جاتے۔ جلد ہی
ایک دیوار بن جاتی جس کو وہ چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں کھمبوں کے درمیان بن کر
اور مضبوط بنا دیتے اور تھوڑے دنوں میںلکڑی کا ایک حجرہ جو خود چھوٹا سا
جنگل معلوم ہوتا جنگل کے اندر تیار ہو جاتا۔ اس میں درختوں کے تنوں کے
درمیان ٹہنیوں کو آپس میںبن کر دیوار بنائی جاتی۔ لیکن یہ تنے کسی طرف اگتے
نہیں تھے بلکہ اس طرح زمین قائم کھڑے رہتے جس طرح آدمی نے ان کو گاڑا تھا۔
قدیم زمانے کے آدمی کے لئے جنگل کی دنیا میں اپنے لئے جگہ بنانا بہت کٹھن
تھا اور اس سے زیادہ مشکل تھا اپنے لئے غذا حاصل کرنا۔
کھلے میدانوں میں نکل کر وہ گلوں میں رہنے سہنے والے جانوروں کا شکار کرتا۔
میدانوں میں گلوں کو دور دور تک دیکھناآسان تھا کیونکہ کسی ٹیلے سے بھی
میلوں دور تک چاروں طرف سب کچھ نظر آتا تھا۔
لیکن جنگل کی بات ہی اور تھی۔ حالانکہ جنگل کا گھر رہنے والوں سے بھرا ہوا
تھا پھر بھی وہ دکھائی نہیں دیتے تھے۔ تمام منزلوں میں ان کی آواز، ان کی
سرسراہٹ اور چیخوں کی گونج ہوتی تھی لیکن ان کا پتہ لگانا بہت مشکل تھا۔
کوئی چیز پیر کے نیچے سرسراتی یا سر کے اوپر اڑتی، کسی چیز سے پتیاں ہلتیں۔
قدیم زمانے کا آدمی ان سرسراہٹوں اور مہکوں میں کیسے تمیز کر سکتا تھا، وہ
تمام چمک دار درختوں کے تنوں کے درمیان جانور کے چمک دار گلوں کا کیسے پتہ
لگا سکتا تھا؟
جنگل کی ہر چڑیا اور جانور کا اپنا حفاظت کرنے والا رنگ تھا۔ چڑیا کے پر
درختوں کے داغدار تنوں کی طرح ہوتے تھے۔ جنگل کی نیم تاریکی میںجانوروںکے
سمور کاسرخی مائل بادامی رنگ بھی سوکھی ہوئی پتیوں کی طرح ہوتا تھا۔ کسی
جانور کا پتہ لگانا مشکل تھا۔ لیکن جب جانور قریب ہوتا شکاری کا نشانہ بڑا
سچا ہونا چاہئے ورنہ جانور جھاڑیوں میں غائب ہو جاتا تھا۔
اسی وقت قدیم زمانے کے شکاری کو پھینکے والے برچھے کی جگہ تیز پرواز کرنے
والے تیر کو دینا پڑی۔وہ اپنی کمان ہاتھ میںلیتا اور ترکش کندھے سے لٹکاتا
اور پھر گھنے جنگل میں گھس کر جنگلی سوروں کا شکار کرتا یا دل دل میں بطخوں
اور ہنسوں کو مارتا۔
آدمی کا چوپایہ دوست
ہر شکاری کا ایک وفادار دوست ہوتا ہے جس کے چار پنجے، بڑے نرم کان اور سیاہ
کھوجی تھوتھن ہوتا ہے۔
یہ چوپایہ دوست شکاری کو شکار ڈھونڈھنے میں مدد دیتا ہے۔ کھانے کے وقت وہ
مالک کے پاس بیٹھتا اور اس کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈالکر یہ کہتا معلوم ہوتا
ہے ”اور میرا حصہ کہاں ہے؟”
یہی چوپایہ دوست ہزاروں سال سے آدمی کی خدمت پڑی وفاداری کے ساتھ کر رہا ہے
کیونکہ یہ اسی دور دراز زمانے کی بات ہے جب آدمی تیر وکمان سے شکار کھیلتا
تھاکہ اس نے کتے کو اپنا دوست بنایا تھا۔
دریائے ینیسئی کے کنارے افونتووا کی کھدائی میں، سوویت ماہرین آثار قدیمہ
نے ایک قدیم شکاری پڑائو میں کتے کی ہڈیاں پائیں۔اس کے سوا کہ تھوتھن ذرا
چھوٹا تھا باقی ہڈیاں بھیڑیے سے مشابہہ تھیں۔
قدیم زمانے کے آدمی کاکتا غالباً اس کے گھر کی حفاظت کرتاتھا اور شکار میں
اس کی مدد کرتا تھا۔ ابتدائی جنگلی بستیوں میں باورچی خانوں کے کوڑا گھروں
میں سائنس دانوں نے جانوروں کی ایسی ہڈیاں پائیںجن پر کتے کے دانتوں کے
نشان تھے۔ اسی لئے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی کھانے کے وقت کتا آدمی
کے ساتھ بیٹھتا تھا اور ہڈیاں چاہتا تھا۔
کوئی آدمی کتے کو رکھ کر نہ کھلاتا اگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ قدیم
زمانے کا آدمی کتے کے پلے کو شکار کا پتہ لگانے میں اپنے مدد گار کی حیثیت
سے سدھانے لگا تھا۔
اس نے مدد گار کے انتخاب میں غلطی نہیں کی تھی۔ قبل اس کے کہ وہ کسی جنگلی
سور کے نشان دیکھتا یا ہرن کے پائوں کی چاپ سنتا اس کا کتا چوکنا ہو کر
اپنا تھوتھن اونچا کرتا اور بوسونگھنے لگتا۔
جھاڑیوں سے کس چیز کی مہک آتی تھی؟کون یہاں سے ابھی گذرا تھا؟ کتے کے لئے
دو تین بار سونگھنا ہی کافی تھا۔ اس وقت کتا کچھ بھی دیکھتا سنتا نہیں تھا،
وہ اپنے خاص کام یعنی جانور کا پتہ لگانے میں بالکل محو ہو جاتا تھا۔ وہ
جنگل میں دبے پائوں تیزی سے دوڑتا تھا۔ مالک کو صرف اس کا ساتھ دینا پڑتا
تھا۔
کتے کو پالتو بنانے کے بعد آدمی اور مضبوط ہو گیا۔ اس نے کتے کی ناک کو جو
اس کی ناک سے کہیں زیادہ تیز تھی اپنی خدمت کے لئے اس استعمال کیا۔
بہر حال، آدمی نے ناک سوا کتے کی دوسری چیزوں مثلاً اس کے چار پیروں سے بھی
فائدہ اٹھایا۔ اپنی گاڑی میں گھوڑا جوتنے سے پہلے آدمی اپنا سامان اور
خاندان لے جانے کے لئے کتا استعمال کرتا تھا۔
سائبیریا میں ایک قدیم شکاری پڑائو سے کتے کی ہڈیوں کے پاس ہی ساز بھی ملا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کتے آدمی کی صرف شکار ہی میں نہیں مدد کرتے تھے بلکہ
اس کو کھینچ کر لے بھی جاتے تھے۔
اس طرح پہلی بار ہماری ملاقات آدمی کے بہترین دوست یعنی کتے سے ہوئی۔
اس سمجھ دار جانور کے بارے میں نہ جانے کتنی سچی کہانیاں لکھی جا چکی ہیں
جو پہاڑوں میں آدمیوں کو بچاتا ہے، میدان جنگ سے زخمیوں کو لے جاتا ہے،
گھروں اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ گھر، شکار، جنگ اور تحقیقات
تجربہ گاہوں میں کتے ہمارے بڑے وفادار خادم ہوتے ہیں۔
جب سائنس کے مفاد اور انسانیت کی بھلائی کے لئے سائنس داں کسی کتے کو آپر
یشن کی میز پر لٹاتا ہے تو وہ سائنس داں کو اعتماد کی نگاہوں سے دیکھتا ہے،
ایسی نگاہوں سے جیسے وہ اپنے مالک کے لئے جان دینے کو تیار ہے۔
لینن گراد کے قریب پاولووا کے قصبے میں اس لیباریٹری کی عمارت کے سامنے
جہاں سائنس داں دماغ کے افعال کا مطالعہ کرتے ہیں ایک بڑی سی یاد گار ہے۔
یہ یاد گار ہمارے اسی وفادار چار پیروں والے دوست کے اعزازمیں نصب کی گئی
ہے۔
دریا سے آدمی کی لڑائی
قدیم زمانے کے سبھی آدمی تو اپنے گھر درخت کے جھنڈوں کے درمیان نہیں بناتے
تھے۔ ایسے لوگ بھی تھے جو گھنے جنگلوں کو چھوڑ کر دریائوں اور جھیلوں کے
کنارے آباد ہو گئے تھے۔ یہاں پانی اور جنگل کے درمیان تنگ پٹی پر وہ اپنے
لکڑی کے حجرے بناتے تھے۔
جنگل کے مقابلے میں دریا کے کنارے زیادہ جگہ تھی لیکن یہاں بھی رہنا سہنا
جنگل کی طرح دشوار تھا۔ دریا ایک بے چین پڑوسی تھا۔ جب بہار میں اس میں
سیلاب آتا اور وہ اپنے کناروں سے اوپر بہہ نکلتا تو اکثر برف کی چٹانوں اور
گرے پڑے درختوں کے ساتھ آدمیوں کے گھر بھی بہا لے جاتا۔ سیلاب سے بھاگ کر
لوگ قریب کے درختوں پر چڑھ جاتے تھے اور غضب ناک دریا کے اترنے تک وہیں
انتظار کرتے تھے۔ جب دریا پھر اعتدال پر آجاتا تھا تو کنارے پر پھراپنا گھر
بنانا شروع کر دیتے تھے۔
پہلے پہل تو ہر سیلاب ان کے لئے اچانک آتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے دریا کے
رویے کا بغور مطالعہ یا تو سیلاب سے بچنے لگے۔
وہ کئی درخت کاٹتے اور ان کے تنے ایک ساتھ باندھ کر بیٹرا بنا لیتے اور اس
کو دریا کے کنارے ڈال دیتے۔ پھر وہ لٹھوں کی پہلی پرت پرلٹھوں کی دوسری
ڈالتے۔ اس طرح پرت در پرت وہ ایک اونچا چبوترہ سا بنا لیتے اور اس پر اپنی
جھونپڑی بنا تے۔ اب وہ سیلاب سے نہیں ڈرتے تھے کیونکہ جب طوفانی دریا چڑھتا
تو ان کی چوکھٹ تک بھی نہ پہنچتا۔
یہ آدمی کی بڑی جیت تھی کیونکہ اس نے نیچے کنارے کو اونچا کر دیا تھا۔ گویا
یہ چبوترہ ان تمام بندوں اور پشتوں کی ابتدا تھی جو اب ہم دریائوں کو
روکنے کے لئے بناتے ہیں۔
قدیم زمانے کے آدمی نے دریائوں سے لڑنے میں کافی وقت صرف کیا۔
لیکن وہ دریا کے کنارے کیوں بسا اور اس نے پانی کے قریب کیوں رہنا چاھا؟
یہ ان مچھیروں سے پوچھو جو اپنی زندگی دریا کے کنارے ہی گذارتے ہیں اور
اپنی بنسیوں پر بڑے صبر کے ساتھ آنکھ لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔
دریا آدمی کے لئے کشش رکھتا تھا کیونکہ اس میں مچھلیاں تھیں۔
شکاری نے مچھیرا بننا کیسے سیکھا؟ بہر حال، اس کو ماہی گیری اور جانوروں کے
شکار کے لئے مختلف اوزاروں کی ضرورت تھی۔
جب واقعات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے تو ہم اس کی کھوئی کڑیاں تلاش کرنے کی کوشش
کرتے ہیں۔
کوئی شکاری ایک دن میں تو ماہی گیر نہیں بن گیا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب ہوا
کہ مچھلی پکڑنا سیکھنے سے پہلے وہ مچھلی کا بھی شکار ہی کرتا تھا۔
اور یہی واقعی ہوتا تھا۔ ماہیگیر کا سب سے پہلا اوزار ماہی برچھا تھا جو
شکار کھیلنے والے برچھے سے بہت کچھ مشابہ تھا۔
قدیم زمانے کا آدمی کمر کمر پانی میں جا کر ان مچھلیوں کو برچھے سے شکار
کرتا تھا جو چٹانوں کے درمیان چھپی ہوتی تھیں۔ پھر اس نے دوسرے طریقوں کی
ماہی گیری سیکھی۔وہ جال کے ذریعے چڑیوں کو پکڑنا سیکھ چکا تھا اور اس نے
جال کو پانی میں بھی آزما۔ اس طرح لوگ مچھلیاں پکڑنے کے لئے بھی جال
استعمال کرنے لگے۔
ماہرین آثار قدیمہ نے ماہی گیری کے نیزے اور برچھیاں، مچھلیوں کے جال کے
پتھر کے لنگر اورہڈی کے بنے ہوئے مچھلی پکڑنے کے کانٹے کھود کر نکالے ہیں۔
شکاری ماہی گیروں کا گھر
سوویت ماہر آثار قدیمہ تولستوف اور ان کے ساتھیوں نے قزل قم کے ریگستان میں
قدیم زمانے کے شکاری ماہی گیروں کا ایک پڑائو اس جگہ دریافت کیاجہاں آمود
ریا بحیرہ ارال میں گرتا ہے۔
ایک ریتیلے ٹیلے کی چوٹی پر، ریت اور مٹی کی تہہ میں ان کو بہت ہی اچھے
پتھر کے اوزار، مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ملے ان میں
جنگلی سوروں، بارہ سنگھوں اور ہرنوں کی بہت سی ہڈیاں تھیں۔ لیکن ان ڈھیروں
میں زیادہ مچھلیوں کے کانٹے اور ہڈیاں تھیں۔ وہاں کے لوگوں کی خاص غذا
مچھلی ہی معلوم ہوتی تھی۔
ایک جلے ہوئے گھر کے نشانات بھی یہاں ملے۔ اس میں صرف راکھ اور کوئلے،
سرکنڈے کے جلے ہوئے ٹکڑے اور کوئلے کے سیاہ خطوط جو ایک حلقے کے مرکز میں
ملتے تھے باقی رہ گئے تھے۔ اس گھر کے بیچ میں صاف، سفید راکھ کی ایک موٹی
پرت تھی جس کے نیچے خوب تپی ہوئی چمکیلی سرخ ریت کی تہہ تھی۔
اس مرکزی چولھے کے چاروں طرف اور بھی چولھے تھے جن میںکالی، گندی راکھ اور
باورچی خانے کا کوڑا بھرا تھا۔
پڑائو میں بس یہی ملا۔ اب یہ سائنس دانوں کا کام تھا کہ وہ اس گھر اور اس
کے سازو سامان کو اصل کے مطابق بحال کریں اور چند جلے ہوئے آثار کے ذریعے
اس کے رہنے والوں کی زندگی کے متعلق بیان کریں۔
جو لوگ آثار قدیمہ کے علم سے ناواقف ہیں ان کے لئے یہ مسئلہ حل کرنا ممکن
نہ ہوتا لیکن ماہرین آثار قدیمہ فوراً سمجھ گئے کہ کوئلہ اور راکھ ان گڈھوں
میں بھر گئی ہے جہاں پہلے چھت کو روکنے والے لکڑی کے کھمبے تھے۔ اور جلے
ہوئے سرکنڈوں نے انہیں بتایا کہ چھت سرکنڈوں کی تھی۔ سیاہ خطوط جو مرکز میں
ملتے تھے ان کھمبوں کے زمین پر گرنے کے نشانات تھے ج گھر کو تباہ کرنے
والی آگ کے دوران گرے تھے۔
مرکزی چولھے پر کھانا نہیں پکایا جاتا تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس کی
راکھ اتنی صاف اور سفید نہ ہوتی۔ وہاں راکھ کی پرت بہت موٹی تھی کیونکہ
مرکزی چولھے میں قدیمہ رسم کے مطابق دن رات اور ابدی آگ جلتی رہتی تھی۔
گھر کی عورتیں دوسرے چولھوں پر کھانا پکاتی تھیں جو چھت کو روکنے والے
کھمبوں کے درمیان تھے۔ اسی لئے وہاں کی راکھ اتنی گندی تھی اور زمین پر
ہڈیاں پھیلی ہوئی تھیں۔
وہاں بہت سے چولھے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سی عورتیں بھی تھیں۔ یہ
تمام عورتیں، ان کے شوہر اور بچے قرابت کی بنا پر ایک برادری میں منسلک
تھے۔
برادری بڑی ہوتی تھی، کوئی سو یا اس سے زیادہ آدمیوں پر مشتمل۔ اس لئے گھر
بھی بڑا تھا۔ پھر بھی یہ گھر اپنے جد سے مشابہ تھا، نوکیلی چھت والے گول
خیمے سے۔
کھمبوں کی دو قطاروں کے درمیان داخلے سے لے کر مرکزی چولھے تک ایک لمبی راہ
داری تھی۔ راہ داری کے دائیں طرف کھانا پکانے کے چولھے تھے اور بائیں طرف
خالی جگہ۔
گھر کے اندر ان لوگوں کو خالی جگہ کی کیا ضرورت تھی؟
ا س کا حل ہمیں جزائر انڈمان میں، جو وسط ایشیا سے بہت دور واقع ہیں،
پنچائتی جھونپڑیوں سے ملتا ہے۔ ان جزیروں کے لوگ یہ خالی جگہ جادو ٹونے
والی ریت رسموں کے لئے استعمال کرتے تھے۔
یہاں بھی راہ داری کے بائیں طرف ماہرین آثار قدیمہ نے دیوار کے پاس چھوٹے
چھوٹے چولھے پائے۔ یہ غالباً وہ جگہ تھی جہاں برادری کے غیر شدہ لوگ رہتے
تھے۔
اس طرح ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی نگاہوں کے سامنے اس گھر کا نقشہ کھینچا
جس میں یہ ماہی گیر رہتے تھے۔
بہر حال آثار سے یہ پتہ تو چلا نہیں کہ وہ مچھلیاں کیسے پکڑتے تھے اور ان
کے پاس ڈونگیاں تھیں یا نہیں۔
روس میں اس طرح کی ایک ڈونگی جھیل لادوگا کے کنارے ملی ہے۔
سب جہازوں کا دادا
کوئی اسی سال پہلے لوگ جھیل لادو گا سے قریب ہی ایک نہر کھود رہے تھے۔دل
دلی کوئلے اورریت کے درمیان کھودتے ہوئے ان کو آدمیوںکی کھوپڑیاں اورپتھر
کے اوزار ملے۔
ماہرین آثار قدیمہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے دلدل سے ہر قسم کی چیزیں
ڈھونڈ نکالیں جیسے یہ کسی میوزیم کا شوکیس تھا۔ انہوں نے پتھر کی کلہاڑی،
پتھر کا چاقوں، مچھلی پکڑنے کے پتھر کے کانٹے اور تیر، مچھلی کے شکار کیلئے
ایک دندانے دار برچھا اور سیل مچھلی کی طرح تراشا ہوا ہڈی کا ایک تعویذ
پایا۔ پتھر اور ہڈی کی ان تمام چیزوں کو برآمد کرنے کے بعد ان کو سب سے اہم
چیز ملی یعنی ایک ثابت ڈونگی۔ وہ اتنی ٹھیک تھی کہ آدمی اس میں بیٹھ کر
فوراً اس کو کھے سکتا تھا۔
اس کی صورت شکل بالکل ہمارے زمانے کی ڈونگیوں جیسی نہ تھی۔ یہ تو تمام
کشتیوں، دخانی جہازوں، ڈیزل جہازوں کی دادی تھی اورکسی بڑے شاہ بلوط کے تنے
کو کھوکھلا کر کے تیار کی گئی تھی۔
اگر اس کھوکھلی ڈونگی کو تم دیکھو تو تمہیں پتہ چل سکے گا کہ کس طرح پتھر
کی کلہاڑی نے بلوط کے تنے کے ٹکڑے ٹکڑے کاٹے تھے۔
ایسی جگہوں پر جہاں کلہاڑی سے لکڑی کے ریشے کے مطابق کاٹا گیا تھا کام آسان
تھا اور سطح کافی چکنی تھی لیکن ڈونگی کے ماتھے اور دبنالے پر جہاں کلہاڑی
کو ریشے کے خلاف کاٹنا تھا کام سخت جاں فشاں تھا۔ یہاںلکڑی کو ہر طرف سے
کاٹا گیا ہے۔ وہ ہر طرف ناہموار ہے اور اس میں گڈھے دکھائی دیتے ہیں جیسے
پتھر کے دانتوں نے بلوط کو کاٹا ہو۔ بعض جگہوں پر جہاں لکڑی میں گرھیں تھیں
یا ٹیڑھا میڑھا پن تھا کلہاڑی کارگر نہیں ہوئی تھی۔ ایسی حالت میں لکڑی کے
خلاف کلہاڑی کی لڑائی میں آگ نے مدد دی تھی۔
ڈونگی کا پورا دنبالہ جلا ہوا ہے اورکوئلے کی چٹخی ہوئی پرت سے ڈھکا ہے۔
قریب ہی سائنس دانوں کو وہ پتھر کی کلہاڑی بھی مل گئی جس نے ڈونگی کو کاٹ
کاٹ کر کھوکھلا کیا تھا۔ اس کی دھار کو چمکایا اور تیزکیاگیا تھا اور قریب
ہی دلدل کوئلے میں پتھر کو تیز کرنے کا اوزار بھی مل گیا۔ اس کا یہ مطلب
ہوا کہ پہلے کی طرح اس وقت پتھر کے اوزار صرف کاٹ کاٹ کر نہیں بنائے جاتے
تھے بلکہ ان پر پالش بھی کی جانے لگی تھی اور ان کو تیز بھی کیا جاتا تھا
کیا کوئی کند کلہاڑی مضبوط شاہ بلوط کو کاٹ سکتی تھی؟
آدمی کو بلوط کو کھوکھلا کر کے ڈونگی بنانے میں بڑا وقت لگتا تھا۔
آخر کار جب یہ کام ختم ہوتا تھا تو کشتی پانی میں اتاری جاتی تھی۔ مچھیرے
جھیل پروانہ ہو جاتے تھے۔ ان کے پاس مچھلی کے شکار کے لئے طرح طرح کے
برچھے، نیزے، کانٹے اور جال ہوتے تھے۔
جھیل لادو گا بہت بڑی تھی اور اس میں مچھلیوں کی بھی کثرت تھی لیکن لوگ
کنارے سے دورتک جانے کی جرأت نہیںکرتے تھے کیونکہ پانی ان کے لئے نئی اور
انجانی دنیا تھا۔ ان کو کیا پتہ تھاکہ وہ کیسا ہے اور آئندہ کیا کرے گا؟
ایک دن وہ پرسکون رہتا اور اس کی سطح ہموار رہتی۔ دوسرے دن اس میں بڑی بڑی
غضب ناک لہریں اٹھنے لگتیں۔
زبردست شاہ بلوط جس کو کوئی طوفان اور آندھی نہیں گرا سکتی تھی ان لہروں پر
ایک لکڑی کے ٹکڑے کی طرح ڈگمگاتا۔ لوگ ڈر کر کنارے کی طرف کشتی لاتے۔ وہاں
ٹھوس خشک زمین تھی اور ان کے پیر اس پر چلنے کے عادی وہ چکے تھے۔ زمین تو
جھولتی نہ تھی، نہ ان کے خیر مقدم کے لئے اوپر اٹھتی تھی اور نہ ان کو ادھر
ادھر جھلا کر پھینکتی تھی۔
اس طرح قدیم زمانے کا آدمی بچے کی طرح دھرتی ماتا کے کلیجے سے چمٹا رہتا جس
نے اس کی پرورش کی تھی۔ وہ خطرناک پانی میں جو آسمان تک پھیلتا چلا گیا
تھا مچھلی کے شکار کے لئے جانے کی بجائے اس کا انتظار کرتا تھا کہ مچھلی
خود کنارے تک آئے۔
رفتہ رفتہ اور بڑی احتیاط سے آدمیوں نے اعتماد حاصل کرنا شروع کیا اور کچھ
زیادہ آگے جانے کی ہمت کرنے لگے۔
ایک زمانہ تھا جب آدمی کی دنیا وہاں ختم ہو جاتی جہاں پانی شروع ہوتا تھا۔
ہر دریا کا کنارا ایک نظر نہ آنے والی دیوار تھاجس پر لکھا ہوتا تھا ”آگے
بڑھنے کی اجازت نہیں”۔
آدمی نے اس نظر نہ آنے والی دیوار کو توڑ دیا۔ لیکن ابھی وہ اپنی نئی دنیا،
پانی کی دنیا کی سرحدوں سے قریب رہتا تھا۔ کسی بھی کام میں پہلے قدم سب سے
زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ وہ وقت آنے والا تھا جب وہ کنارے سے بالکل الگ ہونے
والا تھا س کو چھوٹی ڈونگیوں میں نہیں جاناتھا بلکہ ایسے جہازوں میں جو اس
کو افق کے پار نئے ساحلوں تک، نئے علاقوں تک لے جاتے تھے جہاں اس کے ہی
جیسے آدمی رہتے تھے۔
پہلے کاریگر
اے نوجوان کاریگرو، ہم تم سے بات کر رہے ہیں جنہوں نے حال ہی میں کلہاڑی
رندے، ہتھوڑی اور برمے کا استعمال سیکھا ہے۔
ہم تم سے بات کر رہے ہیں جو مستقبل میں فولاد ساز، کیمیا داں، مشینوں اور
ہوائی جہازوں کے ڈیزائن بنانے والے مکانات اور جہاز تیار کرنے والے ہوگے!
چوبی دستے والی پتھر کی کلہاڑی
یہ کتاب تم لوگوں کے لئے لکھی گئی ہے جن کو اپنے اوزاروں اور کام سے
پیار ہے۔ تم جانتے ہوکہ تمہارے اوزاروں اور اس لکڑی یا دھات کے درمیان جس
پر تم کام کرر ہے ہو لڑائی کتنی سخت ہے اور تمہیں کتنی خوشی ہوتی ہے جب تم
کوئی کام پورا کر لیتے ہو۔
جب تم لکڑی کا کوئی ٹکڑا لیتے ہو تو تمہارے ذہن میں اس چیز کی شکل ہوتی ہے
جو تمہیں اس ٹکڑے سے بنانا ہے۔ یہ بات بالکل آسان معلوم ہوتی ہے ۔ تمہیں
یہاں ایک ٹکڑا آری سے کاٹنا ہوگا، برمے سے ایک سوراخ وہاں برمانا ہو گا اور
دوسرا ٹکڑا دھر کاٹنا ہو گا۔ لیکن لکڑی اس پر تیار نہیں ہوتی۔ وہ اپنی
پوری طاقت سے اس تیز دھار کی مزاحمت کرتی ہے جو اس کو کاٹنا چاہتی ہے۔
اوزار یکے بعد اس لڑائی میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔ اگر چاقو سے کام نہیں چلتا
تو کلہاڑی میدان میں آتی ہے۔ اگر کلہاڑی بھی ناکام رہتی ہے۔ تو درجنوں
دانتوں والا آرا میدان جنگ میں اترتا ہے۔
اور پھر وہ وقت آیا جب وہ تمام لکڑی جو تمہاری مجوزہ چیز کی شکل وصورت کو
چھپائے ہوئے تھی کٹ کر چھیلن، چھپٹیوں اور برادے کی شکل میں نظر آنے لگتی
ہے۔
تمہاری جیت ہوئی لیکن یہ صرف تمہاری ہی جیت نہیں ہے۔ تمہاری جیت ا س لئے
ممکن ہوئی کہ تمام کاریگروں نے بہت سی صدیوں کے دوران میں ان اوزاروں کوا
یجاد کیا اور بہتر بنایا جو تم استعمال کرتے ہو، جنہوں نے ان اوزاروں کو
بنانے کے لئے نئی چیزوں کی تلاش کی اور ان کے استعمال کے نئے طریقے نکالے۔
یہاں، اس کتاب کے صفحات سے تم ان پہلے کاریگروں کے بارے میں معلومات حاصل
کر چکے ہو جنہوں نے پہلے چاقو، کلہاڑیاں اور ہتھوڑے بنائے تھے۔
تم نے ان کو کام کرتے بھی دیکھا۔ تمہارے کام کی طرح ان کا کام بھی کٹھن تھا
لیکن آخر میں ان کو اس سے خوشی بھی ہوتی تھی۔
یہ پہلے بڑھئی، زمین کھودنے والے اورمعمار جانوروں کی کھال کے کپڑے پہنتے
ان کے اوزار بھدے اور بھاری تھے۔ان کو ایک کشتی بنانے میں مہینوں لگتے تھے۔
ان کومٹی کی کھانا پکانے والی ایک ہانڈی بنانے میں اس سے زیادہ مشکل پیش
آتی تھی جتنی ہمیں ایک مجسمہ بنانے میں ہوتی ہے۔
لیکن یہ بڑھئی، زمین کھودنے والے اور کمہار ان معماروں، کیمیادانوں اور
فولاد سازوں کی زبردست فوج کے پہلے سپاہی تھے جو اپنی روازنہ کی محنت سے اب
دنیا کے خدوخال بدل رہے ہیں۔
مثال کے لئے قدیم زمانے کے کمہاروں کو لے لو۔ انہوں نے پہلی مرتبہ ایک ایسا
نیا مادہ تیار کیاجو قدرت سے انہیں نہیں ملا تھا۔ اس سے پہلے، جب قدیم
زمانے کا کاریگر کوئی پتھر کی کلہاڑی یا ہڈی کا نیزہ تیار کرتا تھا تو وہ
اس کے مادے کی تخلیق خود نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی صورت بدل دیتا تھا۔ لیکن
کمہار کی بات ایسی تھی جو کبھی پہلے نہیں ہوئی تھی۔ آدمی نے مٹی کا برتن
بنایا اوراس کو الائو میں پکایا۔ آگ نے مٹی کی تمام خاصیتیں بدل دیں۔ اب وہ
پہچانی نہیں جاسکتی تھی۔
اس سے قبل مٹی بھیگنے پر پھس پھسی ہو جاتی تھی لیکن آگ میں پکنے کے بعد اس
کو پانی سے ڈر نہیں رہا۔ پانی ڈالنے سے نہ تو اس کی شکل بدلتی تھی اور نہ
وہ نرم ہوتی تھی۔
قدیم زمانے کے آدمی نے مٹی کو ایک نئی چیز میں تبدیل کرنے کے لئے آگ کا
استعمال کیا۔ یہ دوہری جیت تھی۔ آگ اور مٹی دونوں پر۔ یہ سچ ہے کہ آگ آدمی
کے پہلے سے خدمت کر رہی تھی۔ اس کو سردی سے بچاتی تھی، جنگلی جانوروں سے
محفوظ رکھتی تھی، جنگلات کی صفائی میں آدمی کی مدد کرتی تھی اور ڈونگی
بنانے میں کلہاڑی کی مدد کرتی تھی۔ اب لوگ آگ بنانے کا راز جان گئے تھے۔ جب
بھی وہ دو لکڑی کے ٹکڑوں کو زوروں سے آپس میں رگڑتے تھے آگ نمودار ہو جاتی
تھی۔
اب آدمی نے آگ کو ایک نیا اور زیادہ مشکل فریضہ سونپا یعنی ایک مادے کو
دوسرے میں تبدیل کرنے کا فریضہ۔
جب آدمی کو آگ کی حیرت انگیز خوبیوں کا پتہ چلا تو اس نے آگ کو مٹی پکانے،
اپنا کھانا تیار کرنے، روٹی پکانے اور تانبے کو پگھلانے کے لئے استعمال
کرنا شروع کیا۔
آج تم کو دنیا میں کوئی ایسا کارخانہ نہ ملے گا جو ایک مادے کو دوسرے میں
تبدیل کرنے کے لئے آگ کا استعمال نہ کرتا ہو۔
آگ ہمیں کچھ دھات سے لوہانکالنے،ریت سے شیشہ بنانے اور لکڑی سے کاغذ تیار
کرنے میں مدد دیتی ہے۔ فولاد کے کارخانوں میں جو آگ جلتی رہتی ہے اس کو
فولادسازوں اور کیمیادانوں کی پوری فوج کی فوج کنٹرول کرتی ہے۔ اوران سب
بھٹیوں کی ابتدا اس چولھے سے ہوئی ہے جس میں قدیم زمانے کے کمھار نے اپنا
پہلا، بھدا، تنگ پیندے والا برتین پکایا تھا۔
بیج گواہ ہے
قدیم زمانے کے ایک پڑائو سے ماہرین آثار قدیمہ کو بہت سی چیزوں کے درمیان
مٹی کے برتنوں کے کچھ ٹکڑے بھی ملے۔
باہر سے یہ ٹکڑے آپس میں گتھے ہوئے خطوط کے سادہ ڈیزائن سے سجے ہوئے تھے۔
بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ڈیزائن اس بات کا راز بتاتا ہے کہ قدیم
زمانے کے کمہار کس طرح اپنے برتنوں کی شکلیں بناتے تھے اور ان کو پکاتے
تھے۔ نرم پودوں کے تنوں سے بنی ہوئی ٹوکری پر اندر سے مٹی کی ایک تہہ چڑھا
دی جاتی تھی اور پھر ٹوکری کو آگ میں رکھ دیا جاتا تھا۔ ٹوکری جل جاتی تھی
اور اندر کا برتن باقی رہ جاتا تھا اور ٹوکری کی بناوٹ جو نشان برتن کے
باہری حصے پر چھوڑتی تھی وہی اس کے ڈیزائن ہوتے تھے۔
پھر جب کھماروں نے بنی ہوئی ٹوکریوں کی مدد کے بغیر برتن بنانے سیکھ لئے تو
انہوں نے برتنوں کو خانے دار ڈیزائنوں سے سجانا شروع کر دیا۔ ان کا خیال
تھا کہ اگر ان کے برتن ویسے نہ ہوئے جیسے ان کی دادیاں اور پردادیاں
استعمال کرتی تھیں تو ان میں کھانا نہیں پک سکے گا۔
قدیم زمانے میں کاریگروں کا خیال تھا کہ ہر شے میں کوئی نہ کوئی پراسرار
طاقت اور خوبی چھپی ہوئی ہے۔ کون جانے، ممکن ہے برتن کی اصل مضبوطی اس کے
ڈیزائن میں ہو! اگر انہو ںنے ڈیزائن بدلا تو ممکن ہے ان کو ہمیشہ کے لئے
پچھتا نا پڑے کیونکہ برتن ان کی بدقسمتی، برے دنوں اور بھوک کا باعث بن
سکتا ہے۔ کبھی کبھی برتن کو نظر بد سے بچانے کے لئے کمہار اس پر کتے کی
صورت بنا دیتا تھا۔
کتا تو آدمی کا مدد گار تھا۔ وہ آدمی کے ساتھ شکار میں جاتا اور اس کے گھر
کی نگرانی کرتا تھا۔
برتن پرکتے کی شکل بناتے ہوئے کمہار اپنے آپ سے کہتا تھا ”کتا تونگراں ہے،
وہ برتن اور اس کے اندر جو کچھ رکھا ہے اس کی نگرانی کرے گا۔”
خانے دار ڈیزائنوں سے سجے ہوئے برتنوں کے ٹکڑے بہت سی جگہوں پرپائے گئے
ہیں۔ ان میں سے ایک جو فرانس میں شہر کامپینی کے قریب پایا گیا ہے بہت
مشہور ہے ماہرین آثار قدیمہ نے اس کا جائزہ لیتے وقت اس پر جو کے ایک دانے
کا نشان پایا۔
اس دریافت سے ان میں بڑا جوش پیدا ہو گیا کیونکہ یہ صرف ایک دانے کا سوال
نہیں تھا۔ بلکہ یہ تھا ان بڑی بڑی تبدیلیوں کا ننھا گواہ جو قدیم زمانے کے
آدمی کی زندگی میں ہوئی تھیں۔
جہاں دانہ تھا وہاں زراعت بھی رہی ہوگی۔ اسی وجہ سے ان کو اسی جگہ اناج
پیسنے والی چکیاں اور پتھر کی کدالیں بھی ملیں۔
ظاہر ہے کہ شکاری اور مچھیرے کا شتکار بھی ہو گئے تھے۔ یہ کیسے ہوا؟
پہلی بات تو یہ کہ قبیلے کے تمام افراد تو شکاری یا مچھیرے نہیں ہوتے تھے۔
جب مرد شکار کے لئے چلے جاتے تھے توعورتیں بچوں کے ساتھ ٹوکریاں اور مٹی کے
برتن کے کرکھانے کی چیزیں جمع کرنے کے لئے ادھر ادھر جاتی تھیں۔ سمندر کے
کنارے وہ سیپیں جمع کرتی تھیں۔ جنگل میں وہ کھمبیاں، گوندنیاں اور اخروٹ
تلاش کرتی تھیں۔ ان کو بلوط کے پھل کھانے سے بھی پرہیز نہ تھا۔ وہ ان کو
پیس کر ان کی روٹیاں تھیں۔ اسی لئے بہت سی زبانوں میں acorn (بلوط کا پھل)
کا لفظ مدتوں تک روٹی کے لفظ کی بجائے استعمال ہوتا رہا۔
جب کوئی قبیلہ شہد کے کسی چھتے کو دیکھ لیتا تو بڑی خوشیاں منائی جاتیں۔
ایک چٹان پر ڈرائنگ پائی گئی ہے جس میں کوئی عورت شہد نکالتی دکھائی گئی
ہے۔ وہ درخت پر ہے۔ اس کا ایک ہاتھ درخت کے کھوکھلے میں ہے اور دوسرے میں
ایک برتن ہے۔ غصے سے بھری ہوئی شہد کی مکھیاں اس کے چاروں طرف بھن بھنا رہی
ہیں لیکن وہ ان کی پروا کئے بغیر چھتے میں سے شہد نکال رہی ہے۔
عام طور پر عورتیں اور بچے جب اپنے دورے سے لوٹتے تھے تو وہ گوندنیوں، شہد،
جنگلی سیبوں اور ناشپاتیوں سے لدے ہوتے تھے۔
اب دعوت اڑانے کا وقت ہوتا تھا لیکن عورتیں اپنے کھانے کے ذخیرے کو جلد
نہیں ختم کر دیتی تھیں۔ وہ بچوں کو بھگا دیتی تھیں اور جو کچھ ان سے ممکن
ہوتا تھا وہ برتنوں، پیالوں اور لکڑی کے پیپوں میں جمع کر لیتی تھیں۔ غذا
کے یہ ذخیرے ہمیشہ کار آمد ثابت ہوتے تھے کیونکہ شکار کوئی یقینی بات نہ
تھی۔
اس طرح زیادہ گرم آب وہوا میں لوگ پھر غذا جمع کرنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا
تھا جیسے وہ پیچھے کی طرف چلے گئے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ آگ کی طرف چھلانگ
تھی کیونکہ انہوں نے بوائی شروع کر دی۔ انہوں نے اس حد کو پار کر لیا جو
جمع کر نے والے کو کاشت کرنے والے سے الگ کرتی تھی۔
عورتیں اب پھل، گوندنیاں اور ایسی جنگلی دانے دار گھاسوں کے دانے لانے لگیں
جیسے جو اور گیہوں۔وہ اناج برتنوں اور ٹوکریوں میں جمع کرنے لگیں لیکن
اناج توآسانی سے بکھر جاتا تھا اس لئے گرے ہوئے دانے اگنے لگے۔
پہلے پہل تو آدمی نے اناج اتفاق سے بویا یعنی اس کے ذخیرے سے کچھ دانے گر
گئے۔پھر اس نے جان بو جھ کر اناج کو بھیکرنا یا بونا شروع کیا۔
اب بھی بہت سے لوگوں میں دفن ہو جانے اور پھر سے جنم لینے والے اناج کے
بارے میں داستانیں چلی آتی ہیں۔
جب قدیم زمانے میں عورتیں اپنی کدالوں میں زمین کو تور کر اس میں اناج دفن
کرتی تھیں تو ان کو یہ یقین ہوتا تھا کہ وہ کسی پراسرار دیوتا کو دفن کر
رہی ہیں جوا ناج کی سنہری بالیں کی شکل میں ان کے یہاں واپس آئے گا۔ خزاں
میں جب وہ فصل کاٹتیں تووہ زمین کے نیچے کی دنیا سے دیوتا کی واپسی پر
خوشیاں مناتیں۔
جب وہ آخری گٹھا باندھ کر زمین پر رکھتیں تو اس کے چاروں طرف گھوم گھوم کر
ناچتیں گاتیں۔ ہ محض ناچ نہ تھا۔ یہ جادو کا شگون بھی تھا۔ عورتیں اناج کی
تعریف میں گیت گاتی تھیں کہ وہ مردوں کی دنیا سے واپس آیا اور وہ زمین سے
یہ التجا کرتیں کہ وہ اسی طرح ہمیشہ ان کے ساتھ فیاضی کا برتائو کرے۔
نئے میں پرانا
”کٹائی” کا تہوار قدیم مذہبی تہوار تھاجو پہلے کاشتکاروں سے اب تک چلا
آیا تھا۔ بہت سے ایسے ہی مذہبی تہوار ہم کوکھیلوں اور گیتوں کی صورت میں
ملے ہیں۔
بچے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر گاتے ہیں:
ہاں، ہم نے بویا باجرا، باجرا
ہاں، ہم نے بویا باجرا، باجرا
کھیل کا یہ گیت بھی قدیم زمانے میں مذہبی رسوم کے مطابق ہوتا تھا۔ بس
ہزاروں برسوں کے دوران میں اس کا ساحرانہ بالکل ختم ہو گیا۔ تفریح اور مذاق
باقی رہ گیا۔
اور صنوبر کے درخت کو لیجئے۔ کسی زمانے میں اس کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔ لوگ
اس کے چاروں طرف یہ سوچ کر ناچتے تھے کہ ان کے جادو بھرے حرکات سوتے ہوئے
جنگلوں اور میدانوں کو پھر سے نیا جیون دینگے اور جاڑے کے بعد بہار آئے گی۔
ان بچوں سے جو نئے سال کے موقع پر صنوبر کے درخت کو سجاتے ہیں اگر یہ کہا
جائے کہ صنوبر کا درخت مقدس ہے تووہ اس کو مذاق سمجھیں گے۔ ان کے لئے تو یہ
نشان ہے جاڑے کے دوران میں خوش گوار چھٹیوں کا جو مہینوں کی پڑھائی کے بعد
آتی ہیں۔
بہت سے قدیم مذہبی رسوم اور جادو منتر اب صرف بچوں کے کھیل اور گیت بن کر
رہ گئے ہیں۔
بارش ، بارش جائو، جائو!
پھر اورکسی دن آئو!
جب بچے یہ گیت گاتے ہیں تو اس کا مقصد بارش کو روکنا یا بادلوں کو بھگانا
نہیں ہوتا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ا ن کا یہ گیت بارش پر کوئی اثر نہ
ڈالے گا۔ وہ محض دلچسپی کے لئے یہ گیت گاتے ہیں۔
اور بڑے لوگ بھی ایسے گیت گانا اور کھیل کھیلنا برا نہیں سمجھتے جو کسی
زمانے میں دوسرا مطلب رکھتے تھے۔
اس طرح خوشگوار کھیلوں کے ذریعے قدیم عقیدے اور جادو منتروالے مذہبی تہوار
ہم تک پہنچے۔
بہر حال، ان کو کھیلوں کے علاوہ کسی اور جگہ بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔
جب گرجا گھروں میں ایسٹر کی عبادت ہوتی ہے تو دعائوں میں قدیم ساحرانہ
گیتوں کا رنگ جھلکتا ہے۔
قدیم زمانے کے کاشتکاروں کے گیت کی طرح ان دعائوں میں بھی موت اور قیامت کا
ذکر ہوتا ہے۔
ایسی باتیں جو عام طورپر دنیا میں کھیلوں اور ناچوں کی شکل اختیار کر چکی
ہیں گرجا گھر میں مقدس مذہبی رسوم کی حیثیت سے باقی ہیں۔
بہت سے توہمات اور تعصبات ہمارے یہاں بڑے قدیم زمانے سے آئے ہیں
اب بھی ایسے کافی لوگ ہیں جن کو یہ یقین ہے کہ گھوڑے کی نعل کا پانا نیک
شگون ہے اور اگر نیا چاند ان کوبائیں طرف دکھائی دے تو بدشگونی ہے۔
او گلچ ضلع کے ایک اجتماعی فارم کی کسان عورت نے ہمیں بتایا کہ انقلاب سے
پہلے کے زمانے میں اس کے گائوں کی عورتیں اپنی مرغیوں کی ڈربوں پر ایک
”مرغیوں کا دیوتا” لٹکا دیتی تھیں۔ یہ ”دیوتا” پتھر کا ہوتا تھا جس کے بیچ
میں سوراخ ہوتا تھا۔ اس کو ڈربے پر لٹکانے کا مقصد یہ تھا کہ مرغیاں زیادہ
انڈے دیں۔
اس طرح اوھمے صدیوں تک زندہ رہتے ہیں۔ یہ پتھر کا ”مرغیوں کا دیوتا” پتھر
کے زمانے کی نشانی ہے۔ پھر بھی یہ بیسویں صدی کی ابتدا تک زندہ تھا۔
انوکھا ذخیرہ
جب عورتیں اپنی کدالوں سے زمین کھودنے گوڑنے کا کام تھیں کا کام کرتی تھیں
تو مرد بھی بے کار نہیں بیٹھتے تھے۔ وہ شکار میں وقت گذارتے تھے اور شام کو
دیر میں اپنی حاصلات سے لدے پھندے لوٹتے تھے۔
جب بچے اپنے بڑے بھائیوں اور باپوں کو واپس آتے دیکھتے تو وہ ان سے ملنے کے
لئے اور یہ جاننے کے لئے دوڑ پڑے کہ شکار کا میاب رہا یا نہیں۔ وہ خونیں
جنگلی سور کے سر کو جس کے ٹیڑھے دانت منہ سے باہر نکلے ہوتے یا بارہ سنگھے
کی شاخدار سینگوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھتے۔لیکن سب سے زیادہ وہ تب خوش
ہوتے تھے جب شکاری زندہ جانور لاتے تھے خصوصاًچھوٹے موٹے میمنے یا کوئی
سیدھا سادہ بے سینگ والا بچھڑا۔
شکاری اپنے شکار کو فوراً نہیں مار ڈالتے تھے۔ ان کو باڑ کے اندر رکھ کر
کھلایا پلایا جاتا تھا تاکہ وہ بڑے ہو جائیں۔ جب گھر کے قریب میمنوں اور
بچھڑوں کے ممیانے کی آواز آتی تو شکاروں کو بڑا سکون ہوتا۔ ان کو یقین ہوتا
کہ وہ بھوکے نہیں رہیں گے چاہے وہ شکار سے خالی ہاتھ ہی کیوں نہ لوٹیں۔ اس
طرح وہ باڑ میں ذخیرہ کرتے اور یہ ذخیرہ خود سے بڑھتا اور اس کی تعداد میں
اضافہ ہوتا۔
پہلے پہل تو لوگ مویشیوں کو گوشت اور کھال کے لئے رکھتے تھے۔ وہ اس زبردست
فائدے سے واقف نہ تھے جو مویشی پالن سے ہو سکتا تھا۔ وہ ان کھروں والے
جانوروں کو محض اپنا شکار سمجھتے تھے اور وہ اپنے شکارکو مارنے کے عادی
تھے۔ ان کے لئے یہ سمجھنا آسان نہ تھا کہ کسی گائے یا بھیڑ کو مارنے سے
زیادہ اس کا پالنا مفید تھا۔
گائے کو مارا توایک ہی بار جا سکتا ہے لیکن اس کا دودھ برسوں تک پیا جا
سکتا ہے۔ اگر وہ گائے کو نہ ماریں توآخر میں ان کو زیادہ گوشت بھی ملے گا
کیونکہ گائے ہر سال بچہ دیتی ہے۔
یہی صورت بھیڑ کی بھی تھی۔ مردہ بھیڑ کی کھال نکالنا کوئی ایسا مشکل مسئلہ
نہ تھا۔ لیکن بھیڑ کی کھال تو اتنی مفید نہ تھی۔ بھیڑ کی کھال رہنے دینا
اور اس کا اون کتر لینا زیادہ مفید تھا کیونکہ ہر مرتبہ کترنے کے بعدکھال
پر نیا اون نکل آتا تھا۔ اس طرح لوگ ایک بھیڑ سے دس کوٹ حاصل کر سکتے تھے۔
یہ اچھا تھا کہ وہ ا پنے چوپایہ قیدیوں کی جان بخشی کر دیں اور ان سے خراج
وصول کر لیا کریں۔
جب آدمی گائے بھیڑ اور گھوڑے کو پالنے لگا تو اس نے ان کو اپنی مرضی کے
مطابق پرورش کرنا شروع کیا۔ وہ اس بات کی دیکھ بھال کرتا کہ ان کو اچھی طرح
چارا پانی ملے اور وہ دوسری سے بچے رہیں۔ لیکن گائے کیلئے زیادہ دودھ دینے
کی ضرورت تھی کیونکہ اس کو اب صرف اپنے بچھڑے کو نہیں بلکہ مالکوں کے لئے
بھی دودھ دینا تھا۔ رفتہ رفتہ گھوڑے نے بھی بھاری بوجھ لے جانا سیکھ لیا۔
اب بھیڑ سے بھی اتنا کافی اون ملنے لگا جو خود ا س کے لئے اور اس کے مالکوں
کے لئے کافی ہو۔
صرف سب سے زیادہ دودھ دینے والی گائیں، سب سے زیادہ مضبوط گھوڑے اور سب سے
لمبی اون والی بھیڑیں گلے میں رکھی جاتیں۔ اس طرح پالتو جانوروں کی نئی
نسلیں وجود میں آئیں۔
لوگ یہاں تک یک دم نہیں پہنچ گئے۔ شکاری کو مویشی پالنے والا بننے میں
صدیوں لگے۔
اور پھر اس کا انجام کیا ہوا؟
آدمی نے ایک انوکھا ذخیرہ دریافت کیا۔ جمع کیا ہوا اناج وہ زمین میں چھپا
دیتا اور زمین اور کو ہر دانے واپس کر دیتی۔
اب آدمی ان سب جانوروں کو نہیں مارتا تھا جو وہ پکڑتا تھا۔ جو جانور باقی
رہ جاتے تھے وہ بڑھتے تھے او ران کی تعداد میں اضافہ ہوتا تھا۔
اب آدمی زیادہ آزاد ہو گیا۔ قدرت کا وہ اتنا محتاج نہ رہا۔ پہلے اس کو نہیں
معلوم ہوتا تھا کہ آیا وہ کسی جانور کا پتہ لگا کر اس کو مار بھی سکے گا
یا نہیں، آیا اس کو اپنی ٹوکریاں بھرنے کے لئے کافی اناج مل سکے گا یا
نہیں۔ قدرت کی پراسرار طاقتیں اس کو کھانا دیں گے بھی یا نہیں۔ اب آدمی نے
قدرت کی مدد کرنا سیکھ لیا یعنی اس نے خود اناج اگانا، اپنی گائیں اور
بھیڑیں پالنا سیکھ لیا۔ اب عورتوں کو دانے والی گھاسوں کی تلاش میں جانا
نہیں پڑتا تھا۔ شکاریوں کو جنگلوں کی کئی کئی دن تک خاک چھان کر جنگلی
جانوروں کی تلاش نہیں کرنی پڑتی تھی۔
اب اناج کی بالیاں گھر کے قریب جھومتی تھیں اور گائیں اور بھیڑیں بھی پڑوس
میں چرتی رہتی تھیں۔
آدمی نے ایک انوکھا ذخیرہ دریافت کر لیا تھا۔ لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہ سب
یک دم نہیں ہوا تھا۔ اس کے لئے اس کو محنت کرنی پڑی تھی۔
اس کو اپنے کھیتوں اور چراگاہوں کے لئے زمین کی ضرورت تھی۔ اس زمین کو جنگل
سے حاصل کرنا تھا اور اناج بونے سے پہلے اس کو توڑنا تھا۔ کتنی سخت محنت
تھی یہ!
آدمی کو قدرت سے اس طرح آزادی اور نجات نہیں ملی کہ وہ محض ٹہل کر باہر نکل
آیا۔ اس کو بزور اپنا راستہ بنانا پڑا، ہزاروں رکاوٹوں کو دور کرنا پڑا۔
اس کی نئی محنت اپنی خوشیوں اور فکروں سے بھرپور تھی۔ سورج فصل کو جھلسا
دیتا تھا، وہ چراگاہوں میں گھاس کو سکھا سکتا تھا۔ زیادہ بارش اناج کو سڑا
دیتی تھی۔
قدیم زمانے کا شکاری ارنا بھینسے یا ریچھ سے اپنا گوشت دینے کی التجا کرتا
تھا اور قدیم زمانے کا کسان زمین، آسمان، سورج اور بارش سے اچھی فصل دینے
کی التجا کرتا تھا۔
لوگ نئے نئے دیوتا بناتے تھے۔ یہ دیوتا بھی بہت کچھ پرانے دیوتائوں کی طرح
تھے۔ یہ بھی پرانی روایتوں کے مطابق روایتوں کے مطابق جانوروں کی شکل میں
یا جانوروں کے سر رکھنے والے آدمیوں کی شکل میں بنائے جاتے تھے۔ لیکن ان
جانوروں کے نئے نام اور نئے مقاصد ہوتے تھے۔
ایک کا نام آسمان تھا تو دوسرے کا نام سورج اور تیسرے کو زمین کہتے تھے۔ یہ
دیوتا روشنی، تاریکی، بارش اور خشک سالی کے ذمہ دار تھے۔
دیوزار آدمی بڑا ہو گیا تھالیکن اس کو ابھی اپنی طاقت کا شعور نہیں ہوتا۔
اس کو اب بھی یہ یقین تھا کہ اس کی روٹی آسمان کا تحفہ ہے، اس کی اپنی محنت
کا نتیجہ نہیںہے۔
وقت کے قدم آگے بڑھتے رہے
آئو اب ہم وقت کے ساتھ کئی ہزار سال آگے چلیں۔ اس وقت موجودہ دور میں اور
اس زمانے میں صرف 50صدیوں کا فرق رہ جائے گا۔
50 صدیاں! یہ توبڑی لمبی مدت ہے جب ہم کسی آدمی کی زندگی کا ذکر کرتے ہیں،
حتی کہ کسی قوم کی زندگی میں بھی۔لیکن یہان ہم کسی ایک آدمی کا ذکر تو نہیں
کر رہے ہیں۔ ہم تو پوری نوع انسان کی بات کر رہے ہیں۔
نوع انسان کی عمر تقریباً دس لاکھ سال ہے۔ اسی لئے 50 صدیاں کوئی بڑی مدت
نہیں ہوئیں۔
اس طرح وقت کے قدم آگے بڑھے۔ زمین نے سورج کے گرد کئی ہزار چکر اور کر لئے۔
اس دور میں دنیا میں کیا ہوا ؟ دنیا پر سرسری نظر ڈالنے ہی سے یہ کہا جا
سکتا ہے کہ چوٹی پر وہ ذرا گنجی ہو گئی۔
ایک زمانہ تھا جب اس کی برف کی سفید ٹوپی کے گرد گھنے ہرے بھرے جنگل تھے۔
اب جنگل چھدرے ہو گئے تھے اور بڑے بڑے اسیتپ کے علاقے ان میں گھس آئے تھے۔
دریائوں اور جھیلوں کے قریب جنگل پیچھے ہٹ گئے تھے اور ان کی جگہ سرکنڈوں
اور جھاڑیوں نے لے لی تھی۔
لیکن دریا کے موڑ کے قریب پہاڑی پر کیا چیز ہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے
ڈھلان پر کوئی سنہرا رومال پھیلا ہوا ہے۔
یہ زمین کا وہ قطعہ ہے جس کو آدمی کے ہاتھوں نے بدل ڈالا ہے۔ سنہری بالیوں
کے درمیان عورتوں کی جھکی ہوئی کمریں دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کی درانتیاں
تیزی سے چل رہی ہیں، وہ فصل کاٹ رہی ہیں۔
ہزاروں سال پہلے ہم نے ہتھوڑے کو پہلی بار کام کرتے دیکھا تھا۔ لیکن اب
پہلی بار درانتی دیکھ رہے ہیں۔ یہ ان درانتیوں کی طرح بالکل نہیں ہے جو ہم
آج دیکھتے ہیںکیونکہ یہ پتھر اورلکڑی سے بنائی گئی ہے۔ پتھر کی درانتی اور
لکڑی کا دستہ۔
اور جو کھیت ہم دیکھ رہے ہیں وہ دنیا کا پہلا کھیت ہے۔ دنیا کے زبردست اور
وسیع ویرانے میں ایسے سنہرے رومال شاید چند ہی ہوں گے۔
گھاس پھوس اناج کو ہر طرف سے گھیرتا ہے کیونکہ آدمی نے ابھی ان کے خلاف
لڑنا نہیں سیکھا ہے۔ پھر بھی اناج کی بالیاں آخر میں جیتتی ہیں۔ وہ وقت بھی
آئے گا جب سنہرے کھیت جگہ جگہ زمین کو سونے کے سمندر کی طرح ڈھک لیں گے۔
فاصلے پر دریا کے قریب ہری بھری چراگاہ میں ہم چھوٹے سفید اور رنگ برنگ
دھبوں والی شکلوں کا غول دیکھتے ہیں۔ وہ ادھر ادھر حرکت کرتا ہے، کبھی پھٹ
جاتا ہے اور کبھی ایک ہو جاتا ہے۔
بعض شکلیں دوسروں سے بڑی ہیں۔ ہاں یہ گایوں، بکریوں اور بھیڑوں کا گلہ ہے۔
ابھی یہ جانور بہت کم تعداد میں ہیں جن کا آدمی نے پالن پوسن کیا ہے اور
اپنی کوششوں سے ان میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ لیکن یہ اپنے جنگلی رشتے داروں
کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جن کو اپنی دیکھ بھال خود کرنی پڑتی
ہے۔
دو تین ہزار سال میں دنیا میں پالتو گایوں اور بیلوں کے مقابلے میں جنگلی
بھینسوں کی تعداد بہت کم رہ جائے گی۔
اگریہاں کھیت اور گلہ ہے تو قریب ہی کوئی بستی بھی ضرور ہو گی۔ اور دریا کے
اونچے کنارے پر بستی بھی موجود ہے۔ یہ پہلے شکاری پڑائوں کی طرح نہیں ہے۔
یہاں کھمبوں اور شاخوں کی بنی ہوئی جھونپڑیاں نہیں ہیں۔ ان کی بجائے یہاں
سچ مچ کے لکڑی کے گھر اور ڈھلواں تکونی چھتیں ہیں۔ دیواریں مٹی سے لپی ہوئی
ہیں۔ دروازے کے اوپر ایک شہتیر نکلا ہوا ہے جس کے سرے پر ایک بیل کا سر
بنا ہے، یہ اس گھر کی نگرانی کرنے والا دیوتا ہے۔ پوری بستی ایک اونچی باڑ
اور مٹی کی فصیل سے گھری ہوئی ہے۔
ہوا میں دھوئیں، کھاد اور تازہ دودھ کی مہک ہے۔
گھروں کے قریب بچے کھیل رہے ہیں۔ سورنیاں اور ان کے بچے قریب کیچڑ میں لوٹ
رہے ہیں۔ کھلے دروازے سے چولہا نظر آتا ہے۔ ایک بوڑھی عورت روٹیاں سینک رہی
ہے۔ وہ گندھا ہوا آٹا گرم راکھ پر اس کو مٹی کے برتین سے ڈھک دیتی ہے۔ یہ
اس کا تنور ہے۔ اس کے پاس ہی ایک بنچ پر لکڑی کے پیالے اور گلاس رکھے ہیں
جو لکڑی کو کھوکھلا کر کے بنائے گئے ہیں۔
آئو گائوں سے دریا کی طرف جائیں۔ کنارے کے اتھلے پانی میں لکڑی کو کھوکھلا
کر کے بنائی ہوئی ڈونگی ہلکورے لے رہی ہے۔ اس میںپانی بھرا ہے۔ اگر ہم دریا
میں اوپر کی طرف اس جھیل کو جائیں جس سے یہ دریا نکلا ہے تو وہاں ایک اور
گائوں ملے گا لیکن وہ اس گائوں سے مختلف ہو گا جس سے ہو کر ہم آئے ہیں۔
دوسرا گائوں ایک جزیرے کی طرح ہے۔
پہلے جھیل کی تہہ میں کھمبے گاڑے گئے۔ پھر ان کھمبوں پر لٹھے لگائے۔ گئے
اورلٹھوں پر تختے بچھائے گئے۔ لمبے جھولتے ہوئے پل اس چوبی جزیرے کو کنارے
سے ملاتے ہیں۔ گھروں کی دیواروں پر مچھیروں کے جال اور دوسرا سامان وغیرہ
سوکھ رہا ہے۔ غالباً جھیل میں مچھلیوں کی افراط ہے۔ لیکن اس گائوں کے لوگ
صرف مچھیرے نہیں ہیں۔ گھروں کے درمیان یہاں وہاں ہم کو اناج کے گول گودام
دکھائی دیتے ہیں جن کی چھتیں نوکیلی ہیں۔ یہ گودام شاخوں کو آپس میں بن کر
تیار کئے گئے ہیں۔ ان کے قریب گایوں کے باڑے ہیں۔
حالانکہ یہ قدیم بستی ہمارے تصور میں بالکل حقیقی لگتی ہے لیکن یہ زمانہ
ہوا غائب ہو چکی ہے۔ پانی گھروں کو ڈبو چکا ہے۔ ان گھروں کے کھنڈرات ہم
جھیل کی تہہ میں کیسے پا سکتے ہیں؟ یہ تو بالکل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن کبھی
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھیل سوکھ جاتی ہے اور اس کے صدیوں کے راز ہمارے
سامنے آجاتے ہیں۔
جھیل کی کہانی
1853 میں سوئٹزرلینڈ میں زبردست خشک سالی ہوئی۔ وادیوں میں دریا سوکھ گئے
جھیلوں کا پانی خشک ہوکر کناروں سے پیچھے ہٹ گیا اور اس کی ریت اورکیچڑ سے
بھری تہہ باہر نکل آئی۔ شہر اوبر میئلین میں جوجھیل زیورخ کے کنارے واقع ہے
لوگوں نے خشک سالی سے فائدہ اٹھا کر جھیل سے ایک قطعہ زمین حاصل کرنا
چاہا۔
اس کا یہ مطلب تھا کہ ان کو اس خشک پٹی کے آر پار ایک بند بنانا تھا جو
پانی ہٹ جانے سے ملی تھی اور باقی جھیل سے اس پٹی کو الگ کرنا تھا۔
کام شروع ہو گیا۔ جہاںپہلے لوگ اتوار کے دن نیلی اور ہری کشتیوں میں کشتی
رانی کے لئے آیا کرتے تھے وہاں بند بنانے کے لئے قطار در قطار مٹی کے ٹھیلے
چلے آرہے تھے اور گاڑی بانوں کا غل شور سنائی دے رہا تھا۔ انہوں نے بند کے
لئے مٹی بھی جھیل کی تہہ ہی سے حاصل کی جو غیر متوقع طو رپر خشک ہو گئی
تھی۔ اچانک ایک پھائوڑا سڑے ہوئے کھمبے پر پڑا۔اس کے قریب ان کو دوسرا اور
تیسرا کھمبا بھی ملا۔ ظاہر تھاکہ لوگوں نے یہاں پہلے بھی کام کیا تھا۔
کھدائی میں ہر پھائوڑے کی مٹی کے ساتھ پتھر کی کلہاڑیاں، مچھلیاں پکڑنے کے
کانٹے اور کوزوں کے ٹکڑے نکلنے لگے۔ ماہرین آثار قدیمہ جلد ہی وہاں پہنچ
گئے۔ انہوں نے جھیل کی تہہ سے نکلے ہوئے ہر کھمبے اور ہر چیز کا مطالعہ کر
کے کاغذ پر اس گائوں کا نقشہ تیار کرلیا جو کسی زمانے میں جھیل زیورخ کے
کنارے پر واقع تھا۔
اس طرح کے گائوں کے کھنڈرات جو تختوں پر بنے تھے اور چوبی کھمبوں پر ٹکے
تھے ماسکو کے قریب دریائے کلیاز ما اور موروم کے قریب دریائے ویلیتما پر
پائے گئے۔ وہاں سے جو چیزیں دستیاب ہوئیں ان میں مچھلیوں کی ہڈیاں، مچھلیوں
کے شکار کے لئے برچھے اور کانٹے تھے۔
ماہرین آثار قدیمہ نے حال میں سوئٹزرلینڈ کی جھیل نیو شاٹیل کا بھی جائزہ
لیا۔ انہوں نے جھیل کی تہہ کے نمونے لئے اور معلوم کیاکہ یہ تہہ کئی پرتوں
پر مشتمل ہے۔
جیسے کسی سموسے میں اوپر کا چھلکا اس چیز سے جدا کرنا آسان ہے جو اس میں
بھری ہوتی ہے اسی طرح یہاں بھی جھیل کی تہہ کی پرتوں سے صاف نظر آتا تھا کہ
کہاں سے وہ شروع ہوتی ہیں اورکہاں ختم ہوتی ہیں۔ تہہ کی نیچی پرت ریت کی
تھی، اسی کے اوپر ریت اور مٹی ملی ہوئی ملی ہوئی گاد کی تہہ تھی جس میں
انسانی رہائش گاہوں، گھریلو اور سازو سامان اور اوزاروں کی باقیات پائی
گئیں۔ پھر اس کے اوپر ریت کی ایک اور تہہ تھی۔ اسی طرح ان پرتوں کی ساخت
کئی مرتبہ دھرائی گئی تھی۔ ایک اور تہہ تھی۔ اسی طرح ان پرتوں کی ساخت کئی
مرتبہ دھرائی گئی تھی۔ ایک جگہ ریت کی دو پرتوں کے درمیان کوئلے کی ایک تہہ
تھی۔
یہ سب تہیں کیسے بنیں؟
پانی تو صرف ریت ہی جمع کر سکتا تھا۔یہ کوئلہ کہاں سے آیا؟
یہ تو صرف آگ ہی سے آسکتا تھا۔
ان تہوں کاکافی غور سے جائزہ لینے کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے جھیل کی
تاریخ کے بارے میں معلوما ت حاصل کیں۔ کسی بہت دور کے زمانے میں لوگ جھیل
پر آئے اور انہوں نے اس کے کنارے ایک بستی بسائی۔ پھر بہت سال بعد جھیل میں
سیلاب آیا اور وہ کناروں پر چڑھ آئی۔
لوگ نے سیلاب زدہ گائوں کو چھوڑ دیا۔ مکانات وغیرہ پانی میں سڑ کر گر گئے۔
جہاں کبھی شہتیروں کے نیچے ابابیلیں اپنے گھونسلے بناتی تھیں وہاں چھوٹی
چھوٹی مچھلیاں ادھر ادھر تیرنے لگیں۔ تیز دانتوں والی مچھلی جل ویادھ وہاں
آہستہ آہستہ تیرنے لگی جہاں کسی زمانے میں ایک گھر کا دروازہ کیکڑا اپنے
چنگل اس بنچ کے نیچے گھمانے لگا جو کسی زمانے میں چولھے کے پاس پڑی تھی۔
جلد ہی یہ کھنڈرات گاد کی ایک تہہ سے ڈھک گئے اور پھر ان پرریت دوڑ گئی۔
رفتہ رفتہ جھیل بھی بدل گئی۔ پانی کناروں سے ہٹ گیا اور تہہ نکل آئی۔ ریت
کا ٹیلا بھی جس پر گائوں آباد تھا۔ پانی سے نکل آیا۔ لیکن گائوں کہیں نہیں
تھاکیونکہ اس کھنڈرات ریت کی گہرائیوں میں دفن ہو چکے تھے۔
اب لوگ پھر جھیل کے کنارے آئے۔ کلہاڑیوں کی آواز ہوا میں گونجنے لگی۔لکڑی
کی اور چھپٹیاں سنہری ریت پر بکھر گئیں۔ پانی کے قریب یکے بعد دیگر ے
مضبوط، نئے مکان بلند ہونے لگے۔
لوگوں اور جھیل کے درمیان لڑائی جاری رہی۔ کبھی ایک جیت جاتا تو کبھی
دوسرا۔ لوگ مکانات بناتے اورجھیل ان کو تباہ کر دیتی۔
آخر کار لوگ لڑائی سے تھک گئے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اب پانی کے
کنارے مکانات بنانے کی بجائے پانی کے اوپر بنائیں گے۔ انہوں نے بڑے بڑے
کھمبے جھیل کی تہہ میں اتار دئے۔ تختوں کی دراڑوں کے درمیان ان کو پانی دور
نیچے ہلکورے لیتا نظر آتا تھا۔ لیکن وہ اب ان کو پریشان نہیں کرتا تھا۔ وہ
چاہے جتنا اٹھتا لیکن تختوں تک نہیں پہنچتا تھا۔
بہر حال جھیل کے لوگوں کا ایک اور بھی دشمن تھا۔ یہ تھی آگ۔
قدیم زمانے کا غار کا آدمی آگ سے نہیں ڈرتا تھا کیونکہ اس کے غار کی پتھر
کی دیواروں کو آگ جلا نہیں سکتی تھی۔
لیکن پہلے چوبی مکانوں کی تعمیر کے بعد ہی مکانوں میں آگ لگنا شروع ہوئی۔
یہ شعلہ بار جانور جس نے ہزاروں سال انسان کی فرمانبرداری کے ساتھ خدمت کی
تھی اب دانت دکھانے لگا تھا۔
جھیل نیوشاٹیل کی تہہ میں کوئلے کی جو موٹی تہہ ملی تھی دراصل کسی قدیم
آتشزدگی کا نتیجہ تھی۔
یہ کیسی مصیبت تھی! لوگ اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر پانی میں کود گئے
مویشی باڑوں میں چلا رہے تھے لیکن ان کو کھول کر نکالنے کا وقت ہی نہ تھا۔
لکڑی کا پورا گائوں ایک زبردست الائو کی طرح جل رہا تھا اور ہر طرف
چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔
یہ آگ واقعی بڑی تباہ کن تھی۔
لیکن جس آگ نے گائوں والوں کے گھر تباہ کئے اسی نے ہمارے میوزیموں کے لئے
بیش بہا چیزیں محفوظ کر دیں۔ یہ تھے چوبی برتن، مچھلی پکڑنے کے جال، حتی کہ
اناج کے دانے اور پودوں کے تنے۔
یہ یک یا معجزہ تھا کہ ایسی چیزیں محفوظ رہیں جو سب سے تیزی سے جلتی ہیں؟
ہوا یہ کہ جب بہت سی چیزوں میں آگ لگی تو وہ پانی میں گر گئیں۔ پانی نے ان
کو بچا لیا کیونکہ آگ بجھ گئی اور یہ چیزیں بلا کسی نقصان کے تہہ میں بیٹھ
گئیں۔ یہاں ان کو ایک نئے خطرے کا سامنا تھا، پانی میں سڑ جانے کا۔ لیکن وہ
اس سے بھی محفوظ رہیں کیونکہ وہ جھلس چکی تھیں اوراوپر کی پتلی، جلی ہوئی،
کوئلے کی تہہ نے ان کو سڑنے سے بچایا۔
اگر پانی اور آگ نے اپنا کام الگ کیا ہوتا یہ چیزیں قطعی تباہ ہو جاتیں۔
لیکن ایک ساتھ کام کرکے انہوں نے ایسی نازک چیزوں کوجسے سن سے بنے ہوئے ایک
چیتھڑے کو بچھا لیا جو ہزاروں سال پہلے بنا گیا تھا۔
پہلا کپڑا
پہلی بار کپڑا ہاتھ سے بنا گیا۔
آج بھی اسکیمو لوگ بنائی کے لئے کر گھا نہیں استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپناکپڑا
ہاتھ سے بنتے ہیں۔ وہ تانے کے لمبے دھاگے ایک فریم میں لگا دیتے ہیں پھر
بانے کے دھاگے ان بیچ میں ہاتھ سے نکال کر بنتے ہیں۔ وہ کوئی نلی نہیں
استعمال کرتے ہیں۔
دھاگوں کے اس چھوٹے سے چوبی فریم کا مقابلہ جدید کر گھوں سے کرنا ممکن نہیں
ہے لیکن جدید کرگھے کی ابتدا اسی سادے چوبی فریم سے ہی ہوئی۔
جلا اور سیاہ چیتھڑا جو جھیل کی تہہ میں پایا گیا ہمیں آدمی کی زندگی کا
ایک اہم واقعہ بتاتا ہے۔ جس آدمی نے ابھی تک جانوروں کی کھال کے لباس پہنے
تھے اب اس نے اپنے کھیت سے حاصل کئے ہوئے سن سے لباس تیار کیا تھا۔
اس سوئی کو جو کپڑے کی ایجاد سے ہزاروں سال پہلے پیدا ہوئی تھی اب جاکر
زندگی میں صحیح جگہ ملی تھی۔ اب اس نے جانوروں کی کھالوں کو نہیں بلکہ کپڑے
کے ٹکڑوں کو سینا شروع کر دیا۔
خوبصورت نیلے پھولوں والا سنئی کا کھیت اب عورتوں کے لئے زیادہ دیکھ بھال
اور فکر کا سبب بن گیا۔
ان کے ہاتھ کٹائی سے تھکے ہوتے لیکن سنئی اکھاڑنے کا وقت آجاتا۔پہلے ان کو
ہر پودے کو جڑوں سے اکھاڑناپڑتا۔ پھر اس کو سکھایا اور دھویا جاتا اور
دوبارہ سکھایا جاتا۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ سوکھی ہوئی سنئی کو
کوٹنا، اس کے ریشے نکالنا اور ان کو سلجھاناپڑتا۔ اب یہ دھلے اور سلجھے
ہوئے ریشے روسی گائوں کے بچوں کے بالوں کی طرح روپہلے اور تیار ہوتے ۔ اب
تکلیاں کتائی کرتیں اور دھاگا تیار کرتیں۔ جب دھاگا تیار ہوجاتا تو کپڑا
بنا جاتا ہے۔
کپڑا تیار کرنے کے لئے بہت کام کرنا پڑتا لیکن عورتوں کو خوبصورت رومال،
پیش بند اور لہنگے ملنے لگے جن کی گوٹ کناریاں رنگا رنگ ہوتیں اور یہ سب ان
کی مصیبتوں کا معاوضہ بن جاتیں۔
پہلے کانکن اور دھاتسار
آج کل گھر گھر ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو ایسے مصنوعی مادوں سے بنی ہیں
جو قدرتی طور پر نہیں پائے جاتے۔
قدرت کے پاس اینٹ تھی اورنہ چینی، نہ ڈھلا لوہا تھا نہ کاغذ۔ چینی کے برتن
اور ڈھلے ہوئے لوے کی مصنوعات کے لئے آدمی کو ایسی اشیا استعمال کرنی تھیں
جوقدرتی طورپر پائی جاتی ہیں اوران کو اس طرح تبدیل کرنا تھا کہ وہ پہچانی
بھی نہ جا سکیں۔ کیا ڈھلا ہوا لوہا اسی خام لوہے کی طرح ہوتا ہے جس سے وہ
صاف کر کے بنایا جاتا ہے؟ کیا ہم کسی نفیس، شفاف چینی کے پیالے کو دیکھ کر
اس بھدی مٹی کا تصور کر سکتے ہیں جس سے وہ بنایا گیا ہے؟
توپھر کنکریٹ، سیلوفین، مصنوعی ریشم اور مصنوعی ربر کے بارے میں میں کیا
خیال ہے؟ کیا پہاڑوں میں تم کو کبھی کوئی کنکریٹ کی پہاری بھی مل سکتی ہے؟
اور وہ کون سا ریشم کا کیڑا ہے جو لکڑی سے ریشم بنا سکتا ہو؟
مادے پر کنٹرول حاصل کر کے انسان نے قدرت کے زیادہ سے زیادہ رازوں کا
انکشاف کیا۔ اس نے ایک پتھر کو دوسرے سے رگڑ کر تیز کرنے سے ابتدا کی اور
اب وہ سالموں پر حکم چلاتا ہے جو ایسے چھوٹے ذرات ہیںجن کو وہ خود بھی نہیں
دیکھ سکتا۔
یہ عمل مدتوں ہوئے شروع ہوا تھا، اس زمانے سے بہت پہلے جب کیمیا یعنی مادے
کی سائنس کی متعلق معلومات حاصل کی گئیں۔ آدمی نے ٹٹول ٹٹول کر یہ سمجھے
بغیر کہ وہ کیا کر رہا ہے مادے کو تبدیل کرنا سیکھا۔
جب پہلے کمھاروں نے اپنے مٹی کے برتن پکائے تو وہ غیر شعوری طور پر مادے پر
کنٹرول حاصل کر رہے تھے۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ تم مادے کے انتہائی
چھوٹے ذرے کو اپنے ہاتھوں سے تبدیل نہیںکر سکتے یا اس کو اپنے ہاتھوں کی
شکل نہیں دے سکتے جیسا کہ پتھر کو کرتے ہو۔ یہاں آدمی کو اپنے ہاتھوں کی
طاقت کے علاوہ کسی اور طاقت کی ضرورت تھی، ایسی طاقت کی جو مادے کو تبدیل
کر سکے۔
اور جب آدمی نے آگ کو اپنا مدد گار بنایا تو اس کو یہ طاقت مل گئی۔ آگ مٹی
کو پکاتی تھی، آٹے کو روٹی میں تبدیل کر دیتی تھی۔ آگ تانبے کو پگھلاتی
تھی۔
ہم جھیلوں کی تہوں میںپتھر کے اوزاروں کے علاوہ تانبے کے اوزار بھی پاتے
ہیں۔
اس آدمی نے جو ہزاروں سال تک پتھر کے اوزار بناتا رہا یک دم دھات کے اوزار
بنانا کیسے سیکھ لئے؟ اور اس کو دھات کہاں سے ملی؟
میدانوں اور جنگلوں میں چلتے ہمیں خالص تانبے کا کوئی ٹکڑا کبھی نہیں ملتا۔
خالص تانبا تو آجکل بہت نایاب ہے۔لیکن ہمیشہ ایسا نہ تھا۔ ہزاروں سال پہلے
اب سے کہیں زیادہ تانبا تھا۔ وہ تو دراصل پیروں کے نیچے پڑا رہتا تھا لیکن
لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ چقماق پتھر سے اپنے اوزار بناتے
تھے۔
انہوں نے اس تانبے کی طرف اس وقت تک توجہ نہیں کی جب تک ان کو چقماق پتھر
کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ اس کمی کی ذمے داری خود لوگوں پر تھی کیونکہ انہوں
نے چقماق پتھر کو کبھی کفایت سے استعمال نہیں کیا۔ جب انہیں کوئی نیا
اوزار بنانا ہوتا تو وہ چقماق پتھر کا ایک بڑا ٹکڑا لے کر اس کو کاٹنا شروع
کرتے یہاں تک کہ اس سے بس ایک چھوٹا سا اوزار بن جاتا۔ رہائش گاہوں کے
چاروں طرف پتھر کے ٹکڑوں کے بڑے بڑے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ جو اوزار بنانے کے
لئے بیکار تھے۔ آج بھی ہم کہیں بھی لکڑی کی چھیلن کے ڈھیر دیکھ کر بتا سکتے
ہو کہ یہاں بڑھئی کی دو کان ہے۔
ہزاروں برسوں کے دوران میں چقماق پتھر کے بڑے بڑے ذخیرے کم پڑ گئے۔ بہت سے
ملکوں میں تو ان کا قحط پڑ گیا۔ یہ بڑی مصیبت تھی۔ ذرا سوچو کہ اگر کافی
لوہا نہ ہو تو ہماری فیکٹریوں اور کارخانوں کا کیا حشر ہو گا۔ جب سطح زمین
کے قریب والے ذخیرے خرچ ہو جاتے ہیں تو کچ دھات کی تلاش میں کان کنون کو
زیادہ گہرائیوں میں کھودنا پڑتا ہے۔
بالکل یہی قدیم زمانے کے لوگوں کو بھی کرنا پڑا۔ انہوں نے کانیں کھودنا
شروع کیں جو دنیا کی پہلی کانیں تھیں۔
ہمیں کبھی کبھی کھریا مٹی کے ذخیروں میں ایسی قدیم کانیں ملتی ہیں کیونکہ
چقماق پتھر اور کھریا مٹی اکثر ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔
اس زمانے میں سطح زمین سے دس یا بارہ میٹر نیچے کام کرنا بہت ہی خوفناک
ہوتا تھا۔لوگ کانوں کے اندر رسی یا کسی دندانے کٹے ہوئے ستون کے ذریعے
اترتے تھے۔ نیچے اندھیرا اور دھواں دھار ہوتا تھا۔ لوگ لکڑی کی مشعل یا قبل
کے کسی چھوٹے سے لیمپ کی روشنی میں کام کرتے تھے۔ آج کانوں اور سرنگوںکو
لٹھے لگا کر محفوظ کر دیاجاتا ہے لیکن اس زمانے میں تہہ زمین سرنگوں کی
دیواروں اور چھتوں کو مضبوط اور محفوظ بنانے کے بارے میںکوئی معلومات نہ
تھیں۔ اکثر چٹان کا کوئی زبردست ٹکڑا ڈھیلا ہو کر گر جاتا اورکان کنوں کو
دفن کر دیتا۔ چقماق پتھر کی قدیم کانوں میں دبے ہوئے کان کنوں کے ڈھانچے
کھریا مٹی کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے نیچے پائے گئے ہیں۔ ڈھانچوں کے قریب ان کے
اوزار بھی تھے۔ بارہ سنگھوں کی سینگوں کی کدالیں۔
ایسے دو ڈھانچے ایک ہی سرنگ میں پائے گئے۔ ایک تو بڑے آدمی کا تھا اور
دوسرا بچے کا۔ غالباً کوئی باپ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لایا تھا اور وہ دنوں
پھر کبھی گھر نہیں لوٹے۔
جوں جوں صدیاں گذرتی گئیں چقماق کی کمی اورکان کنی سخت ہوتی گئی۔ بہر حال،
قدیم زمانے کے آدمی کو چقماق پتھر کی ضرورت تھی۔ اسی سے اس کی کلہاڑیاں،
چاقو اور کدالیں بنتی تھیں۔
اس کو چقماق پتھر کی جگہ کسی اور چیز کی دریافت کی سخت ضرورت تھی۔
اور پھر خالص تانبے نے لوگوں کی مدد کی۔ انہوں نے اس کی طرف زیادہ توجہ کی۔
یہ سبز پتھر کیا ہے اور کیا یہ کسی چیز کے لئے استعمال ہو سکتا ہے؟
جب لوگوں کو خالص تانبے کا کوئی ٹکڑا مل جاتا تو وہ اس کو ہتھوڑے سے پیٹتے
کیونکہ ان کا خیال تھاکہ تانبا بھی پتھر ہے اور وہ اس کو چقماق پتھر کی طرح
استعمال کرنا چاہتے تھے۔ پتھر کے ہتھوڑے کی چوٹیں تانبے کو اور سخت کر
دیتیں او راس کی ساخت بدل ڈالتیں۔ لیکن اس کو پیٹنے کا بھی خاص طریقہ تھا۔
اگر چوٹیں بہت سخت ہوتیں تو تانبا بھر بھرا ہو کر ٹکڑوں میں ٹوٹ جاتا ہے۔
اس طرح آدمی نے پہلی بار دھات کو پیٹنا اور گڑھنا شروع کیا۔ یہ سچ ہے کہ یہ
ٹھنڈی گڑھائی تھی۔ لیکن ٹھنڈی گڑھائی سے گرم گڑھائی تک زیادہ فاصلہ نہ تھا
۔
کبھی کبھی یہ ہوتا کہ خالص تانبے یا خام تانبے کا کوئی ٹکڑا آگ میں جا
گرتا۔ یا شاید آدمی اس کو اسی طرح پکانے کی کوشش کرتا جیسے وہ اپنے مٹی کے
برتن پکاتا تھا۔ جب آگ بجھتی تو راکھ اور چولھے کے کنارے لگے ہوئے پتھروں
کے درمیان تانبے کا پگھلا ڈلا نظر آتا۔
لوگ حیرت سے اس معجزے کو دیکھتے جو انہوں نے کر دکھایا تھا۔ لیکن ان کا یہ
عقیدہ تھا کہ ”آگ کی دیوی” نے اس سبزی نے اس سبزی مائل سیاہ پتھر کو چمکدار
سرخ تانبے میں بدل دیا ہے اور اس میں ان کا ہاتھ بالکل نہیں ہے۔
اس تانبے کے ڈلے کو ٹکڑوں میں توڑا جاتا اور پھر ان کو پتھر کے ہتھوڑے سے
پیٹ پیٹ کر کلہاڑیوں، کدالوں اور خنجروں کی شکل دی جاتی۔
اس طرح آدمی نے حیرت انگیز گودام سے ایک سخت چمکدار دھات حاصل کی۔ اس نے کچ
دھات کا ایک ٹکڑا آگ میں پھینکا اور اس کو تانبامل گیا۔
یہ معجزہ آدمی کی محنت سے ہوا۔
پہلے روسی کسان
انیسویں صدی کے آخر میں ایک روسی ماہر آثار قدیمہ خوائیکو نے کیئف کے علاقے
میں تریپولئے گائوں کے قریب قدیم زمانے کی زرعی بستی دریافت کی۔
سوویت دور میں ماہرین آثار قدیمہ پاسیک اور بوگا یفسکی نے یہ تحقیقات جاری
رکھی۔ ان کے کام نے ہمارے لئے یہ تصور کرنا ممکن بنایا کہ پانچ ہزار سال
پہلے کسان کیسے رہتے تھے۔
قدیم زمانے کا گائوں اونچی باڑ سے گھرا ہوتا تھا اور بیچ میں ایک چوک معہ
مویشی باڑے کے ہوتا تھا۔ چوک کے چاروں طرف مٹی کے پلاسٹر کئے ہوئے چوبی
مکانات ہوتے تھے اور ان کی چھتیں چار پہل کی ہوتی تھیں۔
ایسے مکان کا چھوٹا سامٹی کا نمونہ پایا گیا ہے جو ہزاروں سال پہلے بنایا
گیا تھا۔ یہ کھلونا تو نہیں معلوم ہوتا۔ غالباً یہ کوئی ایسی چیز تھی جو
کسی مذہبی رسم میں استعمال کی جاتی تھی
شاید لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ چھوٹا سا گھر جس کے اندر عورتوں کی چھوٹی
چھوٹی مورتیاں تھیں اصلی بڑے گھر کو بدروحوں اور آفتوں سے بچائے گا۔
اس چھوٹے سے نمونے میں داخلے کے دائیں طرف ایک تندور تھا اور بائیں طرف ایک
ذرا اونچا چبوترہ جس پر مختلف چیزیں رکھنے والے بڑے برے برتین رکھے تھے۔
چبوترے کے پاس ہی ایک عورت کی مورتی تھی جو ایک اناج کی چکی پر جھکی ہوئی
تھی۔ داخلے کے سامنے ایک کھڑکی پر قربان گاہ تھی۔ ایک اور عورت کی مورتی جو
چولھے کی نگراں ہے تندور کے قریب دکھائی گئی تھی۔
شاید لوگوں کا یہ خیال تھاکہ یہ چھوٹا ساگھر جس کے اندر عورتوں کی چھوٹی
چھوٹی مورتیاں تھیں اصلی بڑے گھر کو بدروحوں اور آفتوں سے بچائے گا۔
اس چھوٹے سے نمونے میں داخلے کے دائیں طرف ایک تندور تھا اور بائیں طرف ایک
ذرا اونچا چبوترہ جس پر مختلف چیزیں رکھنے والے بڑے بڑے برتن رکھے تھے۔
چبوترے کے پاس ہی ایک عورت کی مورتی تھی جو ایک انان کی چکی پر جھکی ہوئی
تھی۔ داخلے کے سامنے ایک کھڑی پر قربان گاہ تھی۔ ایک اور عورت کی مورتی جو
چولھے کی نگراں ہے تندور کے قریب دکھائی گئی ہے۔
اس قسم کے گھر کو تو گھر کہنا بالکل بجا ہے۔ اس کی چھت میں شہتیر پڑے ہیں۔
چولھا معہ چولھے دان کے ہمارے دیہاتی چولھے کی طرح ہے۔ فرش کو جو مٹی کا ہے
مکان بناتے وقت آگ بچھا کر پکا لیا گیا تھا۔ مٹی کے پلاسٹر کی دیواروں پر
طرح طرح کے ڈیزائن بنے ہوئے تھے۔
ہر گھر میں کئی کمرے ہوتے تھے جو اوٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے علحدہ ہوتے
تھے۔
لیکن گائوں میں ایسے بڑے غارنما گھر بھی تھے جو زمین کو کھود کر بنائے گئے
تھے۔
اب کاریگر کمھار، لوہار اور ٹھٹھیرے بھی تھے۔
کمھاروں نے تین تین فیٹ تک کے اونچے برتن بنانا اور ان کو رنگ برنگے
ڈیزائنوں سے سجانا سیکھ لیا تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے ایسے برتن پائے ہیں
جو گلابی مٹی کے بنے ہیں اور ان پرفیتوں، حلقوں اور چھلوں کے ڈیزائن ہیں جو
بعض جگہ بڑی بری آنکھوں والے آدمیوں کے چہروں، جانوروں اور سورج سے مشابہ
ہیں۔
زمین نے جو اوزار سے لے کر ہم اس تبدیلی کو سمجھ سکتے ہیں جو چقماق پتھر کے
اوزاروں سے لے کر تانبے کے اوزاروں تک ہوئی۔
انتہائی قدیم اوزار یعنی کٹار، رندا اور تیر سب کے سب چقماق پتھر یا ہڈی کے
ہوتے تھے۔
کدالیں یا تو پتھر کی ہوتی تھیں یا بارہ سنگھے کی سینگوں کی۔ کدال میں ایک
سوراخ بنایا جاتا تھا تاکہ اس میں لکڑی کا دستہ لگایا جا سکے۔
اناج ایسی درانتیوں سے کاٹا جاتا تھا جو یاتو گائے کے مونڈے کی ہڈیوں سے
بنائی جاتی تھیں یالکڑی سے۔ چونکہ لکڑی کی درانتی کاٹ نہیں سکتی تھی اس لئے
اس میں چقماق پتھر کے تیز دانت لگائے جاتے تھے۔
انہیں گائوں میں ہمیں ایسے سانچے بھی ملے جو تانبے کے پہلے اوزار ڈھالنے
میں استعمال ہوتے تھے۔ چوڑے پھل والی کلہاڑیاں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کون سے اناج بوئے جاتے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے
کولو میئشچینوگائوں کے گھروں کی دیواروں کی پلاسٹر کی مٹی میں گیہوں، جو،
رئی اور باجرے کے دانے اور بالیاں پائیں۔
انسانی محنت کاکیلنڈر
ہم وقت کو برسوں، صدیوں اور ہزار سالہ عہدوں میں شمار کرنے کے عادی ہیں
لیکن جو لوگ ماقبل تاریخ کے آدمی کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں ان کو مختلف
قسم کا کیلنڈر، مختلف قسم کا وقت کا پیمانہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہنے
کی بجائے کہ ”اتنے ہزار سال گزرے” ہم کہتے ہیں ”پتھر کے عہد قدیم میں”،
”پتھر کے عہد جدید میں”، ”یا ” کانسے کے عہد میں”۔ یہ کوئی سالانہ کیلنڈر
نہیں ہے بلکہ انسانی محنت کا کیلنڈر ہے۔ یہ ہمیں ٹھیک ٹھیک بتاتا ہے کہ
آدمی ارتقا کی کن منزلوں سے گزرا ہے، راستے، میں وہ کہاں پہنچا ہے۔
عام کیلنڈر میں وقت کی بڑی یا چھوٹی ناپ ہوتی ہے۔ صدی، سال، مہینہ، دن اور
گھنٹہ۔
انسانی محنت کا کیلنڈر بھی اپنی بڑی اور چھوٹی ناپیں رکھتا ہے۔ ہم یہ کہہ
کر وضاحت کر سکتے ہیں کہ ”پتھر کا وہ عہد جب اوزاروں کو کاٹ کاٹ کر بنایا
جاتا تھا” یا ”پتھر کا وہ عہد جب اوزاروں کو چکنا اور چمکدار بنایا جانے
لگا تھا”۔
اب ہماری کہانی تاریخ کے اس عہد تک پہنچ گئی ہے جب پتھر کے اوزاروں کی جگہ
دھات کے اوزاروں نے لے لی، جب زراعت اور مویشیوں کے پالن پوسن کی ابتدا
ہوئی۔ محنت کی اس تقسیم کے ساتھ سامان کا تبادلہ ہونے لگا۔ اگر تانبے کی
کلہاڑیاں ایک جگہ بنتیں تو رفتہ رفتہ وہ دوسرے قبیلوں تک پہنچنے لگیں۔
لوگ دریائوں پراپنی ڈونگیوں کے ذریعے گائوں جاتے، اناج کا چمڑے سے یاکپڑے
کا مٹی کے برتنوں سے تبادلہ کرتے۔ کسی قبیلے کے پاس بہت سا تانبا ہوتا اور
دوسرے کے پاس کاریگر کمھار۔ کہیں جھیل میں کھمبوں پر بسے گائوں کے رہنے
والے اپنے پڑوسیوں سے ملتے جو سامان تبادلے کے لئے لاتے۔ سامان کے تبادلے
سے تجربے کا، کام کے نئے طریقوں کا تبادلہ بھی ہوتا۔
یہاں لوگوں کو اشاروں کی زبان استعمال کرنی پڑتی کیونکہ ہر قبیلے کی الگ
الگ اپنی بولی تھی۔ بہر حال جب ملاقاتی لوٹتے تو وہ دوسروں کا بنایا ہوا
سامان ہی اپنے ساتھ نہ لے جاتے بلکہ ان کے کچھ الفاظ بھی لے جاتے جو وہ
سیکھ لیتے تھے۔ اس طرح قبیلوں کی بولیوں کا تبادلہ اورمیل جول ہوا۔ اس طرح
ہر نئے لفظ کے ساتھ اس کے مطلب کو بھی اس سے منسلک کیا گیا۔ قبیلے کے اپنے
دیوتائوں کے برابر پڑوسی قبیلے کے دیوتائوں کو بھی جگہ دی جانیلگی۔ بہت سے
عقیدوں سے ایسے عقیدے پیدا ہوئے جو آئندہ چل کر پوری پوری قوموں کے لئے
مشترک بن گئے۔
دیوتا تیزی سے سفر کرتے تھے۔ نئی جگہوں پر انکو نئے نام دئے جاتے لیکن ان
کو آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔
جب ہم قدیم قوموں کے مذہبوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پہچان لیتے ہیں کہ
بابل کا تاموز، مصر کا اوسیرس اور یونان کا اڈونیس دراصل ایک ہی دیوتا ہیں۔
یہ وہی زراعت کا دیوتا ہے جو خزاں میں مر جاتا تھا اور پھر بہار میں پاتال
سے واپس لایا جاتا تھا۔
کبھی کبھی تو ہم کسی دیوتا کسی دیوتا کے سفر کا نقشہ تک تیار کرسکتے ہیں
مثلاً اڈونیس یونان میں شام سے پہنچا، ان ملکوں سے جہاں سامی رہتے تھے۔اس
کا مطلب نام ہی اس کا ثبوت ہے کیونکہ سامیوں کی زبان میں اڈونیس کا مطلب ہے
”مالک”۔ یونانیوں کو پتہ نہیں تھا کہ یہ ایک لفظ ہے۔ انہوں نے اس کو ذاتی
نام کی حیثیت سے اپنایا۔
اس طرح سامان الفاظ اور مذہبوں کا تبادلہ ہوتا تھا۔
یہ کہنا غلط ہو گا کہ ایسا تبادلہ ہمیشہ پرامن طریقے سے ہوتا تھا۔ اگر
”ملاقاتیوں” کو وہ تانبا، اناج یا کپڑا بزور مل سکتا جو دوسروں نے پیدا کیا
ہے تو اس میں وہ باک نہیںکرتے تھے۔ اس طرح یہ تبادلہ جو اکثر ایماندارانہ
نہ ہوتا تھا بالکل لوٹ کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ ملاقاتی اور میزبان ایک
دوسرے پر حملہ کر دیتے تھے اور جو زیادہ طاقتور ہوتا تھا میدان اسی کے ہاتھ
رہتا تھا۔کسی اجنبی کو لوٹ لینا یا مار ڈالنا ذرا بھی برا نہیں سمجھا جاتا
تھا۔
پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہر گائوں جلد ہی ایک گڑھ کی صورت بن
گیا۔ ناخواندہ مہمانوں کے اچانک ریلے کوروکنے کے لئے گائوں کے گرد مٹی کی
فیصل اور باڑ بنائی جانے لگی۔
لوگوں میں دوسرے قبیلے والوں پر اعتبار نہیں تھا۔ ہر قبیلہ اپنے لوگوں کو
”آدمی” کہتا تھا مگر دوسرے قبیلے کے لوگوں کو ایسانہیں سمجھتا تھا۔ وہ اپنے
کو تو ”سورج کا بیٹا” یا ”آسمان کے لوگ” کہتے تھے لیکن دوسرے قبیلوں کو
برے ناموں سے پکارتے جو کبھی ان قبیلوں کے ساتھ ایسے چپک جاتے تھے کہ بعد
میں وہ اسی نام سے مشہور ہو جاتے تھے۔
جب مورخوں اور کھوج کرنے والوں کی کتابوں میں دوسرے قبیلوں سے اس قدیم نفرت
کے بارے میںہم پڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے وہ نفرت آجاتی ہے جو ہمارے زمانے
میں نسل پرست دوسری قوموں کے لئے پھیلاتے ہیں۔ وہ صرف اپنے کو ”آدمی”
سمجھتے ہیں اور ان کی رائے میں دوسرے لوگ آدمی نہیں بلکہ ان سے حقیر درجے
کے ہیں۔ صرف وہی لوگ غیر قوموں کے خلاف دشمنی کا ایسا پرچار کر سکتے ہیں جو
اپنی تاریخی تباہی محسوس کرتے ہوئے دنیا کو پھر وحشیانہ ماضی کی طرف
لوٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ برتر نسل جیسی چیز دنیا میں کوئی نہیں ہے ایسی
قومیں ہیں جو تمدن کے لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور دوسری قومیں پچھڑی
ہوئی ہیں۔ انسانی محنت کے کیلنڈر کے مطابق تمام ہم عصر قومیں ایک ہی تاریخی
دور کی نہیںہوتیں۔
اکتوبر کے عظیم سوشلسٹ انقلاب سے پہلے روس کی تمام قومیں ارتقا کی ایک ہی
منزل پر نہ تھیں۔ کچھ مشینی دور تک پہنچ گئی تھیں اور کچھ ابھی قدیم لکڑی
کے ہل سے کاشتکاری کر رہی تھیں اور قدیم کر گھوں سے کپڑا بنتی تھیں۔ حتی کہ
ایسی بھی قومیں تھیں جو ہڈی سے اوزار بناتی تھیں اور ان کو لوھے کے وجود
تک کا علم نہ تھا۔
اب سوویت یونین کی زیادہ ترقی یافتہ قومیں ان لوگوں کی مدد کرتی ہیں جو
ماضی میں پچھڑی ہوئی تھیں۔ چند دھائیوں میں وسط ایشیا، سائبیریا اور شمال
بعید کی قوموں نے کئی صدیوں کے برابر ترقی کی ہے۔
انسانی محنت کے کیلنڈر کے مطابق اب ہمارے ملک کی تمام قومیں سوشلسٹ دور کی
ہیں اور ہمارے ملک کی سب قومیں برابر ہیں۔
دو قانون
اکثر ایساہوا ہے کہ سمندر وں سمندروں کھوج کرنے والوں نے نہ صرف نئے ملکوں
کی بلکہ ایسے تاریخی عہدوں کی بھی دریافت کی ہے جو مدتوں ہوئے بھلائے جا
چکے تھے۔
جب یورپ کے لوگوں نے آسٹریلیا کو ڈھونڈ نکالا تو یہ بڑی کامیابی سمجھی گئی
کیونکہ ا نہوں نے ایک پورا براعظم تلاش کیا تھا اور اس پر قبضہ جمایا تھا۔
لیکن ان کی یہ کامیابی آسٹریلیا کے لوگوں کے لئے بڑی بدنصیبی تھی۔ انسانی
محنت کے کیلنڈر کے مطابق وہ ابھی تک دوسرے زمانے میں رہتے تھے۔ وہ یورپی
رسم ورواج کو نہیں سمجھتے تھے اور ان کے طور طریقے اپنانا نہیں چاہتے
تھے۔ان کا یہ ”قصور” معاف نہیں کیا گیا اور ان کو جنگلی جانوروں کی طرح
شکار بنایا گیا اور ان پر ظلم توڑے گئے۔ جب یورپ کے شہروں میں عظیم الشان
عمارتیں تعمیر ہور ہی تھیں تو اسی وقت آسٹریلیا کے لوگ خیموں میں رہتے تھے۔
آسٹریلیا کے لوگ نجی ملکیت کے مطلب بھی واقف نہ تھے جب کہ یورپ میں اگر
کوئی شخص کسی امیر جاگیر دار کے جنگل میں کوئی ہر ن شکار کر لیتا تو اس کو
جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔
جو چیز آسٹریلیا کے باشندے کے لئے قانون تھی وہ یورپی باشندے کیلئے جرم
تھی۔
جب آسٹریلیا کے شکاری بھیڑوں کا کوئی گلہ دیکھتے تو وہ اس کو گھیر لیتے اور
خوشی کے نعرے لگاتے۔ وہ بھیڑوں پر برچھے اور بومرانگ پھینکتے۔لیکن یورپی
فارم والوں کی رائفلیں ایسے وقت میں مداخلت کرتیں۔
یورپی فارمر بھیڑوں کو اپنی نجی ملکیت سمجھتا تھا لیکن آسٹریلیا کے ابتدائی
زمانے کے شکاری کیلئے یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی۔ یورپ کے لوگ کا قانون
یہ تھا ”بھیڑ اس کسان کی ہے جس نے اس کو خریدا ہے یا پرورش کیا ہے”۔
آسٹریلیا کے باشندوں کا قانون کا یہ تھا”جانور اس شکاری کا ہے جس نے اس کو
پکڑا ہے”۔
اور چونکہ آسٹریلیا کے لوگوں نے اپنے زمانے کے قانون کی پیروی کی اس لئے
یورپ کے لوگوں نے ان کو گولی کا نشانہ بنایا جیسے وہ آدمی نہیں تھے بلکہ
بھیڑیے جو ان کی بھیڑوں کے گلے میں گھس آئے تھے۔
ان دو مختلف قوانین کا ٹکرائو پھر ہوتا جب آسٹریلیائی عورتیں اتفاق سے آلو
کے کسی کھیت تک پہنچ جاتیں۔بلا توقف وہ مزیدار جڑیں کھودنے لگتیں اور کھیت
میں ان کی افراط بھی ہوتی۔ سب ایک جگہ پر! یہاں جتنی جڑیں وہ ایک گھنٹے میں
جمع کر سکتی تھیں اتنی دوسری جگہ ایک مہینے میں بھی نہ جمع کر پاتیں۔
لیکن ان کی یہ اچانک خوش نصیبی ہی ان کے لئے آفت بن جاتی۔ گولیاں سنسنانے
لگتیں۔ عورتیں معہ اپنے آلوئوں کے زمین پر گرتیں اور ان کی سمجھ میں نہ آتا
کہ ان کو کس نے مارا ہے اور کیوں۔
امریکہ کی دریافت نے بھی ان دو مخالف دنیائوں کی جنگ کو جنم دیا۔
پرانی ”نئی دنیا”
یورپی لوگوں نے امریکہ کو دریافت کر کے یہ سوچا کہ ان کو نئی دنیا ملی ہے۔
کولمبس کو اس واقعے کی یاد گار کے طور پر ایک نشان بھی عطا کیا گیا جس پر
یہ عبارت لکھی تھی:
کاستیلیا اور لیون کے لئے
کولمبس نے نئی دنیا دریافت کی
لیکن دراصل یہ ”نئی دنیا” پرانی تھی۔ یورپی لوگوں نے جانے بغیر امریکہ میں
اپنے ماضی کو ڈھونڈ نکالا تھا جس کو وہ بالکل بھول چکے تھے۔
انہوں نے انڈیں لوگوں کے رسم ورواج کو وحشیانہ اور عجیب خیال کیا۔ انڈین
لوگوں، کے مکانات، کپڑے اور طور طریقے بالکل یورپی لوگوں جیسے نہ تھے۔
شمال کے انڈین اپنے برچھے اور تیر پتھر اور ہڈیوں سے بناتے تھے۔ ان کو لوہے
کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ وہ زراعت سے واقف تھے۔ وہ مکئی، کدو، سیم
اور تمباکو کی کاشت کرتے تھے۔ لیکن ان کا خاس پیشہ شکار تھا۔ وہ چوبی گھروں
میں رہتے تھے او راپنے گائوں کو اونچی باڑوں سے گھیرتے تھے۔
جنوب کی طرف میکسیکو میں، انڈین لوگوں کے پاس تانبے کے اوزار اور سونے کے
زیور تھے۔ ان کے بڑے برے مکانات کچی اینٹوں کے بنے ہوتے تھے او ران پر جپسم
کا پلاسٹر ہوتا تھا۔
امریکہ کے پہلے نوآباد کاروں اور فاتحوں نے ان تمام باتوں کو تفصیل کے ساتھ
اپنے روزنا مچوں میںلکھاہے۔
لیکن چیزوں کے متعلق بتانے کے مقابلے میں طرز زندگی کے بارے میں بتانا مشکل
ہے۔
یورپی لوگوں کے لئے امریکہ کا طرز زندگی انوکھاتھا، وہاس کو سمجھ نہیں پاتے
تھے۔ اور اس کے بارے میں وہ بہت مبہم اور گڈمڈ طریقے سے لکھتے تھے۔
”نئی دنیا” میں نہ تو زر نقد تھا او رنہ سوداگر، نہ غریب تھے اور نہ امیر۔
بعض انڈین قبیلے ایسے تھے جو سونے کی چیزیں بنانا جانتے تھے لیکن وہ سونے
کی بیش قیمتی سے لاعلم تھے۔
پہلے انڈین جو کولمبس کے ملاحوں نے دیکھے ان کی ناکوں میں سونے کی کیلیں
تھیں اور گلوں میں سونے کے ہار، لیکن انہوں نے شیشے کے دانوں او رمعمولی
زیوروں کے بدلے میں یہ سونے کے زیورات فوراً دے دئے۔
سمندر پار سے آئے ہوئے اجنبی بخوبی جانتے تھے کہ دنیا کے تمام لوگ مالکوں
اور خادموں، جاگیرداروں او رکسانوں میں تقسیم ہیں۔ لیکن یہاں کے سب لوگ
برابر تھے۔ کوئی قبیلہ کسی دشمن کو گرفتار کر لیتا تھا تو اس کو غلام یا
ملازم نہیں بناتا تھا۔ یا تو اس کو فوراً قتل کر دیا جاتا تھا یا اس کو
قبیلے میں شامل کر لیا جاتا تھا۔
یہاں کوئی بھی محل، گھر یا جاگیر کا مالک نہ تھا۔ لوگ برادری کے مکانوں میں
رہتے تھے جو ”لمبے مکان” کہلاتے تھے۔ پورے کے پورے جرگے ایک ساتھ رہتے تھے
اور سارے بڑے خاندان کو کھلانے اور پہنانے کے مساوی طور پر ذمہ دار ہوتے
تھے۔ زمین کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہوتی تھی بلکہ پورا قبیلہ اس کا ملک
ہوتا تھا۔ مالک کیلئے اس کی اراضی پر کام کرنے والے غلام کسان نہیں ہوتے
تھے۔ یہاں سب لوگ آزاد تھے۔
صرف یہی بات یورپی لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے کافی تھی جو جاگیر دارانہ
دور میںر ہتے تھے۔ اس زمانے میں غلام کسانوں کا عام رواج تھا۔ لیکن یہی حد
نہ تھی۔
یورپ میں ہر ایک جانتا تھا کہ اگر اس نے کوئی ایسی چیز لے لی۔ جو دوسرے کی
ملکیت ہے تو عمال شہر اس کی گردن پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے لیکن امریکہ
میں اس وقت نہ تو ایسا عملہ تھا، نہ نجی جائیداد اور نہ جیل۔ پھر بھی تمام
چیزوں میں نظم تھا۔ لوگ خود یہ باقاعدگی رکھتے تھے حالانکہ یورپ کے مقابلے
میں اس کا طریقہ مختلف تھا۔
یورپ میں قوانین اس طرح بنائے گئے تھے کہ غریب اس چیزکو قطعی نہ لے سکے جو
امیر کی ملکیت ہو، کہ ملازم ہمیشہ آقا کے فرمانبر دار رہیں اور غلام کسان
ساری عمر اپنے جاگیر داروں کے لئے محنت مشقت کرتے رہیں۔
لیکن یہاں، امریکہ میں ہر ایک شخص کی حفاظت اس کا خاندان اور قبیلہ کرتا
تھا۔ اگر کوئی آدمی مار ڈلا جاتا تو مقتول کا سارا جرگہ اس کا انتقام لیتا۔
مگر ایسا بھی ہوتا تھا کہ قتل کو معاملہ پرامن طریقے سے طے ہو جاتا تھا۔
قاتل کے رشتے دار مقتول کے عزیزداروں سے معافی کی درخواست کرتے اور ان کو
اس صلح کے لئے تحائف دیتے۔
یورپ میں شنہشاہ، بادشاہ اور شہزادے تھے۔ لیکن یہاں نہ تو بادشاہ تھے اورنہ
تخت۔ پورے قبیلے کی موجودگی میں سرداروں کی پنچایت قبیلے کے سارے معاملات
طے کرتی تھی۔ سردار اپنی خوبیوں کی بنا پر چنے جاتے تھے اور اگر اپنے عہدے
کے لائق نہیں ثابت ہوتے تھے تو برطرف کر دئے جاتے تھے۔ سردار قبیلے کا مالک
نہیں ہوتا تھا بعض انڈین زبانوں میں ”سردار” کا لفظ محض ”مقرر” کے معنی
میں استعمال کیا جاتا ہے۔
پرانی دنیا میں بادشاہ قوم کا سردار ہوتا تھا اور باپ خاندان کا۔ ریاست
لوگوں کا سب سے بڑا جتھا تھی اور خاندان سب سے چھوٹا۔ بادشاہ اپنی رعایا کا
انصاف کرتا تھا اور سزا دیتا تھا باپ اپنے بچوں کا انصاف کرتا تھا اور سزا
دیتا تھا۔ بادشاہ ملک کا وارث اپنے بیٹے کو بناتا تھا اور باپ اپنی
جائیداد بیٹے کے لئے چھوڑتا تھا۔
لیکن یہاں، نئی دنیا میں باپ کو اپنے بچوں پر کوئی اختیار نہ تھا۔ بچے ماں
کے ہوتے تھے اور اسی کے پاس رہتے تھے۔ عورتیں ”لمبے مکانوں” کا انتظام کرتی
تھیں۔ یورپی خاندانوں میں بیٹے گھر پر رہتے تھے اور بیٹیاں اپنے شوہروں کے
خاندانوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ یہاں اس کے بالکل برعکس تھا۔ بیوی شوہر کو
اپنی ماں کے گھر لاتی تھی اور بیوی ہی خاندان کی سردار ہوتی تھی۔
ابتدائی دور کے ایک سیاح نے لکھا ہے ”عام طو رپر عورتیں گھر کا انتظام کرتی
تھیں اوروہ ایک دوسرے کی مدد کرتی تھیں۔ ان کے ذخیرے مشترک ہوتے تھے۔ لیکن
وہ شوہر بہت بدقسمت ہوتا تھا جو ٹھیک سے کفالت نہیں کر سکتا تھا۔ گھر میں
اس کے چاہے جتنے بچے یا ملکیت وہتی اس کو فوراً حکم دیا جا سکتا تھا کہ وہ
اپنا بوریا بسترا لپیٹے اور روانہ ہو جائے۔ اگر وہ اس پر احتجاج کرتا تو اس
کو تلخ تجربہ ہوتا، اس کے زندگی اجیرن ہو جاتی۔ اگر کوئی چچی یا دادی اس
کی سفارش نہ کرتی تو اس کو اپنے جرگے واپس جانا پڑتا یا کسی دوسرے کسی
سردار کی ”سینگیں اکھاڑنا” چاہتی تھی (جیسا کہ ان کا محاورہ تھا) تو ایک
لمحہ بھی تامل نہیں کرتی تھیں اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ سردار نہیں
رہتا تھا بلکہ قبیلے کے کسی اور فرد کی سی حیثیت اس کیبھی ہو جاتی تھی۔
اسی طرح نئے سردار کا انتخاب بھی عورتوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔”
پرانی دنیا میں عورت اپنے شوہر کی ملازمہ ہوتی تھی۔ لیکن انڈین قبیلوں میں
عورت گھر کی سردار ہوتی ہے۔ کبھی کبھی وہ قبیلے کی بھی سردار ہو جاتی تھی۔
مشہور روسی شاعر پوشکن نیا یک کہانی ایک امریکی جان ٹینر کی بابت لکھی تھی۔
اس امریکی کو انڈین پکڑ لیتے ہیں اور اس کو ایک انڈین عورت جس کا نام نیٹ ۔
نو۔ کوا ہے گودلے لیتی ہے۔ یہ ایک سچا قصہ ہے۔ نیٹ۔ نو۔ کوا اور ٹاوا
قبیلے کی سردار تھی۔اور اس کی ڈونگی پر ہمیشہ جھنڈا لہراتا تھا۔ جب وہ
برطانوی قلعے کو جاتی تھی تو اس کو توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ اس طرح صرف
انڈین ہی نہیں بلکہ گورے لوگ بھی اس عورت کی عزت کرتے تھے۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان خاندانوں میں شجرہ ماں کی طرف سے چلتا
تھاباپ کی طرف سے نہیں۔ یورپ میں بچوں کے نام کے آخری حصے میں باپ کا نام
ہوتا تھا لیکن یہاں وہ ماں کانام لیتے تھے۔ اگر باپ ”ہرن” قبیلے کا ہوتا
اور ماں ”ریچھ” قبیلے کی تو بچے ”ریچھ” قبیلے کے ہوتے ۔ ہر قبیلے عورتوں’
ان کے بچوں، ان کی بیٹیوں کے بچوں اور ان کی نواسیوں کی نواسوں نواسیوں پر
مشتمل ہوتا تھا۔
یہ سب باتیں یورپی لوگوں کے لئے بہت ہی عجوبہ تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ انڈین
لوگوں کے طریقے وحشیانہ ہیں اور یہ لوگ خود بھی وحشی ہیں۔
وہ اب تک یہ بات بھول چکے تھے کہ ان کے اجداد بھی تیر کمان کے زمانے میں،
پہلی ڈونگیوں اور پہلی کدالوں کے زمانے میں اسی طرح کے رسم ورواج رکھتے
تھے۔
پہلے نوآباد کاروں اور فاتحوں نے اپنی تحریروں میں انڈین قبائل کے سرداروں
کو نواب یا جاگیردار کی طرح پیش کیا۔ ان کا خیال تھا کہ سردار کا خطاب کسی
شاہی خطاب کی طرح تھا اور ان کا نشان کوئی سرکاری اعزازی نشان ۔ وہ کہتے
تھے کہ سرداروں کی پنچایت سینیٹ رکھتی تھی اور جنگی سردار بادشاہ کی طرح
ہوتا تھا۔ لیکن یہ عجیب بات ہو گی اگر ہم آج کل کسی فوج کے کمانڈر کو
بادشاہ کہیں۔
صدیاں گزر گئیں لیکن امریکہ میں گورے بسنے والوں نے وہاں کے دیسی باشندوں
کے رسم ورواج نہیں سمجھے۔ یہ غلط فہمی اس وقت تک رہی جب تک ایک امریکی لوئس
ایچ مورگن نے اپنی کتاب ”قدیم سماج” کے ذریعے امریکہ کو دوبارہ نہیں
دریافت کیا۔ اس کتاب میں مصنف نے ثابت کیا کہ آزئیک اور ایرو کووئیس انڈین
کا طریقہ کا طریقہ زندگی ارتقا کی ایسی منزل تھی جس کو یورپی لوگ مدتوں
ہوئے بھول چکے تھے۔
لیکن مورگن کی کتاب 1877میں شائع ہوئی تھی او رہم امریکہ کے پہلے فاتحوں کا
ذکر کر رہے ہیں۔
گوروں نے انڈین لوگوں کو نہیں سمجھا اور انڈین لوگوں نے بھی جواباً گوروں
کو نہیں سمجھا۔ انڈین لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ گورے ۔ مٹھی
بھر سونے کے لئے ایک دوسرا کا گلا گھونٹنے کو کیوں تیار رہتے تھے۔ ان کی
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ گورے امریکہ کیوں آئے ہیں اور ”کسی اور کے علاقے
کو فتح کرنے کے”کیا معنی ہیں۔
قدیم زمانے کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ زمین سارے قبیلے کی ہے اور اس کی
حفاظت سرپرست روحیں کرتی ہیں۔ کسی دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کا مطلب یہ
تھا کہ دوسرے قبیلے کے دیوتائوں کا عتاب مول لیا جائے۔
انڈین بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے۔ لیکن جب ایک قبیلے کو شکست ہو جاتی
تھی تو فاتح قبیلہ لوگوں کو غلام نہیں بناتا تھا، ان کو اپنے رسم ورواج
اپنانے پر مجبور نہیں کرتا تھا یا ان کے سرداروں کو برطرف نہیں کرتا تھا۔
وہ مفتوح قبیلے سے صرف خراج وصول کر لیتے تھے۔ کسی سردار کو صرف اس کا
قبیلہ یا جرگہ برطرف کر سکتا تھا۔
دو دنیائوں، دو سماجی نظاموں میں ٹکر ہو گئی۔ امریکہ کی فتح کی تاریخ دو
دنیائوں کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔
میکسیکواسپین کے لوگوں کی فتح اس کی ایک اچھی مثال ہے ۔
غلطیوں کا سلسلہ
1519 میں تین مستول والے گیارہ جہازوں کا بیڑا میکسیکو کے ساحل پر نمودار
ہوا۔ جہازوں کے پہلو گول پیپوئوں کی طرح تھے۔ ان کے اگلے اورپچھلے حصے پانی
سے بہت اونچے اوپر اٹھے ہوئے تھے اور چوکور سوراخوں سے توپوں کے داھانے
باہر نکلے تھے۔ پہلوئوں میں سپاہیوں کے نیزے اور بندوقیںچمک رہی تھیں۔
علمبردار جہاز کے اگلے حصے پر ایک چوڑے شانوں اور داڑھی والا آدمی ٹوپی
آنکھوں تک گھسیٹے کھڑا تھا۔ اس کی تیز آنکھیں ہموار ساحل اور ان نیم عریاں
انڈین لوگوں کو گھور رہی تھیں جو کنارے پر جمع وہ گئے تھے۔
اس آدمی کا نام کورٹیز تھا۔ یہ اس مہم کا سربراہ تھا جو اسپین سے میکسیکو
کو فتح کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی۔ یہ سچ ہے کہ ایک خط اس کو مل چکا تھا جس
میںاسپین کے گورنر نے اس کی تقرری کو منسوخ کر دیا تھا لیکن کورٹیز جیسے
مہم باز کے لئے یہ برخاستگی کوئی اہمیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ اب
اسپین اور اس کے درمیان ایک زبردست سمندر حائل تھا۔ یہاں وہ اپنے جہازوں کا
بادشاہ تھا۔
جہازوں نے لنگر ڈالا۔ انڈین غلام جن کو کورٹیزنے راستے میں جزیروں میں
گرفتار کر لیا تھا توپیں، توپوں کی گاڑیاں، کھانے پینے کے سامان کے بکس اور
بندوقیں کشتیوں میں اتارنے لگے۔ نیچے تہہ خانے سے گھوڑے لائے جانے لگے جو
ڈرکر الف ہو رہے تھے۔ ان کو کشتیوں پر لانا اور پھر کنارے تک پہنچانا بڑا
کٹھن مرحلہ تھا۔
انڈین ان تیرتے ہوئے مکانوں اور گورے چہرے والے آدمیوں کو جن کے جسم کپڑوں
سے ڈھکے ہوئے تھے اور ان کے اسلحے کو حیرت سے تک رہے تھے۔ لیکن ان کو سب سے
زیادہ حیرت ان پھنکارتے ہوئے جانوروں پر تھی جن کے ایال اور دمیں اوپر
اٹھی اڑ رہی تھیں۔ انہوں نے ایسے وحشی اور بڑے جانور کبھی نہیں دیکھے تھے۔
گوروں کی آمد کی خبر جلد ہی سارے ساحل اور خاص ملک میں پہاڑوں تک پھیل گئی ۔
بلند پہاڑوں کی دیوار کے پیچھے وہاں پوئبلو یعنی آزئیک لوگوں کے گائوں
تھے۔ تینوخ تیتلان ان میں سب سے بڑا گائوں تھا۔ یہ ایک جھیل کے بیچوں بیچ
واقع تھا اور پلوں کے ذریعے خشکی سے ملایا گیا تھا۔ اس کے چمکتے، سفیدی کئے
ہوئے گھر اور عبادت گاہوں کی سنہری چھتیں دور سے نظر آتی تھیں۔ مونٹے زوما
جو آزئیک لوگوں کا جنگی سردار تھا اپنے سپاہیوں کے ساتھ سب سے بڑے مکان
میں رہتا تھا۔
جب گوروں کی آمد کی خبر مونٹے زوما کو ہوئی تو اس نے جنگی کونسل کا جلسہ
طلب کیا۔ سرداروں نے دیر تک اس بات پر غور کیا کہ کیا جائے۔ وہ یہ سمجھنا
چاہتے تھے کہ آخر یہ گورے ان کے ملک کو کیوں آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔
سرداروں نے یہ افواہ سنی تھی کہ گوروں کو سونا بہت پسند ہے۔ اس لئے کونسل
نے یہ فیصلہ کیا کہ گوروں کو سونا بطور تحفہ بھیجا جائے اور ان سے کہا جائے
کہ وہ اپنے ملک کو واپس جائیں۔
یہ زبردست غلطی تھی۔ سونا گوروں کو لالچ سے پاگل ہی بنا سکتا تھا۔ لیکن
آزئیک لوگوں کو نہ تو اس کا پتہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا کیونکہ انڈین اور
گورے لوگ مختلف دوروں کے لوگ تھے۔
مونٹے زوما نے اپنے سفیروں کو سونے کی ا یسی پلیٹوں کا تحفہ دے کر بھیجا جو
گاڑیوں کے پہیوں کے برابر تھیں۔ ان کے علاوہ سونے کے زیورات اور مورتیاں
بھی تھیں۔ اس سے کہیں زیادہ عقلمندی کی بات یہ ہوتی کہ وہ اس خزانے کو دفن
کر دیتے۔
جب کورٹیز اور اس کے سپاہیوں نے یہ سونا دیکھا تو گویا آزئیک لوگوں کی قسمت
پر مہر لگ گئی۔
سفیروں کی یہ تمام التجائیں بے سود ثابت ہوئیں کہ ہسپانوی سمندر پار لوٹ
جائیں، انہوں نے ان ناخواندہ مہمانوں کو ان مشکلات او ر خطرات سے بے سود
ڈرانے کی کوشش کی جو ملک کے اندر کے سفر میں ان کو پیش آنے والی تھیں۔
پہلے تو ہسپانوی لوگوں نے میکسیکو کے سونے کی کہانیاں سنی تھیں لیکن اب تو
وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اور ان کی آنکھیں لالچ سے چمکنے لگیں
کیونکہ یہ کہانیاں سچی تھیں۔
سفیروں کی باتیں ان کو احمقانہ معلوم ہوئیں۔ جب ان کی منزل اتنی قریب تھی
تو انہیں سمندر پار کیوں واپس جانا چاہئے! یہ تو پاگل پن ہوتا کیونکہ انہوں
نے طویل بحری سفر کے دوران میں بڑی مصیبتیں جھیلی تھیں! انہوں نے پتھرجیسی
سخت سوکھی روٹی کھائی تھی، ریل پیل والی کیبنوں میں چوبی تختوں پر سوئے
تھے اور طوفانوں اور سمندر کے اندر پہاڑی چٹانوں سے بچائو کے لئے تار کول
سے لتھڑے ہوئے رسوں پر کمر توڑ کام کیا تھا۔ یہ سب اسی لئے تو تھا کہ آگے
چل کر دولت ملے گی۔
کورٹیز نے حکم دے دیا کہ پڑائو اٹھایا جائے او ر آگے روانگی ہو۔ انہوںنے
اپنے غلاموں کی پیٹھوں پر اپنے اسلحہ اور کھانے پینے کا سامان لاد دیا اور
یہ آدمی جو باربر داری کا جانور بنا لئے گئے تھے ہانپتے کانپتے، آہ وزاری
کرتے روانہ ہو گئے۔ لیکن وہ مزاحمت بھی کیا کر سکتے تھے؟ ان میں جو پیچھے
رہ جاتے ان کو گوروں کی تلواریں کچوکے دے کر آگے بڑھا تیں اور جو مزاحمت
کرتے ان کے سر دھڑسے لگ کر دئے جاتے۔
ایک آزئیک ڈرائنگ ملی ہے جس میں اس سفر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ہم دیکھتے
ہیں کہ لنگوٹیاں باندھے ہوئے آدمی تین راستوں پر سفر کر رہے ہیں۔ ایک آدمی
توپ گاڑی کا پہیہ اپنی پیٹھ پر لادے ہے اور دوسرا بندوقوں کا بنڈل، تیسرے
کی پیٹھ پر کھانے پینے کے سامان کا ایک بڑا بکس ہے۔ ایک ہسپانوی افسر اپنا
ڈنڈا ایک انڈین کے سر پر اٹھائے ہے۔ اس نے انڈین کے بال پکڑ لئے ہیں اور اس
کے پیٹ پر لاتیں مار رہا ہے۔ قریب ہی ایک پہاڑی پر مصلوب حضرت عیسی کی
تصویر ہے۔
ڈرائنگ میں انڈین لوگوں کے کٹے ہوئے سر اور ہاتھ پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس
طرح پہلی بار آزاد انڈین لوگوں نے جانا کہ انسان کے ہاتھ انسان کی غلامی
کیسی ہوتی ہے۔
آہستہ آہستہ لیکن استقلال کے ساتھ ہسپانوی آگے بڑھتے گئے۔ اور پھر ایک
اونچے پہاڑی درے سے انہوں نے ایک جھیل اور اس کے بیچ میں ایک شہر دیکھا۔
آزئیک لوگوں نے مزاحمت نہیں کی اس لئے ”مہمان” شہر میں داخل ہو گئے۔ اور
پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ اپنے میزبان جنگی سردار مونٹے زوما کی گرفتاری
تھی۔
کورٹیز کے حکم سے مونٹے زوما کو زنجیریں پہنا دی گئیں۔ کورٹیز نے مطالبہ
کیا کہ قیدی شاہ اسپین سے وفاداری کا عہد کرے۔ قیدی نے بڑی فرماں برداری سے
وہ الفاظ دھرائے جو اس سے کہے گئے تھے۔ اس کو نہ تو یہ پتہ تھا کہ بادشاہ
کیا ہوتا ہے اور نہ حلف کی اہمیت معلوم تھی۔
کورٹیز نے خیال کیا کہ اس کی جیت ہو گئی ہے۔ اس نے سوچا کہ اس نے میکسیکو
کے بادشاہ کو قید کر لیا ہے اور چونکہ قیدی بادشاہ نے اپنا اقتدار شاہ
اسپین کے سپرد کر دی ہے اس لئے سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہ تھا کورٹیز کا خیال۔
لیکن اس نے بڑی غلطی کی تھی۔ وہ میکسیکوکے طریقوں سے ایسے ہی ناواقف تھا
جیسے مونٹے زوما ہسپانوی طریقوں سے۔ کورٹیز نے سوچا کہ مونٹے زوما بادشاہ
ہے حالانکہ وہ محض جنگی سردار تھا جس کو اپنے ملک پر حکومت کا کوئی اختیار
نہ تھا۔
کورٹیز نے اپنی فتح کی خوشی منانے میں ذرا عجلت سے کام لیا تھا۔
اب آزئیک لوگوں نے وہ اقدام کیا جس کی کورٹیز کو کبھی توقع نہ تھی۔ انہوں
نے مونٹے زوما کے بھائی کو نیا سردار منتخب کر لیا ۔ نئے سردار نے اپنے
سپاہیوں کے ساتھ اس بڑے گھر پر حملے کی رہنمائی کی جس میں ہسپانوی ٹھہرے
ہوئے تھے۔
ہسپانوی توپوں اور بندوقوں سے لڑے۔ آزئیک لوگوں کے اسلحہ پتھر، تیر اور
کمان تھے۔
توپ کا گولا اور بندوق کی گولی تیر اور پتھر سے کہیں زیادہ مہلک ہوتے ہیں۔
لیکن آزئیک لوگ تو اپنی آزادی کیلئے لڑ رہے تھے اور وہ رکنے والے نہ تھے۔
اگر دس مرکر گرتے تو سو ان کی جگہ لے لیتے۔
جب کورٹیز نے حالت گڑ بڑ دیکھی تو اس نے آزئیک لوگوں سے بات چیت کرنے کا
فیصلہ کیا۔ اس نے سوچا کہ مونٹے زوما اس کے لئے سب سے بہتر ثالثی ہو گا
کیونکہ وہ تو میکسیکو کا بادشاہ ہے۔ اس نے مونٹے زوما سے کہا کہ وہ اپنے
لوگوں کو ہتھیار ڈال دینے کا حکم دے۔
ہسپانوی لوگوں نے اس کی زنجیریں کھول دیں اور اس کو ایک مکان کی چپٹی چھت
پر لے جایا گیا۔ لیکن لوگوں نے اس کا سواگت بزدل اور غدار کی طرح کیا۔ اس
پر پتھروں او رتیروں کی بارش ہوئی۔ ہرطرف سے شور ہوا:
”چپ رہ، پاجی! تو سپاہی نہیں ہے! تو عورت ہے۔ تیرا کام بنائی کتائی کرنا
ہے! تو ان کتوں کی قید میں ہے! تو بزدل ہے!”
مونٹے زوما سخت زخمی ہو کر گر پڑا۔
کورٹیز بڑی مشکل سے حملہ آوروں کی صفوں کو توڑ سکا۔ اس کے آدھے آدمی مارے
جا چکے تھے۔ خوش قسمتی سے آزٹیکوں نے اس کا پیچھا نہیں ورنہ وہ تینوخ
تیتلان سے زندہ بچ کر نہ جاتا۔ لیکن آزٹیکوں یہ غلطی کی کہ اس کو نکل جانے
دیا کیونکہ کورٹیز نے ایک اور فوج اکٹھا کر کے تینوخ تیتلان کا محاصرہ کر
لیا۔
آزٹیک لوگ بہادری سے لڑے اور انہوں نے ہسپانوی لوگوں کے خلاف کئی مہینے تک
اپنے شہر کی دفاع کی۔ لیکن ان کے تیر اور کمان توپوں کے خلاف کیا کرتے؟
تینوخ تیتلان بالآخر فتح کر کے لوٹ لیا گیا۔
لوہے کے زمانے کے لوگوں نے تانبے کے زمانے کے لوگوں پر فتح پائی۔ ترقی
یافتہ نئے نظام کے مقابلے میں پرانے برداری کے نظام کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
جادو کے جوتے
انیسویں صدی کی ایک کہانی ہے جس میں ایک نوجوان کے ہاتھ معمولی جوتوں کی
بجائے جادو کے جوتوں کا جوڑا آگیا۔ یہ نوجوان ذرا کھویا رہتا تھا اسلئے
اسکو جوتوں کی خوبی کا فوراً پتہ نہیںچلا۔ وہ میلے سے گھر آرہا تھا اور سوچ
میں ڈوبا ہو اتھا۔ اچانک اس کو سخت سردی لگی۔ اس نے چاروں طرف دیکھا تو وہ
برف سے گھر ا ہوا تھا اور دھندلا لال سورج افق کے پیچھے ڈوب رہا تھا۔ ہوا
یہ کہ ایک قدم میں سات میل چلنے والے ان جادو کے جوتوں کے ذریعے وہ جانے
بغیر دائرہ قطب شمالی میں پہنچ گیا تھا۔
کوئی اور ہوتا تو وہ اس جادو کی چیز سے بڑے کام لیتا۔ لیکن اس کہانی کے
نوجوان کو دولت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس کو سائنس سے دلچسپی تھی۔ ا س لئے
اس نے اپنی خوش قسمتی سے فائدہ اٹھانے کے لئے ساری دنیا دیکھنے اور امکان
بھر سب کچھ سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے جادو کے جوتوں کے ذریعے دنیا بھر
میں شمالی سے جنوب تک اور جنوب سے شمال تک بھاگتا دوڑتا۔ سردیوں میں وہ
سائبیر یائی تائیگا کے جاڑے سے بھاگ کر افریقی ریگستان کی گرمی میں چلا
جاتا اور رات میں وہ مشرقی نصف کرے سے مغرب میں آجاتا۔
وہ اپنی پھٹی پرانی جیکٹ پہنے اور چیزیں جمع کرنے کے لئے ایک تھیلا کاندھے
پرلٹکائے ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے پر اس طرح کود جاتا جیسے وہ پانی سے
نکلے قدم رکھنے کے پتھر ہوں اور اس طرح وہ آسٹریلیا سے ایشیا اور ایشیا سے
امریکہ پہنچتا۔
آسانی سے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر، دھکتے ہوئے آتش فشانوں سے برف پوش
چوٹیوں پر قدم رکھتے ہوئے وہ معدنیات اور جڑی بوٹیاں جمع کرتا، قدیم عبادت
گاہوں اور غاروں کا جائزہ لیتا، زمین اور اس کی ہر جاندار چیز کا مطالعہ
کرتا۔
اس مورخ کو بھی جو آدمی کی زندگی کا مطالعہ کرتا ہے ایسے جادو کے جوتو ں کی
ضرورت ہے۔ اس کتاب کے صفحات کے ذریعے ہم ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک،
ایک دور سے دوسرے دور تک گئے ہیں۔
کبھی کبھی تو ہم نے ا تنے بڑے بڑے فاصلے تیزی سے طے کئے ہیں اور وقت نیا
اتنی تیزی سے پرواز کی ہے کہ ہمارا سر چکرا گیا۔ لیکن ہم چلتے رہے، رکے
نہیں۔ ہم راستے میں رک کر تمام تفصیلات کا جائزہ نہیں لے سکتے تھے جیسا کہ
عام جوتے پہننے والے لوگ کرتے ہیں۔
صدیوں کی چھلانگیں لگانے میں شاید ہم بعض چیزوں کو نظرا نداز کر گئے۔ لیکن
اگر ہم اپنے جادو کے جوتے ذرا دیر کے لئے بھی اتار دیتے اور عام رفتار سے
چلتے توہم تمام تفصیلات میں الجھ کر اپنا راستہ صاف نہ دیکھ سکتے۔ اگر تم
جنگل کے ہر درخت کا تفصیل سے مطالعہ کرو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ تم درختوں
کی وجہ سے جنگل نہیں دیکھ سکتے ہو۔
ہم صرف ایک دور سے دوسرے دور تک ہی نہیں گئے بلکہ اپنے جادو کے جوتوں کی
وجہ سے طرح طرح کی سائنسوں تک بھی ہماری پہنچ ہو گئی۔
ہم پودوں اور جانوروں کی سائنس سے زبان کی سائنس تک ، زبان کی سائنس سے
اوزاروں کی تاریخ تک، اوزاروں کی تاریخ سے عقیدوں کی تاریخ تک اور مذہبوں
کی تاریخ سے زمین کی تاریخ تک پہنچے۔
یہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔ انسان سائنس کو اپنی خدمت کے لئے بنایا ہے اور
جب ہم زمین پر آدمی کی زندگی، دنیامیں اس کے مقام کے بارے میں بات کرتے ہیں
تو تمام سائنسیں ضروری ہوتی ہیں۔
ہم ابھی ابھی ہسپانوی فتوحات کے زمانے مین امریکہ میں تھے۔
آئو، اب ہم چار ہزار سال سے تین ہزار سال قبل مسیح تک والے یورپ کو واپس
چلیں۔ ہم یہاں بھی ایرو کوئیس اور آزٹیک قسم کے قبائل پائیں گے۔ ہمیں یہاں
بھی برداری کا ”لمبا مکان” ملے گا جہاں عورتیں سب انتظام کرتی ہیں ۔
یہاں عورتوں کی عزت ہوتی ہے کیونکہ وہ گھروں کی بنانے والی اور جرگے کی
بانی ہیں۔ عورتیں جاڑوں کے لئے غذا کے ذخیرے کرتی ہیں وہ زمین گوڑتی ہیں،
فصل بوتی اور کاٹتی ہیں۔
عورتیں مردوں سے کہیں زیادہ کام کرتی ہین لیکن عورتوں کی عزت بھی زیادہ
ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہر گائوں ، ہر گھر میں عورت کی پتھر یا ہڈی کی مورتی
ہوتی ہے جو جرگے کی ماں کی نشانی ہے۔ لوگ اس کے سامنے دعا کرتے ہیں، اس سے
بافراط فصل کی التجا کرتے ہیں اورا پنے دشمنوں سے پنا ہ چاہتے ہیں۔
صدیاں گزرنے کے بعد یہ گھر کی محافظ ماں یونان کے شہر ایتھنز آئی ایک
یونانی دیوی ایتھینا بن گئی۔ وہ شہر کی محافظ تھی اور اس کے ہاتھ میں ایک
نیزہ تھا۔ اب ایتھنز میں عورت کی چھوٹی سی مورتی نہیں بلکہ اس دیوی کا بہت
بڑا مجسمہ نصب تھا جو اپنے نام کے شہر کی محافظ تھی۔
پرانی عمارت میں پہلی دراڑیں
ہماری زبانوں میں اب بھی پرانے زمانے کے برادری والے طریقہ زندگی کی باقیات
پائی جاتی ہیں حالانکہ اب ہماری یاد میں اس کا کچھ بھی نہیں باقی رہ گیا
ہے۔
جب روس میں بچے اجنبیوں کو ”چچی” یا ”چچا” یا بزرگ اجنبیوں کو ”دادا” یا
”دادی” کہتے ہیں تویہ بات اس سماج کی باقیات میں سے ہے جس میں جرگے کے تمام
ممبر ایک دوسرے کے رشتے دار ہوتے تھے۔
اکثر ہم آدمیوں کے کسی جتھے کو خطاب کرتے ہوئے ”بھائیو” کہتے ہیں یا کسی
چھوٹے لڑکے کو جو ہمارا بیٹا نہیں ہوتا ”بیٹا” کہہ کر پکارتے ہیں۔
دوست زبانوں میں بھی ماضی کی ایسی باقیات ہیں۔ جرمن زبان میں ”میری
بھانجیاں اور بھانبے” کہنے کی بجائے ”میری بہن کے بچے” کہتے ہیں کیونکہ اس
زمانے میں جو بہت دن ہوئے بھلایا جا چکا ہے بہن کے بچے جرگے ہی میں رہتے
تھے۔ اور بھائی کے بچے اس کی بیوی کے جرگے کے ہوتے تھے۔بہن کے بچے رشتے دار
ہوتے تھے اور بھائی کے بچے ایسے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ دوسرے جرگے کے
ہوتے تھے۔
سیکسے کی قدیم ریاست میں بادشاہ کا وارث اس کی بہن کا بیٹا ہوتا تھا اپنا
بیٹا نہیں۔
ابھی پچھلی صدی تک افریقہ میں آشانتی ریاست تھی جس کا بادشاہ ”نانے” کہلاتا
تھا۔ اس لفظ کے معنی ہیں ”مائوں کی ماں”۔
وسط ایشیا میں سمر قند میں بادشاہ کو افشین” کہتے تھے۔ قدیم زمانے میں اس
کے معنی ہوتے تھے ”گھر کی مالکہ یا رانی”۔
ہمیں بہت سی ایسی مثالیں مل سکتی ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں کس طرح مادری
سماج کی، جہاں ماں گھر کی مالکہ اور گھر کی رانی ہوتی تھی، یاد باقی رہ
گئی۔
اگر لوگوں کے ذہن میں یہ یاد اتنے دن تک باقی رہی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ
جرگہ بہت مضبوط ہوتا تھا۔ لیکن اس کو کس نے تباہ کر دیا؟
امریکہ میں تویہ یورپی فاتحوں کی آمد کے ساتھ تباہ ہوا اور یورپ میں،
امریکہ کی دریافت سے ہزاروں سال پہلے، وہ خود سے ڈھیر ہو گیا، اس گھر کی
طرح جس کا دیمک کھا جاتی ہے۔
اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ مرد جرگے کے کام زیادہ سے زیادہ اپنے ہاتھ
میںلینے لگے۔
ابتدا سے عورتیں زمین کاشت کرتی تھیں اور مرد گلہ بانی کرتے تھے۔ جب گلے
بہت چھوتے ہوتے تھے اس وقت تک عورتوں کا، زمین کاشت کرنے والیوں کا کام سب
سے اہم تھا۔گوشت اور دودھ سب کے لئے کافی نہیں ہوتا تھا۔ اگر عورتیں اناج
جمع نہ کرتیں اور فصل نہ پیدا کرتیں توکھانے کو کچھ نہ رہ جاتا۔ کبھی کبھی
تو مٹھی بھر خشک اناج یا جو کی ایک روٹی ہی پورا کھانا ہوتی تھی۔ اس
میںجنگلی شہد یا گوندنیوں کا اضافہ ہوا۔ یہ بھی اناج کی طرح عورتیں ہی جمع
کرتی تھیں۔ عورتیںگھر کا انتظام کرتی تھیں۔ اور اسی لئے وہ حاکم بھی تھیں۔
لیکن یہ صورت ہمیشہ نہیں ہوتی تھی۔ اسیتپ میں اناج اگانا آسان نہ تھا۔
میدانوں کی گھاسیں اناج کو اپنی جگہ نہیں دینا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اپنی
جڑیں زمین میں بہت گہرے تک پہنچا دی تھیں۔ اور جب کدال سے زمین گوڑی جاتی
تو اس کو اوپری پرت نرم نہ ملتی بلکہ ٹھوس گھاس اور اچھوتی زمیں اس کو
روکتی جو بہت سخت تھی۔
اس لئے تین چار عورتیں مل کر کدال چلاتی تھیں پھر بھی وہ سطح کو ہی کرید
پاتی۔
کم گہرائی تک جتی ہوئی زمین میں بوئے جانے والے بیجوں کو سخت دھوپ سکھادیتی
یا چڑیاں چن لیتیں۔ نئے پودوں کی کونپلیں دور دور اور چند ہی دکھائی
دیتیں۔ پھر خشک سالی بھی کھیت میں اپنے کرتوت دکھاتی۔ وہ اناج کے نازک
پودوں کو جلا دیتی اور مضبوط اور سخت جان گھاس پھوس باقی رہ جاتے۔
جب فصل کی کٹائی کا وقت آتا تو عورتوںکے پاس کام ہی نہ ہوتا۔ لمبی لمبی
گھاس میں مشکل ہی سے کوئی اناج کی بالی نظر آتی۔ استیپ کی گھاسیں پھر دشمن ی
اس فوج کے نشانوں کی طرح لہراتیں جس کو ہرا دیا گیا لیکن وہ پھر جیتنے کے
لئے آگئی ہو۔
اناج کی بجائے گھاس پھوس! کیا اسی کے لئے ساری مصیبت اورکمر توڑ کام کیا
گیا تھا؟
لیکن آدمی کیلئے جو گھاس پھوس ہے وہی مویشیوں کے لئے چارہ ہے۔ میدانوں میں
گایوں اور بھیڑوں کی زندگی اچھی تھی۔ ہر قدمپر ان کے لئے دستر خوان بچھا
تھا۔
سال بسال گلوں میں اضافہ ہورہا تھا جرگے کے آدمی اپنی پیٹیوں میں خنجر ڈالے
ان کے ساتھ ہوتے۔ گلہ بان کابہتریں دوست، اس کاکتا گلے کو منتشر نہ ہونے
دیتا اور اس کو یکجا رکھتا۔ گلے اور زیادہ تیزی سے بڑھتے گئے۔ان سے لوگوں
کو سال بہ سال زیادہ دودھ، گوشت اور اون ملنے لگا۔
اب گھر میں کافی اناج تو نہیں ہوتا تھا۔ لیکن بھیڑ کے دودھ سے بنے ہوئے
پنیر کی افراط تھی اور بھیڑ کا گوشت ہانڈیوں میں ابلتا رہتا تھا۔
استیپ میں مرد کا کام، گلہ بانی کا کام زیادہ اہم ہو گیا۔
جلد ہی شمالی جنگلوں میں بھی مرد نے جرگے کی سر براہی شروع کر دی۔
سویڈن میں ایک چٹان پر ہلوا ہے کی قدیم ڈرائنگ پائی گئی ہے۔ یہ ڈرائنگ ٹری
بھدی اور بری طرح بنائی گئی ہے اور یہ ہلواھا ان لوگوں کی تصویروں کی طرح
ہے جو بچے بناتے ہیں۔ لیکن ہم اس تصویر کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے کہ
وہ کیسے بنائی گئی ہے کیونکہ ہم اس کو گواہ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، ڈرائنگ
کی طرح نہیں۔ یہ گواہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ ہلواھا اس ہل کے پیچھے پیچھے چل
رہا ہے جس کو بیلوں کی جوڑی کھینچ رہی ہے۔
غالباً تاریخ انسانی میں یہ پہلا ہل تھا۔ یہ بہت کچھ کدال سے ملتا جلتا ہے۔
صرف فرق یہ ہے کہ اس میں بیل جتے ہیں، آدمی اس کو نہیں کھینچ رہے ہیں۔
اس طرح آدمی نے اپنا پہلا ”موٹر” دریافت کیا۔ ہل میں جتا ہوا بیل یقیناً
ایک زندہ موٹر ہے، ہمارے فولادی ٹریکٹر کا زندہ جدا مجد۔ جب آدمی نے بیل کی
گردن پر جوا رکھا تو اس نے اپنا بوجھ جانور کی طرف منتقل کر دیا۔ اس طرح
مویشی جو اس کو گوشت، دودھ اور چمڑا دیتے تھے اب اس کو قوت بھی دینے لگے۔
سست رفتا رلیکن طاقتور بیلوں نے چوبی جوے اپنی گردنوں پر رکھ کر پہلے چوبی
ہل کھینچنا شروع کئے یہ ہل کدالوں کے مقابلے میں زمین کو زیادہ گہرائی تک
کھودنے لگے۔ اب جوتی ہوئی زمین ایک سیاہ فیتے کی طرح ہل کے پیچھے پھیلنے
لگی۔
پہلا ہلواھا ہل کے دستے کو اپنی پوری طاقت سے دباتا تھا۔ اب بیل نے اس کا
بوجھ سنبھال لیا۔ وہ جوتتا، اناج گاھتا اور اس کو گھر پہنچاتا۔ خزاں میں
بیل کھلیان جا کر اپنے کھروں سے اناج گاہتے۔ پھر وہ ایک گاڑی میں جوتے جاتے
اور اناج سے لدے ہوئے بورے کھیت سے گھر پہنچاتے۔
مویشی پالن زراعت میں اضافہ کرتا۔ اب گلہ بان ہلواھا بھی ہو گیا اور اس طرح
اس کو گھر میں اور زیادہ اختیارات حاصل ہو گئے۔
یہ سچ ہے کہ عورتوں کے پاس کام کا کافی حصہ تھا۔ وہ کتائی بنائی کرتیں، فصل
کاٹتیں اور بچوں کی پرورش کرتیں۔
لیکن ان کے پہلے جیسے اختیارات نہیں رہتے تھے اور نہ وہ عزت تھی۔ اب مرد
چراگاہوں اورکھیتوں دونوں کا مالک تھا۔
اب گھروں میں عورتیں مردوں پر غصہ نہیں دکھاتی تھیں جیسے پہلے ہوتا تھا۔
اور اب مرد بھی اپنی صفائی دینے کی بجائے برابر سے جواب دینے لگے تھے۔ پہلے
ساسوں، خالائوں اور نانیوں کے لئے مرد کو گھر سے نکال باہر کرنا بہت آسان
تھا لیکن اب انہوں نے اس کی دکھ بھال شروع کر دی۔ کیونکہ یہ اجنبی جو دوسرے
جرگے کا ہوتا تھا اور ان کے خاندان میں شادی کرتا تھا سب کے لئے کام کرتا
تھا اور پورے جرگے کو کھانا فراہم کرنے میں مدد دیتا تھا۔ اب لوگ نہیں
چاہتے تھے کہ ان کے مرد دوسرے جرگوں میں جائیں۔
کسانوں کے کھیتوں اور گلوں تک پہنچ جاتے تھے تو وہ اکثر کسانوں کے اناج
پر قبضہ کر لیتے تھے۔ دریا کی کسی وادی کی طرف جاتے ہوئے یاجنگل کے کنارے
تک استیپ میں سفر کرتے ہوئے وہ راستے میں پڑنے والے گائوں کو لوٹ لیتے تھے ا
ور جلا کر راکھ کر دیتے تھے، فصلوں کو روند ڈالتے تھے، مویشی اپنے ساتھ لے
جاتے تھے اور گائوں والوں کو قیدی بنا لیتے تھے۔
ان کو قیدیوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی کیونکہ ان لوگوں سے کام لیا جا سکتا
تھا، یہ لوگ گلوں کی دیکھ بھال کر سکتے تھے۔
خزاں میں جب فصل اکٹھا کی جا چکتی تو وہ اپنے پڑوسیوں پر حملہ کر کے ان کے
اناج گودام، کپڑے، زیور اور ہتھیار لوٹنے میں باک نہ کرتے۔ یہاں بھی سب سے
زیادہ قیمتی لوٹ قیدی تھے کیونکہ کسانوں کو تالاب کھودنے، بند بنانے اور
بیلوں کو ہنکانے کے لئے مزید آدمیوں کی ضرورت تھی۔
ابتدا میں قیدیوں کو غلام نہیں بنایا جاتا تھا کیونکہ کسی آدمی سے کوئی خاص
فائدہ نہیں مقصود ہوتا تھا۔ حالانکہ آدمی کام کرتا تھالیکن وہ اپنی کمائی
کے مطابق کھاتا بھی تھا۔
جب گلے بڑے بڑے ہونے لگے، جب آدمی کے کام سے، اس کے استعمال سے زیادہ اناج،
گوشت اور اون پیدا ہونے لگا تو سب کچھ بدل گیا۔ اب کسان اپنی ضرورت سے
زیادہ اناج بونے لگے تاکہ وہ اناج کا تبادلہ اون سے کر سکیں۔ اسی طرح گلہ
بان اپنے کپڑوں کی ضرورت سے زیادہ بھیڑوں کے گلے پالنے لگے تاکہ فاضل اون
کے بدلے اناج اور ہتھیار حاصل کر سکیں۔
اس تبادلے اوراکثر لوٹ مار نے بعض جرگوں اور خاندانوں کو دوسروں سے زیادہ
امیر بنا دیا۔ ان کے گلے بڑے ہو گئے۔ اور وہ زیادہ اناج بونے لگے۔ لیکن ان
گلوں کو دیکھنے بھالنے کے لئے اور کاشت کاری کے لئے کافی کام کرنے والے
نہیں تھے۔ اب لوگوں نے دوسروں کو غلام بنانا شروع کیا۔ غلام کے کام سے مالک
اور خود اس کا پیٹ بھرتا تھا۔ بس مالک کو یہ دیکھنا ہوتا کہ غلام کام
زیادہ کرے۔اورکھائے کم۔ اس طرح سے ایک آدمی کے ہاتھ میں دوسرا آدمی زندہ
اوزار بن گیا۔
ایک انسان ذلیل کر دیا گیا، اس کی گردن پراس طرح جوا رکھ دیا گیا گویا وہ
کوئی بیل ہو۔
آزادی کی سڑک پر، قدرت کی طاقتوں کو قابو میںلانے کے دوران میں آدمی خود
اپنے ساتھی آدمی خود اپنے ساتھی آدمی کا غلام بن گیا۔
پہلے زمین تمام کاشتکاروں کی مشترکہ ملکیت ہوتی تھی۔ اب غلام نے اس زمین کی
کاشتکاری شروع کر دی جو اس کی اپنی نہیں تھی، جو بیل وہ ہنکاتا تھا وہ اس
کا اپنا بیل نہ تھا، جو فصل وہ کاٹتا تھا س کی اپنی نہ تھی۔
قدیم مسر میں غلام بیلوں کو ہنکاتے ہوئے گاتے ہے:
بیلو، کچل دو گیہوں کی بالیاں!
فصل تو ہے میرے مالک کی۔
اب انسانیت کی تاریخ میں پہلی بار مالکوں اور غلاموں کا ظہور ہوا۔
حافظ اور یاد گار
ماضی میں ہمارا سفر ذرا دشوارتھا کیونکہ ہم غاروں میں محض سیاح کی حیثیت سے
نہیں بلکہ کھوج کرنے والوں کی طرح گھومے پھرے۔ ہر نئی چیز جو ملی وہ
پراسرار تھی اور اس کے راز کو حل کرنا تھا۔ راستے میں نہ تو کوئی نشان تھے
اور نہ ہماری کھوج میں رہنمائی کرنے والے تیر بنے تھے۔ اور قدیم زمانے کا
آدمی جو پتھر کے زمانے میں رہتا تھا ہمارے لئے نشان ہی کیا چھوڑ سکتا تھا؟
وہ تو لکھنا بھی نہیں جانتا تھا!
بہر صورت ہم آخر کار اس سڑک تک پہنچ گئے جہاں نشان راہ ہیں۔ ہمیں پہلی
تحریریں مزاروں کی لوحوں اور عبادت گاہوں کی دیواروں پر ملتی ہیں۔ وہ اس
جادو کے نشانات نہیں ہیںجن کا مقصد بدروحوں سے بچائو تھا۔ یہ تصویروں کی
زبان میں پوری پوری کہانیاں ۔لوگوں کے بارے میں لوگوں کے لئے کہانیاں۔
پھر بھی وہ ہمارے حروف سے ذرا بھی نہیں ملتی تھیں۔ بیل کے لئے وہ بیل کی
تصویر بناتے تھے اور درخت کے لئے پورے درخت کی معہ شاخوں کے تصویر کشی کرتے
تھے۔
تحریر کی تاریخ تصویری الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ صدیاں گزرنے پر ان تصویروں
کوآسان بنا کر ان کو نشانوں میں تبدیل کیا گیا۔
اب ہمارے حروف تہجی میں ان تصویروں کے بارے میں قیاس کرنا مشکل ہے جن سے وہ
نکلے ہیں۔ کون یہ سوچ سکتا ہے کہ A کا حرف دراصل بیل کا سر ہے، لیکن اگر
ہم Aکو الٹ کر دیکھو تو وہ سینگ دار سر سے مشابہ نظر آئے گا۔ قدیم سامیوں
کی زبان میں سینگ دار سر حرفA کے مترداف تھا۔ یہ حرف لفظ الف میں پہلا تھا
اور اس لفظ کا مطلب تھا بیل۔
اسی طرح ہم سارے حرف تہجی کی تاریخ کاپتہ بتا سکتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ
حرفo آنکھ کے لئے تھا اور P ایک لمبی گردن والے سر کے لئے۔
لیکن ہم اپنے جادو کے جوتوں کے ذریعے بہت بہت دور نکل آئے ہیں۔
دراصل ہم اپنی کہانی میں یہاں تک پہنچے تھے کہ پہلے پہل تصویری الفاظ کب
ظہور میں آئے۔
آدمی نے بہت ہی جھجک کر سست رفتاری سے لکھنا شروع کیا۔ پھر بھی اس کے لئے
لکھنا سیکھنے کا وقت آگیا تھا۔
جب بہت زیادہ مفید معلومات اور واقعات نہیں تھے تو آدمی ہر بات کو اپنے
حافظے میں رکھتا تھا۔ داستانیں اور قصے وغیرہ ایک آدمی کے ذریعے دوسرے تک
پہنچتے تھے۔ ہر بڈھا آدمی ایک جیتی جاگتی کتاب ہوتا تھا۔ لوگ کہانیاںاور
عام سوجھ بوجھ کی باتیں یاد کر لیتے تھے اور انہیں اپنے بچوں کو ایک قیمتی
ترکے کی حیثیت سے سپرد کرتے تھے تاکہ ان کے بچے وقت آنے پر ان کو اپنے
بچوں کو طرف منتقل کر دیں۔ لیکن یہ ترکہ جتنا زیادہ ہوتا گیا اتنا ہی اس کو
یاد رکھنا بھی مشکل ہوتا گیا۔
اور پھر حافظے کی مدد یاد گارنے کی۔ تجربے کو منتقل کرنے میں بولنے والی
زبان کو تحریری زبان مدد دینے لگی۔ کسی سردار کی لوح مزار پر اس کی مہموں
اورلڑائیوںکے کارنامے کندہ ہوتے تھے تاکہ وہ آنے نسلوں کو یاد رہیں۔
جب دوسرے اتحادی قبیلوں کے سرداروں کو ایلچی بھیجے جاتے تھے تو ان کی یاد
داشت کے لئے متعدد تصویری الفاظ درخت کی چھال کے ٹکڑے یا مٹی کی تختی پر
نقش کر دئے جاتے تھے۔
لوح مزار پہلی کتاب تھی۔ بھوج کی چھال پہلا لکھنے والا کاغذ بنی۔
ہمیں اپنے ٹیلی فون، ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر پر فخر ہے جو سب ہم کو وقت اور
فاصلے کی مشکلات سے بچاتے ہیں۔ ہم نے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے تک آوازوں کو
بھیجنا سیکھ لیا ہے۔ ہماری آواز ٹیپ اور ریکارڈوں میں محفوظ ہوکر آج سے
صدیوں بعد تک سنی جا سکے گی۔ ہم نے زبردست ترقی کی ہے لیکن ہم کو اپنے سے
پہلے کیلوگوں کے کارنامے نہیں بھالنا چاہئے۔ ہمارے پیدا ہونے سے بہت پہلے
ہمارا اجداد نے بھوج کی چھال پر خط لکھ کر پہلے پہل فاصلے پر اور پتھر کی
یاد گاروں پر پیغامات لکھ کروقت پر فتح حاصل کی۔
ان میں سے بہت سی یاد گاریں باقی رہ گئی ہیں جو ہم کو ہزاروں سال پہلے کی
زبردست مہموں اور لڑائیوں کے بارے میں بتاتی ہیں۔ تلواریں اور نیزے تانے
ہوئے سپاہیوں کی تصویریں پتھروں پر نقش ملتی ہیں۔ یہ ہیں وہ فاتح جو جیت کر
گھر لوٹ رہے ہیں اور ان کے پیچھے سر جھکائے اور ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے
ہوئے ان کے قیدی گھسٹتے چلے آرہے ہیں۔ اور یہاں تصویری الفاظ میں ہمیں
ہتھکڑی کی ڈرائنگ ملتی ہے جو غلامی اور نابرابری کا نشان ہے۔ یہ نشان ہم کو
آدمی کی تاریخ میں ایک نئے باب کے آغاز کا پتہ دیتا ہے، غلامی کی ابتدا
کا۔
ہمیں بعد کو مصری عبادت گاہوں کی دیواروں پرا اس قسم کے بہت سے تصویری گواہ
ملیں گے۔
ایک میں غلاموں کی لمبی قطار اینٹوں کو کھینچ کر جائے تعمیر تک لا رہی ہے۔
ایک غلام نے کچھ اینٹیں اپنے کندھے پر لادلی ہیں اور دونوں ہاتھوں سے انبار
کو پکڑے ہے۔ دوسرا ایک بہنگی کے ذریعے اینٹیں لئے جا رہا ہے جیسے لوگ پانی
کے دو ڈول لے کر چلتے ہیں۔ معمار ایک دیوار بنا رہے ہیں۔ ایک نگراں اینٹوں
کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔ وہ اپنی کہنیاں گھٹنوں پر ٹیکے ہے اور اس کے ہاتھ
میں لمبا سا ڈنڈا ہے۔ اس کو کام نہیں کرنا پڑتا۔ اس کا کام دوسروں سے کام
لینا ہے۔ ایک اور نگراں جائے تعمیر پر ادھر ادھر ٹہل رہا ہے۔ اس نے ایک
غلام کے سر پر بڑے زور سے ڈندا تانا۔ شاید غلام نے کوئی بات اس کی مرضی کے
خلاف کی ہو گی۔
غلام اور آزاد آدمی
کہیں ہوا ہے پیدا آنڈی سے گلاب
ممکن نہیں کہ کچھ بچہ غلام ہو مرد آزاد
یہ یونانی شاعر تھیوگنیس نے اس وقت لکھا تھا جب سماج میں غلامی کا رواج
پوری طرح پختہ ہو چکا تھا۔
بہرحال شروع میں غلاموں کو حقیر نہیںسمجھا جاتا تھا۔ آزاد اور غلام آدمی
دونوں ساتھ مل کر کام کرتے تھے او رایک خاندان یا برادری کی طرح ہوتے تھے۔
باپ یعنی سر قبیلہ اس خاندانی برادری کا سربراہ اور حکمراں ہوتا تھا۔ اس کے
بیٹے، ان کی بیویاں اور بچے اور اس کے غلام سب اسی کے گھر میں رہتے تھے
اور اس کے قطعی ماتحت ہوتے تھے۔ باپ اپنے نا فرما نبردار بیٹے کو بھی اسی
طرح مارپیٹ سکتا تھا جیسے اپنے نافرمانبردار غلام کو۔
کوئی بڈھا غلام اپنے مالک سے بات کرتے وقت صرف اس کو ”بیٹا”کہتا تھاجب کہ
رواج کے مطابق مالک بڈھے غلام کو ”باپ” کہہ کر پکارتا تھا۔
اگر تم نے مشہور یونانی نظم ”اوڈیسی” پڑھی ہے تو تمہیں غالباً بڈھا ایومیئس
یاد ہو گا جو سور چرانے والا ہے اور اپنے مالک کی میز پر کھاتا پیتا ہے۔
اور ایومیئس بھی قبیلے کے سردار کی طرح ”خدا کے برابر” کہا جاتا ہے۔
لیکن گیتوں کے الفاظ پر ہمیشہ یقین نہیں کیا جا سکتا ۔ سور چرانے والا
ایومیئس نہ تو خدا کے برابر تھا اور نہ اپنے مالک کے برابر۔ وہ کام کرنے پر
مجبور تھا اور اس کے مالک کے لئے کام اپنی مرضی پر تھا۔ خاندان کے فرد کے
مقابلے میں غلام سے زیادہ کام لیا جاتا تھا لیکن غلام کو حصہ بہت کم ملتا
تھا۔غلام کسی کی ملکیت ہوتا تھا اور آزاد آدمی غلام کا مالک تھا۔
جب مالک مر جاتا تو اس کے غلام اور تمام دوسری ملکیت، اس کے سامان کے گودام
اور اس کے مویشیوں کے گلے سب اس کے بیٹوں کی ملکیت ہو جاتے تھے۔
اس خاندانی برداری میں پہلے والی مساوات کا کہیں نشان تک نہ تھا۔
یہاں باپ بچوں پر حکومت کرتا تھا، شوہر بیوی پر حکم چلا تا تھااور ساسیں
بہوئوں پر،اور بڑی بہویں چھوٹی بہوئوں پر۔ لیکن غلام تو سب سے نیچے طبقے
میں تھا۔ اس پر سبھی حکم چلاتے تھے۔
جرگوں اور برادریوں میں جو مساوات پہلے تھی وہ بھی اب غائب ہو گئی۔ کچھ کے
پاس زیادہ مویشی تھے اور کچھ کے پاس کم۔ اور مویشی ہی دولت کا پیمانہ تھا۔
بیل کے بدلے میں کپڑے اور ہتھیار لئے جا سکتے تھے۔ اسی وجہ سے پہلے کانسے
کے سکے بیل کے پھیلے چمڑے کی شکل میں ڈھالے گئے۔
پھر بھی غلام بیل سے زیادہ قیمتی تھا۔
غلام سوروں، گایوں اور بھیڑوں کی نگرانی کرتا تھا۔ دن بھر ان کے ساتھ
چراگاہ میں رہنے کے بعد شام کو ان کو باڑوں میں لاتا تھا۔ غلام فصل جمع
کرنے میں مدد دیتا تھا، انگوروں سے رس نچوڑتا تھا اور زیتون سے تیل۔ سنہرے
اناج کے ڈھیرگوداموں کو بھر دیتے تھے۔ خوشبودار تیل مٹی کے بڑے بڑے ظروف
میں ٹپک ٹپک کر آتا تھا جو امفوری کہلاتے تھے۔
غلام آزاد آدمی کی مدد کرتا تھا لیکن اس کو سب سے سخت اور سب سے گندا کام
کرنا پڑتا تھا۔
اب لڑائیاں نفع بخش ہو گئیں کیونکہ ان سے غلام ملتے تھے اور غلام مالکوں کے
لئے بڑی دولت پیدا کرتے تھے۔
اس طرح آزاد آدمی لڑنے چلے جاتے اور غلاموں کو اپنے گلے دیکھنے اور زمین کی
کاشت کرنے کے لئے چھوڑ جاتے۔
جنگوں کی وجہ سے کام اور بڑھ گیا۔ دوسرے قبیلے پر حملے کے لئے لوگوں کو
زیادہ تلواروں، برچھوں اور رتھوں کی ضرورت تھی۔ سپاہی اپنے رتھوں میں صبا
رفتار گھوڑے جوتتے اور میدان جنگ کے لئے روانہ ہو جاتے۔
لیکن جنگی چالوں میں حملہ بھی ہے اور بچائو بھی دشمن کی تلواروں اور نیزوں
کی ضرب سے بچنے کے لئے سپاہی خود پہننے لگے اور ڈھالیں باندھنے لگے۔ آخر
کار، برادری کے مکانات کی حفاظت بڑے برے پتھروں کی دیواروں سے کی جانے لگی۔
جرگہ جتنا ہی زیادہ دولت مند ہوتا اتنا ہی زیادہ وقت اور کوشش اپنی دفاع
میں لگاتا۔ اب اس کو بہت کچھ بچانا تھا۔
جلد ہی پہاڑیوں پر بڑے بڑے قلعے نظر آنے لگے جن میں درجنوں کمرے اور گودام
ہوتے تھے اور فصیلوں پر برج بنائے جاتے تھے۔ داخلے کے لئے بھاری پھاٹک ہوتے
تھے۔
خیمہ گھر کیسے بنا اور گھر شہر کیسے بن گیا۔
ایک سوویت مورخ تولستوف نے اپنی کتاب ”قدیم خوارزم” میں ان قلعوں کھنڈرات
کا حال لکھا ہے جو اس نے وسط ایشیا کے ریگستان میں پائے۔
یہ عمارتیں اپنی وسعت میں گھر نہیں بلکہ ایک شہر کی طرح تھیں۔
مضبوط مٹی کی دیواریں ایک بہت بڑے قطعہ زمین کو گھیرتی تھیں اور کئی میل تک
پھیلی ہوتی تھیں۔ دیواروں کے اندر محراب دار حجروں میں برادری کے ممبر
رہتے تھے، جن کی چھتوں میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہوتی تھیں۔
یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ ہزاروں آدمی دیواروں کے اندر تنگ اور نیم
تاریک حجروں میں رہتے تھے، جن کی چھتوںمیں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہوتی تھیں۔
یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ ہزاروں آدمی دیواروں کے اندر تنگ اور نیم
تاریک حجروں میں رہتے تھے جب کہ بیچ کا بڑا صحن خالی رہتا تھا۔
تولستوف کاجواب بہت سید تھا سادہ تھا۔ اس زمانے میں خوارزم کے لوگوں کی بڑی
دولت ان کے مویشی تھے۔ یہ بڑا صحن دراصل بڑے گلوں کا باڑہ ہوتا تھا۔ اور
دیواریں جن میں سوراخ اور نگرانی کے لئے مینار ہوتے تھے۔ اس دولت کو دشمن
کے حملوں سے بچاتی تھیں۔
جب دشمن حملہ کرتا تھا تو قلعے کے سارے باشندے سوراخوں پر جمع ہو کر حملہ
آوروں پر تیروں کی بارش کرتے تھے۔
لیکن جس دولت کا بچائو وہ سب مل کر کرتے تھے اب مشترکہ ملکیت نہیں رہی تھی۔
حالانکہ سب لوگ ایک دوسرے کے رشتے دار تھے پھر بھی کچھ خاندانوں کے پاس
بھیڑ، بیل اور گھوڑے وغیرہ دوسروں سے زیادہ تھے۔
پرانی داستانیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ان دور دراز زمانوں میں لفظ ”دولت مند”
موجود تھا۔ لوگ صرف یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ شخص ”دولت مند”ہے۔ وہ یوں کہتے
تھے کہ وہ ”گلوں سے دولت مند” ہے یا ”گھوڑوں سے دولت مند” ہے۔
پڑوسی قلعے پر ہر حملہ جنگی سرداروں کے گلوں میں اضافہ کرتا تھااور امیر
وغریب کا فرق بھی بڑھاتا تھا۔
تولستوف اور ان کے ساتھیوں نے دوسرے قلعے بھی ڈھونڈ نکالے (گھر اور شہر
دونوں) جو بعد میں بنائے گئے تھے۔
ریگستان میں ان کی کھدائی بہت برسوں تک ہوتی رہی۔ یہ بہت ہی مشکل اور سنگین
ذمے داری تھی۔ زمانوں کی بھولی بسری تہذیب کی نشانیوں کی تلاش میں سوویت
سائنس دان اونٹوں، موٹروں اور موٹر کشتیوں اور ہوائی جہازوں پر سرگرداں
رہے۔ کبھی کبھی اونٹ کے کوہان یا ٹیلے پر بیٹھ کر ان کو صرف پرانے ٹیکرے
نظر آتے جن پر کھاری مٹی کی بھوری پرت جمی ہوتی۔لیکن ریگستان میں ہوائی
جہاز سے اڑتے ہوئے وہ دیواروں، سڑکوں اور بڑے بڑے برادری کے گھروں کے خط
وخال دیکھ لیتے تھے۔
ان تمام گھروں اور شہروں کا مقابلہ کر کے انہوں نے آخر کار اس ارتقا کی
کہانی تیار کر لی جو ابتدائی برادرانہ نظام سے غلام کی ملکیت والے نظام تک
ہوا تھا۔
جان باس کالا کے قریب مچھیروں کا خیمہ نما گھر تھا۔ وہاں ابھی تک امیر تھے
نہ غریب۔تمام چولھے ایک ناپ کے تھے، سب آدمی برابر تھے کیونکہ وہ سب مساوی
طورپر غریب ہوتے تھے۔ گھر قلعہ بندنہیں تھا کیونکہ کوئی دولت نہ تھی جس کی
حفاظت کی جائے۔
اس پڑائو سے قریب ہی سائنس دانوں نے مٹی کے ایک ”لمبے گھر” کے کھنڈرات
پائے۔ چولھوں کی صف طویل خط 50 میٹر والے دو برآمدوں میں چلی گئی تھی۔
یہ گھر بھی قلعہ بند نہ تھا۔
لیکن صدیاں گزر گئیں۔ ”لمبے گھر” ایک دوسرے سے منسلک کر دئے گئے تاکہ وسیع
خالی صحن کے گرد ایسی دیوار بن جائے جس کے اندر آبادی ہو۔
ایسا ہی محصور گھر کوئزیلی گور میں ہے۔ یہاں ہم کو دیواروں میں سوراخ اور
نگرانی کے لئے مینار ملتے ہیں۔ لوگ اپنے گلوں کو دشمن کے حملوں سے بچاتے
تھے لیکن اپنے پڑوسیوں پرحملہ کرنے اور ان کا سامان لوٹنے میں بھی باک
نہیںکرتے تھے۔یہاں کچھ خاندان دوسروں سے زیادہ امیر تھے حالانکہ اس کا کوئی
صاف ثبوت نہیں ملتا۔ ماہرین آثار قدیمہ دوسرے ملکوں اور دنیا کے دوسرے
حصوں میں رہنے والے لوگوں کے رواجوں کا مطالعہ کر کے صرف یہی اخذ کر سکے
ہیںکہ ایسی نابرابری تھی۔
دوسری منزل جان باس کالا کا قلعہ ہے۔ دیواروں سے محصور صحن خالی نہیںہے
کیونکہ خالی جگہ میں برادری کے دو بہت بڑے، متعدد کمروں والے مکان ہیں۔
دونوں مکانوں کے بیچ میں سڑک ہے جو ”آتش خانے” تک جاتی ہے۔ قدیم زمانے کے
مچھیروں کے خیمے کا قدیم چولھا جس میں ہمیشہ آگ جلتی تھی اب عبادت گاہ بن
گیا ہے۔
اب قلعے میں ایک جرگہ نہیں رہتا۔ یہاں جرگوں کے دو جتھے رہتے ہیں جن کے الگ
الگ گھر ہیں۔ یہاں باڑ نہیں ہے کیونکہ باشندوں کا خاص پیشہ مویشی پالن
نہیں بلکہ زراعت ہے۔ قلعے کی دیواروں کے باہر کھیت ہیںجن کے درمیان جابجا
آب پاشی کے لئے نہریں ہیں۔ یہ قلعہ خانہ بدوشوں سے ان کھیتوں اور نہروں کو
بچاتا ہے۔
ابھی ایک اور بعد کی منزل توپ راک کا لا ہے۔ یہاں قلعے کی فصیل کے اندر
تقریباً درجن بھر بہت سے کمروں والے مکانات ہیں۔
ابھی ایک اور بعد کی منزل توپ راک کالا ہے۔ یہاں قلعے کی فصیل کے اندر
تقریباً درجن بھر بہت سے کمروں والے مکانات ہیں۔
چاروں طرف سے مضبوط میناروںوالی دیواریں شہر کو گھیرے ہیں۔ کوئی آنے والا
فوراً شہر میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس کو ایک بھول بھیلیاں سے گزرنا ہوتا ہے
جو داخلوں کی حفاظت کرتی ہے۔ خاص سڑک جو داخلے کے پھاٹکوں سے شروع ہوتی ہے
شہر کے بیچوں بیچ سے ایک سرے سے دوسرے تک گزرتی چلی جاتی ہے۔ اس کے دونوں
طرف برادری کے بڑے بڑے مکانات ہیں جن میں سکیڑوں کمرے، چھوٹے برج اور صحن
ہیں۔خاص سڑک ”آتش خانے” کو اور شہر کے حکمراں کے تین برجوں والے شاندار محل
تک جاتی ہے۔
اب اس کے کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں جو جگہ جگہ مٹی اور ریت میں دفن ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ کو شہر کا نقشہ ازسر نو بحال کرنے کے لئے کافی عرصے تک
سخت محنت کرنی پڑی۔
دریافتوں کے متواتر سلسلے نے ان کی محنتوں کو بار آور کیا۔ سب سے زیاد ہ
دلچسپ چیزیں تین برجوں والے محل میں پائی گئیں۔ جہاں شاندار کمروں کی
دیواروں پر ماہر کاریگروں کے شکار نظر آتے ہیں۔ یہاں، اس ویران ریگستان میں
محل کی دیواروں پر ماضی کے مناظر باکل جیتے جاگتے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک
لڑکی بربط بجا رہی ہے، ایک انگور چننے والا اپنی ٹوکری سے پر اٹھائے ہے،
ایک آدمی سیاہ کوٹ پہنے ہے۔ ان کے علاوہ گھوڑے اور جنگلی مرغیاں ہیں۔ ماہر
مجسمہ سازوں کے بنائے ہوئے مجسموں کے ٹکڑے بھی دستیاب ہوئے ہیں۔
محل کی ہر چیز اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس کے مالک شہر کے دوسرے
باشندوں سے زیادہ امیر اور ممتاز تھے ۔
اور محل خود دوسرے گھروں سے سر بلند اور بارعب بن کر اس کا ثبوت دیتا تھا
کہ اس کے باسی باقی لوگوں سے کہیں زیادہ اچھی حالت میں ہیں۔
اس محل میں اپنے خاندان اور اپنے متعدد غلاموں کے ساتھ خوارزم شاہ رہتا تھا
جو شہر اور سارے ملک کا حکمراں تھا۔
یہ شہر بجائے خود ایک ریاست تھا۔ حکمراں کے پاس ایک فوج تھی جو اس کو
غلاموں اور غریبوں کو فرماں بردار رکھنے، امیر اور شریف خاندانوں کے حقوق
کی حفاظت کرنے اور آبیاشی کے لئے نہروں کی نگرانی میں مدد دیتی تھی۔ آبیاشی
کی کسی بڑی نہر کی تعمیر کے لئے غلاموں کی بڑی تعداد درکار ہوتی تھی۔ اور
صرف ایک قلعہ نہیں بلکہ بہت سے قلعے اور باقاعدہ فوج کھیتوں، نہروں اور
خوارزم کے غیر قلعہ بندکسانوں کے گھروں کی حفاظت کرتے تھے۔
اس طرح ہزاروں برسوں کے دوران میں سفر کر کے سائنس داں خود اپنی آنکھوں سے
دیکھ سکے کہ کس طرح خیمہ گھر میں تبدیل ہوا اور گھر شہر میں اور کیسے مساوی
لوگوں کی برادری غلام دار ریاست بن گئی۔
ماہرین آثار قدیمہ نے اس قسم کے رہائشی قلعے وسط ایشیا کے علاوہ دوسری
جگہوں پر بھی پائے جہاں لوگوں کو اپنی دولت دشمن کے حملوں سے بچانا ہوتی
تھی۔
قلعہ کا محاصرہ
قلعہ کی فصیل پر سے تم کو دور دور دکھائی دیتا۔ جب کوئی گرد کا بادل فاصلے
پر دکھائی دیتا اور دھوپ میں نیزوں کی نوکیں چمکتیں تو قلعہ میں جلدی جلدی
دفاع کی تیاری ہونے لگتی تھی۔ کسان اپنے بیل لے کر قلعہ کے اندر بھاگتے تھے
اور گلہ بان اپنے گلے قلعی میں لے آتے تھے۔ جب سب قلعہ کے ا ندر بھاگتے
تھے اور گلہ بان اپنے گلے قلعہ میں لے آتے تھے۔ جب سب قلعہ میں آجاتے
تھے۔تو بھاری پھاٹک مضبوط سے بند کر لئے لے جاتے تھے۔ سپاہی دیواروں اور
برجوں پر تعینات کر دئے جاتے تھے۔ وہ دشمن کے قریب آنے کا انتظار کرتے تھے
اور پھر صبار فتار اور تیز تیروں سے اس کا خیر مقدم کرتے تھے۔
حملہ آور قلعہ کے قریب آکر پڑائو ڈال دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ قلعہ کے
لوگ آسانی سے ہا ر نہیں مانیں گے۔ بلند دیواروں کے گرنے میں کئی مہینوں
لگیں گے۔ ہر صبح کو قلعہ کے پھاٹکے چر چراتے ہوئے کھلتے۔ سپاہیوں کا مجمع
اپنے نیزے بلند کر کے جھپٹتا۔ وہ کھلے میدان میں لڑائی کا تصفیہ کرنے آتے۔
وہ دشمن کے گھوڑے کی دموں کے بالوں سے سجے ہوئے اور چمچماتے خودوں پر
تلواروں سے غصے کے ساتھ وار کرتے۔ وہ جان توڑ کر لڑتے، نہ خود دم لیتے اور
نہ دشمن کو دم لینے دیتے۔
ایک کو اپنے گھر اور خاندان بچانے کا جوش ہوتا تو دوسرا اس غصے سے آگ بگولا
ہوتا کہ دولتیں اتنے قریب ہونے کے باوجود اس کے دست رس سے دور ہیں۔ دفاع
کرنے والے جو زندہ بچ جاتے رات میں قلعہ کو واپس جاتے اور صبح تک کے لئے
لڑائی ملتوی ہو جاتی۔
اس طرح دن گزرتے جاتے۔ محصور لوگ حملہ آوروں سے بہادری کے ساتھ لڑتے لیکن
بھوک کی مار دشمنوں کے نیزوں اور تیروں کی مار سے کہیں مہلک ہوتی ہے۔
جب گوداموں میںجو کبھی اناج سے بھرے تھے خاک اڑنے لگتی ، جب مٹی کے مٹکوں
کا تیل آخری قطرے تک ختم ہو جاتا تو قلعہ میں ماتم برپا ہو جاتا۔بھوکے بچے
روتے اور عورتیں خاموشی سے اپنے آنسو پونچھتیں کہ کہیں مردوں کو ان کے اوپر
غصہ نہ آجائے۔
ہر لڑائی کے بعد قلعہ میں دفاع کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جاتی اور آخر کار
وہ دن آجاتا جب پیچھے ہٹتے ہوئے سپاہیوں کا پیچھا کر کے حملہ آور قلعہ میں
داخل ہو جاتے۔ وہ مضبوط دیواروں کے اندر اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ جہاں پہلے
لوگ رہتے تھے،کام کرتے تھے اور خوشیاں مناتے تھے وہاں کھنڈروں اور انسانی
لاشوں کے ڈھیروں کے سوا کچھ نہ رہ جاتا۔ فاتح زندہ لوگوں کو، خواہ وہ جوان
ہوں یا بڈھے، غلام بنا کر لے جاتے۔
میرا اور تیرا
پہلے پہل تو ہر کاریگر صرف برادری، اپنے گائوں کے لئے کام کرتا تھا۔
لیکن رفتہ رفتہ اسلحہ گروں اور کمھاروں نے اپنی چیزوں کا تبادلہ اناج، کپڑے
اور دوسرے کاریگروں کے بنائے ہوئے سامان سے زیادہ کرنا شروع کر دیا۔
اب قدیم قبائلی نظام میں دراڑیں پڑنے لگیں جیسے کان میں گرم کئے ہوئے پتھر
میں ٹھنڈے پانی سے دراڑیں پڑ جاتی تھیں۔
ابتدا میں گائوں کے تمام لوگ برابر ہوتے تھے۔ اب ایک دراڑ نے امیر خاندانوں
کو غریب خاندانوں سے الگ کر دیا اور دوسری نے کاریگروں کو کسانوں سے۔
جب تک کاریگر برادری کے لئے کام کرتے تھے برادری ان کو کھانا دیتی تھی۔ لوگ
ساتھ مل کر کام کرتے اور ان تمام چیزوں میں جو وہ بناتے یا زمین سے پیدا
کرتے تھے حصے دار ہوتے تھے۔
لیکن جب کاریگروں نے ا پنے برتنوں اورتلواروں کی تجارت دوسرے گائوں سے شروع
کر دی تو انہوں نے اس اناج او رکپڑے میں اپنے رشتے داروں کو حصے دار نہیں
بنایا جو ان کو معاوضے میں ملا۔
بہر حال یہ اناج اورکپڑے خود انہوں نے اور ان کے بیٹوں نے کمائے تھے اور
کسی نے ان کی مدد نہیں کی تھی۔
اس طرح آدمی نے ”میرے” اور ”تیرے” کے درمیان تفریق شروع کی تاکہ وہ اپنے
خاندان کو رشتے داروں کے خاندان سے الگ کر سکے۔
لوگ چھوٹے خاندانی جتھوں میں رہنے لگے۔
قدیم یونان کے میکینئی اور تیرینسی نام شہروں میں ماہرین آثار قدیمہ نے
ایسی بستیوں کے کھنڈرات پائے ہیں جو اس تفریق کی طرح اشارہ کرتے ہیں۔
سب سے دولت مند اور طاقتور خاندان پہاڑی کی چوٹی پر مضبوط دیواروں کے اندر
رہتا تھا۔ اور اس خاندان کے پاس پتھر کی دیواروں کے پیچھے چھپانے کے لئے
بہت کچھ ہوتا تھا۔ قبیلے کا جنگی سردار یہاں اپنے بیٹوں، بہوئوں اور پوتوں
کے ساتھ رہتا تھا۔ نیچے میدان میں غریب کسان اپنی جھونپڑیوں میں گڈمڈ بستے
تھے۔ اور قریب کی پہاڑیوں پر کاریگروں یعنی اسلحہ سازوں، کمھاروں اور
ٹھٹھیروں کے گھر پھیلے ہوتے تھے۔
اس بستی میں لوگ اب ایک دوسرے سے برابر والے کی حیثیت سے نہیں بات کرتے
تھے۔ جب امیر اور طاقتور سردار کسانوں کے پاس سے نکلتا تو وہ اس کی تعظیم
بجا لاتے کیونکہ ان کا عقیدہ تھاکہ خدا زبرداست کا سر پرست ہوتا ہے۔
مذہبی پیشوائوں نے ان کو یہی سکھایا تھا۔ اس قسم کے خیالات بچپن ہی سے ان
کے دل میں بٹھائے جاتے تھے۔
کسان، کاریگر یا کان کن کو اپنے برابر کا یا اپنا بھائی نہیں سمجھتا تھا۔
کیایہ کریہہ منظر آدمی جو تہہ زمین سے تانبا نکالتا ہے جہاں سے شعلے اور
بھاپ نکلتی ہے جادو گر نہیں ہے؟ وہ کیسے جانتا ہے کہ اس کے پیروں تلے کیا
ہو رہا ہے؟ اور کان کن کو کچ دھات کیسے ملتی ہے؟ کوئی اس کو بتاتا ہو گا کہ
دھات کہاں ہے، کوئی اس کی مدد کرتا ہے اور کسی معجزے کے ذریعے اس کو تانبے
یاکانسے میں بدل دیتا ہے۔ وہاں، تہہ زمین کان کن کے پراسرار سر پرست ہیں
جن سے معمولی آدمی کا الگ رہنا ہی بہتر ہے۔
یہ خیالات صرف یونان ہی کے لوگوں کے ذہن میں نہیں تھے۔ قدیم زمانے کے آدمی
ہر جگہ اسی طرح کے خیالات رکھتے تھے۔
تانبا تیار کرنے والے جادو گروں کے قصے ہم تک قدیم زمانے سے آئے ہیں۔
ہماری زبان میں اب بھی ایسے الفاظ ہیں جو بتاتے ہیں کہ دولت اور غربت کوکیا
سمجھا جاتا تھا۔ قدیم لوگ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ برادریاں کس طرح امیر اور
غریب خاندانوں میں تقسیم ہو گئی تھیں۔وہ خیال کرتے تھے۔ کہ دیوتا پہلے ہی
سے آدمی کی قسمت کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔
روسی زبان میں ”بوگاتی” کے معنی ہیں دولت مند۔ یہ لفظ ”بوگ” سے نکلا ہے جس
کے معنی ہیں دیوتایا خدا۔ یہ لفظ اس وقت روسی زبان میں داخل ہوا تھا جب لوگ
یہ یقین کرتے تھے کہ دیوتا امیروں کی مدد کرتے ہیں اور غریبوں کے لئے صرف
مصیبتیں نازل کرتے ہیں۔
ایک نئے نظام کی ابتدا
آئو پھر اس راستے کی طرف مڑکر دیکھیں جو آدمی نے طے کیا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب امیر اور غریب، غلام اور مالک نہیں ہوتے تھے۔ قدیم زمانے
کے شکاری جو اپنی کھوہوں میں گڈمڈ رہتے تھے مساوی طور پر غریب ہوتے تھے۔
پتھر اور ہڈیوں کے بنے ہوئے ان کے اوزار بہت ہی بھدے تھے۔ ان کو صرف یہی
بات جنگلی جانوروں، بھکمری اور سردی سے بچاتی تھی کہ وہ ایک ساتھ رہتے تھے،
ایک ساتھ شکار کھیلتے تھے، اپنی طاقتوں کو متحد کر کے خطرے سے دفاع کرتے
تھے ا ور مشترکہ رہائش گاہیں بناتے تھے۔
میموتھ کی تو بات ہی جانے دو اکیلا آدمی کسی ریچھ کو بھی نہیں مار سکتا
تھا۔ اکیلا آدمی اپنے چولھے کے لئے کوئی پتھر گھر تک گھسیٹ کر نہیں لا سکتا
تھا یا کسی اوپر نکلی ہوئی چٹان میں پتھروں کی سلوں کا اضافہ کر کے دیوار
نہیں بنا سکتا تھا۔
اس وقت لوگوں میں ہر چیز مشترک تھی۔ جب شکار کامیاب رہتا تھا تو بزرگ لوگ
گوشت کاٹ کر ان لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے جنہوں نے جانور کا پتہ لگانے
اور شکار کرنے میں حصہ لیا تھا۔
لیکن ہزاروں سال گزر گئے۔قدیم زمانے کے خیموں اور کھوہوں کی جگہ مکانوں نے
لے لی اور پتھروں اور ہڈیوں کے اوزاروں کی جگہ دھات کے اوزار آگئے۔
لوگوں نے پہلے کدالوں سے زمین گوڑنی شروع کی پھر لکڑی کے ہلوں سے۔ انہوں نے
گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں پال لیں۔ لوہار خانوں میں نہائیوں پرہتھوڑوں کی
چوٹیں گونجنے لگیں۔ کمھاروں کے چاک ناچنے لگے۔محنت کی تقسیم شروع ہو گئی۔
اگر لوہار کسی کلہاڑی یادرانتی کے بدلے میں آسانی سے اناج حاصل کر سکتا
تھاتو اس کو کاشتکاری کی ضرورت نہ تھی۔ کسان کو ریوڑوں کی دیکھ بھال کی فکر
نہ تھی کیونکہ وہ اپنی ضرورت بھر کا اون، اناج کے بدلے حاصل کر سکتا تھا۔
کشتیاں اور بادبانی جہاز ایک گائوں سے دوسرے جانے لگے۔ وہ اناج اور اور
اون، کلہاڑیوں اور مٹی کے برتنوں سے لدے ہوتے تھے۔ باہر سے آنے والے اکثر
ڈاکو بن جاتے تھے کیونکہ لوٹ مار اور سامان کے تبادلے کا چولی دامن کا ساتھ
تھا۔
پہلے کوئی بھی اپنے رشتے داروں سے زیادہ امیر نہیں ہو سکتا تھا۔ سب مساوی
طو رپر غریب تھے۔
اور اب امیروں اور بااختیار خاندانوں کے گھروں کو محصور کرنے والی پتھر کی
بلند دیواریں غریبوں کی جھونپڑیوں کے اوپر پہاڑیوں پر نظر آنے لگیں۔ وہاں
گودام سامان سے بھرے پڑے تھے اور سال بسال خزانوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
برادری میں امیروں نے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے اور ان لوگوں کو ماتحت
بنا لیا جو غریب تھے۔ غریب آدمی کو اب اپنے امیر پڑوسی سے بار بار مدد کی
التجا کرنی پڑتی تھی اور یہ مدد بہت گراں پڑتی تھی کیونکہ غریب آدمی کو اس
اناج کے لئے جو اس نے کسی کٹھن جاڑے کے موسم میں قرض لیا تھا امیر آدمی کو
برسوں تک ادائیگی کرنی پڑتی تھی۔
اس طرح لوگوں نے دوسروں کو غلام بنانا شروع کیا۔
لیکن غلامی کا ارتقا صرف اسی طرح نہیں ہوا۔ لوگوں کو جنگوں میں قید کر کے
غلام بنایا جاتا تھا۔
کسی زمانے میں سبھی کام کرتے تھے لیکن وہ زمانہ آیاجب کچھ لوگوں نے کام
کرنا بالکل بندکر دیا اور دوسروں سے کوڑے مار مار کر کام لینے لگے۔
کسی زمانے میں ہر چیز مشترکہ ملکیت تھی، شکار کے ہتھیار اور شکار دونوں، اب
غلاموں کا مالک ہی بڑی بڑی اراضیوں، گلوں اور ورکشاپوں کا پورا مالک ہوتا
تھا۔ غلام اس کے کھیتوں کو جوتتے بوتے تھے، اس کے گلوں کی دیکھ بھال کرتے
تھے اور اس کے شاپوں میں کام کرتے تھے۔
کسی زمانے میں ایک برادری کے لوگ آپس میں جنگ نہیں کرتے تھے۔ وہ امن سے
رہتے تھے۔ روسی زبان میں ”میر” کے لفظ کے معنی ”امن” اور ”برادری” دونوں
ہیں۔
لیکن غلامی کے ظہور کے ساتھ ہر گائوں اور شہر میں جنگ شروع ہو گئی۔
غلاموں کے مالک اپنے غلاموںسے توہین وحقارت کے ساتھ پیش آتے تھے اور غلام
اپنے مالکوں سے نفرت کرتے تھے۔
غلام بھاگنے کے خواب دیکھا کرتے تھے اور مالک اپنی جائیداد کو، اپنے جیتے
جاگتے، بولتے اوزار کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے لئے تلا رہتا تھا۔ غلام
دار ریاست مسلح طاقت کے ذریعے آزاد لوگوں کی ملکیت کی حفاظت کرتی تھی۔ اور
اگر غلام اپنے مالکوں کے خلاف بغاوت کرنے کی کوشش کرتے تو ان کو فرماں
برداری پر مجبور کیا جاتا اور ظالمانہ سزائیں دی جاتیں۔
اس طرح ابتدائی برادری کے نظام کی جگہ ایک نئے نظام نے، غلام دار نظام نے
لے لی۔
سائنس کی ابتدا
ایک زمانہ تھا جب ساری دنیا انسان کے لئے راز تھی۔ہر چیز حیرت انگیز اور
عجوبہ تھی۔
آدمی کا ہر قدم، اس کے بازو کی ہر حرکت ایسی ان دیکھی طاقتوں کو متحرک کرتی
جو یا تو اس کو لے ڈوبتیں یا اس کو کچھ عطا کرتیں۔
بنی نوع انسان اس وقت اتنا کم تجربہ رکھتی تھی اور اتنی لاچار تھی کہ لوگوں
کو یہ تک یقین نہیں تھا کہ رات کے بعد دن ہو گا اور جاڑے کے بعد بہار آئے
گی۔
قدیم زمانے کے لوگ اس لئے مذہبی عبادتیں کرتے تھے کہ سورج آسمان سے بلند
ہو۔ مصر میں فرعون جو زمین پر سورج کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ ہر روز
عبادت گاہ کے گرد ایک چکر لگاتا تھا کہ سورج بھی اپنا روزانہ کا چکر پورا
کرے۔
خزاں میں مصری ”عصائے آفتاب” کا جشن مناتے تھے۔ ان کے خیال میں خزاں کے
کمزور سورج کو اپنے سفر میں کسی عصا کے سہارے کی ضرورت ہے۔
لیکن آدمی کام کرتا رہا، دنیا اور چیزوں کی صفات کے بارے میں روز افزوں
معلومات حاصل کرتا رہا۔
قدیم زمانے کے کاریگر نے چقماق پتھر کو چمکایا اور دھار دار بنایا۔ اس طرح
اس نے پتھر کی صفات کے متعلق براہ راست معلوم حاصل کیں۔ وہ جانتا تھا کہ
پتھر سخت ہوتا ہے اور اگر کسی دوسرے پتھر سے اس پر چوٹ لگائی جائے تو وہ
چٹخ جاتا ہے لیکن چیختا نہیں۔ یہ پتھر تو چٹخ گیا لیکن چیخا نہیں۔ لیکن
دوسرا پتھر کیا کرے گا؟ ایسے خیالات پر ہم کو ہسنی آتی ہے لیکن قدیم زمانے
کے آدمی کے لئے یہ باتیں بالکل مضحکہ انگیز نہ تھیں۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ عام قاعدے کیسے بنائے اسی لئے زندگی میں اس کے لئے
بہت سی باتیں استثنائی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ کبھی دو پتھر یکساں نہیں ہوتے
اور اسی اس نے سوچا کہ ان کی صفات بھی الگ الگ ہوتی ہوں گی۔ جب وہ پتھر کی
کوئی نئی کدال بناتا تو اس کو بالکل پرانی کی طرح بناتا تاکہ وہ بھی پہلی
کدال کی طرح زمین کو کھود سکے۔
ہزاروں لاکھوں سال گزر گئے۔ پتھر کی ان مختلف قسموں کے ذریعے جو اس کے ہاتھ
آئی تھیں آدمی پتھروں کے بارے میں موٹی موٹی باتیں سمجھنے لگا۔ چونکہ سب
پتھر سخت ہوتے تھے اس لئے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ پتھر سخت ہوتا
ہے۔ چونکہ کبھی کسی پتھر نے بات نہیں کی تھی اس لئے وہ کہہ سکتا تھا کہ
پتھر بولتا نہیں ہے۔
اس طرح سائنس کے پہلے ذرات یعنی چیزوں کا نظریہ ظہور میں آیا۔
جب کاریگر یہ کہتا کہ چقماق پتھر سخت ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہر چقماق پتھر
سے ہوتا صرف اس سے نہیںجس کو وہ بناتا۔
اس لئے اس کو قدرت کے کچھ قوانین، کچھ قواعد سے واقفیت ہو گئی جو دنیا میں
تھے۔
”جاڑے کے بعد بہار آتی ہے”۔اس میں تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ یہ بالکل صاف
ہے کہ جاڑے کے بعد خزاں نہیں بہار آتی ہے لیکن موسموں کی تبدیلی یہ پہلی
دریافت تھی جو ہمارے اجداد نے کثیر مشاہدات کے بعد کی۔ لوگوں نے برسوں کا
شمار اس وقت کرنا شروع کیا جب وہ سمجھ گئے کہ جاڑا اور گرمی محض اتفاقیہ
نہیں آتے،کہ جاڑے کے بعد ہمیشہ بہار اور پھر گرمی اور خزاں کے موسم آتے
ہیں۔
مصریوں نے دریائے نیل کے سیلاب کے مشاہدات کر کے یہ دریافت کی۔ وہ ایک
سیلاب سے سے دوسرے سیلاب تک کے حساب سے نیا سال شمار کرتے تھے۔
بڑے مذہبی پیشوا دریا کی نگرانی کرتے تھے کیونکہ لوگوں کے خیال میں دریا
خدا تھا۔ اب تک مصری عبادت گاہوں کی دیواروں پر جو دریائے نیل کے کناروں پر
پھیلی ہوئی تھیں وہ خطوط بنے ہوئے ہیں جو مذہبی پیشوا پانی کی سطح کا نشان
بتانے کے لئے کھینچتے تھے۔
جولائی میں جب گرمی سے کھیتوں کی زمین چٹخ جاتی تھی، کسان بڑی بے چینی سے
انتظارکرتے تھے کہ کب دریائے نیل کا زرد، کیچڑ اور ریت سے بھرا پانی آبپاشی
کی نالیوں میں دوڑے گا۔ لیکن شاید اس سال پانی نہ آئے؟ اگر دیوتا لوگوں سے
ناراض ہو گئے اور ان کے کھیتوں کو پانی نہیں دیا تو کیا ہو گا؟
ہر طرف سے عبادت گاہوں میں تحفے اور بھینٹیں آتی تھیں۔ غریب کسان اس التجا
کے ساتھ پجاریوں کے پاس اپنے اناج کی آخری مٹھی تک لاتے تھے کہ وہ دیوتائوں
سے زیادہ سے زیادہ دعا کریں۔
پجاری روازنہ صبح سویر ے اٹھ کر دریا پر جاتے تھے تاکہ دیکھیں کہ دریا میں
پانی بڑھ رہا ہے یا نہیں۔
ہر شام کو وہ عبادت گاہ کی چیٹی چھت پر چڑھ کر ستاروں کو بغور دیکھتے تھے۔
یہی ستاروں بھرا آسمان ان کاکیلنڈر تھا۔
اور پھر ایک دن پجاری بڑے مقدس انداز میں اعلان کرتے: ”دیوتائوں نے تم پر
رحم فرمایا ہے۔ آج سے تین راتوں کے اندر تمہارے کھیتوں میں پانی آجائے گا۔”
آہستہ آہستہ، قدم بقدم لوگوں نے اس عجیب دنیا پر قابو حاصل کرنا شروع کیا
جس میں وہ رہتے تھے۔ یہ دنیا معلومات کی دنیا تھی، قصے کہانیوں اور جادو کی
دنیا نہ تھی۔ عبادت گاہوں کی چھتیں پہلی فلکیاتی رصدگاہیں تھیں۔ کمھار اور
لوہار کی دکانیں پہلی تجربہ گاہیں تھیں جن میں پہلے تجربات کئے جا رہے
تھے۔ لوگوں نے مشاہدہ کرنا، حساب لگانا اور نتائج اخذ کرنا سیکھ لیا تھا۔
اس قسم کی سائنس اور موجودہ سائنس کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ یہ
سائنس بہت کچھ جادو کی طرح تھی جس کا وہ ایک حصہ تھی۔ لوگ صرف ستاروں کا
مشاہدہ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ قسمت کا حال بھی ان کو دیکھ کر بتاتے تھے۔
آسمان وزمین کا مطالعہ کرتے وقت وہ آسمان وزمین کے دیوتائوں سے دعا کرتے
تھے۔ پھر بھی جہالت کا گہرا غبار دور ہوناشروع ہو گیا تھا۔
اولمپس کی طرف دیوتائوں کی پسپائی
جادو کی دنیا کے غبار سے چیزوں کے اصل خدو خال رفتہ رفتہ آدمی کے سامنے
نمایاں ہونے لگے۔
قدیم زمانے کے آدمی کا خیال تھا کہ ہر جگہ روحیں ہیں۔ ہر پتھر، ہر پیٹر اور
ہر جانور میں۔
لیکن وقت کے ساتھ یہ عقیدہ بھی غائب ہو گیا۔
اب آدمی یہ نہیں سمجھتاتھا کہ ہر جانور کے اندر کوئی روح بیٹھی ہوئی ہے اب
آدمی کے تصور میںگھنی جھاڑیوں میں رہنے والے جنگل کے دیوتا نے ان تمام
جانوروں کی روحوں کی جگہ لے لی۔
اب کسان کا یہ خیال نہیںرہا کہ گیہوں کی ہر بالی میں کوئی روح ہوتی ہے۔ اس
کے ذہن میں اناج سے متعلق تمام روحیں اب زرخیزی کی دیوی میں، جو ہر چیز کی
نشوونما کرتی تھی، متحدو ومجتمع ہو گئیں۔
ان دیوتائوں نے پرانی روحوں کی جگہ لے لی۔ ہو اب معمولی فانی مخلوقوں کے
ساتھ نہیں رہتی تھیں۔ معلومات نے اب ان کو آدمی کی رہائش گاہوں سے دور کرنا
شروع کر دیا۔ اس طرح ان کو ایسی جگہیں تلاش کرنی پڑیں۔ جہاں آدمی کبھی
نہیں جاتا تھا یعنی تاریک،مقدس گپھائیں یا درختوں سے ڈھکی ہوئی پہاڑی
چوٹیاں۔
لیکن وقت آنے پر آدمی وہاں بھی پہنچ گیا۔ علم نے تاریک جنگلوں کو روشن کر
دیا، اس نے اس دھند کو دور کر دیا جو پہاڑی ڈھلانوں پر پھیلا تھا۔
اس طرح دیوتائوں کو پھر ایک بار اپنی نئی رہائش گاہ چھوڑنی پڑی۔ اب وہ
آسمانوں پر پرواز کر گئے، سمندر کی گہرائیوں میں اتر گئے اور زمین کی سطح
کے نیچے اندھیرے پاتال میں غائب ہو گئے۔
اب زمین پر دیوتائوں کا آنا کم سے کمتر ہوتا گیا۔ نسلاً بعد نسلاً وہ
داستانیں منتقل ہونے لگیں جن میں دیوتا کسی جنگ یا قلعہ کے محاصرے میں حصہ
لینے کے لئے آسمان سے اترتے تھے۔
تلواروں اور نیزوں سے مسلح دیوتا فانی انسان کے جھگڑوں میں حصہ لیتے تھے۔
کسی فیصلہ کن لمحے میں وہ سردار کو گہرے بادل میں چھپا دیتے تھے اور دشمن
کو بجلی گرا کر قتل کر دیتے تھے۔ لیکن کہانی کہنے والا تم کو بتائے گا کہ
یہ سب باتیں بہت بہت زمانہ گزرے ہوئی تھیں۔
اس طرح انسان کا تجربہ بڑھتا گیا، روشن حلقے کو وسیع کرتا گیا اور دیوتائوں
کو اور زیادہ دور تک پسپا کرتا گیا، حال سے ماضی میں، اس دنیا سے اس پار
کی دنیا میں۔
اب تو دیوتائوں سے واسطہ رکھنا مشکل ہو گیا۔ پہلے ہر شخص معجزے دکھا سکتا
تھا اور جادو سے بھرے رسوم ادا کر سکتا تھا۔ یہ رسوم بجائے خود سیدھے سادے
تھے۔مثلاً بارش کے لئے منہ میں ایک گھونٹ پانی بھر کر ایک مخصوص ناچ کے
دوران میں اس کو چاروں طرف چھڑکنا ہوتا تھا۔ بادلوں کو منتشر کرنے کے لئے
آدمی کو چھت پر چڑھ کر ہوا کی نقل کرتے ہوئے پھونکیں مارنا پڑتی تھیں۔
ہم جانتے ہیںکہ نہ تو اس طرح بارش ہو سکتی ہے اور نہ بادل چھٹ سکتے ہیں۔
اور آدمی اس نتیجے پر پہنچا کہ دیوتا اس کی دعائوں کی طرف توجہ نہیں کر رہے
ہیں۔ اس طرح مذہبی پیشوا عام لوگوں اور دیوتائوں کے درمیان آیا کیونکہ وہ
تمام پیچیدہ مذہبی رسوم اور دیوتائوں کی تمام پراسرار داستانوں کے بارے میں
جانتا تھا۔
پہلے جادو گر صرف کسی شکار کے ناچ کا ڈائر کٹر ہوتا تھا۔ وہ اپنے ساتھی
قبائلیوں سے زیادہ روحوں کے قریب نہیں ہوتا تھا۔
لیکن اب پجاری اس سے بالکل مختلف تھا۔ وہ ایک مقدس گپھا میں دیوتائوں کے
قریب رہتا تھا۔ وہ عباد گاہ کی چھت پر چڑھ کر ستاروں کی کتاب سے دیوتائوں
کی مرضی پڑھ لیتا تھا۔ صرف وہی یہ کتاب پڑھ سکتا تھا۔ وہ قربانی دئے ہوئے
جانور کی انتٹریاں ہی دیکھ کر یہ بتا دیتا تھا کہ کسی جنگ کا انجام فتح ہو
گا یا شکست۔ پجاری لوگوں اور دیوتائوں کے درمیان بچوانی بن گیا۔
لیکن دیوتا عام آدمیوں سے دور ہی ہٹتے گئے۔ وہ زمانے گزر چکے تھے جب دیوتا
سب آدمیوں کو برابر سمجھتے تھے۔ اب لوگ اپنے کو دیکھتے او راپنے ماحول کو
اور یہ سمجھ لیتے کہ مساوات والی پہلی حالت اب ختم ہو چکی ہے۔ پجاریوں نے
کہا ”ہونا یہ چاہئے کہ آدمی ہر چیز دیوتائوں پر چھوڑ دے۔ دیوتا اسی طرح
دنیا پر حکومت کرتے ہیں جس طرح بادشاہ اور سردار لوگوں پر۔” لیکن لوگوں نے ا
ن پجاریوں کی باتیں سر جھکا کر نہیں سنیں۔ ایسے لوگ بھی تھے جو دیوتائوں
کی مرضی کے سامنے نہیںجھکنا چاہتے تھے۔
وقت آیا جب ایک یونانی شاعر نے پوچھا کہ دیوتا زیوس(Zeus) کا انصاف کہاں ہے
جب نیک لوگ مصیبتوں میں مبتلا ہیں اور گندگار خوش حال ہیں، جب بچوں کو
اپنے والدین کے گناہوں کی سزا ملتی ہے۔ اس نے کہا کہ اب یہی کرنا چاہئے کہ
امید کی دیوی کی عبادت کی جائے۔ وہی صرف ایسی دیوی ہے جو لوگوں کے درمیان
رہتی ہے اور باقی دیوتا تو اولمپس چلے گئے ہیں۔
علم وشعور میں وسعت
قدیم زمانے کے آدمی کو سچ اور قصے، علم اور وہم کے درمیان فرق ہی نہیں
معلوم تھا۔
وہم کو علم سے الگ ہونے میں لاکھوں سال لگ گئے۔ ان گیتوں او رپرانی رزمیہ
نظموں میں جو ہم تک آئے ہیں مختلف قبیلوں اور سرداروں کی تاریخ کو دیوتائوں
اور ہیروئوں کے قصوں سے، صحیح جغرافیائی معلوما ت کو مصنوعی جغرافیہ سے،
ستاروں کے بارے میں پہلی معلومات کو قدیم داستانوں سے الگ کرنا مشکل ہے۔
یونانیوں نے ہم کو ”ایلیڈ” اور ”اوڈیسی” جیسی قدیم رزمیہ نظمیں دی ہیں جن
میں ان کے بہت ہی قدیم گیت اور داستانیں ہیں۔ یہ داستانیں شہر ٹرائے کے
محاصرے اور اس کی شکست سے (جس پر یونانی فوج نے قبضہ کر لیا تھا) اور ایک
یونانی سردار اوڈیسیس (اولیسیس) کے ان سفروں سے تعلق رکھتی ہیں جو اس نے
غیر ملکوں اور سمندروں کے کئے یہاں تک کہ آخر کار وہ اپنے دیس ایتھا کا
واپس آیا۔شہر ٹرائے کی دیواروں کے نیچے دیوتا فانی انسانوں کے شانہ بشانہ
لڑے۔ کچھ دیوتا حملہ آوروں کی طرف تھے اور کچھ محصور لوگوں کے ساتھ۔اگر
دیوتائوں کا کوئی محبوب بندہ خطرے میں ہوتا تو وہ اسے جھپٹ لیتے اور سلامتی
کی جگہ پہنچا دیتے۔ اولمپس پر جشن کے دوران میں وہ یہ بحث کرتے کہ آیا جنگ
کو جاری رکھا جائے یا جنگ کرنے والے فریقین میں صلح کرا دی جائے۔
ان داستانوں میں سچ اور جھوٹ گڈ مڈ ہیں۔ لیکن داستان کہاں ختم ہوتی ہے اور
سچا واقعہ کہاں شروع ہوتا ہے؟ کیا یونانیوں نے کبھی ٹرائے کے شہر کا محاصرہ
کیا تھا؟ اورکیا شہر ٹرائے کا واقعی کاکوئی وجود تھا؟
علما اس پر برسوں تک بحث کرتے رہے یہاں تک کہ ایک ماہر آثار قدیمہ کے
پھائوڑے نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ ایلیڈ” میں جو نشانات بتائے گئے ہیں ان کے
مطابق ماہرین آثار قدیمہ نے ایشیائے کو چک جا کر کھدائی کی اور وہاں ٹرائے
کے کھنڈرات پائے۔
”اوڈیسی” میں بھی سچی باتیں تھیں۔ یہ بات جغرافیہ دانوں نے ثابت کی جنہوں
نے نقشے کے ذریعے اوڈیسیس کے سفروں کا جائزہ لیا۔ اگر تم نقشہ دیکھو تو تم
کو لوٹس ایٹرس Lotus-eaters کا ملک، جزائر ایئولس، حتی کہ سیلا اور کا
ریبڈیس بھی ملیں گے جہاں ان دونوں کے درمیان سے گزرتے وقت اوڈیسیس کے جہاز
کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
لوٹس ایٹرس کا ملک درحقیقت افریقہ میں ٹریپولی کا ساحل ہے اور جزائر ایئولس
اٹلی میں وہ جزیرے ہیں جن کو ہم لیپاری کہتے ہیں اور سیلا اور کاریبڈیس
سیسلی اور اٹلی کے درمیان کی آبنائے ہے۔
”اوڈیسی” میں سچی باتیں تو ہیں لیکن اگر تم قدیم دنیا کی جغرافیہ کا مطالعہ
”اوڈیسی” کے ذریعے کرنا چاہو تو یہ زبردست غلطی ہو گی۔
مہموں اور سفر کے کارناموں سے بھر پور اس پہلی کتاب میں جغرافیہ کو ناقابل
یقین داستانی لباس پہنایا گیا ہے۔ پہاڑوں کو عفریتوں میں تبدیل کر دیاگیا
ہے اور جزائر کے وحشی باشندے ایک آنکھ والے آدم خور دیو بن گئے ہیں۔
لوگ اس زمانے میں صرف اپنے اطراف سے واقف ہوتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ سوداگر
جہازوں میں سمندروں کے پار سفر کرتے تھے۔ لیکن وہ بھی ساحل سے زیادہ دور
جانے کی جرأت نہیں کرتے تھے کیونکہ کھلے سمندر میں سفر کرنا بہت ہی ہولناک
تھا۔ اس زمانے میں نہ تو قطب نما تھے اور نہ نقشے۔ جہازراں اپنا راستہ
بھولتے بھٹکتے اور اس کو سورج اور ستاروں کے ذریعے معلوم کرتے تھے۔ ساحل پر
کوئی اونچی پہاڑی یا لمبادرخت ہی ان کا مینار روشنی ہوتا تھا۔
سمندر ہزاروں خطروں سے بھرا پڑا تھا۔ چوڑے، چپٹے، پیندے والے جہاز ہلکی سی
ہوا سے بھی لہروں پر جھولنے لگتے تھے اور بادبانوں کو قابو میں رکھنا بھی
مشکل ہوتا تھا۔ ہوا آدمی کی فرماں برداری نہیں کرتی تھی اور اس کے جہازوں
سے اس طرح کھیلتی تھی جیسے وہ لہروں پر تنکے ہوں۔
لیکن آخر کار جہاز ساحل پر پہنچ جاتا۔ تھکے ہارے ملاح اس کو کھینچ کر کنارے
تک لاتے۔ یہاں خشک زمین پر وہ بالآخر آرام کرتے۔لیکن وہ بے چین رہتے
کیونکہ جس ملک کو وہ پہنچتے وہ اجنبی ہوتا اور سمندر سے بھی زیادہ ڈرائونا
لگتا۔ ملاحوں کویہ خیال ستاتا رہتا کہ اب آدم خور ان پر ٹوٹ پڑنے والے ہیں
کیونکہ انہوں نے دوسرے ملاحوں سے ان وحشیوں کے قصے سن رکھے تھے۔ ہر نیا
عجیب جانور ان کی خوفزدہ آنکھوں کے لئے ڈرائونا دیو بن جاتا۔ وہ خشکی پر
زیادہ دور اندر تک جانے کی جرأت نہ کرتے۔
پھر بھی ہر نیا سفر آدمی کی معلومات میں اضافہ کرتا رہا۔ نا معلوم کی
سرحدیں، دیووں اور پریوں کے قصوں کی سرحدیں دور پیچھے ہٹتی گئیں۔ بہت ہی
جری ملاح سمندر کے پھاٹکوں تک جانے جہاں سے بحرذخار شروع ہو جاتا تھا۔ وہ
خیال کرتے تھے کہ یہ بحرذخار سارے عالم کی طرح بے کنار ہے۔ جب وہ وطن لوٹتے
تو اپنے دوستوں سے بتاتے کہ وہ دنیا کے سرے تک گئے تھے اور خشکی ہر طرف سے
بحروں سے گھری ہے۔
ہزاروں سال بعد لوگ یورپ سے ہندستان کا اور چین سے یورپ کا سفر کرنے لگے۔
ملاحوں نے سمندر پار کیا تھا۔ اور دوسری طرف ان کو خشکی ملی تھی جہاں
آدمیوں کی آبادی تھی۔ لیکن زمین کی سائنس میں مدتوں تک دیووں اور پریوں کے
قصے برقرار رہے۔
امریکہ دریافت کرنے والا کرسٹوفر کولمبس واقعی یہ یقین کرتا تھا کہ دنیا
میں کہیں ایسا بہت اونچا پہاڑ ضرور ہے جس پر جنت واقع ہے۔ا س نے ملکہ اسپین
تک کو لکھا کہ اس کو اس جنت کے قریب تک پہنچنے کی امید ہے اور وہ اس کے
حالات کی کھوج کرے گا۔
ابھی پندرھویں صدی تک روس کے یورپی حصے کے لوگوں کا پختہ عقیدہ یہ تھا کہ
اورال کے پہاڑوں کے اس پار جو لوگ رہتے ہیں وہ ریچھوں کی طرح جاڑوں میں
نیند کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ ہم کو ایک پرانا نسخہ ملا ہے۔ اس کا
نام ہے ”مشرقی ملک کے نامعلوم لوگ”۔ اس قلمی نسخے میں بڑی تفصیل کے ساتھ
ایسے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے جن کے منہ سروں کے اوپر ہوتے تھے
اورایسے بے سر لوگ جن کی آنکھیں سینوں پر ہوتی تھیں۔
یہ سب ہم کو بہت ہی مضحکہ انگیز معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اب بھی سائنسی قصے
کہانیاں لکھنے والے اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ فضائے کائنات میں واقع
انجانی دنیائوں کے رہنے والے خوفناک عفریت ہیں۔
سطح زمین کا مطالعہ کافی وسیع پیمانے پر کیا جا چکا ہے۔ اسی لئے ان مصنفوں
نے اپنی کرداروں کو زمین کے مرکز، سیارہ مریخ اور چاند کو روانہ کیا ہے۔
پہلے گائک
ہر صدی کے سات پراسرار باتیں، زندگی کے بارے میں اجنبی اور انجانے واقعات
کم ہوتے گئے۔ کاریگروں کو اپنے اوپر زیادہ اعتماد ہوتا گیا اور دیوتائوں کی
پوجا اور عبادت میں کمی ہوتی گئی۔ روز مرہ کی زندگی سے جادو ٹونے کے رسوم
اسی طرح غائب ہو تے گئے جیسے سورج نکلنے پر کہرا غائب ہو جاتا ہے۔
مختلف قسم کے رسوم، مذہبی کھیلوں، ناچوں اور گیتوں میں جادو اچھی طرح سمایا
ہو اتھا لیکن آدمی کے جاگتے ہوئے دماغ نے اس کو یہاں سے، خود جادو کے گھر
سے نکالنا اور بھگانا شروع کر دیا۔
جادو ٹونے والے رسوم، ناچوں اور گیتوں سے جادو تیزی سے غائب ہوتا جا رہا
تھا اور صرف گیت اور ناچ باقی رہ گئے تھے۔
جب یونان کے لوگ ڈیونیسس (شراب کے دیوتا باخوس) کا جشن مناتے تھے جو ان کو
انگور دیتا تھا تو اس میں پہلے مقدس جادو والے کھیل ہوتے تھے۔ ان میں جو
کورس گایا جاتا تھا۔ وہ باخوس کی موت، اس کے نئے جنم اور اس بارے میں ہوتا
تھا کہ باخوس قدرت کو جاڑوں میں مردوں جیسی نیند سے پھر بیدار ہونے میں،
لوگوں کو اناج، پھل اور شراب دینے میں مدد دے۔
اس جشن کے دوران میں سوانگ کرنے والے لوگ جانوروں کا روپ دھارتے تھے اور
گائوں کی قربانگاہ کے گرد ناچتے تھے۔
قدیم جادو کے کھیل کچھ ڈرامہ سے ملتے جلتے ہوتے تھے۔ ہمیں سوانگ بھرنے
والوں اور پہلے گانے والوں میں مستقبل کے ایکٹروں کی جھلک ملتی ہے۔ پہلا
گائک صرف دیوتا کی مصیبتوں ہی کا ذکر نہیں کرتا بلکہ اس کی تصویر کشی بھی
کرتا ہے۔ وہ اپنی چھاتی پیٹتا ہے اور دعا کے لئے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف
اٹھاتا ہے۔ جب باخوش پھر جنم لیتا تھا تو سوانگ بھرنے والے خوش نظر آتے
تھے، وہ ایک کو چھیڑتے اور ہنسی مذاق کرتے۔
صدیوں بعد جادو کی رسم سے جادو غائب ہو گیا۔ لیکن رسم اب بھی باقی تھی۔
پہلے کی طرح اب بھی لوگ ڈرامہ کرتے تھے، ناچتے اور گاتے تھے۔ لیکن اب وہ
دیوتائوں کی مصیبتوں کی تصویر کشی نہیں کرتے تھے۔ وہ فانی ہستیوں کی
مصیبتوں کو دکھاتے تھے۔ ان کی ادا کاری کو دیکھ کر لوگ ہنستے اور روتے تھے،
ہمت اور بہادرانہ کارناموں کی داد دیتے تھے۔ اور حماقتوں اور بدھوپن پر
ہنستے تھے۔
اس طرح قدیم کورس کا پہلا گائک المیے کا ادا کار بن گیا اور زندہ دل سوانگ
بھرنے والے کامیڈی اور ہنسی مذاق کے ادا کار ہوگئے۔
لیکن پہلا گائک صرف پہلا ایکٹر ہی نہ تھا۔ وہ خاص گائک بھی ہوتا تھا۔ شروع
میں وہ سب کے ساتھ کورس گاتا تھا۔ پھر وہ اکیلا گانے لگتا تھا۔
وقت آنے پر گیت کو مذہبی رسوم سے الگ کر لیا گیا، گائک مقدس کھیلوں، سردار
اور سپاہیوں کی دعوتوں میں گانے لگا۔ گائک گاتا، اپنی بانسری بجاتا اور
کبھی کبھی ناچتا بھی اور پرانے رواج کے مطابق الفاظ، موسیقی اور ادا کاری
کو ملا کر ہم آہنگی پیدا کرتا۔ وہ پہلا گائک اور کورس گانے والا دونوں ہو
گیا۔ وہ گیت بھی گاتا اور ٹیپ کے بول بھی۔
لیکن وہ کس کی بابت گاتا تھا؟ وہ دیوتائوں اور ہیروئوں کے بارے میں، اپنے
قبیلے کے سرداروں کے متعلق گاتا تھا جنہوں نے بہادر سے بہادر آدمیوں کو مار
بھگایا۔ وہ جنگ میں کام آنے والے سور مائوں کے بارے میں، ان بھائیوں کے
بارے میں گاتا تھا جن کا بدلہ لینا تھا۔
یہ گیت نہ تو جادو ہوتا تھا اور نہ دعا۔ یہ جری کارناموں کی کہانی ہوتی تھی
جو دراصل مزید بہادری کے لئے للکارتی تھی۔
اور محنت، بہار اور غم اورنج کے بارے میں گیتوں کی بابت کیا کہا جا سکتا
تھا! وہ کہاں سے آئے تھے؟ وہ بھی کسی زمانے میں ان رسموں کا حصہ تھے جو
شادی اور موت کے موقعوں پر، فصل کی کٹائی اور انگوروں کی چنائی کے وقت گائے
جاتے تھے۔ کورس باری باری چھوٹے چھوٹے گیت گاتے تھے۔
چرخہ کاتنے والی کمسن لڑکی ان گیتوں کو گاتی او ر ماں بچے کی لوریوں میں ان
کو گاتی۔
آج بہار کے گیت صرف بہار ہی میں یا محبت کے گیت صرف شادی کے موقع پرہی نہیں
گائے جاتے۔
ہیروئوں اور محبت کے گیت سب سے پہلے کس نے بنائے؟
ہمیں اس کا جواب نہیں معلوم جیسے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ دراصل کس نے سب سے
پہلے تلوار یا سب سے پہلا چرخا بنایا تھا۔ ایک شخص نے نہیں بلکہ سیکڑوں
نسلوں نے ہمارے اوزار، گیت اور الفاظ بنائے ہیں۔ گائک اپنے گیت نہیں بناتا
تھا، وہ صرف ایسے گیت دوسروں تک منتقل کر دیتا تھا جو اس نے پہلے سنے تھے۔
لیکن ایک گائک سے دوسرے گائک تک منتقلی کے دوران میں گیت بڑھتے اور بدلتے
تھے۔ جس طرح چشموں سے سیراب ہو کر دریا پیدا ہوتا ہے اسی طرح ان ابتدائی
گیتوں سے بڑی بڑی رزمیہ نظمیں پیدا ہوئیں۔
ہم کہتے ہیں کہ مشہور یونانی نظم ”ایلیڈ” کی تخلیق ہے۔ لیکن ہومر کون
تھا؟ہم اس کے بارے میں صرف داستانوں کے ذریعے جانتے ہیں اور ہومر بھی اتنی
ہی داستانی ہستی ہے جتنے وہ ہیرو جن کے گن ہو مر نے گائے ہیں۔
جب بہادر ہیروئوں کے بارے میں پہلے گیت بنائے گئے تو گائک اس وقت اپنے جرگے
اور قبیلے سے مضبوطی کے ساتھ منسلک تھا۔ اس وقت لوگ ہر کام ساتھ مل کر
کرتے تھے اور گیت بھی نسلوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوتے تھے۔
گائک اپنے کو گیت کار نہیں سمجھتا تھا چاہے وہ پچھلی نسلوں سے ملنے والے
گیت میں کوئی تبدیلی کر کے اس کو بہتر ہی کیوں نہ بنائے۔
لیکن جب آدمی نے ”میرے” اور ”تیرے” کی تفریق شروع کی تب جرگے ایک دوسرے سے
الگ ہو گئے اور پہلا جیسا اتحاد نہ رہا۔ اب کاریگر اپنے لئے کام کرنے لگے۔
اب وہ یہ نہیں سمجھتے تھے۔ کہ وہ جرگے کی مرضی پوری کرنے کا ذریعہ تھے۔
رفتہ رفتہ آدمی نے ”میں” کا لفظ اکثر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ وہ زمانہ
بہت دن ہوئے گزر چکا تھا جب وہ یقین کرتا تھا کہ وہ خود نہیں کام کر رہا ہے
بلکہ اس کے ذریعے کوئی اور کار فرما ہے۔ یہاں گائک فنون لطیفہ کی دیوی کا
ذکر کرتا تھا جس نے اس میں گیت کے لئے ولولہ پیدا کیا۔ وہ کہتا تھا۔ کہ
”گیت کا عطیہ” اسے دوتائوں سے ملا ہے لیکن وہ اپنے بارے میں بھی کہنا نہیں
بھولتا تھا۔
پتھرائے ہوئے جانوروں کی ہڈیاں اس بات کی بے زبان گواہ ہیںکہ جانداروں میںلاکھوں برسوں کے دوران میں تبدیلیاں ہوئیں۔
ان میں کس طرح تبدیلی پیدا ہوئی؟
انگریز سائنس داں چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا پیش کرنے سے پہلے یہ ایک راز تھا۔جوکام ڈارون نے شروع کیا تھا اس کو دو روسی سائنس دانوں کووالیفسکی اور تیمیریا زیف نے جاری رکھا اور جب انہوں نے اپنا وسیع مطالعہ پایہ تکمیل تک پہنچا لیا تو ہم کو وہ باتیں سمجھا دیں جو ہمارے دادا کبھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔
دنیا میں ہر جاندار کا وجود اپنی جگہ کی مناسبت سے ہے، اس فضا اور ماحول کے مطابق جس میں وہ رہتا ہے۔ لیکن دنیا میں کچھ بھی یکساں نہیں رہتا۔ گرم آب وہوا سرد ہو جاتی ہے اس جگہ پہاڑ نمودار ہو جاتے ہیں جہاں پہلے میدان تھے، سمندر کی جگہ خشکی لے لیتی ہے، صنوبر کے جنگلوں کی جگہ پتیوں والے جنگل آجاتے ہیں۔
اور جب چاروں طرف کی چیزیں بدلتی ہیں تو وہاں کے جانداروں پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟
وہ بھی بدلتے ہیں۔
بہتر حال یہ ان کے طے کرنے کی بات نہیں ہوتی کہ وہ کیسے بدلیں گے۔ کوئی ہاتھی اچانک اپنی خوراک بدل کر پتوں، گھاس اور پھلوں کی جگہ گوشت تو نہیں کھانے لگے گا۔ کوئی ریچھ یہ نہیں کہہ گا کہ ”مجھے گرمی لگتی ہے۔ میں اپنی بالدار جھبری کھال اتار دوں”۔
جاندار اپنی مرضی کے مطابق نہیں بدلتے۔ وہ بدلتے ہیں کیونکہ وہ نئی طرح کی غذائیں کھائے اور نئے حالات میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور جو تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ ہمیشہ تو ان کی بھلائی کے لئے یا کار آمد نہیں ہوتی ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جانور یا پودے نئے حالات میں رفتہ رفتہ ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی زندگی کے لئے جو چیزیں ضروری ہیں وہ ان کو نہیں ملتیں جیسی کہ ان کے اجداد کو ملتی تھیں۔
وہ بھوک اور سردی سے مرجاتے ہیں یا شاید ان کو غیر معمولی گرمی اور خشکی ستاتی ہے۔ وہ ا پنے دشمنوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے اولاد اور بھی بیمار ہوتی ہے اور نئے حالات میں زندہ رہنے کی نسبتاً کم صلاحیت رکھتی ہے۔ آخر میں یہ پوری کی پوری قسم ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وہ تبدیلیوں پرقابو نہیں پا سکتی۔
لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جانداروں میں ایسی تبدیلیاں ہوں جو کارآمد ہوں، نقصان دہ نہ ہوں۔ ساز گار حالات میں ایسی کار آمد تبدیلیاں آئندہ نسلوں تک منتقل ہوتی ہیں۔ ان میں اضافہ ہوتا ہے اوروہ مضبوط ہو جاتی ہیں۔
وقت گذرنے پر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نسلیں اپنے اجداد سے مشابہت نہیںرکھتیں، ان کی فطرت ہی بدل جاتی ہے۔ وہ ایسے حالات میں رہ سکتی ہیں جو ان کے اجداد کے لئے مضرت رساں ہوتیں۔ وہ رہن سہن کے نئے حالات سے مانوس اور ان کی عادی بن جاتی ہیں۔ یہاں فطری انتخاب کارفرما نظر آتا ہے۔ وہ جاندار جو اپنے کو نئے حالات کا عادی نہیںبنا سکے تباہ ہوگئے اورجن سے ایسا ممکن ہوا وہ باقی رہ گئے۔
ایسی بہت سی مثالین ہیں کہ ماحول کی تبدیلی سے جاندار مخلوق کی فطرت بدل جاتی ہے۔
یہ بات اس سے واضح ہوتی ہے کہ مچھلیاں رفتہ رفتہ تبدیل ہو کر جل بھومی مخلوق بن گئی ہیں۔
اس کی ابتدا زمانہ تاریخ سے قبل کے پایاب سمندروں اور جھیلوں سے ہوئی تھی جو رفتہ رفتہ سوکھ رہے تھے۔ مچھلی کی وہ قسمیں جو اپنے کو زندگی کے نئے طریقے کا عادی نہیں بنا سکیں مرنے لگیں اور صرف وہ قسمیں بچیں جنہو ںنے طویل مدت تک بغیر پانی کے رہنا سیکھ لیا۔ خشک موسم میں وہ یا تو ریت میں گھس جاتی تھیں یا قریب ترین جوہڑ میں۔وہ اپنے پروں کو پیروں کی طرح استعمال کرتی تھیں۔ قدرت نے چھوٹی سی چھوٹی جسمانی تبدیلی کا استعمال کیا جو خشکی پر کار آمد ہو سکتی تھی۔ ان مچھلیوں کی تیراکی کی تھیلی رفتہ رفتہ پھیپھڑوں میں تبدیل ہو گئی۔ اور جوڑی دار پروں نے پیروں کی شکل اختیار کر لی۔
اس طرح پانی کے کچھ باسیوں نے اپنے کو خشکی کی زندگی کا عادی بنا لیا۔ تبدیلی کی صلاحیت ہی نے مچھلی کے پروں، اس کی تیراکی کی تھیلی اور جسمانی ساخت کو نئے ماحول کے مطابق تبدیل کر دیا۔
انتخاب نے صرف تبدیلیاں برقرار رکھیں جو کار آمد تھیں اور جو مضرت رساں تھیں ان کو ختم کر دیا۔
نسلی وراثت نے ان کا رآمد تبدیلیوں کو آئندہ نسلوں میں منتقل کیا، ان میں اضافہ کیا اوران کو مضبوط بنایا۔
کووالیفسکی نے گھوڑے کی تاریخ کے بارے میں تحقیقات کر کے ایک اور واضح مثال پیش کی ہے۔
واقعی یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ گھوڑا ایسے چھوٹے جانور کی اولاد ہے جو کسی زمانے میں گھنے جنگلوں میں رہتا تھا اور گرے پڑے درختوں کے اوپر سے صفائی کے ساتھ چھلانگ لگاتا تھا۔ اس چھوٹے جانور کے گھوڑے جیسے کھر نہیں تھے۔ اس کے پیر چھوٹے اور ان میں پانچ انگلیوں والے پنجے تھے۔ اس سے اس کو جنگل کی ناہموار زمین پر قدم جماکر چلنے میں مدد ملتی تھی۔
وقت آیا کہ یہ بڑے جنگل چھدرے ہونے لگے اور ان کی جگہ میدانوں نے لے لی۔ اب گھوڑے کے جنگلی باسی بزرگوں کو اکثر کھلے میدان میں آنا پڑتا تھا۔ خطرے کی حالت میں یہاں جنگل کی طرح پناہ کی کوئی جگہ نہ تھی۔ فرار کا طریقہ محض تیز رفتاری تھی۔ جنگلوں میں چھپنے کا جو طریقہ تھا وہ میدانوں میں نہیں رہا۔ اس کی جگہ بھاگ دوڑ نے لے لی اور بہت سے جنگلی جانور تعاقب میں ختم ہو گئے۔ درندوں سے صرف وہی بچے جن کی ٹانگیں سب سے لمبی اور تیز رفتار تھیں۔
ایک مرتبہ پھرقدرت نے اپنے انتخاب سے کام لیا، اس نے ہر اس تبدیلی کو تلاش کر کے محفوظ رکھا جوجانور کو تیز دوڑنے میں مدد دیتی تھی اور ہر اس چیز کو رد کر دیا جو دوڑنے میں استعمال نہیں ہو سکتی تھی۔
گھوڑے کے بزرگوں کو زندگی کی آزمائشوں نے یہ دکھایا کہ تیز ڈوڑنے والے جانوروں کے پیروں میں بہت سی انگلیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ مضبوط اور سخت وہ تو بس ایک کافی ہے۔ ایک زمانے میں گھوڑے کے تین انگلیاں تھیں اور آخر کار ایک ہی رہ گئی۔ جس گھوڑے کو ہم موجودہ زمانے میں دیکھتے ہیں اس کے ایک لمبی انگلی یعنی کھر ہے۔
میدان میں آکر گھوڑے کے صڑف پیر ہی نہیں بدلے بلکہ اس کا سارا جسم بدل گیا۔ مثلاً اس کی گردن کو لے لو۔ اگر اس کے پیر زیادہ لمبے ہو گئے ہوتے اور گردن چھوٹی ہی رہ جاتی تو گھوڑا اس گھاس تک نہ پہنچ سکتا جو اس کے قدموں کے نیچے ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ قدرت نے چھوٹی گردن والے گھوڑوںکو رد کر دیا جیساکہ وہ چھوٹے پیروں والے گھوڑوں کے ساتھ کر چکی تھی۔
اور گھوڑے کے دانتوں کے بارے میں؟ وہ بھی بدل گئے۔ میدان میں گھوڑے کو سخت اور موٹی پودے کھانا پڑے جن کوا سے پہلے اپنی داڑھوں سے چبا کر باریک کرنا پڑتا تھا۔ اور اسی لئے اس کے
دانت بھی بدلے۔ اب اس کے دانت ایسے ہیں جو سوکھی گھاس کو بھی چبا کر باریک کر سکتے ہیں۔
گھوڑے کے پیروں، گردن اور دانتوں کو بدلنے کے زبردست کام میں پانچ کروڑ سال لگے۔
اس کا یہ مطلب ہوا کہ جو دیواریں سمندر کو خشکی سے اور جنگل کو میدان سے علحدہ کرتی ہیں وہ مستقل نہیں ہیں۔ سمندر خشک ہو جاتے ہیں یا خشکی پرچڑھ آتے ہیں، میدان ریگستانوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، سمندر کے باسی رینگ کر خشکی پر آجاتے ہیں اور جنگل کے رہنے والے میدانوں میں رہنے لگتے ہیں۔ لیکن کسی جانور کے لئے اپنی چھوٹی موٹی دنیا چھوڑنا، اپنے ماحول کی زنجیروں کو توڑنا کتنا مشکل ہے۔ ان زنجیروں کو توڑنے کے بعد بھی وہ آزاد نہیں ہوتاکیونکہ وہ ایک ان دیکھے پنجرے سے دوسرے پنجرے میں پہنچ جاتا ہے۔
جب گھوڑا جنگل چھوڑ کر میدان میں آیا تو وہ جنگل کا باسی نہ رہا، میدان کا رہنے والا ہو گیا۔ ایک مرتبہ اگر کسی قسم کی مچھلی کو پانی سے باہر خشکی کاراستہ مل گیا تو پھر یہ مچھلیاں سمندر کونہیں واپس ہوئیں کیونکہ واپسی کے لئے دوبارہ تبدیلی کی ضرورت تھی۔ یہی ان کئی قسم کی خشکی کی مچھلیوں کے ساتھ ہوا جو خشکی سے سمندر کو واپس ہوئیں۔ ان کے پیر پھر پروں میں تبدیل ہو گئے ۔ مثلاً وھیل کو ایسا ”مچھلی جیسا” بننا پڑا کہ جو لوگ اس کے آغاز کے بارے میں نہیں جانتے ہیں اس کو مچھلی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ صرف ظاہری صورت اور طریقہ زندگی کے لحاظ سے مچھلی سے مشابہت رکھتی ہے ۔
دنیا میں تقریباًدس لاکھ قسم کے جانور ہیں اور ہر ایک اپنی چھوٹی موٹی دنیا میں رہتا ہے جس کا وہ عادی بن گیا ہے۔
بعض جگہوں پر ایک قسم کے جانوروں کو یہ ان دیکھا نشان ملے گا کہ ”دور رہو” اور دوسری قسم کو ایسی جگہ ”خوش آمدید!” کا ان دیکھا نشان ملے گا۔
ذرا سوچو تو منطقہ حارہ کے جنگل میں کسی قطبی ریچھ کا کیا حال ہو گا۔ اس کا تو دم گھٹ جائے گا کیونکہ اس کا گھنے بالوں والا موٹا کوٹ تو اتارا نہیں جا سکتا۔ لیکن گرم خطوں کا کوئی رہنے والا مثلاً ہاتھی تو
آرکٹک کے برف میں ٹھٹھر کر مر جائے گا۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ جس کی زندگی گرم غسل میں بسر ہوتی ہو اس کے جسم پر تو کھال ہی ہوگی۔
دنیا میں صرف ایک ایسی جگہ ہے جہاں قطبی ریچھ اور ہاتھی پڑوسی ہوتے ہیں یعنی وہ جگہ جہاں دنیا کے ہر حصہ کے جانور ہوتے ہیں۔ یہاں میدانوں کے جانور جنگلوں کے جانوروں سے صرف چند گز کے فاصلے پر نظر آتے ہیں اور پہاڑی جانور ان کے برابر رہتے ہیں۔ یہ جگہ چڑیا گھر ہے۔
سوچو تو کہ ان سب کو خوش رکھنا کتنی مشکل بات ہے! ہر جانور اپنی چھوٹی موٹی دنیا کا عادی ہوتاہے اور انسان کو ان سب کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا چاہیئں جو ان کی چھوٹی موٹی دنیاکے مطابق ہوں۔
یہاں ایسا تالاب ہونا چاہئے جو سمندر کی یاد دلائے اور وہاں ریگستان کا ایک ٹکڑا۔
پھرجانوروں کو کھلانا پلانا ہے۔ ان کو ایک دوسرے کو ہڑپ کرنے سے باز رکھنا ہے۔ قطبی ریچھ کو غسل کے لئے ٹھنڈا پانی چاہئے بندروں کو گرمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیر ہر روز اپنی خوراک کے مطابق کچا گوشت چاہتا ہے اور عقاب کو اتنی جگہ چاہئے کہ وہ اپنے پروں کو حرکت میں لا سکے۔
میدانوں، جنگلوں، پہاڑوں، ریگستانوں اور سمندروں کے جانوروں کوا نسان مصنوعی طو رپر اکٹھا کرتا ہے تو اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے لئے ایسی مصنوعی فضا بھی پیداکی جائے کہ وہ ختم نہ ہو جائیں۔
انسان خود کسی قسم کا جانور ہے؟ میدانی جنگلی یا پہاڑی جانور؟
کیا جنگل میں رہنے والے آدمی کو ”جنگلی آدمی” اور دلدل میں رہنے والے کو ”دلدلی آدمی” کہا جا سکتا ہے
نہیں بالکل نہیں۔
کیونکہ ایسا آدمی جو جنگل میں رہتا ہے میدان میں بھی رہ سکتا ہے۔ اور جو آدمی دلدل میں رہتا ہے اس کو زیادہ خشک جگہ منتقل سے خوشی ہوگی۔
آدمی کہیں بھی رہ سکتا ہے۔ اس دنیا میں مشکل ہی سے کوئی ایسا کونا ہو گا جہاں آدمی نہ پہنچا ہو اور جہاں کوئی ایسا نہ دکھائی دینے والا نشان ہو جو کہتا ہو ”انسان، دور رہو!”۔ آرکٹک میں تحقیقات کرنے والے بہتی ہوئی برفانی چٹانوں پر رہتے ہیں۔ اگر ان کو اچانک انتہائی گرم ریگستانوں میںجانا پڑے تو ان کو کوئی مشکل نہ ہو گی۔
اگر کوئی آدمی استیپ سے جنگل کو یا جنگل سے میدان کو منتقل ہوتا ہے توا سے اپنے ہاتھ پیر اور دانت نہیں بدلنے پڑتے۔اگرچہ اس کا جسم گھنے بالوں سے ڈھکا نہیں ہوتا پھر بھی وہ جب جنوب سے شمال کو جاتا ہے تو ختم نہیں ہو جاتا۔
اس کو سمور کا کوٹ،ٹوپی اور بوٹ جوتے سردی سے اسی طرح بچاتے ہیں جیسے جانوروں کا سمور ان کو بچاتا ہے۔
آدمی نے گھوڑے سے کہیں زیادہ تیز چلنا سیکھ لیا ہے لیکن اس کے لئے اسے اپنی انگلیوں سے نہیں دستبردار ہونا پڑا۔
آدمی نے مچھلی سے کہیں زیادہ تیز تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن اس کے لئے اس ہاتھ پیروں کی جگہ مچھلی کے پروں کی ضرورت نہیں ہوئی۔
رینگنے والے جانوروں کو تبدیل ہو کر پرندے بننے میںلاکھوں برس گذر گئے۔ان کو اس تبدیلی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی کیونکہ اس تبدیلی کے دوران میں وہ اپنے اگلے پنجوں سے محروم ہو گئے جو پر بن گئے۔ انسان نے چند صدیوں میں اڑناسیکھا ہے لیکن اس کو اپنے بازوئوں سے نہیں محروم ہونا پڑا۔
آدمی نے یہ گر سیکھ لیا کہ نظر نہ آنے والی دیواروں کے درمیان سے، جو جانوروں کو اپنا قیدی بنا لیتی ہیں، بلا تبدیلی کیسے گذرا جا سکتا ہے۔
انسان ایسی بلندیوں تک جا سکتا ہے جہاں سانس لینے کے لئے ہوا نہیں ہے پھر بھی وہ زمین پر صحت مند اور چاق وچوبند واپس آتا ہے۔
جب ہوا بازوں نے فضا میں بلندی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے تو زندگی کی عام چھت زیادہ بلند ہو گئی اور اس دنیا کے حدود کے پار ہو گئی جس میں زندہ مخلوقات آباد ہیں۔
جانوروں اور چڑیوں کا انحصار پوری طرح قدرت پر ہوتا ہے۔ ریاضی کے کسی سوال کے حل کا انحصار اس کے شرائط پر ہوتا ہے۔ یہی صورت قدرت کی ہے۔ ہر جانور ایسا مسئلہ ہے جس کو زندگی نے کامیابی سے حل کر لیاہے۔ مسئلے کے شرائط زندگی کے حالات ہیں اور اس کا جواب پنجوں، پیروں، پروں، مچھلی کے پروں، چونچوں، جنگلوں، عادتوں اور طور طریقوں کی ایک وسیع فہرست ہے۔ جواب کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جانور کو کہاں اور کیسے رہنا ہے۔ میٹھے یا کھاری پانی میں یا خشکی پر، ساحل پر یا سمندر میں، سمندر کی تہہ میں یا سطح سمندر سے قریب، شمال یا جنوب میں، پہاڑوں پر یا وادیوں میں، سطح زمین پر یا زیر زمین، استیپ میں یا جنگلوں میں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کون سے جانور اس کے پڑوسی ہوتے ہیں۔
جانور پوری طرح اپنے ماحول کا محتاج ہوتا ہے۔
لیکن آدمی اپنی مرضی کے مطابق ماحول بناتا ہے۔ وہ اکثر قدرت کی کتاب اس کے ہاتھ سے چھین لیتا ہے اور ان شرائط کو کاٹ دیتا ہے جو اسے پسند نہیں ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”ریگستان میں بہت کم پانی ہے”۔ لیکن جب ہم ریگستان میں گہری نہریں کھود دیتے ہیں تو اس حالت کو ختم کر دیتے ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”شمالی کی زمین بنجر ہے”۔ہم زمین میںکھاد ڈال کر اس کو بدل دیتے ہیں۔ ہم کئی سال تک خود بخود اگنے والی گھاسیں اور پھلی دار فصلیں بوکر زمین کو زرخیز بناتے ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”جاڑے کے موسم میں سردی اور رات میں اندھیرا ہوتا ہے”۔ لیکن آدمی ان باتوں کی کوئی پروا نہیںکرتا۔ وہ اپنے گھر کو جاڑے میں گرم اور رات میں روشن کرتا ہے۔
ہم برابر اپنے ماحول کو بدلتے رہتے ہیں۔
جو جنگل ہمارے چاروں طرف ہیں شجر کاری اور جنگلوں کی کٹائی کی وجہ سے مدت ہوئے اپنی صورت شکل بدل چکے ہیں۔
اب ہمارے استیپ بھی پہلے کی طرح سپاٹ ویرانے نہیں رہے ہیں۔ ان کو آدمی زیر کاشت لایا ہے۔
ہمارے پودے، ہماری گیہوں اور رائی کی فصلیں، ہمارے سیب اور ناشپاتیوں کے درخت، اُن جنگلی اناج کی گھاسوں اور پھل کے پیڑوں کی طرح بالکل نہیں ہیں جو کسی زمانے میں ویرانوں میں اگتے تھے۔
ایسے گھریلو جانور جیسے گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں اب جنگلی نہیں ہوتے۔ ان کو آدمی پالتا پوستا ہے اور ان کی افزائش کرتا ہے۔
آدمی نے جنگلی جانوروں کے طور طریقے بدل ڈالے ہیں۔ بعض جانور غذا کی تلاش میں آدمی کے گھروں اور کھیتوں سے بہت قریب رہتے ہیں اور بعض آدمی سے بھاگنے کی کوشش میں اس سے بہت دور جنگلوں اورویرانوں میں چلے گئے ہیں۔ آدمی کے ظہور سے پہلے ان جانوروں کے اجداد وہاں نہیں رہتے تھے۔
ایک زمانہ وہ بھی آئے گا جب آدمی کوئی اصلی جنگل یا ویرانہ دیکھنا چاہے گا تو اس کو خاص محفوظ جگہوں کو جانا پڑے گا کیونکہ انسان دنیا کا چہرہ بالکل بدل دے گا۔
ان محفوظ جگہوں کی سرحدیں کھینچتے ہوئے ہم قدرت سے کہتے ہیں: ”تم کو ہم یہاں کی مالکہ رہنے دیں گے لیکن اس سرحد کے پار ہر چیز ہماری ہے۔”
انسان قدرت پر روز بروز زیادہ اقتدار حاصل کرتا جا رہا ہے۔
یہ صورت ہمیشہ سے نہ تھی۔
ہمارے زمانہ تاریخ سے قبل کے اجداد قدرت کے ویسے ہی غلام تھے جیسے اس دنیا میں رہنے والے دوسرے جانور۔
چڑیا گھر میں تو جنوبی افریقہ کے برابر ہی آسٹریلیا ہوتا ہے اور آسٹریلیا کا پڑوسی شمالی امریکہ ہو جاتا ہے۔ ساری دنیا سے جانور یہاں آتے ہیں۔ لیکن وہ خود نہیں آئے ہیں انسان نے یہاں ان کو لاکر جمع کیا ہے۔
سوچو تو کہ ان سب کو خوش رکھنا کتنی مشکل بات ہے! ہر جانور اپنی چھوٹی موٹی دنیا کا عادی ہوتاہے اور انسان کو ان سب کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا چاہیئں جو ان کی چھوٹی موٹی دنیاکے مطابق ہوں۔
یہاں ایسا تالاب ہونا چاہئے جو سمندر کی یاد دلائے اور وہاں ریگستان کا ایک ٹکڑا۔
پھرجانوروں کو کھلانا پلانا ہے۔ ان کو ایک دوسرے کو ہڑپ کرنے سے باز رکھنا ہے۔ قطبی ریچھ کو غسل کے لئے ٹھنڈا پانی چاہئے بندروں کو گرمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیر ہر روز اپنی خوراک کے مطابق کچا گوشت چاہتا ہے اور عقاب کو اتنی جگہ چاہئے کہ وہ اپنے پروں کو حرکت میں لا سکے۔
میدانوں، جنگلوں، پہاڑوں، ریگستانوں اور سمندروں کے جانوروں کوا نسان مصنوعی طو رپر اکٹھا کرتا ہے تو اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے لئے ایسی مصنوعی فضا بھی پیداکی جائے کہ وہ ختم نہ ہو جائیں۔
انسان خود کسی قسم کا جانور ہے؟ میدانی جنگلی یا پہاڑی جانور؟
کیا جنگل میں رہنے والے آدمی کو ”جنگلی آدمی” اور دلدل میں رہنے والے کو ”دلدلی آدمی” کہا جا سکتا ہے
نہیں بالکل نہیں۔
کیونکہ ایسا آدمی جو جنگل میں رہتا ہے میدان میں بھی رہ سکتا ہے۔ اور جو آدمی دلدل میں رہتا ہے اس کو زیادہ خشک جگہ منتقل سے خوشی ہوگی۔
آدمی کہیں بھی رہ سکتا ہے۔ اس دنیا میں مشکل ہی سے کوئی ایسا کونا ہو گا جہاں آدمی نہ پہنچا ہو اور جہاں کوئی ایسا نہ دکھائی دینے والا نشان ہو جو کہتا ہو ”انسان، دور رہو!”۔ آرکٹک میں تحقیقات کرنے والے بہتی ہوئی برفانی چٹانوں پر رہتے ہیں۔ اگر ان کو اچانک انتہائی گرم ریگستانوں میںجانا پڑے تو ان کو کوئی مشکل نہ ہو گی۔
اگر کوئی آدمی استیپ سے جنگل کو یا جنگل سے میدان کو منتقل ہوتا ہے توا سے اپنے ہاتھ پیر اور دانت نہیں بدلنے پڑتے۔اگرچہ اس کا جسم گھنے بالوں سے ڈھکا نہیں ہوتا پھر بھی وہ جب جنوب سے شمال کو جاتا ہے تو ختم نہیں ہو جاتا۔
اس کو سمور کا کوٹ،ٹوپی اور بوٹ جوتے سردی سے اسی طرح بچاتے ہیں جیسے جانوروں کا سمور ان کو بچاتا ہے۔
آدمی نے گھوڑے سے کہیں زیادہ تیز چلنا سیکھ لیا ہے لیکن اس کے لئے اسے اپنی انگلیوں سے نہیں دستبردار ہونا پڑا۔
آدمی نے مچھلی سے کہیں زیادہ تیز تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن اس کے لئے اس ہاتھ پیروں کی جگہ مچھلی کے پروں کی ضرورت نہیں ہوئی۔
رینگنے والے جانوروں کو تبدیل ہو کر پرندے بننے میںلاکھوں برس گذر گئے۔ان کو اس تبدیلی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی کیونکہ اس تبدیلی کے دوران میں وہ اپنے اگلے پنجوں سے محروم ہو گئے جو پر بن گئے۔ انسان نے چند صدیوں میں اڑناسیکھا ہے لیکن اس کو اپنے بازوئوں سے نہیں محروم ہونا پڑا۔
آدمی نے یہ گر سیکھ لیا کہ نظر نہ آنے والی دیواروں کے درمیان سے، جو جانوروں کو اپنا قیدی بنا لیتی ہیں، بلا تبدیلی کیسے گذرا جا سکتا ہے۔
انسان ایسی بلندیوں تک جا سکتا ہے جہاں سانس لینے کے لئے ہوا نہیں ہے پھر بھی وہ زمین پر صحت مند اور چاق وچوبند واپس آتا ہے۔
جب ہوا بازوں نے فضا میں بلندی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے تو زندگی کی عام چھت زیادہ بلند ہو گئی اور اس دنیا کے حدود کے پار ہو گئی جس میں زندہ مخلوقات آباد ہیں۔
جانوروں اور چڑیوں کا انحصار پوری طرح قدرت پر ہوتا ہے۔ ریاضی کے کسی سوال کے حل کا انحصار اس کے شرائط پر ہوتا ہے۔ یہی صورت قدرت کی ہے۔ ہر جانور ایسا مسئلہ ہے جس کو زندگی نے کامیابی سے حل کر لیاہے۔ مسئلے کے شرائط زندگی کے حالات ہیں اور اس کا جواب پنجوں، پیروں، پروں، مچھلی کے پروں، چونچوں، جنگلوں، عادتوں اور طور طریقوں کی ایک وسیع فہرست ہے۔ جواب کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جانور کو کہاں اور کیسے رہنا ہے۔ میٹھے یا کھاری پانی میں یا خشکی پر، ساحل پر یا سمندر میں، سمندر کی تہہ میں یا سطح سمندر سے قریب، شمال یا جنوب میں، پہاڑوں پر یا وادیوں میں، سطح زمین پر یا زیر زمین، استیپ میں یا جنگلوں میں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کون سے جانور اس کے پڑوسی ہوتے ہیں۔
جانور پوری طرح اپنے ماحول کا محتاج ہوتا ہے۔
لیکن آدمی اپنی مرضی کے مطابق ماحول بناتا ہے۔ وہ اکثر قدرت کی کتاب اس کے ہاتھ سے چھین لیتا ہے اور ان شرائط کو کاٹ دیتا ہے جو اسے پسند نہیں ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”ریگستان میں بہت کم پانی ہے”۔ لیکن جب ہم ریگستان میں گہری نہریں کھود دیتے ہیں تو اس حالت کو ختم کر دیتے ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”شمالی کی زمین بنجر ہے”۔ہم زمین میںکھاد ڈال کر اس کو بدل دیتے ہیں۔ ہم کئی سال تک خود بخود اگنے والی گھاسیں اور پھلی دار فصلیں بوکر زمین کو زرخیز بناتے ہیں۔
قدرت کی کتاب کہتی ہے: ”جاڑے کے موسم میں سردی اور رات میں اندھیرا ہوتا ہے”۔ لیکن آدمی ان باتوں کی کوئی پروا نہیںکرتا۔ وہ اپنے گھر کو جاڑے میں گرم اور رات میں روشن کرتا ہے۔
ہم برابر اپنے ماحول کو بدلتے رہتے ہیں۔
جو جنگل ہمارے چاروں طرف ہیں شجر کاری اور جنگلوں کی کٹائی کی وجہ سے مدت ہوئے اپنی صورت شکل بدل چکے ہیں۔
اب ہمارے استیپ بھی پہلے کی طرح سپاٹ ویرانے نہیں رہے ہیں۔ ان کو آدمی زیر کاشت لایا ہے۔
ہمارے پودے، ہماری گیہوں اور رائی کی فصلیں، ہمارے سیب اور ناشپاتیوں کے درخت، اُن جنگلی اناج کی گھاسوں اور پھل کے پیڑوں کی طرح بالکل نہیں ہیں جو کسی زمانے میں ویرانوں میں اگتے تھے۔
ایسے گھریلو جانور جیسے گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں اب جنگلی نہیں ہوتے۔ ان کو آدمی پالتا پوستا ہے اور ان کی افزائش کرتا ہے۔
آدمی نے جنگلی جانوروں کے طور طریقے بدل ڈالے ہیں۔ بعض جانور غذا کی تلاش میں آدمی کے گھروں اور کھیتوں سے بہت قریب رہتے ہیں اور بعض آدمی سے بھاگنے کی کوشش میں اس سے بہت دور جنگلوں اورویرانوں میں چلے گئے ہیں۔ آدمی کے ظہور سے پہلے ان جانوروں کے اجداد وہاں نہیں رہتے تھے۔
ایک زمانہ وہ بھی آئے گا جب آدمی کوئی اصلی جنگل یا ویرانہ دیکھنا چاہے گا تو اس کو خاص محفوظ جگہوں کو جانا پڑے گا کیونکہ انسان دنیا کا چہرہ بالکل بدل دے گا۔
ان محفوظ جگہوں کی سرحدیں کھینچتے ہوئے ہم قدرت سے کہتے ہیں: ”تم کو ہم یہاں کی مالکہ رہنے دیں گے لیکن اس سرحد کے پار ہر چیز ہماری ہے۔”
انسان قدرت پر روز بروز زیادہ اقتدار حاصل کرتا جا رہا ہے۔
یہ صورت ہمیشہ سے نہ تھی۔
ہمارے زمانہ تاریخ سے قبل کے اجداد قدرت کے ویسے ہی غلام تھے جیسے اس دنیا میں رہنے والے دوسرے جانور۔اپنے اجداد سے ملاقات
لاکھوں سال پہلے جنگلات اور ان کے درخت، جانور اورگھاسیں ہمارے موجودہ جنگلوں اور باغوں سے مختلف تھے۔
ان قدیم زمانے کے جنگلوں میں مہندی، لارل اور میگنولیا کے پودوں کے ساتھ بھوچ، لینڈن اور چنار کے بڑے بڑے درخت اگتے تھے۔ انگور کی بیلیں اخروٹ کے درختوں سے لپٹی رہتی تھیں اور بید مجنوں کے پڑوسی کا فور اور عنبر دینے والے درخت ہوتے تھے۔
بڑے بڑے دیو پیکر درختوں کے سامنے عظیم الشان شاہ بلوط بھی بالشتیا معلوم ہوتا تھا۔
اگر ہم آج کے جنگل کو کسی مکان سے تشبیہ دیں تو اس زمانے کا جنگل فلک بوس عمارت کی طرح ہوتا تھا۔
اس ”فلک بوس عمارت” کی سب سے اوپری منزل روشن اور چہل پہل والی ہوتی تھی۔ وہاں بڑے بڑے رنگین پھولوں کے درمیان، شوخ رنگ کی کلغیوں والی چڑیاں ادھر ادھر اڑتی تھیں اور ان کی آوازیں جنگل میں گونجتی تھیں۔ لنگور ادھر ادھر شاخوںسے جھولتے تھے۔
دیکھو، بندروں کا ایک غول شاخوں پر اس طرح دوڑ رہا ہے جیسے وہ کوئی پل پار کر رہا ہو۔ مائیں اپنے بچوں کو زوروں سے سینے سے لگائے ہیں اوران کے منہ میں چبائے ہوئے پھل اور اخروٹ بھر رہی ہیں۔ وہ بچے جو ذرا بڑے ہیں اپنی مائوں کے پیر پکڑے ہیں۔اور اس غول کا جھبرا بڈھا سردار بڑی چستی سے ایک تنے پر چڑھ رہا ہے اور سارا غول اس کے پیچھے چلتا ہے۔
یہ بندروں کی کون سی قسم ہے؟ آج کل تم کویہ چڑیا گھر میں بھی نہیں ملیں گے۔ یہ وہی بندر ہیں جن کی نسل سے آدمی، چمپا نزی اور گوریلا کے اجداد پیدا ہوئے ۔ ابھی ہماری ملاقات زمانہ تاریخ سے قبل کے اجداد سے ہوئی۔
وہ سب جنگل کی سب سے اوپر والی منزل پر رہتے تھے۔ وہ زمین سے بہت بلندی پر ایک درخت سے دوسرے درخت تک شاخوں کے ذریعے سفر کرتے رہتے تھے جیسے یہ شاخیں پل، بالکونیاں اور راہ دار یاں ہوں۔
جنگل ہی ان کا گھر تھا۔ رات کو وہ درختوں کے دو شاخے میں ڈالیوں سے بنے ہوئے بڑے بڑے گھونسلوں میں آرام کرتے تھے۔
جنگل ان کا قلعہ تھا۔ وہ اوپر والی منزل پر اپنے جانی دشمن تیز دانتوں والے چیتے سے پناہ لیتے تھے۔
جنگل ان کا بھنڈا تھا۔ وہاں اوپر کی شاخوں میں وہ اپنا کھانا، پھل اور اخروٹ جمع کرتے تھے۔
لیکن جنگل کی چھت تلے زندگی بسر کرنے کے لئے ان کو ایک شاخ سے جھول کر دوسری شاخ تک جانا سیکھنا پڑتا تھا اور یہ بھی کہ درختوں کے تنوں سے کس طرح اوپر نیچے چڑھا اترا جائے اور ایک درخت سے کود کر دوسرے تک کس طرح پہنچا جائے۔ ان کو پھلوں کو چننا اور اخروٹوں کو توڑناسیکھنا پڑا۔ ان کی انگلیوں کو چست، آنکھوں کو تیز اوردانتوں کو مضبوط ہونا چاہئے تھا۔
ہمارے اجداد بہت سی زنجیروں سے جنگل سے منسلک تھے اور صرف جنگل ہی سے نہیں بلکہ اوپر چوٹی والی منزلوں سے۔ آدمی نے ان زنجیروں کو کسی طرح توڑا؟ جنگلی مخلوقات نے کس طرح یہ ہمت کی کہ وہ اپنا پنجراچھوڑ کر اپنے گھر کی سرحدوں سے باہر قدم رکھے؟ہمارے ہیروں کی دادی اور چچیرے رشتے دار
جب پرانے زمانے میں کوئی مصنف آدمی کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں اپنی کہانی شروع کرتا تھا تو وہ عام طور پر اپنی کتاب کے پہلے ہی بابوںمیں اپنے ہیرو کے خاندان اور اس کے اجداد کا تفصیلی ذکر کرتا تھا۔
چند ہی صفحے پڑھنے کے بعد یہ پتہ چل جاتا کہ جب اس کی دادی لڑکی تھی تو کتنے خوبصورت گائون پہنتی تھی اور شادی سے پہلے ماں اس دن کے خواب کیسے دیکھا کرتی تھی۔ دنیا میں اس ہیرو کے ظہور، اس کے پہلے دانت، پہلے الفاظ، پہلے قدم اور پہلی شرارتوں کے بارے میں طویل بیان ہوتا تھا۔ دس باب بعد لڑکا اسکول میں داخل ہوتا تھا اور دوسری جلد کے آخر میں محبت میں مبتلا ہو جاتا تھا۔ تیسری جلد میں وہ بہت سی مہموں اور واقعات کے بعد آخر کار اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا تھا اور اس کہانی کاخاتمہ عام طور پر اس طرح ہوتا تھا کہ بزرگ اور بوڑھا ہیرو اور اس کی سفید بالوں والی بیوی اپنے گلاب جیسے گالوں والے پوتے کو پیار سے دیکھ رہے ہیں جو پہلی مرتبہ ڈگمگا کر زمین پرقدم رکھ رہا ہے۔
ہم بھی آپ کو انسان کی زندگی اورا س کے کارناموں کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں۔ اورپرانے زمانے کے ناول نگاروں کی پیروی کرتے ہوئے ہم اپنے ہیروکے قدیم آباو اجداد، ا س کے خاندان اور رشتے داروں، زمین پر اس کے ظہور کے بارے اور یہ بھی بتانا میں چاہتے ہیں کہ اس نے چلنا، باتیں کرنا، سوچنا کیسے سیکھا۔ ہم اس کی جدوجہد، خوشی اور غم، فتوحات اور شکستوں کا بھی ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ ابتدا میں ہم بڑی مشکلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
ہم اپنے ہیرو کی ”جدو” کے بارے میں کیسے بیان کریں، اس بوزنہ جدہ کے بارے میں جن کی اولاد ہماری قسم ہے، جب کہ اس جدہ کو ختم ہوئے لاکھوں سال بیت چکے ہیں؟ ہمارے پاس ان کی کوئی تصویر بھی تو نہیں ہے کیونکہ ہم تو جانتے ہو گے کہ بوزنے تصویر کشی نہیںکر سکتے۔ جیسا کہ پچھلے باب میں کہا جا چکا ہے ہماری ملاقات زمانہ تاریخ سے قبل والی جدہ سے صرف عجائب گھر میںہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں بھی یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ وہ اس زمانے میںکیسی لگتی تھیں کیونکہ اب ان کی صرف چند ہڈیاں اور دانت ہی باقی رہ گئے ہیں جو افریقہ، ایشیا اور یورپ کے مختلف حصوں میں پائے گئے ہیں۔
ہمیں اپنے ہیرو کے ”چھیرے بھائی بہنوں” سے واقفیت حاصل کرنے کا زیادہ اچھا موقع ہے۔
آدمی تو مدتیں ہوئیں ماقابل تاریخ کے گرم منطقے والے جنگلات چھوڑ کر پوری طرح زمین پر آباد ہو گیا ہے۔لیکن اس کے رشتے دار گوریلا، چمپانزی، لنگور اور اور انگ اوتان اچھی تک جنگلی جانور ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ ان کو ایسے ذلیل اور حقیر رشتے داروں کی یاد دلائی جائے۔ بعض تو اس دور کے رشتے سے بالکل ہی انکار کرتے ہیں۔ اورایسے بھی لوگ ہیں جو اس بات کی طرف اشارے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں کہ آدمی اور چمپانزی کی جدہ ایک ہی ہے۔
لیکن حقیقت تو ضرورت سامنے آئے گی۔ ہم یہ ساری کتاب اس کے ثبوت سے پھر سکتے تھے کہ آدمی اور بوزنے میں رشتے داری ہے۔ پھر بھی اس موضوع پر طویل اورا لجھے ہوئے بحث ومباحثے کے بغیر اگر کوئی آمی چڑیا گھر میں جاکر ایک گھنٹہ بھی چمپانزی اور اورانگ اوتان کو غور سے دیکھے تو اس خاندانی مشابہت پر حیرت ہو گی جو آدمی اور ان بوزنوں میں ہے۔
ہمارے رشتے دار رافل اور روزا
چند سال ہوئے مشہورروسی سائنس داں ایوان پاولوف کی لیباریٹری میں جو لینن
گراد کے قریب موضع کو لتوشی میں (اب یہ گائو پاولووا کہلاتا ہے) واقع ہے دو
چمپانزی لائے گئے جن کے نام تھے رافائل اور روزا۔
آدمی اپنے بیچارے جنگلی رشتے داروں کے ساتھ زیادہ مہربانی کا برتائو نہیں
کرتا اور عام طور پر انہیں سیدھا پنجروں میں بند کر دیتا ہے۔ لیکن اس موقع
پر افریقہ کے جنگل کے مہمانوں کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا گیا۔ ان کو علحدہ
ایک فلیٹ رہنے کے لئے دیا گیا جس میں سونے، کھانے اور کھیلنے کے کمرے اور
غسل خانہ تھا۔ ان کے لئے سونے کے کمرے میں آرام دہ بستر اور چھوٹی میزیں
تھیں۔ کھانے کے کمرے میں میز سفید میز پوش سے ڈھکی ہوئی تھی۔ الماری کے
خانے کھانے کی چیزوں سے بھرے تھے۔
اس آرام فلیٹ کی کسی بات سے یہ گمان نہیںہوتاتھا کہ اس کے رہنے والے بوزنے
ہیں۔ کھانا ہمیشہ پلیٹوں میں دیا جاتا تھا۔ اور کھانے کے لئے چمچے ہوتے
تھے۔ رات کو بستر بچھائے جاتے ہیں اور تکیوں کو نرم کر دیا جاتا تھا۔یہ سچ
ہے کہ کبھی کبھی مہمان بد سلیقگی کا مظاہرہ کرتے تھے اور پلیٹوں سے پھل کا
رس سڑ سڑا کر پیتے تھے اور رات کو تکیوں پر سر رکھنے کی بجائے سر پر تکئے
رکھ لیتے تھے۔
پھر بھی اگر رافائل اورروزا کے عادات واطوار انسانوں جیسے نہ تھے تو ان
سے قریب تو ضرور تھے۔
مثلاً روزا ایک گھر گرہست عورت کی طرح الماری کی کنجیوں کا گچھا استعمال
کرنا جانتی تھی۔ یہ کنجیاں نگراں کی جیب میں رہتی تھیں۔ روزا چیکے چیکے
پیچھے سے آتی اور اس سے گچھا چھین لے جاتی۔ وہ آنکھ جھپکا تے میں الماری کے
پاس پہنچ جاتی، کرسی پرچڑھ کر قفل میں ٹھیک کنجی لگاتی۔ شیشے کے مزیدار
خوبانیوں کے اوپر انگور کے خوشے دیکھتی۔ کلائی کی ہلکی سی حرکت سے قفل کو
کھول دیتی اور روزا کے ہاتھ میں انگوروں کا ایک خوشہ ہوتا۔
ہمیں رافائل کے بارے میں بھی نہیں بھولناچاہئے۔ اس کے سبقوں میں کیا منظر
ہوتا تھا! اس کی ٹریننگ کی چیزوں میں خوبانیوں کی ایک چھوٹی سی ٹوکری اور
مختلف سائز کے سات بلاک تھے۔لیکن یہ ویسے بلاک نہ تھے جن سے بچے کھیلتے
ہیں۔ رافائل کے بلاک ان سے کہیں بڑے تھے۔ سب سے بڑا معمولی اسٹول کے برابر
تھا اور سب سے چھوٹا ایک نیچی تپائی جیسا۔ خوبانیوں کی ٹوکری چھت میں لٹکا
دی جاتی تھی۔ اب رافائل کے سامنے یہ مسئلہ ہوتا تھا کہ وہ خوبانیوں تک کیسے
پہنچے اور ان کو کھائے۔
پہلے تو رافائل اس مسئلے کو نہیں حل کر سکا۔
گھر پریعنی جنگل میں تو اس کوپھل حاصل کرنے کے لئے بہت اونچائی تک چڑھنا
پڑتا تھا۔ لیکن یہاں تو پھل کسی شاخ پر نہیں تھے۔ وہ ہوا میں لٹک رہے تھے
اور صرف سات بلاکوں کے ذریعے اوپر چڑھا جا سکتا تھا۔ لیکن اگر سب سے بڑے
بلاک کے اوپر بھی چڑھتا تو وہ خوبانیوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔
پھلوں تک پہنچنے کی کوشش کے دوران میں بلاکوں کو لڑھکاتے ہوئے رافائل نے یہ
دریافت کی کہ اگر وہ ان بلاکوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر چڑھے تو وہ
خوبانیوں سے بہت قریب پہنچ جائے گا۔ رفتہ رفتہ، وہ تین بلاکوں کا مینار
بنانے میںکامیاب ہوا، پھر چار اور پانچ کا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ
وہ ان کو اوپر نیچے جیسے چاہے نہیں لگا سکتا تھا۔ ان بلاکوں کا ایک مقررہ
نظام تھا۔ پہلے سب سے بڑا، پھر اس سے کم بڑا اور پھر اسی طرح اورکم بڑے۔
بہت بار رافائل نے چھوٹے بلاکوں کو اوپر بلاک چنے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پورا
ڈھیر ہلنے لگا اور گرنے کے قریب ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بس پورا
ڈھیر مع رافائل کے ایک لمے میں نیچے آرے گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ
بہر حال وہ بندر تھا ور چست وچالاک اور تیز بھی۔
آخر کار مسئلہ حل ہو گیا۔ رافائل نے سائز کے لحاظ سے ساتوں بلاک اوپر نیچے
چن دئے جیسے کہ واقعی اس نے وہ ساتھ نمبر پڑھ لئے ہوں جو ان بلاکوں پر بنے
تھے۔
جب وہ ٹوکری تک پہنچ گیا تو اس ہلتے ہوئے مینار پر بیٹھ کر اس نے مزے سے
خوبانیاں کھائیں جو بڑی محنت سے حاصل کی تھیں۔
اور کون جانور ایسا انسانی طریقہ اختیار کر سکتا تھا؟ کیا کوئی کتا بلاکوں
کا ایسامینار بنا سکتا تھا؟ حالانکہ کتا تو بہت سمجھدار جانور ہوتا ہے۔
وہ سب لوگ جو رافائل کو کام کرتے دیکھتے تھے انسان سے اس کی مشابہت پر
حیران رہ جاتے تھے۔ وہ بلاک اٹھاتا، اس کو اپنے شانے پر رکھتا اور اس کو
ایک ہاتھ سے سنبھال کر ڈھیر تک لے جاتا۔ لیکن اگر وہ غلط سائز کا بلاک ہوتا
تو رافائل اس کو نیچے رکھ دیتا اور اس پر بیٹھ جاتا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔
ذرا دیر آرام کرنے کے بعد وہ اپنی غلطی دور کرنے کے لئے پھر کام کرنے لگتا۔
کیا چمپانزی آدمی بن سکتا ہے؟
لیکن اگر یہ صورت ہے توکیا چمپانزی کو آدمی کی طرح چلنا، باتیں اور کام
کرنا نہیں سکھایا جا سکتا؟
برسوں پہلے جانوروں کے مشہور ٹرینر ولاد یمپر دوروف کا خیال تھا کہ ایسا
ممکن ہے۔ انہوں نے اپنے پالتو چمپانزی کو تربیت دینے کی مہینوں کوشش کی۔
میمس بڑا اچھا شاگرد تھا۔ اس نے چمچے سے کھانا، تولیہ استعمال کرنا، کرسی
پر بیٹھنا، میز پوش پر گرائے بغیر اپنا شوربہ کھانا، حتی کہ برف گاڑی میں
بیٹھ کر پہاڑی سے نیچے پھسلنا تک سیکھ لیا۔
لیکن وہ کبھی انسان میں نہیں تبدیل ہو سکتا تھا۔
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیںہے کیونکہ انسان اور بوزنے کے طور طریقے
لاکھوں سال پہلے الگ الگ ہو گئے تھے۔ ماقابل تاریخ کے دور میں انسان کے
اجداد درختوں سے زمین پراترنے اورا نہوں نے دو پیروں پر سیدھے کھڑے ہو کر
چلنا سیکھا اور اس طرح انہوں نے اپنے ہاتھوں کو کام آزاد کیا۔ لیکن چمپانزی
کے اجداد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے درختوں ہی پر ہے اور وہ پہلے سے زیادہ درختوں
پر رہنے کے عادی بنتے گئے۔
اسی لئے چمپانزی کی بناوٹ آدمی جیسی نہیں ہے۔ اس کے ہاتھ، پیر، زبان اور
دماغ سب مختلف ہیں۔ کسی چمپانزی کاہاتھ غور سے دیکھو۔ وہ بالکل انسانی ہاتھ
کی طرح نہیں ہوتا ہے۔ چمپانزی کا انگوٹھا اس کی چھنگلیا سے چھوٹا ہوتا ہے،
ہماری طرح اس کا انگوٹھا دوسری انگلیوں کے ساتھ زوایہ نہیں بناتا۔ لیکن
انگوٹھا ہماری انگلیوں میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یعنی ان پانچ
مزدوروں کی ٹیم میں جس کو ہم ہاتھ کہتے ہیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے
یعنی ان پانچ مزدوروں کی ٹیم میں جس کو ہم ہاتھ کہتے ہیں سب سے ضروری۔
انگوٹھا دوسری چار انگلیوں میں کسی ایک کے ساتھ یا سب کے سات مل کر کام کر
سکتا ہے۔ اسی لئے انسانی ہاتھ سب سے زیادہ پیچیدہ آلات و اوزار کو بھی بڑی
مہارت سے استعمال کر سکتا ہے۔
جب کوئی چمپانزی کسی درخت سے پھل توڑنا چاہتا ہے تووہ اکثر شاخ کو اپنے
ہاتھوں سے پکڑ لیتا ہے اور پھل کو پیر کی انگلیوں سے توڑتا ہے۔ جب چمپانزی
زمین پر چلتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ کی مڑی ہوئی انگلیوں پر زیادہ زور دیتا
ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ ا کثر اپنے ہاتھوں کو پیروں کی طرح اور پیروں
کو ہاتھوں کی طرح استعمال کرتا ہے۔
جانوروں کو سدھانے والے جو چمپانزی کو انسانی حرکات وطوار سیکھانا چاہتے
ہیں اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہاتھوں اور پیروں کے علاوہ انسان اور چمپانزی
میں ایک اور بھی بڑا فرق ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ انسان کے مقابلے میں
چمپانزی کا دماغ بہت چھوٹا ہوتا ہے اور اس کی ساخت بھی اتنی پیچیدہ نہیں
ہوتی جتنی انسانی کے دماغ کی۔
ایون پاولوف نے انسانی دماغ کے مطالعہ پر برسوں صرف کئے۔ ان کو روزا اور
رافائل کے طور پر طریقوں سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ ”بندر گھر” میں گھنٹوں رہتے
ہیں اور ان کا مطالعہ قریب سے کرتے تھے۔ یہ دونوں بندربالکل ناسمجھی سے
کام کرتے تھے۔ وہ کچھ کرنا شروع کرتے اور پھر کسی دوسری طرف متوجہ ہو کر اس
کے بارے میں بھول جاتے اور کسی دوسری بات سے دلچسپی لینے لگتے۔
مثلاً رافائل اپنا مینار بنانے میں لگ جاتا اور بہت ہی مصروف لگتا۔ اچانک
وہ کوئی گیند دیکھتا اور بلاکوں کے بارے میں بارے میں بالکل بھول کر اپنے
لمبے اور بالدار ہاتھ سے گیند اچھا لنے لگتا۔ ایک لمحہ بعد جب اس کو کوئی
مکھی فرش پر ینگتی نظر آجاتی تو وہ گیند کو بھول جاتا۔
اس انتشار کو دیکھ کر پاولوف نے ایک بار کہا تھا:
”بدنظمی ہے، بدنظمی!”
ہاں، بوزنوں کی بد نظم حرکتیں ان دماغ کے پرانتشار فعل کی صحیح طو رپر
آئینہ دار ہیں جو انسانی دماغ کے باقاعدہ اور مرکوز فعل سے بالکل مختلف
ہیں۔ پھر بھی چمپانزی میں سمجھ ہوتی ہے۔ وہ جنگل کی زندگی کابخوبی عادی
ہوتا ہے اوراپنی چھوٹی دنیا کی بہت سی نہ نظر آنے والی زنجیروں کا پابند۔
ایک بار ایک کیمرہ مین اس فلیٹ میں آیا جس میں روزا اور رافائل رہتے تھے۔
وہ ان کی فلم بنانا چاہتا تھا۔ فلم کی کہانی کے مطابق بندروں کو تھوڑی
دیرکے لئے باہر چھوڑناتھا۔وہ باہر نکلتے ہی قریب ترین درخت پر چڑھ گئے
اوران کی شاخوں میں بہت خوش خوش جھولنے لگے۔ ان کویہ درخت آرام دہ فلیٹ سے
زیادہ گھریلو لگا۔
افریقہ میں چمپانزی جنگل میں سب سے ”اوپری منزل” پر رہتا ہے۔ وہ اپنی رہائش
گاہ درخت پر بناتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں سے بچنے کے لئے درخت پر چڑھ جاتا ہے
اور درختوں سے وہ اخروٹ اور پھل بھی حاصل کرتا ہے جو اس کی غذا ہیں۔
وہ درخت کی زندگی کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ مسطح زمین پر چلنے کے مقابلے
میں درخت کے تنوں پر کہیں زیادہ آسانی سے چڑھ اتر سکتا ہے۔ تم کو چمپانزی
ایسی جگہوں پر کہیں نہ ملیں گے جہاں جنگل نہیں ہوتے۔
ایک بار ایک سائنس داں افریقہ میں یہ دیکھنے کے لئے کیمرون گیا کہ چمپانزی
اپنے قدرتی ماحول میں کیسے رہتے ہیں۔
اس نے تقریباً ایک درجن چمپانزی پکڑ کر اپنے فارم کے قریب جنگل میں چھوڑے
تاکہ وہ گھر کی طرح محسوس کریں۔ لیکن پہلے اس نے ایک نظر نہ آنے والا پنجرا
بنوایا تھا تاکہ وہ بھاگ نہ جائیں۔ یہ نظر نہ آنے والا بنچرا دو معمولی
اوازروں یعنی کلہاڑی اور آرے کے ذریعے بنایا گیا تھا۔
پہلے لکڑہاروں نے جنگل کے ایک چھوٹے سے رقبے کے گرد تمام درخت کاٹ دئے۔ بس
میدان کے بیچ میں درختوں کا ایک جھنڈرہ گیا۔ سائنس داں نے اپنے بوزنوں کو
اس جھنڈ میں آزاد چھوڑ دیا۔
اس کا منصوبہ کامیاب رہاکیونکہ بندر تو جنگل کے رہنے والے ہیں یعنی وہ اپنی
مرضی سے جنگل کبھی نہیں چھوڑتے۔ بندر اپنا گھر کھلے میدانوں میں نہیں بنا
سکتا جیسے کہ قطبی ریچھ اپنا گھر ریگستان میں نہیں بناتا۔
لیکن اگر چمپانزی جنگل نہیں چھوڑ سکتا تو اس کا دور کا رشتے دار آدمی جنگل
کو کیسے چھوڑ سکا؟
ہمارے ہیرو نے چلنا سیکھا
ہمارے ماقابل تاریخ والے جنگلی جد کو اپنا پنجرہ توڑنے، آزادی کے ساتھ جنگل
چھوڑنے اور استیپ اور بے درختوں والے میدانوں میں اپنا گھر بنانے
میںلاکھوں سال لگ گئے۔
درختوں پر رہنے والے جانور کو، اگروہ ان زنجیروں کو توڑنا چاہتا تھا جو اس
کو جنگل کا پابند رکھتی تھیں تو، درخت سے اتر کر زمین پر چلنا سیکھنا ہوتا
تھا۔
انسان کے کسی بچے کے لئے ہمارے زمانے میں بھی چلنا سیکھنا آسان نہیں ہے۔ جو
کوئی بھی کسی بالک گھر گیا ہے وہ جانتا ہے کہ وہاں ایسی چھوٹی عمر کے بچے
ہوتے ہیں جو ”رینگنے والے” کہلاتے ہیں۔ یہ ایسے بچے ہوتے ہیں جو ٹھہرنا
نہیں چاہتے لیکن چلنا بھی نہیں جانتے۔ ان ”رینگنے والوں” کو ”چلنے والا”
بننے کے لئے کئی مہینے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ذرا سوچو تو انہیں بلا کسی
سہارے کے، ہاتھوں سے زمین کو چھوٹے بغیر، سنبھلنے کے لئے کوسیوں یا بنچوں
کا سہارا لئے بغیر چلنا سیکھنا ہوتا ہے۔ اور اس طرح اپنے کو سنبھالنا
سائیکل سواری سیکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔
لیکن اگر بچے کو چلنا سیکھنے میں کئی مہینے لگتے ہیں توہمارے ماقابل تاریخ
کے اجداد کو یہ ہنر سیکھنے میں ہزاروں برس لگ گئے تھے۔
اس دور افتادہ زمانے میں وہ مختصر مدت کے لئے درختوں سے اترتے تھے۔ شاید وہ
ہمیشہ اپنے ہاتھوں پر نہیں جھکتے تھے بلکہ اپنے پچھلے پیروں پر کھڑے ہو کر
دو تین قدم دوڑتے تھے جیسا کہ چمپانزی کبھی کبھی اب بھی کرتے ہیں۔
بہر حال دو تین قدم تو پچاس یا سو قدم نہیں ہیں۔
انسان کے پیروں نے ہاتھوں کو کام کے لئے کیسے آزاد کیا
جب ہمارے ماقابل تاریخ کے اجداد درختوں پر رہتے تھے تبھی انہوں نے اپنے
ہاتھوں کو رفتہ رفتہ پیروں سے مختلف کاموں کے لئے استعمال کرنا سیکھا تھا۔
وہ پھلوں اور اخروٹوں کو توڑنے اور درختوں کے دو شاخوں میں اپنے گھونسلے
بنانے کے لئے ہاتھوں کو استعمال کرنے لگے۔
لیکن جو ہاتھ اخروٹ پکڑ سکتا تھا وہ کوئی ڈنڈا یا پتھر بھی پکڑ سکتا تھا۔
اور ہاتھ میں کسی ڈنڈے یا پتھر کا مطلب یہ ہوا کہ ہاتھ زیادہ لمبا اور
مضبوط ہو گیا۔
پتھر کسی سخت اخروٹ کو توڑ سکتا تھا اور ڈنڈے سے کوئی مزیدار جڑ زمین کے
اندر سے کھود کر نکالی جا سکتی تھی۔
اس طرح ماقبل تاریخ کا آدمی ان اوزاروںکو اپنی غذا کے حصول کے لئے زیادہ سے
زیادہ استعمال کرنے لگا۔ ڈنڈے سے کھود کر وہ جڑیں اور کند اوپر کھینچ لیتا
تھا بڑے بڑے پتھروں سے درختوں کے ٹھنٹھ کو ٹھونک ٹھونک کر وہ کیڑوں کے
انڈے باہر نکال لیتا تھا۔ پھر بھی اس کے لئے ہاتھوں سے کام لینے کی ایک ہی
صورت تھی یعنی ان کو چلنے کے کام میں استعمال سے آزاد کرے۔ اس کے ہاتھ جتنے
ہی مصروف ہوتے اتنا ہی زیادہ پیروں کو چلنے کا مسئلہ حل کرنا پڑتا۔
اس طرح اس کے ہاتھ اس کے پیروں کو چلنے پر مجبور کرتے اور اس کے پیر ہاتھوں
کو کام کے لئے آزاد کر دیتے۔
یوں ایک نئی مخلوق کا دنیا وجود ہوا جو اپنے پچھلے پیروں پر چلتی تھی او
رہاتھوں سے کام کرتی تھی۔ صورت شکل میں یہ مخلوق ابھی تک بہت کچھ جانوروں
جیسی تھی۔ لیکن اگر تم اس کو ڈنڈا یا پتھر لے کر چلتے دیکھتے تو فوراًکہتے
کہ یہ جانور ابتدائی انسانی نسل کا ہے۔ دراصل صرف آدمی ہی اوزاروں کا
استعمال جانتا ہے۔ جانوروں کے پاس تو آلات واوزار نہیں ہوتے۔
جب کوئی پھدکنے ولا چوھا یا چھچھو ندر اپنی بھٹ کھودتے ہیں تو ان کو صرف
پنجوں سے کام لینا ہوتا ہے۔ ان کے پاس پھائوڑے تو نہیں ہوتے۔ جب کوئی چوھا
کسی لکڑی کو کاٹتا اورکریدتا ہے تو وہ چاقوسے نہیں بلکہ اپنے دانتوں سے
ایسا کرتا ہے۔ اور جب کوئی ہدہد درخت کی چھال کو ٹھونگیں مارتا ہے تو وہ
اپنی چونچ سے کام لیتا ہے نہ کہ کسی رکھانی سے۔
ہمارے ماقبل تاریخ والے اجداد کے پاس نہ تو رکھانی جیسی چونچ تھی اور نہ
پھائوڑوں جیسے پنجے اور نہ بلیڈ کی طرح تیز دانت۔
لیکن ان کے پاس ایسی چیز تھی جوا نتہائی تیز دانتوں اور بہت مضبوط چونچوں
سے کہیں بہتر تھی۔ ان کے پاس ہاتھ تھے جن کو وہ زمین سے کاٹنے والے پتھر
اور لمبے چوبی پنجوں کو اٹھانے کے لئے استعمال کرسکتے تھے۔
ہمارا ہیرو زمین پر اترتا ہے
جب یہ واقعات ہو رہے تھے تو آب وہوا بھی رفتہ رفتہ بدل رہی تھی۔ ہمارے
زمانہ تاریخ سے قبل والے اجداد کے جنگلوں میں راتیں زیادہ ٹھنڈی ہوتی جاتی
تھیں اور جاڑوں میں بہت زیادہ سردی پڑنے لگی تھی۔ حالانکہ آب وہوا اب بھی
گرم تھی لیکن اس کو خوب گرم نہیں کہا جا سکتا ہے۔
پہاڑیوں اورپہاڑوں کی شمالی ڈھلانوں پر رفتہ رفتہ سدا بہار پام، مینگولیا
اور لارل کی جگہ بلوط اور لینڈن لے رہے تھے۔
دریائوں کے کنارے گہری پرتوں میں لوگوںکو اکثر بلوط یالائم کی پتھرائی ہوئی
پتیاں ملتی ہیں جو لاکھوں سال پہلے کسی سیلاب میں دریا کے ذریعے یہاں
پہنچی تھیں۔
جنوبی ڈھلانوں اور نشیبوں میں انجیر کے درخت اور انگور کی بیلیں ٹھنڈی
ہوائوں سے محفوظ رہیں۔ گرم خطوں کے جنگلوں کی سرحدیں اور جنوب کی طرف پیچھے
ہٹتی گئیں۔ اور ان جنگلی جھاڑ جھنکار کے باسی ہاتھی اور خنجر جیسے تیز
دانتوں والے چیتے بھی جو اب بہت نایاب ہوتے جاتے تھے، جنوب کی طرف پیچھے ہٹ
رہے تھے۔
جہاں پہلے جنگلی جھاڑ جھنکار تھے وہاں درختوں نے الگ ہو کر ایسے روشن میدان
بنا دئے جہاں دیوقد ہرن اور گینڈے چرتے تھے۔ کچھ بندر بھی جنگل کے ساتھ
ساتھ پیچھے ہٹے اور دوسری قسمیں ختم ہو گئیں۔
جنگل میں انگور کی بیلوں کی تعداد گھٹتی گئی، انجیر کے درختوں کو پانا مشکل
ہو گیا۔ جنگلوں سے گذرنا اور زیادہ دشوار ہو گیا کیونکہ اب وہ چھدرے ہو
گئے تھے اور ان کے باسیوں کو درختوں کے ایک جھنڈ سے دوسرے جھنڈ تک پہنچنے
کے لئے زمین پر چلنا پڑتا تھا۔ درخت پررہنے والوں کے لئے یہ آسان کام نہ
تھاکیونکہ اس طرح درندوں کا شکار بننے کا زیادہ امکان تھا۔
لیکن وہ مجبور تھے۔ بھوک پیاس ان کو درختوں سے نیچے لاتی تھی۔ ہمارے ماقبل
تاریخ کے اجداد غذا کی تلاش میں زمین پر اکثر آنے کے لئے مجبور ہوئے۔
جب انہوں نے اپنا مانوس پنجرہ یعنی جنگل کی دنیا چھوڑی جس کے وہ عادی تھے
تو کیا ہوا؟
انہوںنے جنگل کے قوانین کو توڑ دیا۔ انہوں نے وہ زنجیریں توڑ دیں جن سے ہر
جانور نظام قدرت میں ایک جگہ کا پابند ہوتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ جانور اور پرندے بدلتے رہتے ہیں۔ قدرت میںکوئی بھی چیز
یکساں نہیںرہتی۔ لیکن یہ تبدیلی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایک چھوٹے جنگلی
جانور کو جس کے تیز پنجے تھے آج کا گھوڑا بننے میں لاکھوں سال لگ گئے۔ ہر
جانور بچپن میں اپنے والدین سے بہت مشابہ ہوتا ہے۔ بلکہ کوئی فرق مشکل سے
ہوتا ہے۔ جانور کی کسی نئی قسم کے ارتقا میں ہزاروں نسلیں گذر گئیں، ایسی
قسم میں تبدیلی کے لئے جو اپنے اجداد سے بالکل مختلف تھی۔
اورہمارے ماقبل تاریخ کے اجداد کا کیا حال ہوا؟
اگر وہ اپنی عادات اوطوار نہ بدل سکتے تو ان کو بھی بندر کے ساتھ جنوب کی
طرف ہٹنا پڑتا۔ لیکن وہ بندروں سے مختلف تھے کیونکہ اب وہ جان گئے تھے کہ
پتھروں او لکڑی کے دانتوں اور پنجوں سے کس طرح غذا حاصل کی جا سکتی ہے
انہوں نے یہ سیکھ لیا تھا کہ رس دار جنوبی پھلوں کے بغیر، جو جنگلوں میں
کمیاب ہوتے جاتے تھے، کیسے رہا جائے۔ ان کو اس بات سے پریشانی نہ تھی کہ
جنگل چھدرے ہوتے جا رہے تھے کیونکہ انہوں نے زمین پر چلنا سیکھ لیا تھا
اورکھلی اور بے درخت جگہوں سے ڈرتے نہیں تھے۔ اور اگر کوئی دشمن ان کے
راستے میں آتا تھا تو بندر مانس کا سارا غول ڈنڈوں اور پتھروں سے اپنی
حفاظت کرتاتھا۔
جب سخت دور آیاتو اس نے بندر مانس کو نہ تو ختم کیا اور نہ ان کو جنوبی
جنگلوں کے ساتھ پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکا۔ صرف اس نے بندر مانس کے آدمی
بننے کی رفتار تیز کر دی۔
اورہمارے دور کے رشتے دار بندروں کا کیا حشر ہوا؟
وہ جنوبی جنگلوں کے ساتھ پیچھے ہٹے او رسدا کے لئے جنگل کے باسی بنے
رہے۔دراصل ان کے سامنے کوئی دوسرا ہی نہ تھا۔ وہ ہمارے اجداد سے ارتقائی
مدارج میں پیچھے رہ گئے تھے اور نہوں نے اوزاروں کا استعمال ہی نہیں سیکھا
تھا۔اس کی بجائے انتہائی چست وچالاک بندروں نے درختوں پر چڑھنا اور شاخوں
سے جھولنا پہلے سے بہتر سیکھا لیا تھا۔
جو بندر درختوں پر چڑھنے میںکم مہارت رکھتے تھے اور درختوں کی زندگی کے
عادی نہیں بن سکے تھے ان میں سے صرف سب سے بڑے اور طاقتور بندر بچ گئے۔مگر
بندر جتنا ہی زیادہ بھاری اور بڑا ہوتا اتنا ہی زیادہ اس کو درخت پر کی
زندگی مشکل معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے ان بڑے بڑے بندروں کومجبوراً درختوں سے
اترنا پڑا۔گوریلا اب بھی جنگل میں زمین والی منزل پر رہتے ہیں۔ ان کے
ہتھیار نہ تو ڈنڈے ہیں اورنہ پتھر بلکہ وہ بڑے دانت ہیں جو ان کے طاقتور
جبڑوں سے باہر نکلے ہوتے ہیں ۔
اس طرح آدمی اور اس کے دور کے رشتے داروں میں ہمیشہ کے لئے جدائی ہو گئی۔
گم شدہ کڑی
آدمی نے دونوں پیروں پر چلنا یک دم نہیں سیکھ لیا۔ پہلے تو وہ لڑکھڑا کر
چلتا تھا۔
پہلا آدمی یایہ کہنا زیادہ ٹھیک ہو گا کہ بندر مانس کیسا لگتا تھا؟
کرہ ارض پر بندر مانس کہیں نہیں رہ گیا ہے۔ لیکن کیا اس کی ہڈیاں بھی کہیں
نہیں ملتی ہیں؟
اگریہ ہڈیاں مل جائیں تو یہ اس کا حتمی ثبوت ہو گا کہ انسان بندر کی اولاد
ہے۔ کیونکہ بندر مانس قدیم ترین آدمی تھا، اس زنجیر کی اہم کڑی جو بندروں
سے شروع ہوتی ہے اور جدید انسان پر ختم ہوتی ہے۔ بہر حال یہ اہم کڑی کہیں
دریا کے کناروں کی پرتوں میں، مٹی اور ریت کی تہوں میں لاپتہ ہو گئی ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ زمین کی کھدائی میںماہر ہوتے ہیں۔ لیکن کھدائی شروع کرنے
سے پہلے ان کو وہ جگہ طے کرنا چاہئے جہاں اہم کڑی کی تلاش کرنی ہے۔ کسی
چیز کی کھوج ساری دنیا میںکرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور قدیم آدمی کی
ہڈیاں زمین میں اس طرح چھپی ہیںجیسے بھوسے کے ڈھیر میںسوئی۔
انیسویں صدی کے آخر میں ایک جرمن ماہر حیاتیات ایرنسٹ ہیکل نے یہ مفروضہ
پیش کیا کہ بندر مانس (جیسا کہ سائنس داں اس کو کہتے ہیں)کی ہڈیاں کہیں
جنوبی ایشیا میںمل سکتی ہیں۔اس نے دراصل وہ ٹھیک ٹھیک جگہ بھی بتا دی جہاں
اس کے خیال میں یہ ہڈیاں محفوظ ہیں۔ یہ سنڈا کے جزیرے تھے۔
بہت سے لوگ اس سے متفق نہیں تھے۔لیکن اس کے نظریے کو بھلایا نہیں گیا۔خاص
طور سے ایک آدمی تو اس سے اتنا متاثر تھاکہ وہ اپنا سارا کام کاج ترک کرکے
جزائر سنڈا کو روانہ ہو گیا تاکہ وہ مفروضہ کی مفروضہ باقیات تلاش کرے۔
یہ آدمی آمسٹرڈام یونیورسٹی میںتشریح اعضا کے علم کا لکچرر تھا اور اس کا
نام ڈاکٹر ایوگینی ڈیوبوا تھا۔
ان کے بہت سے ساتھ اور پروفیسر حیرت سے سر ہلاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوئی
معقول آدمی اس بے مقصد تگ و دو میں نہیں پڑ سکتا۔ ان انتہائی معزز ہستیوں
کا آنا جانا صرف آمسٹرڈام کی خاموش سڑکوں سے یونیورسٹی تک محدود تھا۔
اپنے جرأت آمیز منصوبے کے لئے کام کرنے کی غرض سے ڈاکٹر ڈیوبوا کو
یونیورسٹی کی ملازمت ترک کرنی پڑی۔ وہ فوج میں بھرتی ہو کر سماترا روانہ ہو
گئے جہاں ان کو ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرنا تھا۔
جزیرہ سماترا میں قیام کے دوران میں انہوں نے اپنا سارا وقت اس تلاش کے لئے
وقف کر دیا۔ ان کی زیر نگرانی مزدوروں نے کھدائی کرکے مٹی کے پہاڑ بنا دئے
ایک، دو اور تین مہینے گذر گئے لیکن کی ہڈیوں سے مشابہ کوئی چیز نہ ملی۔
اگر آدمی کسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش کرتا ہے تو وہ کم از کم یہ جانتا ہے
کہ وہ وہیں کہیں ہے اوراگر وہ اس کی تلاش توجہ سے کرے تو مل جائے گی۔لیکن
ڈیوبواکی صورت حال اس سے کہیں بری تھی۔یہ محض قیاس تھا۔ اور وہ قطعی طور پر
یہ نہیںکہہ سکتے تھے کہ ایسی باقیات کا واقعی وجود ہے۔ پھر بھی انہوں نے
استقلال کے ساتھ تلاش جاری رکھی۔ ایک، دو، تین سال گذر گئے لیکن ”گم شدہ
کڑی” کہیں نہ ملی۔
ان کی جگہ پر کوئی اور ہوتا تو سارے خیال کو حماقت جان کر ترک کر دیتا لیکن
ڈاکٹر ڈیوبوا کسی چیز کوادھورا چھوڑنے والے نہیں تھے۔
جب ان کو یقین ہو گیا کہ بندر مانس کی باقیات ان کو سماترا میں نہیں مل
سکتیں توانہوں نے جزیرہ جاوا میں ان کو کھوجنے کا فیصلہ کیا۔ اور یہاں ان
کوآخر کار کامیابی ہوئی۔
ڈیوبوا کو یہاں دریائے سولو کے کنارے ترینیل گائوں کے قریب کی ہڈیاں ملیں۔
ان میں ایک ران کی ہڈی، کھوپڑی کااوپری حصہ اورکئی دانت تھے بعد کو ران کی
ہڈیوںکے کئی اور ٹکڑے بھی یہیں قریب ملے۔
ڈبوئوا نے اپنے ماقبل تاریخ کے جد کی کھوپڑی کو غور سے دیکھتے ہوئے یہ تصور
کرنے کی کوشش کی کہ وہ کیسا ہو گا۔ بندر مانس کی پیشانی نیچی اور چیٹی تھی
جس میں آنکھوں کے اوپر ایک موٹی ہڈی ابھری تھی۔ چہرہ انسان سے زیادہ بندر
سے مشابہ تھا۔ لیکن کھوپڑی کے گہرے مطالعہ نے ڈیوبوا کو یہ یقین دلا دیا کہ
بندر سے کہیں زیادہ ذہین تھاکیونکہ اس کا دماغ بندر سے کہیں بڑا تھا۔
دراصل کھوپڑی حصہ، دانت اورایک ران کی ہڈی ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے آگے
بڑھا جا سکے۔ پھر بھی گہرے مطالعہ کے ذریعے ڈیوبوا نے بندر مانس کی زندگی
کے بہت سے واقعات کاجوڑ توڑ کر لیا۔ اس طرح ران کی ہڈی نے یہ دکھایا کہ وہ
اپنے خمیدہ پیروں سے گھسیٹ کر چل لیتا تھا۔
ڈیوبوا نے تصور کیا کہ جیسے وہ بندر مانس کو جنگل کی ایک کھلی جگہ سے گذرتے
ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اس کا بدن جھک کر دوہرا ہو رہا ہے، اس کے شانے بھی
جھکے ہیں اور اس کے لمبے ہاتھ زمین کو چھو رہے ہیں۔ بھوئوں کی بھاری ابھری
ہڈی کی نیچے آنکھیں زمین پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ نہیں چاہتا تھا۔ کہ اس کی
نگاہ سے کوئی کھانے والی چیز چوک جائے۔
وہ اب بندر نہیں تھا لیکن فی الحال آدمی بھی نہیں ہوا تھا۔ ڈیوبوا نے اس
بندر مانس کا نام رکھا کیونکہ دوسرے بندروں کے مقابلے میں وہ زیادہ سیدھا
چلتا تھا۔
تم شاید یہ سمجھ لو کہ ڈیوبوا اپنی آخری منزل تک پہنچ گئے؟ آخرکار پراسرار
کو دریافت کر لیا گیا! لیکن اس کے بعد ڈیوبوا کی زندگی کے انتہائی سخت دن
اور سال آئے انہوں نے دیکھا کہ زمین کی موٹی تہوں کو کھودنا انسانی تعصبات
کی گہرائیوں کوچاک کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔
ایوگینی ڈیوبوا کی دریافت پر ہر طرف سے غصے اور مضحکے کا اظہار کیا گیا
کیونکہ بہت سے لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنا نہیںچاہتے تھے کہ انسان اور بندر
میں ماقبل تاریخ کے اجداد مشترک ہیں ۔ کلیسا اور اس کے پیروئوں کا کہنا
تھاکہ ڈیوبوا نے جو کھوپڑی پائی ہے وہ کسی گیبون لنگور کی ہے اور ران کی
ہڈی آدمی کی ہے۔ ڈیوبوا کے دشمنوں نے اسی پر اکتفا نہیں کہ وہ جاوا کے بندر
مانس کو بندر اور آدمی کا مرکب ثابت کرتے بلکہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی
کوشش کی کہ ڈھانچے کی جو ہڈیاں ڈیوبوا کو ملی ہیں وہ حال کی ہیںاور صرف چند
سال ہوئے زمین میں دفن ہوئی تھیں اور ڈیوبوا کے اس دعوے کی کوئی حقیقت
نہیں ہے کہ وہ ہزار ہا سال پرانی ہیں۔ انہوں نے کو پھر دفن کرنے، اس کو مٹی
میں پھر دبانے اور اس کو بھلانے کی کوشش کی۔
ڈیوبوا نے اپنی دریافت کی ہمت کے ساتھ تصدیق کی اور وہ سب لوگ جو سائنس کے
لئے اس کی اہمیت کو سمجھتے تھے ان کی طرف تھے۔
اپنے مخالفین سے بحث میں ڈیوبوا نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ کھوپڑی کسی طرح
بھی گیبون لنگور کی نہیں ہو سکتی اس کی پیشانی نہیں سکتی کیونہ اس کے
پیشانی نہیں ہوتی اور Pithcanthropusکے ہوتی ہے۔
زمانہ گذر گیا لیکن Pithecanthropus پھر بھی انسانی خاندان سے الگ ہی رکھ
گیا۔
اچانک سائنس دانوں نے ایک نیا بندر مانس دریافت کیا جو Pithecanthropus سے
بہت مشابہ تھا۔
بیسویںصدی کی ابتدا میں ایک یورپی سائنس داں چین کے شہر پیکنگ میں ایک دیسی
دواخانے میں پہنچ گیا۔ وہاں جو انوکھی چیزیں رکھی تھیں ان میں ژین شین کی
شفابخش جڑ، مختلف تعویذ، جانوروں کی ہڈیاں اور دانت تھے ۔ جانوروں کے
دانتوں میں اس نے ایک دانت ایسا بھی دیکھا جو وہاں بالکل بے جوڑ تھا کیونکہ
وہ کسی معروف جانور کا نہیں معلوم ہوتا تھا۔ پھر بھی اس میں انسانی دانت
کا شائبہ تھا۔
سائنس داں نے یہ دانت خرید کر یورپ کے ایک میوزیم کو بھیج دیا۔ اس کو وہاں
”چینی دانت” کا عام سا نام دے دیا گیا۔
اس کو 25 سال سے زیادہ گذر گئے۔ پھر پیکنگ کے قریب چوکوتیان کے غار میں اسی
طرح کے دو دانت اور پائے گئے اور پھر وہ بھی جس کے یہ دانت تھے۔ سائنس
دانوں نے اس کو Sinanthropus کا نام دیا۔
اس کا مکمل ڈھانچہ کبھی نہیں ملا۔ نئی دریافتوں میں تقریباً پچاس دانت، تین
کھوپڑیاں، گیارہ جبڑوں کے ٹکڑے، ران کی ہڈی کا ایک حصہ ایک ریڑھ کی ہڈی،
ایک ہنسلی، ایک کلائی اور پیر کا ایک ٹکڑا پائے گئے۔
اس کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ چوکوتیان کے غار میں بندر نما آدمیوں
کاایک بڑا گروہ رہتا تھا۔ لاکھوں سال کے دوران میں بہت سی ہڈیاں غائب ہو
گئی ہیں۔ لیکن جو ٹکڑے ملے ہیں وہ ان غار کے رہنے والوں کی تشکیل کے لئے
کافی ہیں۔ سائنس داں کو اگر ایک انگلی مل جائے تو وہ پورے جسم کو دریافت
کرلے گا۔
ہمارا یہ دوردراز زمانے کا ہیرو دیکھنے میں کیسا تھا؟
سچی بات تو یہ ہے کہ وہ ذرا بھی خوبصورت نہ تھا۔ اگر تم اس کو اچانک دیکھ
لیتے تو سہم جاتے کیونکہ اس آدمی کی چپٹی پیشانی، باہر کی طرف نکلا ہوا
لمبوترا چہرہ اور بالدار بازو تھے اوروہ اب بھی بہت کچھ بندر کی طرح تھا۔
دوسری طرف ایک منٹ یہ تصور کرنے کے بعدکہ وہ بندر تھا تم فوراً اپنا خیال
بدل دیتے کیونکہ کوئی بندر آدمی کی طرح سیدھا نہیں چلتا اور کسی بندر کا
چہرہ آدمی سے اتنا مشابہ نہیں ہے۔
اگر تم بندر نما آدمی کا تعاقب اس کے غار تک کرو تو سارے شبہات دور ہو
جائیں گے۔
وہ اپنے مڑے ہوئے پیروں پر لڑکھڑاتا دریا کے کنارے جاتا ہوا نظر آتا ہے۔
اچانک وہ بیٹھ جاتا ہے۔ اس کو ایک بڑے پتھر سے دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ
اس کو اٹھاتا ہے، غور سے دیکھتا ہے اور دوسرے پتھر پر زور سے مارتا ہے۔ اب
وہ اٹھ کر اپنی نئی دریافت کے ساتھ پھرلڑکھڑاتا ہوا روانہ ہو جاتا ہے۔ آخر
کار وہ دریا کے کنارے ایک ڈھلوان اونچائی پر پہنچتا ہے۔ وہاں ایک غار کے
دھانے پر اس قبیلہ جمع ہے۔ وہ سب ایک جھبرے، داڑھی والے بڈھے کے چاروں طرف
جمع ہیں جو اپنے پتھر کے اوزار سے ایک ہرن کو کاٹ رہا ہے۔ عورتیں کچے گوشت
کو اپنے ہاتھوں سے پھاڑ رہی ہیں۔ بچے دوڑ دوڑ کر گوشت کے ٹکڑے مانگ رہے
ہیں۔ غار کی گہرائیوں سے جلتی ہوئی آگ کی روشنی آرہی ہے۔
آخری شبہات بھی دور ہو جاتے ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا بھی بندر ہے جوآگ
جلا سکے اورپتھروں سے اوزار تیار کر سکے۔ لیکن تم پوچھ سکتے ہو کہ ہمیں
کیسے معلوم ہوا کہ بندر نما آدمی پتھروں سے اوزار بناتا تھا اور آگ کا
استعمال جانتا تھا؟
چوکوتیان کے غار نے اس سوال کا جواب دیا ہے۔ ان قدیم آدمیوں کی باقیات کا
جو ذخیرہ برآمد ہوا ہے اس میں دو ہزار سے زیادہ پتھر کے اوزار اور مٹی میں
ملی راکھ کی کوئی ساتھ میٹر دبیز پرت بھی پائی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا
کہ بندر نما آدمی اس غار میں سالہا سال تک رہے اور وہاں آگ دن رات جلتی
تھی۔ وہ آگ بنانانہیں جانتے تھے لیکن وہ اس کو بھی اسی طرح ”اکٹھا” کر لیتے
تھے۔ جیسے کھانے کے لئے جڑی بوٹیاں اور اوزاروں کے لئے پتھر جمع کرتے تھے۔
کسی جنگل میں آگ لگنے کے بعد آگ مل جاتی تھی۔ تاریخ سے قبل کا انسان کوئی
جلتا یہاں کوئلہ اٹھا لیتا اور اس کو بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی جائے رہائش
تک لے جاتا۔ یہاں غار میں بارش اور ہوا سے محفوظ وہ اس آگ کی حفاظت ایک بیش
بہا خزانے کی طرح کرتا۔
انسان قواعد کوتوڑتا ہے
ہمارے ہیرو نے ڈنڈوں اور پتھروں کا استعمال سیکھ لیا۔ اب وہ زیادہ مضبوط
اور آزاد ہو گیا۔ اب اگر قریب میں کوئی پھل یا میوے کا درخت نہ ہوتا تواس
کو پریشانی نہ ہوتی۔ وہ اپنی جائے رہائش سے غذا کی تلاش میں اور زیادہ دور
تک جاتا، جنگل ی ایک چھوٹی دنیا سے دوسری کو، زیادہ طویل وقت تک کھلے
میدانوں میں رہتا، تمام قواعد کو توڑنا اور وہ چیزیں کھاتا جواس نے پہلے
کھانے کی ہمت نہیں کی تھی۔
اس طرح انسان نے ابتدا ہی سے قوانین قدرت کو توڑنا شروع کیا۔درختوں کا باسی
اتر کر زمین پر گھومنے لگا۔ اس دو پچھلے پیروں پرکھڑے ہو کر چلنا شروع
کیا، ایسی چیزیںکھانا شرع کیں جو اس کے لئے نہیں تھیں، ایسے ذرائع سے غذا
حاصل کرنے لگا جو قدرتی نہیں تھے۔
دنیا میں تمام جانور اور پودے ایک دوسرے پر منحصر ہیںکیونکہ وہ آپس میں
”غذائی سلسلوں” کے ذریعے منسلک ہیں۔ جنگلوں میں گلہریاں صنوبر کے پھل کھاتی
ہیں اور مارٹین (Martens) گلہریوں کو کھا جاتے ہیں۔ اس طرح ایک سلسلہ ہے:
صنوبر کے پھل، گلہریاں، مارٹین۔ لیکن گلہریاں صرف صنوبر کے پھل ہی نہیں
کھاتیں۔ وہ کھمبیاں اور گری دار پھل بھی کھاتی ہیں۔ اور مارٹین ہی نہیں
دوسرے جانور اورپرندے بھی ایسے ہیں مثلاً شکرہ جو گلہری کا شکار کرتے ہیں۔
اس طرح دوسرا سلسلہ بنتا ہے: کھمبیاں اور گری دار پھل۔ گلہریاں۔ شکرہ۔ جنگل
کے سارے باسی ان سلسلوں کی کڑیاں ہیں۔
اپنی جنگل کی دنیا میںہمارا ہیرو بھی ایک ”غذائی سلسلے” کی کڑی تھا۔ وہ پھل
اور میوے کھاتا تھا اور ساتھ ہی تیز دانتوں والا چیتا اس کا شکار بھی کرتا
تھا۔
پھر ا چانک ہمارے ہیرو نے ان زنجیروں کو توڑنا شروع کر دیا۔ اس نے ایسی
چیزیں کھانا شروع کر دیں جو پہلے کبھی نہیں کھائی تھیں۔ اس نے تیز دانت
والے چیتے اور ایسے دوسرے جنگلی درندوں سے بچنا شروع کر دیا جو ہزاروں
لاکھوں سال سے اس کے اجداد کا شکار کر رہے تھے۔
وہ اتنا بہادر کیسے بن گیا؟ اس کو زمین پر اترنے کی ہمت کیسے ہوئی جہاں تیز
دانتوں والے خونخوار درندے اس کی گھات میں رہتے تھے؟ یہ توبالکل ایسا ہی
تھا جیسے کوئی چڑیا درخت سے اتر کر اس وقت زمین پر پھدکنے لگے جب بلی اس کے
انتظار میں نیچے بیٹھی ہو۔
انسان کی یہ نئی ہمت اس کے ہاتھ تھے۔ جو پتھر وہ اپنے ہاتھ میں پکڑتا تھا
اور جو لکڑی وہ جڑیں کھودنے کے لیے استعمال کرتا تھا اس کے ہتھیار تھے۔
آدمی کے اولین اوزار ہی اس کے ہتھیار بن گئے۔
پھر آدمی جنگلوں میںتنہا کبھی نہیں پھرتا تھا۔
آدمیوں کا پورا کا پورا غول اس جانور پر پل پڑتا جو ان پر حملہ کرتا اور
اپنے نئے ہتھیار سے اس کو مار بھگا تا۔
ہمیں آگ کے بارے میں بھی نہ بھولنا چاہئے۔ آگ کواپنا معاون بنا کر انسان
انتہائی خوفناک جانوروں کو بھی بھگا دیتا تھا۔
انسانی ہاتھوں کے چھوڑے ہوئے نشان
درخت سے زمین پر، جنگل سے دریائی وادیوں تک، اس طرح زمانہ تاریخ سے قبل کا
آدمی سفر کرنے لگا جب اس نے اپنی وہ زنجیر قطعی طورپر توڑ دی جس نے اس کو
درخت کا پابند کر رکھا تھا۔
ہمیں یہ کیسے معلوم ہو اکہ اس نے دریائی وادیوں کا رخ کیا؟ ایسے نشانات ہیں
جو ہم کو اس نتیجے تک پہنچاتے ہیں۔
لیکن یہ نشانات محفوظ کیسے رہ سکے؟
یہ عام قسم کے نشانات نہیں ہیں جن کو ”نشان قدم” کہتے ہیں۔ یہ انسانی
ہاتھوں کے چھوڑے ہوئے نشان ہیں۔
کوئی ایک صدی ہوئے فرانس کے دریا سرما کی وادی میں مزدور ریت اور کنکر
کھودرہے تھے۔
بہت دنوں پہلے جب یہ دریا بالکل نوخیز تھا اور اپنا راستہ زمین پر بنا رہا
تھااس وقت یہ ایسا طوفانی تھا کہ اپنے ساتھ بڑی بڑی چٹانیں بہا لاتا تھا۔
بہائو کے دوران میں چٹانیں ایک دوسرے سے ٹکراتیں اور ایک دوسرے کو گھس
دیتیں اور اس عمل میں وہ گول، چکنی اور چھوٹی ہو جاتیں۔ بعد کی منزل میں جب
دریا زیادہ پرسکون اور سست رفتار ہو گیا تو اس نے ان پتھروں کو ریت اور
مٹی کی پرت سے ڈھک دیا۔
یہی ریت اور مٹی کھود کر مزدور نیچے کے پتھر نکال رہے تھے۔ اچانک انہوں نے
ایک انوکھی بات دیکھی۔ سارے کے سارے پتھر چکنے اور گول نہیں تھے۔ ناہموار
تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دونوں طرف سے ان کو تراشا گیا ہے۔ ان کو
اس شکل کا کس نے بنایا؟ دریا سے تو ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ وہ تو پتھروں
کو چکنااور گول ہی بنا سکتا ہے۔
ان انوکھے پتھروں کو ایک مقامی سائنس داں بوشے دی پیرت نے دیکھا۔ بوشے کے
پاس ایسی دلچسپ چیزوں کا بڑا ذخیرہ تھا جو انہوں نے وادی سوما کی مٹی میں
پائی تھیں۔ ان میں قدیم فیل پیکر (Mammoth)کے بڑے بڑے دانت، گینڈے کی
سینگیں اور غار میں رہنے والے ریچھوں کی کھوپڑیاں تھیں۔ کسی زمانے میں یہ
تمام دہشت نا ک جانور اسی طرح دریائے سوما میں پانی پینے آتے تھے جس طرح آج
کل گائیں اور بھیڑیں آتی ہیں۔
لیکن زمانہ تاریخ سے قبل کا آدمی کہا تھا؟ بوشے دی پیرت کو اس کی ہڈیوں کا
کوئی نشان نہیں ملا۔
پھر انہوں نے وہ کٹے ہوئے عجیب پتھر دیکھے جو ریت میں پائے گئے تھے۔ان کو
دونوں طرف کون کاٹ سکتا تھا؟ انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ صرف انسانی ہاتھوں
کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔
آثار قدیمہ کے اس سائنس داں نے ان دریافتوں کا بڑے جوش سے جائزہ لیا۔ یہ سچ
ہے کہ یہ ماقبل تاریخ کے آدمی کی پتھرائی ہوئی باقیات نہ تھیں لیکن یہ
ایسے نشانات ضرور تھے جوا س نے چھوڑ تھے، یہ اس کی محنت کے نشانات تھے۔ اس
میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ دریا کا کام نہیں ہے بلکہ انسان کا کام ہے۔
بوشے دی پیرت نے اپنی دریافتوں کے بارے میں ایک کتاب لکھی۔ ان کی کتاب
کانام تھا ”جانداروں کی ابتدا اور ارتقا”۔
اور پھر کشمکش شروع ہو گئی۔ ان کے اوپر ہر طرف سے حملہ شروع ہو گیا جیسا کہ
بعد میں ڈیوبوا کے ساتھ ہوا تھا۔
اس زمانے کے بڑے بڑے ماہرین آثار قدیمہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ
پرانی چیزوں کا یہ صوبائی ماہر سائنس سے ذرا بھی واقف نہیں ہے، کہ اس کی
پتھر کی ”کلہاڑیاں” جعلی ہیں اور اس کتاب کو ممنوع قرار دے دینا چاہئے
کیونکہ یہ انسان کی تخلیق کے بارے میں کلیسائی تعلیم کے خلاف ہے۔
پندرہ سال تک یہ لڑائی جاری رہی۔
بوشے دی پیرت سفید بالوں والے بڈھے ہو گئے لیکن وہ اپنے نظریات کے لئے لڑتے
رہے اور نسل انسانی کی بڑی قدامت کو ثابت کرتے رہے۔ اپنی پہلی کتاب کی
اشاعت کے بعد جلد ہی انہوں نے دوسری کتابیںلکھیں۔
اگرچہ طاقتیں نابرابر تھیں پھر بھی بوشے دی پیرت کی جیت ہوئی۔ برطانیہ کے
ممتاز ترین ماہرین ارضیات چارلس لائل اور جوزیف پریست ویچ نے بوشے دی پیرت
کے نظرئے کی حمایت کی۔ دونوں وادی سوما گئے اور انہوں نے وہاں کھدائی کی
جگہ کو دیکھا۔ انہوں نے بوشے دی پیرت کے مجموعے کا گہراجائزہ لینے کے بعد
اعلان کیا کہ بوشے دی پیرت نے جو اوزار پائے ہیں وہ واقعی ماقبل تاریخ کے
آدمی کے تھے۔ یہ آدمی ان بہت بڑے بڑے ہاتھیوں اور گینڈوں کا ہم عصر تھا جو
اب فرانس اور یورپ سے معدوم ہو چکے ہیں۔
چارلس لائل نے اپنی کتاب ”انسان کی قدامت”The Antiguity of Man میں جو 1863
میں شائع ہوئی بوشے دی پیرت کے مخالفین کی تما دلیلوں کا فیصلہ کن جواب
دیا۔ تب ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ بوشے دی پیرت نے دراصل کوئی نئی
دریافت نہیں کی ہے کیونکہ ماقبل تاریخ کے اوزار ا س سے پہلے بھی کئی جگہ
دریافت کئے جا چکے ہیں۔
لائل نے اس کا بڑا کھرا جواب دیا۔ انہوںنے کہا کہ جب بھی سائنس کی کوئی اہم
دریافت ہوتی ہے، اس کو لامذہبی کہنے کے لئے آوازیں بلند ہوتی ہیں، حالانکہ
بعد کو یہی آوازیں یہ دعوی کرتی ہیں کہ یہ بات تو سبھی لوگ مدتوں سے جانتے
تھے۔
بوشے دی پیرت نے جیسے پتھر وادی سوما میں پائے تھے اب دنیا کے مختلف حصوں
میں پائے گئے ہیں۔ عام طو رپر یہ دریافتیں دریا کی ان پرانی تہوں میں ہوئی
ہیں جہاں کنکر اور پتھر وغیرہ کی کھدائی ہوتی ہے۔
اس طرح جدید دور کے آدمی اک پھائو ڑا زمین سے ماقبل تاریخ کے اوزار نکالتا
ہے جب انسان نے کام کرنا سیکھنا شروع ہی کیا تھا۔
سب سے پرانا پتھر کا اوزار وہ پتھر ہے جو دونوں طرف سے کسی دوسرے پتھر سے
کاٹا گیا تھا۔ قریب ہی میں ایسے چھوٹے پتھر ملتے ہیںجو بڑے پتھر سے کاٹے
گئے تھے۔
پتھر کے یہ اوزار انسانی ہاتھوں کے وہ نشانات ہیں جو دریائوں کی وادیوں او
رریت کے ٹیلوں تک ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ یہاں زمین کے اندر اوراتھلے پانی
میںآدمی ان چیزوں کی تلاش کرتا تھا جن سے وہ اپنے پتھریلے پنجے اور دانت
بناتا تھا۔
یہ انسان کا کام تھا۔ کوئی جانور یا پرندہ اپنی غذا کی کی تلاش کر سکتا ہے
یا اپنا گھونسا بنانے کے لئے ضروری چیزیں تلاش کر سکتا ہے۔ لیکن وہ ایسی
چیزوں کی کبھی تلاش نہیںکر سکتا جن سے اپنے لئے اضافی پنجے یا دانت بنا
سکے۔
زندہ پھائوڑا اور زندہ ٹوکری
تم نے شاید پرندوں، جانوروں اور کیڑوں وغیرہ کے تعمیری صلاحیتوںکے بارے میں
پڑھا یا سنا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کے درمیان ایسے بھی ہوتے ہیں جو
بڑھئی، پتھر کا کام کرنے والے بن کر اور حتی کہ درزی کا بھی کام کرتے تھے۔
اود بلائو کے تیز دانت درخت کو گرا سکتے ہیں۔ پھر اود بلائو گرے ہوئے
درختوں کے تنوں اور شاخوں سے سچ مچ کے بند بنا لیتے ہیں۔ ان بندوں کی وجہ
سے دریا اورکناروں کے اوپر بہہ نکلتا ہے اور ان پرسکون تالابوں کو سیراب
کرتا ہے جن سے اود بلائو بڑی محبت کرتے ہیں۔
پھر جنگل کی عام سرخ چیونٹیوں کے لیجئے جو صنوبر کی خشک سوئیوں سے اپنے
ٹیلے بناتی ہیں۔ اگر ہم چیونٹیوں کے کسی ٹیلے کو چھڑی سے توڑیں تو دیکھیں
گے کہ یہ ”فلک بوس عمارت” کسی ہوشیاری سے بنائی گئی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان اودبلائو اور چیونٹیوں کے گھر اور بند
تباہ کرنا چھوڑ دے تو کیا کبھی یہ اودبلائو اور چیونٹیاں انسان کے برابر
پہنچ سکیں گی؟ کیا اب سے دس لاکھ سال بعد چیونٹیوں کے اپنے اخبار ہوں گے،
وہ چیونٹیوں کی فیکٹریوں میں کام کریں گی، چیونٹیوں کے ہوائی جہازوں میں
اڑیں گی اور ریڈیو پر چیونٹیوں کی موسیقی سنیں گے؟ نہیں ہر گز آدمی
اورچیونٹیوں کے درمیان ایک بہت اہم فرق ہے۔ یہ فرق کیا ہے؟
کیافرق یہ ہے کہ انسان چیونٹی سے بڑا ہے؟
نہیں۔
کیا فرق یہ ہے کہ انسان کے دو پیر ہوتے ہیں اور چیونٹی کے چھ؟
نہیں۔
ہم اس سے بالکل مختلف چیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
ذرا سوچو تو انسان کیسے کام کرتا ہے۔ وہ صرف اپنے ہاتھ اور دانت نہیں
استعمال کرتا۔ وہ کلہاڑی، پھائوڑا یا ہتھوڑا استعمال کرتا ہے۔ لیکن تم چاہے
جتنی دیر تک چیونٹیوں کے ٹیلے کا جائزہ لو اس میں کوئی چیونٹیوں کی کلہاڑی
یا ہتھوڑا نظر نہ آئے گا۔
جب چیونٹی کو کوئی چیز دو حصوں میں کاٹنی ہوتی ہے تو وہ زندہ قینچی استعمال
کرتی ہے جو اس کے سر کا یک جز ہوتی ہے۔ جب اس کو کوئی گڈھا کھودنا ہوتا ہے
تو اپنے چار زندہ پھائوڑے استعمال کرتی ہے۔ یہ پھائوڑے ا س کے چھہ پیروں
میں سے چار پیر ہوتے ہیں۔ اگلے دوپیر کھودتے ہیں، پچھلے دو پیر مٹی ہٹاتے
ہیں اور بیچ والے دونوں پیروں پر چیونٹی کام کے وقت سہارا لیتی ہے۔
چیونٹیوں کے پاس زندہ ٹوکریاں بھی ہوتی ہیں۔ ان کو کبھی کبھی ”چیونٹیوں کی
گائیں” بھی کہتے ہیں۔ تاریک، نیچے تہہ خانوں میں ان ٹوکریوں کی قطاروں کی
قطاریں برآمدے کی چھت سے ٹنگی رہتی ہیں۔ یہ ٹوکریاں بے حس و حرکت ہوتی ہیں۔
اچانک کوئی مزدور چیونٹی تہہ خانے میں آتی ہے۔ اس کی مونچھیں ٹوکری کو کئی
بار چھوتی ہیں اور وہ زندہ ہو کر حرکت کرنے لگتی ہے۔ تب ہم دیکھتے ہیں کہ
اس ٹوکری کے سر، پیٹ اور پیر ہیں اور دراصل یہ چیونٹی کا بہت پھولا ہوا پیٹ
ہے جوا س کو ٹوکری کی شکل دے دیتا ہے۔ ٹوکری کے جبڑے کھل جاتے ہیں اور اس
کے لب پررس کا ایک قطرہ آجاتا ہے اور مزدور چیونٹی جو کچھ کھانے آئی تھی
اس کو چاٹ لیتی ہے اور پھر کام پر چلی جاتی ہے اور ”گائے چیونٹی” چھت کے
نیچے پھر سو جاتی ہے۔
یہ ہمیں چیونٹی کے ”زندہ” اوزار۔ یہ ہمارے اوزاروں کی طرح مصنوعی نہیں،
قدرتی اوزار ہوتے ہیں جن کو چیونٹی اپنے سے کبھی جدا نہیں کر سکتی۔
اودبلائوکے اوزار بھی اس کے جسم کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس کے پاس پیڑ کاٹنے کے
لئے کلہاڑی تو نہیں ہوتی۔ وہ اپنے دانت استعمال کرتا ہے۔ چیونٹیاں اور
اودبلائو اپنے اوزار نہیں بناتے۔ وہ تو ان کے ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں۔
سرسری نظر سے ایسے اوزار قابل رشک ہیں جو تمہارے جسم کا حصہ ہوں کیونکہ ان
کے کھونے کا کوئی اندیشہ نہیںہوتا۔لیکن سوچنے پر یہ معلوم ہوگا کہ یہ اوزار
دراصل زیادہ اچھے نہیںہیں۔ ان کو نہ تو بحال کیا جا سکتا ہے اور نہ بدلا
جا سکتا ہے۔
اودبلائو اپنے دانت کسی چھری وچاقو تیز کرنے والے کے پاس نہیں لے جا سکتا
جب وہ کبرسنی کی وجہ سے کند ہو جاتے ہیں۔ اور چیونٹی کسی ایسے اچھے پائو
ںکا آرڈر نہیں دے سکتی جو زیادہ گہرا اور تیز کھود سکتا ہو۔
اگرانسان کے ہاتھ کے بجائے پھائوڑا ہوتا؟
آئو تھوڑی دیر کے لئے مان لیں کہ آدمی کے پاس دوسرے جانوروں کی طرح صرف
”زندہ” اوزار ہیں اوروہ لکڑی لوہے یا فولاد کے اوزار نہیں رکھتا۔
نہ تو وہ کوئی نیا اوزار بناسکتا ہے اور نہ پرانا تبدیل کر سکتا ہے جو اس
کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا۔ اگر اس کے پاس کوئی پھائوڑا ہونا ضروری ہے تو وہ
پھائوڑے جیسے ہاتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم محض یہ فرض کر رہے
ہیں کیونکہ حقیقت میں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن مان لو کہ ایسی عجیب
مخلوق کا وجود تھا۔ وہ بہت اچھا کھودنے والا ہونے پر بھی کسی اور کو کھودنا
نہیں سکھا سکتا جیسے کوئی بہت اچھی بصارت رکھنے والا اپنی نگاہ کسی دوسرے
کو نہیں دے سکتا۔
ایسی مخلوق کو اپنا پھائوڑا نما ہاتھ ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا پڑتا لیکن یہ
ہاتھ اور کسی طرح کاکام نہ کر سکتا اورجب یہ مخلوق مر جاتی تو پھائوڑا نما
ہاتھ بھی ختم ہو جاتا۔یہ پیدائشی کھودنے والا اپنا پھائوڑا صرف اپنی آئندہ
نسلوں کو منتقل کر سکتا بشرطیکہ اس کے پوتے اور پرپوتے اس کے پھائوڑے نما
ہاتھ کو ترکے میں پاتے۔
بہر حال یہ قطعی بات نہیں ہے۔ ”زندہ” اوزار اسی وقت آئندہ نسلوں کا زندہ
حصہ بنتا ہے جب وہ ان کے لئے مفید ہو، نقصان دہ نہ ہو۔
اگرلوگ زمین کے اندروالے جانوروں کی طرح رہتے ہوتے تو ان کو پھائوڑے نما
ہاتھ کی ضرورت ہوتی۔
لیکن ایسا ہاتھ ایک ایسی ہستی کے لئے غیر ضروری چیز ہے جو زمین کے اوپر
رہتی ہو۔
زندہ اور قدرتی اوزار کی تخلیق کے لئے بعض شرائط ضروری ہیں بہتر حال خوشی
کی بات یہ ہے کہ انسان نے اپنے ارتقا کے دوران میں دوسرا راستہ اختیار کیا۔
اس نے قدرت کا انتظار نہیںکیا کہ وہ اس کو پھائوڑا نما ہاتھ دے ۔ اس نے
خود پھائوڑا بنا لیا۔ اور صرف پھائوڑا ہی نہیں بلکہ چاقو، کلہاڑی اور بہت
سے دوسرے اوزار بھی۔
دو ہاتھوں اور دو پائوں کی بیس انگلیوں اور 32دانتوں میں جو اس کو اجداد سے
وراثت میں ملے تھے اس نے طرح طرح کے ہزاروں لمبی اور چھوٹی، پتل اور موٹی،
تیز اورکند، برمانے، کاٹنے اور مارنے والی انگلیوں، دانتوں، پنجوں اور
مکوں کا اضافہ کیا۔
اور اسی لئے وہ حیوانات کی باقی دنیا سے دوڑ میں اتنا آگے ہو گیا کہ اب اس
کو پکڑنا دوسروں کے لئے بالکل ناممکن ہو گیا ہے۔
ماہر انسان اور ماہر دریا
جب ابتدائی دور کا آدمی رفتہ رفتہ انسان بن رہا تھا تو وہ پتھر کے پنجے اور
دانت نہیں بناتاتھا۔ بلکہ ان کو اسی طرح جمع کرتا تھا جیسے ہم کھمبیاں یا
گوندنیاں اکٹھا کرتے ہیں۔ اتھلے دریا میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے وہ ان تیز
دھاروالے پتھروں کی تلاش کرتا جو قدرت نے اس کے لئے تیز کئے اور چمکائے
تھے۔
یہ قدرتی تیز پتھر ایسی جگہوں پر عام طو رسے پائے جاتے تھے جہاں بھنور کسی
زمانے میں دریا کی تہہ کی چٹانوں کو متھ کر اوپر لاتا تھا اور ان کو ادھر
ادھر پھینکتا تھا۔ بڑی بڑی چٹانیں اس طرح ایک دوسرے سے زوروں میں ٹکراتی
تھیں۔ دریا جو بھنور میں بہت زوروں سے کام کرتا تھا اپنی محنت کے نتائج کی
زیادہ پروا نہیںکرتا تھا اور اسی وجہ سے ان سیکڑوں پتھروں میں سے جن پر
قدرت اپنی محنت لگاتی تھی چند ہی انسان کے استعمال کے قابل ہوتے تھے۔
رفتہ رفتہ آدمی نے اپنی ضرورت کے مطابق پتھروں کو شکل وصورت دینا شروع کیا
اور پتھروں کے پہلے اوزار بنائے۔
جو کچھ اس وقت ہوا اس کا اعادہ انسان کی تاریخ میں متعدد بار ہوا۔ انسان نے
قدرتی چیزوں کی جگہ اپنی بنائی ہوئی مصنوعی چیزیں لانا شروع کیں۔ انسان نے
قدرت کے وسیع ورکشاپ کے ایک کونے میں اپنا ورکشاپ قائم کیا اور وہاں نئی
چیزیں بنانا شروع کیں، ایسی چیزیں جوا س کو قدرتی طورپر نہیں ملیں۔
یہ ہے پتھروں کے اوزاروں کی کہانی اور ہزاروں سال بعد دھات کی بھی یہی
کہانی ہے۔ صاف دھات استعمال کرنے کی بجائے جس کا ملنا بہت مشکل تھا آدمی نے
کچ دھات پگھلا کر دھات حاصل کرنی شروع کی۔ اور ہر مرتبہ جب وہ کوئی چیز
ایسی چیز سے بنانے میں کامیاب ہوتا جو اس کو پڑی ملتی تو وہ آزادی کی طرف،
قدرت کی سخت حکومت سے اپنی آزادی کی طرف ایک قدم اور اٹھاتا۔
پہلے پہل تو آدمی وہ چیزیں نہیں پیدا کر سکتا تھا جو اس کے اوزاروںکے لئے
ضروری تھیں۔ لیکن جو چیزیں اس کو ملتیں ان کو اپنی ضروریات کے مطابق نئی
شکل دینے کی کوشش کرتا۔ اس طرح اگر اس کو کوئی اچھا پتھر مل جاتا تو وہ
دوسرے پتھر سے اس کے کنارے کاٹ کر اوزار بنانے کی کوشش کرتا۔
اس طرح ایک بھاری اوزار تیار ہوجاتا جس کا ایک سرا تیز ہوتا۔ اس کو کلہاڑی
کہا جاسکتا ہے۔ اس پتھر سے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے بھی کام آجاتے۔ ان سے کاٹنے،
چھیلنے اور تراشنے کا کام لیا جاتا۔
ماقبل تاریخ کے جوانتہائی قدیم اوزار پائے گئے ہیں وہ قدرتی پتھروں سے اتنے
ملتے جلتے ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان پر کس نے کام کیا ہے۔ آدمی نے یا
دریا نے، یا صرف درجہ حرارت کی تبدیلی کا اثر ہے، گرمی یا سردی کا جو بارش
اور پانی کے ساتھ مل کرپتھروں کو توڑ دیتی ہیں۔
بہر حال ایسے بھی اوزار ہیں جن کے متعلق کوئی شک وشبہ نہیں۔ قدیم دریائوں
کے بہائو کے اتھلے حصے اورکناروں کے اندر سے جو اب مٹی اور ریت کی موٹی
تہوں میں دفن ہیںسائنس دانوں نے ماقبل تاریخ کے آدمی کے سچ مچ کے ورکشاپ
کھودکر نکالے ہیں۔ ان کھدائیوں میں پوری کی پوری کلہاڑیاں اور ایسی چٹانیں
ملی ہیںجن کی کلہاڑیاں بنائی جانے والی تھیں۔
سویت یونین میںیہ کلہاڑیاں جنوبی علاقے میں ملی ہیں، سوخومی کے قریب ساحلوں
پر اورکرائمیا میں کیئک کوباغار میں۔
اگرہم پتھر کی کسی تیار کلہاڑی کابغورجائزہ لیںتوہمیںصاف پتہ چل جائے گا کہ
آدمی نے اس دھار کو تیز کرنے کے لئے کہاں چوٹ لگا کر کاٹنے کی کوشش کی۔
ہم اس کو چکنا کرنے کی نشانات بھی دیکھ سکتے ہیں۔
قدرت یہ کام نہیںکر سکتی تھی۔ صرف انسان ہی کر سکتا تھا۔ یہ بات سمجھنا
مشکل نہیںہے کیونکہ قدرت میں ہر چیز اٹکل پچو ہوتی ہے۔ اس کا کوئی منصوبہ
یا مقصد نہیںہوتا۔ مثلاً بلا سمجھے بوجھے، کسی مقصد کے بغیر دریا کا بھنور
پتھروں کو ٹکراتا رہتا ہے۔ آدمی بھی یہی کرتا ہے لیکن باشعورطریقے پر۔ وہ
جو کچھ کرتا ہے اس کا سبب ہوتا ہے ۔ اس حقیر ابتدا سے کہ جو پتھر اس کو ملا
اسے وہ اپنی ضرورت کے مطابق بنائے آدمی نے رفتہ رفتہ قدرت کو بھی اپنی
ضروریات کے مطابق بدلنا اور نئی شکل دینا شروع کیا۔
اس بات نے آدمی کو دوسرے جانوروں سے ایک درجہ اور بلند کیا، اس نے اس کو
اور آزادی دی کیونکہ اب وہ اس کا منتظر نہیںرہا کہ قدرت اس کو ایک تیز
دھاروالاپتھر عطاکرے۔
اب وہ خود اپنے اوزار بنا سکتا تھا۔
انسان کی سوانح کی ابتدا
عموماً کسی شخص کی سوانح حیات کی ابتداپیدائش کی تاریخ اور جگہ سے ہوتی ہے۔
مثلاً ”ایوان ایوانوف 23نومبر 1897کوشہر تامبوف میںپیدا ہوئے”۔
یہ ا طلاع ذرا زیادہ پر تکلف انداز میں یوں بھی دی جا سکتی ہے ”نومبر
1897کو بارش والا دن تھا جب ایوان ایوانوف،جنہوں نے بڑے ہوکر اپنے خاندان
اور اپنے شہر کے نام روشن کئے، تامبوف کے مضافات میں ایک چھوٹے سے گھر میں
پیدا ہوئے۔”
لیکن یہاں تو ہم اپنی کتاب کے تیسرے باب تک پہنچ چکے ہیں اور ابھی تک ہم نے
اس کا ذکر ہی کیاکہ ہمارا ہیرو کہاں اورکب پیدا ہوا تھا۔ دراصل، ہم نے آپ
کو اس کا ٹھیک نام تک نہیں بتایا۔ ایک جگہ ہم اس کو ”بندر مانس” کہتے ہیں
تو دوسری جگہ ”قدیم آدمی” اور تیسری جگہ ”ہمارے جنگلی جد” کہتے ہیں۔
ہم اپنی صفائی میں کچھ باتیں کہنے کی کوشش کریں گے۔
اگر ہم چاہیں بھی تو آپ کو اپنے ہیرو کا ٹھیک نام نہیں بتا سکتے کیونکہ اس
کے بہت سے نام ہیں۔
اگر آپ کسی سوانح عمری کو پڑھیں توآپ دیکھیں گے کہ کتاب میں شروع سے آخر تک
ہیرو کانام ایک ہی رہتا ہے، کبھی بدلتا نہیں۔ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے، پھر
لڑکا، پھر داڑھی مونچھوں والا آدمی۔ لیکن اس کا نام وہی رہتا ہے جو ابتدا
میں تھا۔ اگر اس کا نام ایوان رکھا گیا ہے تو آخر دم تک اس کا نام ایوان ہی
رہے گا۔
لیکن ہمارے ہیرو کے معاملے میں باتیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔
چونکہ وہ خود ایک باب سے دوسرے تک کافی بدلتا رہتا ہے اس لئے ہم بھی اس
تبدیلی کے مطابق اس کا نام بدلنے پر مجبور ہیں۔
اگرہم ماقبل تاریخ کے بہت ہی قدیم آدمی کاذکر کرتے ہیں جو تب تک بندر سے
بہت زیادہ مشابہہ تھا تو اس کو Pithecanthropus, اور Heidelberg کا آدمی
کہتے ہیں۔
ھائڈلبرگ کے آدمی کا صرف ایک حصہ رہ گیا ہے۔ وہ اس کا جبڑا ہے جو جرمنی میں
شہر ہائڈ لبرگ کے قریب ملا ہے۔
بہر حال یہ جبڑا اس کا کافی ثبوت فراہم کرتا ہے۔کہ اس کا مالک آدمی تھا۔ یہ
دانت انسانی دانت ہیں اور بندر کی طرح اوپر کے لمبے اور تیز دانت نیچے کے
دانتوں کے اوپر نہیں نکلے ہوئے ہیں۔
Pithecanthropus, Sinanthropus, Heidelberg man!
زندگی کے ایک ہی دور میں، ارتقا کی ایک ہی منزل میں ہمارے ہیرو کے یہ تین
لمبے چوڑے نام ہیں۔
لیکن ہمارے ہیرو میں تبدیلیاں ہوئیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ جدید انسان بنتا
گیا۔ جس طرح ایک بچہ، لڑکا بنتا ہے اور پھر نوجوان، اسی طرح ماقبل تاریخ کا
آدمی Neanderthal بن گیا اورپھر neanderthal آدمی cro-magnon آدمی ہو گیا۔
تو دیکھو نا! ہمارے ہیرو کے ابھی کئی اور نام ہیں!
لیکن ہمیں عجلت نہ کرنا چاہئے۔ اس باب میں اس کو Pithecanthropus
Heidilberg man, Sinanthropusکہا گیاہے۔
وہ دریائوں کے کنارے گھومتا رہتا تھااور اپنے اوزار بنانے والی چیزوںکی
تلاش کرتا تھا۔ وہ بڑے صبر و تحمل کے ساتھ پتھر کاٹتا تھااور اپنی بھونڈی
اور بھاری کلہاڑی بناتا تھا جس کو سائنس داں اب بھی قدیم دریائوں کی تہوں
میں دفن پاتے ہیں۔
اسی لئے اس کا نام بتانا بہت ہی مشکل ہے۔
اور اس سے زیادہ یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ کب پیدا ہوا تھا۔ ہم یہ نہیں کہہ
سکتے کہ ”ہمارا ہیرو اس سن میں پیدا ہوا تھا”۔ کیونکہ آدمی ایک سال میں
توآدمی نہیں بنا۔ اس کو لاکھوں سال چلنا اور اپنے بھونڈے اور اوزار بنانا
سیکھنے میںلگ گئے۔ اس لئے اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ انسان کی عمر کیا ہے تو
ہم صرف یہی جواب دے سکتے ہیں کہ تقریباً دس لاکھ سال۔
اور یہ بتانا بہت ہی مشکل ہے کہ آدمی کہاں پیدا ہوا تھا۔
ہم نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے ہیرو کی جدہ کہاں رہتی تھیں، وہ
قدیم بندر جدہ جن کی نسل میں آدمی، چمپانزی اور گوریلا شامل ہیں۔ سائنس
دانوں نے اس بندر کو dryopithecus کا نام دیا ہے اور جب ہم نے اس کا پتہ
ڈھونڈ ھنا شروع کیا تو ہمیں پتہ چلا کہ dryopitecus تو بہت سے تھے۔ بعض
نشانات ہمیں وسط یورپ لے گئے، کچھ مشرقی افریقہ اورکچ جنوبی ایشیا۔
معلومات رکھنے والے لوگوں نے ہمیںبتایا کہ جنوبی افریقہ میں بہت سی دلچسپ
دریافتیں ہوئی ہیں۔ ایسے بندروں کی باقیات وہاں پائی گئی ہیں جو اپنے پچھلے
پیروں پر چلنا جانتے تھے اور جنگلوں میں نہیں رہتے تھے بلکہ ان کی رہائش
کھلے میں تھی۔
تب ہم کو یاد آیا کہ Sinanthropus اور Pithecanthropus کی باقیات ایشیا میں
دریافت کی گئی ہیں اور ھائڈلبرگ آدمی کا جبڑا یورپ میں۔ تو پھر آدمی کی
جائے پیدائش کہا ہے؟ اور ہمیں اس کا احساس ہوا کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے
کہ آدمی کس براعظم یا ملک میں پیدا ہوا تھا۔
ہم نے سوچا کہ ہمیں ہر اس جگہ کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہئے جہاں پتھر کے
اوزار پائے گئے ہیں۔ بہر حال آدمی اسی وقت سچے معنی میں انسان بنا جب اس نے
اپنے اوزار بنانا شروع کئے۔ شاید ان اوزاروں کی جگہ ہمیں یہ فیصلہ کرنے
میں مدد دے سکے کہ آدمی کا ظہور کہاں ہوا۔
ہم نے دنیا کا ایک نقشہ لیا او رہر اس جگہ پر نشان لگا دیا جہاں پتھر کی
کلہاڑیاں ملی تھیں۔ جلد ہی نقشے پر نشانات پھیل گئے۔ ان میں سے زیادہ تر
یورپ میں تھے لیکن افریقہ اور ایشیا میںبھی کچھ تھے۔
اب جواب واضح تھا: آدمی کا ظہور پہلے پرانی دنیامیں، بہت سی مختلف جگہوں پر
ہوا،کسی واحد جگہ پر نہیں۔
اور غالباً یہی ہوا کیونکہ ہم ایک لمحے کے لئے بھی یہ تصور نہیں کر سکتے کہ
پوری نسل انسانی بندروں کے ایک جوڑے سے مثلاً ”آدم بندر” اور ”حوابندر” سے
پیدا ہوئی۔ بندر سے آدمی میں یہ تبدیلی بندروں کے کسی ایک غول کے اندر یا
کسی واحد علاقے تک محدود نہ تھی۔ یہ بہت سے علاقوں میں ایک ہی زمانے میں
ہوئی، ہر ایسی جگہ جہاں ایسے بندر تھے جنہوں نے دو پیروں پر چلنا اور کام
کے لئے اپنے ہاتھ استعمال کرنا سیکھ لیا تھا اور جیسے ہی انہوں نے کام کرنا
شروع کیا ایک نئی طاقت وجود میں آئی، ایسی طاقت جس نے آخر کار ان بندروں
کو آدمیوں میں تبدیل کر دیا۔ یہ طاقت انسانی محنت کی طاقت تھی۔
آدمی نے وقت کا تعین کیا
ہر ایک جانتا ہے کہ خام لوہااور کوئلہ کانوں سے کیسے نکالا جاتا ہے اور آگ
کیسے بنائی جاتی ہے۔ لیکن وقت کیسے بنایا گیا؟
حالانکہ آدمی نے مدتوں ہوئے وقت بنانا سیکھا تھالیکن بہت کم لوگ اس سوال کا
جواب جانتے ہیں۔ جب آدمی نے پہلے پہل اوزار بنانا شروع کئے تو اس کی زندگی
واقعی نئی مصروفیت سے بھر گئی او ریہ واقعی انسانی مصروفیت تھی۔ یہ تھی
محنت۔ لیکن محنت میں وقت لگتا تھا۔ پتھر سے اوزار بنانے کے لئے آدمی کو
اچھا پتھر ڈھونڈھنا پڑتا تھا کیونکہ ہر ایک پتھر کی کلہاڑی نہیں بنائی جا
سکتی تھی۔
اوزار کے لئے سب سے اچھا پتھر وہ تھا جو بھاری اور سخت ہوتا تھا۔ لیکن وہ
ہر جگہ تو نہیں ملتا تھا۔ اسے تلاش کرنا پڑتا تھا ۔ آدمی کو اس کی تلاش میں
بڑا وقت لگانا پڑتا تھا اور اکثر اس کی تلاش بے سود ہوتی ہوتی تھی۔ تب اس
کو کم سخت پتھر کا یا ریت اور چونے کے پتھروں کا جو زیادہ نرم ہوتے استعمال
کرنا پڑتا تھا۔
جب اس کو ٹھیک پتھر مل جاتا تو اس کو ضروری شکل دینے کے لئے دوسرے پتھر سے
کاٹ کر بنانا پڑتا جس کوچوٹ لگانے والا کہتے تھے۔ اس میں وقت لگتا تھا۔
آدمی کی انگلیاں اتنی تیز اور ہنرمند نہیں تھیں جتنی اب ہیں۔ وہ تو ابھی
کام کرنا سیکھ رہی تھیں۔ اسی لئے اس کو اپنی بھونڈی کلہاڑیاں بنانے میں
اتنا وقت لگتا تھا۔ جتنا آج کل فولادی کلہاڑیاں بنانے میں نہیں لگتا۔
لیکن اس کام میں جووقت لگتا تھا وہ کہاں سے آئے؟
ماقبل تاریخ کے آدمی کے پاس فاضل وقت بہت کم تھا۔ وہ آج کے انتہائی مصروف
آدمی سے بھی کم وقت رکھتا تھا۔ صبح سے شام تک وہ جنگلوں میں گھوم کر غذا
جمع کرتا تھا، اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے۔ کوئی کبھی کھانے والی چیز
سیدھی اس کے منہ میں جاتی تھی۔ سونے کے علاوہ سارا وقت غذا جمع کرنے اور
کھانے میں لگ جاتا تھا۔ کیونکہ ماقبل تاریخ کے آدمی کوجو غذا ملتی تھی وہ
کافی مقوی نہیں ہوتی تھی اور اس کو بہت زیادہ غذا کی ضرورت تھی۔
ذرا سوچو توکہ اس کو کتنا کھانا پڑتا ہو گا کیونکہ اس کے کھانے میں
گوندنیاں، اخروٹ، گھونگے، چوہے، نئی کونپلیں، جڑیں، کیڑے مکوڑوں کے انڈے
اوراسی قسم کی چیزیں ہوتی تھیں۔
آدمیوں کے گلے جنگلوں میںان ہرنوں کے گلوں کی طرح چرتے تھے جو ایک جگہ سے
دوسری جگہ گھاس چرتے اور کائی چباتے ہوئے جاتے رہتے ہیں۔ تو پھر ہو کام کب
کرتا؟
اور پھر اس نے دریافت کیا کہ کام کی ایک حیرت انگیز خوبی یہ ہے کہ کام صرف
اس کا وقت لیتاہی نہیں بلکہ اس کو وقت دیتابھی ہے۔
دراصل اگر تم کوئی کام چار گھنٹے میں کرو جو دوسرا آٹھ گھنٹے میں کرتا ہے
توتم نے چار گھنٹے بچالئے۔ اگر تم نے ایسا اوزار ایجاد کرلیا جو اس سے دگنی
تیزی سے کام کرتاہے جتنا پہلے تم کرتے تھے تو تم نے اپنا آدھا وقت بچا
لیا۔
ماقبل تاریخ کے آدمی نے یہ دریافت کی۔
اس کو ایک پتھر تیز کرنے میں بہت سے گھنٹے لگتے تھے لیکن پھر وہ تیز اوزار
کو درخت کی چھال کے اندر سے کیڑوں کے انڈے کھوجنے کے لئے استعمال کر سکتا
تھا۔
کسی لکڑی کو پتھر سے تیز کرنے میں کافی وقت لگتا تھالیکن اس تیز لکڑی سے
مزید ار جڑیں کھودنا یا کسی چھوٹے جانور کو مارنا کہیں زیادہ آسان ہوتا
تھا۔
اس طرح ماقبل تاریخ کے آدمی کے لئے اپنے اور اپنے بچوں کی خاطر غذا جمع
کرنا زیادہ آسان ہو گیا۔ اب وہ اس کو زیادہ تیزی سے اکٹھا کرنے لگا اور اس
کو کام کے لئے زیادہ وقت ملنے لگا۔ اپنے فاضل وقت میں وہ اوزار بناتا، ان
کو زیادہ تیز اور بہتر کرتا۔ لیکن چونکہ ہر نئے اوزار کا مطلب زیادہ غذا
ہوتا اس لئے بالآخر اس سے زیادہ وقت بھی بچتا۔
شکار نے انسان کو سب سے زیادہ فاضل مہیا کیا کیونکہ گوشت بہت مقوی تھا۔
آدھہ گھنٹہ گوشت کھانے سے آدمی دن بھر کے لئے شکم سیر ہو جاتا۔ لیکن ابتدا
میں اس کے پاس بہت کم گوشت تھا۔ کسی لکڑی یا پتھر سے بڑے جانور کو مارنا
مشکل تھا اور چوھے وغیرہ میں زیادہ گوشت نہیںہوتا ہے۔
آدمی ابھی پوری طرح شکاری نہیں بنا تھا۔ وہ جمع کرنے والا تھا۔
جمع کرنے والا آدمی
ہمارے زمانے میں کچھ جمع کرنا آسان ہے۔ تم نے جنگل میں گوندنیاں اور
کھمبیاں اکٹھا کی ہوں گی۔ کائی سے کسی بادامی چھتری والی کھمبی کو جھانکتے
ہوئے پانا یا گھاس میں سرخ ٹوپی والی کھمبی کو دیکھنا کتنا دلچسپ ہوتا ہے۔
کائی کی گہرائی میں ہاتھ ڈال کر کھمبی کے مضبوط تنے کو پکڑ کر احتیاط کے
ساتھ اوپر کھینچنے میں کتنا مزا آتا ہے!
لیکن ایک لمحے کے لئے یہ سوچو کہ اگر کھمبیاں یا گوندنیاں جمع کرنا تمہارا
خاص پیشہ ہوتاتوکیا تو ہمیشہ اچھی طرح کھا سکتے؟ جب تم کھمبیاں جمع کرنے
جاتے ہو تو کبھی کبھی تمہاری ٹوکری لبالب بھری ہوتی ہے اور باقی کھمبیاں
ٹوپی میں ہوتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے۔ کہ تم جنگل میں سارا دن
گھوم کر ایک یا دو کھمبی اپنی ٹوکری میں ڈالے لوٹتے ہو۔
جب ہماری ایک دس سالہ دوست کھمبیاں جمع کرنے روانہ ہوتی تو وہ زوروں کے
ساتھ کہتی:
”مجھے سیکڑوں اچھی کھمبیاں ملیں گی!”
لیکن زیادہ تر وہ گھر خالی لوٹتی۔ وہ بھوکوں مر جاتی اگر گھر میںکھمبیوں کے
علاوہ اورکچھ کھانے کو نہ ہوتا۔
جمع کرنے والے، ماقبل تاریخ کے آدمی کیلئے زندگی اس سے بھی کہیں زیادہ سخت
تھی۔ وہ بھوکوں محض اس لئے نہیں مرتا تھا کیونکہ وہ جو کچھ بھی پاتا تھا
کھا لیتا تھا اورکھانے کی تلاش میں اپنے دن گزارتا تھا۔ حالانکہ وہ ا پنے
ان اجداد سے زیادہ مضبوط اورآزاد ہو گیا تھا جو درختوں پر رہتے تھے پھر بھی
اس کی حالت زیادہ اچھی نہ تھی۔ دراصل وہ نیم بھوکی مخلوق تھا۔
اسی دوران میں ایک زبردست آفت دنیا کے چہرے کو بدلنے والی تھی۔
آفت قریب ہوتی جاتی ہے
پتہ نہیںکیوں شمالی برفانی ٹوپیاں ٹوٹ کر جنوب کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ برف
کے بڑے بڑے دریا پہاڑوں اور میدانوں کے اوپر بہنے لگے۔ وہ ڈھلانوں اور
پہاڑی چوٹیوں کو کاٹ دیتے، چٹانوں کو توڑ کر پیس ڈالتے اور ٹوٹی ہوئی
چٹانوں کے پہاڑ کے پہاڑ اپنے ساتھ لے جاتے۔ گلیشیروں کے آگے پگھلتی ہوئی
برف طوفانی دریائوں کو جنم دیتی جو زمین میں گہری خندقیں کھود کر اپنے لئے
بہائو کا راستہ بنالیتے۔
شمال سے برف فاتحوں کی ایک بڑی فوج کی طرح بڑھ رہی تھی۔ اس کے ساتھ پہاڑوں
کی بلندیوں اور گھاٹیوں کے گلیشیر بھی مل جاتے تھے۔
سوویت یونین اور پڑوسی ملکوں کے میدانوں میں جو بڑی بڑی چٹانیں پائی جاتی
ہیں ان میں برف بڑھنے کے نشانات ملتے ہیں۔ کبھی کبھی کر یلیا کے صنوبر کے
گھنے جنگلوں میں تم کو اچانک کائی سے ڈھکی ہوئی کوئی چٹان نظر آجائے گی۔ یہ
وہاں کیسے پہنچی؟ گلیشیر اس کو چھوڑ گیا۔
شمالی کے گلیشیر پہلے بھی جنوب کی طرف منتقل ہوئے تھے لیکن وہ اتنی دور
جنوب تک کبھی نہیں پہنچے تھے۔ روس میں گلیشیر اس جگہ تک پہنچ گئے تھے جہاں
اب شہر اولگا گراد اور دنیپر وپیترو فسک واقع ہیں۔ مغربی یورپ میں وہ جرمنی
کے پہاڑی علاقے تک در آئے اور پورے جزائر برطانیہ کو ڈھک لیا۔ شمالی
امریکہ میں وہ گریٹ لیکس کے آگے تک چلے گئے۔
گلیشیر سست رفتاری سے آگے بڑھتے تھے اور ان کو اپنی سردی وہاں تک پہنچانے
میں کافی عرصہ لگا جہاں ماقبل تاریخ کا انسان رہتا تھا۔ لیکن سمندری
مخلوقات نے ان کی سرد ہوائوں کو سب سے پہلے محسوس کیا۔
سمندری ساحلوں پر اب بھی گرمی تھی۔ جنگلوں میں گوم خطے کے درخت تھے۔ زبردست
قد وقامت والے جنوبی ہاتھی اور گینڈے میدانوں کی لمبی لمبی گھاس میںپھرتے
تھے۔ لیکن سمندر کا پانی اور ٹھنڈا ہوتا جاتا تھا۔ دھارے جو سمندر میں اس
طرح بہتے تھے جیسے دریا زمین پر بہتا ہے گلیشیر کی سردی شمال سے لے جاتے
تھے اور کبھی کبھی برف کی بڑی چٹانیں بھی۔
ساحل سمندر کی پرتیں ہمیں یہ کہانی بتاتی ہیں کہ کسی طرح گرم سمندر ٹھنڈے
سمندر بن گئے۔ ایسے زمانے میں جب کہ کشکی پر گرمی پسند کرنے والے جانور اور
پودے موجود تھے سمندر کی آبادی میں تبدیلی ہو رہی تھی۔ اگر ہم اس زمانے کے
ارضیاتی ذخیروں کا مطالعہ کریں تو ہمیں گھونگھوں کے خول ملیں گے جو صرف
ٹھنڈے ہی پانی میں رہ سکتے تھے۔
جنگلوں کی جنگ
گلیشیروں کی آمد سے زمین بھی متاثر ہونے لگی۔
اور اس میں کوئی حیرت کی بات بھی نہیں تھی کیونکہ آرکٹک اپنی جگہ سے ہٹ گیا
تھا اور آہستہ آہستہ جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے ٹنڈرا اور شمال کے
جنگلوں میں انتشار پیدا کر دیا اور ان کو جنوب کی طرف ڈھکیل دیا۔
ٹنڈرا تائے گا پر علانیہ دھاوا بول دیا۔ تائیگا کو پیچھے ھٹنا پڑا اور اس
طرح پتے والے جنگل بھی پیچھے ہٹے۔
اب بھی جنگلوں میں آپس میں جنگ ہوتی رہتی ہے۔ صنوبر اور چنار لرزاں (asp)
ایک دوسرے کے سخت دشمن ہیں۔ چنار لرزاں کو سائے سے نفرت ہے اور صنوبر کو اس
کی کوئی پروا نہیں۔
اگر تم صنوبر کے کسی جنگل میں چنار لرزاں دیکھو تو وہ تم کو پتلی پتلی
شاخوں سے زیادہ بڑے نہیں ملیں گے کیونکہ سایہ دار صنوبر کے درختوں نے انہیں
پنپنے نہیں دیا ہے۔ لیکن جب لکڑہارے صنوبر کے درخت کاٹ دیتے ہیں تو ان
چناروں میں کھلی دھوپ کی وجہ سے نئی جان پڑ جاتی ہے اور وہ بڑھنے لگتے ہیں۔
پھر سب کچھ بدلنے لگتا ہے۔ سائے سے محبت کرنے والی کائی جو صنوبر کے درختوں
کے نیچے اگی تھی مرجھا کر مرنے لگتی ہے۔ صنوبر کے وہ درخت جو چھوٹے تھے او
رکاٹے نہیں جا سکتے تھے صبح کے پالے سے بیمار سے لگنے لگتے ہیں۔ جب بڑے
صنوبر کے درخت جو ان چھوٹے پیڑوں کی مائوں کی طرح تھے زندہ تھے تو یہ ان کے
ہرے بھرے چھتنارے سائے میں تندرست محسوس کرتے تھے۔لیکن جب وہ کھلے میں
تنہا رہ گئے تو بیمار لگنے لگے اور ان کی نشونما بند ہو گئی۔
اب لرزاں چناروں کی جیت ہو گئی۔ پہلے تو ان کو سورج کی رہی کرنیں ملتی تھیں
جو ان کے دشمن صنوبر کے درخت کے شاخوں سے ہو کر نیچے آجاتی تھیں۔ اب صنوبر
کاٹ ڈالے گے تو چنار ہی جنگل کے راجہ ہو گئے۔
چند سال بعد جہاں صنوبر کا ایک گھنا سیاہ جنگل تھا اب وہاں چنار کا روشن
جنگل نظر آنے لگتا ہے۔
لیکن وقت تو آگے بڑھتا رہتا ہے اور وقت بڑا کام کوجو ہے۔ رفتہ رفتہ وہ اس
طرح جنگلی لرزاں اونچے ہوتے جاتے ہیں، ان کی جھاڑی دار چوٹیاں ایک دوسرے کے
قریب آتی جاتی ہیں۔ اب ان کے تنوں پر سایہ جو پہلے کم اور تھوڑی دیر کے
لئے ہوتا تھا زیادہ گھنا اور تاریک ہوتا جاتا ہے۔ چناروں نے صنوبروں سے
لڑائی جیت لی تھی لیکن یہ جیت ہی ان کی موت کا باعث بن گئی۔
کسی آدمی کی موت اپنے سائے سے نہیں ہوتی لیکن یہ بات اکثر درخت کی زندگی
میں نظر آتی ہے۔ چھتنار چنار لرزاں کے درختوں کے نیچے گری ہوئی پتیوں کی
ایک پرت بنتی ہے جس کی وجہ سے زمین ہمیشہ گرم رہتی ہے۔ وہ صنوبر کے چھوٹے
درختوں کی جاڑوں کی کونچی کو ڈھکے رہتی ہے۔ وقت آنے پر ان ننھے دشمنوں میں
پھر جان پڑ جاتی ہے۔ بیس سال میں صنوبر کے درختوں کی چوٹیاں بھی چنار لرزاں
کی چوٹیوں کے برابر پہنچ جاتی ہیں۔ اب جنگل رنگ برنگا اور ملا جلا نظر آنے
لگا۔ چنار لرزاں کاہلکا سبز رنگ صنوبر کی گہری سبز رنگ کی چوٹیوں میں ملا
جلا نظر آنے لگا صنوبر کے درخت اونچے ہوتے گئے اور وقت آنے پر ان کی گھنی
سبز سوئیاں چنار لرزاں پر سایہ ڈالنے لگیں۔
چنار لرزاں کے خاتمے کے دن آگئے۔ وہ صنوبرکے سائے میں مر جھانے اور مرنے
لگے۔ اب صنوبر جنگل کے راجہ بن گئے۔ انہوں نے اپنی پچھلی طاقت واپس حاصل کر
لی۔
اس طرح جنگلوں کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے جب کہ آدمی اور اس کی کلہاڑی ان
کی زندگی مداخلت کرتی ہے۔
لیکن جنگلوں کی جنگ تب اس سے بھی زیادہ گھمسان تھی جب برفانی دور کی سردی
ان کی زندگی میں در آئی۔
سردی نے گرمی پسند کرنے والے پیڑوں کو ختم کر دیا اور شمالی جنگلوں کے لئے
راستہ ہموار کر دیا۔ صنوبروں اور بھوجوں نے بلوط اور لائم کے درختوں کے
خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ بلوطوں اور لائموں کو پسپا ہونا پڑا اورایسا کرنے
میں انہوں نے آخری سدا بہار درختوں مثلاًلارل، میگنولیا اور انجیر کے
درختوں کو بالکل ختم کر دیا۔
نازک اور گرمی پسند کرنے والے درخت ایسی کھلی جگہوں پرنہیں زندہ رہ سکے
جہاں اور انھوںنے فاتحوں کو جگہ دے دی۔ صرف پہاڑوں میں ان کو پناہ ملی۔
وہاں ہر محفوظ وادی میں گرمی پسند کرنے والے درختوں نے اپنے کو چھپا لیا۔
لیکن پھر دوسرے گلیشیر پہاڑی کی چوٹیوں سے نیچے کی طرف بہہ نکلے اور پہاڑی
صنوبروں اور بھوجوں کو اپنے ساتھ لے گئے جو ان کے سامنے پڑے۔
جنگلوں کی یہ جنگ ہزارھا تک چلتی رہی اور گرمی پسند کرنے والے درختوں کی
آخری شکست خوردہ فوج جنوب کی طرف زیادہ سے زیادہ پسپا ہوتی گئی۔
لیکن جب فاتحوں کے خلاف جدوجہد میں یہ جنگل تباہ ہوئے تو ان جنگلوں میں
رہنے والے جانوروں کا کیا حشر ہوا؟
موجودہ زمانے میں جب کوئی جنگل آتش زدگی سے تباہ ہو جاتاہے یا کاٹ ڈالا
جاتا ہے تو اس کے کچھ رہنے والے اس کے ساتھ ہی مرجاتے ہیں اور دوسرے اس سے
کسی نہ کسی طرح بھاگ نکلے ہیں۔ جب صنوبر کا کوئی جنگل کاٹا جاتا ہے توا س
کی پرندوں کی آبادی غائب ہو جاتی ہے۔
سایہ دار صنوبر کے جنگل کی جگہ چنار لرزاں کا ایک نیا جنگل پیدا ہو جاتا
ہے۔ اس نئے جنگل میں دوسری چڑیاں اور دوسرے جانور اپنے گھر بناتے ہیں۔
جب بہت برسوں بعد صنوبر کے درخت پھر چنار لرزاں کے درختوں کو شکست دیتے ہیں
تو صنوبر کا نیا جنگل خالی نہیں ہوتا۔ اس میں پھر پرانے پرندے بس جاتے
ہیں۔
تو جنگل مرجاتا ہے اور پھر جنم لیتا ہے، پودوں اورجانوروں کے ایک انوکھے
مجموعے کی حیثیت سے نہیںبلکہ ایک متحد اور آپس میں بہت ہی گہرے رشتوں سے
مربوط دنیا کی حیثیت سے۔
یہی صورت برفانی دور میں بھی ہوئی۔ جب گرم خطے کے جنگل غائب ہوئے تو ان کے
باسی جانور بھی غائب ہو گئے۔ فیل پیکر غائب ہو گئے۔ گینڈے اور دریائی گھوڑے
جنوب کی طرف چلے گئے اور ماقبل تاریخ کے آدمی کا انتہائی زبردست دشمن تیز
دانتوں والا چیتا بھی آخر کار مر گیا۔
چھوٹے جانوروں اور پرندوں کی بڑی تعداد یا تو مر گئی یاجنوب کی طرف بھاگ
گئی۔ اس کے سوا اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ ہر جانور اپنی چھوٹی سی دنیا
سے منسلک ہے، اپنے جنگل سے۔ جب یہ جنگلی دنیا تباہ ہونے لگی تو اس کے بہت
سے باسی بھی تباہ ہو گئے۔
جب درخت، جھاڑیاں اور اونچی اونچی گھاسیں سوکھ گئیں تو وہ جانور جو ان کے
اندر چھپتے تھے اور ان سے غذا حاصل کرتے تھے غذا اور پناہ سے محروم ہو گئے۔
لیکن جب گھاس کھانے والے یہ پرامن جانور مر گئے تو وہ گوشت خور درندے بھی
جو ان کو کھاتے تھے بھوکوں مرگئے۔
”غذا کے سلسلوں” کی کڑیوں میں منسلک جانور اور پودے اپنے جنگل کی تباہی پر
خود بھی تباہ ہو گئے۔
یہ اسی طرح تھا جیسے قدیم زمانے میں جہازوں کے چلانے والے غلام بھی اپنے
جہازوں کے ساتھ ڈوب جاتے تھے کیونکہ وہ پتواروں سے زنجیروں کے ذریعے بندھے
ہوتے تھے۔
کسی نہ کسی طرح زندہ رہنے کے لئے جانور کو اپنی زنجیریں توڑنا ہوتی تھیں۔
وہ اپنی عادت سے مختلف غذا کھانا شروع کر دیتا، اس کو اپنے پنجے ا ور دانت
بدلنے پڑتے اور سردی سے بچنے کے لئے اسے لمبے لمبے بال یا سمور پیدا کرنے
ہوتے۔
ہم جانتے ہیں کہ کسی جانور کیلئے بدلنا کتنا مشکل ہے۔ گھوڑے کی تاریخ یاد
کرو۔ اس کو کتنے لاکھ سال ایساجانور بننے میں لگے جس کا ایک انگوٹھا کھر کی
شکل میں ہے۔
کسی جنوبی جانور کے لئے شمالی جنگل میں زندہ رہنا بہت مشکل تھا۔
یہی مصیبت کیا کم تھی اور اس میں اضافہ یہ ہوا کہ شمالی جنگلوں کے بالوں
والے باسی بھی جنوب کی طرف آنے لگے۔ یہ تھے اون والے گینڈے، قدیم زمانے کے
میموتھ، غار والے شیر اور ریچھ۔ یہ سب کے سب شمالی جنگلوں کے عادی تھے۔
ان کی موٹی، بالدار کھال ان کا سب سے بڑا خزنہ تھی۔ میموتھ اور اون والے
گینڈے جاڑے سے نہیں ڈرتے تھے۔ ان ے پاس گرم اور بالدار کوٹ تھے اور وہ ننگی
کھال والے جنوبی ہاتھیوں، گینڈوں اور دریائی گھوڑوں سے بالکل مختلف تھے۔
بعض شمالی جانوروں نے سردی سے بچنے کا ایک اور راستہ نکالا۔ وہ غاروں میں
رہنے لگے۔ شمالی جانوروں کو نے جنگل میں غذا کی کھوج میں مشکل نہیں ہوتی
تھی کیونکہ یہ ان کا اپنا جنگل، اپنی دنیا تھی۔
شکست خوردہ جنگلوں کے جانوروں کو اب شمالی جنگلوں کے نئے راجائوں سے مورچہ
لینا پڑا۔
اب غالباً تم کو حیرت نہ رہی ہو گی کہ ان میں سے اتنے کم کیون بچے۔ لیکن
ماقبل تاریخ کے آدمی کاکیا حشر ہوا؟
لیکن ماقبل تاریخ کے کے آدمی کا کیا حشر ہوا؟
ظاہر ہے کہ وہ بچ گیا کیونکہ اگر وہ بھی تباہ ہو گیا ہوتا تو تم کو یہ کتاب
پڑھنے کا موقع نہ ملتا۔
جو لوگ گرم ملکوں میں رہتے تھے ان کو سردی کے خلاف جان کی بازی لگا کر لڑنا
نہیں پڑا حالانکہ وہاں کی آ ب وہوا بھی کچھ سرد ہو گئی۔
ان آدمیوں کے لئے حالات بہت ہی خراب تھے جن کو بڑھتے ہوئے گلیشیروں کی دہشت
کا سامنا کرنا پڑا۔
ہر سال ایک نیا جاڑا آتا جو اور زیادہ سخت ہوتا۔ وہ کانپتے اور ٹھٹھر جاتے۔
وہ اپنے اوراپنے بچوں کو گرم رکھنے کے لئے ایک دوسرے سے جٹ کر بیٹھ جاتے۔
بھوک ، شدید سردی اور جنگلی جانور ان کو بالکل ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
اگریہ ابتدائی آدمی یہ سمجھ سکتے کہ ان کے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے تو
غالباً وہ یہی طے کرتے کہ دنیا کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔
دنیا کا خاتمہ
دنیا کے خاتمے کی پیش گوئیاں بارھا کی جاچکی ہیں۔
ازمنہ وسطی میں جب کوئی شہاب ثاقب اپنی شعلہ دم پھیلاتا آسمان کے پار جاتا
ہوا دکھائی دیتا تو لوگ اپنے اوپر صلیب مقدس کا نشان بنا کر کہتے:
”دنیاکا خاتمہ قریب ہے۔”
جب شدید طاعون کی بیماری پھیلتی جس کو لوگ ”سیاہ موت” کہتے تھے اور جو پورے
پورے گائوں اور شہروں کے لوگوں کو ختم کر کے قبرستانوں کو بھر دیتی تھی تب
بھی لوگ کہتے تھے:
”دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔”
جنگ اور قحط کے کٹھن زمانوں میں بھی وہمی لوگ سہم کر کہتے تھے:
”دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔”
بہر حال دنیا ختم نہیںہوئی۔
اب ہم جانتے ہیں کہ آسمان پر کسی شہاب ثاقب کا ظہور کوئی مافوق الفطرت
علامت نہیں ہے۔ شہاب ثاقب سورج کے گرد اپنے راستے پر چلتا رہتا ہے اور وہ
اس کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا کہ زمین پر وہمی لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے
ہیں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قحط اور بیماریوں اور حتی کہ جنگوں کا بھی یہ مطلب
نہیں ہے کہ دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔ کسی آفت کا سبب جاننا سب سے آہم بات ہے۔
اگر تم کو اس کا سبب معلوم ہو تو آفت پر قابو پانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
بہر نوع صرف جاہل او بیوقوف لوگ ہی دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی نہیں کرتے۔
ایسے سائنس داں بھی ہیں جو دنیا اور بنی نوع انسان کے خاتمے کے پیش گوئی
کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ بنی نوع انسان آخر میں ایند ھن کی کمی
سے تباہ ہو جائے گی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ کوئلے کے ذخیرے برابر کم ہوتے جا
رہے ہیں، جنگل بھی چھدرے ہو رہے ہیں اور غالباً اتنا تیل نہ ہو گا کہ
وہآئندہ چند صدیوں تک کام دے سکے۔ جب دنیا میں ایندھن نہ رہ جائے گا تو
فیکٹریوں میں مشینیں رک جائیں گی، ٹرینیں نہ چل سکیں گی، سڑکوں پر اور
گھروں میں روشنی نہ رہے گی۔ ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ
سردی اور بھوک سے مر جائیں گے اور جو بچ رہیں گے وہ پھر جنگلی اور وحشی ہو
جائیں گے۔
یہ یقینا بہت ہی خراب مستقبل ہے!
زمین کے ایندھن کے ذخیرے بہت ہی زبردست ہیں۔ کوئلے اور تیل کے نئے نئے
ذخیرے دریافت کئے جا رہے ہیں اور دریافت کئے جائیں گئے۔ جنگل صرف کاٹے ہی
نہیں جاتے بلکہ ہر سال نئے لگائے بھی جاتے ہیں۔لیکن اگر کسی دن ایندھن کے
یہ ذخیرے ختم بھی ہو جائیں تو کیا اس دنیاکا واقعی خاتمہ ہو جائے گا؟ نہیں،
ایسا نہیں ہوگا۔
کیونکہ دنیا میں ایندھن ہی روشنی اور حرارت کا وسیلہ نہیں ہے۔ حرارت کا سب
سے بڑا مخزن سورج ہے۔ ہمیں اس میں کوئی شک نہ ہونا چاہئے کہ اس وقت تک جب
کہ ہمارے ایندھن کے ذخیرے ختم ہوں گے سائنس داں رات کو سڑکوں پر اور گھروں
میں روشنی کے لئے، ٹرینیں اور مشینیں چلانے کے لئے حتی کہ کھانا پکانے کے
لئے سورج کی گرمی کے استعمال کا طریقہ معلوم کر لیں گے۔ شمسی حرارت سے چلنے
والے پہلے تجرباتی بجلی گھر اور شمسی حرارت سے کام کرنے والے پہلے باورچی
خانے وجود میں آچکے ہیں۔
”اچھا،ا یک منٹ رکئے!” وہ لوگ کہتے ہیںجن کودنیا کے خاتمے کی عجلت ہے۔ ”بہر
حال سورج بھی ایک دن ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ وہ اتنا گرم اور روشن نہیں ہے جتنے
کہ بعض نئے ستارے ہیں۔ کروڑوں سال گزرنے پر سورج کی حرارت کم ہو جائے گی
او را س سے زمین پر زیادہ ٹھنڈک ہو جائے گی۔
”بڑے بڑے گلیشیر انسان کی کمزور عمارتوں کو دنیا سے مٹا دیں گے۔ قطبی ریچھ
منطقہ حارہ میں گھومیں گے۔ لوگ بالکل نہیں بچیں گے۔”
اس میں شک نہیں کہ اگر کوئی نیا برفانی دور شروع ہوا تو زندگی بہت ہی
خوفناک ہو جائے گی۔ لیکن زمانہ تاریخ سے قبل کا آدمی بھی کسی نہ کسی طرح اس
برف سے بچ گیا تھا۔ ہم ایسی بات کیوں سوچیںکہ مستقبل کے لوگ جب کہ سائنس
آج سے کہیں زیادہ ترقی پر ہو گی، برف میںتباہ ہو جائیں گے؟
ہم یہ تک پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ وہ سردی پر قابو پانے کے لئے کیا کریں
گے۔ وہ سورج کی حرارت کے علاوہ ایٹمی حرارت استعمال کریں گے۔
اور مادے کے نواتوں میں ایٹمی توانائی کی جو مقدار ہے وہ کبھی ختم نہ ہوگی۔
صرف سوال یہ ہے کہ اس کو حاصل کیا جائے۔
بہرحال اب ہمیں مستقبل بعید کو چھوڑ کر ماضی بعید یعنی ماقبل تاریخ کے آدمی
کی طرف واپس جانا چاہئے۔
دنیا کی ابتدا
اگر آدمی ان زنجیروں کو نہ توڑدیتا جن سے وہ اپنے جنگل کاپابند ہوتا تھا
توجنگلی دنیا کی موت کے ساتھ آدمی کا بھی خاتمہ ہوجاتا۔
لیکن دنیا ختم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ صرف تبدیل ہو رہی تھی۔ پرانی دنیا
کاخاتمہ ہو رہا تھا اور نئی کی ابتدا۔ اس نئی دنیا میں، تبدیل شدہ دنیا میں
اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے آدمی کو بھی بدلنا تھا۔جس غذا کا وہ عادی
تھا وہ غائب ہو چکی، اس کو نئی غذا کی تلاش کرنا سیکھنا تھا۔ صنوبر او رچیڑ
کے پھل اس کے دانتوں کے لئے بہت سخت تھے۔ وہ جنوبی جنگلوں کے نرم اور رس
دار پھلوں کی طرح بالکل نہیں تھے۔
گرم دن ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سورج زمین کو فراموش کر
بیٹھا ہے اور لوگوں کو اس کی گرم روشنی کے بغیر زندگی بسر کرنا سیکھنا
تھا۔
ان کو تیزی کے ساتھ بدلنا تھا۔
تمام جانداروں میں صرف ماقبل تاریخ کے آدمی ہی میں تیزی کے ساتھ بدلنے کی
صلاحیت تھی۔ اس نے اپنے کو اس طرح تبدیل کرنا سیکھ لیا تھا جیسا کہ کوئی
اور جانور نہیں کر سکتا تھا۔
آدمی کا سب سے بڑا دشمن، تیز دانتوں والا چیتا، یک دم لمبے بالوں والا اونی
کوٹ نہیں پیدا کر سکا لیکن آدمی نے ایسا کر لیا۔ اس کے لئے اسے صرف ریچھ
کو مار کر اس کی کھال نکالنی پڑی۔
تیز دانتوں والا چیتا آگ نہیں بنا سکتا تھا لیکن آدمی ایسا کر سکتا تھا۔ اس
نے آگ کا استعمال جان لیا تھا۔ ماقبل تاریخ کا آدمی اپنے کو اور کچھ حد تک
قدرت کو تبدیل کرنے کے لئے کافی آگے بڑھ چکا تھا۔
اور حالانکہ اس بات کو ہزارہا سال گزر چکے ہیں ہم دیکھ سکتے کہ ماقبل تاریخ
کے آدمی نے قدرت میں کیا تبدیلیاں کیں او روہ خود کیسا بدل گیا۔
پتھر کے صفحات کی کتاب
ہمارے قدموں کے نیچے کی زمین ایک ضخیم کتاب کی طرح ہے۔
زمین کی اوپری سطح کی ایک ایک پرت، تہوں کی ہر ایک پرت کسی کتاب کے صفحہ کی
طرح ہے۔
ہم ان صفحوں کے اوپر اور سب سے آخری صفحے پر رہتے ہیں۔ سب سے پہلے صفحے
سمندروں کی تہہ میں ہیں۔ وہ سمندر کی تہہ کی گہرائیوں اور براعظموں کی
بنیادوں کے اندر گہرائیوں اور براعظموں کی بنیادوں کے اندر ہیں۔
جدید انسان ابھی تک ان صفحات تک نہیں پہنچا ہے،کتاب کے پہلے ابواب تک۔ ابھی
تک ہم صرف یہ قیاس ہی کر سکے ہیں کہ ان میں کیا لکھا ہو گا۔
لیکن اوپر کے حصے سے صفحات جتنے قریب ہیں اتنا ہی ہمارے لئے کتاب کا پڑھنا
آسان ہے۔ بعض صفحات جو لاوا کے گرم دھاروں سے جھلس کر بدشکل ہو گئے ہیں۔
ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح زمین کی سطح کے اوپر پہاڑی سلسلوں کی محراب تھی۔
دوسرے صفحات ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح زمین کی اوپری سطح ابھری اور پھر
بیٹھ گئی، اس نے سمندروں کو پھیلایا اور پھر ان کو پرانے ساحلوں پرواپس
لائی۔
ایسی پرتیں بھی ہیں چو سمندری گھونگھوں کی طرح سفید ہیں اور انہیں سے بنی
بھی ہیں۔ ا س کتاب میں کوئلے کی طرح کالے صفحات بھی ہیں۔ اور وہ سچ مچ
کوئلے سے بنے ہیں اور ہم کوان زبردست جنگلوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو کسی
زمانے میں ہماری زمین پرتھے۔
یہاں وہاں کسی کتاب کی تصویر کی طرح ہمیں کسی پتے کے چھاپے یا جانوروں کے
ڈھانچے ملتے ہیں جو ایسی جھاڑیوں میں رہتے تھے جو بعد کو کوئلے میں تبدیل
ہو گئیں۔
اس طرح صفحہ بصفحہ ہم زمین کی تاریخ پڑھ سکتے ہیں۔ صرف سب سے آخری صفوں پر،
کتاب میں سب سے اوپر ہمیں آخر کار نیا ہیرو یعنی آدمی ملتا ہے۔ ابتدا میں
یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ آدمی اس بڑی کتاب کا مرکزی کردار نہیںہے
کیونکہ وہ ماقبل تاریخ کے فیل پیکر اورگینڈے کے سامنے بہت چھوٹا معلوم ہوتا
ہے لیکن جوں جوں ہم آگے پڑھتے جاتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ نیاہیرو زیادہ
باہمت ہوتا جاتا ہے اور اول مقام پر آتا جاتا ہے۔
اور پھر وقت آتا ہے جب آدمی صرف اس بڑی کتاب کا مرکزی کردار ہی نہیں رہتا
بلکہ اس کے مصنفوں میں سے ہو جاتا ہے۔
دریائی پرتوں میں ، برفانی دور کی تہوں کے درمیان ایک واضح سیاہ خط ملتا
ہے۔ یہ خط لکڑی کے کوئلے نے بنایا ہے۔ بھلا ریت اورمٹی کے درمیان کوئلے کی
یہ پرت اچانک کیسے نمودار ہوئی؟ شاید اس کی وجہ جنگل کی آگ تھی؟
لیکن جنگل کی آگ ایک بڑے علاقے میں جلی ہوئی لکڑی چھوڑ جاتی ہے اورکوئلے کی
یہ لائن بہت مختصر ہے۔ صرف ایک کیمپ فائر ہی سے کوئلے کی یہ مختصر لائن بن
سکتی ہے۔ اور صرف انسان ہی الائو جلا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ الائو کے قریب ہی ہمیں انسان ہاتھ کے کام کے دوسرے نشانات بھی
ملتے ہیںیعنی پتھر کے اوزار اور شکار کئے ہوئے جانوروں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں۔
آگ اور شکار یہ تھیں دو چیزیں جنہوں نے برفانی دھاوے سے ماقبل تاریخ کے
آدمی کو بچا لیا۔
آدمی جنگل چھوڑتا ہے
زمانہ تاریخ سے قبل کے آدمی کو شدید موسم والے شمالی جنگلوں میں غذا بہت
مشکل سے ملتی تھی۔ اس لئے اس نے جنگلوں میں ایسے شکار کی تلاش شروع کی
جوایک جگہ پڑا نہیںرہتا، اس منتظر نہیں رہتا کہ کوئی اس کو اٹھائے بلکہ
بھاگتا، چھپتا اورمدافعت بھی کرتا ہے۔
گرم ملکوں تک میںبھی آدمی نے دن بدن زیادہ گوشت کھانا شروع کر دیا۔ گوشت
زیادہ شکم سیر تھا، آدمی کو زیادہ طاقتور بناتا تھا اور اس کو کام کے لئے
زیادہ وقت دیتا تھا۔ آدمی کے نشوونما پاتے ہوئے دماغ کے لئے بھی زیادہ مقوی
غذا کی ضرورت تھی۔
آدمی کے اوزار جتنے بہتر ہوتے گئے شکار اتناہی اہم ہوتا گیا۔ شمال میں تو
شکار کے بغیر زندہ رہنا ناممکن تھا۔
اب آدمی چوھے جیسے چھوٹے جانوروں سے اپنی بھوک نہیں مٹا سکتا تھا، اس کو
بڑے شکار کی ضرورت تھی۔ برفانی طوفان اور اندھیاں اور شدید پالا شمالی
جنگلوں میں شکار کو مشکل بنا دیتے تھے اور اس کا مطلب یہ تھاکہ آدمی گوشت
کا ذخیرہ کرے۔
ماقبل تاریخ کا آدمی کیسے جانور شکار کرتا تھا؟
اس زمانے میں جنگلوں میں بڑے بڑے جانور ہوتے تھے جو ہر جنگل کے کھلے حصوں
میں چرتے تھے۔ جنگلی سور جنگلوں میں زمین کھود کر غذا تلاش کرتے تھے۔ لیکن
میدانوں میں بڑے جانوروں کی تعداد جنگلوں سے کہیں زیادہ تھی۔ بڑے بڑے کھلے
میدانوں میں جھبرے بالوں والے وحشی گھوڑوں کے غول کے غول چرتے تھے۔ کوھانوں
والے جانور ارنا بھینسے کے گلے دھاڑتے ہوئے اس تیز رفتاری سے گزر جاتے تھے
کہ زمین کانپ جاتی تھی۔ بڑے بڑے بالوں والے عظیم الجثہ جانور میموتھ چلتے
پھرتے پہاڑوں کی طرح نکل جاتے تھے۔
جہاں تک آدمی کا سوال تھا یہ سب اس کے لئے متحرک اور فرار ہو جانے والے
گوشت کی طرح تھا جو اس کو پیچھا کرنے کا لالچ دلاتا تھا۔
اس طرح شکار کی تلاش میں ماقبل تاریخ کے آدمی نے جنگل چھوڑا۔ آدمی رفتہ
رفتہ میدانوں میں آگے پھیلتا گیا۔ ہم کوان کے الائوں اور شکاری کیمپوں کی
جگہیں جنگلوں سے دور ایسے مقامات پر ملتی ہیںجہاں یہ ذخیرہ کرنے والے نہ
پہلے کبھی رہتے تھے اور نہ رہ سکتے تھے۔
الفاظ کو ٹھیک سے پڑھنا چاہئے
شکار کئے ہوئے جانوروں کی ہڈیاں ماقبل تاریخ کے آدمی کے پڑائوں کے قریب
پائی جاسکتی ہیں۔ ان میں گھوڑے کی زردی مائل ہڈیاں، بیلوں کی سینگ دار
کھوپڑیاں اور جنگلی سوروں کے ٹیڑے دانت ملتے ہیں۔ کبھی کبھی ہڈیوں کے بڑے
برے ڈھیر بھی ملتے ہیںجس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اس ایک جگہ پر کافی
مدت تک رہا تھا۔
یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ ارنا بھینسوں، جنگلی سوروں اور گھوڑوں کی ہڈیوں کے
درمیان کبھی کبھی میموتھ کی دیو قامت ہڈیاں بھی ملتی ہیں: بڑی بڑی
کھوپڑیاں، بڑے ٹیڑھے ہاتھی جیسے دانت، تیز کترنے والے دانت اور جسموں سے
کاٹی ہوئی ٹانگوں کی ہڈیاں وغیرہ۔
واقعی ایسے دیوزاد کو مارنے کے لئے بڑی طاقت اور ہمت کی ضرورت تھی! لیکن اس
سے زیادہ طاقت اس کے جسم کے ٹکڑے کاٹنے اور ان کو پڑائو تک گھسیٹ کر لے
جانے میں پڑتی تھی۔ ایک ایک ٹانگ کا وزن ایک ٹن کے برابر ہوتا تھا اور
کھوپڑی اتنی بڑی ہوتی تھی کہ پورا آدمی اس کے اندر آسانی سے کھڑا ہو سکتا
تھا۔
آج کے شکاریوں تک کے لئے جو ہاتھیوں کے شکار کی خاص رائفلوں سے مسلح ہوتے
ہیں قدیم میموتھ کو مارنا آسان نہ ہوتا۔ لیکن ماقبل تاریخ کے آدمی کے پاس
تو رائفل نہ تھی۔ اس کے پاس بس پتھر کا کوئی چاقو یا پتھریلی نوک کا کوئی
بھالا ہوتا تھا۔
ہزارہا سال کے دوران میں ان پتھروں کے اوزاروں میں تبدیلی ہوئی ہے۔ وہ
زیادہ بہتر اور نوع بنوع ہو گئے ہیں آدمی پتھر کا چاقو یا تیر اس طرح بناتا
تھا ۔ پہلے وہ پتھر کی اوپری سطح کاٹ لیتا تھا، پھر ناہموار حصے برابر
کرتا تھا اور اس کو ٹکڑوں میںکاٹ لیتا تھا۔ ان ٹکڑوں سے وہ ضرورت کے مطابق
کاٹ کرنے والے اوزار بناتا تھا۔
چقماق پتھر جیسی نا مناسب اور سخت چیز سے چاقو بنانا بڑی مہارت کی بات تھی۔
اسی لئے ماقبل تاریخ کا آدمی اپنا پتھر کا اواز استعمال کرنے کے بعد
پھینکتا نہیں تھا بلکہ اس کی قدر کرتا تھا اور جب وہ کند پڑ جاتا تھا تو اس
کو تیز کر لیتا تھا۔ آدمی اپنے اوزاروں کو بہت عزیر رکھتا تھا کیونکہ وہ
اپنی محنت اور وقت کی قدر کرتا تھا۔
بہر حال وہ چاہے جتنی بھی کوشش کرتا اس کا پتھر تو پتھر ہی تھا۔ اس کا پتھر
کی نوک والا بھالاکسی میموتھ سے سامنا ہونے پر بیکار ہو جاتا تھا۔ جانور
کی موٹی کھال اسے اسی طرح محفوظ رکھتی تھی جیسے فولاد کی چادر ٹینک کو
محفوظ رکھتی ہے۔
پھر بھی ماقبل تاریخ کا آدمی میموتھ کو مارتا تھا۔ اس کا ثبوت ہمیں میموتھ
کی ان کھوپڑیوں اور بڑے دانتوں سے ملتا ہے جو مختلف پڑائوں پر ملے ہیں۔
آدمی میموتھ کا شکار کیسے کرتا تھا؟ یہ صرف وہ سمجھ سکتا ہے جو لفظ ” آدمی”
کو سمجھ سکتا ہے، جو کہتا ہے ”آدمی” اور سوچتا ہے ”لوگوں” کے بارے میں۔
ایک آدمی اکیلا نہیں بلکہ لوگ اپنی متحدہ کوششوں سے اوزار بنانا، شکار
کھیلنا، آگ جلانا، پناہ گاہیں بنانا اور زمین گوڑنا جوتنا سیکھتے تھے۔ صرف
تنہا آدمی نے نہیں بلکہ پوری انسانی سوسائٹی نے کووڑوں کی محنت کے ذریعے
کلچر او سائنس کی تخلیق کی ہے۔
اکیلا آدمی تن تنہا ہمیشہ جنگلی جانور ہی رہتا لیکن انسانی سوسائٹی کے اندر
کام نے جانور کو آدمی بنادیا۔
ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں ماقبل تاریخ کے شکار کو قدیم زمانے کے روبنسن
کروسو کی طرح دکھایا گیا ہے جو استقلال کے ساتھ محنت کرتا رہا یہاں تک کہ
وہ بری ترقی کی منزل تک پہنچ گیا۔
لیکن اگر ماقبل تاریخ کا آدمی واقعی ایسا ہی گوشہ نشین ہوتا اور اگر پہلے
آدمی بڑے بڑے غولوں کی صورت میں نہیں بلکہ صرف خاندانوں میں رہتے تو وہ
کبھی ”لوگ” نہ بنتے اور نہ کوئی مشترک تہذیب پیدا کرسکتے۔
اور روبنسن کروسو کا بھی انجام ویسا نہ تھا جیسا ڈینیل ڈیفو نے پیش کیا ہے۔
ڈیفو کی کتاب کی بنیاد ایک ملاح کی سچی کہانی ہے جس نے اپنے جہاز پر بغاوت
اکسائی تھی۔ اس کو سمندر کے بیچوں بیچ ایک جزیرے میں چھوڑ دیا گیا تھا
تاکہ وہ موت کا شکار ہو جائے۔بہت برسوں بعد کچھ بحری مسافر اس جزیرے پر آئے
اور انہوں نے دیکھا کہ یہ آدمی بالکل جنگلی ہو گیا ہے۔ بڈھا ملاح بات چیت
کرنا بالکل بھول گیا تھا اور وہ انسان سے زیادہ جنگلی جانور معلوم ہوتا
تھا۔
اگر موجودہ دور کا آدمی تنہائی میں آسانی سے آدمی نہیں رہ سکتا تو بھلا
ماقبل تاریخ کے لوگوں کے بارے میں سوچو!
ان کو صرف یہی ایک چیز آدمی بناتی تھی کہ وہ ایک ساتھ رہتے تھے، ایک ساتھ
شکار کھیلتے تھے اور اپنے اوزار ساتھ مل کر بناتے تھے۔
آدمیوں کا پورا غول کسی عظیم الجثہ قدیم جانور کی گھات لگا کر شکار کرنے
میں حصہ لیتا تھا۔اس کے پہلوئوں پر ایک نہیں بلکہ درجنوں بھالے پڑتے تھے۔
انسانی غول ا س جانور کا اس طرح پیچھا کرتا تھا جیسے یہ غول خود کوئی بہت
سے پیروں اور بازوئوں والا جانور ہو۔ صرف درجنوں ہاتھ ہی نہیں بلکہ درجنوں
دماغ بھی ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔
حالانکہ میموتھ آدمیوں سے کہیں زیادہ بڑا اور طاقتور ہوتا تھا پھر بھی آدمی
زیادہ ہو شیار تھے۔
میموتھ تو اتنا بڑا ہوتا تھا کہ وہ آسانی سے آدمی کو روند کر ختم کر سکتا
تھا لیکن ماقبل تاریخ کے آدمی نے میموتھ کا زبردست وزن ا س کے خلاف استعمال
کیا اور اس دیو پیکر کو مغلوب کر لیا جس کے قدموں تلے زمین کانپتی تھی۔
میموتھ کو گھیرنے کے بعد شکاری چاروں طرف کی خشک جھاڑیوں کو آگ لگا دیتے
تھے۔ جانور شعلوں سے بہت ہی دشت زدہ ہو جاتا تھا۔ اس کی جھبری کھال سلگنے
اور دھواں دینے لگتی تھی اور وہ بھاگ نکلتا تھا اور آگ اس کا پیچھا کرتی
تھی، اس کو سیدھا کسی دلدل کی طرف لے جاتی تھی جیسا کہ شکاری ہو شیاری سے
منصوبہ بناتے تھے۔وہاں وہ اس طرح مٹی اور کیچڑ میں دھنس جاتا جیسے پتھر کا
مکان دلدل میں دھنس جاتا ہے۔ وہ دلدل سے نکلنے کے لئے پیر مارتا لیکن اس سے
وہ اور گہرا دھنس جاتا۔
اس وقت شکاری ا س کو مارنے کے لئے گھیر لیتے۔کسی میموتھ کو پھنساکر مارنا
آسان نہ تھا۔ لیکن اس کوپڑائو تک گھسیٹ کرلے جانا اس سے بھی مشکل تھا جو
عموماً دریا کے اونچے اور خشک کنارے پر ہوتا تھا کیونکہ دریا لوگوں کو پینے
کا پانی مہیا کرتاتھا اور اتھلے پانی اور کناروں پر پتھر ملتا تھاجو ان کے
اوزاروں کے لئے خاص سامان تھا۔ اب اس کا مطلب یہ تھا کہ میمو تھ کو دلدل
کے نشیب سے اوپر کی طرف گھسیٹنا ہوتا تھا۔
یہاں بھی ایک دو نہیں بلکہ درجنوں ہاتھ کام کرتے تھے لوگ اپنے تیز دھاروں
والے پتھر جانور کی موٹی کھال، سخت جوڑوں اور بڑے بڑے پٹھوں کو کاٹنے او
رچیرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ جو زیادہ تجربے کار پرانے شکاری تھے وہ
کمسن لوگوں کو سکھاتے تھے کہ کھوپڑی اور پیروں کو جسم سے الگ کرنے کے لئے
کہاں کاٹنا چاہئے۔ آخر کار جب پوری راس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے تو واپس جانے
کے لئے طویل سفر شروع ہوتا۔
کام کو تیز بنانے کے لئے وہ ھانک پکار کرتے تھے اور کسی بڑے پیر یا سر کوجس
کی سونڈ راستے پر لوٹتی چلتی گھسیٹنے کے لئے وہ اپنے کو بڑے بڑے
غولوںمیںتقسیم کر لیتے۔
تھکن سے چور وہ آخر کار پڑائو پر پہنچ جاتے۔ کیسا جشن ہوتا! وہ جانتے تھے
کہ میموتھ کے شکار کا مطلب واقعی زور دار دعوت ہے، ایسی دعوت جس کے لئے ان
کو مدتوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا مطلب بہت دنوں کے
لئے کھانے کا ذخیرہ ہے۔
مقابلہ کا خاتمہ
دوسرے جانوروں سے آدمی کا مقابلہ ختم ہو گیا تھا۔ وہ دوڑ میں سب سے آگے
تھاکیونکہ اس نے سب سے بڑے جانور پر فتح پائی تھی۔
دنیا میں آدمیوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔ ہر دور اورصدی کے ساتھ آدمیوں
میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ دنیا کے ہر حصے میں آدمی ہو گئے۔
آدمی کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ کسی دوسرے جانور کے ساتھ نہیںہو سکتا تھا۔
مثال کے طور پر کیا خرگوشوں کی تعداد بھی اتنی ہی کثیر ہو سکتی تھی جتنی
آدمیوں کی؟
نہیں۔ کیونکہ اگر خوگوشوں کی تعدادبڑھتی تو بھیڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ
ہوتا اوروہ خرگوشوں کی تعداد کم ہی رکھتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگلی جانوروں کی تعداد لا متناہی نہیں بڑھ سکتی۔ ایک
حد ہے جس کے آگے ان کا بڑھنا مشکل ہے۔ آدمی نے مدتوں ہوئے ان سرحدوں
اورپابندیوں کو ختم کر دیا ہے جو قدرت نے اس کے ایسے جانوروں پر عائد کی
تھیں۔ جب اس نے اوزار بنانا سیکھا تو ایسی چیزیں کھانے لگا جو اس نے پہلے
کبھی نہیں کھائی تھیں۔ اس طرح اس نے قدرت کو مجبور کیا کہ اس سے زیادہ
مہربانی کا برتائو کرے۔ جہاں آدمیوں کا ایک ہی غول غذا کی تلاش کرتا تھا
وہاں اب دو تین غول رہ سکتے تھے۔
اور جب اس نے بڑے بڑے جانوروں کا شکار شروع کیا تو اس کے رہنے کی سرحدوں
میں اور وسعت پیدا ہو گئی ۔
اب آڈمی کو سارے دن نہیں چرنا پڑتا تھا، اس کو پودوں کی تلاش نہیںکرنی پڑتی
تھی۔ اس کیلئے ارنا بھینسے، گھوڑے او رمیموتھ چرتے تھے۔ ان چوپایوں کے گلے
میدانوں میں پھرتے تھے، گھاس کے میدان چر جاتے تھے۔ دن بدن، سال بسال ان
کا وزن بڑھتا جاتا تھا۔ ٹنوں گھاس کو وہ منوں گوشت میں تبدیل کر دیتے تھے۔
اور جب آدمی کسی ارنا بھینسے یا میموتھ کو مارتا تھا تو وہ توانائی کے ایک
بڑے ذخیرے کا مالک بن جاتا تھا جو کئی برسوں کے دوران میں جمع کیا گیا تھا۔
اس کو ان توانائی کے ذخیروں کی بڑی ضرورت تھی کیونکہ وہ طوفان، آندھی اور
سخت سردی میں شکار کے لئے نہیں جا سکتا تھا۔وہ زمانہ گزر چکا تھا جب جاڑے
اور گرمی دونوں میں خوشگوار گرمی ہوتی تھی۔
بہر حال ایک تبدیل کی وجہ سے دوسری تبدیلی ہوتی رہی۔
اگر آدمی نے ذخیرہ کرنا شروع کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے ایک جگہ پر
زیادہ مدت کے لئے رہنا تھا یعنی اس کے لئے پڑائو کو اکھاڑنا زیادہ دشوار ہو
گیا۔ بہر حال وہ شکار کئے ہوئے فیل پیکر جانور کی راس کو اپنے ساتھ
گھسیٹتا کہاں پھر سکتا تھا۔
اس کے علاوہ اس کے بسنے کے دوسرے اسباب بھی تھے۔ اگلے زمانے میں ایک رات
کیلئے ہر درخت اس کا گھر بن جاتا تھا جو اس کو جنگلی جانوروں سے پناہ دیتا
تھا۔ اب اس کو ان جانوروں سے اتنا ڈر نہیں لگتا تھا۔ لیکن اس کا ایک نیا
دشمن جاڑا تھا۔
آدمی کو سردی اور برفانی طوفانوں سے بچنے کے لئے متعبر پناہ گاہ کی ضرورت
تھی۔
آدمی اپنی دنیا بناتا ہے
آخر کار وہ وقت بھی آیا جب آدمی نے اپنے چاروں طرف کی بڑی اور سرد دنیا کے
درمیان اپنی چھوٹی سی گرم دنیاکے تعمیر شروع کی۔ کسی غار کے داخلے پر، یا
کسی پہاڑی کی کگر کے نیچے اس نے بارش، برفباری اور ہوا سے بچنے کے لئے
جانوروں کی کھالوں اور شاخوں کی چھت بنائی۔ اپنی چھوٹی سی دنیا کے بیچ میں
اس نے وہ سورج روشن کیا جو رات میں روشنی دیتا تھا اور جاڑوں میں اسے گرم
رکھتا تھا۔
ماقبل تاریخ کے شکاری پڑائوں کے خیموں کی میخوں کے گڈھے ابھی تک بعض جگہ
پائے جاتے ہیں۔ ان میخوں کے حلقے کے بیچ میں وہ جلے ہوئے پتھر ہیں جو چولھے
کے گرد ہوتے تھے۔ یہی چولہا ماقبل تاریخ کے آدمی کا سورج تھا۔
دیواریں مدت ہوئی گر کر خاک میں مل گئی ہیں لیکن ہمیں بالکل ٹھیک معلوم ہے
کہ وہ کہاں تھیں۔ چھوٹی سی دنیا کی ساری سطح ان آدمیوں کی کہانی بتاتی ہے
جنہوں نے اس دنیا کو بنایا تھا۔
پتھر کے چاقوں او رکرچھنی، پتھر کے تیز دھاروالے ٹکڑے، جانوروں کی کٹی ہوئی
ہڈیاں، چھولھے کا کوئلہ اور راکھ۔ یہ سب چیزیں ریت اور مٹی میں اس طرح ملی
ہوئی پائی جاتی ہیںجو قدرتی حالات میں کبھی نہیں ملتیں۔
ہم جیسے ہی ان معدوم پڑائوں کی نظر نہ آنے والی دیواروں کے پیچھے قدم رکھتے
ہیں وہ تمام چیزیں غائب ہو جاتی ہیں جو ہمیں آدمی کے کام کے بارے میں یاد
دلاتی ہیں۔ نہ تو زمین میں دفن اوزار نظر آتے ہیں، نہ چولھے سے کوئلہ، راکھ
یا جانوروں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں نکلتی ہیں۔
اس طرح ابھی تک آدمی کی بنائی ہوئی دینا اس کے چاروں طرف کی ہر چیز سے ایک
نظر نہ آنے والی لائن کے ذریعے الگ ہوتی ہے۔
جب ہم آدمی کی دستکاری کے نشانات ڈھونڈھنے کے لئے زمین کو کھودتے ہیں، جب
ہم پتھر کے چاقوں اور چھینیوں کا جائزہ لیتے ہیں اور چولھے کے اس کوئلے کو
چھانے ہیں جو ہزار ہا برس سے ٹھنڈا پڑا تو ہمیں صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ
پہلی دنیا کا خاتمہ نسل انسانی کا خاتمہ نہیں تھا کیونکہ انسان خود اپنے
لئے ایک چھوٹی سی نئی دنیا بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
ماضی میں پہلا سفر
ارنے بھینسوں اور میموتھ کا شکار کرنے والوں کے پڑائوں پر جوا وزار پائے
گئے ہیں ان میں پتھر کے دوا وزار بہت عام ہیں۔ ایک بڑا اور مثلث کی شکل کا
ہے اور اس کو دو طرف سے تیز کیا گیا ہے، دوسرا
نیم حلقے کی شکل کا ہے جس کی دھار تیز کی گئی ہے۔
ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر اوزار کسی خاص کام کے لئے بنایا گیا ہے ورنہ ان کی
شکلیں مختلف نہ ہوتیں۔ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ ان میں سے ہر ایک کا استعمال
کیا تھا؟
ان اوزاروں کی شکلیں اس کا کچھ پتہ بتاتی ہیں۔
وہ دونوں تیز ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سے چاقوں یا کلہاڑی کی طرح
کاٹنے کا کام لیا جاتا تھا۔ ان میں ایک زیادہ بڑا اور بھاری تھا۔ اس لئے اس
کا استعمال زیادہ سخت کام میں ہوتا تھا۔ اس کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ
اس کے استعمال کے لئے زیادہ طاقت کی ضرورت تھی۔
بھلا یہ کون سا کام تھا؟
آئو پتھر کے زمانے کو واپس چلیں اور دیکھیں کہ ماقبل تاریخ کا آدمی اپنے
اوزاروں کو کیسے استعمال کرتا تھا۔
اکثر ہم کو اس طرح کا جملہ کسی ناول میں ملتا ہے ”آئو، دس سال پیچھے واپس
چلیں۔” ایسی کتاب کے مصنف کے لئے یہ آسان بات ہے کیونکہ وہ جہاں چاہے اور
جب چاہے واپس جا سکتا ہے۔ اور وہ اپنے کرداروں کے بارے میں انتہائی ناقابل
یقین باتیں کہہ سکتا ہے۔
بہر نوع ہم پتھر کے زمانے تک واپس جا سکتے ہیں۔
اگر تم یہ چاہتے ہو تو تمہارے پاس ایسے طویل سفر کے لئے سارا ساز وسامان
ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو تمہارے پاس کنویس کا خیمہ ہونا چاہئے جس کا فرش
بھی کنویس کا ہو اور جو کسی سفری تھیلے میں تہہ کر کے رکھا جا سکے۔ پھر
خیمے کے ستون اور رسیاں باندھنے کے لئے میخیں چاہئیں اور ایک ہتھوڑی بھی جس
سے میخیں زمین میں ٹھونک کر گاڑی جا سکیں۔ اس کے علاوہ کئی اور چیزوں کی
ضرورت پڑے گی۔ سورج کی تپش سے محفوظ رہنے کے لئے کارک کا ایک خود، کلہاڑی،
کڑاہی، کھانا پکانے کا چولہا، کٹورا، چھری اور چمچہ، ایک قطب نمااور نقشہ۔
جب تم یہ سب چیزیں اچھی طرح باندھ لو اور اپنی رائفل لے لو (کیونکہ اگر تم
پتھر کے زمانے میں اپنی غذا کے لئے شکار نہیں کر سکتے تو تمہاری زندگی نا
ممکن ہے) تو کسی بندر گاہ جائو اور سٹیمر کا ٹکٹ خرید لو۔
لیکن ٹکٹ بابو سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تم پتھر کے زمانے کو جا رہے ہو
کیونکہ اگر تم اس سے یہ کہو گے تو وہ تم کو پاگل سمجھ کر ڈاکٹر بلائے گا۔
تمہارے ٹکٹ پر یہ نہیں لکھا ہو گا کہ ”پتھر کے زمانے کو واپسی ٹکٹ۔” ٹکٹ
بالکل معمولی ہو گا۔ اس پر ”میلبورن” لکھا ہو گا جو تمہاری منزل ہے۔
جب ٹکٹ تمہاری جیب میں پہنچ جائے تو تم آسٹریلیا جانے والے مسافر بردار
جہاز پر بیٹھ سکتے ہو۔ چند ہفتوں میں تم میلبورن پہنچ جائو گے۔
یہ جاننا بہت دلچسپ ہے کہ ابھی دنیا میں ایسی جگہیں باقی ہیں جہاں لوگ پتھر
کے اوزاروں سے کام کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں بھی ایسی جگہیں ہیں۔ اس کا یہ
مطلب ہوا کہ پچھلے دوروں میں سفر کی جگہ فاصلوں کا سفر لے سکتا ہے۔ اور جب
سائنس داں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ماضی بعید میں لوگ کس طرح رہتے تھے تو وہ
یہی کرتے ہیں۔
آسٹریلیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو پتھر کے اوزار استعمال کرتے ہیں۔
ہم ان لوگوں کے ہاں جا رہے ہیں یہ دیکھنے کہ وہ اپنے اوزار کیسے استعمال
کرتے ہیں۔
ہم آسٹریلیائی شکاریوں کے پڑائو تک جانے کے لئے ایسے خشک اور ویران میدانوں
سے گزریں گے جہاں جا بجا کانٹے دار جھاڑیوں کے قطعے نظر آتے ہیں۔ ہم ان کے
جھونپڑوں تک پہنچ جاتے ہیں جو درختوں کی چھال اور شاخوں سے بنے ہیں اور
دریا کے کنارے درختوں کی ایک گپھا میں ہیں۔ بچے جھونپڑوں کے ادھر ادھر دوڑ
رہے ہیں۔ مرد اور عورتیں کام میں مصروف ہیں۔وہ قریب ہی زمین پر بیٹھے ہیں۔
ایک بڈھا آدمی جس کی لمبی سی داڑھی ہے اور بال جھبرے ہیں ایک کنگرو کی کھال
کھینچ رہا ہے۔ یہ بڈھا مثلث کا شکل کا پتھر کا اوزار کاٹنے کے لئے استعمال
کر رہا ہے۔ ارے، یہ تو وہی پتھر کا اوزار ہے جس کا متعلق ہم معلومات حاصل
کرنے نکلے تھے!
ظاہر ہے کہ آسٹریلیا کے موجودہ زمانے کے لوگ ماقبل تاریخ کے لوگ تو نہیں
ہیں۔ ہزارھا نسلیں ان کو اپنے ماقبل تاریخ کے اجداد سے الگ کرتی ہیں۔ ان کے
پتھر کے اوزار ماضی کی معمولی سی باقیات میں سے ہیں۔ لیکن ماضی کی یہ
باقیات ہمارے بہت سے معمے حل کر سکتی ہیں۔ آسٹریلیائی آدمی کو کام کرتے
دیکھ کر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پتھر کا بڑا مثلث اوزار آدمی ہی کا اوزار ہے،
ایک شکاری کا اوزار جس سے وہ پھندے میں آئے ہوئے یا زخمی جانور کو مارتا
ہے، اس کو کاٹتا ہے اور اس کی کھال کھینچتا ہے۔
دوسرے قدیم اوزار یعنی نیم حلقے والے دھار دار اوزار کو استعمال کے وقت
دیکھنے کے لئے ہمیں اور آگے سفر کرنا ہو گا۔ ہمیں جزیرہ تسمانیا جانا ہو گا
جو آسٹریلیا کے جنوب میںہے۔ ابھی حال تک وہاں عورتیں پتھر کا یہ اوزار
کپڑا اور چمڑا کاٹنے اور چمڑے کو چھیلنے کے لئے استعمال کرتی تھیں۔
اوزاروں کے درمیان کام کی تقسیم کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں کے درمیان بھی کام
کی تقسیم تھی جو پتھر کے زمانے کے شکاریوں کے وقت سے شروع ہوئی تھی۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا طرح طرح کے کام نکلتے گئے۔ ان سب کو کرنے کے لئے کچھ
لوگ ایک طرح کا کام کرتے تو دوسرے دوسری طرح کا۔ جب مرد شکار کھیلنے جاتے
تو عورتیں چولھے کے پاس بیکا نہیں بیٹھتیں۔ وہ نئے خیمے بناتیں، جانوروں کی
کھالوں کو کاٹ کر کپڑے بناتیں، کھانے والی جڑیں جمع کرتیں اور غذا کا
ذخیرہ کرتیں۔
لیکن اس کے علاوہ محنت کی ایک اور تقسیم تھی۔ جوانوں اور بڈھوں کے درمیان۔
ہزار سالہ اسکول
ہر کام کو کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور اس کو کرنے کا علم آسمان سے نہیں
نازل ہوتا۔ علم تو ایسی چیز ہے جو دوسروں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
اگر ہر بڑھئی اپنا بسولا، آری اور رندہ ایجاد کرنے سے ابتدا کرے اور پھر یہ
دریافت کرے کہ اس کو یہ اوزار کیسے استعمال کرنا ہیں تو زمین پر ایک بھی
بڑھئی کا وجود نہ رہے۔
اگر جغرافیہ سیکھنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک ساری دنیا کا سفر کرنا پڑے،
امریکہ کو پھر سے دریافت کرنا پڑے، افریقہ کو تلاش کرنا ہو، ایورسٹ کی چوٹی
پر چڑھنا پڑے،ہر خلیج اور آبنائے کا شمار کرنا پڑے تو ہم چاہے ایک ہزار
سال بھی زندہ رہیں لیکن ہمارے پاس اس کے لئے کافی نہ ہو گا۔
ہم جتنی ترقی کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہمیںمطالعہ کرنا چاہئے۔ ہر نئی نسل
اپنی پچھلی نسل سے زیادہ علم، معلومات اور دریافتیں حاصل کرتی ہے۔
ہر سال سائنس کے ہر شعبے میں دریافتوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ سائنسوں کی
تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ کسی زمانے میں طبیعیات تھی۔اب ارضیاتی طبیعیات اور
فلکیاتی طبیعیات بھی ہیں۔ پہلے صرف کیمسٹری تھی۔ اور ایگرو کیمسٹری بھی ہو
گئی ہیں۔ نئے علم کے دبائو سے سائنسیں بڑھتی ہیں، تقسیم ہوتی ہیں اور ان کی
تعداد میں اضافہ ہوتا ہے جیسے وہ کوئی زندہ خلیے ہوں۔
ظاہر ہے کہ پتھر کے زمانے میں سائنسیں نہیں تھیں۔ آدمی کے تجربے کا ذخیرہ
ابھی شروع ہوا تھا۔ آدمی کی محنت بھی اتنی پیچیدہ نہیں تھی جتنی اب ہے۔ اسی
لئے آدمی کو اپنی تعلیم کی تکمیل میں زیادہ مدت نہیں لگتی تھی۔ پھر بھی اس
کو بہت سی باتیں سیکھنا پڑتی تھیں۔
اس کو جانوروں کا کھوج لگانے، ان کی کھال کھینچنے، خیمہ بنانے، پتھر کا
دھاردار اوزار بنانے وغیرہ کے لئے علم اور مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی
تھی۔
اورعلم کہاں سے آتا ہے؟
آدمی کوئی ہنر لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اس کو حاصل کرتا ہے۔
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آدمی جانوروں کی دنیا کو کتناپیچھے چھوڑ آیا ہے۔
جانور کو اپنے تمام ”زندہ اوزار” اور ان کے استعمال کی معلومات اس کے ماں
باپ سے ترکے میں بالکل اسی طرح ملتی ہیں جیسے اس کے سمور کا رنگ یا جسم کی
ساخت۔ سور کے بچے کو یہ نہیں سیکھنا پڑتا کہ وہ کیچڑ کو کسی طرح کھودے
کیونکہ خاص طور سے اس مقصد کے لئے اس کو پیدائش ہی کے دن سے مضبوط تھوتھن
دیا گیا ہے۔ اودبلائو کو یہ سکھانے کی ضرورت نہیں کہ وہ لکڑی کیسے چبائے
کیونکہ اس کے تیز دانت قدرتی طور پر اگتے ہیں۔ اسی وجہ سے جانوروں کے ہاں
نہ تو ورکشاپ ہوتے ہیں اور نہ اسکول۔
وہ بطخ کا ننھا سا چوزہ جو ابھی انڈے سے نکلا ہے مکھیاں او رمچھر پکڑنا
شروع کر دیتا ہے حالانکہ کسی نے اس کو یہ نہیں سکھایا ہے۔ کوئل کا بچہ
دوسروں کے گھونسلوں میں پلتا بڑھتا ہے۔ اس کے اصلی ماں باپ اس کی دیکھ بھال
نہیں کرتے۔ لیکن جب خزاں آتی ہے تو وہ خود روانہ ہوجاتا ہے اور افریقہ کا
راستہ پالیتا ہے حالانکہ اس کویہ راستہ کسی نے نہیں دکھایا۔
جانور یقینا بہت کچھ اپنے والدین سے سیکھتے ہیں لیکن وہاں اسکول کی طرح کی
کسی چیز کاسوال ہی نہیں اٹھتا۔
آدمیوںکے بارے میں بات بالکل مختلف ہے۔
آدمی اپنے اوزار خود بناتا ہے کیونکہ وہ ان کو لے کر نہیں پیدا ہوتا۔ اس کا
مطلب یہ ہوا کہ وہ ان اوزاروں کا استعمال یا ہنر اپنے والدین سے ترکے میں
نہیں پاتا۔ وہ ان کو اپنے بزرگوں اور استادوں سے سیکھتا ہے۔
ہر کاہل طالب علم کو بڑی خوشی ہوتی اگر لوگ قواعد اور ریاضی کی معلومات لے
کر پیدا ہوا کرتے۔ پھر اسکولوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن اس سے طالب علم کو
زیادہ فائدہ نہ ہوتا۔ اگر اسکول نہ ہوتے تو لوگ کوئی نئی بات نہ سیکھتے۔
تمام انسانی ہنر اور معلومات ایک ہی معیار پر قائم رہتے جیسے گلہری کا ہنر
یا مشاقی۔
یہ آدمی کی خوش قسمتی ہے کہ وہ بنے بنائے ہنر کے ساتھ نہیںپیدا ہوتا۔ وہ
سیکھتا اور سکھاتا ہے اورہر نسل انسانی تجربات کے ذخیرے میں اپنی طرف سے
کچھ نہ کچھ اضافہ کرتی ہے۔ یہ تجربات برابر بڑھتے رہتے ہیں۔ بنی نوع انسان
نامعلوم کی سرحدوں کو اور دور ڈھکیلتا جاتا ہے۔
ہزار سالہ اسکول، انسانی محنت کے اسکول نے آدمی کو وہ کچھ بنایا ہے جو آج
وہ ہے۔ اس نے آدمی کو سائنس، انجینرنگ اور آرٹ عطا کیا ہے، ا سنے اس کو
تہذیبی ورثہ دیا ہے۔
آدمی سب سے پہلے پتھر کے زمانے میں اس ہزار سالہ اسکول میں داخل ہوا تھا۔
بڈھے، تجربے کار شکاری کمسن لڑکوں کو شکار کا مشکل فن سکھاتے تھے۔ جانور کو
اس کے پیروں کے نشانات سے جانا جاتا ہے، جانور کے قریب اس کو بھڑکائے بغیر
کیسے پہنچا جاتا ہے وغیرہ۔
آج بھی شکار کے لئے بڑی مہارت کی ضرورت ہے۔ پھر بھی آج اس زمانے کے مقابلے
میں شکاری ہونا کہیں زیادہ آسان ہے کیونکہ آج شکاری کو خود اپنے ہاتھوں سے
ہتھیار نہیں بنانے پڑتے ہیں۔ پتھر کے زمانے میں شکاری اپنے ڈنڈے، کاٹنے
والے اوزار اور بھالوں کے لئے نوکیلی سینگیں خود بناتے تھے۔ بوڑھا شکاری
اپنے قبیلے کے نوجوانوں کو بہت کچھ سکھا سکتا تھا۔
عورتوں کے کام کے لئے بھی مہارت درکار تھی کیونکہ عورتیں تو گھر گرہستن،
معمار، لکڑھارن اور درزن کا مجموعہ ہوتی تھیں۔
ہر قبیلے میں ایسے بڈھے اورتجربے کار مرد اور عورتیں ہوتی تھیں جو اپنی
زندگی بھر کی معلومات اور تجربات اپنے قبیلے کے بڑے لڑکے لڑکیوں کو دیتی
تھیں۔
لیکن یہ تجربات منتقل کیسے ہوتے تھے؟
اپنے تجربات کو دکھاکر اور ان کی وضاحت کر کے۔
آدمی کو اس کے لئے زبان کی ضرورت تھی۔
جانور کو اپنے بچوںکو یہ نہیںسکھانا ہے کہ اسے اپنے ”زندہ اوزار” کس طرح
استعمال کرنا چاہئے مثلاً پنجے اور دانت۔ جانوروں کے لئے گفتگو کرنا جاننا
ضروری نہیں ہے۔
لیکن ماقبل تاریخ کے آدمی کو ایسا کرنا پڑتا تھا۔ اس کو ان کاموں کے لئے
مشترکہ زبان کی ضرورت تھی جو وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کرتا تھا۔ بزرگ نسل
کے تجربات اور ہنر کو نوجوانوں تک پہنچانے کے لئے بھی الفاظ کی ضرورت تھی۔
تو پھر پتھر کے زمانے کے لوگ ایک دوسرے سے کس طرح بات چیت کرتے تھے؟
ماضی میں دوسرا سفر
آئو، پھر ماضی کا سفر کریں۔ لیکن اس بار ہم کوشش کریں گے کہ یہ سفر پہلے
والے کے مقابلے میں آسان ہو۔ کسی دور دراز ملک کا سفر کرنے کے لئے جہاز
جانا ہی ضروری نہیں ہے۔ تم یہ سفراپنا گھر چھوڑے بغیر بھی کر سکتے ہو۔
تم ریڈیو کو چالو کر کے اپنے کمرے کو چھوڑے بغیرملک کے کسی حصے میں بھی
پہنچ سکتے ہو۔ اگر تمہارے پاس ٹیلی ویژن سٹ ہے تو تم نہ صرف لوگوں کو سن
سکتے ہو۔بلکہ ان کو سیکڑوں میل کی دوری پر دیکھ بھی سکتے ہو۔ ریڈیو اورٹیلی
ویژن نے ہمیں بڑے بڑے فاصلے طے کرنے میں مدد دی ہے۔
لیکن ہم ان لوگوں کو کیسے دیکھ اور سن سکتے ہیں جو سیکڑوں سال پہلے گزرے
ہیں؟کیا کوئی ایسی مشین یا آلہ ہے جو ہمیں وقت کے دوران میں سفر کرا سکتا
ہے جس طرح ریڈیو اور ٹیلی ویژن فاصلوں کے درمیان کر اسکتے ہیں؟
ہاں، ایسی چیز ہے۔ یہ سینماہے۔
ہم سینما کے پردے پرساری دنیا دیکھ سکتے ہیں، صرف آج ہی کی دنیا نہیں بلکہ
ماضی کے برسوں کی دنیا بھی۔
یہاں ہم ماسکو کے لال چوک پر اس جلوس کا منظر دیکھتے ہیں جو پہلی آرکٹک مہم
کے ہیروئوں کے خیر مقدم کے لئے ہوا تھا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ فضا میں ایک
بہت بڑا غبارہ اڑ رہا ہے جو ایک نئے تابع زمین سیارہ (اسپوتنک) کی طرح
معلوم ہو رہا ہے۔ یہ Stratospheric غبارہ ہے۔
بہر حال فلم کیمرہ بھی ایسا جہاز ہے جو ہم کو ماضی کے صرف ان برسوں تک لے
جا سکتا ہے جن میں وہ ایجا ہو اتھا۔ اور فلم کیمرہ بہت دنوں پہلے نہیں بنا۔
پہلی بولتی ہوئی فلم 1927 میں دکھائی گئی تھی۔
ماضی کی طرف زمانے کے دوران میں پیچھے سفر کرتے ہوئے ہمیں یکے بعد دیگرے
جہاز بدلنا پڑیں گے اور وہ برابر خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے۔ مثلاً
اسٹیمر سے ہم بادبانی جہاز میں جائیں گے اور بادبانی جہاز سے کسی معمولی
کشتی میں۔
اب ہم ایک خاموش فلم کی اسکرین تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہم ماضی کو دیکھ سکتے ہیں
لیکن سن نہیں سکتے۔
فوٹو گراف ایجاد ہوا۔ ہم آواز سن سکتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کون
بول رہا ہے حالانکہ آواز صاف اور پھر ہمارے جہاز ہم کو وہاں سے آگے نہ لے
جائیں گے جہاں سے وہ چلے تھے۔
کوئی فلم نہیں دکھا سکتی کہ 1890 سے پہلے کیا ہوا تھا اور کوئی فونو گراف
ان الفاظ کو نہیں سنا سکتا جو 1877 سے پہلے ادا ہوئے تھے کیونکہ 1877 میں
اس کی ایجاد ہوئی۔
آوازیں مر جاتی ہیں اور صرف خطوط کی صورت میں باقی رہتی ہیں، کتابوں کی
یکساں اور سیدھی سطروں میں۔
پرانے زمانے کے فوٹوئوں وغیرہ میں منجمد مسکراہٹیں اور نگاہیں ملتی ہیں۔
کسی پرانے خاندانی البم کو دیکھو۔ اس میں سبز مخمل کے گردپوش اور کانسے کے
آنکڑوں کے درمیان تم کو کئی نسلوں کی زندگی نظر آئے گی۔
ایک صفحے پر ہمیں ایک چھوٹی سی لڑکی کا دھندلا سا فوٹو نظر آتا ہے۔ وہ 1870
کی لڑکیوں جیسا لباس پہنے ہے۔ وہ ایک باغ کے پھاٹک کا سہارا لئے کھڑی ہے
جو صرف کسی فوٹو گراف کے اسٹوڈیو ہی میں دکھائی دیتا ہے۔
اس صفحے پر اس کے برابر ایک دلہن سفید گائون پہنے، موٹے، گنجے دولہا کے پاس
کھڑی ہے۔ دولہا کے ہاتھ کی انگلیوں میں انگوٹھیاں ہیں اور وہ سنگ مر مر کے
ایک ستون پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے جو اوپر سے کٹا ہوا ہے۔ دولھا دلہن سے عمر
میں کم از کم تیس سال زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ دلہن کی آنکھوں میں ایسا ہی
بھولاپن اور خوف سا ہے جیسا پہلے فوٹو والی لڑکی کی آنکھوں میں تھا۔
اور اب یہاں یہ وہ دلھن چالیس یا پچاس سال بعد ہے۔ ا س کو مشکل سے پہچانا
جا سکتا ہے۔ سیاہ لیس والے رومال میں اس کی پیشانی جھریوں سے بھری ہے، اس
کی آنکھوں میں تھکن ہے او راس کے گال پچک گئے ہیں۔ فوٹو کے پیچھے اسٹودیو
کا ٹریڈ مارک ہے۔ ایک ننھا فرشتہ کیمرہ لئے ہے اور اس فرشتے پر کانپتے ہوئے
بوڑھے ہاتھ سے لکھی ہوئی یہ عبارت ہے: ”میری عزیز ترین پوتی کے لئے اس کو
بہت پیار کرنے والی دادی کی طرف سے۔”
یہاں البم کے ایک صفحے پر آدمی کی پوری زندگی ہے۔
یہ فوٹو جتنے زیادہ پرانے ہیں اتنے ہی کم ان میں صاحب تصویر کے تاثر اور
حرکات کی عکاسی ہوتی ہے۔ آج ہم بڑی آسانی سے کسی دوڑتے ہوئے گھوڑے باغوطہ
لگاتے ہوئے تیراک کا بہت اچھا فوٹو لے سکتے ہیں۔ لیکن ابتدائی زمانے کے
فوٹو گرافر کے پاس ایک مخصوص آرام کرسی ہوتی تھی جس میں پیچ لگے ہوتے تھے۔
ان کے ذریعے وہ فوٹو کھنچوانے والے کا سر اور بازو ایک جگہ کس دیتا تھا
تاکہ وہ خفیف سی حرکت نہ کر سکے۔ اس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان
فوٹوئوں کے لوگ اصلی نہیں بلکہ منجمد اور عجیب معلوم ہوتے ہیں۔
اگر ہمیں ماضی کو بحال کرنا ہے تو ہمیں ان مشاہدات کا جائزہ لینا پڑے گا جو
آرٹ گیلریوں، محافظ خانوں اور کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔
ہزارہا سال اس تیزی سے گزر جائیں گے جیسے سڑک پر سنگ میل کے نمبر گزرتے
ہیں۔
اب ہم 1440 تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے چھپی ہوئی کتابیں نہیں ہوتی
تھیں۔ ٹائپ کے صاف سیاہ حروف کی جگہ کاتبوں کی لکھی ہوئی مرصع عبارت لے
لیتی ہے۔ اس کا قلم رفتہ رفتہ چرمی کا غذ یا جھلی پر چلتا ہے اور ہم اس کے
پیچھے آہستہ آہستہ، قدم بقدم، حرف بحرف ماضی کی طرف چلتے جاتے ہیں۔
ہم ماضی کی طرف اور زیادہ سفر کرتے جاتے ہیں اور چرمی کا غذ کی کتابوں
سے،پتوں پر لکھی ہوئی تحریروں سے عبادت گاہوں کی دیواروں کے پتھروں پر کندہ
عبارتوں تک پہنچتے ہیں۔
اور جو تحریریں ماضی کے لوگوں سے ہم کو ملی ہیں وہ اور بھی عجیب اور
پراسرار ہوتی جاتی ہیں۔ آخر کار تحریریں بھی غائب ہو جاتی ہیں۔ ماضی کی
آوازیں خاموش پڑ جاتی ہیں۔
اور اس سے پہلے کیا رہا ہو گا؟
اب ہم زمین کے اندر آدمی کے نشانات کی تلاش شروع کرتے ہیں۔ ہم بھولے بسرے
قبرستانی ٹیلے کھودتے ہیں، قدیم اوزاروں، پرانی پناہ گاہوں کے پتھروں،
مدتوں کے بجھے ہوئے چولہوں کے کوئلے کا جائزہ لیتے ہیں۔
ماضی کی یہ تمام باقیات ہمیں بتاتی ہیں کہ آدمی کیسے رہتا سہتا تھا اور
کیسے کام کرتا تھا۔
لیکن کیا وہ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ آدمی کیسے بولتا اور سوچتا تھا؟
اشاروں کی زبان
ماقبل تاریخ کے لوگوں کے غاروں کی گہرائیوں میں یا پڑائوں کی جگہوں پر
سائنس دانوں کو اس زمانے کے آدمی خود ملے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی باقیات
ملی ہیں۔
1924 میں سوویت ماہرین آثار قدیمہ نے سیمفیروپول کے قریب کیئک کوبا کے غار
میں ایک پتھرائے ہوئے آدمی کی باقیات پائیں۔ غار کے بیچوبیچ چوکور گڈھا تھا
جس میں آدمی کا یہ ڈھانچہ دفن تھا۔ قریب ہی ایک بارہ سنگھے کی باقیات اور
کچھ پتھر کے اوزار ملے۔
پتھر کے ابتدائی زمانے کا ایک اور پڑائو ازبکستان میں تیشیک تاش کے غار میں
ملا ہے۔ ماقبل تاریخ کے شکاری پہاڑی گھاٹی کے ڈھلان پررہتے تھے اور غالباً
ان کے پیر بہت ہی سدھے ہوئے تھے کیونکہ ان کا خاص شکار پہاڑی بکری تھی جس
کو پھنسانا اور مارنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسی غار میں پتھر کے اوزاروں
اور جانوروں کی ہڈیوں کے علاوہ ایک بچے کی کھوپڑی اور ہڈیاں پائی گئیں جو
تقریباً آٹھ سال کا ہو گا۔
پتھر کے ابتدائی زمانے کے آدمی کے پتھرائی ہوئی باقیات صرف روس ہی میں نہیں
بلکہ بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی ملی ہیں۔ دراصل وہ امریکہ کے سوا تمام
براعظموں پر پائی گئی ہیں۔
چونکہ اس قسم کی پہلی دریافت جرمنی میں صوبہ رائن کی وادی کے نیان ڈیر تھال
(Neanderthal) نامی مقام پر ہوئی اس لئے ماہرین آثار قدیمہ نے اس زمانے کے
آدمی کو نیان ڈیر تھال آدمی پکارا۔
اب ہم اپنے ہیرو نیا ڈیر تھال آدمی کہیں گے۔ ہم نے اس کو نیا نام دیا ہے
کیونکہ اس کولاکھوں سال کی مدت نے اپنے Pithecanthropic اجدا سے بالکل الگ
کر دیا ہے۔
اب اس کی پیٹھ زیادہ سیدھی ہے، اس کے ہاتھ زیادہ چست اور اس کے چہرے پر
زیادہ آدمیت ہے۔
عام طو رپر مصنف اپنے ہیرو کے چہرے مہرے کو خیالات کی انتہائی ندرت اور بڑی
تفصیل کے ساتھ ساتھ پیش کرتا ہے۔ مثلاً وہ ایسی تشبیہات استعمال کرتا ہے
جیسے ”اس کی شعلہ بار آنکھیں”، اس کی پر غرور رومن ناک”، ”اس کے بال کوے کے
پروں کی طرح سیاہ تھے”۔ لیکن وہ کبھی اس کے دماغ کے سائز کے بارے میں کچھ
نہیں کہتا۔
ہمارا معاملہ بالکل دوسرا ہے۔ ہمارے لئے اپنے ہیرو کے دماغ کا سائز بہت
اہمیت رکھتا ہے اور اس کی آنکھوں کے جذبات یا بالوں کے رنگ سے کہیں زیادہ
دلچسپی کا باعث ہے۔
نیان ڈیر تھال آدمی کی کھوپڑی کو احتیاط سے ناپنے کے بعد ہمیں یہ بتاتے
ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ اس کا دماغ Pithecanthropusکے دماغ سے زیادہ بڑا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں سال کا کام رائگاں نہیں گیا۔ ان ہزاروں سال نے
آدمی کو بالکل بدل دیا لیکن سب سے زیادہ اس کے ہاتھ اور سر بدلے کیونکہ اس
کے ہاتھ کام کرتے تھے اور دماغ ہاتھوں کو ہدایت دیتا تھا۔ ماقبل تاریخ کا
آدمی پتھر کی بسولی سے کاٹ کر پتھروں کو نئی شکل دیتا تھا۔ وہ رفتہ رفتہ
اپنے کو اور اپنی انگلیوں کو بدل رہا تھا جو زیادہ چست اور مشاق ہوتی جاتی
تھیں۔ اس کا دماغ بھی بدل رہا تھا۔ اور زیادہ پیچیدہ ہوتا جاتا تھا۔
نیان ڈیر تھال آدمی پرایک نظر ڈالتے ہی تم کہہ سکو گے کہ وہ بندر نہیں ہے۔
پھر بھی وہ اب تک بندر سے کتنا مشابہ ہے!
اس کی پیشانی اس کی آنکھوں کے اوپر نکلی ہوئی۔ اس کے گوشت دانت دوسرے
دانتوں کے ساتھ زاویہ بناتے ہیں اور اس کے منہ سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔
نیان ڈیر تھال آدمی کے خدوخال میں دو چیزیں یعنی اس کی پیشانی اور ٹھوڑی
اس کو ہم سے مختلف کر دیتی ہیں۔ اس کی پیشانی پیچھے کی طرف دبی ہوئی ہے
اور دراصل ٹھوڑی تو بالکل غائب ہے۔
دبی پیشانی والی کھوپڑی کے اندر دماغ موجودہ انسان کے دماغ کے بعض حصوں سے
محروم تھا۔ نچلا جبڑا جس میں ٹھوڑی غائب تھی ابھی انسانی گفتگو کے لئے
موزوں نہیں ہوا تھا۔
ایسا آدمی جس کی ایسی پیشانی اور ٹھوڑی ہو ہماری طرح سوچ سکتا تھا نہ باتیں
کر سکتا تھا۔
پھر بھی ماقبل تاریخ کے آدمی کو بولنا تھا۔ مشترکہ کام گفتگو کا تقاضہ کرتا
تھا کیونکہ جب کئی آدمی ایک ہی کام مل کر کرتے ہیں تو ان میں کام کے بارے
میں اتفاق ہونا چاہئے۔ آدمی اس وقت تک انتظار نہیں کر سکتا تھا جب تک اس کی
پیشانی ترقی یافتہ بنے اور اس کا جبڑا زیادہ نمایاں ہو کیونکہ اس کے لئے
اس کو ہزاروں سال کرنا پڑتا۔
لیکن وہ دوسروں کو اپنے خیالات کیسے بتا تا تھا؟
جو کچھ وہ کہنا چاہتا تھا اس کے اظہار کے لئے وہ اپنا پورا جسم استعمال
کرتا تھا۔ اس کے لیے ابھی بولنے کا کوئی مخصوس عضو نہ تھا اس لئے وہ اپنے
ہاتھ، چہرے کے پٹھے، اپنے بازو اور پیر استعمال کرتا تھا، لیکن سب سے زیادہ
اس کے ہاتھ اظہار کرتے تھے۔
تم نے کبھی کسی کتے سے باتیں کی ہیں؟ جب کوئی کتا اپنے مالک سے کچھ کہنا
چاہتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے، اپنے تھوتھن سے اس
کو ٹھیلتا ہے، اس کی گود میں اپنا پنجہ رکھ دیتا تھا، دم ہلاتا ہے، جوش سے
بدن تان دیتا ہے اور جما ہیاں لیتا ہے۔ وہ الفاظ تو استعمال نہیں کر سکتا
اس لئے اپنا سارا جسم استعمال کرتا ہے۔ اپنے تھوتھن کی نوک سے لے کر دم کے
سرے تک تاکہ اس کا پیغام مالک تک پہنچ جائے۔
ماقبل تاریخ کے آدمی کے پاس بھی بولنے کے لئے الفاظ نہ تھے۔ لیکن ہاتھ تھے
جو اس کو اپنی بات سمجھانے میں مدد دیتے تھے۔ یہ کہنے کی بجائے کہ ”اس کو
کاٹ دو” ماقبل تاریخ کا آدمی ہاتھ سے ہوا کو کاٹ کر یہ بات بتاتا تھا۔ ”مجھ
کو دو” کہنے کی بجائے وہ اپنے ہاتھ پھیلا دیتا تھا۔ ”یہاں آئو” کہنے کی
بجائے وہ اپنے ہاتھ اپنی طرف ہلاتا تھا۔ ہاتھوں کی مدد کے لئے وہ آواز بھی
استعمال کرتا تھا۔ وہ دوسرے آدمیوں کی توجہ اپنی طرف کرنے اور اپنے ہاتھ کے
اشاروں کو دیکھنے پر مجبور کرنے کیلئے گرجتا، غراتا یا شور مچاتا تھا۔
لیکن ہمیں یہ سب کیسے معلوم ہوا؟
جو بھی ٹوٹا ہوا پتھر کا اوزار ہمیں ملتا ہے وہ ماضی کا ایک جز ہے۔ لیکن
ہمیں اشاروں کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑے پھوٹے ٹکڑے کہاں مل سکتے ہیں؟ ہم ان ہاتھوں
کے اشاروں کو کیسے بحال کر سکتے ہیں جو مدتوں ہوئے خاک میں مل چکے ہیں؟
یہ بات ناممکن ہوتی اگر ماقبل تاریخ کے لوگ ہمارے اجداد نہ ہوتے اور ہمارے
لئے ترکہ نہ چھوڑ گئے ہوتے۔
بولتے ہوئے ہاتھ
تھوڑے ہی دن ہوئے ایک امریکی انڈین لینن گراد آیا تھا۔ وہ ”نیز پیرس” قبیلے
کا آدمی تھا جس کے معنی ہیں ”چھیدی ہوئی ناک”۔ وہ تو ما ہاکوں سے مسلح
انڈینوں سے بالکل ملتا جلتا نہیں تھا جن کا چرچا فینی مور کو پر نے بہت کیا
ہے۔
اس انڈیں کے پیر میں تو ہرن کی کھال کے جوتے (Moccasins) تھے اور نہ ٹوپی
میں چڑیوں کے پر۔ وہ عام یورپی لباس پہنے تھا اور انگریزی اور اپنی قبائلی
زبان دونوںروانی سے بولتا تھا۔
بہر حال ان دو زبانوں کے علاوہ وہ تیسری زبان بھی جانتا تھا جو انڈین لوگوں
میں ہزارہا سال سے محفوظ ہے۔
یہ دنیا کی سب سے سادہ زبان ہے ۔ اگر تم اس کو سیکھنا چاہو تو تمہیں فعلوں
کی گردانوں اور اسم وصفت وغیرہ کے جھگڑوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہوگی جو
ہمارے لئے درد سر ہوتے ہیں۔ صحیح تلفظ کی مہارت پیدا کرنا کافی آسان بات ہو
گی کیونکہ تم کو کسی لفظ ادا کرنا ہی نہ پڑے گا!
تیسری زبان جو ہمارا ملاقاتی بولتا تھا وہ آوازوں کی نہیں اشاروں کی زبان
تھی۔ غالباً اس زبان کی لغت اس طرح کی ہوگی۔
اشاروں کی زبان کی لغت کا ایک صفحہ
کمان۔ ایک ہاتھ خیالی کمان پکڑے ہے اور دوسرا ہاتھ اس کی تانت کو کھینچ رہا
ہے۔
ویگوام۔ (امریکی انڈینوں کا خیمہ) ایک دوسرے میں جٹی ہوئی انگلیاں خیمہ
دکھاتی ہیں۔
گوراآدمی۔پیشانی کے اوپر رکھا ہوا ہاتھا جو ہیٹ کے چھجے کیلئے اشارہ ہے۔
بھیڑیا۔ ہاتھ کی دو اٹھی انگلیاں جودو کانوں کی شکل رکھتی ہیں۔
خرگوش۔ اوپر کی طرح ہاتھ کی دواٹھی انگلیاں اور ایک حلقہ بنانے ولا
اشارہ۔یہ خرگوش کے دو اٹھے ہوئے کان اور اس کی گول پیٹھ کے لئے اشارہ ہے۔
مچھلی۔ ملی ہوئی انگلیوں کے ساتھ ہاتھ کے ٹیڑھے میڑھے چلنے کا اشارہ جیسے
مچھلی تیرتی ہے اور اس کی دم دائیں بائیں چلتی رہتی ہے۔
مینڈک۔ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کے سرے ایک بار ملے ہوئے، پھر الگ پھدکنے کی
حرکت کے ساتھ۔
بادل۔ دونوں مٹھیاں سر کے اوپر بادل دکھاتی ہیں۔
برف۔ اوپر کی طرف دو مٹھیاں سر کے اوپر لیکن انگلیاں رفتہ رفتہ کھلتی ہیں
اور برف کے گالوں کی طرح ناچتی ہوئی نیچے آتی ہیں۔
بارش۔ اوپر کی طرح مٹھیاں جو پھیلتی ہیں اور تیزی سے نیچے جاتی ہیں۔
تارہ۔ دو انگلیاں ملی ہوئی اور پھر الگ سر کے اوپر کافی اونچی جیسے ستارہ
جھلملا رہا ہو۔
اس زبان کا ہر لفظ ہوا میں کھینچی جانے والی تصویر ہے۔
جیسے کہ بہت ہی قدیم تحریریں بھی الفاظ میں نہیں لکھی گئی تھیں بلکہ
تصویروں میں ہیں اسی طرح شاید بہت ہی قدیم اشارے بھی تصویری اشارے تھے۔
ظاہر ہے کہ موجودہ انڈین قبیلوں کی اشاروں کی زبان تو ماقبل تاریخ کے انسان
کی زبان نہیں تھی۔ موجودہ انڈین قبیلوں کی اشاروں کی زبان میں ایسے بہت سے
الفاظ ہیں جو کسی ماقبل تاریخ کی زبان میں نہیں ملیں گے۔ یہ ہمیں بہت ہی
حال کے تصویری اشارے، مثلاً:
ٍ موٹر۔ دو پہئے دکھانے کے لئے ہاتھوں سے دو حلقے بنانا اور خیالی
اسٹیرنگ پہئے کا گھمانا۔
ٹرین۔ پہیوں کودکھانے کے لئے ہاتھوں سے دو حلقے بنانا اور پھر ہاتھ سے
لہراتا ہوا اشارہ انجن کی بھاپ کو اوپر جاتے ہوئے دکھانے کے لئے۔
یہ بہت ہی نئے اشارے ہیں۔ لیکن اشاروں کی زبان میں ایسے لغت والے اشارے بھی
ہیں جو ماقبل تاریخ کے ہیں مثلاً:
آگ۔ ہاتھ کااوپر کی طرف لہراتا ہوا اشارہ کسی پڑائو کے الائو سے اٹھتے ہوئے
دھوئیں کو دکھانے کے لئے۔
کام۔ ہاتھ سے کاٹنے کا اشارہ۔
کون جانتا ہے شاید ماقبل تاریخ کا آدمی جب ”کام” کہنا چاہتا ہو گا توہاتھ
سے ہوا کو کاٹتا ہوگا۔ بہر حال پتھر کا پہلا اوزار تو بسولی تھی۔
ہماری اپنی اشاروں کی زبان
ہم نے بھی اپنی اشاروں کی زبان محفوظ رکھی ہے۔
جب ہم ”ہاں” کہنا چاہتے ہیں تو ہمیشہ بولتے نہیں ہیں بلکہ سر ہلا دیتے ہیں۔
جب ہم ”وہاں” کہنا چاہتے ہیں تو کبھی کبھی اس طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے
ایک مخصوص ”بولنے والی انگلی” ہے جس کو ہم اشارے کی انگلی کہتے ہیں۔
جب ہم کسی کو سلام کرتے ہیں تو جھکتے ہیں۔ہم اپنا سر ہلاتے ہیں، شانے
جھٹکتے ہیں، اپنے بازو اٹھاتے ہیں اور ہاتھ پھیلاتے ہیں، پیشانی پر بل ڈال
کر گھورتے ہیں، اپنے ہونٹ کاٹتے ہیں، کسی پر انگلی ہلاتے ہیں، میز پرہاتھ
یا مکا مارتے ہیں، پیر پٹکتے ہیں، ہاتھ ہلاتے ہیں، اپنے دل پر ہاتھ رکھتے
ہیں، اپنے بازو بڑھاتے ہیں، اپنا ہاتھ دیتے ہیں اور دور سے چومتے ہیں۔
یہاں ایسی پوری گفتگو ہوتی ہے جس میں ایک ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا۔
اور یہ ”بن بولی زبان” اشاروں کی زبان مرنا نہیں چاہتی۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس
میں بعض خوبیاں بھی ہیں۔ کبھی کبھی ایک اشارہ بھی کسی طویل گفتگو سے زیادہ
مطلب کا اظہار کر جاتا ہے۔ کوئی اچھا یکٹر خاموش رہنے کے باوجود اپنے چشم
وابرو اور ہونٹوں کے ذریعے آدھہ گھنٹے کے اندر سیکڑوں الفاظ ادا کر دیتا
ہے۔
بہر حال اشاروں کی زبان ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا کوئی اچھی بات نہیں
ہے۔
تم کوئی بات اپنے ہاتھوں یا پیروں سے کیوں ادا کرو جب کہ تم اس کو آسانی سے
الفاظ میں کہہ سکتے ہو! ہم کوئی ماقبل تاریخ کے آدمی تو ہیں نہیں۔ پیروں
کو پٹکنا، چیزوں کو اشاروں سے بتانا اور ہاتھوں کو ہلانا ایسی عادتیں ہیں
جن کو بھول ہی جانا اچھا ہے۔
پھر بھی کبھی کبھی صرف اشاروں کی زبان ہی ہماری ترجمانی کر سکتی ہے۔ کبھی
تم نے دو جہازوں کو جھنڈوں کے سگنلوں کے ذریعے باتیں کرتے دیکھا ہے۔ ہوا،
لہروں اور توپوں کی گرج کے شور کے اوپر آدمی کے لئے آواز پہنچا نا ناممکن
ہے۔ ایسے موقعوں پر ہمارے کان کام نہیں دیتے اور ہمیں اپنی آنکھوں پر
اعتبار کرنا پڑتا ہے۔
تم غالباً اشاروں کی زبان اکثر استعمال کرتے ہو۔ مثلاً جب درجے میں استاد
کی توجہ اپنی طرف کرنا چاہتے ہو تو ہاتھ اٹھا دیتے ہو اوریہ ٹھیک بھی ہے
کیونکہ تم سوچ سکتے ہو کہ اگر ایک ساتھ تیس چالیس بچے بولنا شروع کر دیں
توکیا حالت ہو گی؟
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اشاروں کی زبان کی اپنی خوبیاں ہیں اور اس وجہ سے
وہ ہزارہا سال تک زندہ رہی ہے اور اب بھی اس کی ضرورت ہے۔
بولی، اشاروں کی زبان پر حاوی ہو گئی ہے لیکن مکمل طو رپر نہیں۔ اب مفتوع
فاتح کی لونڈی بن گئی ہے۔ اسی لئے کچھ قوموں میں اشاروں کی زبان کا وجود
نوکروں، ماتحتوں اور ان لوگوں کی زبان کی حیثیت سے رہ گیا ہے جو کمتر سمجھے
جاتے ہیں۔
اکتوبر کے عظیم سوشلسٹ انقلاب سے پہلے قفقاز کے آرمینیائی دیہاتوں میں عورت
کو اپنے شوہر کے علاوہ کسی مرد سے بولنے کی اجازت نہ تھی۔ جب کسی دوسرے
آدمی سے اسے کچھ کہنا ہوتا تو اس کو اشاروں کی زبان استعمال کرنی پڑتی۔
شام، ایران اور دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں میں اشاروں کی زبان تھی۔ مثلاً
شاہ ایران کے محل میں ملازمین کو صر ف اشاروں کی زبان استعمال کرنے کی
اجازت تھی۔ وہ صرف اپنے برابر والوں سے الفاظ میں بات چیت کر سکتے تھے۔ یہ
بدقسمت لوگ واقعی ”آزادی تقریر” سے محروم تھے۔
اس طرح ہمیں اس ماضی کی باقیات ملتی ہیں جو مدتوں ہوئے معدوم ہو چکا ہے۔
آدمی اپنا دماغ حاصل کرتا ہے
جنگل میں ہر جانور ان ہزاروں سگنلوں کو سنتا ہے جو اس کو چاروں طرف سے
پہنچتے ہیں اور ان سے چوکنا رہتا ہے۔
ایک ٹہنی چرچرائی۔ ممکن ہے دشمن ہو۔ اور جانور بھاگنے یا اپنی مدافعت کے
لئے تیار ہو جاتا ہے۔
زور کی گرج ہوتی ہے، ہوا جنگل کے درختوں کو چیرتی، شاخوں کی پتیاں بکھیرتی
ہوئی چلتی ہے۔ جانور طوفان سے بچنے کے لئے اپنے گھونسلوں یا بھٹوں میں چھپ
جاتے ہیں۔
جب سڑتی ہوئی پتیوں اور کھمبیوں کی مہک کے ساتھ مل کر شکار کی بو نم زمین
پر پھیلتی ہے تو جانور اس بو کے ذریعے شکار کا پیچھا کرتا ہے۔
ہر سرسراہٹ، ہر بو، گھاس میںہر نشان، ہر چیخ یا سیٹی کچھ نہ کچھ معنی رکھتی
ہے اور اس کی طرف فوراً توجہ کرنی چاہئے۔
ماقبل تاریخ کا آدمی بھی بیرونی دنیا کے سگنل سنا کرتا تھا۔ بہر حال اس نے
دوسرے قسم کے سگنلوں کو بھی سمجھنا جلد ہی سیکھ لیا۔ یہ ایسے سگنل تھے جو
اس کے جرگے کے لوگ اس کو دیتے تھے۔
مثلاً ماقبل تاریخ کا کوئی شکاری جنگل میں کسی بارہ سنگھے کے نشانات دیکھتا
تو وہ ہاتھ ہلا کر دوسرے شکاریوں کو اس کے بارے میں سگنل دیتا۔ دوسرے
شکاری جانور کو نہیں دیکھتے تھے لیکن سگنل سے چوکس ہو جاتے تھے۔ وہ اپنے
اسلحہ کو زیادہ مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے جیسے کہ انہوں نے خود بارہ سنگھے کی
بڑی بڑی سینگیں او رچوکنے کان دیکھ لئے ہوں۔
اسی طرح بولی بھی ایک سگنل بن گئی، ان سگنلوں کے علاوہ جو قدرت نے آدمی کو
عطا کئے تھے، ایسا سگنل جس کے ذریعے ایک جرگے کے ممبر ایک دوسرے سے باتیں
کرتے تھے۔
مشہور روسی سائنس داں ایوان پاولوف نے اپنی ایک تصنیف میں انسانی بولی کو
”سگنلوں کے بارے میں سگنل” کہا ہے۔
پہلے تو یہ سگنل صرف آوازوں اور اشاروں ہی کی صورت میں تھے۔ ان کو آدمی کی
آنکھیں اور کان موصول کرتے تھے اور ان کو دماغ کی طرف اس طرح بھیج دیتے تھے
جیسے کوئی سگنل مرکزی ٹیلی فون اسٹیشن کو جاتا ہے۔ جب دماغ کو ”سگنلوں کے
بارے میں سگنل” ملتا مثلاً ”جانور آرہا ہے” تو دماغ فوراً حکم دیتا: ہاتھو!
تم اپنا بھالا مضبوطی سے پکڑ لو۔ آنکھو! جھاڑیوں کی طرف اچھی طرح نگراں
رہو۔ کانو! ہر سرسراہٹ اور ٹہنیوں کی چرچراہٹ کی آواز سنو۔ جانور ابھی آنکھ
اور نشانے کی زد سے دور ہوتا لیکن شکاری اس کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
اشارات اور جذبات میں جتنا اضافہ ہوتا گیا اتنے ہی اکثر ”سگنلوں کے بارے
میںسگنل”دماغ کوپہنچنے لگے اور ”مرکزی اسٹیشن” کاکام بڑھنے لگا جو انسانی
کھوپڑی کے پیشانی والے سرے میں ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ”مرکزی
اسٹیشن” میں توسیع ہوتی رہنی چاہئے۔ دماغ کے خلیے برابر بڑھتے گئے اورا ن
کے درمیان سلسلے زیادہ پیچیدہ ہوتے گئے۔ دماغ خود زیادہ بڑا ہو گیا۔
نیان ڈیر تھال آدمی کا دماغ Pithecanthropus کے دماغ سے چار پانچ سو مکعب
سنٹی میٹر زیادہ بڑا ہوتا تھا۔ ماقبل تاریخ کے آدمی دماغ جتنابڑھتا گیا
اتنا زیادہ وہ سوچنے لگا۔
جب وہ کوئی ایسا سگنل دیکھتا یاسنتا جس کا مطلب ”سورج” ہوتا تو وہ سورج کے
بارے میں سوچتاچاہے اس وقت آدھی رات ہی کیوں نہ ہوتی۔
مشترکہ کام نے آدمی کو بولنا سکھایا اور جب اس نے بولنا سیکھ لیا تو سوچنا
بھی سیکھا۔آدمی کو اس کا دماغ قدرت سے بطور تحفہ نہیں ملا۔ اس نے اس کو
اپنے ہاتھوں کی محنت سے حاصل کیا۔
ہاتھوں کی جگہ زبان نے کیسے لی
جب بہت کم اوزار تھے اور ماقبل تاریخ کے آدمی کا تجربہ بھی بہت محدود تھا
تب انتہائی سادہ اشارے بھی ایک دوسرے کو ہنر سکھانے کے لئے کافی تھے۔
لیکن آدمی کا کام جتنا ہی پیچیدہ ہوتا گیا اس کے اشارے بھی اتنے ہی پیچیدہ
ہوتے گئے۔ ہر چیز کے لئے ایک خاص اشارہ ضروری ہو گیا۔اس اشارے کو چیز کی
وضاحت بالکل ٹھیک ٹھیک کرنی پڑتی تھی۔ اس طرح تصویری اشاروں کا وجود ہوا۔
آدمی جانوروں، اوزاروں اور دوسری چیزوں کی تصویری ہوا میں بنانے لگا۔
مثلاً وہ کسی سیہی کے بارے میں بتانا چاہتا تو صرف اس کی تصویر کشی ہی نہ
کرتا بلکہ ایک لمحے کے لئے خود مجسم سیہی بن جاتا۔ وہ دوسروں کو دکھاتا کہ
خارپشت کیسے زمین کھودتی ہے اور اس کو اپنے پنجوں سے ہٹاتی ہے۔ اس کے کانٹے
کیسے نوکیلے ہوتے ہیں۔
اس کہانی کا اظہار خاموش حرکات وسکنات کے ذریعے کرنے کے لئے ماقبل تاریخ کے
آدمی کو بہت ہی نگراں رہنا پڑتا تھا، بالکل ہمارے زمانے کے سچے فن کار کی
طرح۔
جب تم یہ کہتے ہو کہ ”میں نے پانی پیا” تو جس شخص کو یہ بتا رہے ہو اس کو
تمہاری بات سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ تم نے کسی گلاس، بوتل یا ہاتھ کے چلو سے
پیا۔
وہ آدمی جو اشاروں کی زبان جانتا ہے اس بات کو دوسرے طریقے سے کہے گا۔ وہ
اپنے ہاتھ کا چلو منہ تک لائے گا اور خیالی پانی پئے گا۔ جو لوگ اس کو
دیکھیں گے وہ سمجھ سکیں گے کہ پانی کتنا مزیدار، ٹھنڈا اور تازگی بخشنے
والا تھا۔
ہم صرف ”شکار” کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن ماقبل تاریخ کا آدمی شکار کے
پورے منظر کو ادا کر کے دکھاتا تھا۔
اشاروں کی زبان بیک وقت بہت پر معنی اور محدود بھی ہوتی تھی۔ یہ پر معنی
ہوتی تھی کیونکہ یہ واقعہ یا چیز کی بہت ہی صاف تصویر کشی کرتی تھی۔ لیکن
یہ محدود بھی تھی۔ اشاروں کی زبان میں تم اپنی دائیں یا بائیں آنکھ کے بارے
میں بتا سکتے تھے لیکن صرف ”آنکھ” بتانابہت مشکل تھا۔ تم کسی چیز کو بتانے
کیلئے اشارے استعمال کر سکتے تھے لیکن کوئی اشارہ کسی مجرد خیال کا اظہار
نہیں کر سکتا تھا۔
اشاروں کی زبان میں دوسری خامیاں بھی تھیں۔ اشاروں کی زبان میں تم رات میں
کچھ نہیںکہہ سکتے تھے کیونکہ رات کے اندھیرے میں چاہے جتنے زور دار اشارے
کئے جائیں وہ دیکھے نہیں جا سکتے۔ اس کے علاوہ دن کی روشنی میں بھی لوگ ایک
دوسرے کے اشارے کبھی کبھی نہیں سمجھ پاتے تھے۔
میدانوںمیںلوگ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے سے اشاروں کی زبان میں بول سکتے تھے
لیکن جنگل میں جب شکاری ایک دوسرے سے گھنی جھاڑیوں کی وجہ سے الگ ہو جاتے
تھے تو یہ ناممکن ہوتا تھا۔
اب لوگوں کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے آواز کا
استعمال کریں۔ پہلے پہل تو ماقبل تاریخ کے آدمی کی زبان اور گلا بہت ہی
نافرماں بر دار تھے۔ ایک آواز اور دوسری آواز میں بہت کم فرق ہوتا تھا۔ الگ
آوازیں مل کر کوئی غراہٹ، غل یا چیخ بن جاتی تھیں۔ زبان سے صاف الفاظ ادا
کرنے میں آدمی کو بہت زمانہ لگ گیا۔
زبان کی حرکتیں ایسے ا شارے تھیں جو سب سے کم نظر آتے تھے لیکن ان کا بڑا
فائدہ یہ تھا کہ وہ سنے جا سکتے تھے۔
ابتدا میں باآوا ز بات چیت اشاروں کی زبان سے بہت مشابہہ تھی۔ وہ ابھی اسی
طرح تصویروں کی زبان تھی اور اسی طرح بہت صفائی اور سچائی سے ہر چیز اور ہر
حرکت کی تصویر کشی کرتی تھی۔
ایک قبیلے کے لوگ صرف ”چلنا” نہیں کہتے۔ وہ کہتے ہیں: سنبھل کرچلنا، بھاری
پن سے موٹے آدمیوں کی طرح چنا، تیزی سے دوڑنا، لڑکھڑا کر چلنا، ہلکے سے
لنگڑا کر اور سر آگے جھکا کر چلنا وغیرہ۔
ان میں سے ہر جملہ صوتی تصویر ہے جو آوازوں میں ایک شخص کی چال کی ہر تفصیل
بتاتا ہے۔ ان میں سنبھل کر قدم رکھنا، لمبے آدمی کے بڑے بڑے ڈگ اور اس
آدمی کے قدم ہیں جو اپنے گھٹنے ذرا بھی نہیں جھکاتا۔
جتنی چالیں ہیں اتنی ہی طرح کے جملے ان کے اظہار کے لئے ہیں۔ غرض اس طرح
تصویری نشان کی جگہ صوتی نشان نے لے لی اور اس طرح ماقبل تاریخ کے انسان نے
اشاروں اور الفاظ میں باتیں کرنا سیکھا۔
دریا اور ااس کے وسائل
ہم نے ماضی کے سفر کر کے کیا دریافت کیا؟ اس کھوجی سیاح کی طرح جو دریا کے
بہائو کے اوپر جاتے ہوئے اس کا منبع معلوم کرتا ہے ہم اس چھوٹے سے چشمے تک
پہنچے ہیںجس سے انسانی تجربات کا زبردست دریا نکلا ہے۔ یہاں دریا کے منبع
پر ہمیں انسانی سماج، زبان اور عقل کی ابتدا بھی دکھائی دیتی ہے۔ جیسے کوئی
دریا ہر بار کسی معاون دریا کے ملنے پر گہرا ہوتا جاتا ہے اسی طرح انسانی
تجربے کا دریا بھی ہر نسل کے تجربے سے گہرا اور چوڑا ہوتا جاتا ہے۔
ماضی میں نسلیں یکے بعد دیگر غائب ہوتی گئیں۔ آدمی اور قبیلے بلا کسی نشان
کے غائب ہو گئے، شہر اور گائوں تباہ ہو کر خاک میں مل گئے اور ہمیشہ کے لئے
کھو گئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو وقت کی
تباہ کن طاقت کو روک سکے۔ لیکن انسان کا جمع کیا ہوا تجربہ محفوظ رہا۔ اس
نے وقت پر فتح حاصل کر لی اور ہماری زبان، ہنر اور سائنس میں رچ بس گیا۔
زبان کا ہر لفظ، کام میںہر حرکت، سائنس میںہر نظریہ ماضی کی تمام نسلوں کا
جمع کیا ہوا تجربہ ہے۔
ان نسلوں کی محنت رائگاں نہیں گئی اس طرح جس طرح دریا کا کوئی بھی معاون
دریا ضائع نہیں ہوتا۔ ان تمام لوگوں کی محنت جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور
اس وقت موجود ہیں انسانی تجربوں کے دریا میں سمٹ آئی ہے۔
اچھا تو ہم دریا کے منبع پر پہنچ گئے جہاں سے ہماری تمام سرگرمیوں کی ابتدا
ہوتی ہے۔ اس طرح اس آدمی کا ظہور ہوا جو کام کرتا ہے، بولتا ہے اور سوچتا
ہے۔
چھٹا باب
چھوڑے ہوئے گھر میں
جب لوگ کسی گھر کو ہمیشہ کے لئے چھوڑتے ہیں تو ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں ضرور
رہ جاتی ہیں۔ کاغذات، برتنوں کے ٹوٹے ٹکڑے اور خالی ڈبے وغیرہ خالی کمروں
میں پھیلے ہوتے ہیں۔ ٹھنڈے چھولھے کے پاس ٹوٹے ہوئے برتن بھانڈے ہوتے ہیں
او رکھڑکی پر ٹوٹا لیمپ اس بدنظمی کو بڑی حسرت سے دیکھتا ہے۔
کسی دور کے کونے میں ٹوٹی ہوئی آرام کرسی اونگھتی نظر آتی ہے۔ وہ مکینوں کے
ساتھ نہیں گئی کیونکہ اس کی ایک ٹانگ ہی غائب تھی۔
ان ٹوٹی پھوٹی باقیات سے اس کا اندازہ لگانا ذرا مشکل ہے کہ خاندان کیسے
یہاں رہتا تھا۔ لیکن ماہر آثار قدیمہ کے سامنے یہی فریضہ آتا ہے۔ وہ ہمیشہ
سب سے آخر میں گھر کے اندر داخل ہوتا ہے۔ دراصل اس کو بہت خوش قسمت سمجھنا
چاہئے اگر اسے کوئی گھر مل جائے کیونکہ عام طور پر وہ اس زمانے میں وہاں
پہنچتا ہے جب آخری مکین ہزاروں سال پہلے وہ گھر چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ کبھی
کبھی تو اس کو صرف دیواروں کے کھنڈر اوربنیاد کے کچھ حصے ہی ملتے ہیں۔ یہاں
ہر ٹھیکرا، ہر ٹکڑا خوش قسمتی کی علامت ہے۔
ایک پرانا گھر اس آدمی کو بہت کچھ بتا سکتا ہے جو اس کی زبان سمجھتا ہو!
پرانے پتھروں والے برجوں اور کائی سے ڈھکی ہوئی دیواروں نے نہ جانے کتنے
لوگ اور واقعات دیکھے ہیں! لیکن ان گھروں نے جو دنیامیں سب سے پرانے ہیں
یعنی ماقبل تاریخ کے آدمیوں کے غاروں نے اس سے کہیں زیادہ دیکھا ہے۔
ایسے غار ہیں جن میں لوگ پچاس ہزار سال پہلے رہتے تھے!خوش قسمتی سے پہاڑ
بہت مضبوط ہوتے ہیں اورغاروں کی دیواریںاس طرح نہیں گرتی ہیں جیسے آدمیوں
کے گھروں کی دیواریں۔
یہ رہا ایک غار۔ اس کے رہنے والے بدلتے رہے ہیں۔ اس گھر کا پہلا مکین ایک
زمین دوز چشمہ تھا۔ وہ یہاں مٹی، ریت اور چھوٹے چھوٹے پتھر لایا تھا۔
پھر پانی ختم ہو گیا۔ لوگ آکر غار میں رہنے لگے۔ پتھر کاٹنے کے جو بھونڈے
اوزار یہاں مٹی میں ملے ہیں وہ ہمیں ان لوگوں کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔
قدیم آدمی ان اوزاروں کو جانوروں کے جسم کاٹنے، ہڈی سے گوشت الگ کرنے اور
گودا نکالنے کے لئے ہڈیوں کو تورنے کے کام میں لاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا
کہ یہ لوگ شکاری تھے۔
بہت سال گزر گئے۔ شکاریوں نے غار چھوڑ دیا۔ پھر نئے رہنے والے آگئے۔ غار کی
دیواریں چکنی اور چمک دار ہو گئیں۔ غار میں رہنے والے ریچھ نے اپنا جھبرا
بدن دیواروں سے رگڑ رگڑ کر ان کو ایسا بنا دیا۔ اور یہ رہا ریچھ بلکہ یہ
کہناصحیح ہو گا کہ اس کی کھوپڑی جس میں چوڑی پیشانی اور تنگ تھوتھن ہے۔
زمین کی اوپری پرت میں انسانی آبادی کے مزید نشانات ملتے ہیں۔ یہ ہیں الائو
کے کوئلے اور راکھ، ٹوٹی ہوئی ہڈیاں، پتھروں اور ہڈیوں کے اوزار۔ ایک بار
پھر آدمی غار میں رہنے لگے۔ ہم انہیں دیکھ تو نہیں سکتے لیکن ان کے بارے
میں بہت سی باتیں معلوم کر سکتے ہیں۔ ہمیں صرف وہ چیزیں دیکھنی ہیں جو
انہوں نے چھوڑی ہیں۔
ناتجربے کا ر آدمی تو یہی کہے گا کہ یہ تو پتھر کے ٹکڑے ہیں۔لیکن اگر تم ان
کو غور سے دیکھو تو یہ بھونڈے قسم کے ایسے ڈیزائن ہیںجو آئندہ چل کر چھری
اور سوجے بنے۔ ان میں ایک اوزار میں چاقو کی ایسی کاٹنے والی دھار ہے اور
دوسرے میں تیز نوک جیسے سوجے میں ہوتی ہے۔
یہ ہمارے اوزاروں کے اجداد ہیں۔ سب سے پرانا ہمارے ہتھوڑے کا باوا ہے۔یہ
گول پتھر کا ہے۔
اگرہم غار کی تہہ میں کوڑے کرکٹ کو کھودیں تو ہتھوڑے سے قریب ہی نہائی ملے
گی۔
ہتھوڑا پتھر کا ہے اور نہائی ہڈی کی۔
اور یہ بالکل ان نہائیوں کی طرح نہیں ہے جو ہم نے دیکھی ہیں حالانکہ اس نے
بہت اچھی طرح کام دیا ہے۔ اس میں بہت سے کٹائو اور دندانے ہیں کیونکہ جب
کوئی اوزار بنایا جاتا تھا تو نہائی کو چوٹیں برداشت کرنی پڑتی تھیں۔
ہم ان اوزاروں سے کیا معلومات حاصل کر سکتے ہیں؟
وہ ہمیں بتاتے ہیںکہ اس غار کے نئے رہنے والے جو آدمی تھے وہ پہلے والوں سے
بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ جو ہزاروں سال گزرے ہیں ان میں انسان کی محنت
بہت قسموں کی اور پیچیدہ ہو گئی ہے۔
پہلے رہنے والے ایک ہی دھار دار پتھر کو سب کاموں کے لئے استعمال کرتے تھے۔
اب کاٹنے، چھیدنے، چھیلنے اور درختوں کو کاٹنے کے لئے الگ الگ اوزار ہونے
لگے۔ تیز نوک والا اوزار جانوروں کی ان کھالوں میں سوراخ بنانے کے لئے تھا
جن کو کاٹ کر کپڑے بنائے جاتے تھے۔ دندانے دار تیز دھار کا اوزار گوشت
کاٹنے اور کھالوں کو چھیلنے کے لئے استعمال ہوتاتھا۔ تیز نوکیلے سروالا
اوزار شکاری برچھا تھا۔
اب آدمی کے پاس زیادہ کام بھی تھا اور زیادہ فکریں بھی۔ زمانہ بدل گیا تھا،
آب وہوا سرد اور سخت تھی۔ اب آدمی کو کپڑوں کی جو ریچھوں کی کھال سے بنتے
تھے، جاڑوں کے لئے غذا جمع کرنے کی اور رہنے کے لئے گرم جگہ کی فکر کی
ضرورت تھی۔ بہت سے مختلف قسم کے کام تھے اور ان کے لئے بہت طرح کے اوزار
بھی۔
اس طرح ہمیں اپنے اجداد کی رہائش گاہوں میں اپنے اوزاروں کے اجداد ملتے
ہیں۔
بہر حال، ہم کو وہی چیزیں ملتی ہیں جن کو وقت نے محفوظ رکھا ہے اور وقت
اچھا محافظ نہیں ہے۔ وہ صرف ایسی چیزوں کو محفوظ رکھتا ہے جو بہت ہی پائدار
چیزوں کی بنی ہوتی ہیں۔ اس نے صرف ایسی چیزیں محفوظ رکھیں جو پتھر یا ہڈی
کی بنی ہوئی تھیں۔ لکری یا جانوروں کی کھال کی بنی ہوئی چیزیں وقت نے جلد
ہی ضایع کر دیں۔ اسی لئے ہم کو سوجا توملتا ہے لیکن وہ کپڑے نوکدار پتھر
یلا حصہ تو ملتا ہے لیکن لکڑی کا دستہ نہیں ملتا۔
جو چیزیں غائب ہو گئی ہیں ان کے متعلق اندازہ لگانا صرف انہیں چیزوں سے
ممکن ہے جو باقی رہ گئی ہیں ان دھندلے نشانات اور ٹکڑوں سے جو ہمیں ملتے
ہیں ہزاروں سال پہلے کی چیزوں کے خاکے تیار کرنا ہیں۔
پھر بھی ہم اپنی کھوج جاری رکھیں گے۔
جب کوئی ماہر آثار قدیمہ کسی کھنڈر کی کھدائی شروع کرتا ہے تو وہ عام طور
پر اپنا کام اوپر سے شروع کرتا ہے اور نیچے کی طرف جاتا ہے۔ پہلے سب سے
اوپر کی پرتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، پھر وہ اور گہرا کھودتا ہے، زمین کی
گہرائیوں میں، تاریخ کی گہرائیوں میں۔ ماہر آثار قدیمہ کتاب کو الٹا پڑھتا
ہے۔ وہ بالکل آخری باب سے شروع کرتا ہے اور پہلے باب پر ختم کرتا ہے۔ ہم نے
اپنی کہانی کچھ اور ہی طرح شروع کی ہے۔ ہم نے بہت ہی نچلی پرتوں سے شروع
کیا ہے، غار کی تاریخ کے پہلے بابوں سے۔ اور اب ہم رفتہ رفتہ اوپر کی طرف
جائیں گے، جدید زمانوں سے زیادہ قریب ہوتے جائیں گے۔
اچھا، تو اس کے بعد غار میں کیا ہوا؟
غار کی زمین کی پرتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے متعدد
بار غار کو چھوڑا اور پھر واپس آئے۔ جب غار میں لوگ نہیں رہتے تھے تو وہاں
لکڑ بگھے اور ریچھ رہنے لگتے تھے او اس کے اندر مٹی اور کوڑے کرکٹ کی پرت
کی پرت جمتی جاتی تھی۔ چھت کی چٹان کے ٹکڑے غار کے اندر فرش پر گر جاتے اور
بہت برسوں بعد جب اس غار کو کوئی نیا انسانی قبیلہ ڈھونڈ نکالتا تو وہاں
کوئی ایسی چیز نہ ہوتی جو اس کو پہلے باسیوں کے بارے میں بتاتی۔
سال، صدیاں اور ہزار سالہ عہد گزرتے گئے۔ لوگوں نے کھلی جگہوں میں مکانات
بنانا شروع کئے اور غاروں کی پرانی پناہ گاہوں کو چھوڑ دیا اور بالآخر ان
کو بالکل ترک کر دیا۔ کبھی کبھار سر سبز پہاڑی چراگاہوں میں گلے چراتے ہوئے
گلہ بان ایک دو دن کے لئے وہاں ٹھہر جاتے یا کوئی مسافر بارش سے بچنے کے
لئے غار میں چلا آتا۔
اور پھر غار کی تاریخ کا آخری باب شروع ہوا۔ لوگ ایک بار پھر غار میں آئے۔
لیکن اس بار وہ پناہ لینے نہیں آئے۔ وہ ان لوگوں کے بارے میں جو یہاں رہ
چکے تھے۔ تمام امکانی باتیں دریافت کرنے آئے تھے۔
یہ تازہ وارد لوگ پتھر کے قدیم اوزاروں کو کھود کر نکالنے کے لئے فولاد کے
جدید آلات لائے۔
اوریہ ماضی کی تحقیقات کرنے والے یکے بعد دیگرے غار کی پرت کھودتے اور اس
کی تاریخ شروع سے آخر تک پڑھتے گئے۔
ان کو جو اوزار ملے ان کا مقابلہ کر کے وہ دیکھ سکے کہ کس طرح مختلف ہنر
اور انسانی تجربہ نسلاً بعد نسلاً بڑھتے گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ بھدے
اوزاروں کی جگہ رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ زیادہ اچھے اوزار لیتے گئے۔ اس طرح
بھدی دستی کلہاڑی کی جگہ تکونی کلہاڑی اور نیم حلقے والے تیروں نے لے لی
اور بعد میں طرح طرح کے برچھے، چاقو اور سوجے وغیرہ نکلے جو اچھی طرح ترشے
ہوئے پتھر کے تھے۔ پھر نئی چیزوں کے بنے ہوئے اوزار، ہڈیوں اور سینگوں کے
بنے ہوئے اوزار پتھر کے اوزاروں کے ساتھ آملے۔ اب ہڈیوں، جانوروں کی کھالوں
اورلکڑیوں کو کاٹنے وغیرہ کے لئے الگ الگ مخصوص اوزار ہو گئے۔ قدیم آدمی
نے ہڈیوںکو کاٹنے، کھالوں کو چھیلنے اور سمندری گھونگھوں میں سوراخ کرنے کے
لئے پتھر کے اوزار استعمال کئے۔ اس کے مصنوعی پنجے اور دانت زیادہ تیز اور
زیادہ مختلف قسم کے ہونے لگے اور جو ہاتھ وہ اپنے شکار کو پکڑنے کے لئے
استعمال کرتا تھا زیادہ دراز ہونے لگا۔
لمبا ہاتھ
جب قدیم آدمی نے ایک ڈنڈے سے نوکیلا پتھر باندھ کر برچھا بنایا تو اس نے
اپنے ہاتھ کو لمبا کر لیا۔
اس سے وہ زیادہ مضبوط اور باہمت بن گیا۔
اس سے پہلے اگر وہ کہیں ریچھ کے نزدیک آجاتا تھا تو خوف سے بھاگتا تھا
کیونکہ وہ اس غار میں رہنے والے جھبرے جانور سے بہت ڈرتا تھا۔ وہ کسی چھوٹے
جانور کو بلا کسی مشکل کے پکڑ کر مار ڈالتا تھا لیکن ریچھ کا مقابلہ کرنے
کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ ریچھ کے تیز پنجوں سے
نکل کر نہیں جا سکے گا۔
لیکن یہ اس کے برچھا بنانے سے پہلے کی بات تھی۔ برچھے نے اس کو باہمت بنا
دیا تھا۔ اب وہ ریچھ کو دیکھ کر خوف سے بھاگتا نہیں تھا بلکہ اس پر جرات سے
حملہ کرتا تھا۔ ریچھ اپنے پچھلے پیروں پر کھڑا ہو کر شکاری پر حملہ کرتا
تھا لیکن قبل اس کے کہ ریچھ کے پنجے شکاری تک پہنچیں، شکاری کے برچھے کی
تیز پتھریلی نوک اس کے بالوں والے پیٹ میں پیوست ہو جاتی تھی کیونکہ برچھا
ریچھ کے پنجوں سے کہیں زیادہ لمبا تھا۔
زخمی ریچھ غصے میں تیزی سے جھپٹتا تھا اور برچھا اس کے پیٹ میں اور گہرا
اتر جاتا تھا۔
لیکن اگر کہیں شکاری کا برچھا ٹوٹ جاتا تو پھر اس کے لئے کوئی امید نہ
رہتی۔ پھر تو ریچھ اس کو دبوچ کر ختم کر دیتا تھا۔
بہر حال، ریچھ کو بہت کم جیت ہوتی تھی۔ تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے
میں آدمی کبھی تنہا شکار کھیلنے نہیں نکلتا تھا۔ خطرے کی پہلی آہٹ پرپورا
غول دوڑ پڑتا تھا۔ لوگ ریچھ کو گھیر کر اپنے پتھر کے چاقوئوں سے ختم کر
دیتے تھے۔
برچھے کی وجہ سے قدیم زمانے کے آدمی کو ایسے شکار نصیب ہونے لگے جن کا اس
نے پہلے خواب تک نہیں دیکھا تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ کو اب بھی غاروں کے
اندر گہرائیوں میں پتھر کی سلوں کے بنے ہوئے گودام ملتے ہیں۔ جب یہ سلیں
ہٹائی جاتی ہیں تو ان کے نیچے سے ریچھ کی ہڈیوں کے بڑے بڑے ڈھیر ملتے ہیں۔
اس کا مطلب یہی ہوا کہ شکاری کا میاب تھے کیونکہ صاف ظاہر ہے ان کے پاس
ذخیرہ کرنے کے لئے ریچھ کا کافی گوشت ہوتا تھا۔
اگر ریچھ جیسے بھدے اور بھاری جانور کا شکار کرنا ہوتا تو برچھا ہی سب سے
اچھا اوزار ہوتا۔ لیکن آدمی کو اور بھی جانوروں کا شکار کرنا ہوتا تھا۔
ایسے جانوروں کا جو خود اس سے زیادہ تیز اور چست چالاک تھے۔
میدانوں میں گھومتے ہوئے شکاری جنگلی گھوڑوں اور ارنا بھینسوں کے بڑے بڑے
غولوں سے دوچار ہوتے۔ وہ چرتے ہوئے جانوروں کے قریب چپکے چپکے رینگ کر
پہنچتے لیکن ذرا سی آہٹ یا سرسراہٹ پر یہ غول چوکڑیاں بھرتا دور بھاگ جاتا۔
قدیم آدمی کے بازو اچھی گھوڑوں اور ارنا بھینسوں کے شکار کے لئے بہت چھوٹے
تھے۔ لیکن پھر شکار نے خود اس کو ایک نئی اور بہت اچھی چیز مہیا کر دی۔ یہ
چیز تھی ہڈی۔
اس نے اپنے پتھر کے چاقو سے ہڈی کا ایک ہلکا اور تیز نوکیلا اوزار بنایا
اور اس کو ایک چھوٹے لکڑی کے دستے سے باندھ دیا۔ اب اس کے پاس ایک نیا
اوزار ہو گیا۔ پھینک کر مارنے ولا برچھا (Javelin)۔
شکاری اپنا بھاری برچھا کسی تیز دوڑتے ہوئے گھوڑے پر نہیں پھینک سکتا تھا
لیکن وہ یہ ہلکا برچھا اس پر پھینک سکتا تھا کیونکہ وہ بہت دور تک جاتا
تھا۔ اب آدمی کا ہاتھ اور لمبا ہو گیا۔ اب وہ ایک اڑتے ہوئے ہتھیار یعنی
Javelinکے ذریعے تیز دوڑتے ہوئے گھوڑے کو غائب ہونے سے پہلے ہی مار سکتا
تھا۔
یہ سچ ہے کہ کسی بھاگتے ہوئے نشانے پر مارنا آسان کام نہ تھا۔ اس کے لئے
ضروری تھا کہ آدمی کا بازو مضبوط ہو اور آنکھ بہت سدھی ہوئی۔
شکاری لڑکپن سے برچھا پھینکنا سیکھتا تھا۔ پھر یہ کوئی غیر معمولی بات
نہیںہوتی تھی کہ سو پھینکے ہوئے برچھوں میں صرف درجن ہی بھر نشانے پر پڑتے
تھے۔
صدیاں لاکھوں برسوں میں بدلتی گئیں۔ جنگلی گھوڑوں اور ارنا بھینسوں کے غول
کم پڑنے لگے۔ قدیم آدمی ان کے خاتمے کا بڑی حد تک ذمے دار تھا۔ اب اکثر
شکاری خالی ہاتھ گھر لوٹنے لگے۔ ان کو ایک نئے ہتھیار کی ضرورت تھی، ایسے
ہتھیار کی جو اور دور سے نشانے پر مارا جا سکے۔ آدمی کو کوئی اور ہتھیار
ایجاد کرنا تھا، ایسا ہتھیار جو اس کے ہاتھ کو اور بھی زیادہ لمبا بنا سکے۔
اور اس نے ایک نیا ہتھیار بنالیا۔
اس نے ایک نیا لیکن مضبوط پودا کاٹا۔ اس کو لچکاکر محراب بنائی اور دونوں
سروں کو تانت سے باندھ دیا۔
اب شکاری کے پاس کمان ہو گئی۔ جب وہ تانت کو آہستہ سے کھینچتا تو وہ اس کے
پٹھوں کی تمام طاقت جمع کرلیتی۔ اور پھر جب وہ اس کو چھوڑتا تو یہ طاقت
فوراً منتقل ہو کر تیر میں پہنچ جاتی۔ اور تیر اس تیزی سے جاتا جیسے کوئی
عقاب اپنے شکار پر ٹوٹتا ہے۔
تیر اور Javelin دو بھائیوں سے مشابہ ہیں لیکن تیر اپنے بھائی سے ہزاروں
سال چھوٹا ہے۔
آدمی کو تیر ایجا د کرنے میں ہزاروں سال لگ گئے۔ پہلے وہ کمان کے ذریعے تیر
نہیں بلکہ Javelinپھینکتا تھا۔ اسی لئے آدمی اپنی کمان اتنی بڑی بناتا تھا
جو اس کے قد کے برابر ہوتی تھی۔
اس طرح آدمی نے اپنے کمزور اور چھوٹے بازوئوں کو لمبا اور طاقتور بنایا۔ جب
اس نے کسی ہرن کی سینگ کی نوک سے یا کسی فیل پیکر کے بڑے دانتوں سے تیز
نوکیلے ہتھیار بنانا سیکھ لیا تو اس نے جانوروں کے اپنے ہتھیاروں یعنی
سینگوں اور دانتون کو خود انہیں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اور اس
بات نے آدمی کو تمام جاندار مخلوق میں سب سے زیادہ طاقتور بنا دیا۔
وہ ہاتھ جو برچھا پھینکتا اور کمان کی تانت کھینچتا تھا اب کوئی معمولی
ہاتھ نہ تھا۔ وہ ایک دیو کا ہاتھ تھا۔
اور جب یہ نوجوان دیو شکار کے لئے جاتا تھا تو وہ ایک جانور کو تاک لگا کر
نہیں مارتا تھا۔ وہ پورے کے پورے غولوں کا شکار کرتا تھا۔
جیتا جاگتا آبشار
سولیو تیرے (فرانس) میں ایک ڈھلوان پہاڑی ہے۔ اس پہاڑی کے دامن میں ماہرین
آثار قدیمہ نے ہڈیوں کا ایک زبردست ڈھیر دریافت کیا۔ اس میں میموتھوں کی
شانے کی ہڈیاں، قدیم زمانے کے بیلوں کی سینگیں اور غار میں رہنے والے
ریچھوں کی کھوپڑیاں تھیں۔ جب سائنس دان تمام ہڈیوں کو چھانٹ چکے تو انہوں
نے دیکھا کہ ان میں گھوڑوں کی کم از کم ایک لاکھ ہڈیاں تھیں۔
گھوڑوں کا اتنا بڑا قبرستان کہا ں سے آیا؟
اور زیادہ گہرے جائزے پر انہوں نے دیکھا کہ بہت سی ہڈیاں چٹخی، ٹوٹی اور
جلی ہوئی تھیں۔ یہ بات صاف ہو گئی کہ پرانے زمانے کے باورچیوں کے ہاتھوں
میں پہنچنے کے بعد یہ ہڈیاں یہاں آئی تھیں۔ گھوڑوں کا یہ غیر معمولی
قبرستان کسی زبردست باورچی خانے کے کوڑا گھر کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
ایسا زبردست کوڑا گھر ایک سال میں تو نہیں پیدا ہو سکتا تھا۔ اس لئے یہ بات
صاف تھی کہ یہاں لوگ بہت، بہت برسوں تک رہے تھے۔
لیکن یہ کوڑا گھر یہاں، پہاڑی کے دامن میں کیوں تھا؟ کیا یہ محض اتفاق کی
بات تھی کہ قدیم زمانے کے شکاریوں نے میدانوں کی ہموار زمین کی بجائے اپنا
پڑائو یہاں بنایا تھا؟
غالباً یہی ہوا تھا۔
جب وہ گھوڑوں کے غول میدانوں میں دیکھتے تھے تو شکاری اپنے کو لمبی لمبی
گھاس میں چھپاتے ہوئے بڑی احتیاط سے آگے بڑھتے تھے۔ ہر شکاری کے پاس کئی
برچھے ہوتے تھے۔ آگے والے شکاری دوسروں کو اشارہ کرتے تھے کہ گھوڑے کہاں
ہیں، کتنے ہیں اور کس طرف جا رہے ہیں۔
تب شکاری ایک حلقہ بنا لیتے تھے اور غول کو گھیر کر حلقہ چھوٹا کرتے جاتے
تھے۔ گھوڑے جو پہلے میدان میں سیاہ دھبوں کی طرح ہوتے تھے اب نظر آنے لگتے
تھے۔ ان کے بڑے برے سر، سبک پیر اور بدن پرجھبرے بال ہوتے۔
گھوڑوں کا غول چوکنا ہو جاتا تھا۔ وہ دشمن کی بو سونگھ کر بھاگنے کی کوشش
کرتے تھے۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان پر برچھوں کی بارش ہو جاتی تھی جیسے
لمبی چونچوں والی بے پر چڑیاں ان پر جھپٹ رہی ہوں۔
برچھے جانوروں کے پہلوئوں، پیٹھوں اور گردنوں میں پیوست ہو جاتے تھے۔اب وہ
کہاں جائیں؟ دشمن گھوڑوں کو تین طرف سے گھیر لیتا تھا۔ اس زندہ دیوار سے
جوان کے چاروں طرف اچانک کھڑی ہو گئی تھی فرار کا صرف ایک راستہ تھا۔ اب
غول کھلے ہوئے رخ کی طرف زور سے ہنہناتا ہوا شکاریوں سے بھاگتا تھا۔لیکن
شکاری تو اسی کے منتظر ہوتے تھے۔ وہ گھوڑوں کو گھیر کر اور اونچائی پر
پہاڑی کی طرف لے جاتے تھے۔ گھوڑے خوف سے بدحواس ہو کر آگے کی طرف بھاگتے
تھے۔ انہیں اس کی فکر نہیں ہوتی کہ وہ کدھر جا رہے ہیں۔ بس اٹھی ہوئی دموں
اور پسینے سے تر پیٹھوں کا ایک سیلاب ہوتا تھا جو پہاڑی کے اوپر بڑھتا تھا۔
پھر اچانک ان کے سامنے خلا آجا تا تھا۔ آگے والے گھوڑے پہاڑی کی کگر تک
پہنچ جاتے تھے۔ ان کو خطرے کا احساس ہوتا تھا۔ وہ پچھلے پیروں پر کھڑے ہو
کر زوروں سے پھنکارتے تھے۔ لیکن بہت دیر ہو چکی ہوتی تھی۔ وہ رک نہیں سکتے
تھے کیونکہ پیچھے والے گھوڑے انہیں دھکیلتے تھے۔ اور پھر یہ سیلاب ایک
آبشار کی طرح نیچے گرتا تھا اور تہہ میں پہنچ کر لاشوں اور ٹوٹے پھوٹے
جسموں کاایک ڈھیر بن جاتا۔
شکار ختم ہو جاتاتھا۔
پہاڑی کے دامن میں الائوزوروں میں جلتے تھے۔ بوڑھے شکار کو تقسیم کر دیتے
تھے جو پورے جرگے کی مشترکہ ملکیت ہوتا تھا۔ لیکن سب سے اچھے ٹکڑے ان
شکاریوں کو دئے جاتے تھے جو سب سے زیادہ بہادر اور مشاق ہوتے تھے۔
نئے لوگ
جب ہم کسی گھڑی کی گھنٹے والی سوئی دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں چلتی ہوئی نہیں
دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ایک دو گھنٹے میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سوئی اپنی جگہ
سے آگے کھسک گئی ہے۔
زندگی کے بارے میں بھی یہی بات ٹھیک ہے۔ ہم ان تمام تبدیلیوں کو فوراً نہیں
دیکھ لیتے جو ہمارے ماحول میں یا خود ہم میں ہوتی ہیں۔ ہم خیال کرتے ہیں
کہ تاریخ کی گھنٹے والی سوئی غیر متحرک ہے اور صرف متعدد سال بعد ہم اچانک
یہ دیکھتے ہیں کہ سوئی حرکت کر گئی ہے، کہ ہم خود بھی بدل گئے ہیں اور
ہمارے چاروں طرف ہر چیز مختلف ہو گئی ہے۔
ہم اپنے روزنا مچوں، فوٹوئوں، اخباروں اور کتابوں کے ذریعے پرانے اور
نئے کا موازنہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس موازنے کے لئے چیزیں ہیں۔ لیکن ہمارے
قدیم اجداد کے پاس پرانے اور نئے کے موازنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ وہ
خیال کرتے تھے کہ زندگی بے حرکت ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ پرانے
اور نئے کا موازنہ کئے بغیر تبدیلیوں کو دیکھنا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح
گھڑی کی سوئی کی حرکت ایسے ڈائل پر دیکھنا جس پر نمبر نہ پڑے ہوں۔
پتھر کے اوزار بنانے والا ہر کاریگر ان تمام حرکتوں اور طریقوں کی نقل کرتا
تھا جو اس کو یہ ہنر سکھانے والا آدمی بتاتا تھا۔ نیا گھر بساتے وقت عوتیں
چولہا ٹھیک اسی طرح بناتی تھیں جیسے ان کی دادیوں نے بنایا تھا۔ شکاری
قدیم رواج کے مطابق شکار کے لئے گھات لگاتے تھے۔
پھر بھی محسوس کئے بغیر لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنے اوزار، رہائش گاہیں اور
کام کے طریقے بدلے۔
پہلے ہر نیا اوزار بالکل پرانے اوزار کی طرح ہوتا تھا۔ پہلا javelin برچھے
سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ پہلا تیر بہت کچھ javelin سے ملتا تھا۔ لیکن تیر
اور برچھا بہت مختلف ہی اور تیر کمان سے شکار کرنا تو برچھے کے شکار سے
کہیں الگ ہے۔
صرف آدمی کے اوزار اور ہتھیار ہی نہیں بدلے تھے۔ وہ خود بھی بدل رہا تھا۔
یہ ان انسانی ڈھانچوں سے دیکھا جا سکتا ہے جو کھدائی کی مختلف جگہوں پر
پائے گئے ہیں۔ اگر اس آدمی کا مقابلہ جو پہلے پہل غار میںد اخل ہوا تھا اس
آدمی سے کریں جس نے برفانی دور کے آخر میں غار کو ترک کیا تو ہم خیال کر
سکتے ہیں کہ وہ دونوں مختلف قسم کی مخلوقات میں سے تھے۔ نیان ڈیر ٹھال آدمی
سے پہلے غار میں رہنے لگا تھا۔ اس کی پیٹھ جھکی ہوئی تھی اور بہت لڑکھڑاتا
ہوا چلتا تھا، اس کے چہرے پر نہ تو کوئی پیشانی تھی اور نہ ٹھڈی۔ لیکن
اچھے بدن والا، لمبا cro-magnon آدمی جس نے سب سے آخر میں غار چھوڑا صورت
شکل میں مشکل سے ہم سے مختلف تھا۔
”گھر کی تاریخ” کا پہلا باب
آدمی کے طریقہ زندگی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس کی رہائش گاہ میں بھی
تبدیلیاں ہوئیں۔ اگر ہم اس کی رہائش گاہ کی تاریخ لکھیں تو ہمیں غار سے
شروع کرنا ہوگا۔ یہ رہائش گاہ جو قدرت کی تخلیق تھی آدمی نے بنائی نہیں تھی
بلکہ پائی تھی۔
لیکن قدرت اچھی معمار نہیں ہے۔ جب اس نے پہاڑ اور پہاڑوں کے غار بنائے تھے
تو اس نے ذرا بھی اس کی پروا نہیں کی تھی کہ اس کے غاروں میں کوئی رہے گا
یا نہیں۔ اسی لئے جب قدیم آدمی رہنے کے لئے غاروں کی تلاش کرتا تھا تو
دیواریں گرنے والی ہوتی تھیں یا غار کا دھانہ اتنا چھوٹا ہوتا تھا کہ اس
میں سے رینگ کر جانا بھی مشکل تھا ۔
آدمیوں کا پورا غول رہائش گاہ کو ٹھیک ٹھاک کرنے میں لگ جاتا تھا۔ وہ غار
کے فرش اور دیواروں کو پتھر کے چھیلنے والے اوزاروں اور لکڑی کے ڈنڈوں سے
کھرچتے اور ہموار کرتے تھے۔
دھانے کے قریب وہ چولھے کے لئے ایک گڈھا کھود دیتے تھے اور پتھر جوڑ دیتے
تھے۔ مائیں زمین میں چھوٹے چھوٹے گڈھے کھود کر بچوں کے لئے ”پالنے” بناتی
تھیں اور گدوں کی بجائے چولھے کی گرم راکھ ان گڈھوں میں بچھائی جاتی تھے۔
غار کے دور والے گوشے میں ریچھ کے گوشت اور کھانے کی دوسری چیزوں کا ذخیرہ
ہوتا تھا۔
اس طرح قدیم زمانے کے لوگوں نے قدرت کے بنائے ہوئے غار کو اپنی محنت سے
انسانی رہائش گاہ میں تبدیلی کیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی رہائش گاہوں کو زیادہ آراستہ کرنے کی کوشش
کی۔
اگر ان کو کسی اوپر نکلی ہوئی چٹان کی معلق چھت مل جاتی تو وہ اس کی چاروں
طرف دیوار کھڑی کردیتے۔اگر کوئی ایسی جگہ مل جاتی جو چہار دیواری کا کام دے
سکتی تو وہ ان دیواروں پر چھت بنا دیتے ۔
جنوبی فرانس کے پہاڑوں میں اب بھی قدیم زمانے کی ایک رہائش گاہ کے کھنڈرات
ملتے ہیں۔ مقامی لوگوں نے اس کو ”شیطانی چولھے” کاعجیب نام دیا ہے۔ ان کا
خیال تھا کہ زبردست چٹانوں کی بنی ہوئی اس پناہ گاہ میں شاید کوئی شیطان ہی
چولھے سے گرمی حاصل کر سکتا تھا۔ اگر ان کو اپنے قدیم اجداد کے بارے میں
معلومات ہوتیں تو ان کو پتہ چلتا کہ ”شیطانی چولہا” انسانی ہاتھوں ہی نے
بنایا تھا۔
یہاں قدیم زمانے کے شکاریوں نے دو دیواریں دیکھیں جن کے اوپر ایک چٹان سایہ
کئے تھی۔ دیواریں ان پتھروں سے بن گئی تھیں جو پہاڑ سے ڈھلک کر آئے تھے۔
شکاریوں نے باقی دو دیواریں بنا کر ان دیواروں سے ملا دیا جو ان کو ملی
تھیں۔ ایک د یوار پتھر کی بڑی بڑی سلوں سے بنی تھی اور دوسری ان کھمبوں سے
جن کے درمیان درختوں کی شاخیں بنی ہوئی تھیں اور وہ جانوروں کی کھالوں سے
ڈھکے تھے۔ ہم صرف قیاس کر سکتے ہیں کہ چوتھی دیوار کیسی تھی کیونکہ وقت نے
اس کو خاک کر دیا ہے۔
یہ دیواریں ایک گڈھے کو جو زمین میں کھدا تھا گھیرے میں لئے تھیں۔ گڈھے کی
تہہ میں ماہرین آثار قدیمہ کو پتھر کے ٹکڑے اور ہڈیوں اور سینگوں کے اوزار
ملے۔
”شیطانی چولہا” آدھا گھر ہے اور آدھا غار۔یہاں سے اصلی گھر کا فاصلہ دور نہ
تھا کیونکہ ایک بار آدمی کو دو دیواریں بنانا آگیا تو اس نے جلد ہی چار
دیواریں بنانا بھی سیکھ لیا ہوگا۔
اس طرح پہلے مکان نمودار ہوئے جو نہ تو غاروں میں تھے اور نہ باہر نکلی
ہوئی چٹانوں کے سائے میں بلکہ کھلے میں تھے۔
قدیم شکاریوں کی رہائش گاہ
1925 کی خزاں کی بات ہے۔ دریائے دون کے کنارے واقع گا گار ینو گائوں کا ایک
کسان جس کا نام آنتو نوف تھا اپنے صحن میں مٹی کھود رہا تھا۔ اس کو ایک
نئے باڑے پر لگانے کے لئے اس مٹی کی ضرورت تھی۔
لیکن اس کا پھائو ڑا برابر ہڈیوں پر پڑ رہا تھا جو وہاں دفن تھیں۔ اتفاق سے
اسی وقت وہاں سے گائوں کا ٹیچر ولادیمیروف گزرا۔ آئتونوف نے اس کو پکارا
اور شکایت کی:
”سمجھ میں نہیں آتا یہ اتنی ہڈیاں کہاں سے آگئیں کہ کھودنا مشکل ہو گیا۔
میرا پھائوڑا ٹوٹتے ٹوٹتے رہ گیا۔”
شاید اگر آنتونوف نے کسی اور سے کہا ہوتا تو وہ ایک آدھہ منٹ تک رک کر چلا
جاتا۔لیکن گائوں کا یہ ٹیچر سائنس سے بڑی دلچسپی رکھتا تھا۔
وہ صحن میں آگیا اور اس نے ایک موٹے زرد دانت کے ٹکڑے کا جائزہ لیا جو ایسا
چکنا تھا جیسے گھس کر بنایا گیا ہو۔
یہ بات بالکل صاف تھی کہ ایسا بڑا دانت کسی قدیم زمانے کے دیو پیکر میموتھ
ہی کا ہو سکتا تھا۔
دریائے دون پر میموتھ! یہ واقعی حیرت کی بات تھی۔
ٹیچر نے ڈھیر بھر ہڈیاں ایک لاری پر لادیں اور قریب ترین شہر کولے گیا جہاں
ایک چھوٹا سا مقامی میوزیم تھا۔
اگر تم کبھی ایسے چھوٹے میوزیموں میں گئے ہو تو تم نے دیکھا ہو گا کہ کہاں
انتہائی عجیب چیزیں ایک ہی کمرے میں رکھی ہیں۔ ایک ہی کمرے میں تم کو کیوپڈ
کا سنگ مر مر کا مجسمہ اور اٹھارہویں صدی کے کسی امیر کی روغنی تصویر ملے
گی۔ ایک اور کمرے میں مقامی معدنیات اور پودوں کے ذخیرے کے برابر کوئی
پیپئر ماشے کا بنا ہوا Pithecanthropus کا مجسمہ نظر آئے گا جس کے بالدار
ہاتھ میں ڈنڈا ہوگا۔
یہ اس قسم کا میوزیم تھاجس میں ولاد یمیروف یہ ہڈیاں لایا۔
یہ بھی ممکن تھا کہ میوزیم کا نگراں قدیم فیل پیکر کے دانت اور دوسری ہڈیوں
کا اندراج میوزیم کی فہرست میں کر کے دوسری چیزوں کے ساتھ نمائش کے لئے
رکھ دیتا۔
لیکن اس نے اس سے زیادہ کام کیا۔ اس نے لینن گردا کے علم الانسان اور علم
الاقوام کے میوزیم کو خط لکھا جہاں دریائے نیوا کے کنارے ایک قدیم عمارت
میں وہ شاندار ذخیرہ ہے جو دنیا کے تمام حصوں سے آیا ہے اور جس کو روسی
سائنس دانوں اور کھوج کرنے والوں نے جمع کرنے میں مدد دی ہے۔
جلد ہی لینن گراد سے ایک ماہر آثار قدیمہ زامیا تین گا گارینو پہنچ گیا
تاکہ گائوں کے ٹیچر کے ساتھ مل کر کھدائی کا کام جاری رکھا جا سکے۔
یہ صورت اکثر ہمارے ملک میں پیش آتی ہے۔ کوئی ٹیچر یا گائوں کے کتب خانے کا
نگراں قدیم تہذیب کا کوئی نمونہ دیکھتا ہے او رقریبی میوزیم کو اس کے بار ے
میں لکھتا ہے اور شہر سے سائنس داں کھدائی کے کام کی نگرانی کے لئے آجاتے
ہیں۔
گاگارینو میں کیا ملا؟
پہلے ہی دن کی کھدائی میں ان کو پتھر کے چھیلنے اور کاٹنے والے اوزار، ہڈی
کا ایک سوجا، قطبی لومڑی کا دانت جس میں ایک سوراخ بنایا گیا تھا، ایک
چولھے کے کوئلے اور راکھ میں ملی ہوئی میموتھ اور دوسرے جانوروں کی ہڈیاں
ملیں۔
اسی طرح کے پتھر کے اوزار اور دانت کے ٹکڑے اس مٹی میں بھی ملے تھے جو
آنتونوف کے باڑے پر لگانے کے لئے استعمال ہوئی تھی۔ یہ ہڈیاں مٹی میں اتنی
زیادہ تھیں کہ کسان کے خاندان نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو پلاسٹر سے چننے پر
وقت ضائع نہ کرنا چاہئے۔
یہاں کئی مہینوں تک کھدائی جاری رہی اور برابر نئی چیزیں ملتی رہیں۔ اوزار،
زیورات، چھوٹی چھوٹی مورتیاں اور جانوروں کی ہڈیاں ملیں۔ ہر چیز کو احتیاط
کے ساتھ لینن گراد روانہ کیا گیا جہاں مختلف شعبوں کے سائنس دانوں نے ان
کا جائزہ لینا شروع کیا۔
ماہرین معدنیات نے یہ پتہ لگایا کہ اوزاروں کے لئے کس طرح کا پتھر استعمال
ہوتا تھا۔ قدیم جانوروں کے ماہروں نے ہڈیوں کا مطالعہ کر کے معلوم کیا کہ
قدیم زمانے کے آدمی کس قسم کے جانوروں کا شکار کرتے تھے۔ چیزوں کو بحال
کرنے والے ماہروں نے ہڈی کی نقشیں مورتیوں کو جوڑ کر پھر اصلی روپ میں کر
دیا۔
اس دوران میں ماہرین آثار قدیمہ کا ایک جتھا، تمام قواعد کی پوری پابندی کے
ساتھ، کھدائی میں مصروف رہا۔ اور جلد ہی ان کے سامنے قدیم زمانے کے
شکاریوں کی رہائش گاہ کی تصویر آنے لگی۔
شکل کے لحاظ سے وہ ایک گول تہہ خانہ تھا۔ دیواریں باہر سے پتھر کی سلوں،
میموتھ کے دانتوں اور جبڑوں سے محفوظ کی گئی تھیں۔ وہ غالباً لکڑی کے
کھمبوں سے بنی تھیں جن پر جانوروں کی کھالیں منڈھی تھیں اور یہ کھمبے اوپر
مل کر چھت بناتے تھے۔ دیواروں کو باہر سے مضبوط بنانے کے لئے بھاری پتھر
اور میموتھ کی ہڈیاں لڑھکا کر دیواروں تک لائی گئی تھیں۔
باہر سے یہ رہائش گاہ ایک بڑے خیمے کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ دیواروں کے قریب
ماہرین کو نقشیں ہڈیوں کی عورتوں کی دو مورتیاں ملیں۔ ایک بہت موٹی تھیں
اور دوسری دبلی۔ غالباً ہڈی پر کندہ کاری کرنے والے نے ان کو اصلی زندگی سے
لیا تھا۔ عورتوں کے پیچیدہ جوڑے بڑی نفاست سے بنائے گئے تھے۔
فرش کے بیچوں بیچ ایک گڈھا تھا جو صندوق کا کام دیتا تھا۔ جو چیزیں اس میں
ملیں وہ غالباً بہت بیش بہا سمجھی جاتی ہو ں گی۔ ہڈی کی سوئی، قطبی لومڑی
کے دانتوں کے بنے ہوئے دانے اور ایک میموتھ کی دم۔
قدیم آدمی سینے کے لئے سوئی استعمال کرتے تھے، یہ دانے کسی زیور کے تھے۔
لیکن انہوں نے میموتھ کی دم محفوظ رکھنے کی زحمت کیوں گوارا کی تھی؟
دوسری جگہوں پر ایسی نقشیں مورتیاں پائی گئیں جن میں قدیم شکاریوں کو پیش
کیا گیا ہے۔ ان مورتیوں سے پتہ چلتا ہے کہ شکاری جانوروں کی کھالیں اپنے
کندہوں پرڈالتے تھے اور دمیں پیچھے لٹکتی لگاتے تھے تاکہ وہ ان جانوروں کی
طرح معلوم ہوں جن کی کھالیں وہ پہنے تھے۔ وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ اس کے
بارے میں ہم بعد کو بتائیں گے۔ ابھی تو ہم قدیم آدمی کی رہائش گاہ کے بارے
میں ہر امکانی دریافت کر رہے ہیں۔
گاگارینو گائوں جیسے بہت سے قدیم پڑائو سوویت یونین کے دوسرے حصوں میں بھی
ملے ہیں۔ شہر ورونیژ کے قریب ایک چھوٹے سے گائوں میں اتنی ہڈیاں ملیںکہ ا س
کا نام ہی کوستینکی یعنی گائوں پڑگیا۔
یہ ہڈیاں میموتھ، غار والے شیروں، ریچھوں اور ان گھوڑوں کی تھیں جن کو قدیم
زمانے کے لوگ شکار کرتے تھے۔
سوویت ماہرین آثار قدیمہ نے کو ستینکی کے پڑائو کا پوری طرح جائزہ لیا۔
انہوں نے دریافت کیاکہ شکاری گاگارینو کی طرح ایک تہہ خانے میں نہیں بلکہ
کئی تہہ خانوں میں رہتے تھے اور سب ایک ساتھ مل کر شکار کھیلتے تھے۔ یہاں
پتھر اور ہڈی کے بنے ہوئے اچھے اوزار اور ہاتھی دانت سے تراشی ہوئی عورتوں
کی مورتیاں پائی گئیں۔ ان میں سے ایک کے گدنا گدا ہوا اور ہو چمڑے کا پیش
بند پہنے ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہ لوگ چمڑے کو کمان جانتے تھے۔
ابتدائی دور کے ان شکاریوں کی رہائش گاہیں ہمارے مکانوں سے بالکل مختلف
تھیں۔ باہر سے صرف ان کی چھتیں ایک گول پہاڑی کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔
داخلہ صرف چمنی کے ذریعے تھا کیونکہ صرف چھت میں ایک سوراخ تھاجس سے دھواں
نکلتا تھا۔
مٹی کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بنچوں کی جگہ پر میموتھوں کی جبڑے کی ہڈیاں
لگتی تھیں اور زمین ہی ان کا بستر تھی۔ وہ ایک ہموار مستطیل قطعہ میں سوتے
تھے اور تکیوں کی جگہ پر مٹی کے ڈھیلے تھے۔
ہڈی کی بنچوں اور مٹی کے بستروں والے اس مکان میں میزیں پتھر کی
تھیں۔پتھرکی ہموار سلوں کی بنی تھی۔ اس کے اوپر ماہرین آثار قدیمہ نے متعدد
اوزار، پتھر اور ہڈیوںکے ٹکڑے اور نامکمل چیزیں پائیں۔ میز پر ہڈی کے دانے
پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں کچھ پالش کئے ہوئے تھے اور ان میں سوراخ تھے۔ باقی
ابھی نامکمل تھے۔ کاریگر نے ایک پتلی ہڈی میںکئی جگہ سوراخ تو بنا لئے تھے
لیکن اسے اس ہڈی کو دانوں میں توڑنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ کوئی بات ایسی
ہو گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنا کام روک کر رہائش گاہ چھوڑنی پڑی
تھی۔ واقعی کوئی بڑا خطرہ رہا ہو گا ورنہ وہ ایسی بیش بہا چیزیں جیسے
نوکیلے ہتھیار، ہدی کی سوئیاں جن میں ناکے تھے او رمختلف قسم کے پتھر کے
کاٹنے والے اوزار چھوڑ کر نہ جاتے۔
ان تمام اوزاروں کو بنانا آسان کام نہیں تھا۔ رہائش گاہ میں جو چیزیں ملیں
ان میں سے ہر ایک کو بنانے میں بہت سے گھنٹے لگے تھے۔ مثلاً ہڈی کی سوئی کو
لے لو۔ یہ تاریخ انسانی میں سئی کی پہلی قسم تھی۔ یہ واقعی چھوٹی سی چیز
ہے لیکن اس کو بنانے میںکافی ہنر درکار تھا۔
ایک اورپڑائو میں ہڈی کی سوئیاں بنانے والا پورا ورکشاپ ملا۔ اس میں تمام
ضروری اوزار، ہڈیوں کے ٹکڑے اور نیم تیار سوئیاں تھیں۔ہر چیز اسی طرح تھی
جیسے چھوڑی گئی تھی۔ اس طرح کہ اگر ہماری جدید دنیا کو ہڈی کی سوئیوں کی
ضرورت ہوتی تو ان کی پیداوار کل سے پھر شروع کی جا سکتی تھی۔ لیکن ہمیں اب
اس کام کوکرنے والا ایک بھی کاریگر مشکل سے ملے گا۔
ہڈی کی سوئی اس طرح بنتی تھی کہ پہلے کسی خرگوش کی ہڈی سے ایک پتلا سا ٹکڑا
کے چاقو کی مدد سے کاٹا جاتا تھا پھر پتھر کی ریتی کی مدد سے اس کی نوک کو
پتلا اور تیز کیا جاتا تھا۔ پھر ایک نوکیلا پتھر اس میں سوراخ بنانے کے
لئے استعمال ہوتا تھا اور پھر اس سوئی کو پتھر کی سل پر رگڑ کر پالش کیا
جاتا تھا۔
اس طرح واحد سوئی بنانے میں اتنے اوزار اور اتنا وقت لگتا تھا!
ہر قبیلے میں ایسے باہنر کاریگر نہیںہوتے تھے۔ جو ہڈی کی سوئیاں بناسکیں۔
ماقبل تاریخ میں ہڈی کی ایک سوئی بھی بہت ہی بیش بہا ملکیت سمجھی جاتی تھی۔
آئو ابتدائی دور کے شکاریوں کے پڑائو کا اندر سے جائزہ لیں۔
برف پوش استیپ کے بیچوں بیچ ہم متعدد چھوٹے چھوٹے ٹیلے دیکھتے ہیں۔ ان میں
سے ہر ایک سے دھوئیں کے مرغولے لہراتے ہوئے نکل رہے ہیں۔ ہم ایک ٹیلے کے
قریب آتے اور دھوئیں کے ان بادلوں کی پروا نہ کرتے ہوئے جو ہماری آنکھوںکو
پریشان کر رہے ہیں ہم چمنی کے ذریعے اندر پہنچ جاتے ہیں۔
تھوڑی دیر کے لئے یہ تصور کر لو کہ ہم نے جادو کی ٹوپی پہن لی اورکسی کو
دکھائی نہیں دیتے۔ رہائش گاہ کے اندر دھواں بھرا ہے اور اندھیرا ہے۔ شور
وغل ہو رہا ہے۔اس میں کم ازکم دس بڑے اور اس سے کہیں زیادہ بچے ہیں۔
جب ہماری آنسو سے بھری آنکھیں دھوئیں کی عادی ہو جاتی ہیں تو ہم کو آدمیوں
کے چہرے اور بدن دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ان میں بندروں جیسی کوئی بات نہیں
ہے۔ وہ لمبے، سڈول اور مضبوط ہیں۔ ان کی گال کی ہڈیاں ابھری ہوئی اور
آنکھیں ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ ان کے سیاہ جسموں پر لال رنگ کے نقش ونگار
بنے ہوئے ہیں۔
عورتیں زمین پر ایک حلقے میں بیٹھی اپنی ہڈی کی سوئیوں سے جانوروں کی
کھالوں کے لباس سی رہی ہیں۔ بچوں کے پاس کھلونے نہیں ہیں۔ وہ ایک گھوڑے کی
ٹانگ اور بار مسنگھے کی سینگ سے کھیل رہے ہیں۔ چولھے کے پہلو میں ایک
کاریگر اپنے پیر ایک دوسرے پر رکھے کام کرنے والی پتھر کی بنچ پر بیٹھا ہے
ایک لکڑی کے دستے میں ہڈی کی تیز نوک لگا کر برچھا بنا رہا ہے۔ ا س کے
برابر ایک اور کاریگر اپنے پتھر کے چاقو سے کوئی نقش کھود رہا ہے۔
آئو ذرا قریب سے چل کر دیکھیں کہ یہ نقش کیسا ہے؟
اس نے بڑی مہارت کے ساتھ ایک چرتے ہوتے گھوڑے کا خاکہ ہڈی پر بنایا ہے۔ اس
نے گھوڑے کی خوبصورت ٹانگوں، محراب دار گردن، چھوٹے ایال اور بڑے سرکی نقش
کاری بڑے صبر اور مہارت کے ساتھ کی ہے۔ اب معلوم ہوتا ہے۔ کہ گھوڑا زندہ ہے
اور بس حرکت کرنے والا ہے کیونکہ ماہر نقاش نے اپنے تصور میں ہر تفیصل کو
پیش نظر رکھا ہے۔
اب یہ نقش ختم ہو گیا۔ لیکن نقاش نے اسی پر بس نہیں کی۔ اس نے اپنا کام
جاری رکھا ۔ وہ ایک زور دار ضرب سے گھوڑے پر ایک خط بنا دیتا ہے، پھر دوسرا
اور تیسرا۔ اب جانور کے بدن پرایک انوکھی شکل نمودار ہو جاتی ہے۔ یہ
ابتدائی دور کا نقاش کیا کر رہا ہے؟ وہ ایسے نقش کو کیوں خراب کر رہا ہے جس
پر آج کا ہر آرٹسٹ فخر کر سکتا ہے؟
یہ شکل زیادہ سے زیادہ پیچیدہ ہوتی جاتی ہے۔ اور پھر ہم کویہ دیکھ کرحیرت
ہوتی ہے کہ گھوڑے کے اوپر ایک گھر کا خاکہ نمودار ہو جاتا ہے۔ اس کے برابر
یہ آرٹسٹ او رکئی گھر بناتا ہے۔ ارے یہ تو پورا پڑاو ہے!
اس طرح کی ڈرائنگ کیا ہو سکتی ہے؟ کیا یہ محض کاریگر کے اپنے خیالات کا
نتیجہ ہے؟
نہیں، ہم ان عجیب ڈرائنگوں کا پورا مجموعہ ابتدائی دور کے شکاریوں کے غاروں
سے جمع کر سکتے تھے۔ایک ڈرائنگ میموتھ کی ہے جس پر دو گھر بنے ہیں۔ ارنا
بھینسے کی ایک ڈرائنگ پر تین گھر ملتے ہیں ایک میں ارنا بھینسے کا آدھا
کھایا ہو اڈھانچا بیچ میں دکھایا گیا ہے۔ سر، ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگوں کو
ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے۔ بڑاسا، داڑھی والا سر اگلے پیروں کے بیچ میں ہے
اور اس کے ڈھانچے کے پاس آدمیوں کی دو قطاریں ہیں۔
ہڈی کے ٹکڑوں، پتھر کی سلوں او رچٹانوں پر جانوروں، آدمیوں اور گھروں کے
ایسے بہت سے انوکھے نقش ملتے ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی تعداد غاروں کی
دیواروں پر ملتی ہے۔
جب ہم اپنے غار کی کھدائی کر رہے تھے تو ہمیں اس کی دیواروں پر کوئی نقش
نہیں ملے تھے۔
لیکن ہم تو غار کے دھانے پر تھے جہاں لوگ کھاتے، سوتے اور کام کرتے تھے۔
اچھا آئو، اب اور اندر چلیں اور تمام کونے دیکھیں اور ان سرنگوں کو دیکھیں
جو سیکڑوں میٹر تک چلی گئی ہیں۔
زمین دوز آرٹ گیلری
آئو اپنی ٹارچیں لے کر غار کی کھوج کریں۔ ہم کو ہر موڑ اور چوراھا یاد
رکھنا پڑے گا ورنہ ہم یہاں کھو جائیں گے۔
پتھر کی گزر گاہ زیادہ تنگ ہوتی جاتی ہے۔ چھت سے پانی ٹپکتا ہے۔ ہم اپنی
ٹارچیں اٹھا کر غار کی دیواروں کا جائزہ لیتے ہیں۔
زمین دوز چشموں نے غار کو چمک دار کرسٹلوں سے آراستہ کر دیا ہے۔ لیکن
انسانی ہاتھ یہاں کار فرما نہیں رہا ہے۔
ہم غار میں آگے بڑھتے ہیں۔ اچانک کوئی زور سے کہتا ہے:
”دیکھو!”
دیوار پر ایک بڑا ارنا بھینسا نقش ہے۔ وہ سرخ وسیاہ رنگا ہوا ہے۔ جانور
اپنے اگلے پیروںپر گر گیا ہے۔ اور اس کی کوھان والی پیٹھ میں بہت سے برچھے
گڑے ہیں۔
ہم اس نقش کے سامنے خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کو ایسے فن کار نے بنایا
تھا جو ہزاروں سال پہلے گزرا ہے۔
تھوڑی دور آگے چل کر ہم کو ایک اور نقش ملتا ہے۔ ایک عفریت ناچ رہا ہے۔یا
تو یہ آدمی ہے جو جانور جیسادکھائی دیتا ہے یا پھر کوئی جانور ہے جو آدمی
جیسا نظر آتا ہے۔ عفریت کے سرپر خمدار سینگیں اور داڑھی ہے، اس کے کو بڑ
اور بالدار دم ہے۔ اس کے ہاتھ پیر آدمی جیسے ہیں۔ اس کے ہاتھ میں کمان ہے۔
قریب سے جائزہ لینے پر یہ عفریت آدمی نکلتا ہے جو ارنا بھینسے کی کھال پہنے
ہے۔
آگے چل کر تیسری اور چوتھی ڈرائنگ ملتی ہے۔
یہ کیسی انوکھی تیسری اور چوتھی ڈرائنگ ملتی ہے۔
آج کل مصور روشن نگار خانوں میں کام کرتے ہیں۔ گیلریوں میں تصویریں اس طرح
لٹکائی جاتی ہیں کہ ان پر ہمیشہ روشنی پڑے۔ پھر ان ابتدائی دور کے لوگوں نے
غار کی تاریکیوں میں، انسانی نگاہ سے دور کیوں گیلری بنائی؟
یہ بالکل صاف ہے کہ فن کار نے یہ نقوش دوسروں کے لئے نہیں بنائے تھے۔
لیکن اگر ایسا ہے تو اس نے آخر ان کو بنایا ہی کیوں؟ جانوروں کے بھیس میں
یہ عجیب ناچتی ہوئی شکلیں کیا ہیں؟
راز اور اس کا حل
”متعدد شکاری ناچ میں حصہ لیتے ہیں۔ہر ایک کے سر پر یا تو بھینسے کی کھال
ہوتی ہے یا سینگ دار بھینسے کا چہرہ۔ہر شکاری کے پاس کمان یا برچھا ہوتا
ہے۔ یہ ناچ بھینسے کا شکار کا ناچ ہے۔ جب کوئی ناچنے والا تھک جاتا ہے تو
وہ دکھاتا ہے کہ وہ گر رہا ہے۔ تب دوسرا ناچنے والا اس پر نقلی تیر چلا
تھا۔ ”بھینسا” زخمی ہو جاتا ہے۔ اس کو ٹانگیں پکڑ کر حلقے سے باہر کھینچ
لیتے ہیں اور پھر دوسرے ناچنے والے اس پر اپنے چاقو تان لیتے ہیں۔ پھر اس
کو چھوڑ دیتے ہیں اور حلقے میں اس کی جگہ کوئی دوسرا ناچنے والا آجاتا ہے۔
یہ بھی بھینسے کا چہرہ پہنے ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ ناچ، ایک لمحہ رکے
بغیر، متواتر دو تین ہفتے تک جاری رہتا ہے۔”
اس طرح ایک دیکھنے والے نے ابتدائی دور کے شکاریوں کے ناچ کے بارے میں لکھا
ہے۔ لیکن اس نے یہ ناچ کہاں دیکھا ہو گا؟
اس نے یہ ناچ شمالی امریکہ کے میدانوں میں دیکھا جہاں انڈین قبیلوں میں اب
بھی قدیم شکاریوں کے رسم ورواج باقی ہیں۔
اس طرح ہم ایک سیاح کی ڈائری میں اسی شکار کے ناچ کا بیان پاتے ہیں جو قدیم
دور کے فن کار نے غار کی دیوار پر نقش کیا ہے۔
اب ہم پراسرار ڈرائنگ کے راز کو سمجھ جاتے ہیں۔ لیکن اس رازکو حل کرتے ہوئے
ہم ایک اور راز سے دو چار ہوتے ہیں۔ کس قسم کا ناچ ہفتوں تک جاری رہتا ہے؟
ہم ناچ کو ایسی چیز سمجھتے ہیں جس کا مقصد تفریح ہوتا ہے یا پھر وہ آرٹ کا
کوئی نمونہ ہوتا ہے۔ کیا یہ انڈین واقعی محض تفریح کے لئے تین ہفتوں تک
ناچتے تھے کہ تھک تھک کر گر جاتے تھے! وہ آرٹ کے بڑے دلدادہ تھے؟ اور پھر
ان کا ناچ تو ایک رسم کی طرح ہے۔
ان کاجادو گر اپنے پائپ سے ایک خاص سمت میں دھواں چھوڑتا ہے اور ناچنے والے
اس طرف جاتے ہیں جیسے وہ کسی خیالی جانور کا پیچھا کر رہے ہوں۔ یہ جادو گر
ناچ میں دھوئیں کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور ناچنے والوں کو اتر یا دکھن،
پورب یا پچھم بھیجتا ہے۔
لیکن اگر جادوگر کسی ناچ کا ہدایت کار ہو تو اس کا صرف یہی مطلب ہو سکتا ہے
کہ وہ کوئی جادو والا ناچ ہے۔
انڈین یہ توقع رکھتے تھے۔ کہ وہ اپنی عجیب حرکتوں سے بھینسوں پر جادو کرتے
ہیں، اپنے عجیب جادو کے زور سے ان کو میدانوں سے اپنے قریب لاتے ہیں۔
دیوار پر ناچتی ہوئی شکل یہی ہے! یہاں صرف ناچنے والا نہیں ہے بلکہ وہ ایک
جادو بھی کر رہا ہے۔ اور جو فن کار زیر زمین گہرائیوں میں گیا تاکہ یہ شکل
آگ کی روشنی میں بنائے محض فن کار ہی نہیں بلکہ جادو گر بھی تھا۔
جانوروں کے چہرے پہنے شکاریوں اور زخمی بھینسوں کی شکلیں بنا کر وہ اپنا
جادو کر رہا تھا تاکہ شکار کامیاب رہے۔ اس کو قطعی عقیدہ تھا کہ یہ جادو
والا ناچ شکار میں مدد دے گا۔
یہ بات ہمیں عجیب اور مضحکہ انگیز دونوں معلوم ہوتی ہے۔
جب ہم کوئی گھر بناے ہیں تو بڑھئیوں اور معماروں کی حرکتوں کی نقل کر کے
مکان کی بنیاد کے چاروں طرف ناچتے نہیں ہیں۔ شکار پر جانے سے پہلے ہم بندوق
لے کر بھی نہیں ناچتے۔ لیکن آج ہم جن چیزوں کو احمقانہ سمجھتے ہیںہمارے
ماقبل تاریخ کے اجداد ان کو بہت ہی سنجیدہ باتیں سمجھتے تھے۔
اب ہم نے ایک پراسرار نقش کا راز پالیا ہے اور یہ سمجھنے لگے کہ ناچتے ہوئے
آدمی کی شکل دیوار پر کیوں بنا گئی ہے۔
لیکن وہاں اور بھی عجیب نقوش تھے۔
یاد ہے، ہم نے غار میں ایک ہڈی پر پوری کہانی کندہ پائی تھی۔ یہ ایک بھینسے
کے ڈھانچے کی تصویر تھی جس کے پاس دو قطاروں میں شکاری کھڑے تھے۔ صرف
بھینسے کے سر اور اگلے پیروں کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا تھا۔
یہ نقش کیا ہو سکتا ہے؟
سائبیر یا میں ایسی جگہیں ہیں جہاں اب سے تیس چالیس سال پہلے تک شکاری کوئی
ریچھ مارنے پر ”ریچھ کی دعوت” کرتے تھے۔ ریچھ کے ڈھانچے کو گھر میں لا کر
کسی معزز جگہ پر رکھا جاتا تھا۔ وہ ریچھ کے سر کو اس کو اگلے پنجوں کے بیچ
میں رکھتے تھے۔ روٹی یا بھوج کی چھال کے بنے ہوئے بارہ سنگھوں کی کئی
مورتیاں ریچھ کے سرکے قریب رکھ دی جاتی تھیں۔ گویا یہ ریچھ کا نذرانہ ہوتا
تھا۔ ریچھ کے سر کو بھوج کی چھال کے گچھوں سے سجایا جاتا تھا اور چاندہ کے
سکے اس کی آنکھوں میں رکھے جاتے تھے۔ پھر ہر شکاری باری باری جاکر اس کے
تھوتھن کر چومتا تھا۔
یہ دعوت کی ابتدا ہوتی تھی جوکئی دنوں یا یوں کہنا چاہئے راتوں تک جاری
رہتی تھی۔ ہر رات شکاری اس ڈھانچے کے گرد جمع ہو کر ناچتے گاتے تھے۔ وہ
بھوج کی چھال یا لکڑی کے چہرے پہنتے تھے اور ریچھ کے پاس آکر اس کے سامنے
جھکتے تھے اور پھر ریچھ کی بھدی چال کی نقل کرتے ہوئے ناچتے تھے۔
ناچ گانا ختم ہونے کے بعد وہ بیٹھ کر ریچھ کا گوشت کھاتے تھے لیکن سر اور
اگلے پنجوں کو ہاتھ نہیںلگاتے تھے۔
اب ہڈی کے ٹکڑے پر ڈرائنگ کا مطلب سمجھ میں آگیا۔ اس میں ”رانا بھینسے کی
دعوت” کو پیش کیا گیا ہے۔تصویر میں بھینسے کے چاروں طرف لوگ جمع ہو کر اس
کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان کو گوشت دیا۔ وہ بھینسے سے درخواست کر
رہے ہیں کہ آئندہ بھی اس کی مہربانی اسی طرح رہے۔
اگر ہم امریکی انڈینوں کے پاس پھر واپس جائیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ان کے
ہاں بھی ایسی دعوتیں ہوتی ہیں۔
کوئی چوان قبیلے کے شکاری مارے ہوئے ہرن کے پچھلے پیر پورب کی طرف کر کے اس
کو لٹاتے ہیں اور ایک پیالے میں اس کے سر کے قریب طرح طرح کے کھانے رکھ
دیتے ہیں۔ ہر شکاری باری باری ہرن کے پاس جاتا ہے اور اس کو سر سے دم تک
اپنے دائیں ہاتھ سے سہلاتا ہے اور اس کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ ہرن نے اپنے
کو شکار کرنے کا موقع دیا۔ وہ مردہ جانور سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:
”بڑے بھائی، آرام کرو!”
پھرجادو گر ہرن سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے:
”تم اپنی سینگین ہمارے لئے لائے۔ اس کے لئے تمہارا شکریہ۔”
کیا کیا عجائبات ہیں وہاں…
تمام روسی بچے شہزاد ایوان اور حسین واسی لیسا، آگ چڑیا اورکبڑے گھوڑے اور
ایسے جانوروں کے بارے میں قصے کہانیاں جانتے ہیں جو آدمی بن جاتے تھے اور
آدمی جو جانوروں کا روپ دھار لیتے تھے۔
اگر ہم پریوں کے قصے کہانیوں پر یقین کریں تو ساری دنیا میں مہربان او
رظالم، نظر آنے والی اورنہ نظر آنے والی پراسرار ہستیوں کی آبادی ہونی
چاہئے تھی۔ اس خیالی دنیا میں ہر ایک کو ظالم جادو گروں اور بھیانک جادو
گرنیوں کے جادو ٹونوں سے بچنا پڑتا۔
تم کو اپنی آنکھوں پر کبھی اعتبار نہ آتا کیونکہ کوئی انتہائی مکروہ صورت
مینڈک دیکھتے دیکھتے کسی حسین دوشیزہ میں تبدیل ہو جاتا اور کوئی خوبصورت
جوان ہولناک اژدھا بن جاتا۔ اس دنیا کے اپنے نرالے قاعدے ہیں۔ مردے جی
اٹھتے ہیں، کٹے ہوئے سر بولتے ہیں اور جل پریاں مچھیروں کو پھسلا کر پانی
کی تہہ میں لے جاتی ہیں۔
مشہور روسی شاعر پوشکن نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے:
کیا کیا عجائبات ہیں وہاں بھتنی ایک منڈلاتی ہے وہاں اور جل پری شاخوں میں
نہاں
اور ہم یہ قصہ پڑھتے وقت اس پر یقین کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن
کتاب بندکرتے ہی ہم بات کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ کوئی پریوں کا قصہ چاہے
کتنا ہی دل کش کیوں نہ ہو بہر حال ہم سچ مچ ایسی خیالی دنیا میں رہنا نہیں
پسند کریں گے جہاں دماغ لاچار ہو اور جہاں آدمی کو پیدائش ہی سے خوش قسمت
ہونا چاہئے جو کسی بھیڑ یا مانس یا جادو گرنی سے پہلے ہی ٹکر لے کر ختم نہ
ہو۔
لیکن ہمارے قدیم اجداد کا بالکل یہی خیال تھا کہ دنیا اسی طرح بنی ہے۔ ان
کو خیالی دنیا اور اس حقیقی دنیا میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتاہے جس میں وہ
رہتے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ دنیا کی ساری اچھائیاں اور برائیاں دنیا پر
حکومت کرنے والی اچھی یا بری روحوں کی حرکتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
جب ہم کسی پتھر سے ٹھوکر کھا کر گر جاتے ہیں تو ہم اپنے کو یا اپنی
لاپروائی کے سوا اور کسی کو الزام نہیں دیتے۔
لیکن قدیم زمانے کا آدمی اپنے کو ملزم نہیں ٹھہراتا تھا۔ وہ اس بری روح پر
الزام دھرتا تھا جس نے اس کی راہ میں یہ پتھر ڈالا تھا۔
جب کوئی آدمی چاقو کی ضرب سے مارا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ چاقو سے اس کا
قتل ہوا۔
لیکن قدیم زمانے کا آدمی کہتا کہ آدمی کے مرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ چاقو پر
جادو کیا گیا تھا۔
بہر حال، آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ وہ ”نظر لگنے”سے بیمار ہونے پر یقین رکھتے
ہیں۔ دو شنبہ کے دن کوئی کام شروع کرنے کو بد شگونی سمجھتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو بھی شگون برا ہے۔
ہمارے خیال میں ایسے لوگ بیوقوف ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایسے وہم کرنے کا
کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ نیک او ربد روحوں میں یہ سب عقیدہ جہالت کا نتیجہ
ہوتا ہے او رجہالت ایسا جالا ہے جو اندھیرے کونوں ہی میں نظر آتا ہے۔
بہر نوع، ہم اپنے قدیم اجداد کا، جو جادو گروں اور بدروحوں پر یقین کرتے
تھے، مذاق نہیں اڑائیں گے۔ وہ اس طرح قدرت کے قوانین کی وضاحت کرتے تھے
کیونکہ صحیح جواب کے لئے ان کی معلومات بہت ہی کم تھیں۔
متعدد آسٹریلیائی قبیلے ابھی اسی معیار پر ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات
نہیں کہ ان میں پتھر کے زمانے کے وہم اور فضول خیالات باقی ہیں۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں ایک سیاح نے لکھا تھا ”مقامی ساحلی باشندے کسی
بادبانی کشتی کوجس میں نئی قسم کا ساز وسامان اور مستول لگے ہوتے ہیں یا
کسی دخانی جہاز کو جس میں دوسرے جہازوں سے زیادہ چمنیاں ہوتی ہیں دیکھ کر
جوش میں آجاتے ہیں۔ کوئی برساتی، انوکھی قسم کی ٹوپی، جھولا کرسی یا کوئی
ایسا اوزار جو انہوں نے پہلے نہ دیکھا ہو ان کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔”
کیونکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ جو چیز انہوں نے پہلے نہیں دیکھی اس کا جادو
ٹونے سے تعلق ہے۔
تجربے نے انہیں بتایا ہے کہ ہر چیز کسی نہ کسی طرح دوسری چیز سے تعلق
رکھتی ہے۔ لیکن چونکہ وہ اس کا سبب نہیں جانتے اس لئے ان کا یقین جاری ہے
کہ بعض چیزیں دوسری چیزوں پر جادو کا اثر رکھتی ہیں۔
وہ یقین کرتے ہیں کہ ”نظریہ” سے بچنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ کوئی تعویذ یا
گنڈا وغیرہ پہنا جائے۔یہ گھڑ یال کے دانتوں کا ہار ہو سکتا ہے یا ہاتھی کے
دم پر اگنے والے بالوں کا کوئی کنگن۔ پہننے والے کو تعویذ ہر آفت سے محفوظ
رکھتا ہے۔
اصل باش قبیلوں کے آدمی بھی ماقبل تاریخ کے لوگوں سے زیادہ معلومات نہیں
رکھتے۔ اور یہ لوگ بھی غالباً جادو ٹونے وغیرہ پر یقین کرتے تھے۔ہمیں اس کا
ثبوت ان تعویذوں سے ملتا ہے جو آثار قدیمہ کی کھدائی سے برآمد ہوئے ہیں
اور غاروں کے نقوش سے بھی۔
دنیا کے بارے میں ہمارے اجداد کا خیال
ایسے آدمی کے لئے دنیا میں رہنا مشکل تھا جو اس کے قوانین سے ناواقف تھا۔وہ
کمزور اور لاچار تھا اور اپنے کو بالکل انجانی طاقتوں کے ہاتھ میںپاتا
تھا۔ ا س کو ہر چیز کے طلسمان ہونے اور ہر آدمی کے جادوگر ہونے کا گمان ہو
سکتا تھا۔ وہ یقین کرتا تھا کہ ہر جگہ بدلہ لینے پر آمادہ، بے چین مردوں کی
روحیں زندوں کی گھات میں ہیں۔ شکار میں مارا ہوا ہر جانور واپس آکر شکاری
سے بدلہ لے سکتا ہے۔ مصیبت سے بچنے کے لئے آدمی کو برابر روحوں کے سامنے گڑ
گڑاتے، ان کو خوش کرتے رہنا چاہئے۔ ان کو شانت رکھنے بھینٹ دینا چاہئے۔
جہالت سے ڈر پیدا ہوتا ہے۔
اور چونکہ آدمی کے پاس علم کی کمی تھی اس لئے وہ دنیا کے مالک کا رویہ نہیں
اختیار کر پاتا تھا۔ وہ ایک خوف زدہ، لاچار بھکاری کی طرح تھا۔
بہر حال، ابھی اس کے لئے یہ بات بہت قبل از وقت تھی کہ اپنے کو قدرت کا
مالک سمجھے۔ اب وہ دنیا کے تمام جانوروں میں سب سے زیادہ مضبوط تھا۔ اس نے
میموتھ پر فتح پائی تھی۔ پھر بھی وہ قدرت کی عظیم طاقتوںکے مقابلے میں ایک
کمزور مخلوق تھا جس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان طاقتوں پر کیسے قابو حاصل
کیا جائے۔
ایک ناکامیاب شکار کا مطلب تھا ہفتوں بھوکوں رہنا۔ ایک برفانی طوفان سارے
پڑائو کو برف سے بھر دیتا تھا۔
پھر آدمی کو کس بات نے یہ طاقت عطا کی کہ وہ لڑتا رہے اور رفتہ رفتہ، قدم
بقدم، قدرت کی طاقتوں پر قابو پانے کے لئے آگے بڑھے؟
اس کی طاقت یہ تھی کہ وہ تنہا نہیںتھا۔ پوری برادری، پورا قبیلہ مل کر قدرت
کی مخالف طاقتوں سے لڑتا تھا۔ وہ مل کر کام کرتا تھے اور اپنی مشترکہ محنت
کے ذریعے علم اور تجربے حاصل کرتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ وہ اس حقیقت کو نہیں
سمجھتے تھے یا اپنے طریقے سے سمجھتے تھے۔
وہ انسانی معاشرے کے معنی ہی نہیں سمجھتے تھے لیکن یہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک
دوسرے سے بندھے ہیں، کہ ایک جرگے کے لوگ دراصل واحد، زبردست ،کثیر بازو
والے آدمی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اور ان کو کس چیز نے آپس میں باندھ رکھا تھا؟ وہ خون کے رشتوں سے بندھے
تھے۔لوگ بڑے بڑے خاندانوں میں رہتے تھے۔ بچے اپنی مائوں کے ساتھ رہتے تھے
اور جب وہ بڑے ہو جاتے تو ان کے اپنے بچے ہوتے تھے۔ پھر بھی وہ اپنے بھائی،
بہنوں، چچا، مائوں اور دادیوں کے ساتھ رہتے تھے۔
اس طرح خاندان بڑھتا رہتا تھا۔
ماقبل تاریخ کا معاشرہ جس میں شکاری رہتا تھا اس کااپنا خاندان ہوتا تھا،
وہ جرگہ جو مشترکہ جد کی اولاد ہوتا تھا،لوگ یقین کرتے تھے کہ جو کچھ بھی
ان کے پاس ہے اس کے لئے وہ اپنے اجداد کے ممنوں احسان ہیں۔ ان کے اجداد نے
انہیں شکار کرنا اور اوزار بنانا سکھایا ہے، انہوں نے رہائش گاہیں دی ہیں
اور آگ کا استعمال بتایا ہے۔
کام کرنا اور شکار کھیلنا اجداد کی مرضی پوی کرنا تھا۔ وہ آدمی جو اپنے
اجداد کی مرضی کا فرماں بردار ہوتا تھا مصیبت اور خطرے سے محفوظ رہتا تھا۔
لوگ کے اجداد ان کی روز مرہ کی زندگی کا نظر نہ آنے والا جزو تھے، ان کی
روحیں ہر شکار میں ان کی ہدایت کار ہوتی تھیں اورہمیشہ گھر میں موجود رہتی
تھیں۔ یہ روحیں سب دیکھتی تھیں اور سب جانتی تھیں۔ وہ آدمی کو برائیوں کی
سزا اور نیکیوں کا انعام دے سکتی تھیں۔
اس لئے مشترکہ بھلائی کے لئے مشترکہ کام قدیم آدمی کے لئے مشترکہ جد کی
فرماں برداری اورا س کی مرضی کی تکمیل کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔
پھر بھی، قدیم آدمی خود اپنی محنت کو اس طرح نہیں سمجھتا تھا جس طرح ہم آج
سمجھتے ہیں۔
ہم خیال کرتے ہیں کہ قدیم زمانے کا شکاری ارنا بھینسے مار کر خود کھاتا تھا
او ر اپنے خاندان کو کھلاتا تھا۔ لیکن شکاری یہ یقین کرتا تھا کہ بھینسا
اس کو کھلاتا ہے۔ اب بھی قدیم زمانے کی باقیات کی وجہ سے ہم گائے کو رازق
اور زمین کو دھرتی ماتا کہتے ہیں۔ ہم گائے سے اجازت لے کر اس کو نہیںدو ہتے
پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ گائے ہم کو دودھ ”دیتی” ہے۔
زمانہ تاریخ سے قبل کے شکاری کا ”رازق” جانور تھا۔ خواہ وہ ارنا بھینسا ہو
یا میموتھ یا بار مسنگھا۔ شکاری یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اس نے جانور کو مارا
ہے بلکہ وہ یقین کرتا تھا کہ جانور نے اپنی مرضی سے اس کو اپنا گوشت اور
چمڑا دیا ہے۔ انڈینوں کا عقیدہ ہے کہ جانور کو اس کی مرضی کے بغیر نہیں
مارا جا سکتا ۔ اگر کوئی ارنا بھینسا مارا جاتا ہے تو محض اس وجہ سے کہ وہ
آدمیوں کے لئے اپنے کو بھینٹ دینا چاہتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کو مارا
جائے۔
ارنا بھینسا قبیلے کا رازق اور محافظ ہوتا تھا۔ ساتھ ہی ان کا مشترکہ جد
بھی قبیلے کا محافظ ہوتا تھا۔
اس طرح قدیم زمانے کے آدمی کے دماغ میں (جس کو اس دنیا کے متعلق بہت کم
معلومات تھیں جس میں وہ رہتا تھا) ”جد محافظ” اور ”جانور محافظ” جو قبیلے
کا رازق تھا ایک دوسرے میںضم ہو کر رہ گئے تھے۔
”ہم ارنا بھینسے کے بچے ہیں” شکاری کہتے تھے اور وہ سچ مچ یقین بھی کرتے
تھے کہ ارنا بھینسا ان کا جد تھا۔ جب قدیم زمانے کا فن کار کسی ارنا بھینسے
کا نقش بناتا تھا اور اس کے جسم پر تین خیمے کھینچتا تھا تو اس کا مطلب
ہوتا ہے ” ارنا بھینسے کے بچوں کا پڑائو”۔
اپنی روز مرہ کی محنت میں آدمی جانوروں سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن وہ ایسے
تعلق کو نہیں سمجھتا تھا جو خون کا تعلق نہ ہو۔ ہر تعلق کا مطلب یہ ہوتا
تھاکہ کچھ نہ کچھ مشترکہ ضرور ہے۔ جب وہ کوئی جانور مارتا تھا تو ا سے
معافی مانگتا تھا اور اس کو بڑا بھائی کہہ کر خطاب کرتا تھا۔ وہ اپنے ناچوں
اور جادو ٹونے والے رسوم میں جانور بھائی کی نقل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
وہ اس کی کھال پہنتا تھا اور اس کی حرکتوں کی نقل کرتا تھا۔
آدمی نے ابھی اپنے کو ”میں”کہنا نہیںسیکھاتھا۔ وہ اب بھی اپنے کو جرگے کا
ایک جز اور آلہ سمجھتا تھا۔ ہر جرگے کا اپنا نام، اپنا ٹوٹم (نشان) ہوتا
تھا۔ یہ ان کے مشترکہ جد اور محافظ کسی جانور کا نام ہوتا تھا۔ کوئی جرگہ
”ارنا بھینسا” کہلاتا تھاتو کوئی ”ریچھ” اور کوئی ”ہرن”۔ جرگے کے آدمی ایک
دوسرے کے لئے جان دینے پر تلے رہتے تھے۔وہ جرگے کے رسوم کو اپنے ٹوٹم کی
مرضی سمجھتے تھے اور ٹوٹم کی مرضی ہی قانون ہوتی تھی۔
اپنے اجداد سے باتیں
آئو پھر ماقبل تاریخ کے آدمی کے غار میں چلیں اور الائو کے پاس اس کے ساتھ
بیٹھیں۔ ہم اس کے عقیدوں اور رسم و رواج کے بارے میں اس سے بات چیت کریں
گے۔
وہ ہمیں بتائے گا کہ آیا ہماری قیاس آرائیاں صحیح ہیں، آیا ہم نے غار کے
نقوش اور ہڈی کے نقشیں تعویذوں کو صحیح سمجھاہے جن کو ایسا معلوم ہوتا ہے
کہ اس نے ہمارے لئے خاص طو ر پر چھوڑا ہے۔
لیکن غار کا مالک ہم سے کیسے باتیں کرے گا؟
ہزاروں سال ہوئے ہوا چولھے سے راکھ تک اڑالے گئی ہے۔ ان لوگوں کی ہڈیاں جو
کسی زمانے میں آگ کے پاس بیٹھ کر پتھر اور ہڈی کے اوزار بناتے تھے
اورجانوروں کی کھال کے کپڑے سیتے تھے مدتوں ہوئے خاک ہو چکی ہیں۔ اب تو شاذ
و نادر ہ ماہرین آثار قدیمہ کو زرد اور پتھرائی ہوئی انسانی کھوپڑی زمین
میں ملتی ہے۔
کیا کھوپڑی بات کر سکتی ہے؟
ہم نے غار کی کھدائی کی تاکہ ہم اوزاروں کے ٹکڑے تلاش کر سکیں اوریہ معلوم
کر سکیں کہ اس اوزاروں سے قدیم آدمی کس طرح کام کرتا تھا۔
لیکن ہم قدیم آدمی کی باتوں کے ٹکڑے کہاں سے لائیں؟
ہمیں اس کی تلاش اپنی جدید زبان میں کرنا چاہئے۔
اس طرح کی کھدائی کے لئے کسی پھائوڑے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم اس طرح کی
کھدائی ڈکشنری میں کریں گے زمین میں نہیں۔ ہر زبان، ہر بولی میں ماضی کے
بیش بہا جواہر پائے جاتے ہیں۔ اور یہی ہونا بھی چاہئے۔ بہر حال ہماری زبان
میں ہزاروں سال کا تجربہ شامل ہے۔
تم کہہ سکتے ہو کہ زبان کے مطالعے اور اس کے بارے میں دریافت سے آسان بات
اور کیا ہو سکتی ہے! بس یہی تو کرنا ہے کہ ڈکشنری لے کر بیٹھ گئے اور اس کی
ورق گردانی کر ڈالی! لیکن یہ ایسی معمولی بات نہیں ہے۔
تحقیقات کرنے والے قدیم الفاظ کی تلاش میں ساری دنیا کا سفر کرتے ہیں،
ڈھلواں پہاڑوں پر چڑھتے ہیں اور سمندر پار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے لوگ
بھی مل جاتے ہیں جنہوں نے کسی اونچے پہاڑ کے پیچھے اپنی چھوٹی سی برادری
بنا رکھی ہے اور ان قدیم الفاظ کو محفوظ رکھا ہے جو مدتوں ہوئے دوسری
زبانوں سے غائب ہو چکے ہیں۔
ہر زبان بنی نوع انسان کے طویل راستے پر ایک پڑائو کی حیثیت رکھتی ہے۔
آسٹریلیا، افریقہ اور امریکہ کے شکار ی قبیلوں کے پڑائو ہم مدتوں ہوئے
پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ پھر تحقیقات کرنے والے سمندروں کو پار کرکے پولی
پہنچتے ہیں تاکہ وہ پرانی اصطلاحات اور جملے تلاش کریں جو ہم بھول چکے ہیں۔
الفاظ کی تلاش میں تحقیقات کرنے والے سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ جنوب کے
ریگستانوں اور شمال کے ٹنڈرا کو چھانتے ہیں۔
سوویت یونین میں شمال بعید کے لوگ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو اس زمانے
کے ہیں جب نجی ملکیت نہیںہوتی تھی، جب لوگ ”میرے” کے معنی نہیں جانتے تھے
مثلاً ”میرا گھر”، ”میرا ہتھیار” وغیرہ۔
اگر ہمیں قدیم بول چال کی باقیات تلاش کرنا ہیں تو ہمیں اسی طرح زبانوں کو
”کھودنا” چاہئے جس طرح ماہرین آثار قدیمہ قدیم زمانے کے پڑائوں میں کھنڈرات
اور اوزار کھودتے ہیں۔
ہر آدمی تو ڈکشنری کی کھدائی کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے خاص تربیت
اورعلم کی ضرورت ہے کیونکہ زبان میں پرانے الفاظ میوزیم کی طرح محفوظ نہیں
رہتے۔ صدیوں کے دوران میں الفاظ کئی بار اپنا روپ بدلتے ہیں۔ وہ سفر کر کے
ایک زبان سے دوسری زبان میں پہنچتے ہیں، ان کے شروع اور آخر کے حصے بدلتے
رہتے ہیں۔ کبھی کبھی صرف پرانے الفاظ کی جڑیں ہی، کسی پرانے جلے ہوئے درخت
کی جڑوں کی طرح باقی رہ جاتی ہیں۔ اور صرف جڑ ہی کے زریعے اس بات کا پتہ
چلتا ہے کہ لفظ اصل میں کہاں سے آیا ہے۔
ہزاروں لاکھوں سال کے دوران میں نہ صرف الفاظ کی صورت بدلتی ہے بلکہ ان کے
معنی میں بھی تبدیلی ہوتی ہے۔ کبھی لفظ کو ایسے معنی مل جاتے ہیں جو پہلے
والے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
یہ اب بھی ہوتا ہے۔ جب کوئی نئی چیز دریافت ہوتی ہے یا بنائی جاتی ہے تو ہم
ہمیشہ اس کے لئے نئے الفاظ نہیں ایجاد کرتے۔ ہم اکثر ڈھونڈھ کر کوئی پرانا
لفظ اس نئی چیز پر اس طرح چپکا دیتے ہیں جیسے وہ کوئی لیبل ہو۔
مثلاً گھڑی کے لفظ کو لے لیجئے۔ آج کل کی گھڑیاں گھنٹوں، منٹوں اور سکنڈوں
میں وقت بتاتی ہیں اور شاید اب بہت کم لوگ وقت کی تقسیم میں گھڑیوں کے بار ے
میں جانتے ہوں۔ اسی طرح پھل کا لفظ چاقوکے تیز حصے اور دوسری چیزوں کے
دھار دار حصے کے لئے بھی آتا ہے۔ حالانکہ اصل پھل سے اس کا دور کا بھی
واسطہ نہیں ہے۔ مچھردانی کو لیجئے۔ اس میں دراصل مچھر رہتے نہیں یا پکڑے
نہیں جاتے جیسے چوھے، چوھے دان میں بلکہ مچھر دانی کے ذریعے مچھر اس کے
اندر لیٹے ہوئے آدمی سے دور رکھے جاتے ہیں۔ اس طرح کسی نئے رشتے یا رابطے
کی وجہ سے گھڑی پھل اور مچھر دانی کو نئے معنی دئے گئے ہیں۔
یہ سب بہت حال کی تبدیلیاں ہیںجو ہماری زبان کی اوپری تہوں میں ہوئی ہیں۔
اسی لئے ان الفاظ کے پہلے معنی معلوم کرنا اتنا آسان ہے۔
لیکن ہم جتنا ہی گہرائیوں میں اترتے ہیں کام اتنا ہی مشکل ہوتا جاتا ہے۔
الفاظ کے قدیم اور ایسے معنی تلاش کرنے کے لئے جو معدوم ہو چکے ہیں آدمی کو
بڑا عالم ہونا چاہئے۔
قدیم بولی کی باقیات
زبانوں کی تحقیقات کرتے وقت محققوں نے آواز والی قدیم زبان کی باقیات پائی
ہیں۔ ان باقیات کے بارے میں اکادمیشن میشچانینوف نے اپنی ایک کتاب میں
بتایا ہے۔
انہوں ے لکھا ہے کہ یوکا گیروں کی زبان میں ایک لفظ ہے جس کے لفظی معنی
ہوئے ”آدمی ہرن مار”۔ یہ ایک بڑا اور بھدا لفظ ہے او راس کے معنی سمجھنا او
رزیادہ مشکل ہے۔
کون کسی کو مارتا تھا؟ آدمی ہرن کو مارتا تھاکہ ہرن آدمی کو یا دونوں مل کر
کسی اور کو مارتے تھے یاکوئی اور ان دونوں کو مارتا تھا؟
ایسا عجیب لفظ کیسے بنا؟
یہ اس زمانے کی بات ہے جب آدمی اپنے متعلق ”میں” کا لفظ نہیں استعمال کرتا
تھا، جب وہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہی خود کام کرتا ہے، شکار کھیلتا ہے، گھات
لگا کر ہرن کو مارتا ہے۔ وہ یقین کرتا تھا کہ اس نے نہیں بلکہ سارے جرگے نے
مل کر اور جرگے نے بھی نہیں بلکہ پراسرار، انجانی طاقتوں نے جو ہر چیز پر
حکمراں ہیں ہرن کو مارا ہے۔ اس دور دراز زمانے میں دنیا میں انسان بہت
کمزور اور لاچار تھا کیونکہ قدرت اس کا حکم نہیں مانتی تھی۔
ایک دن ”آدمی ہرن مار” کسی انجام طاقت کی مرضی کی وجہ سے کامیاب رہا۔ دوسرے
دن شکار ناکامیاب ہوا اور لوگ پڑائو پر خالی ہاتھ واپس آئے۔ ”آدمی ہرن
مار” کے لفظ سے اس بات کا اظہار نہیں ہوتا کہ عمل کرنے والا کون ہے۔اور
قدیم زمانے کا آدمی سمجھ بھی کیسے سکتا تھا۔کہ عمل کرنے والا کون تھا۔ وہ
یا ہرن؟ کیونکہ وہ یقین کرتا تھا کہ ہرن تو اس کو اپنے انجانے محافظ کی طرف
سے ملا ہے۔ جو ہرن کا اور خود اس کا مشترکہ جد ہے۔
اگر اپنی کھدائی میں ہم انسانی بول چال کی پہلی تہہ سے بعد کی تہوں تک آتے
ہیں تو ہمیں اکثر اس بول چال کی باقیات ملتی رہیں گی جو ہمیں اس زمانے میں
پیچھے لے جاتی ہے جس میں آدمی اپنے کو پراسرار طاقتوں کا آلہ کار سمجھتا
تھا۔
چوک چیوں کی زبان میں ایک جملہ ہے ”آدمی کے ذریعے گوشت کتے کو دیتا ہے”۔
ظاہر ہے کہ یہ جملہ بہت گڈمڈ ہے۔ ہم نے یہ جملہ بول چال کی ایک پرت سے
کھودا جو زمانے ہوئے دفن پڑی تھی۔ اس وقت لوگ اس طرح نہیں سوچتے تھے جیسے
آج سوچتے ہیں۔
یہ کہنے کی بجائے کہ ”آدمی اپنے کتے کو گوشت دیتا ہے” قدیم لوگ کہتے تھے
”آدمی کے ذریعے گوشت کو دیتا ہے”۔
تو آدمی کے ذریعے گوشت کون دیتا ہے؟
وہ پراسرار طاقت جو آدمی کو آلہ کار کی طرح استعمال کرتی ہے۔
ڈکوٹا انڈین یہ کہنے کی بجائے کہ ”میں بنتا ہوں” کہتے ہیں ”بنائی میری کی
ہوئی” جیسے وہ خود کروشیا کی سلائی ہو اس کا استعمال کرنے والا نہیں۔
پرانی بول چال کی باقیات کے نمونے اب بھی یورپی زبانوں میں پائے جا سکتے
ہیں۔
جیسے فرانسیسی میں کہا جاتا ہے۔ il fait froid یعنی ”سردی ہے” ۔ لیکن اگر
اس کا لفظ بلفظ ترجمعہکیا جائے تو یہ ہوگا ”وہ سردی کرتا ہے”۔
پھر ہمیں وہی پراسرار، دنیا پر حکومت کرنے والا ”وہ” ملتا ہے۔
لیکن ہمیں غیر ملکی زبانوں سے مثالیں ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قدیم بول
چال کی کافی سے زیادہ مثالیں یعنی قدیم خیالات کے نمونے روسی زبان میں بھی
ملتے ہیں۔
مثلاً ہم کہتے ہیں ”اس کو دوھرا کر دیا گیا” یا ”اس کو کپکپا دیا”۔ اچھا،
تو کون سی طاقت ہے جو آدمی کو دھرا کرتی یا کپکپاتی ہے؟
اس طرح اور بھی متعدد جملے ہیں جن میں ”وہ ” کی انجانی، پراسرار طاقت موجود
نظرآتی ہے۔
ہم تم کسی پراسرار طاقت میں یقین نہیں رکھتے لیکن ہماری بات چیت میں اب بھی
ہمارے اجداد کی زبانوں کی باقیات موجود ہیں جو ان تمام طاقتوں میں بڑا
عقیدہ رکھتے تھے۔
اس طرح زبانوں کی پرتیں کھودتے ہوئے ہمیں صرف الفاظ نہیں بلکہ قدیم زمانے
کے لوگوں کے خیالات بھی ملتے ہیں۔ قدیم زمانے کا آدمی ایک عجیب اور پراسرار
دنیا میں رہتا تھا جہاں وہ کام اور شکار نہیں کرتا تھا بلکہ کوئی اسے کام
کے لئے استعمال کرتا تھا، اسے ہرن مارنے کے لئے استعمال کرتا تھا، جہاں ہر
ہونے والی بات کسی انجانی ہستی کی مرضی کے مطابق ہوتی تھی۔
لیکن وقت گزرتا گیا۔ آدمی جتنا زیادہ مضبوط ہوتا گیا، جتنا اپنے چاروں طرف
کی دنیا کو سمجھتا گیا اور دنیا میں اپنی جگہ کو پہچانتا گیا، اس کی زبان
میں”میں” کا لفظ اتنا ہی زیادہ آتا گیا اور اس کے ساتھ ہی وہ شخص کبھی
نمودار ہوا جو کام کرتا تھا، جدوجہد کرتا تھا اور چیزوں اور قدرت کو اپنی
مرضی کے مطابق چلاتا تھا۔
اب ہم ”آدمی ہرن مار” نہیں کہتے ہیں۔ اب ہم کہتے ہیں ”آدمی نے ہرن کو
مارا”۔ پھر بھی ہر زبان میں جب تب پچھلے زمانے کا سایہ نظر آجاتا ہے۔ کیا
ہم نہیںکہتے ”قسمت کا لکھا”، ”یہ بدشگون ہے” وغیرہ؟
کون لکھتا ہے؟ کون اس کو بدشگون بناتا ہے؟
قسمت!
لیکن قسمت بھی وہی انجانی چیز ہے جس سے قدیم زمانے کا آدمی ڈرتا ہے۔
”قسمت” کا لفظ اب بھی ہماری زبانوں میں موجود ہے۔ لیکن یقین کے ساتھ کہا جا
سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں غائب ہو جائے گا۔
اب کسان اعتماد کے ساتھ کھیت جوتتا ہے اور جانتا ہے کہ بری یا اچھی فصل کا
دار و مدار خود اس پر ہے۔
اس کی مدد کرنے والی فارم کی بہت سی مشینیں اورکھادیں ہیں جو بنجر زمین کو
زرخیز بناتی ہیں اور سائنس جو پودوں کو پروان چڑھانے میں اس کی مدد کرتی
ہے۔
جہازراں اب اعتماد کے ساتھ اپنے بحری سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ خاص آلات ان
کو بتاتے ہیں کہ کہاں پانی اتھلا ہے اور سمندر میں طوفان آنے کی اطلاع پہلے
سے حاصل کر لیتے ہیں۔
اس طرح کے جملے اب کم سننے میں آتے ہیں ”یہ اس کی قسمت ہے”، ”یہ تو پہلے سے
لکھ گیا تھا”۔
جہالت سے خوف پیدا ہوتا ہے اور علم سے اعتماد۔علم آدمی کو اب قدرت کا غلام
نہیں رکھتا بلکہ اس کو قدرت کا مالک بناتا ہے۔
گلیشیروں کا پیچھے ہٹنا
ہر سال جب برف پگھلنے لگتی ہے تو اچانک ہر جگہ، جنگلوں اور کھیتوں میں،
گائوں کی سڑکوں کے برابر اور گڈھوں میں اچھلتے کودتے طوفانی چشمے، چھوٹی
چھوٹی ندیاں، نالے اور آبشار پیدا ہو جاتے ہیں۔
وہ جمی ہوئی اور گندی برف کے نیچے سے ان بچوں کی طرح پھدک کر نکلتے ہیں جو
کسی طرح گھر کے اندر نہیں رہ سکتے۔ یہ دھارے پتھروں پر اور سڑکوں کے پار
جھپٹتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور ان کی بہنے کی گونج فضا میں ہوتی ہے۔
برف روشن ڈھلانوں اور کھلے میدانوں سے پیچھے ہٹ کر گھائیوں، گڈھوں اور
دیواروں کے پیچھے سایہ دار کونوں میں چلی جاتی ہے جہاں وہ کبھی کبھی مئی کی
گرم کرنوں کے آنے تک چھپی رہتی ہے۔
قدرت میں بہت جلد جلد تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ سورج چند دنوں میں ننگی
پہاڑیوں کو سر سبز گھاس کا لباس پہنا دیتا ہے او ردرخت کی خالی ٹہنیوں پر
کو نپلیں آجاتی ہیں۔
یہ ہر بہار میں ہوتا ہے جیسے ہی جاڑے میں جمی ہوئی برف کی موٹی پرت پگھلتی
ہے۔
لیکن ماقبل تاریخ کیا ہوا جب برف کا زبردست غلاف جو دنیا پر ایک سفید ٹوپی
کی طرح تھا پگھلنا شروع ہوا؟
تب چشموں اور چھوٹی چھوٹی ندی نالوں کی بجائے بڑے اور گہرے دریا برف کے
نیچے سے پھوٹ نکلے۔ ان میں سے اب بھی بہت سے سمندر کی طرف بہتے ہیں اور
راستے میں ہر چھوٹے چشمے اور دریا سے پانی جمع کر لیتے ہیں۔
یہ قدرت کی زبردست انگڑائی تھی، وہ زبردست بہار جس نے شمال کے میدانوں کو
بڑے بڑے جنگلوں سے ڈھک دیا۔
لیکن بہار اچانک تو ہوتی نہیں۔ کبھی کبھی مئی میں گرم اور دھوپ والے دن کے
بعد ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی ہے اور جب دوسرے دن صبح تم جاگتے ہو تو چھتوں پر
برف نظر آتی ہے۔ ہر چیز اس طرح سفید لباس پہن لیتی ہے جیسے بہار کبھی آئی
ہی نہ ہو۔ زمانہ تاریخ سے قبل کی زبردست بہار بھی ایک دم جاڑے پر قابو نہیں
پا سکتی۔ گلیشیر رفتہ رفتہ پیچھے ہٹے، جیسے وہ زبردستی ڈھکیلے جا رہے ہوں
اور جہاں ان سے ہو سکا وہ صدیوں تک ڈٹے رہے۔
کبھی کبھی گلیشیر تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر ایسے رک جاتے تھے جیسے اپنی طاقت
جمع کر رہے ہوںاور پھر آگے بڑھتے تھے۔ ٹنڈرا بھی ان کے ساتھ جنوب کی طرف جا
رہے تھے اور ان کے ساتھ ان کے سدا کے ساتھی رینڈیر بھی۔
میدانوں پر گھاس کو دبائے ہوئے کائی پھیلی تھی۔ ارنا بھینسے اور گھوڑے اور
آگے جنوب میں گھاس کے میدانوں تک چلے گئے۔
گرمی اور سردی کی لڑائی بہت دنوں تک جاری رہی لیکن آخر میں گرمی کی جیت
ہوئی۔
پگھلتے ہوئے گلیشیروں سے بڑے بڑے دریا زوروں کے ساتھ بہہ نکلے۔ برف کا جو
غلاف دنیا کو ڈھکے تھا سکڑنے اورچھوٹا ہونے لگا۔ برف کی سرحد اور شمال کی
طرف ہٹ گئی اور اس کے ساتھ ٹنڈرا بھی۔ ان علاقوں میں جہاں پہلے صرف کائی
اور چھدرے، ٹیڑھے میڑھے چھوٹے صنوبر کے درخت تھے وہاں اب بڑے بڑے تناور
صنوبر کے درختوں کے زبردست جنگل ہو گئے۔
اور گرمی برابر بڑھتی گئی۔
اب گہرے سبز صنوبروں کے جھنڈوں کے درمیان آسپ اور بھوج کی ہلکی سبز کلغیاں
نظر آنے لگیں۔ اور ان کے پیچھے چوڑی پتیوں والے بلوط اور لارش بھی شمال کی
طرف چلے۔
”صنوبر کا زمانہ” اب ”بلوط کا زمانہ” بن گیا۔ ایک جنگلی گھر نے دوسرے کی
جگہ لے لی۔
جب پتیوں والے جنگل شمال کی طرف بڑھے تو جھاڑیاں، کھمبیاں اور گوندنیاں بھی
ان کے ساتھ بڑھیں اور وہ جانور بھی جو جنگلوں سے غذا حاصل کرتے تھے۔ ان
میں جنگلی سور، گوزن، ارنابھینسا، لال ہرن تھے جن کی سینگیں بڑی شاندا
رہوتی ہیں۔ ان میں بھورا ریچھ بھی تھا جس کو میٹھی چیزیں پسند ہیں۔ وہ
جھاڑیوں کو توڑ کر شہد تلاش کرتا تھا۔ بھیڑیے بہت دبی چال سے گری ہوئی
پتیوں پر دوڑ کر خرگوشوں کا پیچھا کرتے تھے۔ گول چہرے اور چھوٹے پنجوں والے
اور دبلائو جنگلی چشموں کے آرپار اپنے بند بناتے تھے۔کثیر تعداد چڑیوں کے
گیتوں، جھیلوں پر آتے ہوئے راج ہنسوں اور بطخوں کے شور سے سارا جنگل گونجنے
لگا۔
برف کے قیدی
جب قدرت میں اتنی زبردست تبدیلیاں ہو رہی تھیں اس وقت آدمی صرف کنارے کھڑا
رہ کر تماشائی تو نہیں ہو سکتا تھا۔ تھیٹر کے مناظر کی طرح ہر چیز اس کے
چاروں طرف بدل رہی تھی۔ لیکن ڈرامے اور اس میں فرق یہ تھا کہ اس کے ہر ایکٹ
میں ہزاروں سال لگ جاتے تھے اور اسٹیج ہزاروں لاکھوں مربع کلومیٹر لمبا
چوڑا تھا۔
اور اس ساری دنیا میں پھیلے ہوئے درامے میں آدمی تماشائی نہیں بلکہ ایکٹروں
میں سے ایک تھا۔
ہر بار جب منظر بدلتا تو آدمی کو بھی وجود قائم رکھنے کے لئے زندگی بدلنی
پڑتی۔
جب ٹنڈرا جنوب کی طرف بڑھنے لگا تو اپنے ساتھ رینڈیر لایا جیسے یہ جانور اس
کے بندی ہوں اور زنجیر سے اس کے ساتھ بندھے ہوں۔ اس نظر نہ آنے والی زنجیر
کے ایک سرے پر ینڈیر تھے اور ٹنڈرا کی کائی دوسرے سرے پر۔
استیپ میں آدمی ارنا بھینسے اور گھوڑوں کا شکار کرتا تھا اور ٹنڈرا میں
رینڈیروں کا۔
رینڈکے سوا وہ ٹنڈرا میں اورکس چیز کا شکار کر سکتا تھا؟
میموتھ سب کے سب مر چکے تھے۔ ماقبل تاریخ کے آدمی نے ہزاروں میموتھ مار کر
ان کی ہڈیوں کے پہاڑ اپنی رہائش گاہوں کے قریب لگا دئے تھے۔ اس نے گھوڑوں
کے بہت سے غول کے غول مار ڈالے تھے اورجو باقی رہ گئے تھے وہ اس وقت جنوب
چلے گئے جب ہر ی بھری گھاس کی جگہ سوکھی کائی نے لے لی۔
اس طرح رینڈیر ہی ٹنڈرا میں آدمی کا واحد رازق رہ گیا۔ وہ رینڈیر کا گوشت
کھاتا تھا، اس کی کھال پہنتا تھا اور اس کی سینگوں سے اپنے برچھے اور مچھلی
کے شکار کے کانٹے بناتا تھا۔ اس لئے اس کو اپنی زندگی کو مکمل طور پر
رینڈیر کے مطابق بنانا پڑا۔
جہاں بھی رینڈیر کے گلے جاتے آدمی ان کے پیچھے جاتا۔ جب قبیلے پڑائو ڈالتے
تو عورتیں جلدی سے خیموں کو کھالوں سے ڈھک دیتیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کو
زیادہ دن تک ایک جگہ نہیں رہنا ہے۔جب مچھروں کے دل بادل گلوں کو نئی
چراگاہیں ڈھونڈھنے پر مجبور کرتے تھے تو لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ
نہ ہوتا تھا کہ وہ پڑائو اکھاڑ کر ان کے پیچھے جائیں۔
اکھاڑتیں اوران کو اپنی پیٹھ پر ڈال لیتیں۔ وہ ٹنڈرا میں ھانپتی کانپتی،
تھکی ہاری چلتی رہتیں اور مرد ان کے آگے آگے تیزی سے چلتے۔ان کے پاس سوائے
برچھوں اور مچھلی پکڑنے کے آنکڑوں کے اورکچھ نہ ہوتا۔ گھر کی فکر کرنا مرد
کا کام نہیں تھا۔
پھر ٹنڈرا شمال کی طرف ہٹنا شروع ہوا اور اس کے ساتھ رینڈیر بھی چلے۔ ٹنڈرا
کی جگہ بڑے برے، ناگذار جنگل اگ آئے۔ پھر ماقبل تاریخ کے آدمی کا کیا حشر
ہوا؟
بعض شکاری قبیلے شمال میں رینڈیرکے گلوں کا تعاقب کرتے ہوئے قطب شمال کی
طرف چلے گئے۔ ان کے لئے یہ بہت آسان تھا کیونکہ وہ شمالی آب وہوا کے کافی
عادی ہو گئے تھے۔ برفانی دور کا انتہائی شدید جاڑا لاکھوں سال تک رہا۔ ان
لاکھوں برسوں میں قدیم زمانے کے آدمی نے جاڑے کا مقابلہ کرنا، جانوروں کے
گرم سمور سے اپنے کپڑے بنانا سیکھ لیا۔جتنا ہی زیادہ سخت جاڑا ہوتا کھودی
ہوئی رہائش گاہ کے اندر چولہا اتنا ہی زیادہ روشن ہوتا۔
اب ٹھہرنے سے قطب شمال کو منتقل ہو جانا زیادہ آسان تھا۔بہر حال آسان راستہ
ہمیشہ سب سے بہتر راستہ نہیں ہوتا اور ان لوگوں نے جو ٹنڈرا کے ساتھ شمال
کو چلے گئے تھے بہت کچھ کھو دیا کیونکہ برفانی دور ہزاروں سال تک چلتا رہا۔
گرین لینڈ کے اسکیمو لوگ اب بھی برف کے درمیان رہتے ہیں اور قدرت کے خلاف
جو وہاں بہت سخت اور بالکل عریاں ہے متواتر جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔
جو قبیلے ٹھہر گئے تھے ان کی حالت بالکل مختلف ہوئی۔ پہلے تو ابھرتے ہوئے
جنگلوں کے درمیان ان کی زندگی زیادہ کٹھن ہو گئی۔ لیکن انہوں نے اپنے کو
برفانی قید خانے ہی سے رہا کر لیا جس میں ان کے اجداد ہزاروں سال تک قیدی
رہ چکے تھے۔
جنگل سے آدمی کی لڑائی
جہاں پہلے ٹنڈرا تھے وہاں جو جنگل ابھرے وہ بالکل ہمارے موجودہ جنگلوں کی
طرح نہیں تھے۔ یہ بڑے بڑے درختوں اور جھاڑیوں کی ایک گھنی اور ناگزار دیوار
تھی جو ہزارکلو میٹر تک پھیلتی چلی گئی تھی۔ وہ دریائوں اورجھیلوں کے
کناروں تک اور بعض جگہوں پر سمندروں کے ساحلوں تک بڑھتی چلی گئی تھی۔
اس انوکھی اورنئی دنیا میں ماقبل تاریخ کے آدمی کی زندگی آسان نہ تھی۔ جنگل
اس کو اپنے جھبرے پنجوں میں لے کر گھونٹتا تھا، اس کے لئے سانس لینے کی
جگہ نہیں چھوڑتا تھا۔ اس کو جنگل کے خلاف متواتر لڑائی پڑتی تھی۔ وہ درختوں
کو کاٹتا اور زمین کے چھوٹے چھوٹے قطعے صاف کرتا تھا۔
ٹنڈرا ہو یا میدان، قدیم زمانے کے آدمی کو پڑائو کے لئے جگہ پانا دشوار نہ
تھا۔ ہر جگہ کافی گنجائش تھی۔ جنگل کی ہر جگہ درختوں اور گھنی جھاڑیوں سے
بھری ہوتی تھی اور آدمی کو جنگل پر اس طرح حملہ کرنا پڑتا تھا جیسے دشمن کے
قلعے پر کیا جاتا ہے۔
لیکن ہتھیاروں کے بغیر جنگ کیسے ممکن ہے۔ درختوں کو کاٹنے کے لئے کلہاڑی کی
ضرورت تھی ۔ اس طرح آدمی نے ایک بھاری تکونا پتھر لمبے دستے میں لگایا۔
اور پھر جہاں صرف ہدہد درختوں پر حملے کرتے تھے وہاں سے کلہاڑیوں کی آواز
گونجنے لگی۔ یہ تھی ان پہلی کلہاڑیوں کی آواز جو پہلے درخت کاٹ رہی تھیں۔
دھار دار تیز پتھر درخت میں گہرا پیوست ہو جاتا اور اس کے زخم سے گاڑھا رس
بہہ نکلتا۔ درخت کراہتا اور چرچراتا، پھر لکڑھارے کے قدموں پر آن گرتا۔
لوگ روزانہ، بڑے صبر کے ساتھ درختوں کو کاٹتے اور جنگل کی دنیا میں اپنے
لئے جگہ بناتے۔
کوئی قطعہ صاف کرنے کے بعد لوگ درخت کے ٹھنٹھوں اور جھاڑیوں کو جلا دیتے۔
اس طرح آدمی جنگل کے خلاف لڑتا اورفتح حاصل کرتا رہا ۔ وہ ہمارے ہوئے دشمن
کا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔
شاخوں کو کاٹنے کے بعد لوگ درخت کے ایک سرے کو نوکیلا بنا کر اس کو زمین
میں گاڑتے، پتھر کے گھن سے اس کو زمین کے اندر مضبوط ٹھونک دیتے۔ پھر وہ اس
طرح دوسرا، تیسرا اور چوتھا کھمبا ایک ہی قطار میں گاڑتے چلے جاتے۔ جلد ہی
ایک دیوار بن جاتی جس کو وہ چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں کھمبوں کے درمیان بن کر
اور مضبوط بنا دیتے اور تھوڑے دنوں میںلکڑی کا ایک حجرہ جو خود چھوٹا سا
جنگل معلوم ہوتا جنگل کے اندر تیار ہو جاتا۔ اس میں درختوں کے تنوں کے
درمیان ٹہنیوں کو آپس میںبن کر دیوار بنائی جاتی۔ لیکن یہ تنے کسی طرف اگتے
نہیں تھے بلکہ اس طرح زمین قائم کھڑے رہتے جس طرح آدمی نے ان کو گاڑا تھا۔
قدیم زمانے کے آدمی کے لئے جنگل کی دنیا میں اپنے لئے جگہ بنانا بہت کٹھن
تھا اور اس سے زیادہ مشکل تھا اپنے لئے غذا حاصل کرنا۔
کھلے میدانوں میں نکل کر وہ گلوں میں رہنے سہنے والے جانوروں کا شکار کرتا۔
میدانوں میں گلوں کو دور دور تک دیکھناآسان تھا کیونکہ کسی ٹیلے سے بھی
میلوں دور تک چاروں طرف سب کچھ نظر آتا تھا۔
لیکن جنگل کی بات ہی اور تھی۔ حالانکہ جنگل کا گھر رہنے والوں سے بھرا ہوا
تھا پھر بھی وہ دکھائی نہیں دیتے تھے۔ تمام منزلوں میں ان کی آواز، ان کی
سرسراہٹ اور چیخوں کی گونج ہوتی تھی لیکن ان کا پتہ لگانا بہت مشکل تھا۔
کوئی چیز پیر کے نیچے سرسراتی یا سر کے اوپر اڑتی، کسی چیز سے پتیاں ہلتیں۔
قدیم زمانے کا آدمی ان سرسراہٹوں اور مہکوں میں کیسے تمیز کر سکتا تھا، وہ
تمام چمک دار درختوں کے تنوں کے درمیان جانور کے چمک دار گلوں کا کیسے پتہ
لگا سکتا تھا؟
جنگل کی ہر چڑیا اور جانور کا اپنا حفاظت کرنے والا رنگ تھا۔ چڑیا کے پر
درختوں کے داغدار تنوں کی طرح ہوتے تھے۔ جنگل کی نیم تاریکی میںجانوروںکے
سمور کاسرخی مائل بادامی رنگ بھی سوکھی ہوئی پتیوں کی طرح ہوتا تھا۔ کسی
جانور کا پتہ لگانا مشکل تھا۔ لیکن جب جانور قریب ہوتا شکاری کا نشانہ بڑا
سچا ہونا چاہئے ورنہ جانور جھاڑیوں میں غائب ہو جاتا تھا۔
اسی وقت قدیم زمانے کے شکاری کو پھینکے والے برچھے کی جگہ تیز پرواز کرنے
والے تیر کو دینا پڑی۔وہ اپنی کمان ہاتھ میںلیتا اور ترکش کندھے سے لٹکاتا
اور پھر گھنے جنگل میں گھس کر جنگلی سوروں کا شکار کرتا یا دل دل میں بطخوں
اور ہنسوں کو مارتا۔
آدمی کا چوپایہ دوست
ہر شکاری کا ایک وفادار دوست ہوتا ہے جس کے چار پنجے، بڑے نرم کان اور سیاہ
کھوجی تھوتھن ہوتا ہے۔
یہ چوپایہ دوست شکاری کو شکار ڈھونڈھنے میں مدد دیتا ہے۔ کھانے کے وقت وہ
مالک کے پاس بیٹھتا اور اس کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈالکر یہ کہتا معلوم ہوتا
ہے ”اور میرا حصہ کہاں ہے؟”
یہی چوپایہ دوست ہزاروں سال سے آدمی کی خدمت پڑی وفاداری کے ساتھ کر رہا ہے
کیونکہ یہ اسی دور دراز زمانے کی بات ہے جب آدمی تیر وکمان سے شکار کھیلتا
تھاکہ اس نے کتے کو اپنا دوست بنایا تھا۔
دریائے ینیسئی کے کنارے افونتووا کی کھدائی میں، سوویت ماہرین آثار قدیمہ
نے ایک قدیم شکاری پڑائو میں کتے کی ہڈیاں پائیں۔اس کے سوا کہ تھوتھن ذرا
چھوٹا تھا باقی ہڈیاں بھیڑیے سے مشابہہ تھیں۔
قدیم زمانے کے آدمی کاکتا غالباً اس کے گھر کی حفاظت کرتاتھا اور شکار میں
اس کی مدد کرتا تھا۔ ابتدائی جنگلی بستیوں میں باورچی خانوں کے کوڑا گھروں
میں سائنس دانوں نے جانوروں کی ایسی ہڈیاں پائیںجن پر کتے کے دانتوں کے
نشان تھے۔ اسی لئے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی کھانے کے وقت کتا آدمی
کے ساتھ بیٹھتا تھا اور ہڈیاں چاہتا تھا۔
کوئی آدمی کتے کو رکھ کر نہ کھلاتا اگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ قدیم
زمانے کا آدمی کتے کے پلے کو شکار کا پتہ لگانے میں اپنے مدد گار کی حیثیت
سے سدھانے لگا تھا۔
اس نے مدد گار کے انتخاب میں غلطی نہیں کی تھی۔ قبل اس کے کہ وہ کسی جنگلی
سور کے نشان دیکھتا یا ہرن کے پائوں کی چاپ سنتا اس کا کتا چوکنا ہو کر
اپنا تھوتھن اونچا کرتا اور بوسونگھنے لگتا۔
جھاڑیوں سے کس چیز کی مہک آتی تھی؟کون یہاں سے ابھی گذرا تھا؟ کتے کے لئے
دو تین بار سونگھنا ہی کافی تھا۔ اس وقت کتا کچھ بھی دیکھتا سنتا نہیں تھا،
وہ اپنے خاص کام یعنی جانور کا پتہ لگانے میں بالکل محو ہو جاتا تھا۔ وہ
جنگل میں دبے پائوں تیزی سے دوڑتا تھا۔ مالک کو صرف اس کا ساتھ دینا پڑتا
تھا۔
کتے کو پالتو بنانے کے بعد آدمی اور مضبوط ہو گیا۔ اس نے کتے کی ناک کو جو
اس کی ناک سے کہیں زیادہ تیز تھی اپنی خدمت کے لئے اس استعمال کیا۔
بہر حال، آدمی نے ناک سوا کتے کی دوسری چیزوں مثلاً اس کے چار پیروں سے بھی
فائدہ اٹھایا۔ اپنی گاڑی میں گھوڑا جوتنے سے پہلے آدمی اپنا سامان اور
خاندان لے جانے کے لئے کتا استعمال کرتا تھا۔
سائبیریا میں ایک قدیم شکاری پڑائو سے کتے کی ہڈیوں کے پاس ہی ساز بھی ملا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کتے آدمی کی صرف شکار ہی میں نہیں مدد کرتے تھے بلکہ
اس کو کھینچ کر لے بھی جاتے تھے۔
اس طرح پہلی بار ہماری ملاقات آدمی کے بہترین دوست یعنی کتے سے ہوئی۔
اس سمجھ دار جانور کے بارے میں نہ جانے کتنی سچی کہانیاں لکھی جا چکی ہیں
جو پہاڑوں میں آدمیوں کو بچاتا ہے، میدان جنگ سے زخمیوں کو لے جاتا ہے،
گھروں اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ گھر، شکار، جنگ اور تحقیقات
تجربہ گاہوں میں کتے ہمارے بڑے وفادار خادم ہوتے ہیں۔
جب سائنس کے مفاد اور انسانیت کی بھلائی کے لئے سائنس داں کسی کتے کو آپر
یشن کی میز پر لٹاتا ہے تو وہ سائنس داں کو اعتماد کی نگاہوں سے دیکھتا ہے،
ایسی نگاہوں سے جیسے وہ اپنے مالک کے لئے جان دینے کو تیار ہے۔
لینن گراد کے قریب پاولووا کے قصبے میں اس لیباریٹری کی عمارت کے سامنے
جہاں سائنس داں دماغ کے افعال کا مطالعہ کرتے ہیں ایک بڑی سی یاد گار ہے۔
یہ یاد گار ہمارے اسی وفادار چار پیروں والے دوست کے اعزازمیں نصب کی گئی
ہے۔
دریا سے آدمی کی لڑائی
قدیم زمانے کے سبھی آدمی تو اپنے گھر درخت کے جھنڈوں کے درمیان نہیں بناتے
تھے۔ ایسے لوگ بھی تھے جو گھنے جنگلوں کو چھوڑ کر دریائوں اور جھیلوں کے
کنارے آباد ہو گئے تھے۔ یہاں پانی اور جنگل کے درمیان تنگ پٹی پر وہ اپنے
لکڑی کے حجرے بناتے تھے۔
جنگل کے مقابلے میں دریا کے کنارے زیادہ جگہ تھی لیکن یہاں بھی رہنا سہنا
جنگل کی طرح دشوار تھا۔ دریا ایک بے چین پڑوسی تھا۔ جب بہار میں اس میں
سیلاب آتا اور وہ اپنے کناروں سے اوپر بہہ نکلتا تو اکثر برف کی چٹانوں اور
گرے پڑے درختوں کے ساتھ آدمیوں کے گھر بھی بہا لے جاتا۔ سیلاب سے بھاگ کر
لوگ قریب کے درختوں پر چڑھ جاتے تھے اور غضب ناک دریا کے اترنے تک وہیں
انتظار کرتے تھے۔ جب دریا پھر اعتدال پر آجاتا تھا تو کنارے پر پھراپنا گھر
بنانا شروع کر دیتے تھے۔
پہلے پہل تو ہر سیلاب ان کے لئے اچانک آتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے دریا کے
رویے کا بغور مطالعہ یا تو سیلاب سے بچنے لگے۔
وہ کئی درخت کاٹتے اور ان کے تنے ایک ساتھ باندھ کر بیٹرا بنا لیتے اور اس
کو دریا کے کنارے ڈال دیتے۔ پھر وہ لٹھوں کی پہلی پرت پرلٹھوں کی دوسری
ڈالتے۔ اس طرح پرت در پرت وہ ایک اونچا چبوترہ سا بنا لیتے اور اس پر اپنی
جھونپڑی بنا تے۔ اب وہ سیلاب سے نہیں ڈرتے تھے کیونکہ جب طوفانی دریا چڑھتا
تو ان کی چوکھٹ تک بھی نہ پہنچتا۔
یہ آدمی کی بڑی جیت تھی کیونکہ اس نے نیچے کنارے کو اونچا کر دیا تھا۔ گویا
یہ چبوترہ ان تمام بندوں اور پشتوں کی ابتدا تھی جو اب ہم دریائوں کو
روکنے کے لئے بناتے ہیں۔
قدیم زمانے کے آدمی نے دریائوں سے لڑنے میں کافی وقت صرف کیا۔
لیکن وہ دریا کے کنارے کیوں بسا اور اس نے پانی کے قریب کیوں رہنا چاھا؟
یہ ان مچھیروں سے پوچھو جو اپنی زندگی دریا کے کنارے ہی گذارتے ہیں اور
اپنی بنسیوں پر بڑے صبر کے ساتھ آنکھ لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔
دریا آدمی کے لئے کشش رکھتا تھا کیونکہ اس میں مچھلیاں تھیں۔
شکاری نے مچھیرا بننا کیسے سیکھا؟ بہر حال، اس کو ماہی گیری اور جانوروں کے
شکار کے لئے مختلف اوزاروں کی ضرورت تھی۔
جب واقعات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے تو ہم اس کی کھوئی کڑیاں تلاش کرنے کی کوشش
کرتے ہیں۔
کوئی شکاری ایک دن میں تو ماہی گیر نہیں بن گیا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب ہوا
کہ مچھلی پکڑنا سیکھنے سے پہلے وہ مچھلی کا بھی شکار ہی کرتا تھا۔
اور یہی واقعی ہوتا تھا۔ ماہیگیر کا سب سے پہلا اوزار ماہی برچھا تھا جو
شکار کھیلنے والے برچھے سے بہت کچھ مشابہ تھا۔
قدیم زمانے کا آدمی کمر کمر پانی میں جا کر ان مچھلیوں کو برچھے سے شکار
کرتا تھا جو چٹانوں کے درمیان چھپی ہوتی تھیں۔ پھر اس نے دوسرے طریقوں کی
ماہی گیری سیکھی۔وہ جال کے ذریعے چڑیوں کو پکڑنا سیکھ چکا تھا اور اس نے
جال کو پانی میں بھی آزما۔ اس طرح لوگ مچھلیاں پکڑنے کے لئے بھی جال
استعمال کرنے لگے۔
ماہرین آثار قدیمہ نے ماہی گیری کے نیزے اور برچھیاں، مچھلیوں کے جال کے
پتھر کے لنگر اورہڈی کے بنے ہوئے مچھلی پکڑنے کے کانٹے کھود کر نکالے ہیں۔
شکاری ماہی گیروں کا گھر
سوویت ماہر آثار قدیمہ تولستوف اور ان کے ساتھیوں نے قزل قم کے ریگستان میں
قدیم زمانے کے شکاری ماہی گیروں کا ایک پڑائو اس جگہ دریافت کیاجہاں آمود
ریا بحیرہ ارال میں گرتا ہے۔
ایک ریتیلے ٹیلے کی چوٹی پر، ریت اور مٹی کی تہہ میں ان کو بہت ہی اچھے
پتھر کے اوزار، مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ملے ان میں
جنگلی سوروں، بارہ سنگھوں اور ہرنوں کی بہت سی ہڈیاں تھیں۔ لیکن ان ڈھیروں
میں زیادہ مچھلیوں کے کانٹے اور ہڈیاں تھیں۔ وہاں کے لوگوں کی خاص غذا
مچھلی ہی معلوم ہوتی تھی۔
ایک جلے ہوئے گھر کے نشانات بھی یہاں ملے۔ اس میں صرف راکھ اور کوئلے،
سرکنڈے کے جلے ہوئے ٹکڑے اور کوئلے کے سیاہ خطوط جو ایک حلقے کے مرکز میں
ملتے تھے باقی رہ گئے تھے۔ اس گھر کے بیچ میں صاف، سفید راکھ کی ایک موٹی
پرت تھی جس کے نیچے خوب تپی ہوئی چمکیلی سرخ ریت کی تہہ تھی۔
اس مرکزی چولھے کے چاروں طرف اور بھی چولھے تھے جن میںکالی، گندی راکھ اور
باورچی خانے کا کوڑا بھرا تھا۔
پڑائو میں بس یہی ملا۔ اب یہ سائنس دانوں کا کام تھا کہ وہ اس گھر اور اس
کے سازو سامان کو اصل کے مطابق بحال کریں اور چند جلے ہوئے آثار کے ذریعے
اس کے رہنے والوں کی زندگی کے متعلق بیان کریں۔
جو لوگ آثار قدیمہ کے علم سے ناواقف ہیں ان کے لئے یہ مسئلہ حل کرنا ممکن
نہ ہوتا لیکن ماہرین آثار قدیمہ فوراً سمجھ گئے کہ کوئلہ اور راکھ ان گڈھوں
میں بھر گئی ہے جہاں پہلے چھت کو روکنے والے لکڑی کے کھمبے تھے۔ اور جلے
ہوئے سرکنڈوں نے انہیں بتایا کہ چھت سرکنڈوں کی تھی۔ سیاہ خطوط جو مرکز میں
ملتے تھے ان کھمبوں کے زمین پر گرنے کے نشانات تھے ج گھر کو تباہ کرنے
والی آگ کے دوران گرے تھے۔
مرکزی چولھے پر کھانا نہیں پکایا جاتا تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس کی
راکھ اتنی صاف اور سفید نہ ہوتی۔ وہاں راکھ کی پرت بہت موٹی تھی کیونکہ
مرکزی چولھے میں قدیمہ رسم کے مطابق دن رات اور ابدی آگ جلتی رہتی تھی۔
گھر کی عورتیں دوسرے چولھوں پر کھانا پکاتی تھیں جو چھت کو روکنے والے
کھمبوں کے درمیان تھے۔ اسی لئے وہاں کی راکھ اتنی گندی تھی اور زمین پر
ہڈیاں پھیلی ہوئی تھیں۔
وہاں بہت سے چولھے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سی عورتیں بھی تھیں۔ یہ
تمام عورتیں، ان کے شوہر اور بچے قرابت کی بنا پر ایک برادری میں منسلک
تھے۔
برادری بڑی ہوتی تھی، کوئی سو یا اس سے زیادہ آدمیوں پر مشتمل۔ اس لئے گھر
بھی بڑا تھا۔ پھر بھی یہ گھر اپنے جد سے مشابہ تھا، نوکیلی چھت والے گول
خیمے سے۔
کھمبوں کی دو قطاروں کے درمیان داخلے سے لے کر مرکزی چولھے تک ایک لمبی راہ
داری تھی۔ راہ داری کے دائیں طرف کھانا پکانے کے چولھے تھے اور بائیں طرف
خالی جگہ۔
گھر کے اندر ان لوگوں کو خالی جگہ کی کیا ضرورت تھی؟
ا س کا حل ہمیں جزائر انڈمان میں، جو وسط ایشیا سے بہت دور واقع ہیں،
پنچائتی جھونپڑیوں سے ملتا ہے۔ ان جزیروں کے لوگ یہ خالی جگہ جادو ٹونے
والی ریت رسموں کے لئے استعمال کرتے تھے۔
یہاں بھی راہ داری کے بائیں طرف ماہرین آثار قدیمہ نے دیوار کے پاس چھوٹے
چھوٹے چولھے پائے۔ یہ غالباً وہ جگہ تھی جہاں برادری کے غیر شدہ لوگ رہتے
تھے۔
اس طرح ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی نگاہوں کے سامنے اس گھر کا نقشہ کھینچا
جس میں یہ ماہی گیر رہتے تھے۔
بہر حال آثار سے یہ پتہ تو چلا نہیں کہ وہ مچھلیاں کیسے پکڑتے تھے اور ان
کے پاس ڈونگیاں تھیں یا نہیں۔
روس میں اس طرح کی ایک ڈونگی جھیل لادوگا کے کنارے ملی ہے۔
سب جہازوں کا دادا
کوئی اسی سال پہلے لوگ جھیل لادو گا سے قریب ہی ایک نہر کھود رہے تھے۔دل
دلی کوئلے اورریت کے درمیان کھودتے ہوئے ان کو آدمیوںکی کھوپڑیاں اورپتھر
کے اوزار ملے۔
ماہرین آثار قدیمہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے دلدل سے ہر قسم کی چیزیں
ڈھونڈ نکالیں جیسے یہ کسی میوزیم کا شوکیس تھا۔ انہوں نے پتھر کی کلہاڑی،
پتھر کا چاقوں، مچھلی پکڑنے کے پتھر کے کانٹے اور تیر، مچھلی کے شکار کیلئے
ایک دندانے دار برچھا اور سیل مچھلی کی طرح تراشا ہوا ہڈی کا ایک تعویذ
پایا۔ پتھر اور ہڈی کی ان تمام چیزوں کو برآمد کرنے کے بعد ان کو سب سے اہم
چیز ملی یعنی ایک ثابت ڈونگی۔ وہ اتنی ٹھیک تھی کہ آدمی اس میں بیٹھ کر
فوراً اس کو کھے سکتا تھا۔
اس کی صورت شکل بالکل ہمارے زمانے کی ڈونگیوں جیسی نہ تھی۔ یہ تو تمام
کشتیوں، دخانی جہازوں، ڈیزل جہازوں کی دادی تھی اورکسی بڑے شاہ بلوط کے تنے
کو کھوکھلا کر کے تیار کی گئی تھی۔
اگر اس کھوکھلی ڈونگی کو تم دیکھو تو تمہیں پتہ چل سکے گا کہ کس طرح پتھر
کی کلہاڑی نے بلوط کے تنے کے ٹکڑے ٹکڑے کاٹے تھے۔
ایسی جگہوں پر جہاں کلہاڑی سے لکڑی کے ریشے کے مطابق کاٹا گیا تھا کام آسان
تھا اور سطح کافی چکنی تھی لیکن ڈونگی کے ماتھے اور دبنالے پر جہاں کلہاڑی
کو ریشے کے خلاف کاٹنا تھا کام سخت جاں فشاں تھا۔ یہاںلکڑی کو ہر طرف سے
کاٹا گیا ہے۔ وہ ہر طرف ناہموار ہے اور اس میں گڈھے دکھائی دیتے ہیں جیسے
پتھر کے دانتوں نے بلوط کو کاٹا ہو۔ بعض جگہوں پر جہاں لکڑی میں گرھیں تھیں
یا ٹیڑھا میڑھا پن تھا کلہاڑی کارگر نہیں ہوئی تھی۔ ایسی حالت میں لکڑی کے
خلاف کلہاڑی کی لڑائی میں آگ نے مدد دی تھی۔
ڈونگی کا پورا دنبالہ جلا ہوا ہے اورکوئلے کی چٹخی ہوئی پرت سے ڈھکا ہے۔
قریب ہی سائنس دانوں کو وہ پتھر کی کلہاڑی بھی مل گئی جس نے ڈونگی کو کاٹ
کاٹ کر کھوکھلا کیا تھا۔ اس کی دھار کو چمکایا اور تیزکیاگیا تھا اور قریب
ہی دلدل کوئلے میں پتھر کو تیز کرنے کا اوزار بھی مل گیا۔ اس کا یہ مطلب
ہوا کہ پہلے کی طرح اس وقت پتھر کے اوزار صرف کاٹ کاٹ کر نہیں بنائے جاتے
تھے بلکہ ان پر پالش بھی کی جانے لگی تھی اور ان کو تیز بھی کیا جاتا تھا
کیا کوئی کند کلہاڑی مضبوط شاہ بلوط کو کاٹ سکتی تھی؟
آدمی کو بلوط کو کھوکھلا کر کے ڈونگی بنانے میں بڑا وقت لگتا تھا۔
آخر کار جب یہ کام ختم ہوتا تھا تو کشتی پانی میں اتاری جاتی تھی۔ مچھیرے
جھیل پروانہ ہو جاتے تھے۔ ان کے پاس مچھلی کے شکار کے لئے طرح طرح کے
برچھے، نیزے، کانٹے اور جال ہوتے تھے۔
جھیل لادو گا بہت بڑی تھی اور اس میں مچھلیوں کی بھی کثرت تھی لیکن لوگ
کنارے سے دورتک جانے کی جرأت نہیںکرتے تھے کیونکہ پانی ان کے لئے نئی اور
انجانی دنیا تھا۔ ان کو کیا پتہ تھاکہ وہ کیسا ہے اور آئندہ کیا کرے گا؟
ایک دن وہ پرسکون رہتا اور اس کی سطح ہموار رہتی۔ دوسرے دن اس میں بڑی بڑی
غضب ناک لہریں اٹھنے لگتیں۔
زبردست شاہ بلوط جس کو کوئی طوفان اور آندھی نہیں گرا سکتی تھی ان لہروں پر
ایک لکڑی کے ٹکڑے کی طرح ڈگمگاتا۔ لوگ ڈر کر کنارے کی طرف کشتی لاتے۔ وہاں
ٹھوس خشک زمین تھی اور ان کے پیر اس پر چلنے کے عادی وہ چکے تھے۔ زمین تو
جھولتی نہ تھی، نہ ان کے خیر مقدم کے لئے اوپر اٹھتی تھی اور نہ ان کو ادھر
ادھر جھلا کر پھینکتی تھی۔
اس طرح قدیم زمانے کا آدمی بچے کی طرح دھرتی ماتا کے کلیجے سے چمٹا رہتا جس
نے اس کی پرورش کی تھی۔ وہ خطرناک پانی میں جو آسمان تک پھیلتا چلا گیا
تھا مچھلی کے شکار کے لئے جانے کی بجائے اس کا انتظار کرتا تھا کہ مچھلی
خود کنارے تک آئے۔
رفتہ رفتہ اور بڑی احتیاط سے آدمیوں نے اعتماد حاصل کرنا شروع کیا اور کچھ
زیادہ آگے جانے کی ہمت کرنے لگے۔
ایک زمانہ تھا جب آدمی کی دنیا وہاں ختم ہو جاتی جہاں پانی شروع ہوتا تھا۔
ہر دریا کا کنارا ایک نظر نہ آنے والی دیوار تھاجس پر لکھا ہوتا تھا ”آگے
بڑھنے کی اجازت نہیں”۔
آدمی نے اس نظر نہ آنے والی دیوار کو توڑ دیا۔ لیکن ابھی وہ اپنی نئی دنیا،
پانی کی دنیا کی سرحدوں سے قریب رہتا تھا۔ کسی بھی کام میں پہلے قدم سب سے
زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ وہ وقت آنے والا تھا جب وہ کنارے سے بالکل الگ ہونے
والا تھا س کو چھوٹی ڈونگیوں میں نہیں جاناتھا بلکہ ایسے جہازوں میں جو اس
کو افق کے پار نئے ساحلوں تک، نئے علاقوں تک لے جاتے تھے جہاں اس کے ہی
جیسے آدمی رہتے تھے۔
پہلے کاریگر
اے نوجوان کاریگرو، ہم تم سے بات کر رہے ہیں جنہوں نے حال ہی میں کلہاڑی
رندے، ہتھوڑی اور برمے کا استعمال سیکھا ہے۔
ہم تم سے بات کر رہے ہیں جو مستقبل میں فولاد ساز، کیمیا داں، مشینوں اور
ہوائی جہازوں کے ڈیزائن بنانے والے مکانات اور جہاز تیار کرنے والے ہوگے!
چوبی دستے والی پتھر کی کلہاڑی
یہ کتاب تم لوگوں کے لئے لکھی گئی ہے جن کو اپنے اوزاروں اور کام سے
پیار ہے۔ تم جانتے ہوکہ تمہارے اوزاروں اور اس لکڑی یا دھات کے درمیان جس
پر تم کام کرر ہے ہو لڑائی کتنی سخت ہے اور تمہیں کتنی خوشی ہوتی ہے جب تم
کوئی کام پورا کر لیتے ہو۔
جب تم لکڑی کا کوئی ٹکڑا لیتے ہو تو تمہارے ذہن میں اس چیز کی شکل ہوتی ہے
جو تمہیں اس ٹکڑے سے بنانا ہے۔ یہ بات بالکل آسان معلوم ہوتی ہے ۔ تمہیں
یہاں ایک ٹکڑا آری سے کاٹنا ہوگا، برمے سے ایک سوراخ وہاں برمانا ہو گا اور
دوسرا ٹکڑا دھر کاٹنا ہو گا۔ لیکن لکڑی اس پر تیار نہیں ہوتی۔ وہ اپنی
پوری طاقت سے اس تیز دھار کی مزاحمت کرتی ہے جو اس کو کاٹنا چاہتی ہے۔
اوزار یکے بعد اس لڑائی میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔ اگر چاقو سے کام نہیں چلتا
تو کلہاڑی میدان میں آتی ہے۔ اگر کلہاڑی بھی ناکام رہتی ہے۔ تو درجنوں
دانتوں والا آرا میدان جنگ میں اترتا ہے۔
اور پھر وہ وقت آیا جب وہ تمام لکڑی جو تمہاری مجوزہ چیز کی شکل وصورت کو
چھپائے ہوئے تھی کٹ کر چھیلن، چھپٹیوں اور برادے کی شکل میں نظر آنے لگتی
ہے۔
تمہاری جیت ہوئی لیکن یہ صرف تمہاری ہی جیت نہیں ہے۔ تمہاری جیت ا س لئے
ممکن ہوئی کہ تمام کاریگروں نے بہت سی صدیوں کے دوران میں ان اوزاروں کوا
یجاد کیا اور بہتر بنایا جو تم استعمال کرتے ہو، جنہوں نے ان اوزاروں کو
بنانے کے لئے نئی چیزوں کی تلاش کی اور ان کے استعمال کے نئے طریقے نکالے۔
یہاں، اس کتاب کے صفحات سے تم ان پہلے کاریگروں کے بارے میں معلومات حاصل
کر چکے ہو جنہوں نے پہلے چاقو، کلہاڑیاں اور ہتھوڑے بنائے تھے۔
تم نے ان کو کام کرتے بھی دیکھا۔ تمہارے کام کی طرح ان کا کام بھی کٹھن تھا
لیکن آخر میں ان کو اس سے خوشی بھی ہوتی تھی۔
یہ پہلے بڑھئی، زمین کھودنے والے اورمعمار جانوروں کی کھال کے کپڑے پہنتے
ان کے اوزار بھدے اور بھاری تھے۔ان کو ایک کشتی بنانے میں مہینوں لگتے تھے۔
ان کومٹی کی کھانا پکانے والی ایک ہانڈی بنانے میں اس سے زیادہ مشکل پیش
آتی تھی جتنی ہمیں ایک مجسمہ بنانے میں ہوتی ہے۔
لیکن یہ بڑھئی، زمین کھودنے والے اور کمہار ان معماروں، کیمیادانوں اور
فولاد سازوں کی زبردست فوج کے پہلے سپاہی تھے جو اپنی روازنہ کی محنت سے اب
دنیا کے خدوخال بدل رہے ہیں۔
مثال کے لئے قدیم زمانے کے کمہاروں کو لے لو۔ انہوں نے پہلی مرتبہ ایک ایسا
نیا مادہ تیار کیاجو قدرت سے انہیں نہیں ملا تھا۔ اس سے پہلے، جب قدیم
زمانے کا کاریگر کوئی پتھر کی کلہاڑی یا ہڈی کا نیزہ تیار کرتا تھا تو وہ
اس کے مادے کی تخلیق خود نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی صورت بدل دیتا تھا۔ لیکن
کمہار کی بات ایسی تھی جو کبھی پہلے نہیں ہوئی تھی۔ آدمی نے مٹی کا برتن
بنایا اوراس کو الائو میں پکایا۔ آگ نے مٹی کی تمام خاصیتیں بدل دیں۔ اب وہ
پہچانی نہیں جاسکتی تھی۔
اس سے قبل مٹی بھیگنے پر پھس پھسی ہو جاتی تھی لیکن آگ میں پکنے کے بعد اس
کو پانی سے ڈر نہیں رہا۔ پانی ڈالنے سے نہ تو اس کی شکل بدلتی تھی اور نہ
وہ نرم ہوتی تھی۔
قدیم زمانے کے آدمی نے مٹی کو ایک نئی چیز میں تبدیل کرنے کے لئے آگ کا
استعمال کیا۔ یہ دوہری جیت تھی۔ آگ اور مٹی دونوں پر۔ یہ سچ ہے کہ آگ آدمی
کے پہلے سے خدمت کر رہی تھی۔ اس کو سردی سے بچاتی تھی، جنگلی جانوروں سے
محفوظ رکھتی تھی، جنگلات کی صفائی میں آدمی کی مدد کرتی تھی اور ڈونگی
بنانے میں کلہاڑی کی مدد کرتی تھی۔ اب لوگ آگ بنانے کا راز جان گئے تھے۔ جب
بھی وہ دو لکڑی کے ٹکڑوں کو زوروں سے آپس میں رگڑتے تھے آگ نمودار ہو جاتی
تھی۔
اب آدمی نے آگ کو ایک نیا اور زیادہ مشکل فریضہ سونپا یعنی ایک مادے کو
دوسرے میں تبدیل کرنے کا فریضہ۔
جب آدمی کو آگ کی حیرت انگیز خوبیوں کا پتہ چلا تو اس نے آگ کو مٹی پکانے،
اپنا کھانا تیار کرنے، روٹی پکانے اور تانبے کو پگھلانے کے لئے استعمال
کرنا شروع کیا۔
آج تم کو دنیا میں کوئی ایسا کارخانہ نہ ملے گا جو ایک مادے کو دوسرے میں
تبدیل کرنے کے لئے آگ کا استعمال نہ کرتا ہو۔
آگ ہمیں کچھ دھات سے لوہانکالنے،ریت سے شیشہ بنانے اور لکڑی سے کاغذ تیار
کرنے میں مدد دیتی ہے۔ فولاد کے کارخانوں میں جو آگ جلتی رہتی ہے اس کو
فولادسازوں اور کیمیادانوں کی پوری فوج کی فوج کنٹرول کرتی ہے۔ اوران سب
بھٹیوں کی ابتدا اس چولھے سے ہوئی ہے جس میں قدیم زمانے کے کمھار نے اپنا
پہلا، بھدا، تنگ پیندے والا برتین پکایا تھا۔
بیج گواہ ہے
قدیم زمانے کے ایک پڑائو سے ماہرین آثار قدیمہ کو بہت سی چیزوں کے درمیان
مٹی کے برتنوں کے کچھ ٹکڑے بھی ملے۔
باہر سے یہ ٹکڑے آپس میں گتھے ہوئے خطوط کے سادہ ڈیزائن سے سجے ہوئے تھے۔
بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ڈیزائن اس بات کا راز بتاتا ہے کہ قدیم
زمانے کے کمہار کس طرح اپنے برتنوں کی شکلیں بناتے تھے اور ان کو پکاتے
تھے۔ نرم پودوں کے تنوں سے بنی ہوئی ٹوکری پر اندر سے مٹی کی ایک تہہ چڑھا
دی جاتی تھی اور پھر ٹوکری کو آگ میں رکھ دیا جاتا تھا۔ ٹوکری جل جاتی تھی
اور اندر کا برتن باقی رہ جاتا تھا اور ٹوکری کی بناوٹ جو نشان برتن کے
باہری حصے پر چھوڑتی تھی وہی اس کے ڈیزائن ہوتے تھے۔
پھر جب کھماروں نے بنی ہوئی ٹوکریوں کی مدد کے بغیر برتن بنانے سیکھ لئے تو
انہوں نے برتنوں کو خانے دار ڈیزائنوں سے سجانا شروع کر دیا۔ ان کا خیال
تھا کہ اگر ان کے برتن ویسے نہ ہوئے جیسے ان کی دادیاں اور پردادیاں
استعمال کرتی تھیں تو ان میں کھانا نہیں پک سکے گا۔
قدیم زمانے میں کاریگروں کا خیال تھا کہ ہر شے میں کوئی نہ کوئی پراسرار
طاقت اور خوبی چھپی ہوئی ہے۔ کون جانے، ممکن ہے برتن کی اصل مضبوطی اس کے
ڈیزائن میں ہو! اگر انہو ںنے ڈیزائن بدلا تو ممکن ہے ان کو ہمیشہ کے لئے
پچھتا نا پڑے کیونکہ برتن ان کی بدقسمتی، برے دنوں اور بھوک کا باعث بن
سکتا ہے۔ کبھی کبھی برتن کو نظر بد سے بچانے کے لئے کمہار اس پر کتے کی
صورت بنا دیتا تھا۔
کتا تو آدمی کا مدد گار تھا۔ وہ آدمی کے ساتھ شکار میں جاتا اور اس کے گھر
کی نگرانی کرتا تھا۔
برتن پرکتے کی شکل بناتے ہوئے کمہار اپنے آپ سے کہتا تھا ”کتا تونگراں ہے،
وہ برتن اور اس کے اندر جو کچھ رکھا ہے اس کی نگرانی کرے گا۔”
خانے دار ڈیزائنوں سے سجے ہوئے برتنوں کے ٹکڑے بہت سی جگہوں پرپائے گئے
ہیں۔ ان میں سے ایک جو فرانس میں شہر کامپینی کے قریب پایا گیا ہے بہت
مشہور ہے ماہرین آثار قدیمہ نے اس کا جائزہ لیتے وقت اس پر جو کے ایک دانے
کا نشان پایا۔
اس دریافت سے ان میں بڑا جوش پیدا ہو گیا کیونکہ یہ صرف ایک دانے کا سوال
نہیں تھا۔ بلکہ یہ تھا ان بڑی بڑی تبدیلیوں کا ننھا گواہ جو قدیم زمانے کے
آدمی کی زندگی میں ہوئی تھیں۔
جہاں دانہ تھا وہاں زراعت بھی رہی ہوگی۔ اسی وجہ سے ان کو اسی جگہ اناج
پیسنے والی چکیاں اور پتھر کی کدالیں بھی ملیں۔
ظاہر ہے کہ شکاری اور مچھیرے کا شتکار بھی ہو گئے تھے۔ یہ کیسے ہوا؟
پہلی بات تو یہ کہ قبیلے کے تمام افراد تو شکاری یا مچھیرے نہیں ہوتے تھے۔
جب مرد شکار کے لئے چلے جاتے تھے توعورتیں بچوں کے ساتھ ٹوکریاں اور مٹی کے
برتن کے کرکھانے کی چیزیں جمع کرنے کے لئے ادھر ادھر جاتی تھیں۔ سمندر کے
کنارے وہ سیپیں جمع کرتی تھیں۔ جنگل میں وہ کھمبیاں، گوندنیاں اور اخروٹ
تلاش کرتی تھیں۔ ان کو بلوط کے پھل کھانے سے بھی پرہیز نہ تھا۔ وہ ان کو
پیس کر ان کی روٹیاں تھیں۔ اسی لئے بہت سی زبانوں میں acorn (بلوط کا پھل)
کا لفظ مدتوں تک روٹی کے لفظ کی بجائے استعمال ہوتا رہا۔
جب کوئی قبیلہ شہد کے کسی چھتے کو دیکھ لیتا تو بڑی خوشیاں منائی جاتیں۔
ایک چٹان پر ڈرائنگ پائی گئی ہے جس میں کوئی عورت شہد نکالتی دکھائی گئی
ہے۔ وہ درخت پر ہے۔ اس کا ایک ہاتھ درخت کے کھوکھلے میں ہے اور دوسرے میں
ایک برتن ہے۔ غصے سے بھری ہوئی شہد کی مکھیاں اس کے چاروں طرف بھن بھنا رہی
ہیں لیکن وہ ان کی پروا کئے بغیر چھتے میں سے شہد نکال رہی ہے۔
عام طور پر عورتیں اور بچے جب اپنے دورے سے لوٹتے تھے تو وہ گوندنیوں، شہد،
جنگلی سیبوں اور ناشپاتیوں سے لدے ہوتے تھے۔
اب دعوت اڑانے کا وقت ہوتا تھا لیکن عورتیں اپنے کھانے کے ذخیرے کو جلد
نہیں ختم کر دیتی تھیں۔ وہ بچوں کو بھگا دیتی تھیں اور جو کچھ ان سے ممکن
ہوتا تھا وہ برتنوں، پیالوں اور لکڑی کے پیپوں میں جمع کر لیتی تھیں۔ غذا
کے یہ ذخیرے ہمیشہ کار آمد ثابت ہوتے تھے کیونکہ شکار کوئی یقینی بات نہ
تھی۔
اس طرح زیادہ گرم آب وہوا میں لوگ پھر غذا جمع کرنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا
تھا جیسے وہ پیچھے کی طرف چلے گئے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ آگ کی طرف چھلانگ
تھی کیونکہ انہوں نے بوائی شروع کر دی۔ انہوں نے اس حد کو پار کر لیا جو
جمع کر نے والے کو کاشت کرنے والے سے الگ کرتی تھی۔
عورتیں اب پھل، گوندنیاں اور ایسی جنگلی دانے دار گھاسوں کے دانے لانے لگیں
جیسے جو اور گیہوں۔وہ اناج برتنوں اور ٹوکریوں میں جمع کرنے لگیں لیکن
اناج توآسانی سے بکھر جاتا تھا اس لئے گرے ہوئے دانے اگنے لگے۔
پہلے پہل تو آدمی نے اناج اتفاق سے بویا یعنی اس کے ذخیرے سے کچھ دانے گر
گئے۔پھر اس نے جان بو جھ کر اناج کو بھیکرنا یا بونا شروع کیا۔
اب بھی بہت سے لوگوں میں دفن ہو جانے اور پھر سے جنم لینے والے اناج کے
بارے میں داستانیں چلی آتی ہیں۔
جب قدیم زمانے میں عورتیں اپنی کدالوں میں زمین کو تور کر اس میں اناج دفن
کرتی تھیں تو ان کو یہ یقین ہوتا تھا کہ وہ کسی پراسرار دیوتا کو دفن کر
رہی ہیں جوا ناج کی سنہری بالیں کی شکل میں ان کے یہاں واپس آئے گا۔ خزاں
میں جب وہ فصل کاٹتیں تووہ زمین کے نیچے کی دنیا سے دیوتا کی واپسی پر
خوشیاں مناتیں۔
جب وہ آخری گٹھا باندھ کر زمین پر رکھتیں تو اس کے چاروں طرف گھوم گھوم کر
ناچتیں گاتیں۔ ہ محض ناچ نہ تھا۔ یہ جادو کا شگون بھی تھا۔ عورتیں اناج کی
تعریف میں گیت گاتی تھیں کہ وہ مردوں کی دنیا سے واپس آیا اور وہ زمین سے
یہ التجا کرتیں کہ وہ اسی طرح ہمیشہ ان کے ساتھ فیاضی کا برتائو کرے۔
نئے میں پرانا
”کٹائی” کا تہوار قدیم مذہبی تہوار تھاجو پہلے کاشتکاروں سے اب تک چلا
آیا تھا۔ بہت سے ایسے ہی مذہبی تہوار ہم کوکھیلوں اور گیتوں کی صورت میں
ملے ہیں۔
بچے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر گاتے ہیں:
ہاں، ہم نے بویا باجرا، باجرا
ہاں، ہم نے بویا باجرا، باجرا
کھیل کا یہ گیت بھی قدیم زمانے میں مذہبی رسوم کے مطابق ہوتا تھا۔ بس
ہزاروں برسوں کے دوران میں اس کا ساحرانہ بالکل ختم ہو گیا۔ تفریح اور مذاق
باقی رہ گیا۔
اور صنوبر کے درخت کو لیجئے۔ کسی زمانے میں اس کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔ لوگ
اس کے چاروں طرف یہ سوچ کر ناچتے تھے کہ ان کے جادو بھرے حرکات سوتے ہوئے
جنگلوں اور میدانوں کو پھر سے نیا جیون دینگے اور جاڑے کے بعد بہار آئے گی۔
ان بچوں سے جو نئے سال کے موقع پر صنوبر کے درخت کو سجاتے ہیں اگر یہ کہا
جائے کہ صنوبر کا درخت مقدس ہے تووہ اس کو مذاق سمجھیں گے۔ ان کے لئے تو یہ
نشان ہے جاڑے کے دوران میں خوش گوار چھٹیوں کا جو مہینوں کی پڑھائی کے بعد
آتی ہیں۔
بہت سے قدیم مذہبی رسوم اور جادو منتر اب صرف بچوں کے کھیل اور گیت بن کر
رہ گئے ہیں۔
بارش ، بارش جائو، جائو!
پھر اورکسی دن آئو!
جب بچے یہ گیت گاتے ہیں تو اس کا مقصد بارش کو روکنا یا بادلوں کو بھگانا
نہیں ہوتا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ا ن کا یہ گیت بارش پر کوئی اثر نہ
ڈالے گا۔ وہ محض دلچسپی کے لئے یہ گیت گاتے ہیں۔
اور بڑے لوگ بھی ایسے گیت گانا اور کھیل کھیلنا برا نہیں سمجھتے جو کسی
زمانے میں دوسرا مطلب رکھتے تھے۔
اس طرح خوشگوار کھیلوں کے ذریعے قدیم عقیدے اور جادو منتروالے مذہبی تہوار
ہم تک پہنچے۔
بہر حال، ان کو کھیلوں کے علاوہ کسی اور جگہ بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔
جب گرجا گھروں میں ایسٹر کی عبادت ہوتی ہے تو دعائوں میں قدیم ساحرانہ
گیتوں کا رنگ جھلکتا ہے۔
قدیم زمانے کے کاشتکاروں کے گیت کی طرح ان دعائوں میں بھی موت اور قیامت کا
ذکر ہوتا ہے۔
ایسی باتیں جو عام طورپر دنیا میں کھیلوں اور ناچوں کی شکل اختیار کر چکی
ہیں گرجا گھر میں مقدس مذہبی رسوم کی حیثیت سے باقی ہیں۔
بہت سے توہمات اور تعصبات ہمارے یہاں بڑے قدیم زمانے سے آئے ہیں
اب بھی ایسے کافی لوگ ہیں جن کو یہ یقین ہے کہ گھوڑے کی نعل کا پانا نیک
شگون ہے اور اگر نیا چاند ان کوبائیں طرف دکھائی دے تو بدشگونی ہے۔
او گلچ ضلع کے ایک اجتماعی فارم کی کسان عورت نے ہمیں بتایا کہ انقلاب سے
پہلے کے زمانے میں اس کے گائوں کی عورتیں اپنی مرغیوں کی ڈربوں پر ایک
”مرغیوں کا دیوتا” لٹکا دیتی تھیں۔ یہ ”دیوتا” پتھر کا ہوتا تھا جس کے بیچ
میں سوراخ ہوتا تھا۔ اس کو ڈربے پر لٹکانے کا مقصد یہ تھا کہ مرغیاں زیادہ
انڈے دیں۔
اس طرح اوھمے صدیوں تک زندہ رہتے ہیں۔ یہ پتھر کا ”مرغیوں کا دیوتا” پتھر
کے زمانے کی نشانی ہے۔ پھر بھی یہ بیسویں صدی کی ابتدا تک زندہ تھا۔
انوکھا ذخیرہ
جب عورتیں اپنی کدالوں سے زمین کھودنے گوڑنے کا کام تھیں کا کام کرتی تھیں
تو مرد بھی بے کار نہیں بیٹھتے تھے۔ وہ شکار میں وقت گذارتے تھے اور شام کو
دیر میں اپنی حاصلات سے لدے پھندے لوٹتے تھے۔
جب بچے اپنے بڑے بھائیوں اور باپوں کو واپس آتے دیکھتے تو وہ ان سے ملنے کے
لئے اور یہ جاننے کے لئے دوڑ پڑے کہ شکار کا میاب رہا یا نہیں۔ وہ خونیں
جنگلی سور کے سر کو جس کے ٹیڑھے دانت منہ سے باہر نکلے ہوتے یا بارہ سنگھے
کی شاخدار سینگوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھتے۔لیکن سب سے زیادہ وہ تب خوش
ہوتے تھے جب شکاری زندہ جانور لاتے تھے خصوصاًچھوٹے موٹے میمنے یا کوئی
سیدھا سادہ بے سینگ والا بچھڑا۔
شکاری اپنے شکار کو فوراً نہیں مار ڈالتے تھے۔ ان کو باڑ کے اندر رکھ کر
کھلایا پلایا جاتا تھا تاکہ وہ بڑے ہو جائیں۔ جب گھر کے قریب میمنوں اور
بچھڑوں کے ممیانے کی آواز آتی تو شکاروں کو بڑا سکون ہوتا۔ ان کو یقین ہوتا
کہ وہ بھوکے نہیں رہیں گے چاہے وہ شکار سے خالی ہاتھ ہی کیوں نہ لوٹیں۔ اس
طرح وہ باڑ میں ذخیرہ کرتے اور یہ ذخیرہ خود سے بڑھتا اور اس کی تعداد میں
اضافہ ہوتا۔
پہلے پہل تو لوگ مویشیوں کو گوشت اور کھال کے لئے رکھتے تھے۔ وہ اس زبردست
فائدے سے واقف نہ تھے جو مویشی پالن سے ہو سکتا تھا۔ وہ ان کھروں والے
جانوروں کو محض اپنا شکار سمجھتے تھے اور وہ اپنے شکارکو مارنے کے عادی
تھے۔ ان کے لئے یہ سمجھنا آسان نہ تھا کہ کسی گائے یا بھیڑ کو مارنے سے
زیادہ اس کا پالنا مفید تھا۔
گائے کو مارا توایک ہی بار جا سکتا ہے لیکن اس کا دودھ برسوں تک پیا جا
سکتا ہے۔ اگر وہ گائے کو نہ ماریں توآخر میں ان کو زیادہ گوشت بھی ملے گا
کیونکہ گائے ہر سال بچہ دیتی ہے۔
یہی صورت بھیڑ کی بھی تھی۔ مردہ بھیڑ کی کھال نکالنا کوئی ایسا مشکل مسئلہ
نہ تھا۔ لیکن بھیڑ کی کھال تو اتنی مفید نہ تھی۔ بھیڑ کی کھال رہنے دینا
اور اس کا اون کتر لینا زیادہ مفید تھا کیونکہ ہر مرتبہ کترنے کے بعدکھال
پر نیا اون نکل آتا تھا۔ اس طرح لوگ ایک بھیڑ سے دس کوٹ حاصل کر سکتے تھے۔
یہ اچھا تھا کہ وہ ا پنے چوپایہ قیدیوں کی جان بخشی کر دیں اور ان سے خراج
وصول کر لیا کریں۔
جب آدمی گائے بھیڑ اور گھوڑے کو پالنے لگا تو اس نے ان کو اپنی مرضی کے
مطابق پرورش کرنا شروع کیا۔ وہ اس بات کی دیکھ بھال کرتا کہ ان کو اچھی طرح
چارا پانی ملے اور وہ دوسری سے بچے رہیں۔ لیکن گائے کیلئے زیادہ دودھ دینے
کی ضرورت تھی کیونکہ اس کو اب صرف اپنے بچھڑے کو نہیں بلکہ مالکوں کے لئے
بھی دودھ دینا تھا۔ رفتہ رفتہ گھوڑے نے بھی بھاری بوجھ لے جانا سیکھ لیا۔
اب بھیڑ سے بھی اتنا کافی اون ملنے لگا جو خود ا س کے لئے اور اس کے مالکوں
کے لئے کافی ہو۔
صرف سب سے زیادہ دودھ دینے والی گائیں، سب سے زیادہ مضبوط گھوڑے اور سب سے
لمبی اون والی بھیڑیں گلے میں رکھی جاتیں۔ اس طرح پالتو جانوروں کی نئی
نسلیں وجود میں آئیں۔
لوگ یہاں تک یک دم نہیں پہنچ گئے۔ شکاری کو مویشی پالنے والا بننے میں
صدیوں لگے۔
اور پھر اس کا انجام کیا ہوا؟
آدمی نے ایک انوکھا ذخیرہ دریافت کیا۔ جمع کیا ہوا اناج وہ زمین میں چھپا
دیتا اور زمین اور کو ہر دانے واپس کر دیتی۔
اب آدمی ان سب جانوروں کو نہیں مارتا تھا جو وہ پکڑتا تھا۔ جو جانور باقی
رہ جاتے تھے وہ بڑھتے تھے او ران کی تعداد میں اضافہ ہوتا تھا۔
اب آدمی زیادہ آزاد ہو گیا۔ قدرت کا وہ اتنا محتاج نہ رہا۔ پہلے اس کو نہیں
معلوم ہوتا تھا کہ آیا وہ کسی جانور کا پتہ لگا کر اس کو مار بھی سکے گا
یا نہیں، آیا اس کو اپنی ٹوکریاں بھرنے کے لئے کافی اناج مل سکے گا یا
نہیں۔ قدرت کی پراسرار طاقتیں اس کو کھانا دیں گے بھی یا نہیں۔ اب آدمی نے
قدرت کی مدد کرنا سیکھ لیا یعنی اس نے خود اناج اگانا، اپنی گائیں اور
بھیڑیں پالنا سیکھ لیا۔ اب عورتوں کو دانے والی گھاسوں کی تلاش میں جانا
نہیں پڑتا تھا۔ شکاریوں کو جنگلوں کی کئی کئی دن تک خاک چھان کر جنگلی
جانوروں کی تلاش نہیں کرنی پڑتی تھی۔
اب اناج کی بالیاں گھر کے قریب جھومتی تھیں اور گائیں اور بھیڑیں بھی پڑوس
میں چرتی رہتی تھیں۔
آدمی نے ایک انوکھا ذخیرہ دریافت کر لیا تھا۔ لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہ سب
یک دم نہیں ہوا تھا۔ اس کے لئے اس کو محنت کرنی پڑی تھی۔
اس کو اپنے کھیتوں اور چراگاہوں کے لئے زمین کی ضرورت تھی۔ اس زمین کو جنگل
سے حاصل کرنا تھا اور اناج بونے سے پہلے اس کو توڑنا تھا۔ کتنی سخت محنت
تھی یہ!
آدمی کو قدرت سے اس طرح آزادی اور نجات نہیں ملی کہ وہ محض ٹہل کر باہر نکل
آیا۔ اس کو بزور اپنا راستہ بنانا پڑا، ہزاروں رکاوٹوں کو دور کرنا پڑا۔
اس کی نئی محنت اپنی خوشیوں اور فکروں سے بھرپور تھی۔ سورج فصل کو جھلسا
دیتا تھا، وہ چراگاہوں میں گھاس کو سکھا سکتا تھا۔ زیادہ بارش اناج کو سڑا
دیتی تھی۔
قدیم زمانے کا شکاری ارنا بھینسے یا ریچھ سے اپنا گوشت دینے کی التجا کرتا
تھا اور قدیم زمانے کا کسان زمین، آسمان، سورج اور بارش سے اچھی فصل دینے
کی التجا کرتا تھا۔
لوگ نئے نئے دیوتا بناتے تھے۔ یہ دیوتا بھی بہت کچھ پرانے دیوتائوں کی طرح
تھے۔ یہ بھی پرانی روایتوں کے مطابق روایتوں کے مطابق جانوروں کی شکل میں
یا جانوروں کے سر رکھنے والے آدمیوں کی شکل میں بنائے جاتے تھے۔ لیکن ان
جانوروں کے نئے نام اور نئے مقاصد ہوتے تھے۔
ایک کا نام آسمان تھا تو دوسرے کا نام سورج اور تیسرے کو زمین کہتے تھے۔ یہ
دیوتا روشنی، تاریکی، بارش اور خشک سالی کے ذمہ دار تھے۔
دیوزار آدمی بڑا ہو گیا تھالیکن اس کو ابھی اپنی طاقت کا شعور نہیں ہوتا۔
اس کو اب بھی یہ یقین تھا کہ اس کی روٹی آسمان کا تحفہ ہے، اس کی اپنی محنت
کا نتیجہ نہیںہے۔
وقت کے قدم آگے بڑھتے رہے
آئو اب ہم وقت کے ساتھ کئی ہزار سال آگے چلیں۔ اس وقت موجودہ دور میں اور
اس زمانے میں صرف 50صدیوں کا فرق رہ جائے گا۔
50 صدیاں! یہ توبڑی لمبی مدت ہے جب ہم کسی آدمی کی زندگی کا ذکر کرتے ہیں،
حتی کہ کسی قوم کی زندگی میں بھی۔لیکن یہان ہم کسی ایک آدمی کا ذکر تو نہیں
کر رہے ہیں۔ ہم تو پوری نوع انسان کی بات کر رہے ہیں۔
نوع انسان کی عمر تقریباً دس لاکھ سال ہے۔ اسی لئے 50 صدیاں کوئی بڑی مدت
نہیں ہوئیں۔
اس طرح وقت کے قدم آگے بڑھے۔ زمین نے سورج کے گرد کئی ہزار چکر اور کر لئے۔
اس دور میں دنیا میں کیا ہوا ؟ دنیا پر سرسری نظر ڈالنے ہی سے یہ کہا جا
سکتا ہے کہ چوٹی پر وہ ذرا گنجی ہو گئی۔
ایک زمانہ تھا جب اس کی برف کی سفید ٹوپی کے گرد گھنے ہرے بھرے جنگل تھے۔
اب جنگل چھدرے ہو گئے تھے اور بڑے بڑے اسیتپ کے علاقے ان میں گھس آئے تھے۔
دریائوں اور جھیلوں کے قریب جنگل پیچھے ہٹ گئے تھے اور ان کی جگہ سرکنڈوں
اور جھاڑیوں نے لے لی تھی۔
لیکن دریا کے موڑ کے قریب پہاڑی پر کیا چیز ہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے
ڈھلان پر کوئی سنہرا رومال پھیلا ہوا ہے۔
یہ زمین کا وہ قطعہ ہے جس کو آدمی کے ہاتھوں نے بدل ڈالا ہے۔ سنہری بالیوں
کے درمیان عورتوں کی جھکی ہوئی کمریں دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کی درانتیاں
تیزی سے چل رہی ہیں، وہ فصل کاٹ رہی ہیں۔
ہزاروں سال پہلے ہم نے ہتھوڑے کو پہلی بار کام کرتے دیکھا تھا۔ لیکن اب
پہلی بار درانتی دیکھ رہے ہیں۔ یہ ان درانتیوں کی طرح بالکل نہیں ہے جو ہم
آج دیکھتے ہیںکیونکہ یہ پتھر اورلکڑی سے بنائی گئی ہے۔ پتھر کی درانتی اور
لکڑی کا دستہ۔
اور جو کھیت ہم دیکھ رہے ہیں وہ دنیا کا پہلا کھیت ہے۔ دنیا کے زبردست اور
وسیع ویرانے میں ایسے سنہرے رومال شاید چند ہی ہوں گے۔
گھاس پھوس اناج کو ہر طرف سے گھیرتا ہے کیونکہ آدمی نے ابھی ان کے خلاف
لڑنا نہیں سیکھا ہے۔ پھر بھی اناج کی بالیاں آخر میں جیتتی ہیں۔ وہ وقت بھی
آئے گا جب سنہرے کھیت جگہ جگہ زمین کو سونے کے سمندر کی طرح ڈھک لیں گے۔
فاصلے پر دریا کے قریب ہری بھری چراگاہ میں ہم چھوٹے سفید اور رنگ برنگ
دھبوں والی شکلوں کا غول دیکھتے ہیں۔ وہ ادھر ادھر حرکت کرتا ہے، کبھی پھٹ
جاتا ہے اور کبھی ایک ہو جاتا ہے۔
بعض شکلیں دوسروں سے بڑی ہیں۔ ہاں یہ گایوں، بکریوں اور بھیڑوں کا گلہ ہے۔
ابھی یہ جانور بہت کم تعداد میں ہیں جن کا آدمی نے پالن پوسن کیا ہے اور
اپنی کوششوں سے ان میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ لیکن یہ اپنے جنگلی رشتے داروں
کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جن کو اپنی دیکھ بھال خود کرنی پڑتی
ہے۔
دو تین ہزار سال میں دنیا میں پالتو گایوں اور بیلوں کے مقابلے میں جنگلی
بھینسوں کی تعداد بہت کم رہ جائے گی۔
اگریہاں کھیت اور گلہ ہے تو قریب ہی کوئی بستی بھی ضرور ہو گی۔ اور دریا کے
اونچے کنارے پر بستی بھی موجود ہے۔ یہ پہلے شکاری پڑائوں کی طرح نہیں ہے۔
یہاں کھمبوں اور شاخوں کی بنی ہوئی جھونپڑیاں نہیں ہیں۔ ان کی بجائے یہاں
سچ مچ کے لکڑی کے گھر اور ڈھلواں تکونی چھتیں ہیں۔ دیواریں مٹی سے لپی ہوئی
ہیں۔ دروازے کے اوپر ایک شہتیر نکلا ہوا ہے جس کے سرے پر ایک بیل کا سر
بنا ہے، یہ اس گھر کی نگرانی کرنے والا دیوتا ہے۔ پوری بستی ایک اونچی باڑ
اور مٹی کی فصیل سے گھری ہوئی ہے۔
ہوا میں دھوئیں، کھاد اور تازہ دودھ کی مہک ہے۔
گھروں کے قریب بچے کھیل رہے ہیں۔ سورنیاں اور ان کے بچے قریب کیچڑ میں لوٹ
رہے ہیں۔ کھلے دروازے سے چولہا نظر آتا ہے۔ ایک بوڑھی عورت روٹیاں سینک رہی
ہے۔ وہ گندھا ہوا آٹا گرم راکھ پر اس کو مٹی کے برتین سے ڈھک دیتی ہے۔ یہ
اس کا تنور ہے۔ اس کے پاس ہی ایک بنچ پر لکڑی کے پیالے اور گلاس رکھے ہیں
جو لکڑی کو کھوکھلا کر کے بنائے گئے ہیں۔
آئو گائوں سے دریا کی طرف جائیں۔ کنارے کے اتھلے پانی میں لکڑی کو کھوکھلا
کر کے بنائی ہوئی ڈونگی ہلکورے لے رہی ہے۔ اس میںپانی بھرا ہے۔ اگر ہم دریا
میں اوپر کی طرف اس جھیل کو جائیں جس سے یہ دریا نکلا ہے تو وہاں ایک اور
گائوں ملے گا لیکن وہ اس گائوں سے مختلف ہو گا جس سے ہو کر ہم آئے ہیں۔
دوسرا گائوں ایک جزیرے کی طرح ہے۔
پہلے جھیل کی تہہ میں کھمبے گاڑے گئے۔ پھر ان کھمبوں پر لٹھے لگائے۔ گئے
اورلٹھوں پر تختے بچھائے گئے۔ لمبے جھولتے ہوئے پل اس چوبی جزیرے کو کنارے
سے ملاتے ہیں۔ گھروں کی دیواروں پر مچھیروں کے جال اور دوسرا سامان وغیرہ
سوکھ رہا ہے۔ غالباً جھیل میں مچھلیوں کی افراط ہے۔ لیکن اس گائوں کے لوگ
صرف مچھیرے نہیں ہیں۔ گھروں کے درمیان یہاں وہاں ہم کو اناج کے گول گودام
دکھائی دیتے ہیں جن کی چھتیں نوکیلی ہیں۔ یہ گودام شاخوں کو آپس میں بن کر
تیار کئے گئے ہیں۔ ان کے قریب گایوں کے باڑے ہیں۔
حالانکہ یہ قدیم بستی ہمارے تصور میں بالکل حقیقی لگتی ہے لیکن یہ زمانہ
ہوا غائب ہو چکی ہے۔ پانی گھروں کو ڈبو چکا ہے۔ ان گھروں کے کھنڈرات ہم
جھیل کی تہہ میں کیسے پا سکتے ہیں؟ یہ تو بالکل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن کبھی
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھیل سوکھ جاتی ہے اور اس کے صدیوں کے راز ہمارے
سامنے آجاتے ہیں۔
جھیل کی کہانی
1853 میں سوئٹزرلینڈ میں زبردست خشک سالی ہوئی۔ وادیوں میں دریا سوکھ گئے
جھیلوں کا پانی خشک ہوکر کناروں سے پیچھے ہٹ گیا اور اس کی ریت اورکیچڑ سے
بھری تہہ باہر نکل آئی۔ شہر اوبر میئلین میں جوجھیل زیورخ کے کنارے واقع ہے
لوگوں نے خشک سالی سے فائدہ اٹھا کر جھیل سے ایک قطعہ زمین حاصل کرنا
چاہا۔
اس کا یہ مطلب تھا کہ ان کو اس خشک پٹی کے آر پار ایک بند بنانا تھا جو
پانی ہٹ جانے سے ملی تھی اور باقی جھیل سے اس پٹی کو الگ کرنا تھا۔
کام شروع ہو گیا۔ جہاںپہلے لوگ اتوار کے دن نیلی اور ہری کشتیوں میں کشتی
رانی کے لئے آیا کرتے تھے وہاں بند بنانے کے لئے قطار در قطار مٹی کے ٹھیلے
چلے آرہے تھے اور گاڑی بانوں کا غل شور سنائی دے رہا تھا۔ انہوں نے بند کے
لئے مٹی بھی جھیل کی تہہ ہی سے حاصل کی جو غیر متوقع طو رپر خشک ہو گئی
تھی۔ اچانک ایک پھائوڑا سڑے ہوئے کھمبے پر پڑا۔اس کے قریب ان کو دوسرا اور
تیسرا کھمبا بھی ملا۔ ظاہر تھاکہ لوگوں نے یہاں پہلے بھی کام کیا تھا۔
کھدائی میں ہر پھائوڑے کی مٹی کے ساتھ پتھر کی کلہاڑیاں، مچھلیاں پکڑنے کے
کانٹے اور کوزوں کے ٹکڑے نکلنے لگے۔ ماہرین آثار قدیمہ جلد ہی وہاں پہنچ
گئے۔ انہوں نے جھیل کی تہہ سے نکلے ہوئے ہر کھمبے اور ہر چیز کا مطالعہ کر
کے کاغذ پر اس گائوں کا نقشہ تیار کرلیا جو کسی زمانے میں جھیل زیورخ کے
کنارے پر واقع تھا۔
اس طرح کے گائوں کے کھنڈرات جو تختوں پر بنے تھے اور چوبی کھمبوں پر ٹکے
تھے ماسکو کے قریب دریائے کلیاز ما اور موروم کے قریب دریائے ویلیتما پر
پائے گئے۔ وہاں سے جو چیزیں دستیاب ہوئیں ان میں مچھلیوں کی ہڈیاں، مچھلیوں
کے شکار کے لئے برچھے اور کانٹے تھے۔
ماہرین آثار قدیمہ نے حال میں سوئٹزرلینڈ کی جھیل نیو شاٹیل کا بھی جائزہ
لیا۔ انہوں نے جھیل کی تہہ کے نمونے لئے اور معلوم کیاکہ یہ تہہ کئی پرتوں
پر مشتمل ہے۔
جیسے کسی سموسے میں اوپر کا چھلکا اس چیز سے جدا کرنا آسان ہے جو اس میں
بھری ہوتی ہے اسی طرح یہاں بھی جھیل کی تہہ کی پرتوں سے صاف نظر آتا تھا کہ
کہاں سے وہ شروع ہوتی ہیں اورکہاں ختم ہوتی ہیں۔ تہہ کی نیچی پرت ریت کی
تھی، اسی کے اوپر ریت اور مٹی ملی ہوئی ملی ہوئی گاد کی تہہ تھی جس میں
انسانی رہائش گاہوں، گھریلو اور سازو سامان اور اوزاروں کی باقیات پائی
گئیں۔ پھر اس کے اوپر ریت کی ایک اور تہہ تھی۔ اسی طرح ان پرتوں کی ساخت
کئی مرتبہ دھرائی گئی تھی۔ ایک اور تہہ تھی۔ اسی طرح ان پرتوں کی ساخت کئی
مرتبہ دھرائی گئی تھی۔ ایک جگہ ریت کی دو پرتوں کے درمیان کوئلے کی ایک تہہ
تھی۔
یہ سب تہیں کیسے بنیں؟
پانی تو صرف ریت ہی جمع کر سکتا تھا۔یہ کوئلہ کہاں سے آیا؟
یہ تو صرف آگ ہی سے آسکتا تھا۔
ان تہوں کاکافی غور سے جائزہ لینے کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے جھیل کی
تاریخ کے بارے میں معلوما ت حاصل کیں۔ کسی بہت دور کے زمانے میں لوگ جھیل
پر آئے اور انہوں نے اس کے کنارے ایک بستی بسائی۔ پھر بہت سال بعد جھیل میں
سیلاب آیا اور وہ کناروں پر چڑھ آئی۔
لوگ نے سیلاب زدہ گائوں کو چھوڑ دیا۔ مکانات وغیرہ پانی میں سڑ کر گر گئے۔
جہاں کبھی شہتیروں کے نیچے ابابیلیں اپنے گھونسلے بناتی تھیں وہاں چھوٹی
چھوٹی مچھلیاں ادھر ادھر تیرنے لگیں۔ تیز دانتوں والی مچھلی جل ویادھ وہاں
آہستہ آہستہ تیرنے لگی جہاں کسی زمانے میں ایک گھر کا دروازہ کیکڑا اپنے
چنگل اس بنچ کے نیچے گھمانے لگا جو کسی زمانے میں چولھے کے پاس پڑی تھی۔
جلد ہی یہ کھنڈرات گاد کی ایک تہہ سے ڈھک گئے اور پھر ان پرریت دوڑ گئی۔
رفتہ رفتہ جھیل بھی بدل گئی۔ پانی کناروں سے ہٹ گیا اور تہہ نکل آئی۔ ریت
کا ٹیلا بھی جس پر گائوں آباد تھا۔ پانی سے نکل آیا۔ لیکن گائوں کہیں نہیں
تھاکیونکہ اس کھنڈرات ریت کی گہرائیوں میں دفن ہو چکے تھے۔
اب لوگ پھر جھیل کے کنارے آئے۔ کلہاڑیوں کی آواز ہوا میں گونجنے لگی۔لکڑی
کی اور چھپٹیاں سنہری ریت پر بکھر گئیں۔ پانی کے قریب یکے بعد دیگر ے
مضبوط، نئے مکان بلند ہونے لگے۔
لوگوں اور جھیل کے درمیان لڑائی جاری رہی۔ کبھی ایک جیت جاتا تو کبھی
دوسرا۔ لوگ مکانات بناتے اورجھیل ان کو تباہ کر دیتی۔
آخر کار لوگ لڑائی سے تھک گئے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اب پانی کے
کنارے مکانات بنانے کی بجائے پانی کے اوپر بنائیں گے۔ انہوں نے بڑے بڑے
کھمبے جھیل کی تہہ میں اتار دئے۔ تختوں کی دراڑوں کے درمیان ان کو پانی دور
نیچے ہلکورے لیتا نظر آتا تھا۔ لیکن وہ اب ان کو پریشان نہیں کرتا تھا۔ وہ
چاہے جتنا اٹھتا لیکن تختوں تک نہیں پہنچتا تھا۔
بہر حال جھیل کے لوگوں کا ایک اور بھی دشمن تھا۔ یہ تھی آگ۔
قدیم زمانے کا غار کا آدمی آگ سے نہیں ڈرتا تھا کیونکہ اس کے غار کی پتھر
کی دیواروں کو آگ جلا نہیں سکتی تھی۔
لیکن پہلے چوبی مکانوں کی تعمیر کے بعد ہی مکانوں میں آگ لگنا شروع ہوئی۔
یہ شعلہ بار جانور جس نے ہزاروں سال انسان کی فرمانبرداری کے ساتھ خدمت کی
تھی اب دانت دکھانے لگا تھا۔
جھیل نیوشاٹیل کی تہہ میں کوئلے کی جو موٹی تہہ ملی تھی دراصل کسی قدیم
آتشزدگی کا نتیجہ تھی۔
یہ کیسی مصیبت تھی! لوگ اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر پانی میں کود گئے
مویشی باڑوں میں چلا رہے تھے لیکن ان کو کھول کر نکالنے کا وقت ہی نہ تھا۔
لکڑی کا پورا گائوں ایک زبردست الائو کی طرح جل رہا تھا اور ہر طرف
چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔
یہ آگ واقعی بڑی تباہ کن تھی۔
لیکن جس آگ نے گائوں والوں کے گھر تباہ کئے اسی نے ہمارے میوزیموں کے لئے
بیش بہا چیزیں محفوظ کر دیں۔ یہ تھے چوبی برتن، مچھلی پکڑنے کے جال، حتی کہ
اناج کے دانے اور پودوں کے تنے۔
یہ یک یا معجزہ تھا کہ ایسی چیزیں محفوظ رہیں جو سب سے تیزی سے جلتی ہیں؟
ہوا یہ کہ جب بہت سی چیزوں میں آگ لگی تو وہ پانی میں گر گئیں۔ پانی نے ان
کو بچا لیا کیونکہ آگ بجھ گئی اور یہ چیزیں بلا کسی نقصان کے تہہ میں بیٹھ
گئیں۔ یہاں ان کو ایک نئے خطرے کا سامنا تھا، پانی میں سڑ جانے کا۔ لیکن وہ
اس سے بھی محفوظ رہیں کیونکہ وہ جھلس چکی تھیں اوراوپر کی پتلی، جلی ہوئی،
کوئلے کی تہہ نے ان کو سڑنے سے بچایا۔
اگر پانی اور آگ نے اپنا کام الگ کیا ہوتا یہ چیزیں قطعی تباہ ہو جاتیں۔
لیکن ایک ساتھ کام کرکے انہوں نے ایسی نازک چیزوں کوجسے سن سے بنے ہوئے ایک
چیتھڑے کو بچھا لیا جو ہزاروں سال پہلے بنا گیا تھا۔
پہلا کپڑا
پہلی بار کپڑا ہاتھ سے بنا گیا۔
آج بھی اسکیمو لوگ بنائی کے لئے کر گھا نہیں استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپناکپڑا
ہاتھ سے بنتے ہیں۔ وہ تانے کے لمبے دھاگے ایک فریم میں لگا دیتے ہیں پھر
بانے کے دھاگے ان بیچ میں ہاتھ سے نکال کر بنتے ہیں۔ وہ کوئی نلی نہیں
استعمال کرتے ہیں۔
دھاگوں کے اس چھوٹے سے چوبی فریم کا مقابلہ جدید کر گھوں سے کرنا ممکن نہیں
ہے لیکن جدید کرگھے کی ابتدا اسی سادے چوبی فریم سے ہی ہوئی۔
جلا اور سیاہ چیتھڑا جو جھیل کی تہہ میں پایا گیا ہمیں آدمی کی زندگی کا
ایک اہم واقعہ بتاتا ہے۔ جس آدمی نے ابھی تک جانوروں کی کھال کے لباس پہنے
تھے اب اس نے اپنے کھیت سے حاصل کئے ہوئے سن سے لباس تیار کیا تھا۔
اس سوئی کو جو کپڑے کی ایجاد سے ہزاروں سال پہلے پیدا ہوئی تھی اب جاکر
زندگی میں صحیح جگہ ملی تھی۔ اب اس نے جانوروں کی کھالوں کو نہیں بلکہ کپڑے
کے ٹکڑوں کو سینا شروع کر دیا۔
خوبصورت نیلے پھولوں والا سنئی کا کھیت اب عورتوں کے لئے زیادہ دیکھ بھال
اور فکر کا سبب بن گیا۔
ان کے ہاتھ کٹائی سے تھکے ہوتے لیکن سنئی اکھاڑنے کا وقت آجاتا۔پہلے ان کو
ہر پودے کو جڑوں سے اکھاڑناپڑتا۔ پھر اس کو سکھایا اور دھویا جاتا اور
دوبارہ سکھایا جاتا۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ سوکھی ہوئی سنئی کو
کوٹنا، اس کے ریشے نکالنا اور ان کو سلجھاناپڑتا۔ اب یہ دھلے اور سلجھے
ہوئے ریشے روسی گائوں کے بچوں کے بالوں کی طرح روپہلے اور تیار ہوتے ۔ اب
تکلیاں کتائی کرتیں اور دھاگا تیار کرتیں۔ جب دھاگا تیار ہوجاتا تو کپڑا
بنا جاتا ہے۔
کپڑا تیار کرنے کے لئے بہت کام کرنا پڑتا لیکن عورتوں کو خوبصورت رومال،
پیش بند اور لہنگے ملنے لگے جن کی گوٹ کناریاں رنگا رنگ ہوتیں اور یہ سب ان
کی مصیبتوں کا معاوضہ بن جاتیں۔
پہلے کانکن اور دھاتسار
آج کل گھر گھر ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو ایسے مصنوعی مادوں سے بنی ہیں
جو قدرتی طور پر نہیں پائے جاتے۔
قدرت کے پاس اینٹ تھی اورنہ چینی، نہ ڈھلا لوہا تھا نہ کاغذ۔ چینی کے برتن
اور ڈھلے ہوئے لوے کی مصنوعات کے لئے آدمی کو ایسی اشیا استعمال کرنی تھیں
جوقدرتی طورپر پائی جاتی ہیں اوران کو اس طرح تبدیل کرنا تھا کہ وہ پہچانی
بھی نہ جا سکیں۔ کیا ڈھلا ہوا لوہا اسی خام لوہے کی طرح ہوتا ہے جس سے وہ
صاف کر کے بنایا جاتا ہے؟ کیا ہم کسی نفیس، شفاف چینی کے پیالے کو دیکھ کر
اس بھدی مٹی کا تصور کر سکتے ہیں جس سے وہ بنایا گیا ہے؟
توپھر کنکریٹ، سیلوفین، مصنوعی ریشم اور مصنوعی ربر کے بارے میں میں کیا
خیال ہے؟ کیا پہاڑوں میں تم کو کبھی کوئی کنکریٹ کی پہاری بھی مل سکتی ہے؟
اور وہ کون سا ریشم کا کیڑا ہے جو لکڑی سے ریشم بنا سکتا ہو؟
مادے پر کنٹرول حاصل کر کے انسان نے قدرت کے زیادہ سے زیادہ رازوں کا
انکشاف کیا۔ اس نے ایک پتھر کو دوسرے سے رگڑ کر تیز کرنے سے ابتدا کی اور
اب وہ سالموں پر حکم چلاتا ہے جو ایسے چھوٹے ذرات ہیںجن کو وہ خود بھی نہیں
دیکھ سکتا۔
یہ عمل مدتوں ہوئے شروع ہوا تھا، اس زمانے سے بہت پہلے جب کیمیا یعنی مادے
کی سائنس کی متعلق معلومات حاصل کی گئیں۔ آدمی نے ٹٹول ٹٹول کر یہ سمجھے
بغیر کہ وہ کیا کر رہا ہے مادے کو تبدیل کرنا سیکھا۔
جب پہلے کمھاروں نے اپنے مٹی کے برتن پکائے تو وہ غیر شعوری طور پر مادے پر
کنٹرول حاصل کر رہے تھے۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ تم مادے کے انتہائی
چھوٹے ذرے کو اپنے ہاتھوں سے تبدیل نہیںکر سکتے یا اس کو اپنے ہاتھوں کی
شکل نہیں دے سکتے جیسا کہ پتھر کو کرتے ہو۔ یہاں آدمی کو اپنے ہاتھوں کی
طاقت کے علاوہ کسی اور طاقت کی ضرورت تھی، ایسی طاقت کی جو مادے کو تبدیل
کر سکے۔
اور جب آدمی نے آگ کو اپنا مدد گار بنایا تو اس کو یہ طاقت مل گئی۔ آگ مٹی
کو پکاتی تھی، آٹے کو روٹی میں تبدیل کر دیتی تھی۔ آگ تانبے کو پگھلاتی
تھی۔
ہم جھیلوں کی تہوں میںپتھر کے اوزاروں کے علاوہ تانبے کے اوزار بھی پاتے
ہیں۔
اس آدمی نے جو ہزاروں سال تک پتھر کے اوزار بناتا رہا یک دم دھات کے اوزار
بنانا کیسے سیکھ لئے؟ اور اس کو دھات کہاں سے ملی؟
میدانوں اور جنگلوں میں چلتے ہمیں خالص تانبے کا کوئی ٹکڑا کبھی نہیں ملتا۔
خالص تانبا تو آجکل بہت نایاب ہے۔لیکن ہمیشہ ایسا نہ تھا۔ ہزاروں سال پہلے
اب سے کہیں زیادہ تانبا تھا۔ وہ تو دراصل پیروں کے نیچے پڑا رہتا تھا لیکن
لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ چقماق پتھر سے اپنے اوزار بناتے
تھے۔
انہوں نے اس تانبے کی طرف اس وقت تک توجہ نہیں کی جب تک ان کو چقماق پتھر
کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ اس کمی کی ذمے داری خود لوگوں پر تھی کیونکہ انہوں
نے چقماق پتھر کو کبھی کفایت سے استعمال نہیں کیا۔ جب انہیں کوئی نیا
اوزار بنانا ہوتا تو وہ چقماق پتھر کا ایک بڑا ٹکڑا لے کر اس کو کاٹنا شروع
کرتے یہاں تک کہ اس سے بس ایک چھوٹا سا اوزار بن جاتا۔ رہائش گاہوں کے
چاروں طرف پتھر کے ٹکڑوں کے بڑے بڑے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ جو اوزار بنانے کے
لئے بیکار تھے۔ آج بھی ہم کہیں بھی لکڑی کی چھیلن کے ڈھیر دیکھ کر بتا سکتے
ہو کہ یہاں بڑھئی کی دو کان ہے۔
ہزاروں برسوں کے دوران میں چقماق پتھر کے بڑے بڑے ذخیرے کم پڑ گئے۔ بہت سے
ملکوں میں تو ان کا قحط پڑ گیا۔ یہ بڑی مصیبت تھی۔ ذرا سوچو کہ اگر کافی
لوہا نہ ہو تو ہماری فیکٹریوں اور کارخانوں کا کیا حشر ہو گا۔ جب سطح زمین
کے قریب والے ذخیرے خرچ ہو جاتے ہیں تو کچ دھات کی تلاش میں کان کنون کو
زیادہ گہرائیوں میں کھودنا پڑتا ہے۔
بالکل یہی قدیم زمانے کے لوگوں کو بھی کرنا پڑا۔ انہوں نے کانیں کھودنا
شروع کیں جو دنیا کی پہلی کانیں تھیں۔
ہمیں کبھی کبھی کھریا مٹی کے ذخیروں میں ایسی قدیم کانیں ملتی ہیں کیونکہ
چقماق پتھر اور کھریا مٹی اکثر ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔
اس زمانے میں سطح زمین سے دس یا بارہ میٹر نیچے کام کرنا بہت ہی خوفناک
ہوتا تھا۔لوگ کانوں کے اندر رسی یا کسی دندانے کٹے ہوئے ستون کے ذریعے
اترتے تھے۔ نیچے اندھیرا اور دھواں دھار ہوتا تھا۔ لوگ لکڑی کی مشعل یا قبل
کے کسی چھوٹے سے لیمپ کی روشنی میں کام کرتے تھے۔ آج کانوں اور سرنگوںکو
لٹھے لگا کر محفوظ کر دیاجاتا ہے لیکن اس زمانے میں تہہ زمین سرنگوں کی
دیواروں اور چھتوں کو مضبوط اور محفوظ بنانے کے بارے میںکوئی معلومات نہ
تھیں۔ اکثر چٹان کا کوئی زبردست ٹکڑا ڈھیلا ہو کر گر جاتا اورکان کنوں کو
دفن کر دیتا۔ چقماق پتھر کی قدیم کانوں میں دبے ہوئے کان کنوں کے ڈھانچے
کھریا مٹی کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے نیچے پائے گئے ہیں۔ ڈھانچوں کے قریب ان کے
اوزار بھی تھے۔ بارہ سنگھوں کی سینگوں کی کدالیں۔
ایسے دو ڈھانچے ایک ہی سرنگ میں پائے گئے۔ ایک تو بڑے آدمی کا تھا اور
دوسرا بچے کا۔ غالباً کوئی باپ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لایا تھا اور وہ دنوں
پھر کبھی گھر نہیں لوٹے۔
جوں جوں صدیاں گذرتی گئیں چقماق کی کمی اورکان کنی سخت ہوتی گئی۔ بہر حال،
قدیم زمانے کے آدمی کو چقماق پتھر کی ضرورت تھی۔ اسی سے اس کی کلہاڑیاں،
چاقو اور کدالیں بنتی تھیں۔
اس کو چقماق پتھر کی جگہ کسی اور چیز کی دریافت کی سخت ضرورت تھی۔
اور پھر خالص تانبے نے لوگوں کی مدد کی۔ انہوں نے اس کی طرف زیادہ توجہ کی۔
یہ سبز پتھر کیا ہے اور کیا یہ کسی چیز کے لئے استعمال ہو سکتا ہے؟
جب لوگوں کو خالص تانبے کا کوئی ٹکڑا مل جاتا تو وہ اس کو ہتھوڑے سے پیٹتے
کیونکہ ان کا خیال تھاکہ تانبا بھی پتھر ہے اور وہ اس کو چقماق پتھر کی طرح
استعمال کرنا چاہتے تھے۔ پتھر کے ہتھوڑے کی چوٹیں تانبے کو اور سخت کر
دیتیں او راس کی ساخت بدل ڈالتیں۔ لیکن اس کو پیٹنے کا بھی خاص طریقہ تھا۔
اگر چوٹیں بہت سخت ہوتیں تو تانبا بھر بھرا ہو کر ٹکڑوں میں ٹوٹ جاتا ہے۔
اس طرح آدمی نے پہلی بار دھات کو پیٹنا اور گڑھنا شروع کیا۔ یہ سچ ہے کہ یہ
ٹھنڈی گڑھائی تھی۔ لیکن ٹھنڈی گڑھائی سے گرم گڑھائی تک زیادہ فاصلہ نہ تھا
۔
کبھی کبھی یہ ہوتا کہ خالص تانبے یا خام تانبے کا کوئی ٹکڑا آگ میں جا
گرتا۔ یا شاید آدمی اس کو اسی طرح پکانے کی کوشش کرتا جیسے وہ اپنے مٹی کے
برتن پکاتا تھا۔ جب آگ بجھتی تو راکھ اور چولھے کے کنارے لگے ہوئے پتھروں
کے درمیان تانبے کا پگھلا ڈلا نظر آتا۔
لوگ حیرت سے اس معجزے کو دیکھتے جو انہوں نے کر دکھایا تھا۔ لیکن ان کا یہ
عقیدہ تھا کہ ”آگ کی دیوی” نے اس سبزی نے اس سبزی مائل سیاہ پتھر کو چمکدار
سرخ تانبے میں بدل دیا ہے اور اس میں ان کا ہاتھ بالکل نہیں ہے۔
اس تانبے کے ڈلے کو ٹکڑوں میں توڑا جاتا اور پھر ان کو پتھر کے ہتھوڑے سے
پیٹ پیٹ کر کلہاڑیوں، کدالوں اور خنجروں کی شکل دی جاتی۔
اس طرح آدمی نے حیرت انگیز گودام سے ایک سخت چمکدار دھات حاصل کی۔ اس نے کچ
دھات کا ایک ٹکڑا آگ میں پھینکا اور اس کو تانبامل گیا۔
یہ معجزہ آدمی کی محنت سے ہوا۔
پہلے روسی کسان
انیسویں صدی کے آخر میں ایک روسی ماہر آثار قدیمہ خوائیکو نے کیئف کے علاقے
میں تریپولئے گائوں کے قریب قدیم زمانے کی زرعی بستی دریافت کی۔
سوویت دور میں ماہرین آثار قدیمہ پاسیک اور بوگا یفسکی نے یہ تحقیقات جاری
رکھی۔ ان کے کام نے ہمارے لئے یہ تصور کرنا ممکن بنایا کہ پانچ ہزار سال
پہلے کسان کیسے رہتے تھے۔
قدیم زمانے کا گائوں اونچی باڑ سے گھرا ہوتا تھا اور بیچ میں ایک چوک معہ
مویشی باڑے کے ہوتا تھا۔ چوک کے چاروں طرف مٹی کے پلاسٹر کئے ہوئے چوبی
مکانات ہوتے تھے اور ان کی چھتیں چار پہل کی ہوتی تھیں۔
ایسے مکان کا چھوٹا سامٹی کا نمونہ پایا گیا ہے جو ہزاروں سال پہلے بنایا
گیا تھا۔ یہ کھلونا تو نہیں معلوم ہوتا۔ غالباً یہ کوئی ایسی چیز تھی جو
کسی مذہبی رسم میں استعمال کی جاتی تھی
شاید لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ چھوٹا سا گھر جس کے اندر عورتوں کی چھوٹی
چھوٹی مورتیاں تھیں اصلی بڑے گھر کو بدروحوں اور آفتوں سے بچائے گا۔
اس چھوٹے سے نمونے میں داخلے کے دائیں طرف ایک تندور تھا اور بائیں طرف ایک
ذرا اونچا چبوترہ جس پر مختلف چیزیں رکھنے والے بڑے برے برتین رکھے تھے۔
چبوترے کے پاس ہی ایک عورت کی مورتی تھی جو ایک اناج کی چکی پر جھکی ہوئی
تھی۔ داخلے کے سامنے ایک کھڑکی پر قربان گاہ تھی۔ ایک اور عورت کی مورتی جو
چولھے کی نگراں ہے تندور کے قریب دکھائی گئی تھی۔
شاید لوگوں کا یہ خیال تھاکہ یہ چھوٹا ساگھر جس کے اندر عورتوں کی چھوٹی
چھوٹی مورتیاں تھیں اصلی بڑے گھر کو بدروحوں اور آفتوں سے بچائے گا۔
اس چھوٹے سے نمونے میں داخلے کے دائیں طرف ایک تندور تھا اور بائیں طرف ایک
ذرا اونچا چبوترہ جس پر مختلف چیزیں رکھنے والے بڑے بڑے برتن رکھے تھے۔
چبوترے کے پاس ہی ایک عورت کی مورتی تھی جو ایک انان کی چکی پر جھکی ہوئی
تھی۔ داخلے کے سامنے ایک کھڑی پر قربان گاہ تھی۔ ایک اور عورت کی مورتی جو
چولھے کی نگراں ہے تندور کے قریب دکھائی گئی ہے۔
اس قسم کے گھر کو تو گھر کہنا بالکل بجا ہے۔ اس کی چھت میں شہتیر پڑے ہیں۔
چولھا معہ چولھے دان کے ہمارے دیہاتی چولھے کی طرح ہے۔ فرش کو جو مٹی کا ہے
مکان بناتے وقت آگ بچھا کر پکا لیا گیا تھا۔ مٹی کے پلاسٹر کی دیواروں پر
طرح طرح کے ڈیزائن بنے ہوئے تھے۔
ہر گھر میں کئی کمرے ہوتے تھے جو اوٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے علحدہ ہوتے
تھے۔
لیکن گائوں میں ایسے بڑے غارنما گھر بھی تھے جو زمین کو کھود کر بنائے گئے
تھے۔
اب کاریگر کمھار، لوہار اور ٹھٹھیرے بھی تھے۔
کمھاروں نے تین تین فیٹ تک کے اونچے برتن بنانا اور ان کو رنگ برنگے
ڈیزائنوں سے سجانا سیکھ لیا تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے ایسے برتن پائے ہیں
جو گلابی مٹی کے بنے ہیں اور ان پرفیتوں، حلقوں اور چھلوں کے ڈیزائن ہیں جو
بعض جگہ بڑی بری آنکھوں والے آدمیوں کے چہروں، جانوروں اور سورج سے مشابہ
ہیں۔
زمین نے جو اوزار سے لے کر ہم اس تبدیلی کو سمجھ سکتے ہیں جو چقماق پتھر کے
اوزاروں سے لے کر تانبے کے اوزاروں تک ہوئی۔
انتہائی قدیم اوزار یعنی کٹار، رندا اور تیر سب کے سب چقماق پتھر یا ہڈی کے
ہوتے تھے۔
کدالیں یا تو پتھر کی ہوتی تھیں یا بارہ سنگھے کی سینگوں کی۔ کدال میں ایک
سوراخ بنایا جاتا تھا تاکہ اس میں لکڑی کا دستہ لگایا جا سکے۔
اناج ایسی درانتیوں سے کاٹا جاتا تھا جو یاتو گائے کے مونڈے کی ہڈیوں سے
بنائی جاتی تھیں یالکڑی سے۔ چونکہ لکڑی کی درانتی کاٹ نہیں سکتی تھی اس لئے
اس میں چقماق پتھر کے تیز دانت لگائے جاتے تھے۔
انہیں گائوں میں ہمیں ایسے سانچے بھی ملے جو تانبے کے پہلے اوزار ڈھالنے
میں استعمال ہوتے تھے۔ چوڑے پھل والی کلہاڑیاں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کون سے اناج بوئے جاتے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے
کولو میئشچینوگائوں کے گھروں کی دیواروں کی پلاسٹر کی مٹی میں گیہوں، جو،
رئی اور باجرے کے دانے اور بالیاں پائیں۔
انسانی محنت کاکیلنڈر
ہم وقت کو برسوں، صدیوں اور ہزار سالہ عہدوں میں شمار کرنے کے عادی ہیں
لیکن جو لوگ ماقبل تاریخ کے آدمی کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں ان کو مختلف
قسم کا کیلنڈر، مختلف قسم کا وقت کا پیمانہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہنے
کی بجائے کہ ”اتنے ہزار سال گزرے” ہم کہتے ہیں ”پتھر کے عہد قدیم میں”،
”پتھر کے عہد جدید میں”، ”یا ” کانسے کے عہد میں”۔ یہ کوئی سالانہ کیلنڈر
نہیں ہے بلکہ انسانی محنت کا کیلنڈر ہے۔ یہ ہمیں ٹھیک ٹھیک بتاتا ہے کہ
آدمی ارتقا کی کن منزلوں سے گزرا ہے، راستے، میں وہ کہاں پہنچا ہے۔
عام کیلنڈر میں وقت کی بڑی یا چھوٹی ناپ ہوتی ہے۔ صدی، سال، مہینہ، دن اور
گھنٹہ۔
انسانی محنت کا کیلنڈر بھی اپنی بڑی اور چھوٹی ناپیں رکھتا ہے۔ ہم یہ کہہ
کر وضاحت کر سکتے ہیں کہ ”پتھر کا وہ عہد جب اوزاروں کو کاٹ کاٹ کر بنایا
جاتا تھا” یا ”پتھر کا وہ عہد جب اوزاروں کو چکنا اور چمکدار بنایا جانے
لگا تھا”۔
اب ہماری کہانی تاریخ کے اس عہد تک پہنچ گئی ہے جب پتھر کے اوزاروں کی جگہ
دھات کے اوزاروں نے لے لی، جب زراعت اور مویشیوں کے پالن پوسن کی ابتدا
ہوئی۔ محنت کی اس تقسیم کے ساتھ سامان کا تبادلہ ہونے لگا۔ اگر تانبے کی
کلہاڑیاں ایک جگہ بنتیں تو رفتہ رفتہ وہ دوسرے قبیلوں تک پہنچنے لگیں۔
لوگ دریائوں پراپنی ڈونگیوں کے ذریعے گائوں جاتے، اناج کا چمڑے سے یاکپڑے
کا مٹی کے برتنوں سے تبادلہ کرتے۔ کسی قبیلے کے پاس بہت سا تانبا ہوتا اور
دوسرے کے پاس کاریگر کمھار۔ کہیں جھیل میں کھمبوں پر بسے گائوں کے رہنے
والے اپنے پڑوسیوں سے ملتے جو سامان تبادلے کے لئے لاتے۔ سامان کے تبادلے
سے تجربے کا، کام کے نئے طریقوں کا تبادلہ بھی ہوتا۔
یہاں لوگوں کو اشاروں کی زبان استعمال کرنی پڑتی کیونکہ ہر قبیلے کی الگ
الگ اپنی بولی تھی۔ بہر حال جب ملاقاتی لوٹتے تو وہ دوسروں کا بنایا ہوا
سامان ہی اپنے ساتھ نہ لے جاتے بلکہ ان کے کچھ الفاظ بھی لے جاتے جو وہ
سیکھ لیتے تھے۔ اس طرح قبیلوں کی بولیوں کا تبادلہ اورمیل جول ہوا۔ اس طرح
ہر نئے لفظ کے ساتھ اس کے مطلب کو بھی اس سے منسلک کیا گیا۔ قبیلے کے اپنے
دیوتائوں کے برابر پڑوسی قبیلے کے دیوتائوں کو بھی جگہ دی جانیلگی۔ بہت سے
عقیدوں سے ایسے عقیدے پیدا ہوئے جو آئندہ چل کر پوری پوری قوموں کے لئے
مشترک بن گئے۔
دیوتا تیزی سے سفر کرتے تھے۔ نئی جگہوں پر انکو نئے نام دئے جاتے لیکن ان
کو آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔
جب ہم قدیم قوموں کے مذہبوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پہچان لیتے ہیں کہ
بابل کا تاموز، مصر کا اوسیرس اور یونان کا اڈونیس دراصل ایک ہی دیوتا ہیں۔
یہ وہی زراعت کا دیوتا ہے جو خزاں میں مر جاتا تھا اور پھر بہار میں پاتال
سے واپس لایا جاتا تھا۔
کبھی کبھی تو ہم کسی دیوتا کسی دیوتا کے سفر کا نقشہ تک تیار کرسکتے ہیں
مثلاً اڈونیس یونان میں شام سے پہنچا، ان ملکوں سے جہاں سامی رہتے تھے۔اس
کا مطلب نام ہی اس کا ثبوت ہے کیونکہ سامیوں کی زبان میں اڈونیس کا مطلب ہے
”مالک”۔ یونانیوں کو پتہ نہیں تھا کہ یہ ایک لفظ ہے۔ انہوں نے اس کو ذاتی
نام کی حیثیت سے اپنایا۔
اس طرح سامان الفاظ اور مذہبوں کا تبادلہ ہوتا تھا۔
یہ کہنا غلط ہو گا کہ ایسا تبادلہ ہمیشہ پرامن طریقے سے ہوتا تھا۔ اگر
”ملاقاتیوں” کو وہ تانبا، اناج یا کپڑا بزور مل سکتا جو دوسروں نے پیدا کیا
ہے تو اس میں وہ باک نہیںکرتے تھے۔ اس طرح یہ تبادلہ جو اکثر ایماندارانہ
نہ ہوتا تھا بالکل لوٹ کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ ملاقاتی اور میزبان ایک
دوسرے پر حملہ کر دیتے تھے اور جو زیادہ طاقتور ہوتا تھا میدان اسی کے ہاتھ
رہتا تھا۔کسی اجنبی کو لوٹ لینا یا مار ڈالنا ذرا بھی برا نہیں سمجھا جاتا
تھا۔
پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہر گائوں جلد ہی ایک گڑھ کی صورت بن
گیا۔ ناخواندہ مہمانوں کے اچانک ریلے کوروکنے کے لئے گائوں کے گرد مٹی کی
فیصل اور باڑ بنائی جانے لگی۔
لوگوں میں دوسرے قبیلے والوں پر اعتبار نہیں تھا۔ ہر قبیلہ اپنے لوگوں کو
”آدمی” کہتا تھا مگر دوسرے قبیلے کے لوگوں کو ایسانہیں سمجھتا تھا۔ وہ اپنے
کو تو ”سورج کا بیٹا” یا ”آسمان کے لوگ” کہتے تھے لیکن دوسرے قبیلوں کو
برے ناموں سے پکارتے جو کبھی ان قبیلوں کے ساتھ ایسے چپک جاتے تھے کہ بعد
میں وہ اسی نام سے مشہور ہو جاتے تھے۔
جب مورخوں اور کھوج کرنے والوں کی کتابوں میں دوسرے قبیلوں سے اس قدیم نفرت
کے بارے میںہم پڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے وہ نفرت آجاتی ہے جو ہمارے زمانے
میں نسل پرست دوسری قوموں کے لئے پھیلاتے ہیں۔ وہ صرف اپنے کو ”آدمی”
سمجھتے ہیں اور ان کی رائے میں دوسرے لوگ آدمی نہیں بلکہ ان سے حقیر درجے
کے ہیں۔ صرف وہی لوگ غیر قوموں کے خلاف دشمنی کا ایسا پرچار کر سکتے ہیں جو
اپنی تاریخی تباہی محسوس کرتے ہوئے دنیا کو پھر وحشیانہ ماضی کی طرف
لوٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ برتر نسل جیسی چیز دنیا میں کوئی نہیں ہے ایسی
قومیں ہیں جو تمدن کے لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور دوسری قومیں پچھڑی
ہوئی ہیں۔ انسانی محنت کے کیلنڈر کے مطابق تمام ہم عصر قومیں ایک ہی تاریخی
دور کی نہیںہوتیں۔
اکتوبر کے عظیم سوشلسٹ انقلاب سے پہلے روس کی تمام قومیں ارتقا کی ایک ہی
منزل پر نہ تھیں۔ کچھ مشینی دور تک پہنچ گئی تھیں اور کچھ ابھی قدیم لکڑی
کے ہل سے کاشتکاری کر رہی تھیں اور قدیم کر گھوں سے کپڑا بنتی تھیں۔ حتی کہ
ایسی بھی قومیں تھیں جو ہڈی سے اوزار بناتی تھیں اور ان کو لوھے کے وجود
تک کا علم نہ تھا۔
اب سوویت یونین کی زیادہ ترقی یافتہ قومیں ان لوگوں کی مدد کرتی ہیں جو
ماضی میں پچھڑی ہوئی تھیں۔ چند دھائیوں میں وسط ایشیا، سائبیریا اور شمال
بعید کی قوموں نے کئی صدیوں کے برابر ترقی کی ہے۔
انسانی محنت کے کیلنڈر کے مطابق اب ہمارے ملک کی تمام قومیں سوشلسٹ دور کی
ہیں اور ہمارے ملک کی سب قومیں برابر ہیں۔
دو قانون
اکثر ایساہوا ہے کہ سمندر وں سمندروں کھوج کرنے والوں نے نہ صرف نئے ملکوں
کی بلکہ ایسے تاریخی عہدوں کی بھی دریافت کی ہے جو مدتوں ہوئے بھلائے جا
چکے تھے۔
جب یورپ کے لوگوں نے آسٹریلیا کو ڈھونڈ نکالا تو یہ بڑی کامیابی سمجھی گئی
کیونکہ ا نہوں نے ایک پورا براعظم تلاش کیا تھا اور اس پر قبضہ جمایا تھا۔
لیکن ان کی یہ کامیابی آسٹریلیا کے لوگوں کے لئے بڑی بدنصیبی تھی۔ انسانی
محنت کے کیلنڈر کے مطابق وہ ابھی تک دوسرے زمانے میں رہتے تھے۔ وہ یورپی
رسم ورواج کو نہیں سمجھتے تھے اور ان کے طور طریقے اپنانا نہیں چاہتے
تھے۔ان کا یہ ”قصور” معاف نہیں کیا گیا اور ان کو جنگلی جانوروں کی طرح
شکار بنایا گیا اور ان پر ظلم توڑے گئے۔ جب یورپ کے شہروں میں عظیم الشان
عمارتیں تعمیر ہور ہی تھیں تو اسی وقت آسٹریلیا کے لوگ خیموں میں رہتے تھے۔
آسٹریلیا کے لوگ نجی ملکیت کے مطلب بھی واقف نہ تھے جب کہ یورپ میں اگر
کوئی شخص کسی امیر جاگیر دار کے جنگل میں کوئی ہر ن شکار کر لیتا تو اس کو
جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔
جو چیز آسٹریلیا کے باشندے کے لئے قانون تھی وہ یورپی باشندے کیلئے جرم
تھی۔
جب آسٹریلیا کے شکاری بھیڑوں کا کوئی گلہ دیکھتے تو وہ اس کو گھیر لیتے اور
خوشی کے نعرے لگاتے۔ وہ بھیڑوں پر برچھے اور بومرانگ پھینکتے۔لیکن یورپی
فارم والوں کی رائفلیں ایسے وقت میں مداخلت کرتیں۔
یورپی فارمر بھیڑوں کو اپنی نجی ملکیت سمجھتا تھا لیکن آسٹریلیا کے ابتدائی
زمانے کے شکاری کیلئے یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی۔ یورپ کے لوگ کا قانون
یہ تھا ”بھیڑ اس کسان کی ہے جس نے اس کو خریدا ہے یا پرورش کیا ہے”۔
آسٹریلیا کے باشندوں کا قانون کا یہ تھا”جانور اس شکاری کا ہے جس نے اس کو
پکڑا ہے”۔
اور چونکہ آسٹریلیا کے لوگوں نے اپنے زمانے کے قانون کی پیروی کی اس لئے
یورپ کے لوگوں نے ان کو گولی کا نشانہ بنایا جیسے وہ آدمی نہیں تھے بلکہ
بھیڑیے جو ان کی بھیڑوں کے گلے میں گھس آئے تھے۔
ان دو مختلف قوانین کا ٹکرائو پھر ہوتا جب آسٹریلیائی عورتیں اتفاق سے آلو
کے کسی کھیت تک پہنچ جاتیں۔بلا توقف وہ مزیدار جڑیں کھودنے لگتیں اور کھیت
میں ان کی افراط بھی ہوتی۔ سب ایک جگہ پر! یہاں جتنی جڑیں وہ ایک گھنٹے میں
جمع کر سکتی تھیں اتنی دوسری جگہ ایک مہینے میں بھی نہ جمع کر پاتیں۔
لیکن ان کی یہ اچانک خوش نصیبی ہی ان کے لئے آفت بن جاتی۔ گولیاں سنسنانے
لگتیں۔ عورتیں معہ اپنے آلوئوں کے زمین پر گرتیں اور ان کی سمجھ میں نہ آتا
کہ ان کو کس نے مارا ہے اور کیوں۔
امریکہ کی دریافت نے بھی ان دو مخالف دنیائوں کی جنگ کو جنم دیا۔
پرانی ”نئی دنیا”
یورپی لوگوں نے امریکہ کو دریافت کر کے یہ سوچا کہ ان کو نئی دنیا ملی ہے۔
کولمبس کو اس واقعے کی یاد گار کے طور پر ایک نشان بھی عطا کیا گیا جس پر
یہ عبارت لکھی تھی:
کاستیلیا اور لیون کے لئے
کولمبس نے نئی دنیا دریافت کی
لیکن دراصل یہ ”نئی دنیا” پرانی تھی۔ یورپی لوگوں نے جانے بغیر امریکہ میں
اپنے ماضی کو ڈھونڈ نکالا تھا جس کو وہ بالکل بھول چکے تھے۔
انہوں نے انڈیں لوگوں کے رسم ورواج کو وحشیانہ اور عجیب خیال کیا۔ انڈین
لوگوں، کے مکانات، کپڑے اور طور طریقے بالکل یورپی لوگوں جیسے نہ تھے۔
شمال کے انڈین اپنے برچھے اور تیر پتھر اور ہڈیوں سے بناتے تھے۔ ان کو لوہے
کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ وہ زراعت سے واقف تھے۔ وہ مکئی، کدو، سیم
اور تمباکو کی کاشت کرتے تھے۔ لیکن ان کا خاس پیشہ شکار تھا۔ وہ چوبی گھروں
میں رہتے تھے او راپنے گائوں کو اونچی باڑوں سے گھیرتے تھے۔
جنوب کی طرف میکسیکو میں، انڈین لوگوں کے پاس تانبے کے اوزار اور سونے کے
زیور تھے۔ ان کے بڑے برے مکانات کچی اینٹوں کے بنے ہوتے تھے او ران پر جپسم
کا پلاسٹر ہوتا تھا۔
امریکہ کے پہلے نوآباد کاروں اور فاتحوں نے ان تمام باتوں کو تفصیل کے ساتھ
اپنے روزنا مچوں میںلکھاہے۔
لیکن چیزوں کے متعلق بتانے کے مقابلے میں طرز زندگی کے بارے میں بتانا مشکل
ہے۔
یورپی لوگوں کے لئے امریکہ کا طرز زندگی انوکھاتھا، وہاس کو سمجھ نہیں پاتے
تھے۔ اور اس کے بارے میں وہ بہت مبہم اور گڈمڈ طریقے سے لکھتے تھے۔
”نئی دنیا” میں نہ تو زر نقد تھا او رنہ سوداگر، نہ غریب تھے اور نہ امیر۔
بعض انڈین قبیلے ایسے تھے جو سونے کی چیزیں بنانا جانتے تھے لیکن وہ سونے
کی بیش قیمتی سے لاعلم تھے۔
پہلے انڈین جو کولمبس کے ملاحوں نے دیکھے ان کی ناکوں میں سونے کی کیلیں
تھیں اور گلوں میں سونے کے ہار، لیکن انہوں نے شیشے کے دانوں او رمعمولی
زیوروں کے بدلے میں یہ سونے کے زیورات فوراً دے دئے۔
سمندر پار سے آئے ہوئے اجنبی بخوبی جانتے تھے کہ دنیا کے تمام لوگ مالکوں
اور خادموں، جاگیرداروں او رکسانوں میں تقسیم ہیں۔ لیکن یہاں کے سب لوگ
برابر تھے۔ کوئی قبیلہ کسی دشمن کو گرفتار کر لیتا تھا تو اس کو غلام یا
ملازم نہیں بناتا تھا۔ یا تو اس کو فوراً قتل کر دیا جاتا تھا یا اس کو
قبیلے میں شامل کر لیا جاتا تھا۔
یہاں کوئی بھی محل، گھر یا جاگیر کا مالک نہ تھا۔ لوگ برادری کے مکانوں میں
رہتے تھے جو ”لمبے مکان” کہلاتے تھے۔ پورے کے پورے جرگے ایک ساتھ رہتے تھے
اور سارے بڑے خاندان کو کھلانے اور پہنانے کے مساوی طور پر ذمہ دار ہوتے
تھے۔ زمین کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہوتی تھی بلکہ پورا قبیلہ اس کا ملک
ہوتا تھا۔ مالک کیلئے اس کی اراضی پر کام کرنے والے غلام کسان نہیں ہوتے
تھے۔ یہاں سب لوگ آزاد تھے۔
صرف یہی بات یورپی لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے کافی تھی جو جاگیر دارانہ
دور میںر ہتے تھے۔ اس زمانے میں غلام کسانوں کا عام رواج تھا۔ لیکن یہی حد
نہ تھی۔
یورپ میں ہر ایک جانتا تھا کہ اگر اس نے کوئی ایسی چیز لے لی۔ جو دوسرے کی
ملکیت ہے تو عمال شہر اس کی گردن پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے لیکن امریکہ
میں اس وقت نہ تو ایسا عملہ تھا، نہ نجی جائیداد اور نہ جیل۔ پھر بھی تمام
چیزوں میں نظم تھا۔ لوگ خود یہ باقاعدگی رکھتے تھے حالانکہ یورپ کے مقابلے
میں اس کا طریقہ مختلف تھا۔
یورپ میں قوانین اس طرح بنائے گئے تھے کہ غریب اس چیزکو قطعی نہ لے سکے جو
امیر کی ملکیت ہو، کہ ملازم ہمیشہ آقا کے فرمانبر دار رہیں اور غلام کسان
ساری عمر اپنے جاگیر داروں کے لئے محنت مشقت کرتے رہیں۔
لیکن یہاں، امریکہ میں ہر ایک شخص کی حفاظت اس کا خاندان اور قبیلہ کرتا
تھا۔ اگر کوئی آدمی مار ڈلا جاتا تو مقتول کا سارا جرگہ اس کا انتقام لیتا۔
مگر ایسا بھی ہوتا تھا کہ قتل کو معاملہ پرامن طریقے سے طے ہو جاتا تھا۔
قاتل کے رشتے دار مقتول کے عزیزداروں سے معافی کی درخواست کرتے اور ان کو
اس صلح کے لئے تحائف دیتے۔
یورپ میں شنہشاہ، بادشاہ اور شہزادے تھے۔ لیکن یہاں نہ تو بادشاہ تھے اورنہ
تخت۔ پورے قبیلے کی موجودگی میں سرداروں کی پنچایت قبیلے کے سارے معاملات
طے کرتی تھی۔ سردار اپنی خوبیوں کی بنا پر چنے جاتے تھے اور اگر اپنے عہدے
کے لائق نہیں ثابت ہوتے تھے تو برطرف کر دئے جاتے تھے۔ سردار قبیلے کا مالک
نہیں ہوتا تھا بعض انڈین زبانوں میں ”سردار” کا لفظ محض ”مقرر” کے معنی
میں استعمال کیا جاتا ہے۔
پرانی دنیا میں بادشاہ قوم کا سردار ہوتا تھا اور باپ خاندان کا۔ ریاست
لوگوں کا سب سے بڑا جتھا تھی اور خاندان سب سے چھوٹا۔ بادشاہ اپنی رعایا کا
انصاف کرتا تھا اور سزا دیتا تھا باپ اپنے بچوں کا انصاف کرتا تھا اور سزا
دیتا تھا۔ بادشاہ ملک کا وارث اپنے بیٹے کو بناتا تھا اور باپ اپنی
جائیداد بیٹے کے لئے چھوڑتا تھا۔
لیکن یہاں، نئی دنیا میں باپ کو اپنے بچوں پر کوئی اختیار نہ تھا۔ بچے ماں
کے ہوتے تھے اور اسی کے پاس رہتے تھے۔ عورتیں ”لمبے مکانوں” کا انتظام کرتی
تھیں۔ یورپی خاندانوں میں بیٹے گھر پر رہتے تھے اور بیٹیاں اپنے شوہروں کے
خاندانوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ یہاں اس کے بالکل برعکس تھا۔ بیوی شوہر کو
اپنی ماں کے گھر لاتی تھی اور بیوی ہی خاندان کی سردار ہوتی تھی۔
ابتدائی دور کے ایک سیاح نے لکھا ہے ”عام طو رپر عورتیں گھر کا انتظام کرتی
تھیں اوروہ ایک دوسرے کی مدد کرتی تھیں۔ ان کے ذخیرے مشترک ہوتے تھے۔ لیکن
وہ شوہر بہت بدقسمت ہوتا تھا جو ٹھیک سے کفالت نہیں کر سکتا تھا۔ گھر میں
اس کے چاہے جتنے بچے یا ملکیت وہتی اس کو فوراً حکم دیا جا سکتا تھا کہ وہ
اپنا بوریا بسترا لپیٹے اور روانہ ہو جائے۔ اگر وہ اس پر احتجاج کرتا تو اس
کو تلخ تجربہ ہوتا، اس کے زندگی اجیرن ہو جاتی۔ اگر کوئی چچی یا دادی اس
کی سفارش نہ کرتی تو اس کو اپنے جرگے واپس جانا پڑتا یا کسی دوسرے کسی
سردار کی ”سینگیں اکھاڑنا” چاہتی تھی (جیسا کہ ان کا محاورہ تھا) تو ایک
لمحہ بھی تامل نہیں کرتی تھیں اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ سردار نہیں
رہتا تھا بلکہ قبیلے کے کسی اور فرد کی سی حیثیت اس کیبھی ہو جاتی تھی۔
اسی طرح نئے سردار کا انتخاب بھی عورتوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔”
پرانی دنیا میں عورت اپنے شوہر کی ملازمہ ہوتی تھی۔ لیکن انڈین قبیلوں میں
عورت گھر کی سردار ہوتی ہے۔ کبھی کبھی وہ قبیلے کی بھی سردار ہو جاتی تھی۔
مشہور روسی شاعر پوشکن نیا یک کہانی ایک امریکی جان ٹینر کی بابت لکھی تھی۔
اس امریکی کو انڈین پکڑ لیتے ہیں اور اس کو ایک انڈین عورت جس کا نام نیٹ ۔
نو۔ کوا ہے گودلے لیتی ہے۔ یہ ایک سچا قصہ ہے۔ نیٹ۔ نو۔ کوا اور ٹاوا
قبیلے کی سردار تھی۔اور اس کی ڈونگی پر ہمیشہ جھنڈا لہراتا تھا۔ جب وہ
برطانوی قلعے کو جاتی تھی تو اس کو توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ اس طرح صرف
انڈین ہی نہیں بلکہ گورے لوگ بھی اس عورت کی عزت کرتے تھے۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان خاندانوں میں شجرہ ماں کی طرف سے چلتا
تھاباپ کی طرف سے نہیں۔ یورپ میں بچوں کے نام کے آخری حصے میں باپ کا نام
ہوتا تھا لیکن یہاں وہ ماں کانام لیتے تھے۔ اگر باپ ”ہرن” قبیلے کا ہوتا
اور ماں ”ریچھ” قبیلے کی تو بچے ”ریچھ” قبیلے کے ہوتے ۔ ہر قبیلے عورتوں’
ان کے بچوں، ان کی بیٹیوں کے بچوں اور ان کی نواسیوں کی نواسوں نواسیوں پر
مشتمل ہوتا تھا۔
یہ سب باتیں یورپی لوگوں کے لئے بہت ہی عجوبہ تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ انڈین
لوگوں کے طریقے وحشیانہ ہیں اور یہ لوگ خود بھی وحشی ہیں۔
وہ اب تک یہ بات بھول چکے تھے کہ ان کے اجداد بھی تیر کمان کے زمانے میں،
پہلی ڈونگیوں اور پہلی کدالوں کے زمانے میں اسی طرح کے رسم ورواج رکھتے
تھے۔
پہلے نوآباد کاروں اور فاتحوں نے اپنی تحریروں میں انڈین قبائل کے سرداروں
کو نواب یا جاگیردار کی طرح پیش کیا۔ ان کا خیال تھا کہ سردار کا خطاب کسی
شاہی خطاب کی طرح تھا اور ان کا نشان کوئی سرکاری اعزازی نشان ۔ وہ کہتے
تھے کہ سرداروں کی پنچایت سینیٹ رکھتی تھی اور جنگی سردار بادشاہ کی طرح
ہوتا تھا۔ لیکن یہ عجیب بات ہو گی اگر ہم آج کل کسی فوج کے کمانڈر کو
بادشاہ کہیں۔
صدیاں گزر گئیں لیکن امریکہ میں گورے بسنے والوں نے وہاں کے دیسی باشندوں
کے رسم ورواج نہیں سمجھے۔ یہ غلط فہمی اس وقت تک رہی جب تک ایک امریکی لوئس
ایچ مورگن نے اپنی کتاب ”قدیم سماج” کے ذریعے امریکہ کو دوبارہ نہیں
دریافت کیا۔ اس کتاب میں مصنف نے ثابت کیا کہ آزئیک اور ایرو کووئیس انڈین
کا طریقہ کا طریقہ زندگی ارتقا کی ایسی منزل تھی جس کو یورپی لوگ مدتوں
ہوئے بھول چکے تھے۔
لیکن مورگن کی کتاب 1877میں شائع ہوئی تھی او رہم امریکہ کے پہلے فاتحوں کا
ذکر کر رہے ہیں۔
گوروں نے انڈین لوگوں کو نہیں سمجھا اور انڈین لوگوں نے بھی جواباً گوروں
کو نہیں سمجھا۔ انڈین لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ گورے ۔ مٹھی
بھر سونے کے لئے ایک دوسرا کا گلا گھونٹنے کو کیوں تیار رہتے تھے۔ ان کی
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ گورے امریکہ کیوں آئے ہیں اور ”کسی اور کے علاقے
کو فتح کرنے کے”کیا معنی ہیں۔
قدیم زمانے کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ زمین سارے قبیلے کی ہے اور اس کی
حفاظت سرپرست روحیں کرتی ہیں۔ کسی دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کا مطلب یہ
تھا کہ دوسرے قبیلے کے دیوتائوں کا عتاب مول لیا جائے۔
انڈین بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے۔ لیکن جب ایک قبیلے کو شکست ہو جاتی
تھی تو فاتح قبیلہ لوگوں کو غلام نہیں بناتا تھا، ان کو اپنے رسم ورواج
اپنانے پر مجبور نہیں کرتا تھا یا ان کے سرداروں کو برطرف نہیں کرتا تھا۔
وہ مفتوح قبیلے سے صرف خراج وصول کر لیتے تھے۔ کسی سردار کو صرف اس کا
قبیلہ یا جرگہ برطرف کر سکتا تھا۔
دو دنیائوں، دو سماجی نظاموں میں ٹکر ہو گئی۔ امریکہ کی فتح کی تاریخ دو
دنیائوں کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔
میکسیکواسپین کے لوگوں کی فتح اس کی ایک اچھی مثال ہے ۔
غلطیوں کا سلسلہ
1519 میں تین مستول والے گیارہ جہازوں کا بیڑا میکسیکو کے ساحل پر نمودار
ہوا۔ جہازوں کے پہلو گول پیپوئوں کی طرح تھے۔ ان کے اگلے اورپچھلے حصے پانی
سے بہت اونچے اوپر اٹھے ہوئے تھے اور چوکور سوراخوں سے توپوں کے داھانے
باہر نکلے تھے۔ پہلوئوں میں سپاہیوں کے نیزے اور بندوقیںچمک رہی تھیں۔
علمبردار جہاز کے اگلے حصے پر ایک چوڑے شانوں اور داڑھی والا آدمی ٹوپی
آنکھوں تک گھسیٹے کھڑا تھا۔ اس کی تیز آنکھیں ہموار ساحل اور ان نیم عریاں
انڈین لوگوں کو گھور رہی تھیں جو کنارے پر جمع وہ گئے تھے۔
اس آدمی کا نام کورٹیز تھا۔ یہ اس مہم کا سربراہ تھا جو اسپین سے میکسیکو
کو فتح کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی۔ یہ سچ ہے کہ ایک خط اس کو مل چکا تھا جس
میںاسپین کے گورنر نے اس کی تقرری کو منسوخ کر دیا تھا لیکن کورٹیز جیسے
مہم باز کے لئے یہ برخاستگی کوئی اہمیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ اب
اسپین اور اس کے درمیان ایک زبردست سمندر حائل تھا۔ یہاں وہ اپنے جہازوں کا
بادشاہ تھا۔
جہازوں نے لنگر ڈالا۔ انڈین غلام جن کو کورٹیزنے راستے میں جزیروں میں
گرفتار کر لیا تھا توپیں، توپوں کی گاڑیاں، کھانے پینے کے سامان کے بکس اور
بندوقیں کشتیوں میں اتارنے لگے۔ نیچے تہہ خانے سے گھوڑے لائے جانے لگے جو
ڈرکر الف ہو رہے تھے۔ ان کو کشتیوں پر لانا اور پھر کنارے تک پہنچانا بڑا
کٹھن مرحلہ تھا۔
انڈین ان تیرتے ہوئے مکانوں اور گورے چہرے والے آدمیوں کو جن کے جسم کپڑوں
سے ڈھکے ہوئے تھے اور ان کے اسلحے کو حیرت سے تک رہے تھے۔ لیکن ان کو سب سے
زیادہ حیرت ان پھنکارتے ہوئے جانوروں پر تھی جن کے ایال اور دمیں اوپر
اٹھی اڑ رہی تھیں۔ انہوں نے ایسے وحشی اور بڑے جانور کبھی نہیں دیکھے تھے۔
گوروں کی آمد کی خبر جلد ہی سارے ساحل اور خاص ملک میں پہاڑوں تک پھیل گئی ۔
بلند پہاڑوں کی دیوار کے پیچھے وہاں پوئبلو یعنی آزئیک لوگوں کے گائوں
تھے۔ تینوخ تیتلان ان میں سب سے بڑا گائوں تھا۔ یہ ایک جھیل کے بیچوں بیچ
واقع تھا اور پلوں کے ذریعے خشکی سے ملایا گیا تھا۔ اس کے چمکتے، سفیدی کئے
ہوئے گھر اور عبادت گاہوں کی سنہری چھتیں دور سے نظر آتی تھیں۔ مونٹے زوما
جو آزئیک لوگوں کا جنگی سردار تھا اپنے سپاہیوں کے ساتھ سب سے بڑے مکان
میں رہتا تھا۔
جب گوروں کی آمد کی خبر مونٹے زوما کو ہوئی تو اس نے جنگی کونسل کا جلسہ
طلب کیا۔ سرداروں نے دیر تک اس بات پر غور کیا کہ کیا جائے۔ وہ یہ سمجھنا
چاہتے تھے کہ آخر یہ گورے ان کے ملک کو کیوں آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔
سرداروں نے یہ افواہ سنی تھی کہ گوروں کو سونا بہت پسند ہے۔ اس لئے کونسل
نے یہ فیصلہ کیا کہ گوروں کو سونا بطور تحفہ بھیجا جائے اور ان سے کہا جائے
کہ وہ اپنے ملک کو واپس جائیں۔
یہ زبردست غلطی تھی۔ سونا گوروں کو لالچ سے پاگل ہی بنا سکتا تھا۔ لیکن
آزئیک لوگوں کو نہ تو اس کا پتہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا کیونکہ انڈین اور
گورے لوگ مختلف دوروں کے لوگ تھے۔
مونٹے زوما نے اپنے سفیروں کو سونے کی ا یسی پلیٹوں کا تحفہ دے کر بھیجا جو
گاڑیوں کے پہیوں کے برابر تھیں۔ ان کے علاوہ سونے کے زیورات اور مورتیاں
بھی تھیں۔ اس سے کہیں زیادہ عقلمندی کی بات یہ ہوتی کہ وہ اس خزانے کو دفن
کر دیتے۔
جب کورٹیز اور اس کے سپاہیوں نے یہ سونا دیکھا تو گویا آزئیک لوگوں کی قسمت
پر مہر لگ گئی۔
سفیروں کی یہ تمام التجائیں بے سود ثابت ہوئیں کہ ہسپانوی سمندر پار لوٹ
جائیں، انہوں نے ان ناخواندہ مہمانوں کو ان مشکلات او ر خطرات سے بے سود
ڈرانے کی کوشش کی جو ملک کے اندر کے سفر میں ان کو پیش آنے والی تھیں۔
پہلے تو ہسپانوی لوگوں نے میکسیکو کے سونے کی کہانیاں سنی تھیں لیکن اب تو
وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اور ان کی آنکھیں لالچ سے چمکنے لگیں
کیونکہ یہ کہانیاں سچی تھیں۔
سفیروں کی باتیں ان کو احمقانہ معلوم ہوئیں۔ جب ان کی منزل اتنی قریب تھی
تو انہیں سمندر پار کیوں واپس جانا چاہئے! یہ تو پاگل پن ہوتا کیونکہ انہوں
نے طویل بحری سفر کے دوران میں بڑی مصیبتیں جھیلی تھیں! انہوں نے پتھرجیسی
سخت سوکھی روٹی کھائی تھی، ریل پیل والی کیبنوں میں چوبی تختوں پر سوئے
تھے اور طوفانوں اور سمندر کے اندر پہاڑی چٹانوں سے بچائو کے لئے تار کول
سے لتھڑے ہوئے رسوں پر کمر توڑ کام کیا تھا۔ یہ سب اسی لئے تو تھا کہ آگے
چل کر دولت ملے گی۔
کورٹیز نے حکم دے دیا کہ پڑائو اٹھایا جائے او ر آگے روانگی ہو۔ انہوںنے
اپنے غلاموں کی پیٹھوں پر اپنے اسلحہ اور کھانے پینے کا سامان لاد دیا اور
یہ آدمی جو باربر داری کا جانور بنا لئے گئے تھے ہانپتے کانپتے، آہ وزاری
کرتے روانہ ہو گئے۔ لیکن وہ مزاحمت بھی کیا کر سکتے تھے؟ ان میں جو پیچھے
رہ جاتے ان کو گوروں کی تلواریں کچوکے دے کر آگے بڑھا تیں اور جو مزاحمت
کرتے ان کے سر دھڑسے لگ کر دئے جاتے۔
ایک آزئیک ڈرائنگ ملی ہے جس میں اس سفر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ہم دیکھتے
ہیں کہ لنگوٹیاں باندھے ہوئے آدمی تین راستوں پر سفر کر رہے ہیں۔ ایک آدمی
توپ گاڑی کا پہیہ اپنی پیٹھ پر لادے ہے اور دوسرا بندوقوں کا بنڈل، تیسرے
کی پیٹھ پر کھانے پینے کے سامان کا ایک بڑا بکس ہے۔ ایک ہسپانوی افسر اپنا
ڈنڈا ایک انڈین کے سر پر اٹھائے ہے۔ اس نے انڈین کے بال پکڑ لئے ہیں اور اس
کے پیٹ پر لاتیں مار رہا ہے۔ قریب ہی ایک پہاڑی پر مصلوب حضرت عیسی کی
تصویر ہے۔
ڈرائنگ میں انڈین لوگوں کے کٹے ہوئے سر اور ہاتھ پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس
طرح پہلی بار آزاد انڈین لوگوں نے جانا کہ انسان کے ہاتھ انسان کی غلامی
کیسی ہوتی ہے۔
آہستہ آہستہ لیکن استقلال کے ساتھ ہسپانوی آگے بڑھتے گئے۔ اور پھر ایک
اونچے پہاڑی درے سے انہوں نے ایک جھیل اور اس کے بیچ میں ایک شہر دیکھا۔
آزئیک لوگوں نے مزاحمت نہیں کی اس لئے ”مہمان” شہر میں داخل ہو گئے۔ اور
پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ اپنے میزبان جنگی سردار مونٹے زوما کی گرفتاری
تھی۔
کورٹیز کے حکم سے مونٹے زوما کو زنجیریں پہنا دی گئیں۔ کورٹیز نے مطالبہ
کیا کہ قیدی شاہ اسپین سے وفاداری کا عہد کرے۔ قیدی نے بڑی فرماں برداری سے
وہ الفاظ دھرائے جو اس سے کہے گئے تھے۔ اس کو نہ تو یہ پتہ تھا کہ بادشاہ
کیا ہوتا ہے اور نہ حلف کی اہمیت معلوم تھی۔
کورٹیز نے خیال کیا کہ اس کی جیت ہو گئی ہے۔ اس نے سوچا کہ اس نے میکسیکو
کے بادشاہ کو قید کر لیا ہے اور چونکہ قیدی بادشاہ نے اپنا اقتدار شاہ
اسپین کے سپرد کر دی ہے اس لئے سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہ تھا کورٹیز کا خیال۔
لیکن اس نے بڑی غلطی کی تھی۔ وہ میکسیکوکے طریقوں سے ایسے ہی ناواقف تھا
جیسے مونٹے زوما ہسپانوی طریقوں سے۔ کورٹیز نے سوچا کہ مونٹے زوما بادشاہ
ہے حالانکہ وہ محض جنگی سردار تھا جس کو اپنے ملک پر حکومت کا کوئی اختیار
نہ تھا۔
کورٹیز نے اپنی فتح کی خوشی منانے میں ذرا عجلت سے کام لیا تھا۔
اب آزئیک لوگوں نے وہ اقدام کیا جس کی کورٹیز کو کبھی توقع نہ تھی۔ انہوں
نے مونٹے زوما کے بھائی کو نیا سردار منتخب کر لیا ۔ نئے سردار نے اپنے
سپاہیوں کے ساتھ اس بڑے گھر پر حملے کی رہنمائی کی جس میں ہسپانوی ٹھہرے
ہوئے تھے۔
ہسپانوی توپوں اور بندوقوں سے لڑے۔ آزئیک لوگوں کے اسلحہ پتھر، تیر اور
کمان تھے۔
توپ کا گولا اور بندوق کی گولی تیر اور پتھر سے کہیں زیادہ مہلک ہوتے ہیں۔
لیکن آزئیک لوگ تو اپنی آزادی کیلئے لڑ رہے تھے اور وہ رکنے والے نہ تھے۔
اگر دس مرکر گرتے تو سو ان کی جگہ لے لیتے۔
جب کورٹیز نے حالت گڑ بڑ دیکھی تو اس نے آزئیک لوگوں سے بات چیت کرنے کا
فیصلہ کیا۔ اس نے سوچا کہ مونٹے زوما اس کے لئے سب سے بہتر ثالثی ہو گا
کیونکہ وہ تو میکسیکو کا بادشاہ ہے۔ اس نے مونٹے زوما سے کہا کہ وہ اپنے
لوگوں کو ہتھیار ڈال دینے کا حکم دے۔
ہسپانوی لوگوں نے اس کی زنجیریں کھول دیں اور اس کو ایک مکان کی چپٹی چھت
پر لے جایا گیا۔ لیکن لوگوں نے اس کا سواگت بزدل اور غدار کی طرح کیا۔ اس
پر پتھروں او رتیروں کی بارش ہوئی۔ ہرطرف سے شور ہوا:
”چپ رہ، پاجی! تو سپاہی نہیں ہے! تو عورت ہے۔ تیرا کام بنائی کتائی کرنا
ہے! تو ان کتوں کی قید میں ہے! تو بزدل ہے!”
مونٹے زوما سخت زخمی ہو کر گر پڑا۔
کورٹیز بڑی مشکل سے حملہ آوروں کی صفوں کو توڑ سکا۔ اس کے آدھے آدمی مارے
جا چکے تھے۔ خوش قسمتی سے آزٹیکوں نے اس کا پیچھا نہیں ورنہ وہ تینوخ
تیتلان سے زندہ بچ کر نہ جاتا۔ لیکن آزٹیکوں یہ غلطی کی کہ اس کو نکل جانے
دیا کیونکہ کورٹیز نے ایک اور فوج اکٹھا کر کے تینوخ تیتلان کا محاصرہ کر
لیا۔
آزٹیک لوگ بہادری سے لڑے اور انہوں نے ہسپانوی لوگوں کے خلاف کئی مہینے تک
اپنے شہر کی دفاع کی۔ لیکن ان کے تیر اور کمان توپوں کے خلاف کیا کرتے؟
تینوخ تیتلان بالآخر فتح کر کے لوٹ لیا گیا۔
لوہے کے زمانے کے لوگوں نے تانبے کے زمانے کے لوگوں پر فتح پائی۔ ترقی
یافتہ نئے نظام کے مقابلے میں پرانے برداری کے نظام کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
جادو کے جوتے
انیسویں صدی کی ایک کہانی ہے جس میں ایک نوجوان کے ہاتھ معمولی جوتوں کی
بجائے جادو کے جوتوں کا جوڑا آگیا۔ یہ نوجوان ذرا کھویا رہتا تھا اسلئے
اسکو جوتوں کی خوبی کا فوراً پتہ نہیںچلا۔ وہ میلے سے گھر آرہا تھا اور سوچ
میں ڈوبا ہو اتھا۔ اچانک اس کو سخت سردی لگی۔ اس نے چاروں طرف دیکھا تو وہ
برف سے گھر ا ہوا تھا اور دھندلا لال سورج افق کے پیچھے ڈوب رہا تھا۔ ہوا
یہ کہ ایک قدم میں سات میل چلنے والے ان جادو کے جوتوں کے ذریعے وہ جانے
بغیر دائرہ قطب شمالی میں پہنچ گیا تھا۔
کوئی اور ہوتا تو وہ اس جادو کی چیز سے بڑے کام لیتا۔ لیکن اس کہانی کے
نوجوان کو دولت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس کو سائنس سے دلچسپی تھی۔ ا س لئے
اس نے اپنی خوش قسمتی سے فائدہ اٹھانے کے لئے ساری دنیا دیکھنے اور امکان
بھر سب کچھ سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے جادو کے جوتوں کے ذریعے دنیا بھر
میں شمالی سے جنوب تک اور جنوب سے شمال تک بھاگتا دوڑتا۔ سردیوں میں وہ
سائبیر یائی تائیگا کے جاڑے سے بھاگ کر افریقی ریگستان کی گرمی میں چلا
جاتا اور رات میں وہ مشرقی نصف کرے سے مغرب میں آجاتا۔
وہ اپنی پھٹی پرانی جیکٹ پہنے اور چیزیں جمع کرنے کے لئے ایک تھیلا کاندھے
پرلٹکائے ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے پر اس طرح کود جاتا جیسے وہ پانی سے
نکلے قدم رکھنے کے پتھر ہوں اور اس طرح وہ آسٹریلیا سے ایشیا اور ایشیا سے
امریکہ پہنچتا۔
آسانی سے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر، دھکتے ہوئے آتش فشانوں سے برف پوش
چوٹیوں پر قدم رکھتے ہوئے وہ معدنیات اور جڑی بوٹیاں جمع کرتا، قدیم عبادت
گاہوں اور غاروں کا جائزہ لیتا، زمین اور اس کی ہر جاندار چیز کا مطالعہ
کرتا۔
اس مورخ کو بھی جو آدمی کی زندگی کا مطالعہ کرتا ہے ایسے جادو کے جوتو ں کی
ضرورت ہے۔ اس کتاب کے صفحات کے ذریعے ہم ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک،
ایک دور سے دوسرے دور تک گئے ہیں۔
کبھی کبھی تو ہم نے ا تنے بڑے بڑے فاصلے تیزی سے طے کئے ہیں اور وقت نیا
اتنی تیزی سے پرواز کی ہے کہ ہمارا سر چکرا گیا۔ لیکن ہم چلتے رہے، رکے
نہیں۔ ہم راستے میں رک کر تمام تفصیلات کا جائزہ نہیں لے سکتے تھے جیسا کہ
عام جوتے پہننے والے لوگ کرتے ہیں۔
صدیوں کی چھلانگیں لگانے میں شاید ہم بعض چیزوں کو نظرا نداز کر گئے۔ لیکن
اگر ہم اپنے جادو کے جوتے ذرا دیر کے لئے بھی اتار دیتے اور عام رفتار سے
چلتے توہم تمام تفصیلات میں الجھ کر اپنا راستہ صاف نہ دیکھ سکتے۔ اگر تم
جنگل کے ہر درخت کا تفصیل سے مطالعہ کرو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ تم درختوں
کی وجہ سے جنگل نہیں دیکھ سکتے ہو۔
ہم صرف ایک دور سے دوسرے دور تک ہی نہیں گئے بلکہ اپنے جادو کے جوتوں کی
وجہ سے طرح طرح کی سائنسوں تک بھی ہماری پہنچ ہو گئی۔
ہم پودوں اور جانوروں کی سائنس سے زبان کی سائنس تک ، زبان کی سائنس سے
اوزاروں کی تاریخ تک، اوزاروں کی تاریخ سے عقیدوں کی تاریخ تک اور مذہبوں
کی تاریخ سے زمین کی تاریخ تک پہنچے۔
یہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔ انسان سائنس کو اپنی خدمت کے لئے بنایا ہے اور
جب ہم زمین پر آدمی کی زندگی، دنیامیں اس کے مقام کے بارے میں بات کرتے ہیں
تو تمام سائنسیں ضروری ہوتی ہیں۔
ہم ابھی ابھی ہسپانوی فتوحات کے زمانے مین امریکہ میں تھے۔
آئو، اب ہم چار ہزار سال سے تین ہزار سال قبل مسیح تک والے یورپ کو واپس
چلیں۔ ہم یہاں بھی ایرو کوئیس اور آزٹیک قسم کے قبائل پائیں گے۔ ہمیں یہاں
بھی برداری کا ”لمبا مکان” ملے گا جہاں عورتیں سب انتظام کرتی ہیں ۔
یہاں عورتوں کی عزت ہوتی ہے کیونکہ وہ گھروں کی بنانے والی اور جرگے کی
بانی ہیں۔ عورتیں جاڑوں کے لئے غذا کے ذخیرے کرتی ہیں وہ زمین گوڑتی ہیں،
فصل بوتی اور کاٹتی ہیں۔
عورتیں مردوں سے کہیں زیادہ کام کرتی ہین لیکن عورتوں کی عزت بھی زیادہ
ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہر گائوں ، ہر گھر میں عورت کی پتھر یا ہڈی کی مورتی
ہوتی ہے جو جرگے کی ماں کی نشانی ہے۔ لوگ اس کے سامنے دعا کرتے ہیں، اس سے
بافراط فصل کی التجا کرتے ہیں اورا پنے دشمنوں سے پنا ہ چاہتے ہیں۔
صدیاں گزرنے کے بعد یہ گھر کی محافظ ماں یونان کے شہر ایتھنز آئی ایک
یونانی دیوی ایتھینا بن گئی۔ وہ شہر کی محافظ تھی اور اس کے ہاتھ میں ایک
نیزہ تھا۔ اب ایتھنز میں عورت کی چھوٹی سی مورتی نہیں بلکہ اس دیوی کا بہت
بڑا مجسمہ نصب تھا جو اپنے نام کے شہر کی محافظ تھی۔
پرانی عمارت میں پہلی دراڑیں
ہماری زبانوں میں اب بھی پرانے زمانے کے برادری والے طریقہ زندگی کی باقیات
پائی جاتی ہیں حالانکہ اب ہماری یاد میں اس کا کچھ بھی نہیں باقی رہ گیا
ہے۔
جب روس میں بچے اجنبیوں کو ”چچی” یا ”چچا” یا بزرگ اجنبیوں کو ”دادا” یا
”دادی” کہتے ہیں تویہ بات اس سماج کی باقیات میں سے ہے جس میں جرگے کے تمام
ممبر ایک دوسرے کے رشتے دار ہوتے تھے۔
اکثر ہم آدمیوں کے کسی جتھے کو خطاب کرتے ہوئے ”بھائیو” کہتے ہیں یا کسی
چھوٹے لڑکے کو جو ہمارا بیٹا نہیں ہوتا ”بیٹا” کہہ کر پکارتے ہیں۔
دوست زبانوں میں بھی ماضی کی ایسی باقیات ہیں۔ جرمن زبان میں ”میری
بھانجیاں اور بھانبے” کہنے کی بجائے ”میری بہن کے بچے” کہتے ہیں کیونکہ اس
زمانے میں جو بہت دن ہوئے بھلایا جا چکا ہے بہن کے بچے جرگے ہی میں رہتے
تھے۔ اور بھائی کے بچے اس کی بیوی کے جرگے کے ہوتے تھے۔بہن کے بچے رشتے دار
ہوتے تھے اور بھائی کے بچے ایسے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ دوسرے جرگے کے
ہوتے تھے۔
سیکسے کی قدیم ریاست میں بادشاہ کا وارث اس کی بہن کا بیٹا ہوتا تھا اپنا
بیٹا نہیں۔
ابھی پچھلی صدی تک افریقہ میں آشانتی ریاست تھی جس کا بادشاہ ”نانے” کہلاتا
تھا۔ اس لفظ کے معنی ہیں ”مائوں کی ماں”۔
وسط ایشیا میں سمر قند میں بادشاہ کو افشین” کہتے تھے۔ قدیم زمانے میں اس
کے معنی ہوتے تھے ”گھر کی مالکہ یا رانی”۔
ہمیں بہت سی ایسی مثالیں مل سکتی ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں کس طرح مادری
سماج کی، جہاں ماں گھر کی مالکہ اور گھر کی رانی ہوتی تھی، یاد باقی رہ
گئی۔
اگر لوگوں کے ذہن میں یہ یاد اتنے دن تک باقی رہی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ
جرگہ بہت مضبوط ہوتا تھا۔ لیکن اس کو کس نے تباہ کر دیا؟
امریکہ میں تویہ یورپی فاتحوں کی آمد کے ساتھ تباہ ہوا اور یورپ میں،
امریکہ کی دریافت سے ہزاروں سال پہلے، وہ خود سے ڈھیر ہو گیا، اس گھر کی
طرح جس کا دیمک کھا جاتی ہے۔
اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ مرد جرگے کے کام زیادہ سے زیادہ اپنے ہاتھ
میںلینے لگے۔
ابتدا سے عورتیں زمین کاشت کرتی تھیں اور مرد گلہ بانی کرتے تھے۔ جب گلے
بہت چھوتے ہوتے تھے اس وقت تک عورتوں کا، زمین کاشت کرنے والیوں کا کام سب
سے اہم تھا۔گوشت اور دودھ سب کے لئے کافی نہیں ہوتا تھا۔ اگر عورتیں اناج
جمع نہ کرتیں اور فصل نہ پیدا کرتیں توکھانے کو کچھ نہ رہ جاتا۔ کبھی کبھی
تو مٹھی بھر خشک اناج یا جو کی ایک روٹی ہی پورا کھانا ہوتی تھی۔ اس
میںجنگلی شہد یا گوندنیوں کا اضافہ ہوا۔ یہ بھی اناج کی طرح عورتیں ہی جمع
کرتی تھیں۔ عورتیںگھر کا انتظام کرتی تھیں۔ اور اسی لئے وہ حاکم بھی تھیں۔
لیکن یہ صورت ہمیشہ نہیں ہوتی تھی۔ اسیتپ میں اناج اگانا آسان نہ تھا۔
میدانوں کی گھاسیں اناج کو اپنی جگہ نہیں دینا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اپنی
جڑیں زمین میں بہت گہرے تک پہنچا دی تھیں۔ اور جب کدال سے زمین گوڑی جاتی
تو اس کو اوپری پرت نرم نہ ملتی بلکہ ٹھوس گھاس اور اچھوتی زمیں اس کو
روکتی جو بہت سخت تھی۔
اس لئے تین چار عورتیں مل کر کدال چلاتی تھیں پھر بھی وہ سطح کو ہی کرید
پاتی۔
کم گہرائی تک جتی ہوئی زمین میں بوئے جانے والے بیجوں کو سخت دھوپ سکھادیتی
یا چڑیاں چن لیتیں۔ نئے پودوں کی کونپلیں دور دور اور چند ہی دکھائی
دیتیں۔ پھر خشک سالی بھی کھیت میں اپنے کرتوت دکھاتی۔ وہ اناج کے نازک
پودوں کو جلا دیتی اور مضبوط اور سخت جان گھاس پھوس باقی رہ جاتے۔
جب فصل کی کٹائی کا وقت آتا تو عورتوںکے پاس کام ہی نہ ہوتا۔ لمبی لمبی
گھاس میں مشکل ہی سے کوئی اناج کی بالی نظر آتی۔ استیپ کی گھاسیں پھر دشمن ی
اس فوج کے نشانوں کی طرح لہراتیں جس کو ہرا دیا گیا لیکن وہ پھر جیتنے کے
لئے آگئی ہو۔
اناج کی بجائے گھاس پھوس! کیا اسی کے لئے ساری مصیبت اورکمر توڑ کام کیا
گیا تھا؟
لیکن آدمی کیلئے جو گھاس پھوس ہے وہی مویشیوں کے لئے چارہ ہے۔ میدانوں میں
گایوں اور بھیڑوں کی زندگی اچھی تھی۔ ہر قدمپر ان کے لئے دستر خوان بچھا
تھا۔
سال بسال گلوں میں اضافہ ہورہا تھا جرگے کے آدمی اپنی پیٹیوں میں خنجر ڈالے
ان کے ساتھ ہوتے۔ گلہ بان کابہتریں دوست، اس کاکتا گلے کو منتشر نہ ہونے
دیتا اور اس کو یکجا رکھتا۔ گلے اور زیادہ تیزی سے بڑھتے گئے۔ان سے لوگوں
کو سال بہ سال زیادہ دودھ، گوشت اور اون ملنے لگا۔
اب گھر میں کافی اناج تو نہیں ہوتا تھا۔ لیکن بھیڑ کے دودھ سے بنے ہوئے
پنیر کی افراط تھی اور بھیڑ کا گوشت ہانڈیوں میں ابلتا رہتا تھا۔
استیپ میں مرد کا کام، گلہ بانی کا کام زیادہ اہم ہو گیا۔
جلد ہی شمالی جنگلوں میں بھی مرد نے جرگے کی سر براہی شروع کر دی۔
سویڈن میں ایک چٹان پر ہلوا ہے کی قدیم ڈرائنگ پائی گئی ہے۔ یہ ڈرائنگ ٹری
بھدی اور بری طرح بنائی گئی ہے اور یہ ہلواھا ان لوگوں کی تصویروں کی طرح
ہے جو بچے بناتے ہیں۔ لیکن ہم اس تصویر کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے کہ
وہ کیسے بنائی گئی ہے کیونکہ ہم اس کو گواہ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، ڈرائنگ
کی طرح نہیں۔ یہ گواہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ ہلواھا اس ہل کے پیچھے پیچھے چل
رہا ہے جس کو بیلوں کی جوڑی کھینچ رہی ہے۔
غالباً تاریخ انسانی میں یہ پہلا ہل تھا۔ یہ بہت کچھ کدال سے ملتا جلتا ہے۔
صرف فرق یہ ہے کہ اس میں بیل جتے ہیں، آدمی اس کو نہیں کھینچ رہے ہیں۔
اس طرح آدمی نے اپنا پہلا ”موٹر” دریافت کیا۔ ہل میں جتا ہوا بیل یقیناً
ایک زندہ موٹر ہے، ہمارے فولادی ٹریکٹر کا زندہ جدا مجد۔ جب آدمی نے بیل کی
گردن پر جوا رکھا تو اس نے اپنا بوجھ جانور کی طرف منتقل کر دیا۔ اس طرح
مویشی جو اس کو گوشت، دودھ اور چمڑا دیتے تھے اب اس کو قوت بھی دینے لگے۔
سست رفتا رلیکن طاقتور بیلوں نے چوبی جوے اپنی گردنوں پر رکھ کر پہلے چوبی
ہل کھینچنا شروع کئے یہ ہل کدالوں کے مقابلے میں زمین کو زیادہ گہرائی تک
کھودنے لگے۔ اب جوتی ہوئی زمین ایک سیاہ فیتے کی طرح ہل کے پیچھے پھیلنے
لگی۔
پہلا ہلواھا ہل کے دستے کو اپنی پوری طاقت سے دباتا تھا۔ اب بیل نے اس کا
بوجھ سنبھال لیا۔ وہ جوتتا، اناج گاھتا اور اس کو گھر پہنچاتا۔ خزاں میں
بیل کھلیان جا کر اپنے کھروں سے اناج گاہتے۔ پھر وہ ایک گاڑی میں جوتے جاتے
اور اناج سے لدے ہوئے بورے کھیت سے گھر پہنچاتے۔
مویشی پالن زراعت میں اضافہ کرتا۔ اب گلہ بان ہلواھا بھی ہو گیا اور اس طرح
اس کو گھر میں اور زیادہ اختیارات حاصل ہو گئے۔
یہ سچ ہے کہ عورتوں کے پاس کام کا کافی حصہ تھا۔ وہ کتائی بنائی کرتیں، فصل
کاٹتیں اور بچوں کی پرورش کرتیں۔
لیکن ان کے پہلے جیسے اختیارات نہیں رہتے تھے اور نہ وہ عزت تھی۔ اب مرد
چراگاہوں اورکھیتوں دونوں کا مالک تھا۔
اب گھروں میں عورتیں مردوں پر غصہ نہیں دکھاتی تھیں جیسے پہلے ہوتا تھا۔
اور اب مرد بھی اپنی صفائی دینے کی بجائے برابر سے جواب دینے لگے تھے۔ پہلے
ساسوں، خالائوں اور نانیوں کے لئے مرد کو گھر سے نکال باہر کرنا بہت آسان
تھا لیکن اب انہوں نے اس کی دکھ بھال شروع کر دی۔ کیونکہ یہ اجنبی جو دوسرے
جرگے کا ہوتا تھا اور ان کے خاندان میں شادی کرتا تھا سب کے لئے کام کرتا
تھا اور پورے جرگے کو کھانا فراہم کرنے میں مدد دیتا تھا۔ اب لوگ نہیں
چاہتے تھے کہ ان کے مرد دوسرے جرگوں میں جائیں۔
کسانوں کے کھیتوں اور گلوں تک پہنچ جاتے تھے تو وہ اکثر کسانوں کے اناج
پر قبضہ کر لیتے تھے۔ دریا کی کسی وادی کی طرف جاتے ہوئے یاجنگل کے کنارے
تک استیپ میں سفر کرتے ہوئے وہ راستے میں پڑنے والے گائوں کو لوٹ لیتے تھے ا
ور جلا کر راکھ کر دیتے تھے، فصلوں کو روند ڈالتے تھے، مویشی اپنے ساتھ لے
جاتے تھے اور گائوں والوں کو قیدی بنا لیتے تھے۔
ان کو قیدیوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی کیونکہ ان لوگوں سے کام لیا جا سکتا
تھا، یہ لوگ گلوں کی دیکھ بھال کر سکتے تھے۔
خزاں میں جب فصل اکٹھا کی جا چکتی تو وہ اپنے پڑوسیوں پر حملہ کر کے ان کے
اناج گودام، کپڑے، زیور اور ہتھیار لوٹنے میں باک نہ کرتے۔ یہاں بھی سب سے
زیادہ قیمتی لوٹ قیدی تھے کیونکہ کسانوں کو تالاب کھودنے، بند بنانے اور
بیلوں کو ہنکانے کے لئے مزید آدمیوں کی ضرورت تھی۔
ابتدا میں قیدیوں کو غلام نہیں بنایا جاتا تھا کیونکہ کسی آدمی سے کوئی خاص
فائدہ نہیں مقصود ہوتا تھا۔ حالانکہ آدمی کام کرتا تھالیکن وہ اپنی کمائی
کے مطابق کھاتا بھی تھا۔
جب گلے بڑے بڑے ہونے لگے، جب آدمی کے کام سے، اس کے استعمال سے زیادہ اناج،
گوشت اور اون پیدا ہونے لگا تو سب کچھ بدل گیا۔ اب کسان اپنی ضرورت سے
زیادہ اناج بونے لگے تاکہ وہ اناج کا تبادلہ اون سے کر سکیں۔ اسی طرح گلہ
بان اپنے کپڑوں کی ضرورت سے زیادہ بھیڑوں کے گلے پالنے لگے تاکہ فاضل اون
کے بدلے اناج اور ہتھیار حاصل کر سکیں۔
اس تبادلے اوراکثر لوٹ مار نے بعض جرگوں اور خاندانوں کو دوسروں سے زیادہ
امیر بنا دیا۔ ان کے گلے بڑے ہو گئے۔ اور وہ زیادہ اناج بونے لگے۔ لیکن ان
گلوں کو دیکھنے بھالنے کے لئے اور کاشت کاری کے لئے کافی کام کرنے والے
نہیں تھے۔ اب لوگوں نے دوسروں کو غلام بنانا شروع کیا۔ غلام کے کام سے مالک
اور خود اس کا پیٹ بھرتا تھا۔ بس مالک کو یہ دیکھنا ہوتا کہ غلام کام
زیادہ کرے۔اورکھائے کم۔ اس طرح سے ایک آدمی کے ہاتھ میں دوسرا آدمی زندہ
اوزار بن گیا۔
ایک انسان ذلیل کر دیا گیا، اس کی گردن پراس طرح جوا رکھ دیا گیا گویا وہ
کوئی بیل ہو۔
آزادی کی سڑک پر، قدرت کی طاقتوں کو قابو میںلانے کے دوران میں آدمی خود
اپنے ساتھی آدمی خود اپنے ساتھی آدمی کا غلام بن گیا۔
پہلے زمین تمام کاشتکاروں کی مشترکہ ملکیت ہوتی تھی۔ اب غلام نے اس زمین کی
کاشتکاری شروع کر دی جو اس کی اپنی نہیں تھی، جو بیل وہ ہنکاتا تھا وہ اس
کا اپنا بیل نہ تھا، جو فصل وہ کاٹتا تھا س کی اپنی نہ تھی۔
قدیم مسر میں غلام بیلوں کو ہنکاتے ہوئے گاتے ہے:
بیلو، کچل دو گیہوں کی بالیاں!
فصل تو ہے میرے مالک کی۔
اب انسانیت کی تاریخ میں پہلی بار مالکوں اور غلاموں کا ظہور ہوا۔
حافظ اور یاد گار
ماضی میں ہمارا سفر ذرا دشوارتھا کیونکہ ہم غاروں میں محض سیاح کی حیثیت سے
نہیں بلکہ کھوج کرنے والوں کی طرح گھومے پھرے۔ ہر نئی چیز جو ملی وہ
پراسرار تھی اور اس کے راز کو حل کرنا تھا۔ راستے میں نہ تو کوئی نشان تھے
اور نہ ہماری کھوج میں رہنمائی کرنے والے تیر بنے تھے۔ اور قدیم زمانے کا
آدمی جو پتھر کے زمانے میں رہتا تھا ہمارے لئے نشان ہی کیا چھوڑ سکتا تھا؟
وہ تو لکھنا بھی نہیں جانتا تھا!
بہر صورت ہم آخر کار اس سڑک تک پہنچ گئے جہاں نشان راہ ہیں۔ ہمیں پہلی
تحریریں مزاروں کی لوحوں اور عبادت گاہوں کی دیواروں پر ملتی ہیں۔ وہ اس
جادو کے نشانات نہیں ہیںجن کا مقصد بدروحوں سے بچائو تھا۔ یہ تصویروں کی
زبان میں پوری پوری کہانیاں ۔لوگوں کے بارے میں لوگوں کے لئے کہانیاں۔
پھر بھی وہ ہمارے حروف سے ذرا بھی نہیں ملتی تھیں۔ بیل کے لئے وہ بیل کی
تصویر بناتے تھے اور درخت کے لئے پورے درخت کی معہ شاخوں کے تصویر کشی کرتے
تھے۔
تحریر کی تاریخ تصویری الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ صدیاں گزرنے پر ان تصویروں
کوآسان بنا کر ان کو نشانوں میں تبدیل کیا گیا۔
اب ہمارے حروف تہجی میں ان تصویروں کے بارے میں قیاس کرنا مشکل ہے جن سے وہ
نکلے ہیں۔ کون یہ سوچ سکتا ہے کہ A کا حرف دراصل بیل کا سر ہے، لیکن اگر
ہم Aکو الٹ کر دیکھو تو وہ سینگ دار سر سے مشابہ نظر آئے گا۔ قدیم سامیوں
کی زبان میں سینگ دار سر حرفA کے مترداف تھا۔ یہ حرف لفظ الف میں پہلا تھا
اور اس لفظ کا مطلب تھا بیل۔
اسی طرح ہم سارے حرف تہجی کی تاریخ کاپتہ بتا سکتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ
حرفo آنکھ کے لئے تھا اور P ایک لمبی گردن والے سر کے لئے۔
لیکن ہم اپنے جادو کے جوتوں کے ذریعے بہت بہت دور نکل آئے ہیں۔
دراصل ہم اپنی کہانی میں یہاں تک پہنچے تھے کہ پہلے پہل تصویری الفاظ کب
ظہور میں آئے۔
آدمی نے بہت ہی جھجک کر سست رفتاری سے لکھنا شروع کیا۔ پھر بھی اس کے لئے
لکھنا سیکھنے کا وقت آگیا تھا۔
جب بہت زیادہ مفید معلومات اور واقعات نہیں تھے تو آدمی ہر بات کو اپنے
حافظے میں رکھتا تھا۔ داستانیں اور قصے وغیرہ ایک آدمی کے ذریعے دوسرے تک
پہنچتے تھے۔ ہر بڈھا آدمی ایک جیتی جاگتی کتاب ہوتا تھا۔ لوگ کہانیاںاور
عام سوجھ بوجھ کی باتیں یاد کر لیتے تھے اور انہیں اپنے بچوں کو ایک قیمتی
ترکے کی حیثیت سے سپرد کرتے تھے تاکہ ان کے بچے وقت آنے پر ان کو اپنے
بچوں کو طرف منتقل کر دیں۔ لیکن یہ ترکہ جتنا زیادہ ہوتا گیا اتنا ہی اس کو
یاد رکھنا بھی مشکل ہوتا گیا۔
اور پھر حافظے کی مدد یاد گارنے کی۔ تجربے کو منتقل کرنے میں بولنے والی
زبان کو تحریری زبان مدد دینے لگی۔ کسی سردار کی لوح مزار پر اس کی مہموں
اورلڑائیوںکے کارنامے کندہ ہوتے تھے تاکہ وہ آنے نسلوں کو یاد رہیں۔
جب دوسرے اتحادی قبیلوں کے سرداروں کو ایلچی بھیجے جاتے تھے تو ان کی یاد
داشت کے لئے متعدد تصویری الفاظ درخت کی چھال کے ٹکڑے یا مٹی کی تختی پر
نقش کر دئے جاتے تھے۔
لوح مزار پہلی کتاب تھی۔ بھوج کی چھال پہلا لکھنے والا کاغذ بنی۔
ہمیں اپنے ٹیلی فون، ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر پر فخر ہے جو سب ہم کو وقت اور
فاصلے کی مشکلات سے بچاتے ہیں۔ ہم نے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے تک آوازوں کو
بھیجنا سیکھ لیا ہے۔ ہماری آواز ٹیپ اور ریکارڈوں میں محفوظ ہوکر آج سے
صدیوں بعد تک سنی جا سکے گی۔ ہم نے زبردست ترقی کی ہے لیکن ہم کو اپنے سے
پہلے کیلوگوں کے کارنامے نہیں بھالنا چاہئے۔ ہمارے پیدا ہونے سے بہت پہلے
ہمارا اجداد نے بھوج کی چھال پر خط لکھ کر پہلے پہل فاصلے پر اور پتھر کی
یاد گاروں پر پیغامات لکھ کروقت پر فتح حاصل کی۔
ان میں سے بہت سی یاد گاریں باقی رہ گئی ہیں جو ہم کو ہزاروں سال پہلے کی
زبردست مہموں اور لڑائیوں کے بارے میں بتاتی ہیں۔ تلواریں اور نیزے تانے
ہوئے سپاہیوں کی تصویریں پتھروں پر نقش ملتی ہیں۔ یہ ہیں وہ فاتح جو جیت کر
گھر لوٹ رہے ہیں اور ان کے پیچھے سر جھکائے اور ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے
ہوئے ان کے قیدی گھسٹتے چلے آرہے ہیں۔ اور یہاں تصویری الفاظ میں ہمیں
ہتھکڑی کی ڈرائنگ ملتی ہے جو غلامی اور نابرابری کا نشان ہے۔ یہ نشان ہم کو
آدمی کی تاریخ میں ایک نئے باب کے آغاز کا پتہ دیتا ہے، غلامی کی ابتدا
کا۔
ہمیں بعد کو مصری عبادت گاہوں کی دیواروں پرا اس قسم کے بہت سے تصویری گواہ
ملیں گے۔
ایک میں غلاموں کی لمبی قطار اینٹوں کو کھینچ کر جائے تعمیر تک لا رہی ہے۔
ایک غلام نے کچھ اینٹیں اپنے کندھے پر لادلی ہیں اور دونوں ہاتھوں سے انبار
کو پکڑے ہے۔ دوسرا ایک بہنگی کے ذریعے اینٹیں لئے جا رہا ہے جیسے لوگ پانی
کے دو ڈول لے کر چلتے ہیں۔ معمار ایک دیوار بنا رہے ہیں۔ ایک نگراں اینٹوں
کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔ وہ اپنی کہنیاں گھٹنوں پر ٹیکے ہے اور اس کے ہاتھ
میں لمبا سا ڈنڈا ہے۔ اس کو کام نہیں کرنا پڑتا۔ اس کا کام دوسروں سے کام
لینا ہے۔ ایک اور نگراں جائے تعمیر پر ادھر ادھر ٹہل رہا ہے۔ اس نے ایک
غلام کے سر پر بڑے زور سے ڈندا تانا۔ شاید غلام نے کوئی بات اس کی مرضی کے
خلاف کی ہو گی۔
غلام اور آزاد آدمی
کہیں ہوا ہے پیدا آنڈی سے گلاب
ممکن نہیں کہ کچھ بچہ غلام ہو مرد آزاد
یہ یونانی شاعر تھیوگنیس نے اس وقت لکھا تھا جب سماج میں غلامی کا رواج
پوری طرح پختہ ہو چکا تھا۔
بہرحال شروع میں غلاموں کو حقیر نہیںسمجھا جاتا تھا۔ آزاد اور غلام آدمی
دونوں ساتھ مل کر کام کرتے تھے او رایک خاندان یا برادری کی طرح ہوتے تھے۔
باپ یعنی سر قبیلہ اس خاندانی برادری کا سربراہ اور حکمراں ہوتا تھا۔ اس کے
بیٹے، ان کی بیویاں اور بچے اور اس کے غلام سب اسی کے گھر میں رہتے تھے
اور اس کے قطعی ماتحت ہوتے تھے۔ باپ اپنے نا فرما نبردار بیٹے کو بھی اسی
طرح مارپیٹ سکتا تھا جیسے اپنے نافرمانبردار غلام کو۔
کوئی بڈھا غلام اپنے مالک سے بات کرتے وقت صرف اس کو ”بیٹا”کہتا تھاجب کہ
رواج کے مطابق مالک بڈھے غلام کو ”باپ” کہہ کر پکارتا تھا۔
اگر تم نے مشہور یونانی نظم ”اوڈیسی” پڑھی ہے تو تمہیں غالباً بڈھا ایومیئس
یاد ہو گا جو سور چرانے والا ہے اور اپنے مالک کی میز پر کھاتا پیتا ہے۔
اور ایومیئس بھی قبیلے کے سردار کی طرح ”خدا کے برابر” کہا جاتا ہے۔
لیکن گیتوں کے الفاظ پر ہمیشہ یقین نہیں کیا جا سکتا ۔ سور چرانے والا
ایومیئس نہ تو خدا کے برابر تھا اور نہ اپنے مالک کے برابر۔ وہ کام کرنے پر
مجبور تھا اور اس کے مالک کے لئے کام اپنی مرضی پر تھا۔ خاندان کے فرد کے
مقابلے میں غلام سے زیادہ کام لیا جاتا تھا لیکن غلام کو حصہ بہت کم ملتا
تھا۔غلام کسی کی ملکیت ہوتا تھا اور آزاد آدمی غلام کا مالک تھا۔
جب مالک مر جاتا تو اس کے غلام اور تمام دوسری ملکیت، اس کے سامان کے گودام
اور اس کے مویشیوں کے گلے سب اس کے بیٹوں کی ملکیت ہو جاتے تھے۔
اس خاندانی برداری میں پہلے والی مساوات کا کہیں نشان تک نہ تھا۔
یہاں باپ بچوں پر حکومت کرتا تھا، شوہر بیوی پر حکم چلا تا تھااور ساسیں
بہوئوں پر،اور بڑی بہویں چھوٹی بہوئوں پر۔ لیکن غلام تو سب سے نیچے طبقے
میں تھا۔ اس پر سبھی حکم چلاتے تھے۔
جرگوں اور برادریوں میں جو مساوات پہلے تھی وہ بھی اب غائب ہو گئی۔ کچھ کے
پاس زیادہ مویشی تھے اور کچھ کے پاس کم۔ اور مویشی ہی دولت کا پیمانہ تھا۔
بیل کے بدلے میں کپڑے اور ہتھیار لئے جا سکتے تھے۔ اسی وجہ سے پہلے کانسے
کے سکے بیل کے پھیلے چمڑے کی شکل میں ڈھالے گئے۔
پھر بھی غلام بیل سے زیادہ قیمتی تھا۔
غلام سوروں، گایوں اور بھیڑوں کی نگرانی کرتا تھا۔ دن بھر ان کے ساتھ
چراگاہ میں رہنے کے بعد شام کو ان کو باڑوں میں لاتا تھا۔ غلام فصل جمع
کرنے میں مدد دیتا تھا، انگوروں سے رس نچوڑتا تھا اور زیتون سے تیل۔ سنہرے
اناج کے ڈھیرگوداموں کو بھر دیتے تھے۔ خوشبودار تیل مٹی کے بڑے بڑے ظروف
میں ٹپک ٹپک کر آتا تھا جو امفوری کہلاتے تھے۔
غلام آزاد آدمی کی مدد کرتا تھا لیکن اس کو سب سے سخت اور سب سے گندا کام
کرنا پڑتا تھا۔
اب لڑائیاں نفع بخش ہو گئیں کیونکہ ان سے غلام ملتے تھے اور غلام مالکوں کے
لئے بڑی دولت پیدا کرتے تھے۔
اس طرح آزاد آدمی لڑنے چلے جاتے اور غلاموں کو اپنے گلے دیکھنے اور زمین کی
کاشت کرنے کے لئے چھوڑ جاتے۔
جنگوں کی وجہ سے کام اور بڑھ گیا۔ دوسرے قبیلے پر حملے کے لئے لوگوں کو
زیادہ تلواروں، برچھوں اور رتھوں کی ضرورت تھی۔ سپاہی اپنے رتھوں میں صبا
رفتار گھوڑے جوتتے اور میدان جنگ کے لئے روانہ ہو جاتے۔
لیکن جنگی چالوں میں حملہ بھی ہے اور بچائو بھی دشمن کی تلواروں اور نیزوں
کی ضرب سے بچنے کے لئے سپاہی خود پہننے لگے اور ڈھالیں باندھنے لگے۔ آخر
کار، برادری کے مکانات کی حفاظت بڑے برے پتھروں کی دیواروں سے کی جانے لگی۔
جرگہ جتنا ہی زیادہ دولت مند ہوتا اتنا ہی زیادہ وقت اور کوشش اپنی دفاع
میں لگاتا۔ اب اس کو بہت کچھ بچانا تھا۔
جلد ہی پہاڑیوں پر بڑے بڑے قلعے نظر آنے لگے جن میں درجنوں کمرے اور گودام
ہوتے تھے اور فصیلوں پر برج بنائے جاتے تھے۔ داخلے کے لئے بھاری پھاٹک ہوتے
تھے۔
خیمہ گھر کیسے بنا اور گھر شہر کیسے بن گیا۔
ایک سوویت مورخ تولستوف نے اپنی کتاب ”قدیم خوارزم” میں ان قلعوں کھنڈرات
کا حال لکھا ہے جو اس نے وسط ایشیا کے ریگستان میں پائے۔
یہ عمارتیں اپنی وسعت میں گھر نہیں بلکہ ایک شہر کی طرح تھیں۔
مضبوط مٹی کی دیواریں ایک بہت بڑے قطعہ زمین کو گھیرتی تھیں اور کئی میل تک
پھیلی ہوتی تھیں۔ دیواروں کے اندر محراب دار حجروں میں برادری کے ممبر
رہتے تھے، جن کی چھتوں میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہوتی تھیں۔
یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ ہزاروں آدمی دیواروں کے اندر تنگ اور نیم
تاریک حجروں میں رہتے تھے، جن کی چھتوںمیں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہوتی تھیں۔
یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ ہزاروں آدمی دیواروں کے اندر تنگ اور نیم
تاریک حجروں میں رہتے تھے جب کہ بیچ کا بڑا صحن خالی رہتا تھا۔
تولستوف کاجواب بہت سید تھا سادہ تھا۔ اس زمانے میں خوارزم کے لوگوں کی بڑی
دولت ان کے مویشی تھے۔ یہ بڑا صحن دراصل بڑے گلوں کا باڑہ ہوتا تھا۔ اور
دیواریں جن میں سوراخ اور نگرانی کے لئے مینار ہوتے تھے۔ اس دولت کو دشمن
کے حملوں سے بچاتی تھیں۔
جب دشمن حملہ کرتا تھا تو قلعے کے سارے باشندے سوراخوں پر جمع ہو کر حملہ
آوروں پر تیروں کی بارش کرتے تھے۔
لیکن جس دولت کا بچائو وہ سب مل کر کرتے تھے اب مشترکہ ملکیت نہیں رہی تھی۔
حالانکہ سب لوگ ایک دوسرے کے رشتے دار تھے پھر بھی کچھ خاندانوں کے پاس
بھیڑ، بیل اور گھوڑے وغیرہ دوسروں سے زیادہ تھے۔
پرانی داستانیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ان دور دراز زمانوں میں لفظ ”دولت مند”
موجود تھا۔ لوگ صرف یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ شخص ”دولت مند”ہے۔ وہ یوں کہتے
تھے کہ وہ ”گلوں سے دولت مند” ہے یا ”گھوڑوں سے دولت مند” ہے۔
پڑوسی قلعے پر ہر حملہ جنگی سرداروں کے گلوں میں اضافہ کرتا تھااور امیر
وغریب کا فرق بھی بڑھاتا تھا۔
تولستوف اور ان کے ساتھیوں نے دوسرے قلعے بھی ڈھونڈ نکالے (گھر اور شہر
دونوں) جو بعد میں بنائے گئے تھے۔
ریگستان میں ان کی کھدائی بہت برسوں تک ہوتی رہی۔ یہ بہت ہی مشکل اور سنگین
ذمے داری تھی۔ زمانوں کی بھولی بسری تہذیب کی نشانیوں کی تلاش میں سوویت
سائنس دان اونٹوں، موٹروں اور موٹر کشتیوں اور ہوائی جہازوں پر سرگرداں
رہے۔ کبھی کبھی اونٹ کے کوہان یا ٹیلے پر بیٹھ کر ان کو صرف پرانے ٹیکرے
نظر آتے جن پر کھاری مٹی کی بھوری پرت جمی ہوتی۔لیکن ریگستان میں ہوائی
جہاز سے اڑتے ہوئے وہ دیواروں، سڑکوں اور بڑے بڑے برادری کے گھروں کے خط
وخال دیکھ لیتے تھے۔
ان تمام گھروں اور شہروں کا مقابلہ کر کے انہوں نے آخر کار اس ارتقا کی
کہانی تیار کر لی جو ابتدائی برادرانہ نظام سے غلام کی ملکیت والے نظام تک
ہوا تھا۔
جان باس کالا کے قریب مچھیروں کا خیمہ نما گھر تھا۔ وہاں ابھی تک امیر تھے
نہ غریب۔تمام چولھے ایک ناپ کے تھے، سب آدمی برابر تھے کیونکہ وہ سب مساوی
طورپر غریب ہوتے تھے۔ گھر قلعہ بندنہیں تھا کیونکہ کوئی دولت نہ تھی جس کی
حفاظت کی جائے۔
اس پڑائو سے قریب ہی سائنس دانوں نے مٹی کے ایک ”لمبے گھر” کے کھنڈرات
پائے۔ چولھوں کی صف طویل خط 50 میٹر والے دو برآمدوں میں چلی گئی تھی۔
یہ گھر بھی قلعہ بند نہ تھا۔
لیکن صدیاں گزر گئیں۔ ”لمبے گھر” ایک دوسرے سے منسلک کر دئے گئے تاکہ وسیع
خالی صحن کے گرد ایسی دیوار بن جائے جس کے اندر آبادی ہو۔
ایسا ہی محصور گھر کوئزیلی گور میں ہے۔ یہاں ہم کو دیواروں میں سوراخ اور
نگرانی کے لئے مینار ملتے ہیں۔ لوگ اپنے گلوں کو دشمن کے حملوں سے بچاتے
تھے لیکن اپنے پڑوسیوں پرحملہ کرنے اور ان کا سامان لوٹنے میں بھی باک
نہیںکرتے تھے۔یہاں کچھ خاندان دوسروں سے زیادہ امیر تھے حالانکہ اس کا کوئی
صاف ثبوت نہیں ملتا۔ ماہرین آثار قدیمہ دوسرے ملکوں اور دنیا کے دوسرے
حصوں میں رہنے والے لوگوں کے رواجوں کا مطالعہ کر کے صرف یہی اخذ کر سکے
ہیںکہ ایسی نابرابری تھی۔
دوسری منزل جان باس کالا کا قلعہ ہے۔ دیواروں سے محصور صحن خالی نہیںہے
کیونکہ خالی جگہ میں برادری کے دو بہت بڑے، متعدد کمروں والے مکان ہیں۔
دونوں مکانوں کے بیچ میں سڑک ہے جو ”آتش خانے” تک جاتی ہے۔ قدیم زمانے کے
مچھیروں کے خیمے کا قدیم چولھا جس میں ہمیشہ آگ جلتی تھی اب عبادت گاہ بن
گیا ہے۔
اب قلعے میں ایک جرگہ نہیں رہتا۔ یہاں جرگوں کے دو جتھے رہتے ہیں جن کے الگ
الگ گھر ہیں۔ یہاں باڑ نہیں ہے کیونکہ باشندوں کا خاص پیشہ مویشی پالن
نہیں بلکہ زراعت ہے۔ قلعے کی دیواروں کے باہر کھیت ہیںجن کے درمیان جابجا
آب پاشی کے لئے نہریں ہیں۔ یہ قلعہ خانہ بدوشوں سے ان کھیتوں اور نہروں کو
بچاتا ہے۔
ابھی ایک اور بعد کی منزل توپ راک کا لا ہے۔ یہاں قلعے کی فصیل کے اندر
تقریباً درجن بھر بہت سے کمروں والے مکانات ہیں۔
ابھی ایک اور بعد کی منزل توپ راک کالا ہے۔ یہاں قلعے کی فصیل کے اندر
تقریباً درجن بھر بہت سے کمروں والے مکانات ہیں۔
چاروں طرف سے مضبوط میناروںوالی دیواریں شہر کو گھیرے ہیں۔ کوئی آنے والا
فوراً شہر میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس کو ایک بھول بھیلیاں سے گزرنا ہوتا ہے
جو داخلوں کی حفاظت کرتی ہے۔ خاص سڑک جو داخلے کے پھاٹکوں سے شروع ہوتی ہے
شہر کے بیچوں بیچ سے ایک سرے سے دوسرے تک گزرتی چلی جاتی ہے۔ اس کے دونوں
طرف برادری کے بڑے بڑے مکانات ہیں جن میں سکیڑوں کمرے، چھوٹے برج اور صحن
ہیں۔خاص سڑک ”آتش خانے” کو اور شہر کے حکمراں کے تین برجوں والے شاندار محل
تک جاتی ہے۔
اب اس کے کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں جو جگہ جگہ مٹی اور ریت میں دفن ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ کو شہر کا نقشہ ازسر نو بحال کرنے کے لئے کافی عرصے تک
سخت محنت کرنی پڑی۔
دریافتوں کے متواتر سلسلے نے ان کی محنتوں کو بار آور کیا۔ سب سے زیاد ہ
دلچسپ چیزیں تین برجوں والے محل میں پائی گئیں۔ جہاں شاندار کمروں کی
دیواروں پر ماہر کاریگروں کے شکار نظر آتے ہیں۔ یہاں، اس ویران ریگستان میں
محل کی دیواروں پر ماضی کے مناظر باکل جیتے جاگتے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک
لڑکی بربط بجا رہی ہے، ایک انگور چننے والا اپنی ٹوکری سے پر اٹھائے ہے،
ایک آدمی سیاہ کوٹ پہنے ہے۔ ان کے علاوہ گھوڑے اور جنگلی مرغیاں ہیں۔ ماہر
مجسمہ سازوں کے بنائے ہوئے مجسموں کے ٹکڑے بھی دستیاب ہوئے ہیں۔
محل کی ہر چیز اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس کے مالک شہر کے دوسرے
باشندوں سے زیادہ امیر اور ممتاز تھے ۔
اور محل خود دوسرے گھروں سے سر بلند اور بارعب بن کر اس کا ثبوت دیتا تھا
کہ اس کے باسی باقی لوگوں سے کہیں زیادہ اچھی حالت میں ہیں۔
اس محل میں اپنے خاندان اور اپنے متعدد غلاموں کے ساتھ خوارزم شاہ رہتا تھا
جو شہر اور سارے ملک کا حکمراں تھا۔
یہ شہر بجائے خود ایک ریاست تھا۔ حکمراں کے پاس ایک فوج تھی جو اس کو
غلاموں اور غریبوں کو فرماں بردار رکھنے، امیر اور شریف خاندانوں کے حقوق
کی حفاظت کرنے اور آبیاشی کے لئے نہروں کی نگرانی میں مدد دیتی تھی۔ آبیاشی
کی کسی بڑی نہر کی تعمیر کے لئے غلاموں کی بڑی تعداد درکار ہوتی تھی۔ اور
صرف ایک قلعہ نہیں بلکہ بہت سے قلعے اور باقاعدہ فوج کھیتوں، نہروں اور
خوارزم کے غیر قلعہ بندکسانوں کے گھروں کی حفاظت کرتے تھے۔
اس طرح ہزاروں برسوں کے دوران میں سفر کر کے سائنس داں خود اپنی آنکھوں سے
دیکھ سکے کہ کس طرح خیمہ گھر میں تبدیل ہوا اور گھر شہر میں اور کیسے مساوی
لوگوں کی برادری غلام دار ریاست بن گئی۔
ماہرین آثار قدیمہ نے اس قسم کے رہائشی قلعے وسط ایشیا کے علاوہ دوسری
جگہوں پر بھی پائے جہاں لوگوں کو اپنی دولت دشمن کے حملوں سے بچانا ہوتی
تھی۔
قلعہ کا محاصرہ
قلعہ کی فصیل پر سے تم کو دور دور دکھائی دیتا۔ جب کوئی گرد کا بادل فاصلے
پر دکھائی دیتا اور دھوپ میں نیزوں کی نوکیں چمکتیں تو قلعہ میں جلدی جلدی
دفاع کی تیاری ہونے لگتی تھی۔ کسان اپنے بیل لے کر قلعہ کے اندر بھاگتے تھے
اور گلہ بان اپنے گلے قلعی میں لے آتے تھے۔ جب سب قلعہ کے ا ندر بھاگتے
تھے اور گلہ بان اپنے گلے قلعہ میں لے آتے تھے۔ جب سب قلعہ میں آجاتے
تھے۔تو بھاری پھاٹک مضبوط سے بند کر لئے لے جاتے تھے۔ سپاہی دیواروں اور
برجوں پر تعینات کر دئے جاتے تھے۔ وہ دشمن کے قریب آنے کا انتظار کرتے تھے
اور پھر صبار فتار اور تیز تیروں سے اس کا خیر مقدم کرتے تھے۔
حملہ آور قلعہ کے قریب آکر پڑائو ڈال دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ قلعہ کے
لوگ آسانی سے ہا ر نہیں مانیں گے۔ بلند دیواروں کے گرنے میں کئی مہینوں
لگیں گے۔ ہر صبح کو قلعہ کے پھاٹکے چر چراتے ہوئے کھلتے۔ سپاہیوں کا مجمع
اپنے نیزے بلند کر کے جھپٹتا۔ وہ کھلے میدان میں لڑائی کا تصفیہ کرنے آتے۔
وہ دشمن کے گھوڑے کی دموں کے بالوں سے سجے ہوئے اور چمچماتے خودوں پر
تلواروں سے غصے کے ساتھ وار کرتے۔ وہ جان توڑ کر لڑتے، نہ خود دم لیتے اور
نہ دشمن کو دم لینے دیتے۔
ایک کو اپنے گھر اور خاندان بچانے کا جوش ہوتا تو دوسرا اس غصے سے آگ بگولا
ہوتا کہ دولتیں اتنے قریب ہونے کے باوجود اس کے دست رس سے دور ہیں۔ دفاع
کرنے والے جو زندہ بچ جاتے رات میں قلعہ کو واپس جاتے اور صبح تک کے لئے
لڑائی ملتوی ہو جاتی۔
اس طرح دن گزرتے جاتے۔ محصور لوگ حملہ آوروں سے بہادری کے ساتھ لڑتے لیکن
بھوک کی مار دشمنوں کے نیزوں اور تیروں کی مار سے کہیں مہلک ہوتی ہے۔
جب گوداموں میںجو کبھی اناج سے بھرے تھے خاک اڑنے لگتی ، جب مٹی کے مٹکوں
کا تیل آخری قطرے تک ختم ہو جاتا تو قلعہ میں ماتم برپا ہو جاتا۔بھوکے بچے
روتے اور عورتیں خاموشی سے اپنے آنسو پونچھتیں کہ کہیں مردوں کو ان کے اوپر
غصہ نہ آجائے۔
ہر لڑائی کے بعد قلعہ میں دفاع کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جاتی اور آخر کار
وہ دن آجاتا جب پیچھے ہٹتے ہوئے سپاہیوں کا پیچھا کر کے حملہ آور قلعہ میں
داخل ہو جاتے۔ وہ مضبوط دیواروں کے اندر اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ جہاں پہلے
لوگ رہتے تھے،کام کرتے تھے اور خوشیاں مناتے تھے وہاں کھنڈروں اور انسانی
لاشوں کے ڈھیروں کے سوا کچھ نہ رہ جاتا۔ فاتح زندہ لوگوں کو، خواہ وہ جوان
ہوں یا بڈھے، غلام بنا کر لے جاتے۔
میرا اور تیرا
پہلے پہل تو ہر کاریگر صرف برادری، اپنے گائوں کے لئے کام کرتا تھا۔
لیکن رفتہ رفتہ اسلحہ گروں اور کمھاروں نے اپنی چیزوں کا تبادلہ اناج، کپڑے
اور دوسرے کاریگروں کے بنائے ہوئے سامان سے زیادہ کرنا شروع کر دیا۔
اب قدیم قبائلی نظام میں دراڑیں پڑنے لگیں جیسے کان میں گرم کئے ہوئے پتھر
میں ٹھنڈے پانی سے دراڑیں پڑ جاتی تھیں۔
ابتدا میں گائوں کے تمام لوگ برابر ہوتے تھے۔ اب ایک دراڑ نے امیر خاندانوں
کو غریب خاندانوں سے الگ کر دیا اور دوسری نے کاریگروں کو کسانوں سے۔
جب تک کاریگر برادری کے لئے کام کرتے تھے برادری ان کو کھانا دیتی تھی۔ لوگ
ساتھ مل کر کام کرتے اور ان تمام چیزوں میں جو وہ بناتے یا زمین سے پیدا
کرتے تھے حصے دار ہوتے تھے۔
لیکن جب کاریگروں نے ا پنے برتنوں اورتلواروں کی تجارت دوسرے گائوں سے شروع
کر دی تو انہوں نے اس اناج او رکپڑے میں اپنے رشتے داروں کو حصے دار نہیں
بنایا جو ان کو معاوضے میں ملا۔
بہر حال یہ اناج اورکپڑے خود انہوں نے اور ان کے بیٹوں نے کمائے تھے اور
کسی نے ان کی مدد نہیں کی تھی۔
اس طرح آدمی نے ”میرے” اور ”تیرے” کے درمیان تفریق شروع کی تاکہ وہ اپنے
خاندان کو رشتے داروں کے خاندان سے الگ کر سکے۔
لوگ چھوٹے خاندانی جتھوں میں رہنے لگے۔
قدیم یونان کے میکینئی اور تیرینسی نام شہروں میں ماہرین آثار قدیمہ نے
ایسی بستیوں کے کھنڈرات پائے ہیں جو اس تفریق کی طرح اشارہ کرتے ہیں۔
سب سے دولت مند اور طاقتور خاندان پہاڑی کی چوٹی پر مضبوط دیواروں کے اندر
رہتا تھا۔ اور اس خاندان کے پاس پتھر کی دیواروں کے پیچھے چھپانے کے لئے
بہت کچھ ہوتا تھا۔ قبیلے کا جنگی سردار یہاں اپنے بیٹوں، بہوئوں اور پوتوں
کے ساتھ رہتا تھا۔ نیچے میدان میں غریب کسان اپنی جھونپڑیوں میں گڈمڈ بستے
تھے۔ اور قریب کی پہاڑیوں پر کاریگروں یعنی اسلحہ سازوں، کمھاروں اور
ٹھٹھیروں کے گھر پھیلے ہوتے تھے۔
اس بستی میں لوگ اب ایک دوسرے سے برابر والے کی حیثیت سے نہیں بات کرتے
تھے۔ جب امیر اور طاقتور سردار کسانوں کے پاس سے نکلتا تو وہ اس کی تعظیم
بجا لاتے کیونکہ ان کا عقیدہ تھاکہ خدا زبرداست کا سر پرست ہوتا ہے۔
مذہبی پیشوائوں نے ان کو یہی سکھایا تھا۔ اس قسم کے خیالات بچپن ہی سے ان
کے دل میں بٹھائے جاتے تھے۔
کسان، کاریگر یا کان کن کو اپنے برابر کا یا اپنا بھائی نہیں سمجھتا تھا۔
کیایہ کریہہ منظر آدمی جو تہہ زمین سے تانبا نکالتا ہے جہاں سے شعلے اور
بھاپ نکلتی ہے جادو گر نہیں ہے؟ وہ کیسے جانتا ہے کہ اس کے پیروں تلے کیا
ہو رہا ہے؟ اور کان کن کو کچ دھات کیسے ملتی ہے؟ کوئی اس کو بتاتا ہو گا کہ
دھات کہاں ہے، کوئی اس کی مدد کرتا ہے اور کسی معجزے کے ذریعے اس کو تانبے
یاکانسے میں بدل دیتا ہے۔ وہاں، تہہ زمین کان کن کے پراسرار سر پرست ہیں
جن سے معمولی آدمی کا الگ رہنا ہی بہتر ہے۔
یہ خیالات صرف یونان ہی کے لوگوں کے ذہن میں نہیں تھے۔ قدیم زمانے کے آدمی
ہر جگہ اسی طرح کے خیالات رکھتے تھے۔
تانبا تیار کرنے والے جادو گروں کے قصے ہم تک قدیم زمانے سے آئے ہیں۔
ہماری زبان میں اب بھی ایسے الفاظ ہیں جو بتاتے ہیں کہ دولت اور غربت کوکیا
سمجھا جاتا تھا۔ قدیم لوگ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ برادریاں کس طرح امیر اور
غریب خاندانوں میں تقسیم ہو گئی تھیں۔وہ خیال کرتے تھے۔ کہ دیوتا پہلے ہی
سے آدمی کی قسمت کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔
روسی زبان میں ”بوگاتی” کے معنی ہیں دولت مند۔ یہ لفظ ”بوگ” سے نکلا ہے جس
کے معنی ہیں دیوتایا خدا۔ یہ لفظ اس وقت روسی زبان میں داخل ہوا تھا جب لوگ
یہ یقین کرتے تھے کہ دیوتا امیروں کی مدد کرتے ہیں اور غریبوں کے لئے صرف
مصیبتیں نازل کرتے ہیں۔
ایک نئے نظام کی ابتدا
آئو پھر اس راستے کی طرف مڑکر دیکھیں جو آدمی نے طے کیا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب امیر اور غریب، غلام اور مالک نہیں ہوتے تھے۔ قدیم زمانے
کے شکاری جو اپنی کھوہوں میں گڈمڈ رہتے تھے مساوی طور پر غریب ہوتے تھے۔
پتھر اور ہڈیوں کے بنے ہوئے ان کے اوزار بہت ہی بھدے تھے۔ ان کو صرف یہی
بات جنگلی جانوروں، بھکمری اور سردی سے بچاتی تھی کہ وہ ایک ساتھ رہتے تھے،
ایک ساتھ شکار کھیلتے تھے، اپنی طاقتوں کو متحد کر کے خطرے سے دفاع کرتے
تھے ا ور مشترکہ رہائش گاہیں بناتے تھے۔
میموتھ کی تو بات ہی جانے دو اکیلا آدمی کسی ریچھ کو بھی نہیں مار سکتا
تھا۔ اکیلا آدمی اپنے چولھے کے لئے کوئی پتھر گھر تک گھسیٹ کر نہیں لا سکتا
تھا یا کسی اوپر نکلی ہوئی چٹان میں پتھروں کی سلوں کا اضافہ کر کے دیوار
نہیں بنا سکتا تھا۔
اس وقت لوگوں میں ہر چیز مشترک تھی۔ جب شکار کامیاب رہتا تھا تو بزرگ لوگ
گوشت کاٹ کر ان لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے جنہوں نے جانور کا پتہ لگانے
اور شکار کرنے میں حصہ لیا تھا۔
لیکن ہزاروں سال گزر گئے۔قدیم زمانے کے خیموں اور کھوہوں کی جگہ مکانوں نے
لے لی اور پتھروں اور ہڈیوں کے اوزاروں کی جگہ دھات کے اوزار آگئے۔
لوگوں نے پہلے کدالوں سے زمین گوڑنی شروع کی پھر لکڑی کے ہلوں سے۔ انہوں نے
گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں پال لیں۔ لوہار خانوں میں نہائیوں پرہتھوڑوں کی
چوٹیں گونجنے لگیں۔ کمھاروں کے چاک ناچنے لگے۔محنت کی تقسیم شروع ہو گئی۔
اگر لوہار کسی کلہاڑی یادرانتی کے بدلے میں آسانی سے اناج حاصل کر سکتا
تھاتو اس کو کاشتکاری کی ضرورت نہ تھی۔ کسان کو ریوڑوں کی دیکھ بھال کی فکر
نہ تھی کیونکہ وہ اپنی ضرورت بھر کا اون، اناج کے بدلے حاصل کر سکتا تھا۔
کشتیاں اور بادبانی جہاز ایک گائوں سے دوسرے جانے لگے۔ وہ اناج اور اور
اون، کلہاڑیوں اور مٹی کے برتنوں سے لدے ہوتے تھے۔ باہر سے آنے والے اکثر
ڈاکو بن جاتے تھے کیونکہ لوٹ مار اور سامان کے تبادلے کا چولی دامن کا ساتھ
تھا۔
پہلے کوئی بھی اپنے رشتے داروں سے زیادہ امیر نہیں ہو سکتا تھا۔ سب مساوی
طو رپر غریب تھے۔
اور اب امیروں اور بااختیار خاندانوں کے گھروں کو محصور کرنے والی پتھر کی
بلند دیواریں غریبوں کی جھونپڑیوں کے اوپر پہاڑیوں پر نظر آنے لگیں۔ وہاں
گودام سامان سے بھرے پڑے تھے اور سال بسال خزانوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
برادری میں امیروں نے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے اور ان لوگوں کو ماتحت
بنا لیا جو غریب تھے۔ غریب آدمی کو اب اپنے امیر پڑوسی سے بار بار مدد کی
التجا کرنی پڑتی تھی اور یہ مدد بہت گراں پڑتی تھی کیونکہ غریب آدمی کو اس
اناج کے لئے جو اس نے کسی کٹھن جاڑے کے موسم میں قرض لیا تھا امیر آدمی کو
برسوں تک ادائیگی کرنی پڑتی تھی۔
اس طرح لوگوں نے دوسروں کو غلام بنانا شروع کیا۔
لیکن غلامی کا ارتقا صرف اسی طرح نہیں ہوا۔ لوگوں کو جنگوں میں قید کر کے
غلام بنایا جاتا تھا۔
کسی زمانے میں سبھی کام کرتے تھے لیکن وہ زمانہ آیاجب کچھ لوگوں نے کام
کرنا بالکل بندکر دیا اور دوسروں سے کوڑے مار مار کر کام لینے لگے۔
کسی زمانے میں ہر چیز مشترکہ ملکیت تھی، شکار کے ہتھیار اور شکار دونوں، اب
غلاموں کا مالک ہی بڑی بڑی اراضیوں، گلوں اور ورکشاپوں کا پورا مالک ہوتا
تھا۔ غلام اس کے کھیتوں کو جوتتے بوتے تھے، اس کے گلوں کی دیکھ بھال کرتے
تھے اور اس کے شاپوں میں کام کرتے تھے۔
کسی زمانے میں ایک برادری کے لوگ آپس میں جنگ نہیں کرتے تھے۔ وہ امن سے
رہتے تھے۔ روسی زبان میں ”میر” کے لفظ کے معنی ”امن” اور ”برادری” دونوں
ہیں۔
لیکن غلامی کے ظہور کے ساتھ ہر گائوں اور شہر میں جنگ شروع ہو گئی۔
غلاموں کے مالک اپنے غلاموںسے توہین وحقارت کے ساتھ پیش آتے تھے اور غلام
اپنے مالکوں سے نفرت کرتے تھے۔
غلام بھاگنے کے خواب دیکھا کرتے تھے اور مالک اپنی جائیداد کو، اپنے جیتے
جاگتے، بولتے اوزار کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے لئے تلا رہتا تھا۔ غلام
دار ریاست مسلح طاقت کے ذریعے آزاد لوگوں کی ملکیت کی حفاظت کرتی تھی۔ اور
اگر غلام اپنے مالکوں کے خلاف بغاوت کرنے کی کوشش کرتے تو ان کو فرماں
برداری پر مجبور کیا جاتا اور ظالمانہ سزائیں دی جاتیں۔
اس طرح ابتدائی برادری کے نظام کی جگہ ایک نئے نظام نے، غلام دار نظام نے
لے لی۔
سائنس کی ابتدا
ایک زمانہ تھا جب ساری دنیا انسان کے لئے راز تھی۔ہر چیز حیرت انگیز اور
عجوبہ تھی۔
آدمی کا ہر قدم، اس کے بازو کی ہر حرکت ایسی ان دیکھی طاقتوں کو متحرک کرتی
جو یا تو اس کو لے ڈوبتیں یا اس کو کچھ عطا کرتیں۔
بنی نوع انسان اس وقت اتنا کم تجربہ رکھتی تھی اور اتنی لاچار تھی کہ لوگوں
کو یہ تک یقین نہیں تھا کہ رات کے بعد دن ہو گا اور جاڑے کے بعد بہار آئے
گی۔
قدیم زمانے کے لوگ اس لئے مذہبی عبادتیں کرتے تھے کہ سورج آسمان سے بلند
ہو۔ مصر میں فرعون جو زمین پر سورج کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ ہر روز
عبادت گاہ کے گرد ایک چکر لگاتا تھا کہ سورج بھی اپنا روزانہ کا چکر پورا
کرے۔
خزاں میں مصری ”عصائے آفتاب” کا جشن مناتے تھے۔ ان کے خیال میں خزاں کے
کمزور سورج کو اپنے سفر میں کسی عصا کے سہارے کی ضرورت ہے۔
لیکن آدمی کام کرتا رہا، دنیا اور چیزوں کی صفات کے بارے میں روز افزوں
معلومات حاصل کرتا رہا۔
قدیم زمانے کے کاریگر نے چقماق پتھر کو چمکایا اور دھار دار بنایا۔ اس طرح
اس نے پتھر کی صفات کے متعلق براہ راست معلوم حاصل کیں۔ وہ جانتا تھا کہ
پتھر سخت ہوتا ہے اور اگر کسی دوسرے پتھر سے اس پر چوٹ لگائی جائے تو وہ
چٹخ جاتا ہے لیکن چیختا نہیں۔ یہ پتھر تو چٹخ گیا لیکن چیخا نہیں۔ لیکن
دوسرا پتھر کیا کرے گا؟ ایسے خیالات پر ہم کو ہسنی آتی ہے لیکن قدیم زمانے
کے آدمی کے لئے یہ باتیں بالکل مضحکہ انگیز نہ تھیں۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ عام قاعدے کیسے بنائے اسی لئے زندگی میں اس کے لئے
بہت سی باتیں استثنائی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ کبھی دو پتھر یکساں نہیں ہوتے
اور اسی اس نے سوچا کہ ان کی صفات بھی الگ الگ ہوتی ہوں گی۔ جب وہ پتھر کی
کوئی نئی کدال بناتا تو اس کو بالکل پرانی کی طرح بناتا تاکہ وہ بھی پہلی
کدال کی طرح زمین کو کھود سکے۔
ہزاروں لاکھوں سال گزر گئے۔ پتھر کی ان مختلف قسموں کے ذریعے جو اس کے ہاتھ
آئی تھیں آدمی پتھروں کے بارے میں موٹی موٹی باتیں سمجھنے لگا۔ چونکہ سب
پتھر سخت ہوتے تھے اس لئے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ پتھر سخت ہوتا
ہے۔ چونکہ کبھی کسی پتھر نے بات نہیں کی تھی اس لئے وہ کہہ سکتا تھا کہ
پتھر بولتا نہیں ہے۔
اس طرح سائنس کے پہلے ذرات یعنی چیزوں کا نظریہ ظہور میں آیا۔
جب کاریگر یہ کہتا کہ چقماق پتھر سخت ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہر چقماق پتھر
سے ہوتا صرف اس سے نہیںجس کو وہ بناتا۔
اس لئے اس کو قدرت کے کچھ قوانین، کچھ قواعد سے واقفیت ہو گئی جو دنیا میں
تھے۔
”جاڑے کے بعد بہار آتی ہے”۔اس میں تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ یہ بالکل صاف
ہے کہ جاڑے کے بعد خزاں نہیں بہار آتی ہے لیکن موسموں کی تبدیلی یہ پہلی
دریافت تھی جو ہمارے اجداد نے کثیر مشاہدات کے بعد کی۔ لوگوں نے برسوں کا
شمار اس وقت کرنا شروع کیا جب وہ سمجھ گئے کہ جاڑا اور گرمی محض اتفاقیہ
نہیں آتے،کہ جاڑے کے بعد ہمیشہ بہار اور پھر گرمی اور خزاں کے موسم آتے
ہیں۔
مصریوں نے دریائے نیل کے سیلاب کے مشاہدات کر کے یہ دریافت کی۔ وہ ایک
سیلاب سے سے دوسرے سیلاب تک کے حساب سے نیا سال شمار کرتے تھے۔
بڑے مذہبی پیشوا دریا کی نگرانی کرتے تھے کیونکہ لوگوں کے خیال میں دریا
خدا تھا۔ اب تک مصری عبادت گاہوں کی دیواروں پر جو دریائے نیل کے کناروں پر
پھیلی ہوئی تھیں وہ خطوط بنے ہوئے ہیں جو مذہبی پیشوا پانی کی سطح کا نشان
بتانے کے لئے کھینچتے تھے۔
جولائی میں جب گرمی سے کھیتوں کی زمین چٹخ جاتی تھی، کسان بڑی بے چینی سے
انتظارکرتے تھے کہ کب دریائے نیل کا زرد، کیچڑ اور ریت سے بھرا پانی آبپاشی
کی نالیوں میں دوڑے گا۔ لیکن شاید اس سال پانی نہ آئے؟ اگر دیوتا لوگوں سے
ناراض ہو گئے اور ان کے کھیتوں کو پانی نہیں دیا تو کیا ہو گا؟
ہر طرف سے عبادت گاہوں میں تحفے اور بھینٹیں آتی تھیں۔ غریب کسان اس التجا
کے ساتھ پجاریوں کے پاس اپنے اناج کی آخری مٹھی تک لاتے تھے کہ وہ دیوتائوں
سے زیادہ سے زیادہ دعا کریں۔
پجاری روازنہ صبح سویر ے اٹھ کر دریا پر جاتے تھے تاکہ دیکھیں کہ دریا میں
پانی بڑھ رہا ہے یا نہیں۔
ہر شام کو وہ عبادت گاہ کی چیٹی چھت پر چڑھ کر ستاروں کو بغور دیکھتے تھے۔
یہی ستاروں بھرا آسمان ان کاکیلنڈر تھا۔
اور پھر ایک دن پجاری بڑے مقدس انداز میں اعلان کرتے: ”دیوتائوں نے تم پر
رحم فرمایا ہے۔ آج سے تین راتوں کے اندر تمہارے کھیتوں میں پانی آجائے گا۔”
آہستہ آہستہ، قدم بقدم لوگوں نے اس عجیب دنیا پر قابو حاصل کرنا شروع کیا
جس میں وہ رہتے تھے۔ یہ دنیا معلومات کی دنیا تھی، قصے کہانیوں اور جادو کی
دنیا نہ تھی۔ عبادت گاہوں کی چھتیں پہلی فلکیاتی رصدگاہیں تھیں۔ کمھار اور
لوہار کی دکانیں پہلی تجربہ گاہیں تھیں جن میں پہلے تجربات کئے جا رہے
تھے۔ لوگوں نے مشاہدہ کرنا، حساب لگانا اور نتائج اخذ کرنا سیکھ لیا تھا۔
اس قسم کی سائنس اور موجودہ سائنس کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ یہ
سائنس بہت کچھ جادو کی طرح تھی جس کا وہ ایک حصہ تھی۔ لوگ صرف ستاروں کا
مشاہدہ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ قسمت کا حال بھی ان کو دیکھ کر بتاتے تھے۔
آسمان وزمین کا مطالعہ کرتے وقت وہ آسمان وزمین کے دیوتائوں سے دعا کرتے
تھے۔ پھر بھی جہالت کا گہرا غبار دور ہوناشروع ہو گیا تھا۔
اولمپس کی طرف دیوتائوں کی پسپائی
جادو کی دنیا کے غبار سے چیزوں کے اصل خدو خال رفتہ رفتہ آدمی کے سامنے
نمایاں ہونے لگے۔
قدیم زمانے کے آدمی کا خیال تھا کہ ہر جگہ روحیں ہیں۔ ہر پتھر، ہر پیٹر اور
ہر جانور میں۔
لیکن وقت کے ساتھ یہ عقیدہ بھی غائب ہو گیا۔
اب آدمی یہ نہیں سمجھتاتھا کہ ہر جانور کے اندر کوئی روح بیٹھی ہوئی ہے اب
آدمی کے تصور میںگھنی جھاڑیوں میں رہنے والے جنگل کے دیوتا نے ان تمام
جانوروں کی روحوں کی جگہ لے لی۔
اب کسان کا یہ خیال نہیںرہا کہ گیہوں کی ہر بالی میں کوئی روح ہوتی ہے۔ اس
کے ذہن میں اناج سے متعلق تمام روحیں اب زرخیزی کی دیوی میں، جو ہر چیز کی
نشوونما کرتی تھی، متحدو ومجتمع ہو گئیں۔
ان دیوتائوں نے پرانی روحوں کی جگہ لے لی۔ ہو اب معمولی فانی مخلوقوں کے
ساتھ نہیں رہتی تھیں۔ معلومات نے اب ان کو آدمی کی رہائش گاہوں سے دور کرنا
شروع کر دیا۔ اس طرح ان کو ایسی جگہیں تلاش کرنی پڑیں۔ جہاں آدمی کبھی
نہیں جاتا تھا یعنی تاریک،مقدس گپھائیں یا درختوں سے ڈھکی ہوئی پہاڑی
چوٹیاں۔
لیکن وقت آنے پر آدمی وہاں بھی پہنچ گیا۔ علم نے تاریک جنگلوں کو روشن کر
دیا، اس نے اس دھند کو دور کر دیا جو پہاڑی ڈھلانوں پر پھیلا تھا۔
اس طرح دیوتائوں کو پھر ایک بار اپنی نئی رہائش گاہ چھوڑنی پڑی۔ اب وہ
آسمانوں پر پرواز کر گئے، سمندر کی گہرائیوں میں اتر گئے اور زمین کی سطح
کے نیچے اندھیرے پاتال میں غائب ہو گئے۔
اب زمین پر دیوتائوں کا آنا کم سے کمتر ہوتا گیا۔ نسلاً بعد نسلاً وہ
داستانیں منتقل ہونے لگیں جن میں دیوتا کسی جنگ یا قلعہ کے محاصرے میں حصہ
لینے کے لئے آسمان سے اترتے تھے۔
تلواروں اور نیزوں سے مسلح دیوتا فانی انسان کے جھگڑوں میں حصہ لیتے تھے۔
کسی فیصلہ کن لمحے میں وہ سردار کو گہرے بادل میں چھپا دیتے تھے اور دشمن
کو بجلی گرا کر قتل کر دیتے تھے۔ لیکن کہانی کہنے والا تم کو بتائے گا کہ
یہ سب باتیں بہت بہت زمانہ گزرے ہوئی تھیں۔
اس طرح انسان کا تجربہ بڑھتا گیا، روشن حلقے کو وسیع کرتا گیا اور دیوتائوں
کو اور زیادہ دور تک پسپا کرتا گیا، حال سے ماضی میں، اس دنیا سے اس پار
کی دنیا میں۔
اب تو دیوتائوں سے واسطہ رکھنا مشکل ہو گیا۔ پہلے ہر شخص معجزے دکھا سکتا
تھا اور جادو سے بھرے رسوم ادا کر سکتا تھا۔ یہ رسوم بجائے خود سیدھے سادے
تھے۔مثلاً بارش کے لئے منہ میں ایک گھونٹ پانی بھر کر ایک مخصوص ناچ کے
دوران میں اس کو چاروں طرف چھڑکنا ہوتا تھا۔ بادلوں کو منتشر کرنے کے لئے
آدمی کو چھت پر چڑھ کر ہوا کی نقل کرتے ہوئے پھونکیں مارنا پڑتی تھیں۔
ہم جانتے ہیںکہ نہ تو اس طرح بارش ہو سکتی ہے اور نہ بادل چھٹ سکتے ہیں۔
اور آدمی اس نتیجے پر پہنچا کہ دیوتا اس کی دعائوں کی طرف توجہ نہیں کر رہے
ہیں۔ اس طرح مذہبی پیشوا عام لوگوں اور دیوتائوں کے درمیان آیا کیونکہ وہ
تمام پیچیدہ مذہبی رسوم اور دیوتائوں کی تمام پراسرار داستانوں کے بارے میں
جانتا تھا۔
پہلے جادو گر صرف کسی شکار کے ناچ کا ڈائر کٹر ہوتا تھا۔ وہ اپنے ساتھی
قبائلیوں سے زیادہ روحوں کے قریب نہیں ہوتا تھا۔
لیکن اب پجاری اس سے بالکل مختلف تھا۔ وہ ایک مقدس گپھا میں دیوتائوں کے
قریب رہتا تھا۔ وہ عباد گاہ کی چھت پر چڑھ کر ستاروں کی کتاب سے دیوتائوں
کی مرضی پڑھ لیتا تھا۔ صرف وہی یہ کتاب پڑھ سکتا تھا۔ وہ قربانی دئے ہوئے
جانور کی انتٹریاں ہی دیکھ کر یہ بتا دیتا تھا کہ کسی جنگ کا انجام فتح ہو
گا یا شکست۔ پجاری لوگوں اور دیوتائوں کے درمیان بچوانی بن گیا۔
لیکن دیوتا عام آدمیوں سے دور ہی ہٹتے گئے۔ وہ زمانے گزر چکے تھے جب دیوتا
سب آدمیوں کو برابر سمجھتے تھے۔ اب لوگ اپنے کو دیکھتے او راپنے ماحول کو
اور یہ سمجھ لیتے کہ مساوات والی پہلی حالت اب ختم ہو چکی ہے۔ پجاریوں نے
کہا ”ہونا یہ چاہئے کہ آدمی ہر چیز دیوتائوں پر چھوڑ دے۔ دیوتا اسی طرح
دنیا پر حکومت کرتے ہیں جس طرح بادشاہ اور سردار لوگوں پر۔” لیکن لوگوں نے ا
ن پجاریوں کی باتیں سر جھکا کر نہیں سنیں۔ ایسے لوگ بھی تھے جو دیوتائوں
کی مرضی کے سامنے نہیںجھکنا چاہتے تھے۔
وقت آیا جب ایک یونانی شاعر نے پوچھا کہ دیوتا زیوس(Zeus) کا انصاف کہاں ہے
جب نیک لوگ مصیبتوں میں مبتلا ہیں اور گندگار خوش حال ہیں، جب بچوں کو
اپنے والدین کے گناہوں کی سزا ملتی ہے۔ اس نے کہا کہ اب یہی کرنا چاہئے کہ
امید کی دیوی کی عبادت کی جائے۔ وہی صرف ایسی دیوی ہے جو لوگوں کے درمیان
رہتی ہے اور باقی دیوتا تو اولمپس چلے گئے ہیں۔
علم وشعور میں وسعت
قدیم زمانے کے آدمی کو سچ اور قصے، علم اور وہم کے درمیان فرق ہی نہیں
معلوم تھا۔
وہم کو علم سے الگ ہونے میں لاکھوں سال لگ گئے۔ ان گیتوں او رپرانی رزمیہ
نظموں میں جو ہم تک آئے ہیں مختلف قبیلوں اور سرداروں کی تاریخ کو دیوتائوں
اور ہیروئوں کے قصوں سے، صحیح جغرافیائی معلوما ت کو مصنوعی جغرافیہ سے،
ستاروں کے بارے میں پہلی معلومات کو قدیم داستانوں سے الگ کرنا مشکل ہے۔
یونانیوں نے ہم کو ”ایلیڈ” اور ”اوڈیسی” جیسی قدیم رزمیہ نظمیں دی ہیں جن
میں ان کے بہت ہی قدیم گیت اور داستانیں ہیں۔ یہ داستانیں شہر ٹرائے کے
محاصرے اور اس کی شکست سے (جس پر یونانی فوج نے قبضہ کر لیا تھا) اور ایک
یونانی سردار اوڈیسیس (اولیسیس) کے ان سفروں سے تعلق رکھتی ہیں جو اس نے
غیر ملکوں اور سمندروں کے کئے یہاں تک کہ آخر کار وہ اپنے دیس ایتھا کا
واپس آیا۔شہر ٹرائے کی دیواروں کے نیچے دیوتا فانی انسانوں کے شانہ بشانہ
لڑے۔ کچھ دیوتا حملہ آوروں کی طرف تھے اور کچھ محصور لوگوں کے ساتھ۔اگر
دیوتائوں کا کوئی محبوب بندہ خطرے میں ہوتا تو وہ اسے جھپٹ لیتے اور سلامتی
کی جگہ پہنچا دیتے۔ اولمپس پر جشن کے دوران میں وہ یہ بحث کرتے کہ آیا جنگ
کو جاری رکھا جائے یا جنگ کرنے والے فریقین میں صلح کرا دی جائے۔
ان داستانوں میں سچ اور جھوٹ گڈ مڈ ہیں۔ لیکن داستان کہاں ختم ہوتی ہے اور
سچا واقعہ کہاں شروع ہوتا ہے؟ کیا یونانیوں نے کبھی ٹرائے کے شہر کا محاصرہ
کیا تھا؟ اورکیا شہر ٹرائے کا واقعی کاکوئی وجود تھا؟
علما اس پر برسوں تک بحث کرتے رہے یہاں تک کہ ایک ماہر آثار قدیمہ کے
پھائوڑے نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ ایلیڈ” میں جو نشانات بتائے گئے ہیں ان کے
مطابق ماہرین آثار قدیمہ نے ایشیائے کو چک جا کر کھدائی کی اور وہاں ٹرائے
کے کھنڈرات پائے۔
”اوڈیسی” میں بھی سچی باتیں تھیں۔ یہ بات جغرافیہ دانوں نے ثابت کی جنہوں
نے نقشے کے ذریعے اوڈیسیس کے سفروں کا جائزہ لیا۔ اگر تم نقشہ دیکھو تو تم
کو لوٹس ایٹرس Lotus-eaters کا ملک، جزائر ایئولس، حتی کہ سیلا اور کا
ریبڈیس بھی ملیں گے جہاں ان دونوں کے درمیان سے گزرتے وقت اوڈیسیس کے جہاز
کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
لوٹس ایٹرس کا ملک درحقیقت افریقہ میں ٹریپولی کا ساحل ہے اور جزائر ایئولس
اٹلی میں وہ جزیرے ہیں جن کو ہم لیپاری کہتے ہیں اور سیلا اور کاریبڈیس
سیسلی اور اٹلی کے درمیان کی آبنائے ہے۔
”اوڈیسی” میں سچی باتیں تو ہیں لیکن اگر تم قدیم دنیا کی جغرافیہ کا مطالعہ
”اوڈیسی” کے ذریعے کرنا چاہو تو یہ زبردست غلطی ہو گی۔
مہموں اور سفر کے کارناموں سے بھر پور اس پہلی کتاب میں جغرافیہ کو ناقابل
یقین داستانی لباس پہنایا گیا ہے۔ پہاڑوں کو عفریتوں میں تبدیل کر دیاگیا
ہے اور جزائر کے وحشی باشندے ایک آنکھ والے آدم خور دیو بن گئے ہیں۔
لوگ اس زمانے میں صرف اپنے اطراف سے واقف ہوتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ سوداگر
جہازوں میں سمندروں کے پار سفر کرتے تھے۔ لیکن وہ بھی ساحل سے زیادہ دور
جانے کی جرأت نہیں کرتے تھے کیونکہ کھلے سمندر میں سفر کرنا بہت ہی ہولناک
تھا۔ اس زمانے میں نہ تو قطب نما تھے اور نہ نقشے۔ جہازراں اپنا راستہ
بھولتے بھٹکتے اور اس کو سورج اور ستاروں کے ذریعے معلوم کرتے تھے۔ ساحل پر
کوئی اونچی پہاڑی یا لمبادرخت ہی ان کا مینار روشنی ہوتا تھا۔
سمندر ہزاروں خطروں سے بھرا پڑا تھا۔ چوڑے، چپٹے، پیندے والے جہاز ہلکی سی
ہوا سے بھی لہروں پر جھولنے لگتے تھے اور بادبانوں کو قابو میں رکھنا بھی
مشکل ہوتا تھا۔ ہوا آدمی کی فرماں برداری نہیں کرتی تھی اور اس کے جہازوں
سے اس طرح کھیلتی تھی جیسے وہ لہروں پر تنکے ہوں۔
لیکن آخر کار جہاز ساحل پر پہنچ جاتا۔ تھکے ہارے ملاح اس کو کھینچ کر کنارے
تک لاتے۔ یہاں خشک زمین پر وہ بالآخر آرام کرتے۔لیکن وہ بے چین رہتے
کیونکہ جس ملک کو وہ پہنچتے وہ اجنبی ہوتا اور سمندر سے بھی زیادہ ڈرائونا
لگتا۔ ملاحوں کویہ خیال ستاتا رہتا کہ اب آدم خور ان پر ٹوٹ پڑنے والے ہیں
کیونکہ انہوں نے دوسرے ملاحوں سے ان وحشیوں کے قصے سن رکھے تھے۔ ہر نیا
عجیب جانور ان کی خوفزدہ آنکھوں کے لئے ڈرائونا دیو بن جاتا۔ وہ خشکی پر
زیادہ دور اندر تک جانے کی جرأت نہ کرتے۔
پھر بھی ہر نیا سفر آدمی کی معلومات میں اضافہ کرتا رہا۔ نا معلوم کی
سرحدیں، دیووں اور پریوں کے قصوں کی سرحدیں دور پیچھے ہٹتی گئیں۔ بہت ہی
جری ملاح سمندر کے پھاٹکوں تک جانے جہاں سے بحرذخار شروع ہو جاتا تھا۔ وہ
خیال کرتے تھے کہ یہ بحرذخار سارے عالم کی طرح بے کنار ہے۔ جب وہ وطن لوٹتے
تو اپنے دوستوں سے بتاتے کہ وہ دنیا کے سرے تک گئے تھے اور خشکی ہر طرف سے
بحروں سے گھری ہے۔
ہزاروں سال بعد لوگ یورپ سے ہندستان کا اور چین سے یورپ کا سفر کرنے لگے۔
ملاحوں نے سمندر پار کیا تھا۔ اور دوسری طرف ان کو خشکی ملی تھی جہاں
آدمیوں کی آبادی تھی۔ لیکن زمین کی سائنس میں مدتوں تک دیووں اور پریوں کے
قصے برقرار رہے۔
امریکہ دریافت کرنے والا کرسٹوفر کولمبس واقعی یہ یقین کرتا تھا کہ دنیا
میں کہیں ایسا بہت اونچا پہاڑ ضرور ہے جس پر جنت واقع ہے۔ا س نے ملکہ اسپین
تک کو لکھا کہ اس کو اس جنت کے قریب تک پہنچنے کی امید ہے اور وہ اس کے
حالات کی کھوج کرے گا۔
ابھی پندرھویں صدی تک روس کے یورپی حصے کے لوگوں کا پختہ عقیدہ یہ تھا کہ
اورال کے پہاڑوں کے اس پار جو لوگ رہتے ہیں وہ ریچھوں کی طرح جاڑوں میں
نیند کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ ہم کو ایک پرانا نسخہ ملا ہے۔ اس کا
نام ہے ”مشرقی ملک کے نامعلوم لوگ”۔ اس قلمی نسخے میں بڑی تفصیل کے ساتھ
ایسے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے جن کے منہ سروں کے اوپر ہوتے تھے
اورایسے بے سر لوگ جن کی آنکھیں سینوں پر ہوتی تھیں۔
یہ سب ہم کو بہت ہی مضحکہ انگیز معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اب بھی سائنسی قصے
کہانیاں لکھنے والے اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ فضائے کائنات میں واقع
انجانی دنیائوں کے رہنے والے خوفناک عفریت ہیں۔
سطح زمین کا مطالعہ کافی وسیع پیمانے پر کیا جا چکا ہے۔ اسی لئے ان مصنفوں
نے اپنی کرداروں کو زمین کے مرکز، سیارہ مریخ اور چاند کو روانہ کیا ہے۔
پہلے گائک
ہر صدی کے سات پراسرار باتیں، زندگی کے بارے میں اجنبی اور انجانے واقعات
کم ہوتے گئے۔ کاریگروں کو اپنے اوپر زیادہ اعتماد ہوتا گیا اور دیوتائوں کی
پوجا اور عبادت میں کمی ہوتی گئی۔ روز مرہ کی زندگی سے جادو ٹونے کے رسوم
اسی طرح غائب ہو تے گئے جیسے سورج نکلنے پر کہرا غائب ہو جاتا ہے۔
مختلف قسم کے رسوم، مذہبی کھیلوں، ناچوں اور گیتوں میں جادو اچھی طرح سمایا
ہو اتھا لیکن آدمی کے جاگتے ہوئے دماغ نے اس کو یہاں سے، خود جادو کے گھر
سے نکالنا اور بھگانا شروع کر دیا۔
جادو ٹونے والے رسوم، ناچوں اور گیتوں سے جادو تیزی سے غائب ہوتا جا رہا
تھا اور صرف گیت اور ناچ باقی رہ گئے تھے۔
جب یونان کے لوگ ڈیونیسس (شراب کے دیوتا باخوس) کا جشن مناتے تھے جو ان کو
انگور دیتا تھا تو اس میں پہلے مقدس جادو والے کھیل ہوتے تھے۔ ان میں جو
کورس گایا جاتا تھا۔ وہ باخوس کی موت، اس کے نئے جنم اور اس بارے میں ہوتا
تھا کہ باخوس قدرت کو جاڑوں میں مردوں جیسی نیند سے پھر بیدار ہونے میں،
لوگوں کو اناج، پھل اور شراب دینے میں مدد دے۔
اس جشن کے دوران میں سوانگ کرنے والے لوگ جانوروں کا روپ دھارتے تھے اور
گائوں کی قربانگاہ کے گرد ناچتے تھے۔
قدیم جادو کے کھیل کچھ ڈرامہ سے ملتے جلتے ہوتے تھے۔ ہمیں سوانگ بھرنے
والوں اور پہلے گانے والوں میں مستقبل کے ایکٹروں کی جھلک ملتی ہے۔ پہلا
گائک صرف دیوتا کی مصیبتوں ہی کا ذکر نہیں کرتا بلکہ اس کی تصویر کشی بھی
کرتا ہے۔ وہ اپنی چھاتی پیٹتا ہے اور دعا کے لئے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف
اٹھاتا ہے۔ جب باخوش پھر جنم لیتا تھا تو سوانگ بھرنے والے خوش نظر آتے
تھے، وہ ایک کو چھیڑتے اور ہنسی مذاق کرتے۔
صدیوں بعد جادو کی رسم سے جادو غائب ہو گیا۔ لیکن رسم اب بھی باقی تھی۔
پہلے کی طرح اب بھی لوگ ڈرامہ کرتے تھے، ناچتے اور گاتے تھے۔ لیکن اب وہ
دیوتائوں کی مصیبتوں کی تصویر کشی نہیں کرتے تھے۔ وہ فانی ہستیوں کی
مصیبتوں کو دکھاتے تھے۔ ان کی ادا کاری کو دیکھ کر لوگ ہنستے اور روتے تھے،
ہمت اور بہادرانہ کارناموں کی داد دیتے تھے۔ اور حماقتوں اور بدھوپن پر
ہنستے تھے۔
اس طرح قدیم کورس کا پہلا گائک المیے کا ادا کار بن گیا اور زندہ دل سوانگ
بھرنے والے کامیڈی اور ہنسی مذاق کے ادا کار ہوگئے۔
لیکن پہلا گائک صرف پہلا ایکٹر ہی نہ تھا۔ وہ خاص گائک بھی ہوتا تھا۔ شروع
میں وہ سب کے ساتھ کورس گاتا تھا۔ پھر وہ اکیلا گانے لگتا تھا۔
وقت آنے پر گیت کو مذہبی رسوم سے الگ کر لیا گیا، گائک مقدس کھیلوں، سردار
اور سپاہیوں کی دعوتوں میں گانے لگا۔ گائک گاتا، اپنی بانسری بجاتا اور
کبھی کبھی ناچتا بھی اور پرانے رواج کے مطابق الفاظ، موسیقی اور ادا کاری
کو ملا کر ہم آہنگی پیدا کرتا۔ وہ پہلا گائک اور کورس گانے والا دونوں ہو
گیا۔ وہ گیت بھی گاتا اور ٹیپ کے بول بھی۔
لیکن وہ کس کی بابت گاتا تھا؟ وہ دیوتائوں اور ہیروئوں کے بارے میں، اپنے
قبیلے کے سرداروں کے متعلق گاتا تھا جنہوں نے بہادر سے بہادر آدمیوں کو مار
بھگایا۔ وہ جنگ میں کام آنے والے سور مائوں کے بارے میں، ان بھائیوں کے
بارے میں گاتا تھا جن کا بدلہ لینا تھا۔
یہ گیت نہ تو جادو ہوتا تھا اور نہ دعا۔ یہ جری کارناموں کی کہانی ہوتی تھی
جو دراصل مزید بہادری کے لئے للکارتی تھی۔
اور محنت، بہار اور غم اورنج کے بارے میں گیتوں کی بابت کیا کہا جا سکتا
تھا! وہ کہاں سے آئے تھے؟ وہ بھی کسی زمانے میں ان رسموں کا حصہ تھے جو
شادی اور موت کے موقعوں پر، فصل کی کٹائی اور انگوروں کی چنائی کے وقت گائے
جاتے تھے۔ کورس باری باری چھوٹے چھوٹے گیت گاتے تھے۔
چرخہ کاتنے والی کمسن لڑکی ان گیتوں کو گاتی او ر ماں بچے کی لوریوں میں ان
کو گاتی۔
آج بہار کے گیت صرف بہار ہی میں یا محبت کے گیت صرف شادی کے موقع پرہی نہیں
گائے جاتے۔
ہیروئوں اور محبت کے گیت سب سے پہلے کس نے بنائے؟
ہمیں اس کا جواب نہیں معلوم جیسے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ دراصل کس نے سب سے
پہلے تلوار یا سب سے پہلا چرخا بنایا تھا۔ ایک شخص نے نہیں بلکہ سیکڑوں
نسلوں نے ہمارے اوزار، گیت اور الفاظ بنائے ہیں۔ گائک اپنے گیت نہیں بناتا
تھا، وہ صرف ایسے گیت دوسروں تک منتقل کر دیتا تھا جو اس نے پہلے سنے تھے۔
لیکن ایک گائک سے دوسرے گائک تک منتقلی کے دوران میں گیت بڑھتے اور بدلتے
تھے۔ جس طرح چشموں سے سیراب ہو کر دریا پیدا ہوتا ہے اسی طرح ان ابتدائی
گیتوں سے بڑی بڑی رزمیہ نظمیں پیدا ہوئیں۔
ہم کہتے ہیں کہ مشہور یونانی نظم ”ایلیڈ” کی تخلیق ہے۔ لیکن ہومر کون
تھا؟ہم اس کے بارے میں صرف داستانوں کے ذریعے جانتے ہیں اور ہومر بھی اتنی
ہی داستانی ہستی ہے جتنے وہ ہیرو جن کے گن ہو مر نے گائے ہیں۔
جب بہادر ہیروئوں کے بارے میں پہلے گیت بنائے گئے تو گائک اس وقت اپنے جرگے
اور قبیلے سے مضبوطی کے ساتھ منسلک تھا۔ اس وقت لوگ ہر کام ساتھ مل کر
کرتے تھے اور گیت بھی نسلوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوتے تھے۔
گائک اپنے کو گیت کار نہیں سمجھتا تھا چاہے وہ پچھلی نسلوں سے ملنے والے
گیت میں کوئی تبدیلی کر کے اس کو بہتر ہی کیوں نہ بنائے۔
لیکن جب آدمی نے ”میرے” اور ”تیرے” کی تفریق شروع کی تب جرگے ایک دوسرے سے
الگ ہو گئے اور پہلا جیسا اتحاد نہ رہا۔ اب کاریگر اپنے لئے کام کرنے لگے۔
اب وہ یہ نہیں سمجھتے تھے۔ کہ وہ جرگے کی مرضی پوری کرنے کا ذریعہ تھے۔
رفتہ رفتہ آدمی نے ”میں” کا لفظ اکثر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ وہ زمانہ
بہت دن ہوئے گزر چکا تھا جب وہ یقین کرتا تھا کہ وہ خود نہیں کام کر رہا ہے
بلکہ اس کے ذریعے کوئی اور کار فرما ہے۔ یہاں گائک فنون لطیفہ کی دیوی کا
ذکر کرتا تھا جس نے اس میں گیت کے لئے ولولہ پیدا کیا۔ وہ کہتا تھا۔ کہ
”گیت کا عطیہ” اسے دوتائوں سے ملا ہے لیکن وہ اپنے بارے میں بھی کہنا نہیں
بھولتا تھا۔